تفسیر سورہ بقرہ آیت ۱۳۷ ۔ رسول اللہ ﷺکے گستاخوں سے بدلہ لینے کارب تعالی نے وعدہ فرمایا

رسول اللہ ﷺکے گستاخوں سے بدلہ لینے کارب تعالی نے وعدہ فرمایا

{فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْتُمْ بِہٖ فَقَدِ اہْتَدَوْا وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا ہُمْ فِیْ شِقَاقٍ فَسَیَکْفِیْکَہُمُ اللہُ وَہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ}(۱۳۷)
ترجمہ کنزالایمان :پھر اگر وہ بھی یونہی ایمان لائے جیسا تم لائے جب تو وہ ہدایت پاگئے اور اگر منہ پھیریں تو وہ نری ضد میں ہیں تو اے محبوب عنقریب اللہ ان کی طرف سے تمہیں کفایت کرے گا اور وہی ہے سنتا جانتا ۔
ترجمہ ضیاء الایمان:پھراگروہ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جیساتم لائے تووہ بھی ہدایت پاجائیں گے اوراگروہ منہ پھیریں تووہ نری ضدمیں پڑے ہوئے ہیں ۔ تواے حبیب کریمﷺ عنقریب اللہ تعالی ان کی طرف سے تمھیں کفایت فرمائے گااوروہی سننے والاجاننے والاہے ۔

شقاق کامعنی

فَإِنَّما ہُمْ فِی شِقاقٍ قَالَ زَیْدُ بْنُ أَسْلَمَ: الشِّقَاقُ الْمُنَازَعَۃُوَقِیلَ:الشِّقَاقُ الْمُجَادَلَۃُ وَالْمُخَالَفَۃُ وَالتَّعَادِی وَأَصْلُہُ مِنَ الشِّقِّ وَہُوَ الْجَانِبُ، فَکَأَنَّ کُلَّ وَاحِدٍ مِنَ الْفَرِیقَیْنِ فِی شِقٍّ غَیْرِ شِقِّ صَاحِبِہِ۔
ترجمہ :بے شک وہ شقاق میں پڑے ہوئے ہیں حضرت سیدنازید بن اسلم رحمہ اللہ تعالی نے فرمایاکہ الشقاق کامعنی ہے لڑائی کرنااورالشقاق جھگڑاکرنا، مخالفت کرنااوردشمنی کرنا۔ یہ الشقاق الشق سے مشتق ہے ، جس کامعنی جانب ہے ۔ گویاہر فریق اپنے مخالف کی دوسری شق (جانب) میں ہوتاہے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۲:۱۴۳)

رسول اللہ ﷺکی دشمنی میں گستاخوں کاحدسے گزرنا

قَالَ بَعْضُ أَہْلِ اللُّغَۃِ: الشِّقَاقُ مَأْخُوذٌ مِنَ الشِّقِّ، کَأَنَّہُ صَارَ فِی شِقٍّ غَیْرِ شِقِّ صَاحِبِہِ بِسَبَبِ الْعَدَاوَۃِ وَقَدْ شَقَّ عَصَا الْمُسْلِمِینَ إِذَا فَرَّقَ جَمَاعَتَہُمْ وَفَارَقَہَا، وَنَظِیرُہُ: الْمُحَادَّۃُ وَہِیَ أَنْ یَکُونَ ہَذَا فِی حَدٍّ وَذَاکَ فِی حَدٍّ آخَرَ، وَالتَّعَادِی مِثْلُہُ لِأَنَّ ہَذَا یَکُونُ فِی عُدْوَۃٍ وَذَاکَ فِی عُدْوَۃٍ، وَالْمُجَانَبَۃُ أَنْ یَکُونَ ہَذَا فِی جَانِبٍ وَذَاکَ فِی جَانِبٍ آخَرَ وَقَالَ آخَرُونَ:إِنَّہُ مِنَ الْمَشَقَّۃِ لِأَنَّ کُلَّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا یَحْرِصُ عَلَی مَا یَشُقُّ عَلَی صَاحِبِہِ وَیُؤْذِیہِ قَالَ اللہ تعالی:وَإِنْ خِفْتُمْ شِقاقَ بَیْنِہِما أَیْ فِرَاقَ بَیْنِہِمَا فِی الِاخْتِلَافِ حَتَّی یَشُقَّ أَحَدُہُمَا عَلَی الْآخَرِ.
ترجمہ :امام ابوعبداللہ فخرالدین الرازی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ بعض اہل لغت نے کہاہے کہ ’’الشقاق‘‘ شق سے ماخوذ ہے گویاعداوت کی وجہ سے ایک آدمی دوسرے آدمی کے مخالف جانب ہوگیا، جب جماعت میں افتراق وانتشارہوتوکہاجاتاہے کہ
{ وَقَدْ شَقَّ عَصَا الْمُسْلِمِین}اس کی نظیر{الْمُحَادَّۃُ}ہے اس سے مراد یہ ہے کہ ایک حد ِ عداوت پر ایک جانب جبکہ دوسرادوسری حدپر ہے ،’’ المجانبہ ‘‘ یہ ایک جانب ہے اوردوسرادوسری جانب ہے ۔ اوردیگراہل علم کہتے ہیں ’’الشقاق‘‘ مشقت سے ماخوذ ہے کیونکہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کو مشقت میں مبتلاء کرتاہے ۔
جیساکہ اللہ تعالی نے فرمایا:{وَإِنْ خِفْتُمْ شِقاقَ بَیْنِہِما}یعنی اختلاف کی وجہ سے فراق جوایک دوسرے کو اذیت دے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۴:۷۳)

اس سے معلوم ہواکہ اگر’’الشقاق ‘‘ الشق سے ماخوذ ہوتواس کامعنی یہ بنے گاکہ یہود رسول اللہ ﷺکی دشمنی میں ایک جانب ہوگئے اور کریم آقاﷺ کو تکلیف دینے کے لئے ہمہ وقت کوشش کرتے تھے ۔ اور’’الشقاق‘‘ مشقت سے ماخوذ ہوتو اس کامعنی یہ ہوگاکہ یہودی ہروقت رسول اللہ ﷺکومشقت اوراذیت میں مبتلاء کرنے کی کوشش کرتے رہتے تھے ۔
اب اس آیت کریمہ کے معنی میں غورکریں کہ اللہ تعالی ارشادفرمارہاہے کہ یہود رسول اللہ ﷺکی دشمنی اوررسول اللہ ﷺکے ساتھ لڑائی کرنے اورجھگڑاکرنے میں ایک جانب ہوچکے ہیں یعنی رسول اللہ ﷺکی گستاخی کرنے میں متحد ہوچکے ہیں اوران کے جواب کے لئے اوران کا دفاع کرنے کے لئے دوسری جانب رسول اللہﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جمع ہوچکے ہیں اورمددصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ہی ہوگی جیساکہ اللہ تعالی نے بیان فرمایا۔

رب تعالی نے وعدہ فرماکررسول اللہ ﷺکو تسلی دی

وجعل الشقاق ظرفا لہم وہم مظروفون لہ مبالغۃ فی الاخبار باستیلائہ علیہم فانہ ابلغ من قولک ہم مشاقون والشقاق مأخوذ من الشق وہو الجانب فکأن کل واحد من الفریقین فی شق غیر شق صاحبہ بسبب العداوۃ ولما دل تنکیر الشقاق علی امتناع الوفاق وان ذلک مما یؤدی الی الجدال والقتال لا محالۃ عقب ذلک بتسلیۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتفریح المؤمنین بوعد النصرۃ والغلبۃ وضمان التأیید والإعزاز بالسین للتأکید الدالۃ علی تحقق الوقوع البتۃ۔

ترجمہ :حضرت سیدناامام اسماعیل حقی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ’’ الشقاق ‘‘الشق سے نکلاہے اوریہ بطورمبالغہ کے ایسے بیان کیاگیاہے کہ رسول اللہ ﷺکے دشمن اتنے شریرہیں کہ رسول اللہ ﷺکے ساتھ لڑائی اوردشمنی رکھنا ان پرسوارہے ، یہ الشقاق ،وھم الشاقون سے زیادہ بلیغ ہے ۔ شقاق شق سے مشتق ہے بمعنی جانب ، گویاایک گروہ دوسرے گروہ کی جانب کنارے پرہے بوجہ عداوت ودشمنی کے اورلفظ ’’الشقاق‘‘کانکرہ ہونابتاتاہے کہ ان سے موافقت کاصدورممتنع ہے کیونکہ ان کاکام ہی رسول اللہ ﷺکے ساتھ لڑائی کرنااوردشمنی رکھناہے اوربس ، اس کے بعداللہ تعالی نے اپنے حبیب کریمﷺ کو تسلی دی اوراہل اسلام کوخوش کردیاکہ ان کی مددہونے والی ہے اورتائیدواعزاز کاوعدہ فرمایا۔چنانچہ رب تعالی نے فرمایاکہ عنقریب تمھاری ان سے کفایت فرمائے گا۔
( روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۱:۲۴۲)

گستاخوں کے خلاف لڑنے والوں کی مددکرنے کااللہ تعالی نے وعدہ فرمایاہے

فَسَیَکْفِیکَہُمُ اللَّہُ أَیْ فَسَیَکْفِی اللَّہُ رَسُولَہُ عَدُوَّہُ فَکَانَ ہَذَا وَعْدًا مِنَ اللَّہِ تَعَالَی لِنَبِیِّہِ عَلَیْہِ السَّلَامُ أَنَّہُ سَیَکْفِیہِ مَنْ عَانَدَہُ وَمَنْ خَالَفَہُ مِنَ الْمُتَوَلِّینَ بِمَنْ یَہْدِیہِ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ، فَأَنْجَزَ لَہُ الْوَعْدَ، وَکَانَ ذَلِکَ فِی قَتْلِ بَنِی قَیْنُقَاعَ وَبَنِی قُرَیْظَۃَ وَإِجْلَاء ِ بَنِی النَّضِیرِ.
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی اپنے رسول ﷺکی طرف سے اس کے دشمن کو کافی ہے ، یہ اللہ تعالی کااپنے حبیب کریم ﷺسے وعدہ ہے کہ وہ اپنے حبیب کریم ﷺکے ہر ہردشمن کی طرف سے اہل ایمان کے ذریعے کفایت فرمائے گااوراللہ تعالی نے پھراپناوعدہ پورافرمایاوہ اس طرح کہ بنوقینقاع، بنوقریظہ کے قتل اوربنونضیرکی جلاوطنی میں پوراہوا۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۲:۱۴۳)

امام القرطبی رحمہ اللہ تعالی کے اس فرمان شریف سے واضح ہواکہ رسول اللہ ﷺکی گستاخی کرنے کے لئے تمام کفارجمع تھے اوردوسری طرف رسول اللہ ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسول اللہ ﷺکی عزت وناموس کے دفاع کے لئے جمع ہوئے تواللہ تعالی نے رسول اللہ ﷺکے گستاخوں کے قتل کااورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مددکرنے کاوعدہ فرمایااورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مددکرکے اپنے وعدے کوپورافرمایا۔ اورآج بھی جو شخص اللہ تعالی کے حبیب کریمﷺ کی عزت وناموس کے دفاع کے لئے کھڑاہوتاہے اللہ تعالی اس کی بھی مددفرماتاہے ۔جیساکہ ماضی قریب میں جب ختم نبوت قانون پر حملہ ہواتوامیرالمجاہدین حضرت اقدس مولاناحافظ خادم حسین رضوی حفظہ اللہ تعالی اپنے مخلصین کے ساتھ تہی دامن فیض آباد شریف جابیٹھے اوروہاں پر جب ساری عالمی قوتیں ان کے خلاف جمع ہوگئیں اورہر طرح کی پولیس اوررینجرز بمع اسلحہ جمع ہوگئے توپھراللہ تعالی کی مددایسے آئی کہ تمام کے تمام بے دین بمع اسلحہ کے وہاں سے فرارہوگئے ۔

تمھارے جیساایمان لائیں تو ۔۔۔

أَنَّکُمْ آمَنْتُمْ بِالْفُرْقَانِ مِنْ غَیْرِ تَصْحِیفٍ وَتَحْرِیفٍ، فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ ذَلِکَ وَہُوَ التَّوْرَاۃُ مِنْ غَیْرِ تَصْحِیفٍ وَتَحْرِیفٍ فَقَدِ اہْتَدَوْا لِأَنَّہُمْ یَتَّصِلُونَ بِہِ إِلَی مَعْرِفَۃِ نُبُوَّۃِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَرَابِعُہَا:أَنْ یَکُونَ قَوْلُہُ:فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِہِ أَیْ فَإِنْ صَارُوا مُؤْمِنِینَ بِمِثْلِ مَا بِہِ صِرْتُمْ مُؤْمِنِینَ فَقَدِ اہْتَدَوْا،فَالتَّمْثِیلُ فِی الْآیَۃِ بَیْنَ الْإِیمَانَیْنِ وَالتَّصْدِیقَیْنِ۔
ترجمہ:امام ابوعبداللہ فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی نقل فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے فرمایا: اے جماعت صحابہ ! اگریہودونصاری بھی ایسے ہی ایمان لائیں جیسے تم لائے ہویعنی قرآن کریم پر تحریف وتصحیف کے بغیرجیساتمھاراایمان ہے اسی طرح وہ بھی توراۃ وانجیل پر بغیرتحریف وتصحیف کے ایمان لے آئیں تووہ بھی ہدایت پاجائیں گے کیونکہ اس کے ذریعے رسول اللہ ﷺکی معرفت پاجائیں گے ۔ اس آیت کریمہ کامعنی یہ ہے کہ اگروہ مان جاتے جس طرح تم مان گئے تویہ ہدایت پاجاتے توآیت میں تمثیل دونوں کے ایمان اورتصدیق کی ہے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۴:۷۳)

