استعانۃ بالصبروالصلوۃ کے عجیب معانی کابیان
{یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ اِنَّ اللہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ}(۱۵۳)
ترجمہ کنزالایمان:اے ایمان والو صبر اور نماز سے مدد چاہو بیشک اللہ صابروں کے ساتھ ہے۔
ترجمہ ضیاء الایمان: اے ایمان والو! صبراورنماز سے مددمانگوبے شک اللہ تعالی صبرکرنے والوں کے ساتھ ہے ۔
شان نزول
قال قتادۃ: احتجوا علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی انصرافہ إلی الکعبۃ:(وقالوا: سیرجع محمد) إلی دیننا کما رجع إلی قبلتنا، فأمرہم اللہ تعالی أن یستعینوا بالصبر۔
ترجمہ :حضرت سیدناقتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب یہوداورمشرکین نے رسول اللہ ﷺکے ساتھ حجت بازی کی کعبہ مشرفہ کے قبلہ بننے کے معاملے میں اورکفارنے یہ بھی کہاکہ اب محمدﷺہمارے دین کی طرف لوٹ آئیں گے تواللہ تعالی نے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکوصبرکرنے کاحکم دیاکہ آپ ﷺنماز اور صبرسے مددمانگیں۔
(الہدایۃ إلی بلوغ النہایۃ :أبو محمد مکی بن أبی طالب حَمّوش بن محمد بن مختار القیسی القیروانی (۱:۵۱۴)
اس سے معلوم ہواکہ تحویل قبلہ پرجویہوداورمشرکین کی جانب سے اعتراض تھااس کے دواثرتھے ، ایک مذہب اسلام پر کہ ان کے اعتراض سے مذہب کی حقانیت میں شبہ پیداہوجایاکرتاتھا ۔ پچھلی آیات مبارکہ میں اس اعتراض کاجواب دے کراس اثرکو دورکرنامقصود تھااوردوسرااثرجو اہل اسلام کی طبیعت پر ہواوہ یہ کہ اعتراض کاجواب دینے کے بعدبھی اس پر بے جااصرارکرنے سے دل پر رنج اورصدمہ پیداہوتاہے ۔ اللہ تعالی نے اس آیت کریمہ میں اس غم کو دورکرنے کے لئے یہ نسخہ عطافرمایاکہ آپ نماز اداکریں اورصبرکریں تاکہ آپ کایہ غم بھی دورہوجائے۔
ہرحال میں رجوع الی اللہ کاحکم
ہرنیک عمل کااجرمقررہے مگر صبرکااجربے حساب ہے ، پس اگرنفس پر احکامات شرعیہ شاق اورگراں ہوں توان کے آسان ہونے کاایک علاج توصبرہے اوردوسراعلاج نماز ہے ، اس لئے کہ نماز ایک تریاق مجرب ہے جوذکروشکراورخشوع وخضوع اوراس قسم کے مختلف اجزاء سے مرکب ہے ، جوہربیماری اورہر مشکل کاعلاج ہے جیسے بارش کے لئے نماز استسقاء ہے اورسورج گرہن کے لئے نماز ہے ، چاندگرہن کے لئے نماز ، قضائے حاجت کے لئے نماز ہے ، استخارہ کے لئے نماز ہے ، غم وپریشانی کے لئے نماز ہے ۔ اوراسی طرح مشکل حالات میں انبیاء کرام علیہم السلام سے نمازیں اداکرناثابت ہے اوراسی طرح جب کوئی نعمت ملے تو اس پر شکرکرنے کے لئے بھی نماز کی تلقین کی گئی ۔ غرضیکہ نماز ام العبادات ہے اوردین کاستون ہے اوربندہ مومن کے لئے معراج روحانی کادرجہ رکھتی ہے ۔
پریشانی اوررجوع الی اللہ
عَنْ حُذَیْفَۃَ، قَالَ: کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا حَزَبَہُ أَمْرٌ، صَلَّی۔
ترجمہ :حضرت سیدناحذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکو جب بھی کوئی پریشانی لاحق ہوتی توآپ ﷺنماز اداکیاکرتے تھے ۔
(سنن أبی داود:أبو داود سلیمان بن الأشعث بن إسحاق بن بشیر بن شداد بن عمرو الأزدی السَِّجِسْتانی (۲:۳۵)