رسول اللہ ﷺکے گستاخوں کے لئے وعید

قَالَ الْقَاضِی:وَلَا یَکَادُ یُقَالُ فِی الْمُعَادَاۃِ عَلَی وَجْہِ الْحَقِّ أَوِ الْمُخَالَفَۃِ الَّتِی لَا تَکُونُ مَعْصِیَۃً إِنَّہُ شِقَاقٌ وَإِنَّمَا یُقَالُ ذَلِکَ فِی مُخَالَفَۃٍ عَظِیمَۃٍ تُوقِعُ صَاحِبَہَا فِی عَدَاوَۃِ اللَّہِ وَغَضَبِہِ وَلَعْنِہِ وَفِی اسْتِحْقَاقِ النَّارِ فَصَارَ ہَذَا الْقَوْلُ وَعِیدًا مِنْہُ تَعَالَی لَہُمْ وَصَارَ وَصْفُہُمْ بِذَلِکَ دَلِیلًا عَلَی أَنَّ القوم معادون للرسول مضمرون لہ السؤال مُتَرَصِّدُونَ لِإِیقَاعِہِ فِی الْمِحَنِ، فَعِنْدَ ہَذَا آمَنَہُ اللَّہُ تَعَالَی مِنْ کَیْدِہِمْ وَآمَنَ الْمُؤْمِنِینَ مِنْ شرہم ومکرہم فقال:فَسَیَکْفِیکَہُمُ اللَّہُ تقویۃ لقبہ وَقَلْبِ الْمُؤْمِنِینَ لِأَنَّہُ تَعَالَی إِذَا تَکَفَّلَ بِالْکِفَایَۃِ فِی أَمْرٍ حَصَلَتِ الثِّقَۃُ بِہِ۔
ترجمہ :امام بیضاوی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ حق کی خاطرکسی سے عداوت یاایسی مخالفت جو معصیت نہ ہوالشقاق نہیں کہلاتا۔ الشقاق اس وقت ہوگاجب کوئی شخص ایسی بڑی مخالفت میں چلاجائے جس کی وجہ سے اللہ تعالی کی عداوت وغضب ، لعنت ومستحق ِ ناربن جائے ، تویہ قول اللہ تعالی کی طرف سے رسول اللہ ﷺکے گستاخوں کے لئے وعید ہے ، ان کایہ عمل اس پر دلیل ہے کہ یہ لوگ (رسول اللہ ﷺکے گستاخ) رسول اللہ ﷺکے تکلیف میں مبتلاء ہونے کے لئے دعائیں کرتے ہیں تواللہ تعالی نے اپنے حبیب کریم ﷺکو ان کے فریب سے امن وحفاظت اوران کے شروفریب سے اہل ایمان کو امن دیتے ہوئے فرمایا{فَسَیَکْفِیکَہُمُ اللّہ}یہ رسول اللہ ﷺکے دل مبارک اوراہل ایمان کے قلب کی تقویت ہے توجب اللہ تعالی نے حبیب کریم ﷺکی عزت وناموس کے دفاع میں کافی ہونے کی ضمانت فراہم کردی تواب اعتماد حاصل ہوگا۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۴:۷۳)

رسول اللہ ﷺکے گستاخوں پر رب تعالی کی پکڑکیسے آئی ؟

قَالَ الْمُتَکَلِّمُونَ:ہَذَا إِخْبَارٌ عَنِ الْغَیْبِ فَیَکُونُ مُعْجِزًا دَالًّا عَلَی صِدْقِہِ وَإِنَّمَا قُلْنَا إِنَّہُ إِخْبَارٌ عَنِ الْغَیْبِ وَذَلِکَ لِأَنَّا وَجَدْنَا مُخْبِرَ ہَذَا الْقَوْلِ عَلَی مَا أَخْبَرَ بِہِ لِأَنَّہُ تَعَالَی کَفَاہُ شَرَّ الْیَہُودِ وَالنَّصَارَی وَنَصَرَہُ عَلَیْہِمْ حَتَّی غَلَبَہُمُ الْمُسْلِمُونَ وَأَخَذُوا دِیَارَہُمْ وَأَمْوَالَہُمْ فَصَارُوا أَذِلَّاء َ فِی أَیْدِیہِمْ یُؤَدُّونَ إِلَیْہِمُ الْخَرَاجَ وَالْجِزْیَۃَ أَوْ لَا یَقْدِرُونَ الْبَتَّۃَ عَلَی التَّخَلُّصِ مِنْ أَیْدِیہِمْ۔
ترجمہ :اہل کلام کہتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں غیبی خبرہے لھذایہ رسول اللہ ﷺکے صدق پر بطورمعجزہ دلیل ہے ۔ غیبی خبراس لئے ہے کہ ہم نے اس خبرکے مطابق ہی مستقبل میںدیکھاکیونکہ اللہ تعالی نے یہودونصاری کے شرسے رسول اللہ ﷺکو محفوظ رکھااورآپ ﷺکی ان کے خلاف مددفرمائی ۔حتی کہ رسول اللہ ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان دشمنان رسول پر غالب آگئے، ان کے علاقے اوراموال حاصل کرلئے اوروہ تمام ان کے تابعدار ہوکرجزیہ وخراج اداکرنے لگے حتی کہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے آزادی پرقادرنہ رہے ۔ معجزہ اس لئے ہے کہ محض ظن وتخمین والاایسی یقینی وتفصیلی بات نہیں کرسکتا۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۴:۷۳)

{وَہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ}کالطیف معنی

(فی معنی وَہُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ)ثُمَّ إِنَّہُ تَعَالَی لَمَّا وَعَدَہُ بِالنُّصْرَۃِ وَالْمَعُونَۃِ أَتْبَعَہُ بِمَا یَدُلُّ عَلَی أَنَّ مَا یُسِرُّونَ وَمَا یُعْلِنُونَ مِنْ ہَذَا الْأَمْرِ لَا یَخْفَی عَلَیْہِ تَعَالَی فَقَالَوَہُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ وَفِیہِ وَجْہَانِ الْأَوَّلُ:أَنَّہُ وَعِیدٌ لَہُمْ وَالْمَعْنَی أَنَّہُ یُدْرِکُ مَا یُضْمِرُونَ وَیَقُولُونَ وَہُوَ عَلِیمٌ بِکُلِّ شَیْء ٍ فَلَا یَجُوزُ لَہُمْ أَنْ یَقَعَ مِنْہُمْ أَمْرٌ إِلَّا وَہُوَ قَادِرٌ عَلَی کِفَایَتِہِ إِیَّاہُمْ فِیہِ.الثَّانِی:َٔنَّہُ وَعْدٌ لِلرَّسُولِ عَلَیْہِ السَّلَامُ یَعْنِی:یَسْمَعُ دُعَاء َکَ وَیَعْلَمُ نِیَّتَکَ وَہُوَ یَسْتَجِیبُ لَکَ وَیُوصِلُکَ إِلَی مُرَادِک۔
ترجمہ :جب اللہ تعالی نے رسول اللہ ﷺکی مددونصرت کاوعدہ فرمایاتواس نے اپنی شان کاذکرکیاپھربتادیاکہ وہ اپنے حبیب کریم ﷺکے دشمنوں کے ظاہروباطن سے آگاہ ہے ۔
اس کی تفسیر میں دووجوہات ہیں :پہلی وجہ : یہ رسول اللہ ﷺکے دشمنوں کے لئے وعیدہے ، اس کامفہوم یہ ہے کہ جو کچھ رسول اللہ ﷺکے گستاخ چھپاکررکھتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالی ان کی ہرشئی کو جانتاہے توان کی طرف سے جوبھی سازش ہوگی ،اللہ تعالی کے دفاع پر قادرمطلق ہے ۔
دوسری وجہ : یہ رسول اللہ ﷺسے وعدہ ہے یعنی اللہ تعالی آپ ﷺکی دعاقبول کرے گا اوروہ تمھاری نیت کوجانتاہے ، دعاکو قبول فرماکرتمھیں تمھارے مقصدمیں کامیاب فرمائے گا۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۴:۷۳)

معارف ومسائل

(۱) اس سے معلوم ہواکہ جو بھی شخص رسول اللہ ﷺکی عزت وناموس کے دفاع کے لئے کام کرے اللہ تعالی اس کی مددفرماتاہے کیونکہ یہ اللہ تعالی نے اپنے حبیب کریم ﷺسے وعدہ فرمایاہے ۔
(۲) اوراس سے یہ بھی معلوم ہواکہ جب بھی رسول اللہ ﷺکی عزت وناموس پر حملہ ہوتواہل ایمان پرواجب ہے کہ وہ ان کے خلاف کھڑے ہوں پھراللہ تعالی اپنے وعدے کے مطابق ان کی مددفرمائے گااورگستاخوں کو ذلیل فرمادے گا۔
(۳) اوراس آیت مبارکہ سے معلوم ہواکہ یہود ونصاری ہمہ وقت رسول اللہﷺکی گستاخیاں کرنے میں لگے ہوئے ہیں جیساکہ روح البیان کے حوالے سے ہم نقل کرآئے ہیں تواہل اسلام کو بھی چاہئے کہ وہ بھی ہمہ وقت رسول اللہ ﷺکی عزت وناموس پرپہرہ دینے کے لئے میدان میں رہیں۔
(۴) اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ رسول اللہ ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم معیارایمان ہیں۔
(۵) یہ آیت مبارکہ گواہی دے رہی ہے کہ رب تعالی نے یہودونصاری کو فرمایاجس طرح میرے حبیب کریمﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میرے حبیب کریم ﷺکی عزت وناموس پر پہرہ دیتے ہیں اورمیرے حبیب کریمﷺکاادب واحترام کرتے ہیں اگریہ یہودونصاری بھی اسی طرح میرے حبیب کریم ﷺکی عزت وناموس کادفاع کرنے والے اورادب کرنے والے بن جائیں تو میں ان کو بھی ہدایت عطافرمادوں گا۔
(۶) اس سے یہ بھی معلو م ہواکہ جو شخص رسول اللہ ﷺکی عزت وناموس پر پہرہ دیتاہے وہ آج بھی دوسرے لوگوں کے لئے معیارایمان ہے۔
(۷) اللہ تعالی نے اس آیت کریمہ میں رسول اللہﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو معیارایمان قراردے کردنیابھرکے لوگوں کو رسول اللہ ﷺکی عزت وناموس پرپہرہ دینے کاحکم ارشادفرمایاہے ۔
(۸) اللہ تعالی کے ہاں پسندیدہ مومن وہی ہے جو رسول اللہ ﷺکی عزت وناموس پر پہرہ دینے والاہو۔
(۹) اوراس آیت میں اللہ تعالی نے وعدہ فرمایاہے جو بھی میرے حبیب کریم ﷺکی عزت وناموس پر پہرہ دے گامیں اس کی مددکروں گا۔
(۱۰) اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ جب کوئی بدبخت رسول اللہ ﷺکی شان میں گستاخی کرے تو اہل ایمان پر واجب ہے کہ وہ دفاع میں کھڑے ہوں ، جس طرح آجکل کے لبرل کہتے ہیں کہ اللہ تعالی اپنے نبی ﷺکاخودہی بدلہ لے لے گا۔

رسول اللہ ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے باہمی مشاجرات پر خاموشی اختیارکرناواجب ہے

الحمدللہ اہلسنت ہی فرقہ ناجیہ اور طائفہ، منصورہ ہے ، جس طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے اسلام کو اعتدال والا دین قرار دیا ہے ، ایسے ہی امت محمدیہ ،صلوات اللہ وسلامہ علی صاحبہا، کو امتِ وسط بنایا ہے او راس کا صحیح اور حقیقی مصداق ہر زمانہ میں اہل سنت ہی رہے ہیں اور تاقیامت رہیں گے۔عقائد، عبادات، معاملات، افکار ونظریات، عصمتِ انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام، مقام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین، احترامِ سلف صالحین، مجتہدین، محدثین او رعلمائے امت پراعتماد، غرض دین ودنیا کے ہر معاملے میں اللہ تعالیٰ نے اہل سنت کو اعتدال کے اعلیٰ مرتبے سے نوازا ہے ، دوسرا کوئی گروہ اور فرقہ اس صفت میں ان کا شریک نہیں، اگرچہ اہل بدعت، زیغ وضلال کے داعی، اسلام کے نام پر اسلام کی بنیادوں پر تیشہ چلانے والے کتنے ہی بناوٹی دعوے اور پروپیگنڈے کرتے رہیں، لیکن یہ بات روزِروشن کی طرح واضح ہے او رخود اہل باطل بھی اس کے معترف ہیں کہ اسلام کے حقیقی پیروکار اورـــ ما أنا علیہ وأصحابی کا یقینی مصداق ہمیشہ اہل سنت ہی رہے ہیں۔اسی وسطیت او راعتدال کا نتیجہ ہے کہ اہل سنت فرق مراتب کے نہ صرف قائل ہیںبلکہ عملی طور سے اس کا اظہار بھی ہوتا ہے ، مزید برآں فرق مراتب کا لحاظ نہ رکھنے اور کسی بھی شخصیت کو اس کے مقام سے بڑھا کر پیش کرنے، یا اس کی شان میں ادنی درجے کی گستاخی کو علمائے اہل سنت نے زندیقیت سے تعبیر کیا ہے۔اہل سنت حضور اکرم ﷺکو اللہ تعالیٰ کا آخری نبی اوررسول سمجھتے ہیں، ان کے بعد کسی طرح کے دعوائے نبوت، چاہے ظلی ہو یا بروزی ، یا امامت اہل بیت کے نام سے نبوی صفات سے متصف ائمہ کاا عتقاد رکھنے کو علی الاعلان کفر وزندقہ گردانتے ہیں ، اسی طرح حضور اکرم ﷺسے تعلق اور نسبت رکھنے والی ہر شخصیت، چاہے وہ حضرات اہل بیت کرام رضی اللہ تعالی عنہم ہوں ، یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مقدس جماعت، سب کی عزت وعظمت، ان کی محبت واتباع او ران سے تعلق کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں۔
اہل سنت کے عقائد میں یہ بات شامل ہے کہ صحابہ کرام میں جو بھی اختلافات ہوئے، ان کے بارے میں اپنی زبان بند کی جائے، کیونکہ (قرآن و سنت میں )صحابہ کرام کے فضائل ثابت ہیں اور ان سے محبت ومودّت فرض ہے۔ صحابہ کرام کے مابین اختلافات میں سے بعض ایسے تھے کہ ان میں صحابہ کرام کا کوئی ایسا عذر تھا، جو عام انسان کو معلوم نہیں ہو سکا، بعض ایسے تھے جن سے انہوں نے توبہ کر لی تھی اور بعض ایسے تھے جن سے اللہ تعالیٰ نے خود ہی معافی دے دی۔ مشاجرات صحابہ میں غور کرنے سے اکثر لوگوں کے دلوں میں صحابہ کرام کے بارے میں بغض و عداوت پیدا ہو جاتی ہے، جس سے وہ خطاکار، بلکہ گنہگار ہو جاتے ہیں۔ یوں وہ اپنے آپ کو اور اپنے ساتھیوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ جن لوگوں نے اس بارے میں اپنی زبان کھولی ہے، اکثر کا یہی حال ہوا ہے۔ انہوں نے ایسی باتیں کی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کو پسند نہیں تھیں۔ انہوں نے ایسے لوگوں کی مذمت کی، جو مذمت کے مستحق نہیں تھے یا ایسے امور کی تعریف کی، جو قابل تعریف نہ تھے۔ اسی لیے مشاجرات صحابہ میں زبان بند رکھنا ہی سلف صالحین کا طریقہ تھا۔
یہ تھا مشاجرات صحابہ میں اہل سنت کا عقیدہ۔ اس عقیدے کے برعکس بعض لوگ صحابہ کرام کے باہمی اختلافات کو ہوا دیتے ہیں اور ان کی بنا پر بعض صحابہ کرام پر تنقید کرتے ہیں۔ حالانکہ صحابہ کرام پر تنقیداور ان کی تنقیص بدعت و ضلالت ہے۔ اس بارے میں :

امام اہل سنت ابوالمنظرمنصورسمعانی المتوفی : ۴۸۹ھ) رحمہ اللہ تعالی کاقول

وَقَالَ بن السَّمْعَانِیِّ فِی الِاصْطِلَامِ التَّعَرُّضُ إِلَی جَانِبِ الصَّحَابَۃِ عَلَامَۃٌ عَلَی خِذْلَانِ فَاعِلِہِ بَلْ ہُوَ بِدْعَۃٌ وَضَلَالَۃٌ۔
ترجمہ:امام ابن السمعانی رحمہ اللہ تعالی اپنی کتاب ’’الاصطلام‘‘ میں نقل فرماتے ہیںکہ رسول اللہ ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر طعن کرنا کسی کے رسوا ہونے کی علامت ہے، بلکہ یہ بدعت اور گمراہی ہے۔
(فتح الباری شرح صحیح البخاری: أحمد بن علی بن حجر أبو الفضل العسقلانی الشافعی(۴:۳۶۵)
مشاجراتِ صحابہ کے بارے میں زبان بند رکھنے کا عقیدہ قرآن و سنت اور اجماعِ امت کے دلائل شرعیہ سے ثابت ہے۔ آئیے اس بارے میں دلائل ملاحظہ فرمائیں :

قرآنِ کریم اور مشاجرات صحابہ

اس بات میں کسی بھی مسلمان کو کوئی شبہ نہیں ہو سکتا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے آپس کے اختلاف اجتہادی تھے، کسی بدنیتی پر مبنی ہرگز نہیں تھے۔ اجتہاد میں اگر کوئی انسان غلطی بھی کر لے تو اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک اجر عطاہوتا ہے۔ جبکہ قرآنِ کریم کے مطابق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے جو غیر اجتہادی بھولیں ہوئیں، ان کو بھی معاف فرما دیا گیا ہے۔ غزوۂ احد میں جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کونبی اکرم ﷺ کے حکم مبارک پر عمل کرنے میں جو سہوہوا، ان کے بارے میں :
فرمانِ الٰہی ہے :
وَلَقَدْ عَفَا اللَّـہُ عَنْہُمْ (آل عمران:۱۵۵)
یقیناً اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف فرما دیا ہے۔
نیز صحابہ کرام کو مخاطب کر کے فرمایا :
وَلَقَدْ عَفَا عَنْکُمْ (آل عمران:۱۵۲)
یقیناً اللہ تعالیٰ نے تمہیں معاف فرما دیا ہے۔
ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی غیر اجتہادی بھولیں اور ان کے صریح ذنب بھی معاف فرما دئیے ہیں۔ لہٰذا مشاجراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم جو یقیناً ایک فریق کی اجتہادی غلطی پر مبنی تھے، وہ قرآن کی رُو سے بالاولیٰ معاف ہو گئے ہیں۔ اب ان اختلافات کو بنیاد بنا کر کسی بھی صحابی کے بارے میں زبان کھولنا اپنی عاقبت برباد کرنے کے سوا کچھ نہیں۔
کسی عام مسلمان سے کوئی کبیرہ گناہ ہو جائے اور وہ اس سے توبہ کر لے، تو اس کا ذکر کر کے اس کی تنقیص کرنا یا اس کو بنیاد بنا کر دل میں اس کے لیے تنگی رکھنا بھی گناہ ہے تو وہ اجتہادی غلطی جس پر اللہ تعالیٰ نے ایک اجر عطا فرمایا ہوا ہو، اس کی بنا پر کسی صحابی رسول کے خلاف زبان کھولنا کتنی بڑی بدبختی ہو گی !

مشاجرات صحابہ احادیث شریفہ کی روشنی میں

میرے صحابہ کرام کی توہین نہ کرو
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِی، لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِی، فَوَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَوْ أَنَّ أَحَدَکُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَہَبًا، مَا أَدْرَکَ مُدَّ أَحَدِہِمْ، وَلَا نَصِیفَہُ۔
ترجمہ :حضرت سیدناابوھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: میرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تنقیص نہ کرو، میرے صحابہ کو برا بھلا نہ کہو۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے !اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا بھی خرچ کرے تو کسی صحابی کے ایک مد (تقریباً دو سے اڑھائی پاؤ) یا اس کے نصف کے برابر نہیں ہو سکتا۔
( صحیح مسلم :مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشیری النیسابوری (۴:۱۹۶۷)

گھٹیاکون ؟

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ، قَالَ:دَخَلَ عَائِذُ بْنُ عَمْرٍو، قَالَ یَزِیدُ:وَکَانَ مِنْ صَالِحِی أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، عَلَی عُبَیْدِ اللہِ بْنِ زِیَادٍ، فَقَالَ:إِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:شَرُّ الرِّعَاء ِ الْحُطَمَۃُ،قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ:فَأَظُنُّہُ قَالَ:إِیَّاکَ أَنْ تَکُونَ مِنْہُمْ، وَلَمْ یَشُکَّ یَزِیدُ، فَقَالَ:اجْلِسْ فَإِنَّمَا أَنْتَ مِنْ نُخَالَۃِ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ:وَہَلْ کَانَتْ لَہُمْ، أَوْ فِیہِمْ، نُخَالَۃٌ؟ إِنَّمَا کَانَتِ النُّخَالَۃُ بَعْدَہُمْ، وَفِی غَیْرِہِمْ ۔
ترجمہ :حضرت سیدناامام حسن بصری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺکے صحابی حضرت سیدنا عائذ بن عمرورضی اللہ عنہ عبیداللہ بن زیاد کے پاس آئے اور فرمانے لگے :بیٹے !میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ بدترین حکمران وہ ہوتے ہیں، جو اپنی رعایا پر ظلم کرتے ہیں۔ لہٰذا (میری نصیحت ہے کہ )تیرا شمار ایسے لوگوں میں نہ ہو۔ عبیداللہ بن زیاد کہنے لگا : بیٹھ جا، تو رسول اللہ ﷺکا گھٹیا درجے کا صحابی ہے۔ سیدنا عائذ فرمانے لگے :کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے بھی کوئی گھٹیا تھا ؟ گھٹیا لوگ تو وہ ہیں جو صحابی نہ بن سکے اور وہ جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد میں آئے۔
(مسند الإمام أحمد بن حنبل:أبو عبد اللہ أحمد بن محمد بن حنبل بن ہلال بن أسد الشیبانی (۳۴:۳۴۰)

ثابت ہوا کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکے تمام صحابہ ارفع و اعلیٰ درجات پر فائز ہیں۔ اس بات سے انکار نہیں کہ بعض صحابہ کو بعض پر فضیلت حاصل ہے، لیکن اس کے باوجود تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم قابل عزت و احترام ہیں اور بعد میں آنے والا کوئی شخص نیکی و تقویٰ اور علم کا بڑے سے بڑا کارنامہ سرانجام دے کر بھی کسی صحابی کی ادنیٰ سے ادنیٰ نیکی کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ لہٰذا کسی بعد والے کو یہ حق نہیں کہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بشری لغزشوں، جن کو اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دیا ہے، یا ان کی اجتہادی غلطیوں، جن پر اللہ تعالیٰ نے بھی مؤاخذہ نہیں فرمایا، کو بنیاد بنا کر ان کے بارے میں بدظنی کا شکار ہو یا زبان درازی کرے۔

اقتدارکے نشے والاصحابہ کرام کی عظمت نہ جان سکا

حَدَّثَنَا سَالِمُ بْنُ أَبِی أُمَیَّۃَ أَبُو النَّضْرِ، قَالَ:جَلَسَ إِلَیَّ شَیْخٌ مِنْ بَنِی تَمِیمٍ فِی مَسْجِدِ الْبَصْرَۃِ، وَمَعَہُ صَحِیفَۃٌ لَہُ فِی یَدِہِ قَالَ:وَفِی زَمَانِ الْحَجَّاجِ ،فَقَالَ لِی:یَا عَبْدَ اللہِ، أَتَرَی ہَذَا الْکِتَابَ مُغْنِیًا عَنِّی شَیْئًا عِنْدَ ہَذَا السُّلْطَانِ؟ قَالَ:فَقُلْتُ:وَمَا ہَذَا الْکِتَابُ؟ قَالَ:ہَذَا کِتَابٌ مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَتَبَہُ لَنَا:أَنْ لَا یُتَعَدَّی عَلَیْنَا فِی صَدَقَاتِنَا قَالَ:فَقُلْتُ:لَا، وَاللہِ مَا أَظُنُّ أَنْ یُغْنِیَ عَنْکَ شَیْئًا، وَکَیْفَ کَانَ شَأْنُ ہَذَا الْکِتَابِ؟ قَالَ:قَدِمْتُ الْمَدِینَۃَ مَعَ أَبِی وَأَنَا غُلامٌ شَابٌّ بِإِبِلٍ لَنَا نَبِیعُہَا، وَکَانَ أَبِی صَدِیقًا لِطَلْحَۃَ بْنِ عُبَیْدِ اللہِ التَّیْمِیِّ، فَنَزَلْنَا عَلَیْہِ فَقَالَ لَہُ أَبِی:أخْرُجْ مَعِی فَبِعْ لِی إِبِلِی ہَذِہِ قَالَ:فَقَالَ:إِنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ نَہَی أَنْ یَبِیعَ حَاضِرٌ لِبَادٍ، وَلَکِنْ سَأَخْرُجُ مَعَکَ فَأَجْلِسُ وَتَعْرِضُ إِبِلَکَ، فَإِذَا رَضِیتُ مِنْ رَجُلٍ وَفَاء ً وَصِدْقًا مِمَّنْ سَاوَمَکَ أَمَرْتُکَ بِبَیْعِہِ،قَالَ:فَخَرَجْنَا إِلَی السُّوقِ فَوَقَفْنَا ظُہْرَنَا، وَجَلَسَ طَلْحَۃُ قَرِیبًا فَسَاوَمَنَا الرِّجَالُ حَتَّی إِذَا أَعْطَانَا رَجُلٌ مَا نَرْضَی،قَالَ لَہُ أَبِی:أُبَایِعُہُ؟ قَالَ:نَعَمْ، قد رَضِیتُ لَکُمْ وَفَاء َہُ فَبَایِعُوہُ، فَبَایَعْنَاہُ فَلَمَّا قَبَضْنَا مَا لَنَا وَفَرَغْنَا مِنْ حَاجَتِنَاقَالَ أَبِی لِطَلْحَۃَ:خُذْ لَنَا مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کِتَابًا: أَنْ لَا یُتَعَدَّی عَلَیْنَا فِی صَدَقَاتِنَا، قَالَ:فَقَالَ:ہَذَا لَکُمْ وَلِکُلِّ مُسْلِمٍ، قَالَ عَلَی ذَلِکَ إِنِّی أُحِبُّ أَنْ یَکُونَ عِنْدِی مِنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کِتَابٌ قَالَ:فَخَرَجَ حَتَّی جَاء َ بِنَا إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:یَا رَسُولَ اللہِ، إِنَّ ہَذَا الرَّجُلَ مِنْ أَہْلِ الْبَادِیَۃِ، صَدِیقٌ لَنَا، وَقَدْ أَحَبَّ أَنْ تَکْتُبَ لَہُ کِتَابًا، أن لَا یُتَعَدَّی عَلَیْہِ فِی صَدَقَتِہِ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:ہَذَا لَہُ وَلِکُلِّ مُسْلِمٍ ، قَالَ: یَا رَسُولَ اللہِ، إِنِّہُ قَدْ أُحِبُّ أَنْ یَکُونَ عِنْدَہُ مِنْکَ کِتَابٌ عَلَی ذَلِکَ، قَالَ:فَکَتَبَ لَنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہَذَا الْکِتَابَ۔
ترجمہ :حضرت سیدناابوالنصر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حجاج بن یوسف کے زمانے میں بصرہ کی ایک مسجد شریف میں بنوتمیم کے ایک بزرگ میرے پاس تشریف لائے اوربیٹھ گئے ، ان کے ہاتھ میں ایک صحیفہ بھی تھا، وہ مجھ سے فرمانے لگے کہ اے بندہ خدا! تمھاراکیاخیال ہے کیایہ خط اس بادشاہ یعنی حجاج بن یوسف کے سامنے مجھے کوئی فائدہ پہنچاسکتاہے ؟ انہوںنے بتایاکہ یہ نبی کریم ﷺکافرمان شریف ہے جو آپ نے ہمارے لئے لکھوایاتھاکہ زکوۃ کی وصولی میں ہم پر زیادتی نہ کی جائے ، میں نے کہا: خداتعالی کی قسم! مجھے تونہیں لگتاکہ اس خط سے آپ کو کوئی فائدہ ہو۔( کیونکہ حجاج بہت ظالم شخص ہے اوروہ رسول اللہ ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعظیم اوررسول اللہ ﷺکی تعلیمات شریفہ پر عمل نہیں کرے گاکیونکہ وہ اپنے اقتدارکے گھمنڈمیں ہے )البتہ یہ بتایئے کہ اس خط کاکیامعاملہ ہے ؟ انہوں نے بتایاکہ میں اپنے والد ماجد رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک مرتبہ مدینہ منورہ آیاہواتھاتواس وقت میں نوجوان تھاہم لوگ اپناایک اونٹ فروخت کرناچاہتے تھے ، میرے والد ماجدحضرت سیدناطلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کے دوست تھے ، اس لئے ہم انہیں کے ہاں جاکرٹھہرے ۔
میرے والد ماجد رضی اللہ عنہ نے ان سے کہاکہ میرے ساتھ چل کر اس اونٹ کو بیچنے میں میری مددفرمائیں ۔ انہوںنے فرمایا: حضورتاجدارختم نبوتﷺنے اس بات سے منع فرمایاہے کہ کوئی شہری کسی دیہاتی کے لئے خریدوفروخت کرے ۔ البتہ میں آپ کے ساتھ چلتاہوں اورآپ کے ساتھ بیٹھ جائوں گا، آپ اپنااونٹ لوگوں کے سامنے پیش کریں جس شخص کے متعلق مجھے یہ اطمینان ہوگاکہ یہ قیمت اداکرے گااورسچاثابت ہوگامیں آپ کو اس کے ہاتھ فروخت کرنے کاکہہ دوں گا۔
چنانچہ ہم نکل کربازارمیں پہنچے اورایک جگہ پہنچ کر رک گئے ، حضرت سیدناطلحہ رضی اللہ عنہ قریب ہی بیٹھ گئے ، کئی لوگوں نے آکربھائوتائوکیا،حتی کہ ایک آدمی آیاجو ہماری منہ مانگی قیمت دینے کے لئے تیارتھا، میرے والد ماجد رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھاکہ اس کے ساتھ معاملہ کرلوں ؟ توانہوں نے اثبات میں جواب دیااورفرمایاکہ مجھے اطمینان ہے یہ تمھاری قیمت پوری پوری اداکردے گا، اس لئے تم یہ اونٹ اس کے ہاتھ فروخت کردو، چنانچہ ہم نے اس کے ہاتھ وہ اونٹ فروخت کردیا۔
جب ہمارے قبضہ میں پیسے آگئے اورہماری ضرورت پوری ہوگئی تو میرے والد ماجد نے حضرت سیدناطلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ سے کہاکہ نبی کریم ﷺسے اس مضمون کاایک خط لکھواکرہمیں دیں کہ زکوۃکی وصولی میں ہم پر زیادتی نہ کی جائے ، اس پر انہوںنے فرمایاکہ یہ تمھارے لئے بھی ہے اورہر ہرمسلمان کے لئے بھی ہے ۔ راوی کہتے ہیں کہ میں اسی وجہ سے چاہتاتھاکہ نبی کریم ﷺکاکوئی خط میرے پاس ہوناچاہئے ۔
بہرحال !حضرت سیدناطلحہ رضی اللہ عنہ ہمارے ساتھ نبی کریم ﷺکی خدمت اقدس میں حاضرہوئے اورعرض کیا: یارسول اللہ ﷺ! یہ صاحب’’جن کاتعلق ایک دیہات سے ہے ‘‘ہمارے دوست ہیں ، ان کی خواہش ہے کہ آپ ﷺانہیں اس نوعیت کاایک مضمون لکھوادیں کہ زکوۃ کی وصولی میں ان پر زیادتی نہ کی جائے۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: یہ ان کے لئے بھی ہے اورہر مومن کے لئے بھی ، میرے والد ماجد نے عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ! میری خواہش ہے کہ آپ ﷺکاکوئی خط اس مضمون پر مشتمل میرے پاس ہو، اس پر نبی کریم ﷺنے یہ خط لکھوادیا۔
(مسند الإمام أحمد بن حنبل:أبو عبد اللہ أحمد بن محمد بن حنبل بن ہلال بن أسد الشیبانی (۳:۲۳)