حضرت سیدناعبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو غشی کادورہونا
عَنِ الزُّہْرِیِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِی إِبْرَاہِیمُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، أَنَّہُ غُشِیَ عَلَی عَبْدِ الرَّحْمَنِ فِی مَرَضِہِ غَشْیَۃً ظَنُّوا أَنَّ بِہَا قَدْ فَاضَتْ نَفْسُہُ فِیہَا، حَتَّی قَامُوا مِنْ عِنْدِہِ وَجَلَّلُوہُ ثَوْبًا، وَخَرَجَتْ أُمُّ کُلْثُومٍ بِنْتُ عُقْبَۃَ امْرَأَتُہُ إِلَی الْمَسْجِدِ تِسْعِینَ بِمَا أُمِرَتْ أَنْ تَسْتَعِینَ بِہِ مِنَ الصَّبْرِ وَالصَّلَاۃِ ۔
ترجمہ:حضرت سیدناعبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ پردرد کی وجہ سے غشی طاری ہوگئی ، لوگوں نے گمان کیاکہ آپ رضی اللہ عنہ وفات پاگئے ہیں حتی کہ لوگ ان کے پاس سے اٹھ گئے اورلوگوں نے آپ رضی اللہ عنہ پر کپڑااڑھادیا، ان کی زوجہ محترمہ حضرت ام کلثوم بنت عقبہ رضی اللہ عنہااٹھیں اورمسجد شریف چلی گئیں ، صبراورنماز سے جو مددطلب کرنے کاحکم دیاگیااس سے مددطلب کرنے لگیں ، لوگ کچھ دیررکے رہے جبکہ آپ رضی اللہ عنہ غشی میں تھے پھرانہیں افاقہ ہوگیا۔
(تعظیم قدر الصلاۃ:أبو عبد اللہ محمد بن نصر بن الحجاج المَرْوَزِی (ا:۲۲۳)
حضرت سیدناابراہیم علیہ السلام کاعمل مبارک
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیرِینَ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:فَأَرْسَلَ إِلَیْہَا فَأُتِیَ بِہَا فَقَامَ إِبْرَاہِیمُ عَلَیْہِ السَّلَامُ إِلَی الصَّلَاۃِ۔
ترجمہ:حضرت سیدناابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا: جب ظالم بادشاہ نے حضرت سیدہ سارہ رضی اللہ عنہماکو پکڑوایاتو حضرت سیدناابراہیم علیہ السلام نے نماز پڑھناشروع کردی ۔
(صحیح مسلم :مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشیری النیسابوری (۴:۱۸۴۰)
حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماکاعمل مبارک
ما روی أنَّ عبد اللَّہ بن عباس نُعِیَ لہ أخوہ قُثَمُ وہو فی سفر، فاسترجع، وتنحی عن الطریق، وصلی، ثم انصرف إلی راحلتہ، وہو یقرأُ: وَاسْتَعِینُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلاۃِ۔
ترجمہ:حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے مروی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ سفرمیں تھے کہ کسی نے اطلاع دی کہ آپ کے بھائی حضرت سیدناقثم بن عباس رضی اللہ عنہ وفات پاگئے ہیں توآپ رضی اللہ عنہ نے فوراً اناللہ واناالیہ راجعون پڑھااورراستے سے ہٹ کرنماز شروع کردی، پھرواپس آئے اورسواری پر سوارہونے لگے تویہی آیت کریمہ کی تلاوت فرمارہے تھے ۔
(المحرر الوجیز فی تفسیر الکتاب العزیز:أبو محمد عبد الحق بن غالب بن عطیۃ الأندلسی المحاربی (۱:۱۳۷)
حضرت سیدناعبداللہ رضی اللہ عنہ کاشہزادی کی وفات پر رجوع الی اللہ
عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ تَعَالَی عَنْہُمَا، أَنَّہُ نَعَی إِلَیْہِ ابْنَۃً لَہُ وَہُوَ فِی السَّفَرِ فَاسْتَرْجَعَ ثُمَّ قَالَ: عَوْرَۃٌ سَتَرَہَا اللَّہُ وَمُؤْنَۃٌ کَفَاہَا اللَّہُ، وَأَجْرٌ قَدْ سَاقَہُ اللَّہُ إِلَیَّ.ثُمَّ نَزَلَ فَصَلَّی رَکْعَتَیْنِ ثُمَّ قَالَ: قَدْ صَنَعْنَا مَا أَمَرَنَا اللَّہُ تَعَالَی بِہِ.قَالَ: اسْتَعِینُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاۃِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماکو جب خبردی گئی کہ ان کی شہزادی وفات پاگئی ہے تواس وقت آپ رضی اللہ عنہ حالت سفرمیں تھے ، آپ رضی اللہ عنہ نے{اناللہ واناالیہ راجعون }پڑھنے کے بعد فرمایا، اللہ تعالی نے ایک قابل پردہ چیز کو ڈھانپ دیااورمیرے بوجھ کو ہلکاکیااورمجھے اجروثواب عطافرمایا، یہ کہنے کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہوکردورکعت نماز اداکی اورفرمایاکہ ہم نے اللہ تعالی کے حکم پر عمل کیا۔
(تنبیہ الغافلین:أبو اللیث نصر بن محمد بن أحمد بن إبراہیم السمرقندی :۲۵۹)
مقامات صبر
(۱)جہاد میں صبرکے ساتھ رہو
وَمِنْہُمْ مَنْ حَمَلَہُ عَلَی الْجِہَادِ لِأَنَّہُ تَعَالَی ذَکَرَ بَعْدَہُ: وَلا تَقُولُوا لِمَنْ یُقْتَلُ فِی سَبِیلِ اللَّہِ (الْبَقَرَۃِ:۱۵۴)وَأَیْضًا فَلِأَنَّہُ تَعَالَی أَمَرَ بِالتَّثَبُّتِ فِی الْجِہَادِ فَقَالَ:إِذا لَقِیتُمْ فِئَۃً فَاثْبُتُوا (الْأَنْفَالِ:۴۵)
ترجمہ:حضرت سیدناامام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ بعض اہل علم نے اس آیت کریمہ سے مراد جہاد لیاہے ، اس لئے کہ اس کے بعد اللہ تعالی نے ارشادفرمایا:{ وَلا تَقُولُوا لِمَنْ یُقْتَلُ فِی سَبِیلِ اللَّہِ} (الْبَقَرَۃِ:۱۵۴)اورانہیں تم مردہ نہ کہوجو اللہ تعالی کی راہ میں مارے جائیں۔ اوراللہ تعالی نے جہاد میں ثابت قدم رہنے کاحکم دیتے ہوئے فرمایا:{إِذا لَقِیتُمْ فِئَۃً فَاثْبُتُوا} (الْأَنْفَالِ:۴۵)اورجب کسی دشمن گروہ سے تمھاری مڈبھیڑہوتوثابت قدم رہو۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۴:۱۲۵)
اللہ تعالی نے صبرکی فضیلت میں یہ فرمایاکہ اللہ تعالی کے ساتھ صابرین کو معیت اورغیبی تقرب ہوتاہے اورصبرکااعلی موقع جہاد فی سبیل اللہ تھا،اس لئے کہ جان کے آگے مال یاکسی اورمنفعت کی کچھ وقعت نہیں ہے اوریہ مقولہ مشہورہے کہ ’’جان ہے توجہان ہے ‘‘پس جس قدرصبراللہ تعالی کی راہ میں جہاد کے دوران جان قربان کرنے میں ہے اس قدراورکسی چیز کے صرف کرنے میں نہیں ہے ۔ اورنیز اگلی آیات مبارک میں جہاد اورقتال فی سبیل اللہ کاحکم ہونے والاتھااسی لئے اس صبرکا مزید تاکیدکے ساتھ ذکرکرنامناسب ہوااورسب اجروں میں بڑااجریہ ہے کہ اس کے عوض بندے کو اللہ تعالی حیات ابدی عطاکرتا ہے ۔
(۲)دین پر اعتراض کرنے والوں کے خلاف ڈٹ جائو
یا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اسْتَعِینُوا بِالصَّبْرِ علی الذکر والشکر وسائر الطاعات من الصوم والجہاد وترک المبالاۃ بطعن المعاندین فی أمر القبلۃ وَالصَّلاۃِ التی ہی الأصل والموجب لکمال التقرب إلیہ تعالی.