دشمن صحابہ کو حضرت سیدناعبداللہ رضی اللہ عنہ کاجواب

عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَیْدَۃَ، قَالَ:جَاء َ رَجُلٌ إِلَی ابْنِ عُمَرَ فَسَأَلَہُ عَنْ عُثْمَانَ، فَذَکَرَ عَنْ مَحَاسِنِ عَمَلِہِ، قَالَ: لَعَلَّ ذَاکَ یَسُوء ُکَ؟ قَالَ:نَعَمْ، قَالَ:فَأَرْغَمَ اللَّہُ بِأَنْفِکَ، ثُمَّ سَأَلَہُ عَنْ عَلِیٍّ فَذَکَرَ مَحَاسِنَ عَمَلِہِ، قَالَ: ہُوَ ذَاکَ بَیْتُہُ، أَوْسَطُ بُیُوتِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ:لَعَلَّ ذَاکَ یَسُوء ُکَ؟ قَالَ: أَجَلْ، قَالَ: فَأَرْغَمَ اللَّہُ بِأَنْفِکَ انْطَلِقْ فَاجْہَدْ عَلَیَّ جَہْدَکَ۔
ترجمہ :حضرت سیدناسعد بن عبیدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص حضرت سیدناعبداللہ بن عمررضی اللہ عنہماکی خدمت میں آیااورحضرت سیدناعثمان غنی رضی اللہ عنہ کے متعلق پوچھنے لگا، حضرت سیدناعبداللہ رضی اللہ عنہ نے حضرت سیدناعثمان غنی رضی اللہ عنہ کے محاسن اوران کی خوبیوں کاذکرفرمایا، پھراسے مخاطب کرکے فرمایاکہ شاید یہ باتیں تمھیں بری لگی ہوں گی؟ اس نے کہا:جی ہاں۔ حضرت سیدناعبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ تعالی تیری ناک خاک آلود کرے( یعنی اللہ تعالی تجھے ذلیل ورسواکرے ) اس کے بعد اس نے حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ کے متعلق پوچھا، انہوں نے ان کے بھی محاسن اورخوبیاں بیان کیں اورفرمایاکہ حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ کاگھرانہ نبی کریم ﷺکے خاندان کانہایت اہم گھرانہ ہے ۔ پھرحضرت سیدناعبداللہ رضی اللہ عنہ نے اس سے فرمایاکہ شایدیہ باتیں بھی تجھے بری لگی ہونگی ؟ اس نے کہاکہ جی ہاں۔حضرت سیدناعبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ اللہ تعالی تیری ناک خاک آلودکرے ۔ جامیراجوکچھ بگاڑناچاہتے ہوبگاڑلواوراس میں کچھ کمی نہ کرنااپناپوراپورازورلگانا۔
(صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۵:۱۹)

حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماکانظریہ

عَنْ مُجَاہِدٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: لَا تَسُبُّوا أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ أَمَرَنَا بِالِاسْتِغْفَارِ لَہُمْ وَہُوَ یَعْلَمُ أَنَّہُمْ سَیَقْتَتِلُونَ۔
ترجمہ :حضرت سیدنامجاہد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے تھے کہ لوگو! حضورتاجدارختم نبوتﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی گستاخی نہ کروکیونکہ اللہ تعالی نے ہمیں حکم دیاہے کہ ہم ان کے لئے ترقی درجات کی دعاکریں ، کیونکہ اللہ تعالی توجانتاتھاکہ ان میں قتال ہوگا۔
(الشریعۃ:أبو بکر محمد بن الحسین بن عبد اللہ الآجُرِّیُّ البغدادی (۵:۲۴۸۵)

باہمی قتال کے بعد بھی جنتی؟

عَنْ أَبِی وَائِلٍ عَنْ أَبِی مَیْسَرَۃَ قَالَ:رَأَیْتُ فِی الْمَنَامِ قِبَابًا فِی رِیَاضٍ مَضْرُوبَۃً فَقُلْتُ:لِمَنْ ہَذِہِ؟ قَالُوا: لِذِی الْکَلَاعِ وَأَصْحَابِہِ وَرَأَیْتُ قِبَابًا فِی رِیَاضٍ فَقُلْتُ:لِمَنْ ہَذِہِ؟ قَالُوا:لِعَمَّارٍ وَأَصْحَابَہِ فَقُلْتُ:وَکَیْفَ وَقَدْ قَتَلَ بَعْضُہُمْ بَعْضًا؟ قَالَ: إِنَّہُمْ وَجَدُوا اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ وَاسِعَ الْمَغْفِرَۃِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناابووائل رضی اللہ عنہ حضرت سیدناابومیسرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے خواب میں باغات کے اندرخیمے لگے ہوئے دیکھے توپوچھایہ کس کے لئے ہیں؟ تومجھے بتایاگیاکہ ذی الکلاع اوران کے اصحاب کے لئے ہیں اوراسی طرح میں نے اورخیمے دیکھے توپوچھاکہ یہ کس کے لئے ہیں ؟ تومجھے جواب دیاگیاکہ یہ حضرت سیدناعمار بن یاسر اوران کے ساتھیوں کے لئے ہیں (رضی اللہ عنہم) تومیں نے کہاکہ ان کے لئے ایسے ایسے خیمے حالانکہ انہوںنے توایک دوسرے کو قتل کیاتھا؟ توجواب دیا گیاکہ وہ جب اللہ تعالی کی بارگاہ میں حاضرہوئے توانہوںنے اللہ تعالی کی رحمت کو و سعت والاپایا۔
(الشریعۃ:أبو بکر محمد بن الحسین بن عبد اللہ الآجُرِّیُّ البغدادی (۵:۲۴۸۵)

حضرت سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ایک جلیل القدر شاگردکابیان

عَنْ أَبِی وَائِلٍ قَالَ: رَأَی عَمْرُو بْنُ شُرَحْبِیلَ أَبُو مَیْسَرَۃَ وَکَانَ مِنْ أَفَاضِلِ أَصْحَابِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ مَسْعُودٍ؛ قَالَ: رَأَیْتُ کَأَنِّیَ دَخَلْتُ الْجَنَّۃَ فَإِذَا قِبَابٌ مَضْرُوبَۃٌ فَقُلْتُ:لِمَنْ ہَذِہِ؟ قَالُوا:لِذِی الْکَلَاعِ وَحَوْشَبٍ وَکَانَا مَعَ مَنْ قُتِلَ مَعَ مُعَاوِیَۃَ رَحِمَہُ اللَّہُ فَقُلْتُ:فَأَیْنَ عَمَّارٌ؟ قَالُوا:أَمَامَکَ قُلْتُ:وَقَدْ قَتَلَ بَعْضُہُمْ بَعْضًا قَالَ:لَقُوا اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ فَوَجَدُوہُ وَاسِعَ الْمَغْفِرَۃِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناابووائل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدناعمرو بن شرحبیل رضی اللہ عنہ جو کہ حضرت سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے جلیل القدرشاگردتھے ،فرماتے ہیں کہ میں نے خواب دیکھاکہ میں جنت میں ہوں اوراس میں بڑے شاندارخیمے لگے ہوئے دیکھے تومیں نے سوال کیاکہ یہ کن کے لئے ہیں ؟ تومجھے جواب دیاگیاکہ یہ ان کے لئے ہیں جو حضرت سیدناامیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ جنگ صفین میں شریک تھے تومیںنے سوال کیاکہ پھروہ لوگ کہاں ہیں جو حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے یعنی حضرت سیدناعماربن یاسررضی اللہ عنہ اوران کے ساتھی ؟ تومجھے جوا ب دیاگیاکہ وہ بھی تیرے سامنے جنت میں ہی ہیں ۔ میں نے کہاکہ ایساکیسے ہوگیاکہ انہوںنے توایک دوسرے کوقتل کیاتھااورسارے کے سارے جنت میں بھی جمع ہوگئے ؟ تومجھے اہل جنت نے جواب دیاکہ جب یہ سارے کے سارے اللہ تعالی کی بارگاہ میں حاضرہوئے توانہوںنے اللہ تعالی کی رحمت کو بہت ہی وسعت والاپایا۔
(الشریعۃ:أبو بکر محمد بن الحسین بن عبد اللہ الآجُرِّیُّ البغدادی (۵:۲۴۸۵)