ترجمہ :امام شہاب الدین محمود بن عبداللہ الحنفی الآلوسی المتوفی : ۱۲۷۰ھ) رحمہ اللہ تعالی اس آیت کریمہ کامعنی لکھتے ہیںکہ تم مددحاصل کروصبرسے یعنی اللہ تعالی کے ذکروشکراورتمام عبادات ، روزہ وجہاد پرڈٹے رہواورتحویل قبلہ کے متعلق یہودومشرکین کے اعتراضات کی پرواہ نہ کرو۔ اوریہی نماز تمھیں اللہ تعالی کے قریب کرنے والی ہے ۔
( روح المعانی: شہاب الدین محمود بن عبد اللہ الحسینی الألوسی (۱:۴۱۷)
(۳)حضورتاجدارختم نبوت ْﷺکی مددکرنے میں صبرسے کام لو
وَاسْتَعِینُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلاۃِ، أی استعینوا بالصبر علی أداء الفرائض وبکثرۃ الصلاۃ علی تمحیص الذنوب ویقال:استعینوا بالصبر علی نصرۃ محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔
ترجمہ:امام ابواللیث نصربن محمدبن احمدالسمرقندی المتوفی : ۳۷۳ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ کامطلب یہ ہے کہ تم اللہ تعالی کے فرائض اداکرنے پر صابررہواورنماز کی کثرت کے ساتھ گناہوں سے دوری اختیارکرو اوریہ بھی معنی بیان کیاگیاہے کہ تم حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی مددکرنے میں صبرکرتے رہویعنی کوئی بھی تکلیف آئے تم میرے حبیب کریم ﷺکی مددسے پیچھے نہ ہٹو۔
(بحر العلوم:أبو اللیث نصر بن محمد بن أحمد بن إبراہیم السمرقندی (۱:۴۹)
یہ معنی بہت شاندارہے کہ تم حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی مددکرنے میں صبرسے کام لو، یقیناآج جو بھی شخص حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی مددکرناچاہے وہ آپ ﷺکے دین متین کی مددکرے اورآپ ﷺکی عزت وناموس اورختم نبوت کے لئے کام کرے ۔ ہم اس قول کی تائیدمیں حضرت سیدناامام عبدالوہاب الشعرانی رضی اللہ عنہ کاقول نقل کرتے ہیں تاکہ بات مزید واضح ہوجائے۔
علماء کرام بھی انصارہیں
اخذعلیناالعہود ان الانبغض احداً من الانصارعَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: حُبُّ الْأَنْصَارِ إِیمَانٌ، وَبُغْضُہُمْ نِفَاقٌ۔(۱)وکیف ینبغی لمسلم ان یبغض من یحبہ رسول اللہ ﷺ؟ ماذلک الاالنفاق۔
واعلم !یااخی !انہ یلحق بانصار النبی ﷺوذریتہم فی المحبۃ کل من نصردین اللہ تعالی فی زمانناھذامن العلماء والمومنین فیحرم بعض ھوالآء وفی الحدیث، عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ، رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:إِذَا أَبْغَضَ الْمُسْلِمُونَ عُلَمَاء َہُمْ وَأَظْہَرُوا عِمَارَۃَ أَسْوَاقِہِمْ وَتَنَاکَحُوا عَلَی جَمْعِ الدَّرَاہِمِ رَمَاہُمُ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ بِأَرْبَعِ خِصَالٍ:بِالْقَحْطِ مِنَ الزَّمَانِ، وَالْجَوْرِ مِنَ السُّلْطَانِ، وَالْخِیَانَۃِ مِنْ ولَاۃِ الْأَحْکَامِ، وَالصَّوْلَۃِ مِنَ الْعَدُوِّ ۔(۲)