امام حسن بصری المتوفی :۱۱۰ھ)رضی اللہ عنہ کانظریہ

عَنْ عَبْدِ رَبِّہِ قَالَ: کَانَ الْحَسَنُ فِی مَجْلِسٍ فَذَکَرَ کَلَامًا وَذَکَرَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ: أُولَئِکَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانُوا أَبَرَّ ہَذِہِ الْأُمَّۃِ قُلُوبًا وَأَعْمَقَہَا عِلْمًا وَأَقَلَّہَا تَکَلُّفًا قَوْمًا مَا اخْتَارَہُمُ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ لِصُحْبَۃِ نَبِیِّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَإِقَامَۃِ دِینِہِ فَتَشَبَّہُوا بِأَخْلَاقِہِمْ وَطَرَائِقِہِمْ فَإِنَّہُمْ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ عَلَی الْہَدْیِ الْمُسْتَقِیمِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبدربہ رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ حضرت سیدناامام حسن بصری رضی اللہ عنہ کی مجلس شریف میں کلام ذکرکیاگیااورانہوںنے رسول اللہ ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کاذکرخیرکرتے ہوئے فرمایاکہ لوگو! رسول اللہ ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تمام امت میں نیک ترین لوگ ہیں اورعلم میں سب سے گہرائی والے ہیں ، اورسب سے کم تکلف کرنے والے ہیں، اللہ تعالی نے ان کو اپنے حبیب کریم ﷺکی صحبت کے لئے منتخب فرمایا۔ پس تم ان کے اخلاق اپنانے کی کوشش کرواوران کے طریقے اپنائو۔ اللہ تعالی کی قسم اس جہان میں سب سے زیادہ کو ئی جماعت ہدایت پر تھی تویہی جماعت تھی جو رسول اللہ ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تھی۔
(جامع بیان العلم وفضلہ:أبو عمر یوسف بن عبد اللہ بن محمد بن عبد البر بن عاصم النمری القرطبی (۲:۹۴۶)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے گستاخ درحقیقت رسول اللہ ﷺکے گستاخ ہیں
وروی عَنہُ أَیْضا ہِشَام بن یُوسُف الصَّنْعَانِیّ وَضَعفہ بن معِین وَکَانَ ولی للرشید أمرۃ الْمَدِینَۃ وَذکرہ الْخَطِیب فَقَالَ کَانَ مَحْمُودًا فِی ولَایَتہ جمیل السِّیرَۃ مَعَ جلالۃ قدرہ وَذکرہ الزبیر بن بکار فِی النّسَب فَقَالَ حَدثنِی عمی مُصعب عَن أَبِیہ قَالَ قَالَ الْمہْدی مَا تَقول فِیمَن تنقص الصَّحَابَۃ فَقلت زنادقۃ لأَنہم مَا اسْتَطَاعُوا أَن یصرحوا بِنَقص رَسُول اللہ صلی اللہ عَلَیْہِ وَسلم فتنقصوا أَصْحَابہ فکأنہم قَالُوا کَانَ یصحب صحابۃ السوء ۔
ترجمہ :مدینہ طیبہ کے گورنر عبداللہ بن مصعب فرماتے ہیں کہ خلیفہ مہدی نے مجھ سے پوچھا کہ جو لوگ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تنقیص کرتے ہیں ان کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ میں نے کہا: وہ زندیق ہیں کیونکہ ان میںحضورتاجدارختم نبوتﷺکی توہین کرنے کی تو ہمت نہ تھی انہوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی توہین کرنا شروع کردی۔ گویا وہ یوں کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺبرے لوگوں کے ساتھ رہتے تھے۔
(تعجیل المنفعۃ بزوائد رجال الأئمۃ الأربعۃ:أبو الفضل أحمد بن علی بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلانی (۱:۷۶۵)
آج یہی حال لبرل وسیکولر طبقہ کاہے کہ وہ جب یہ چاہتے ہیں کہ اسلام کو گالی دیں تو علماء کرام کو گالیاں دیتے ہیں ۔ ان کاعلماء کرام کوگالیاں دینایہ واضح کرتاہے کہ ان کو اصل تکلیف دین اسلام سے ہے ۔
انہیں لوگوں کے متعلق حضرت سیدناشاہ عبدالعزیزرحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جوشخص دین اورعلماء کرام کی توہین کرتاہے اس خیال سے کہ اس علم اورعلماء کی وجہ سے امر باطل اختیارکیاجاتاہے اورحق کی اہانت ہوتی ہے اوراس کایہ خیال ہے کہ یہ علم یعنی علم دین محض حق تلفی اورنزاع (لڑائی جھگڑے ) کے لئے ہے توایساشخص کافرہے ۔
فتاوی عزیزی مترجم از شاہ عبدالعزیزمحدث دہلوی : ۴۱۴) مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی پاکستان
اسی طرح بہت الفاظ انہیں لبرل وسیکولر طبقہ کی جانب سے علماء کرام کی توہین میں بولے جاتے ہیں کہ علماء ہی فساد کی جڑہیں اورانہیں کی وجہ سے ہماری ترقی رکی ہوئی ہے ۔ ان کی سب بکواسات کے کفرہونے کے لئے شاہ عبدالعزیزرحمہ اللہ تعالی کافتوی ہی کافی ہے ۔
امت مسلمہ کامشاجرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے متعلق نظریہ
مشاجرات صحابہ میں زبان بند رکھنے پر امت مسلمہ کا اجماع ہے۔ ائمہ اہل سنت کا یہ دعویٰ بے دلیل نہیں، واقعی سلف صالحین کا عقیدہ یہی تھا کہ مشاجرات صحابہ میں خاموشی اختیار کی جائے اور اس بارے میں زبان کھولنا گمراہی ہے۔
امام اعظم ابوحنیفہ المتوفی : ۱۵۰ھ) رضی اللہ عنہ کانظریہ
نتولاہم جَمِیعًاوَلَا نذْکر أحدا من أَصْحَاب رَسُول اللہ إِلَّا بِخَیر۔
ترجمہ :اورہم سب رسول اللہ ﷺکے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ محبت کرتے ہیں اورکسی بھی صحابی رضی اللہ عنہ کاذکرخیرکے علاوہ نہیں کرتے ۔
(الفقہ الأکبر لأبی حنیفۃ النعمان بن ثابت بن زوطی بن ماہ :۴۳)
ملا علی قاری المتوفی :۱۴ا۱۰ھ) رحمہ اللہ کاقول
یعنی وان صدر علی بعضہم بعض ماہو فی الصورۃ شر فانہ اما کان عن اجتہاد ولم یکن علی وجہ فساد من احرار و عناد بل کان رجوعہم عنہ الی خیر میعاد بناء علی حسن ظن بہم.
ترجمہ: بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے جو کچھ صادرہوایعنی آپسی اختلافات وغیرہ مگر وہ کسی فساد یا عناد کے نتیجہ میں نہ تھا بلکہ اجتہاد کی بناء پر ایسا ہوا اور ان کااس سے رجوع بہتر انجام کی طرف تھا ان سے حسن ظن کا بھی یہی تقاضا ہے۔
(شرح الفقہ الاکبر لملاعلی قاری حنفی :۱۵۴)
امام عبداللہ بن مبارک المتوفی :۱۸۱ھ) رحمہ اللہ تعالی کانظریہ
نُعَیْمُ بنُ حَمَّادٍ:سَمِعْتُ ابْنَ المُبَارَکِ یَقُوْلُ:السَّیْفُ الَّذِی وَقَعَ بَیْنَ الصَّحَابَۃِ فِتْنَۃٌ، وَلاَ أَقُوْلُ لأَحَدٍ منہم ہو مفتون.
ترجمہ :حضرت سیدنانعیم بن حماد رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سیدناعبداللہ بن مبارک رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سناکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین چلنے والی تلوار فتنہ تھی مگر میں ان میں سے کسی کے بارے میں یہ نہیں کہتا کہ وہ فتنہ میں مبتلا ہوگئے تھے۔
(سیر أعلام النبلاء :شمس الدین أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن عثمان بن قَایْماز الذہبی (ا۷:۳۸۱)
شرف صحبت سب سے بڑی فضیلت ہے
قِیلَ لِابْنِ الْمُبَارَکِ:أَیُّمَا أَفْضَلُ مُعَاوِیَۃُ، أَوْ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ؟ فَقَالَ:الْغُبَارُ الَّذِی دَخَلَ فِی أَنْفِ فَرَسِ مُعَاوِیَۃَ مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَیْرٌ مِنْ مِثْلِ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ کَذَا وَکَذَا مَرَّۃً ۔
ترجمہ :حضرت سیدناامام عبداللہ بن مبارک رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ حضرت سیدناامیرمعاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدناعمر بن عبدالعزیز میں سے کون افضل ہے؟ تو انہوں نے فرمایا:اللہ کی قسم رسول اللہ ﷺکی معیت میں حضرت سیدناامیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑے کی ناک کی غبار حضرت سیدناعمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ سے اتنے درجے افضل ہے۔
(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح:علی بن محمد، أبو الحسن نور الدین الملا الہروی القاری (۱:۱۳۴)
رسول اللہ ﷺکی صحبت ہی شرف اعظم ہے
وعلی ہذا جاء ما نقل عن الإمام الجلیل عبد اللہ بن المبارک ـ علیہ الرحمۃ ـ أنہ سئل فقیل لہ: یا أبا عبد الرحمن أیما أفضل معاویۃ أو عمر بن عبد العزیز؟ فقال:واللہ إن الغبار الذی دخل فی أنف فرس معاویۃ مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أفضل من عمر بألف مرۃ، صلی معاویۃ خلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال رسول اللہ علیہ الصلاۃ والسلام سمع اللہ لمن حمدہ فقال معاویۃ رضی اللہ عنہ :ربنا ولک الحمدفما بعد ہذا’’ الشرف الأعظم‘‘
ترجمہ :حضرت سیدناامام عبداللہ بن مبارک رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ حضرت سیدناامیرمعاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدناعمر بن عبدالعزیز میں سے کون افضل ہے؟ تو انہوں نے فرمایا:اللہ کی قسم رسول اللہ ﷺکی معیت میں حضرت سیدناامیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑے کی ناک کی غبار حضرت سیدناعمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ سے ہزار بار افضل ہے، حضرت سیدناامیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺکے پیچھے نمازیں پڑھیں آپﷺ نے سمع اللہ لمن حمدہ فرمایا تو حضرت سیدناامیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے ربنا لک الحمد کہا اس کے بعد اور بڑا فضل و شرف کیا ہوگا؟
(وفیات الأعیان وأنباء أبناء الزمان: أبو العباس شمس الدین أحمد بن محمد ابن خلکان البرمکی الإربلی (۳:۳۳)
مولاناعبدالعزیز پرہاروی المتوفی : ۱۲۳۹ھ) رحمہ اللہ تعالی کاقول
وعمر یسمی إمام الہدی وخامس الخلفاء الراشدین والمحدثون والفقہاء یحتجون بقولہ ویعظمونہ جدا وکان الخضر علیہ السلام یزورہ وہو أول من أمر بجمع الحدیث فإذا کان معاویۃ رضی اللہ عنہ أفضل منہ فما ظنک بہ.
ترجمہ:آپ رحمہ اللہ تعالی نے حضرت سیدناعبداللہ بن مبارک رضی اللہ عنہ کاقول نقل کرنے کے بعد فرمایاکہ یہ وہ عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ ہیں جن کو امام الہدی کہاجاتاہے اورپانچویں خلیفہ راشدہیں اورمحدثین وفقہاء کرام علیہم الرحمہ ان کے اقوال سے حجت پکڑتے ہیں اورجب انہوںنے تدوین حدیث شریف کاکام شروع کیاتو حضرت سیدناخضرعلیہ السلام ان کو ملنے کے لئے تشریف لائے تھے جب اتنی عظیم ہستی سے حضرت سیدناامیرمعاویہ رضی اللہ عنہ افضل واعلی ہیں تو دوسروں کے بارے میں تیراکیاخیال ہے ؟۔
(الناہیۃ عن طعن أمیر المؤمنین معاویۃ:عبد العزیز الفریہاری الملتانی أبو عبد الرحمن :۲۳۴)
امام الطحاوی الحنفی المتوفی :۳۲۱ھ) کانظریہ
وَنُحِبُّ أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَلَا نُفَرِّطُ فِی حُبِّ أَحَدٍ مِنْہُمْ، وَلَا نَتَبَرَّأُ مِنْ أَحَدٍ مِنْہُمْ وَنُبْغِضُ مَنْ یُبْغِضُہُمْ، وَبِغَیْرِ الْخَیْرِ یَذْکُرُہُمْ,وَلَا نَذْکُرُہُمْ إِلَّا بِخَیْرٍ,وَحُبُّہُمْ دِینٌ وَإِیمَانٌ وَإِحْسَانٌ، وَبُغْضُہُمْ کُفْرٌ وَنِفَاقٌ وَطُغْیَانٌ۔
ترجمہ :ہم حضورتاجدارختم نبوتﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت کرتے ہیں اور ان میں سے نہ کسی ایک کی محبت میں افراط کرتے ہیں اور نہ ہی کسی سے براء ت کا اظہار کرتے ہیں اور جو ان سے بغض رکھتا ہے اور بغیر خیر کے ان کا ذکر کرتا ہے ہم اس سے بغض رکھتے ہیں اور ہم ان کا ذکر صرف بھلائی سے کرتے ہیں، ان سے محبت دین و ایمان اور احسان ہے اور ان سے بغض کفر ونفاق اور سرکشی ہے۔
(شرح العقیدۃ الطحاویۃ:صدر الدین محمد أبی العز الحنفی، الأذرعی الصالحی الدمشقی :۴۶۷)
وہ منافق نہیں ہوسکتا
وَمَنْ أَحْسَنَ الْقَوْلَ فِی أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَأَزْوَاجِہِ الطَّاہِرَاتِ مِنْ کُلِّ دَنَسٍ، وَذُرِّیَّاتِہِ الْمُقَدَّسِینَ مِنْ کُلِّ رِجْسٍ، فَقَدَ بَرِئَ مِنَ النِّفَاقِ۔
ترجمہ :امام ابوجعفرالطحاوی الحنفی المتوفی : ۳۲۱ھ) رحمہ اللہ تعالی نقل فرماتے ہیں کہ جو شخص رسول اللہﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں اچھی بات کرتا ہے، ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کو ہر قسم کے عیب سے پاک سمجھتا ہے اور آپﷺ کی مقدس آل و اولادرضی اللہ عنہم کو ہر قسم کی آلودگی سے مبرا سمجھتا ہے وہ نفاق سے بری ہے۔
(شرح العقیدۃ الطحاویۃ:صدر الدین محمد أبی العز الحنفی، الأذرعی الصالحی الدمشقی :۴۹۰)
اس سے معلوم ہواکہ اہل سنت کاعقیدہ اعتدال والاہے یعنی سنی رسول اللہ ﷺکی آل پاک کابھی غلام ہے اوررسول اللہ ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کابھی نوکرہے ۔ ان میں سے کسی کی بھی ادنی بے ادبی بھی گوارانہیں کرتا۔ بحمدہ تعالی ۔
امام ابن حجرالعسقلانی المتوفی : ۸۵۲ھ)کانظریہ
والظنّ بالصحابۃ فی تلک الحروب أنہم کانوا فیہا متأوّلین، وللمجتہد المخطء أجر، وإذا ثبت ہذا فی حق آحاد الناس، فثبوتہ للصحابۃ بالطریق الأولی۔
ترجمہ:ان لڑائیوں میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں گمان یہی ہے کہ وہ ان میں تاویل کرنے والے تھے۔ مجتہد اگر اجتہاد میں خطاء کرجائے تو اسے ایک اجر ملتا ہے۔ جب یہ حکم کسی ایک مجتہد کے لیے ثابت ہے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حق میں یہ حکم بطریقِ اولیٰ ثابت ہوا۔ ا س لیے اگر کسی صحابی رضی اللہ عنہ سے اجتہادی خطاء ہوئی تو وہ پھر بھی مستحق اجر ہے نہ کہ مستوجب مواخذہ۔
(الإصابۃ فی تمییز الصحابۃ: أبو الفضل أحمد بن علی بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلانی (۷:۲۰۸)
امام کمال الدین ابن الہمام الحنفی المتوفی : ۸۶۱ھ) کانظریہ
واعتقاد اہل السنۃ تزکیۃ جمیع الصحابۃ رضی اللہ عنہم وجوبا باثبات اللہ انہ لکل منہم والکف عن الطعن فیہم والثناء علیہم کما اثنی اللہ سبحانہ وتعالیٰ واثنی علیہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وما جری بین معاویۃ وعلی من الحروب کان مبنیا علی الاجتہاد لا منازعۃ فی الامامۃ .
ترجمہ :علامہ کمال الدین محمد بن محمد ابن الہمام المتوفیٰ :۸۶۱ھ)رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اہل سنت کا اعتقاد یہ ہے کہ وہ تمام صحابہ کرام کو لازمی طور پر پاک صاف مانتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کا تزکیہ فرمایا ہے اور اہل سنت ان کے بارے میں طعن و تشنیع نہیں کرتے اور ان سب کی مدح و ثناء بیان کرتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالی نے ان کی تعریف کی ہے اور رسول اللہ ﷺنے بھی تعریف کی ہے اور حضرت سیدناامیرمعاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدنامولا علی رضی اللہ عنہ کے درمیان جو جنگیں ہوئیں وہ اجتہاد پر مبنی تھیں، یہ جنگیں امامت و خلافت کے جھگڑا کی بناپر نہ تھیں۔
(المسامرہ بشرح المسایرہ لکمال الدین محمدبن محمدبن ابی بکر:۲۵۹)
امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی الشافعی المتوفی : ۶۷۱ھ) کانظریہ
قُلْتُ: فَہَذَا قَوْلٌ فِی سَبَبِ الْحَرْبِ الْوَاقِعِ بَیْنَہُمْ وَقَالَ جِلَّۃٌ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ: إِنَّ الْوَقْعَۃَ بِالْبَصْرَۃِ بَیْنَہُمْ کَانَتْ عَلَی غَیْرِ عَزِیمَۃٍ مِنْہُمْ عَلَی الْحَرْبِ بَلْ فَجْأَۃً، وَعَلَی سَبِیلِ دَفْعِ کُلِّ وَاحِدٍ مِنَ الْفَرِیقَیْنِ عَنْ أَنْفُسِہِمْ لِظَنِّہِ أَنَّ الْفَرِیقَ الْآخَرَ قَدْ غَدَرَ بِہِ، لِأَنَّ الْأَمْرَ کان قد انتظم بینہم،وَتَمَّ الصُّلْحُ وَالتَّفَرُّقُ عَلَی الرِّضَا. فَخَافَ قَتَلَۃُ عُثْمَانَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ مِنَ التَّمْکِینِ مِنْہُمْ وَالْإِحَاطَۃِ بِہِمْ، فَاجْتَمَعُوا وَتَشَاوَرُوا وَاخْتَلَفُوا، ثُمَّ اتَّفَقَتْ آرَاؤُہُمْ عَلَی أَنْ یَفْتَرِقُوا فَرِیقَیْنِ، وَیَبْدَء ُوا بِالْحَرْبِ سُحْرَۃً فِی الْعَسْکَرَیْنِ، وَتَخْتَلِفَ السِّہَامُ بَیْنَہُمْ، وَیَصِیحُ الْفَرِیقُ الَّذِی فِی عَسْکَرِ عَلِیٍّ: غَدَرَ طَلْحَۃُ وَالزُّبَیْرُ، وَالْفَرِیقُ الَّذِی فِی عَسْکَرِ طَلْحَۃَ وَالزُّبَیْرِ: غَدَرَ عَلِیٌّ. فَتَمَّ لَہُمْ ذَلِکَ عَلَی مَا دَبَّرُوہُ، وَنَشِبَتِ الْحَرْبُ، فَکَانَ کُلَّ فَرِیقٍ دَافِعًا لِمَکْرَتِہِ عِنْدَ نَفْسِہِ، وَمَانِعًا مِنَ الْإِشَاطَۃِ بِدَمِہِ وَہَذَا صَوَابٌ مِنَ الْفَرِیقَیْنِ وَطَاعَۃٌ لِلَّہِ تَعَالَی، إِذْ وَقَعَ الْقِتَالُ وَالِامْتِنَاعُ مِنْہُمَا عَلَی ہَذِہِ السَّبِیلِ. وَہَذَا ہُوَ الصَّحِیحُ الْمَشْہُورُ۔
ترجمہ :میں نے کہا کہ بصرہ میں جنگ جمل کا جو واقعہ پیش آیا تھا وہ قتال کے ارادہ سے وقوع پذیر نہیں ہوا تھا بلکہ یہ صورتحال اچانک قائم کردی گئی تھی، ایک فریق یہ گمان کرتے ہوئے کہ دوسرے فریق نے بد عہدی کی ہے اپنے دفاع کے لیے قتال کررہا تھا کیونکہ ان کے درمیان صلح کی بات تو ہوچکی تھی وہ اپنی اپنی جگہ باہمی اعتماد اور رضا مندی سے ٹھہرے ہوئے تھے لیکن قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کو خوف لاحق ہوا کہ یہ صلح ہوگئی تو ہماری خیر نہیں لہذا وہ جمع ہوئے اور مشورہ کرنے لگے، پہلے ان کا کچھ آپس میں اختلاف ہوا لیکن بعد میں اس امر پر متفق ہوگئے کہ ہم دو جماعتوں میں تقسیم ہوجائیں کچھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جماعت میں شامل ہوجائیں اور کچھ دوسرے فریق میں گھس جائیں اور علی الصباح دونوں لشکروں میں لڑائی کی ابتداء کریں، ایک فریق کی جانب سے دوسرے فریق پر تیر اندازی کریں اور جو فریق حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں پہنچے وہ فریاد کرے کہ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ والوں نے عہد شکنی کی ہے اور جو حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ والو ں کے لشکر میں ہوں وہ فریاد کریں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ والوں نے عہد شکنی کی ہے۔ مختصر یہ ہے کہ یہ قتال اور دفاع دونوں فریق کی طرف سے مذکورہ نوعیت میں واقع ہوا تھا۔ یہی بات درست اور صحیح ہے۔
(تفسیر القرطبی: أبو عبد اللہ محمد بن أحمد شمس الدین القرطبی (۱۶:۳۱۹)
امام ابوحاتم محمدبن ادریس الرازی المتوفی : ۲۷۷ھ) رحمہ اللہ تعالی کاقول
حدثنا عبد الرحمن بن أبی حاتم قال:سألت أبا حاتم وأبا زرعۃ الرازیین رحمہما اللہ عن مذاہب أہل السنۃ فی أصول الدین،وما أدرکا علیہ العلماء فی جمیع الأمصار، وما یعتقدان من ذلک، فقالا:ادرکنا العلماء فی جمیع الـامصار حجازا، وعراقا، ومصرا، وشاما، ویمنا، فکان من مذہبہم والترحم علٰی جمیع اصحاب محمد، صلی اللہ علیہ وسلم، والکف عما شجر بینہم۔
ترجمہ :ہمیں عبدالرحمن بن ابی حاتم رحمہ اللہ تعالی نے بیان کیاکہ میں نے ابوحاتم الرازی اورابوذرعہ الرازی رحمہمااللہ تعالی سے یہ سوال کیاکہ اصول دین کے بارے میں ائمہ اہل سنت جو تمام شہروں اورعلاقوں میں پھیلے ہوئے ہیںکانظریہ کیاہے اوراس کے متعلق ان کااپناعقیدہ کیاہے ؟ توان دونوں نے جواب دیاکہ ہم نے حجاز و عراق، مصر و شام اور یمن تمام علاقوں کے علمائے کرام کو دیکھا ہے، ان سب کا مذہب یہ تھاکہ۔۔۔ رسول اللہ ﷺکے تمام صحابہ کے لیے رحمت کی دعا کرنا اور ان کے درمیان ہونے والے اختلافات سے اپنی زبان بند رکھنی چاہیے۔
(العرش:شمس الدین أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن عثمان بن قَایْماز الذہبی (۲:۳۲۹)
محدث ابن جوزی المتوفی : ۵۹۷ھ) رحمہ اللہ تعالی کاقول
ویجب أن یحب (الصحابۃمن أصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم کلہم ونعلم أنہم خیر الخلق بعدرسول اللہ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وأن خیرہم کلہم وأفضلہم بعد رسول اللہ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أبو بکر الصدیق ثم عمر بن الخطاب ثم عثمان بن عفان ثم عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمْ ویشہد للعشرۃ بالجنۃ ویترحم علی أزواج رسول اللہ صَلی اللہُ عَلَیہ وسلم ومن سب سیدتنا عائشۃ رضی اللہ عنہا فلا حظ لہ فی الإسلام ولا یقول فی معاویۃ رضی اللہ عنہ إلا خیرا ولا یدخل فی شیء شجر بینہم ویترحم علی جماعتہم۔
ترجمہ :امام جمال الدین ابوالفرج عبدالرحمن ابن الجوزی المتوفی : ۵۹۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ہرہرمسلمان پر واجب ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺکے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ محبت کرے اورہمارایہ یقین ہے کہ رسول اللہ ﷺکے بعد تمام مخلوق میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم افضل واعلی ہیں ۔ اورتمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سب سے افضل حضرت سیدناابوبکرالصدیق رضی اللہ عنہ ہیں ،پھرحضرت سیدناعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اورپھرحضرت سیدناعثمان غنی رضی اللہ عنہ اورپھران کے بعدحضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ ہیں۔اوررسول اللہ ﷺکے دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جن کے لئے جنت کی بشارت ہے ان کے جنتی ہونے کی گواہی دی جائے گی اوررسول اللہ ﷺکی تمام ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن پر رحم کی دعاکی جائے گی اورجس شخص نے حضرت سیدتناعائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکی گستاخی کی وہ اسلام سے نکل جائے گااورحضرت سیدناامیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں سوائے خیرکے کوئی کلمہ زبان پرنہیں لایاجائے گااورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے باہمی معاملات میں سے کسی بھی معاملہ میں زبان درازی نہیں کی جائے گی اورتمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لئے دعائے خیرکی جائے گی۔
(المنتظم :جمال الدین أبو الفرج عبد الرحمن بن علی بن محمد الجوزی (۱۵:۲۸۱)
یہ یادرہے کہ عباسی خلیفہ القائم بامراللہ، ابوجعفر، ابن القادر، ہاشمی المتوفی :۴۶۷ھ) نے تقریباً (۴۳۰ھ)میں ’’الاعتقاد القادری ‘‘کے نام سے مسلمانوں کا اجماعی و اتفاقی عقیدہ شائع کیا، جسے اس دور کے تمام اہل علم کی تائید حاصل تھی اور اس کا مخالف بااتفاقِ اہل علم فاسق و فاجر قرار پایا۔محدث ابن جوزی رحمہ اللہ تعالی نے مندرجہ بالاعبارت ’’الاعتقادالقادری‘‘‘میں نقل کی ہے ۔
حضرت سیدناامام عوام بن حوشب المتوفی : ۱۴۸ھ) رضی اللہ عنہ کانظریہ
عَنْ شِہَابِ بْنِ خِرَاشٍ عنِ الْعَوَّامِ بْنِ حَوْشَبٍ قَالَ: اذْکُرُوا مَحَاسِنَ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّ تَأْتَلِفُ عَلَیْہِ قُلُوبُکُمْ وَلَا تَذْکُرُوا غَیْرَہُ فَتُحَرِّشُوا النَّاسَ عَلَیْہِمْ ۔
ترجمہ:حضرت سیدناشہاب بن خراش رحمہ اللہ تعالی حضرت سیدناعوام بن حوشب تابعی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:تم رسول اللہ ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے محاسن ہی بیان کیا کرو۔ اس سے تمہارے مابین اتحاد پیدا ہو گا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں بدگمانی والی باتیں نہ کرو۔ اس سے تم لوگوں کو ان کے خلاف بھڑکانے کا سبب بنو گے۔
(کتاب الإمامۃ:أبو نعیم أحمد بن عبد اللہ بن أحمد الأصبہانی :۳۷۵)
امام شہاب الدین بن خراش تبع تابعی المتوفی : ۱۷۴ھ) کانظریہ
ادرکت من ادرکت من صدر ہٰذہ الـامۃ، وہم یقولون :اذکروا اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ما تاتلف علیہ القلوب، ولا تذکروا الذی شجر بینہم، فتحرشوا الناس علیہم۔
ترجمہ: میں نے اس امت کے تمام بزرگوں کو یہی کہتے ہوئے سنا ہے کہ تم رسول اللہ ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا صرف ایسا تذکرہ کیا کرو، جس سے ان کے بارے میں محبت پیدا ہو۔ ان کے اختلافات کا تذکرہ نہ کرو کہ اس سے تم لوگوں کو ان سے متنفر کرنے کا سبب بنو گے۔
(میزان الاعتدال :شمس الدین أبو عبد اللہ محمد الذہبی (المتو۲:۳۸۱)
امام اہل سنت ابوالحسن الاشعری المتوفی : ۳۲۴ھ) رحمہ اللہ تعالی کانظریہ
ونتولی سائر أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ونکف عما شجر بینہم وندین بأن الأئمۃ الأربعۃ خلفاء راشدون، مہدیون فضلاء ، لا یوازنہم فی الفضل غیرہم.
ترجمہ : ہم رحضورتاجدارختم نبوتﷺکے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت رکھتے ہیں اور ان کے مابین ہونے والے اختلافات کے بارے میں اپنی زبان بند رکھتے ہیںاورہم رسول اللہ ﷺکے چاروں خلفاء کرام کے متعلق یہ تصدیق کرتے ہیں کہ وہ سب کے سب خلفاء راشدین مہدیین ہیں ،اورہم سارے جہان میں کسی کوبھی ان کے برابرکانہیں سمجھتے ۔
(الإبانۃ عن أصول الدیانۃ: أبو الحسن علی بن إسماعیل :۲۹)
امام الذہبی المتوفی :۷۴۸ھ) رحمہ اللہ تعالی کاقول
فَسَبِیْلُنَا الکَفُّ وَالاسْتِغْفَارُ لِلصَّحَابَۃِ، وَلاَ نُحِبُّ مَا شَجَرَ بَیْنَہُم، وَنَعُوْذُ بِاللہِ منہ، ونتولی أمیر المؤمنین علیًا.کان النَّاسُ فِی الصَّدْرِ الأَوَّلِ بَعْدَ وَقْعَۃِ صِفِّیْنَ عَلَی أَقسَامٍ: أَہْلُ سُنَّۃٍ: وَہُم أُوْلُو العِلْمِ، وَہُم مُحِبُّوْنَ لِلصَّحَابَۃِ، کَافُّوْنَ عَنِ الخَوضِ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَہُم؛ کسَعْدٍ، وَابْنِ عُمَرَ، وَمُحَمَّدِ بنِ مسلمۃ، وَأُمَمٍ. ثُمَّ شِیْعَۃٌ: یَتَوَالَوْنَ، وَیَنَالُوْنَ مِمَّنْ حَارَبُوا عَلِیّاً، وَیَقُوْلُوْنَ: إِنَّہُم مُسْلِمُوْنَ بُغَاۃٌ ظَلَمَۃٌ. ثُمَّ نَوَاصِبُ: وَہُمُ الَّذِیْنَ حَارَبُوا عَلِیّاً یَوْمَ صِفِّیْنَ، وَیُقِرُّوْنَ بِإِسْلاَمِ علیٍّ وَسَابِقِیْہ، وَیَقُوْلُوْنَ: خَذَلَ الخَلِیْفَۃَ عُثْمَانَ. فَمَا عَلِمتُ فِی ذَلِکَ الزَّمَانِ شِیْعِیّاً کَفَّرَ مُعَاوِیَۃَ وَحِزْبَہُ، وَلاَ نَاصِبِیّاً کَفَّرَ عَلِیّاً وَحِزْبَہُ بَلْ دَخَلُوا فِی سبٍّ وَبُغْضٍ، ثُمَّ صار الیوم شیعۃ زماننا یکفرون الصحابۃ، ویبرء ون مِنْہُم جَہلاً وَعُدوَاناً، وَیَتَعَدُّوْنَ إِلَی الصِّدِّیْقِ قَاتَلَہُمُ اللہُ. وَأَمَّا نَوَاصِبُ وَقْتِنَا فَقَلِیْلٌ، وَمَا عَلِمتُ فیہم من یکفر علیا ولا صحابیا.