ترجمہ :حضرت سیدناامام عبدالوہاب الشعرانی المتوفی :۹۷۳ھ) رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ ہم سے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی طر ف سے یہ عہدلیاگیاہے کہ ہم حبیب کریم ﷺکے ساتھ انصارصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ محبت کریں اوران کے ساتھ بغض نہ رکھیں ، جیساکہ حضرت سیدناابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایاکہ میرے انصارصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ محبت رکھناایمان ہے جبکہ ان کے ساتھ بغض رکھنامنافقت ہے ۔ اورایساہوکیسے سکتاہے کہ کوئی مومن ان کے ساتھ بغض رکھے جن کے ساتھ حضورتاجدارختم نبوت ﷺمحبت رکھتے ہیں۔ یہ بات یقینی ہے کہ جس کے ساتھ حضورتاجدارختم نبوت ﷺمحبت رکھیں اوریہ بغض رکھے یہی تونفاق ہے ۔
اے میرے بھائی ! یہ بات یادرکھ انصارصحابہ کرام رضی اللہ عنہم اوران کے بچوں کے ساتھ ہر وہ شخص شامل ہے جو بھی ہمارے زمانے میں حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے دین کی مددکرتاہے ، خواہ وہ عالم ہویاکوئی عام مومن شخص ۔پس علماء کرام کے ساتھ بھی بغض رکھناحرام ہے جیساکہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے انصارصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ بغض رکھناحرام ہے اورعلماء کرام کے ساتھ بھی بغض رکھنامنافقت ہے جیساکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ بغض رکھنامنافقت ہے کیونکہ وہ بھی دین کے ہی مددگارتھے اوریہ علماء کرام بھی دین کے ہی مددگارہیں۔
حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا: جب مسلمان اپنے علماء کرام کے ساتھ بغض رکھنے لگ جائیں گے اوراپنے بازاروں کی عمارتیں بلندکرلیں ، مال جمع کرنے کے لئے نکاح کریں تواللہ تعالی ان میں چارچیزیں مسلط کردے گا(۱)زمانے کاقحط (۲) بادشاہ کاظلم (۳) حکومتی لوگوں کی خیانت (۴) دشمن کارعب ۔
(۱)فضائل الصحابۃ:أبو عبد اللہ أحمد بن محمد بن حنبل بن ہلال بن أسد الشیبانی (۲:۷۹۲)
(۲)المستدرک علی الصحیحین:أبو عبد اللہ الحاکم محمد بن عبد اللہ بن محمد بن حمدویہ بن نُعیم (۴:۲۶۱)
(البحرالمورود فی المواثیق والعہود از امام عبدالوہاب الشعرانی :۱۴۶) مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان
(۵)سارے دین پرعمل کرنے میں صبرسے کام لو
تَفْسِیر الحَسَن: اسْتَعِینُوا بِالصبرِ علی الدِّین کُلہ.
ترجمہ :حضرت سیدناامام ابوعبداللہ محمدبن عبداللہ ابن ابی زمنین المتوفی :۳۹۹ھ) رحمہ اللہ تعالی اس آیت کی تفسیرمیں حضرت سیدناامام حسن بصری رضی اللہ عنہ کاقول نقل کرتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں سارے دین پر عمل کرنے میں صبرکرنے کاحکم دیاگیاہے ۔
(تفسیر القرآن العزیز: أبو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ المعروف بابن أبی زَمَنِین المالکی ((۱:۱۳۷)
(۶)اللہ تعالی کے تمام احکامات پر عمل کرنے میں نماز سے مددمانگو
فالمعنی: استعینوا علی طاعۃ اللہ بالصبر والتسلیم لأمرہ فی جمیع ما یأمرکم بہ، واستعینوا علی ذلک أیضاً بالصلاۃ لأن بہا تتقربون إلی اللہ سبحانہ، فیجیب دعاء کم ویقضی حوائجکم.