ترجمہ: ہمارا طریقہ یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے باہمی اختلافات کے بارے میں زبان بند رکھی جائے اور ان کے لیے مغفرت کی دُعا کی جائے۔ ان کے مابین جو بھی اختلافات ہوئے، ہم ان کا تذکرہ پسند نہیں کرتے، بلکہ ایسے طرز عمل سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آتے ہیںاورہم امیرالمومنین حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ کے ساتھ محبت کرتے ہیں۔
واقعہ صفیں کے بعد صدر اوّل کے لوگ تین اقسام میں بٹ گئے تھے ؛ ایک اہل سنت جو تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت رکھتے تھے اور ان کے باہمی اختلافات میں زبان درازی سے باز رہتے تھے، جیسا کہ سیدنا سعدرضی اللہ عنہ ، سیدنا ابن عمررضی اللہ عنہ،سیدنا محمد بن سلمہ رضی اللہ عنہ اور دیگر بہت سے لوگ۔ دوسرے شیعہ جو اہل بیت کرام رضی اللہ عنہم سے محبت کا دم بھرتے تھے اور جن لوگوں کی سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ سے لڑائی ہوئی، ان کی گستاخی کرتے ہوئے کہتے تھے کہ وہ باغی اور ظالم مسلمان ہیں۔ تیسرے ناصبی لوگ جو صفین والے دن سیدنا مولانا علی رضی اللہ عنہ سے لڑے تھے اور سیدنا ابوبکر و عمررضی اللہ عنہما کو مسلمان سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ سیدنامولا علی رضی اللہ عنہ نے خلیفۃ المسلمین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو بے یار و مدد گار چھوڑ دیا۔ میرے علم میں اُس دور کا کوئی شیعہ ایسا نہیں جو سیدنا امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے گروہ کو کافر قرار دیتا ہو، نہ اس دور کا کوئی ناصبی ایسا تھا جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور ان کے گروہ پر کفر کا فتویٰ لگاتا ہو، بلکہ وہ صرف مخالفین پر سب و شتم کرتے تھے اور دل میں ان کے لیے بغض رکھتے تھے۔ پھر یہ دور آیا کہ ہمارے زمانے کے شیعہ اپنی جہالت اور ہٹ دھرمی کی بنا پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو کافر کہتے ہوئے ان سے براء ت کا اعلان کرنے لگے۔ وہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی ظلم و زیادتی پر مبنی باتیں کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو تباہ و برباد کرے۔ رہے ناصبی تو وہ ہمارے دور میں بہت کم رہ گئے ہیں۔ میرے علم کے مطابق ان میں سے کوئی بھی سیدنا مولاعلی رضی اللہ عنہ یا کسی اور صحابی کو کافر قرار نہیں دیتا۔
(سیر أعلام النبلاء :شمس الدین أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن عثمان بن قَایْماز الذہبی (۱:۴۳)
امام الذہبی رحمہ اللہ تعالی مزید فرماتے ہیں
مَنْ سَکَتَ عَنْ تَرحُّمِ مِثْلِ الشَّہِیْدِ أَمِیْرِ المُؤْمِنِیْنَ عُثْمَانَ، فَإِنَّ فِیْہِ شَیْئاً مِنْ تَشَیُّعٍ، فَمَنْ نَطَقَ فِیْہِ بِغَضٍّ وَتَنَقُّصٍ، وَہُوَ شِیْعِیٌّ جَلْدٌ یُؤَدَّبُ، وَإِنْ تَرَقَّی إِلَی الشَّیْخَیْنِ بِذَمٍّ، فَہُوَ رَافِضِیٌّ خَبِیْثٌ، وَکَذَا مَنْ تَعرَّضَ لِلإِمَامِ عَلِیٍّ بِذَمٍّ، فَہُوَ نَاصِبِیٌّ یُعَزَّرُ، فَإِنْ کَفَّرَہُ فَہُوَ خَارِجِیٌّ مَارِقٌ، بَلْ سَبِیْلُنَا أَنْ نَستغفِرَ للکل، ونحبہم، ونکف عما شجر بینہم.
ترجمہ :جوشخص حضرت سیدناعثمان غنی رضی اللہ عنہ کے بارے میں رحمت کی دعاکرنے سے سکوت کرتاہے یہ یقین کرلیناچاہئے اس ذلیل میں تشیع کامرض ہے ،پھرجوشخص حضرت سیدناعثمان غنی رضی اللہ عنہ کے متعلق نازیبااورگستاخانہ بکواس کرتاہے وہ پکارافضی ہے ، ایسے شخص کو کوڑے مارے جائیں اوراسے ادب سکھایاجائے۔ اوراگرکوئی شخص بے غیرتی میں ترقی کرتاہواشیخین کریمین حضرت سیدناابوبکرالصدیق رضی اللہ عنہ اورحضرت سیدناعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی گستاخی کرتاہے تویقینی رافضی اورپرلے درجے کاخبیث ہے اورایساہی جو شخص امام مولاعلی رضی اللہ عنہ کے متعلق گستاخانہ رویہ رکھتاہے تو ناصبی ذلیل ہے اوراس کو پکڑکر سخت سزادی جائے گی ۔ اگرکوئی شخص حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ یادوسرے کسی بھی صحابی رسول ﷺکے متعلق کفرکاقول کرتاہے تووہ شخص خارجی ہے اوردائرہ اسلام سے خارج ہوچکاہے ۔اوررہاہمارااہل سنت کاطریقہ تووہ یہ ہے ہم رسول اللہ ﷺکے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لئے ترقی درجات کی دعاکرتے ہیں اورہر ایک صحابی رضی اللہ عنہ کے ساتھ محبت کرتے ہیں اوران کے باہمی معاملات میں سے کسی میں بھی زبان درازی نہیں کرتے ۔
(سیر أعلام النبلاء :شمس الدین أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن عثمان بن قَایْماز الذہبی (۱:۴۳)
آپ رحمہ اللہ تعالی مزید فرماتے ہیں
وَخَلَفَ مُعَاوِیَۃَ خَلْقٌ کَثِیْرٌ یُحِبُّوْنَہُ وَیَتَغَالُوْنَ فِیْہِ، وَیُفَضِّلُوْنَہُ، إِمَّا قَدْ مَلَکَہُم بِالکَرَمِ وَالحِلْمِ وَالعَطَاء ِ، وَإِمَّا قَدْ وُلِدُوا فِی الشَّامِ عَلَی حُبِّہِ، وَتَرَبَّی أَوْلاَدُہُمْ عَلَی ذَلِکَ.وَفِیْہِمْ جَمَاعَۃٌ یَسِیْرَۃٌ مِنَ الصَّحَابَۃِ، وَعَدَدٌ کَثِیْرٌ مِنَ التَّابِعِیْنَ وَالفُضَلاَء ِ، وَحَارَبُوا مَعَہُ أَہْلَ العِرَاقِ، وَنَشَؤُوا عَلَی النَّصْبِ نَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الہَوَی کمَا قَدْ نَشَأَ جَیْشُ عَلِیٍّ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ وَرَعِیَّتُہُ إِلاَّ الخَوَارِجَ مِنْہُم عَلَی حُبِّہِ، وَالقِیَامِ مَعَہُ، وَبُغْضِ مَنْ بَغَی عَلَیْہِ، وَالتَّبَرِّی مِنْہُم، وَغَلاَ خَلْقٌ مِنْہُم فِی التَّشَیُّعِ فَبِاللہِ کَیْفَ یَکُوْنُ حَالُ مَنْ نَشَأَ فِی إِقْلِیْمٍ، لاَ یَکَادُ یُشَاہِدُ فِیْہِ إِلاَّ غَالِیاً فِی الحُبِّ، مُفْرِطاً فِی البُغْضِ، وَمِنْ أَیْنَ یَقَعُ لَہُ الإِنْصَافُ وَالاعْتِدَالُ؟فَنَحْمَدُ اللہَ عَلَی العَافِیَۃِ الَّذِی أَوْجَدَنَا فِی زَمَانٍ قَدِ انْمَحَصَ فِیْہِ الحَقُّ، وَاتَّضَحَ مِنَ الطَّرَفَیْنِ، وَعَرَفْنَا مَآخِذَ کُلِّ وَاحِدٍ مِنَ الطَّائِفَتَیْنِ، وَتَبَصَّرْنَا، فَعَذَرْنَا، وَاسْتَغْفَرْنَا، وَأَحْبَبْنَا بِاقْتِصَادٍ، وَتَرَحَّمْنَا عَلَی البُغَاۃِ بِتَأْوِیْلٍ سَائِغٍ فِی الجُمْلَۃِ، أَوْ بِخَطَأٍ إِنْ شَاء َ اللہُ مَغْفُوْرٍ، وَقُلْنَا کَمَا عَلَّمَنَا اللہُ:(رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلإِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالإِیْمَانِ، وَلاَ تَجْعَلْ فِی قُلُوْبِنَا غِلاًّ لِلَّذِیْنَ آمَنُوا) (الحَشْرُ: ۱۰)وَتَرَضَّیْنَا أَیْضاً عَمَّنِ اعْتَزَلَ الفَرِیْقَیْنِ، کَسَعْدِ بنِ أَبِی وَقَّاصٍ، وَابْنِ عُمَرَ، وَمُحَمَّدِ بنِ مَسْلَمَۃَ، وَسَعِیْدِ بنِ زَیْدٍ، وَخَلْقٍ وَتَبَرَّأْنَا مِنَ الخَوَارِجِ المَارِقِیْنَ الَّذِیْنَ حَارَبُوا عَلِیّاً، وَکَفَّرُوا الفَرِیْقَیْنِ.فَالخَوَارِجُ کِلاَبُ النَّارِ، قَدْ مَرَقُوا مِنَ الدِّیْنِ، وَمَعَ ہَذَا فَلاَ نَقْطَعُ لَہُم بِخُلُوْدِ النَّارِ، کَمَا نَقْطَعُ بِہِ لِعَبَدَۃِ الأَصْنَامِ وَالصُّلْبَانِ.
ترجمہ : سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد بہت سے لوگ ایسے تھے جو ان سے محبت رکھتے تھے، ان کے بارے میں غلو سے کام لیتے تھے اور ان کے فضائل بیان کرتے تھے۔ اس کی وجہ یا تو یہ تھی کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنی حکمرانی کے دوران ان سے حلم و کرم اور بخشش کا سلوک فرمایا تھا یا پھر یہ لوگ شام میں پیدا ہوئے تو علاقائی طور پر ان کی محبت میں پرورش پائی اور ان کی اولادیں اسی ماحول میں پروان چڑھیں۔ سیدناامیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے محبت کرنے والوں میں کچھ صحابہ کرام اور تابعین کرام کی ایک بڑی تعداد شامل تھی۔ اہل شام نے سیدنا امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ مل کر اہل عراق کے خلاف لڑائی کی اور ان میں (نعوذ باللہ ) بغض اہل بیت پیدا ہوا۔ اسی طرح خوارج کے علاوہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی رعایا اور ان کا گروہ ان کی محبت و عقیدت میں اور ان کے مخالفین کے بغض و عناد میں پروان چڑھا۔ ان میں سے ایک گروہ تو تشیع میں غلو اختیار کر گیا۔ ایسے علاقے میں پرورش پانے والے لوگوں کا کیا حال ہوتا ہو گا کہ جو اپنے ارد گرد کے لوگوں کو کسی خاص شخص کی محبت میں غلو کرتے اور کسی خاص شخص کے بغض میں حد سے بڑھتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے انصاف اور اعتدال کی کیا امید کی جا سکتی ہے ؟ ہم اللہ تعالیٰ کا شکر کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں ایسے پرعافیت زمانے میں پیدا کیا جس میں حق نتھر کر سامنے آ گیا اور طرفین کے دلائل واضح ہو گئے۔ ہم نے دونوں گروہوں کے مآخذ تک رسائی حاصل کی، غور و فکر کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ سب لوگ قابل قبول عذر رکھتے تھے۔ چنانچہ ہم نے ان سب کے لیے دُعائے مغفرت کی اور اعتدال پسندی کو اختیار کرتے ہوئے جائز تاویل یا معاف شدہ غلطی کی بنیاد پر باغیوں کے لیے بھی رحمت کی دُعا کی اور وہی کہا جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں سکھایا تھا کہ {رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِینَ سَبَقُونَا بِالْإِیمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِی قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِینَ آمَنُوا}(الحشر :۱۰)اے ہمارے رب!ہمیں بھی معاف فرما دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ایمان کی حالت میں ہم سے پہلے گزر چکے ہیں اور ہمارے دلوں میں ایمان والوں کے بارے میں کوئی خلش نہ ڈالنا۔ ہم نے ان صحابہ کرام کے بارے میں رضائے الٰہی طلب کی جنہوں نے دونوں فریقوں سے علیحدگی اختیار کی تھی، ان میں سیدنا سعد بن ابی وقاص، سیدناعبداللہ ابن عمر، سیدنا محمد بن مسلمہ، سیدنا سعید بن زید وغیرہ رضی اللہ عنہم شامل تھے۔ البتہ ہم مسلمانوں کی جماعت سے نکل جانے والے ان خارجیوں سے براء ت کا اعلان کرتے ہیں جنہوں نے سیدنا مولاعلی رضی اللہ عنہ کے خلاف لڑائی کی اور سب صحابہ کرام کو کافر قرار دیا۔ (نعوذ باللہ من ذالک)خوارج جہنم کے کتے ہیں، وہ اسلام سے نکل چکے تھے۔ اس کے باوجود ہم ان کو اس طرح ہمیشہ کے جہنمی نہیں سمجھتے جس طرح بتوں کے پجاریوں اور صلیبیوں کو سمجھتے ہیں۔
(سیر أعلام النبلاء :شمس الدین أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن عثمان بن قَایْماز الذہبی (۳:۱۲۸)
امام محمدبن الحسین الآجری المتوفی :۳۶۰ھ) رحمہ اللہ تعالی کانظریہ
قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَیْنِ رَحِمَہُ اللَّہُ: قَدْ عَلِمَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُ سَیَکُونُ فِی آخِرِ الزَّمَانِ أَقْوَامٌ یَلْعَنُونَ أَصْحَابَہُ فَلَعَنَ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ لَعَنَ أَصْحَابَہُ أَوْ سَبَّہُمْ فَقَالَ: مَنْ لَعَنَ أَصْحَابِی فَعَلَیْہِ لَعْنَۃُ اللَّہِ وَالْمَلَائِکَۃِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِینَ لَا یَقْبَلُ اللَّہُ مِنْہُ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا وَیُقَالُ:الصَّرْفُ الْفَرْضُ وَالْعَدْلُ التَّطَوُّعُ ثُمَّ أَمَرَ جَمِیعَ النَّاسِ أَنْ یَحْفَظُوہُ فِی أَصْحَابِہِ وَأَنْ یُکْرِمُوہُمْ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَیْنِ رَحِمَہُ اللَّہُ: فَمَنْ لَمْ یُکْرِمْہُمْ فَقَدْ أَہَانَہُم وَمَنْ سَبَّہُمْ فَقَدْ سَبَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمَنْ سَبَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اسْتَحَقَّ اللَّعْنَۃَ مِنَ اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ وَمِنَ الْمَلَائِکَۃِ وَمِنَ النَّاسِ أَجْمَعِین وَقَدْ قَالَ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:إِذَا لَعَنَ آخِرُ ہَذِہِ الْأُمَّۃِ أَوَّلَہَا فَمَنْ کَانَ عِنْدَہُ عِلْمٌ فَلْیُظْہِرْہُ فَإِنَّ کَاتِمَ الْعِلْمِ یَوْمَئِذٍ کَکَاتِمِ مَا أَنْزَلَ اللَّہُ عَلَی مُحَمَّدٍ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
ترجمہ :حضرت سیدناامام محمدبن الحسین الآجری رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺیہ جانتے تھے کہ آخری زمانہ میں ایسے خبیث لوگ آئیں گئے جو میرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی گستاخیاں کریں گے ،اسی لئے رسول اللہ ﷺنے ان پر لعنت فرمائی جو رسول اللہ ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حق میں لعنت کرتے ہیں یارسول اللہﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی گستاخیاں کرتے ہیں ۔