ترجمہ:امام ابومحمدمکی بن ابی طالب حموش القیروانی المتوفی :۴۳۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ کامعنی یہ ہے کہ تم اللہ تعالی کے تمام احکامات میں جس جس چیز کابھی تمھیں حکم دے صبروتسلیم کے ساتھ اسے پوراکرنے پر مددمانگو، اوراس پر نماز سے مددمانگو، اس لئے کہ تم اسی کے ساتھ ہی اللہ تعالی کاقرب پاسکتے ہو، پھراللہ تعالی تمھاری دعائیں قبول فرمائے گااورتمھاری حاجات کوپوراکرے گا۔
(الہدایۃ إلی بلوغ النہایۃ :أبو محمد مکی بن أبی طالب حَمّوش بن محمد بن مختار القیسی القیروانی (۱:۵۱۴)
نیکی کرنے پراورگناہ سے رکنے پر صبر
وَالصَّبْرُ صَبْرَانِ، فَصَبْرٌ عَلَی تَرْکِ الْمَحَارِمِ وَالْمَآثِمِ وَصَبْرٌ عَلَی فِعْلِ الطَّاعَاتِ وَالْقُرُبَاتِ. وَالثَّانِی أَکْثَرُ ثَوَابًا لِأَنَّہُ الْمَقْصُودُکَمَا قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ: الصَّبْرُ فِی بَابَیْنِ، الصَّبْرُ لِلَّہِ بِمَا أَحَبَّ، وَإِنْ ثَقُلَ عَلَی الْأَنْفُسِ وَالْأَبْدَانِ، وَالصَّبْرُ لِلَّہِ عَمَّا کَرِہَ وَإِنْ نَازَعَتْ إِلَیْہِ الْأَہْوَاء ُ. فَمَنْ کَانَ ہَکَذَا، فَہُوَ مِنَ الصَّابِرِینَ الَّذِینَ یُسَلِّمُ عَلَیْہِمْ، إِنْ شَاء َ اللَّہُ.
ترجمہ :صبرکی دوقسمیں ہیں : حرام اورگناہ کے کاموں کو ترک کرنے پر صبرکرنااوراطاعت اورنیکی کے کاموں کے کرنے پر یہ صبرپہلے سے بھی بڑاہے ، تیسری قسم صبرکی : مصیبت ، دکھ اوردرد پر یہ بھی واجب ہے ۔ جیسے عیبوں سے استغفارکرناواجب ہے ۔
حضرت سیدناعبدالرحمن بن زید بن اسلم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی کی فرمانبرداری میں مستقل مزاجی کے ساتھ لگے رہناچاہئے ، انسان پر ان احکامات کو اپناناشاق گزرے ، طبیعت کے خلاف ہو، جی نہ چاہے یہ بھی ایک صبرہے ۔ دوسراصبراللہ تعالی کے منع کئے ہوئے کاموں سے رک جاناچاہے اس منہی عنہ کی طرف طبعی میلان ہو، خواہش نفس اکسارہی ہو۔
(تفسیر القرآن العظیم: أبو الفداء إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی البصری ثم الدمشقی(۱:۴۴۶)
رب تعالی کے احکامات پر عمل کرنے والوں کااجر
عَنْ عَلِیِّ بْنِ الْحُسَیْنِ قَالَ: إِذَا جَمَعَ اللَّہُ الأَوَّلِینَ وَالآخِرِینَ، یُنَادِی مُنَادٍ: أَیْنَ الصَّابِرُونَ، لِیَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ قَبْلَ الْحِسَابِ.قَالَ: فَیَقُومُ عُنُقٌ مِنَ النَّاسِ، فَتَلَقَّاہُمُ الْمَلائِکَۃُ فَیَقُولُونَ:إِلَی أَیْنَ یَا بَنِی آدَمَ؟ فَیَقُولُونَ: إِلَی الْجَنَّۃِ قَالُوا: وَقَبْلَ الْحِسَابِ؟قَالُوا نَعَمْ. قَالُوا: وَمَنْ أَنْتُمْ؟ قَالُوا: الصَّابِرُونَ قَالُوا: وَمَا کَانَ صَبْرُکُمْ؟ قَالُوا:صَبَرْنَا عَلَی طَاعَۃِ اللَّہِ، وَصَبَرْنَا عَنْ مَعْصِیَۃِ اللَّہِ، حَتَّی تَوَفَّانَا اللَّہُ. قَالُوا: أَنْتُمْ کَمَا قُلْتُمُ ادْخُلُوا الْجَنَّۃَ فَنِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِینَ.
ترجمہ :حضرت سیدناامام زین العابدین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن ایک منادی نداکرے گاکہ صبرکرنے والے کہاں ہیں؟ وہ بغیرحساب وکتاب کے جنت داخل ہوجائیں ۔ کچھ لوگ اٹھ کھڑے ہوں گے اورجنت کی طرف چلناشروع کردیں گے ۔ فرشتے انہیں دیکھ کر پوچھیں گے کہ کہاں جارہے ہو؟ وہ یہ کہیں گے کہ جنت میں ۔ وہ کہیں گے کہ ابھی توحساب بھی نہیں ہوا؟ وہ کہیں گے کہ ہاں حساب سے بھی پہلے ۔ پوچھیں گے کہ آخر آپ کون لوگ ہیں؟ جواب دیں گے کہ ہم صابرلوگ ہیں۔ اللہ تعالی کی فرمانبرداری کرتے رہے اوراس کی نافرمانی سے بچتے رہے ۔ مرتے دم تک اسی پر صبرکرتے رہے اورڈٹے رہے ۔ فرشتے کہیں گے کہ پھرتوٹھیک ہے ، بے شک تمھارایہی بدلہ ہے اوراسی لائق تم ہو، جائوجنت میں مزے کرو، اچھے کام کرنے والوں کااچھاہی انجام ہوتاہے۔
(تفسیر القرآن العظیم لابن أبی حاتم:أبو محمد عبد الرحمن ، الحنظلی، الرازی ابن أبی حاتم (ا:۲۶۱)
بہترین صبرکیاہے ؟
عَنْ أَبِی سِنَانٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ: الصَّبْرُ صَبْرَانِ، صَبْرٌ عِنْدَ الْمُصِیبَۃِ حَسَنٌ، وَأَحْسَنُ مِنْہُ الصَّبْرُ عَنْ مَحَارِمِ اللَّہِ.
ترجمہ:حضرت سیدناابوسنان رضی اللہ عنہ نے حضرت سیدناعمربن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت کیاکہ آپ رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ صبرکی دوقسمیں ہیں : مصیبت پر صبرکرنابھی حسن ہے لیکن اس سے بھی احسن صبریہ ہے کہ انسان اللہ تعالی کی حرام کردہ اشیاء سے صبرکرے۔
(تفسیر القرآن العظیم لابن أبی حاتم:أبو محمد عبد الرحمن بن محمد ، الرازی ابن أبی حاتم (ا:۱۰۲)
ایک اعتراض اوراس کاجواب
بعض بے دین لوگ یہ اعتراض کرتے ہیںکہ جب اللہ تعالی صبرکرنے والوں کے ساتھ ہے ، تواہل اسلام جہاد میں کیوں شہیدہوجاتے ہیں کیونکہ یہ لوگ تودنیاکی نعمتوں سے محروم ہوجاتے ہیں اورجو مارے نہیں جاتے ان پر بھی تکالیف آتی ہیں ۔ اس کاجواب اسی آیت کریمہ میں دیاگیاکہ جو راہ حق میں شہیدہوگئے وہ اصل زندگی پانے میں کامیاب ہوگئے اورایسی پرلطف اورمزیدارزندگی جسے ساری دنیاکے طاقتورلوگ مل کر بھی نہیں سمجھ سکتے اورجو تکالیف اٹھارہے ہیں وہ بھی رحمت واجراورہدایت کے خزانے جمع کررہے ہیں۔
صبرنہ کرنے والاشخص اللہ تعالی کے ساتھ لڑناچاہتاہے
وقال أبو مسعود البلخی من أصیب بمصیبۃ فمزق ثوباً أو ضرب صدراً فکأنما أخذ رمحاً یرید أن یقاتل بہ ربہ عز وجل۔
ترجمہ :حضرت سیدناابومسعودبلخی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جس شخص کو کوئی مصیبت پہنچے اوروہ اپنے کپڑے پھاڑے یاسینہ پیٹے توگویاکہ نیزہ لیکر اللہ تعالی کے ساتھ لڑنے کے لئے تیارہوگیا۔
(إحیاء علوم الدین: أبو حامد محمد بن محمد الغزالی الطوسی (۴:۱۳۳)
معارف ومسائل
(۱)اس سے معلوم ہوااگراہل اسلام کو دین پر عمل کرنے پرطعنے دئیے جائیں تو ان کو پریشان نہیں ہوناچاہئے ۔
(۲)یہ بھی معلوم ہواکہ جو شخص دین متین کی خدمت کررہاہے اگراس کو کوئی پریشانی آجائے تووہ بھی یہی نسخہ آزمائے۔
(۳) ہر حال میں رجوع الی اللہ کرناچاہئے تاکہ بندہ مومن تمام معاملات میں قرب الہی پاسکے۔
(۴) آجکل تودین پر عمل کرنے والوں کے لئے بہت زیادہ اس بات کی ضرورت ہے کہ وہ صبرسے کام لیں کیونکہ پہلے صرف کفارہی طعنے دینے والے تھے مگراب لبرل وبے دین اورسیکولرطبقہ جو خودکو مسلمان کہتے ہیں مگرہیں یہ بھی دین کے دشمن یہ بھی اہل دین پر سختیاں کرنے اوران کو طعنے دینے میں کسی ابوجہل وابولہب سے پیچھے نہیں ہیں۔
(۵) اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہواکہ جہاد میں بھی صبرکے ساتھ ڈٹے رہو، اس سے ان بے دینوں اورجہاد کے منکرین کارد بھی ہوگیاجو یہ کہتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے صرف اورصرف دفاعی جہاد کیاتھااقدامی کوئی بھی نہیں تھا۔ حلانکہ حبیب کریم ﷺنے دوجہاد دفاعی کئے ہیں ایک احد شریف والااوردوسراغزوہ احزاب ، اس کے علاوہ تمام کے تمام غزوات اقدامی ہی تھے ۔
(۶) اس سے معلوم ہواکہ صبر کے لغوی معنی تنگی میں روکنے کے آتے ہیں۔اور شرعاً صبر کے مختلف درجات ہیں۔
ایک درجہ یہ ہے کہ اپنے نفس کو خلاف شرع کاموں سے روک کر رکھا جائے۔
دوسرا درجہ یہ ہے کہ طاعات وعبادات میں اپنے نفس کو جما کررکھا جائے۔
تیسرا درجہ یہ ہے کہ مصیبتوں اور تکالیف میں جزع وفزع سے گریز کرتے ہوئے ان تکالیف کو اپنے رب کی طرف سے آزمائش سمجھا جائے، البتہ ایسے مواقع میں تکلیف کا اظہار صبر کے منافی نہیں۔ صبر کی تشریح سے ہی معلوم ہو گیا کہ تخفیف غم میں اس کا کیا دخل ہے ، جب مومن ہر تکلیف کو اپنے معبود کی طرف سے سمجھے گا تو یقینا اس تکلیف سے جلد نجات اور دنیا وآخرت میں اس کے بہترین بدلہ کی امید بھی اللہ تعالیٰ سے رکھے گا، اس وجہ سے مصیبت کے مواقع میں خالق سے آسرے کی ایک مضبوط ڈھارس بندھی رہتی ہے، جس سے غم ہلکا ہوتا جاتا ہے۔
(۷)تخفیف غم میں دوسری مؤثر چیز نماز ہے ،نماز وہ عبادت ہے جس میں بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے، پس جب بندہ پورے خشوع وخضوع اور استحضارِ قلب کے ساتھ نماز میں مشغول ہوتا ہے تو اس کی توجہ دنیاوی پریشانیوں سے ہٹ جاتی ہے۔
علاوہ ازیں غموم وہموم کا ختم ہونا نماز کی ایک ایسی خاصیت ہے جس کا ادراک عقل سے معلوم ہونا ضروری نہیں ، بلکہ اس راز کو وہی لوگ پہچان سکتے ہیں جن کی صفت قرآن کریم میں یہ بیان کی گئی ہے {الّذِیْنَ ھُمْ فِی صَلوٰتِہمْ خَاشِعُوْنَ}یعنی جو لوگ اپنی نماز میں جھکنے والے ہیں۔
(۸)حضورتاجدارختم نبوت ﷺہراہم معاملہ میں نماز کا سہارا حاصل کرتے تھے ،غزوہء بدر میں کفار کا پورا لاؤ لشکر مکمل جاہ وحشم کے ساتھ مومنین کو ختم کر دینے کے لیے بے تاب تھا ، جب کہ مقابلے میں بے سروسامان مسلمان صرف اللہ کے سہارے پرتھے اور حضورتاجدارختم نبوت ﷺ نماز میں اپنے رب تعالی سے آہ وزاری میں مصروف رہے۔پریشانی بڑی ہو یا چھوٹی ،آپ ﷺ نماز ہی سے اس کا مداوا فرمایا کرتے تھے، حتی کہ آندھی طوفان آنے پر بھی آپ ﷺ نماز کے لیے مسجد کا رخ فرماتے تھے۔