اوررسول اللہ ﷺنے فرمایا: جو شخص میرے کسی بھی صحابی رضی اللہ عنہ پر لعنت کرے یاان کی گستاخی کرے اس پر اللہ تعالی کی اورتمام ملائکہ کرام علیہم السلام کی اورتمام لوگوں کی لعنت ہے ۔ اللہ تعالی ایسے شخص کے نافرض قبول فرمائے گااورنہ ہی نفل ۔پھررسول اللہ ﷺنے اپنی تمام امت کوحکم دیاکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عزت وناموس کا دفاع کریں اوران کی عزت واحترام کریں۔
امام محمدبن الحسین الآجری رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جوشخص رسول اللہ ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی عزت نہ کرے یارسول اللہ ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی گستاخی کرے تویقینی بات ہے کہ اس نے رسول اللہ ﷺکی گستاخی کی ہے اورجس نے رسول اللہ ﷺکی گستاخی کی ہے وہ اس بات کامستحق ہے کہ اس پر اللہ تعالی کی لعنت ہواورتمام ملائکہ کرام کی اورتمام لوگوں کی اوررسول اللہ ﷺنے فرمایاکہ اس امت میں ایک گروہ ہوگاجو میرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی گستاخیاں کرے گاتوایسے وقت میں جو عالم میرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ناموس پر پہرہ نہ دے تو وہ شخص ایساہوگاجیسے کسی نے رسول اللہ ﷺپرنازل ہونے والے سارے دین کو چھپالیاہو۔
(الشریعۃ:أبو بکر محمد بن الحسین بن عبد اللہ الآجُرِّیُّ البغدادی۵:۲۴۹۴)
امام محمد بن حسین آجری رحمہ اللہ مزیدفرماتے ہیں
ذِکْرُ الْکَفِّ عَمَّا شَجَرَ بَیْنَ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَرَحْمَۃُ اللَّہِ تَعَالَی عَلَیْہِمْ أَجْمَعِینَ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَیْنِ رَحِمَہُ اللَّہُ:یَنْبَغِی لِمَنْ تَدَبَّرَ مَا رَسَمْنَاہُ مِنْ فَضَائِلِ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَفَضَائِلِ أَہْلِ بَیْتِہِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمْ أَجْمَعِینَ أَنْ یُحِبَّہُمْ وَیَتَرَحَّمَ عَلَیْہِمْ وَیَسْتَغْفِرَ لَہُمْ وَیَتَوَسَّلَ إِلَی اللَّہِ الْکَرِیمِ بِہِمْ وَیَشْکُرَ اللَّہَ الْعَظِیمَ إِذْ وَفَّقَہُ لِہَذَا وَلَا یَذْکُرَ مَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ وَلَا یَنْقُرَ عَنْہُ وَلَا یَبْحَثَ فَإِنْ عَارَضَنَا جَاہِلٌ مَفْتُونٌ قَدْ خُطِئِ بِہِ عَنْ طَرِیقِ الرَّشَادِ فَقَالَ: لِمَ قَاتَلَ فُلَانٌ لِفُلَانٍ وَلِمَ قَتَلَ فُلَانٌ لِفُلَانٍ وَفُلَانٍ؟ . قِیلَ لَہُ: مَا بِنَا وَبِکَ إِلَی ذِکْرِ ہَذَا حَاجَۃٌ تَنْفَعُنَا وَلَا اضْطُرِرْنَا إِلَی عِلْمِہَا. فَإِنْ قَالَ: وَلِمَ؟ قِیلَ لَہُ: لِأَنَّہَا فِتَنٌ شَاہَدَہَا الصَّحَابَۃُ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمْ فَکَانُوا فِیہَا عَلَی حَسَبِ مَا أَرَاہُمُ الْعِلْمُ بِہَا وَکَانُوا أَعْلَمَ بِتَأْوِیلِہَا مِنْ غَیْرِہِمْ , وَکَانُوا أَہْدَی سَبِیلًا مِمَّنْ جَاء َ بَعْدَہُمْ لِأَنَّہُمْ أَہْلُ الْجَنَّۃِ عَلَیْہِمْ نَزَلَ الْقُرْآنُ وَشَاہَدُوا الرَّسُولَ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَجَاہَدُوا مَعَہُ وَشَہِدَ لَہُمُ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ بِالرِّضْوَانِ وَالْمَغْفِرَۃِ وَالْأَجْرِ الْعَظِیمِ وَشَہِدَ لَہُمُ الرَّسُولُ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُمْ خَیْرُ قَرْنٍ.فَکَانُوا بِاللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ أَعْرَفَ وَبِرَسُولِہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَبِالْقُرْآنِ وَبِالسُّنَّۃِ وَمِنْہُمْ یُؤْخَذُ الْعِلْمُ وَفِی قَوْلِہِمْ نَعِیشُ وَبِأَحْکَامِہِمْ نَحْکُمُ وَبِأَدَبِہِمْ نَتَأَدَّبُ وَلَہُمْ نَتَّبِعُ وَبِہَذَا أُمِرْنَافَإِنْ قَالَ:وَإِیشِ الَّذِی یَضُرُّنَا مِنْ مَعْرِفَتِنَا لِمَا جَرَی بَیْنَہُمْ وَالْبَحْثِ عَنْہُ؟ قِیلَ لَہُ: مَا لَا شَکَّ فِیہِ وَذَلِکَ أَنَّ عُقُولَ الْقَوْمِ کَانَتْ أَکْبَرَ مِنْ عُقُولِنَا وَعُقُولُنَا أَنْقَصُ بِکَثِیرٍ وَلَا نَأْمَنُ أَنْ نَبْحَثَ عَمَّا شَجَرَ بَیْنَہُمْ فَنَزِلَّ عَنْ طَرِیقِ الْحَقِّ وَنَتَخَلَّفَ عَمَّا أُمِرْنَا فِیہِمْ. فَإِنْ قَالَ: وَبِمَ أُمِرْنَا فِیہِمْ؟ قِیلَ: أُمِرْنَا بِالِاسْتِغْفَارِ لَہُمْ وَالتَّرَحُّمِ عَلَیْہِمْ وَالْمَحَبَّۃِ لَہُمْ وَالِاتِّبَاعِ لَہُمْ دَلَّ عَلَی ذَلِکَ الْکِتَابُ وَالسُّنَّۃُ وَقَوْلُ أَئِمَّۃِ الْمُسْلِمِینَ وَمَا بِنَا حَاجَۃٌ إِلَی ذِکْرِ مَا جَرَی بَیْنَہُمْ قَدْ صَحِبُوا الرَّسُولَ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَصَاہَرَہُمْ وَصَاہَرُوہُ فَبِالصُّحْبَۃِ یَغْفِرُ اللَّہُ الْکَرِیمُ لَہُمْ وَقَدْ ضَمِنَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ فِی کِتَابِہِ أَنْ لَا یُخْزِیَ مِنْہُمْ وَاحِدًا وَقَدْ ذَکَرَ لَنَا اللَّہُ تَعَالَی فِی کِتَابِہِ أَنَّ وَصْفَہُمُ فِی التَّوْرَاۃِ وَالْإِنْجِیلِ فَوَصَفَہُمْ بِأَجْمَلِ الْوَصْفِ وَنَعَتَہُمْ بِأَحْسَنِ النَّعْتِ وَأَخْبَرَنَا مَوْلَانَا الْکَرِیمُ أَنَّہُ قَدْ تَابَ عَلَیْہِمْ وَإِذَا تَابَ عَلَیْہِمْ لَمْ یُعَذِّبْ وَاحِدًا مِنْہُمْ أَبَدًا رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمْ وَرَضُوا عَنْہُ أُولَئِکَ حِزْبُ اللَّہِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّہِ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ: إِنَّمَا مُرَادِی مِنْ ذَلِکَ لِأَنْ أَکُونَ عَالِمًا بِمَا جَرَی بَیْنَہُمْ فَأَکُونَ لَمْ یَذْہَبْ عَلَیَّ مَا کَانُوا فِیہِ لِأَنِّی أَحَبُّ ذَلِکَ وَلَا أَجْہَلُہُ قِیلَ لَہُ: أَنْتَ طَالِبُ فِتْنَۃٍ لِأَنَّکَ تَبْحَثُ عَمَّا یَضُرُّکَ وَلَا یَنْفَعُکَ وَلَوِ اشْتَغَلْتَ بِإِصْلَاحِ مَا لِلَّہِ عَزَّ وَجَلَّ عَلَیْکَ فِیمَا تَعَبَّدَکَ بِہِ مِنْ أَدَاء ِ فَرَائِضِہِ وَاجْتِنَابِ مَحَارِمِہِ کَانَ أَوْلَی بِکَ وَقِیلَ: وَلَا سِیَّمَا فِی زَمَانِنَا ہَذَا مَعَ قُبْحِ مَا قَدْ ظَہْرَ فِیہِ مِنَ الْأَہْوَاء ِ الضَّالَّۃِوَقِیلَ لَہُ: اشْتِغَالُکَ بِمَطْعَمِکَ وَمَلْبَسِکَ مِنْ أَیْنَ ہُوَ؟ أَوْلَی بِکَ , وَتَکَسُّبُکَ لِدِرْہَمِکَ مِنْ أَیْنَ ہُوَ؟ وَفِیمَا تُنْفِقُہُ؟ أَوْلَی بِکَ. وَقِیلَ: لَا یَأْمَنُ أَنْ یَکُونَ بِتَنْقِیرِکَ وَبَحْثِکَ عَمَّا شَجَرَ بَیْنَ الْقَوْمِ إِلَی أَنْ یَمِیلَ قَلْبُکَ فَتَہْوَی مَا لَا یَصْلُحُ لَکَ أَنْ تَہْوَاہُ وَیَلْعَبَ بِکَ الشَّیْطَانُ فَتَسُبَّ وَتُبْغِضَ مَنْ أَمَرَکَ اللَّہُ بِمَحَبَّتِہِ وَالِاسْتِغْفَارِ لَہُ وَبِاتِّبَاعِہِ فَتَزِلَّ عَنْ طَرِیقِ الْحَقِّ وَتَسْلُکَ طَرِیقَ الْبَاطِلِ. فَإِنْ قَالَ: فَاذْکُرْ لَنَا مِنَ الْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ وَعَمَّنْ سَلَفَ مِنْ عُلَمَاء ِ الْمُسْلِمِینَ مَا یَدُلُّ عَلَی مَا قُلْتَ لِتَرُدَّ نُفُوسَنَا عَمَّا تَہْوَاہُ مِنَ الْبَحْثِ عَمَّا شَجَرَ بَیْنَ الصَّحَابَۃِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمْ قِیلَ لَہُ: قَدْ تَقَدَّمَ ذِکْرُنَا لِمَا ذَکَرْتُہُ مِمَّا فِیہِ بَلَاغٌ وَحُجَّۃٌ لِمَنْ عَقَلَ وَنُعِیدُ بَعْضَ مَا ذَکَرْنَاہُ لِیَتَیَقَّظَ بِہِ الْمُؤْمِنُ الْمُسْتَرْشِدُ إِلَی طَرِیقِ الْحَقِّ:قَالَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ: (مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّہِ وَالَّذِینَ مَعَہُ أَشِدَّاء ُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَاء ُ بَیْنَہُمْ تَرَاہُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّہِ وَرِضْوَانًا سِیمَاہُمْ فِی وُجُوہِہُمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَلِکَ مَثَلُہُمْ فِی التَّوْرَاۃِ وَمَثَلُہُمْ فِی الْإِنْجِیلِ کَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَہُ فَآزَرَہُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَی عَلَی سُوقِہِ یُعْجِبُ الزِّرَاعَ لِیَغِیظَ بِہِمُ الْکُفَّارَ)(الفتح: ۲۹)ثُمَّ وَعَدَہُمْ بَعْدَ ذَلِکَ الْمَغْفِرَۃَ وَالْأَجْرَ الْعَظِیمَ وَقَالَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ:(لَقَدْ تَابَ اللَّہُ عَلَی النَّبِیِّ وَالْمُہَاجِرِینَ وَالْأَنْصَارِ الَّذِینَ اتَّبَعُوہُ فِی سَاعَۃِ الْعُسْرَۃِ)(التوبۃ: ۱۱۷)وَقَالَ عَزَّ وَجَلَّ:(وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُہَاجِرِینَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِینَ اتَّبَعُوہُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمْ)(التوبۃ:۱۰۰)إِلَی آخِرِ الْآیَۃِ وَقَالَ عَزَّ وَجَلَّ:(یَوْمَ لَا یُخْزِی اللَّہُ النَّبِیَّ وَالَّذِینَ آمَنُوا مَعَہُ نُورُہُمْ یَسْعَی بَیْنَ أَیْدِیہِمْ وَبِأَیْمَانِہِمْ)(التحریم:۸)الْآیَۃُ وَقَالَ عَزَّ وَجَلَّ:(کُنْتُمْ خَیْرُ أُمَّۃٍ)(آل عمران:۱۱۰)الْآیَۃُوَقَالَ عَزَّ وَجَلَّ (لَقَدْ رَضِیَ اللَّہُ عَنِ الْمُؤْمِنِینَ)(الفتح:۱۸)إِلَی آخِرِ الْآیَۃِ ثُمَّ إِنَّ اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ أَثْنَی عَلَی مَنْ جَاء َ بَعْدَ الصَّحَابَۃِ فَاسْتَغْفَرَ لِلصَّحَابَۃِ وَسَأَلَ مَوْلَاہُ الْکَرِیمَ أَنْ لَا یَجْعَلَ فِی قَلْبِہِ غِلًّا لَہُمْ فَأَثْنَی اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَیْہِ بِأَحْسَنِ مَا یَکُونُ مِنَ الثَّنَاء ِ؛ فَقَالَ عَزَّ وَجَلَّ:(وَالَّذِینَ جَاء ُوا مِنْ بَعْدِہِمْ) إِلَی قَوْلِہِ:(رَء ُوفٌ رَحِیمٌ)وَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:خَیْرُ النَّاسِ قَرْنِی ثُمَّ الَّذِینَ یَلُونَہُمْ ثُمَّ الَّذِینَ یَلُونَہُمْ وَقَالَ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:إِنَّ اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ اخْتَارَ أَصْحَابِی عَلَی جَمِیعِ الْعَالَمِینَ إِلَّا النَّبِیِّینَ وَالْمُرْسَلِینَ , وَاخْتَارَ لِی مِنْ أَصْحَابِی أَرْبَعَۃً أَبَا بَکْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ وَعَلِیًّا فَجَعَلَہُمْ خَیْرَ أَصْحَابِی وَفِی أَصْحَابِی کُلُّہُمْ خَیْرٌ وَاخْتَارَ أُمَّتِی عَلَی سَائِرِ الْأُمَمِ . وَقَالَ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إِنَّ مَثَلَ أَصْحَابِی فِی أُمَّتِی کَالْمِلْحِ فِی الطَّعَامِ لَا یَصْلُحُ الطَّعَامُ إِلَّا بِالْمِلْحِ ،رُوِیَ ہَذَا عَنِ الْحَسَنِ عَنْ أَنَسٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ. قَالَ: فَکَانَ الْحَسَنُ إِذَا حَدَّثَ بِہَذَا یَقُولُ:قَدْ ذَہَبَ مِلْحُنَا فَکَیْفَ نَصْلحُ؟ وَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: إِنَّ اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ نَظَرَ فِی قُلُوبِ الْعِبَادِ فَوَجَدَ قَلْبَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَیْرَ قُلُوبِ الْعِبَادِ فَاصْطَفَاہُ لِنَفْسِہِ , وَبَعَثَہُ بِرِسَالَتِہِ ثُمَّ نَظَرَ فِی قُلُوبِ الْعِبَادِ بَعْدَ قَلْبِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَوَجَدَ قُلُوبَ أَصْحَابِہِ خَیْرَ قُلُوبِ الْعِبَادِ فَجَعَلَہُمْ وزَرَاء َ نَبِیِّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُقَاتِلُونَ عَلَی دِینِہِ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَیْنِ رَحِمَہُ اللَّہُ: یُقَالُ لِمَنْ سَمِعَ ہَذَا مِنَ اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ وَمِنْ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إِنْ کُنْتَ عَبْدًا مُوَفَّقًا لِلْخَیْرِ اتَّعْظَتْ بِمَا وَعَظَکَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ بِہِ وَإِنْ کُنْتَ مُتَّبِعًا لِہَوَاکَ خَشِیتُ عَلَیْکَ أَنْ تَکُونَ مِمَّنْ قَالَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ (وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ ہَوَاہُ بِغَیْرِ ہُدًی مِنَ اللَّہِ)(القصص:۵۰)وَکُنْتَ مِمَّنْ قَالَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ (وَلَوْ عَلِمَ اللَّہُ فِیہِمْ خَیْرًا لَأَسْمَعَہُمْ وَلَوْ أَسْمَعَہُمْ لَتَوَلَّوْا وَہُمْ مُعْرِضُونَ)(الأنفال: ۲۳)وَیُقَالُ لَہُ: مَنْ جَاء َ إِلَی أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتَّی یَطْعَنَ فِی بَعْضِہِمْ وَیَہْوَی بَعْضَہُمْ وَیَذُمَّ بَعْضًا وَیَمْدَحَ بَعْضًا فَہَذَا رَجُلٌ طَالِبُ فِتْنَۃٍ وَفِی الْفِتْنَۃِ وَقَعَ؛ لِأَنَّہُ وَاجِبٌ عَلَیْہِ مَحَبَّۃُ الْجَمِیعِ وَالِاسْتِغْفَارِ لِلْجَمِیعِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمْ وَنَفَعَنَا بِحُبِّہِمْ۔
ترجمہ : ہم نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور آپ ﷺکے اہل بیت رضی اللہ عنہم کے جو فضائل بیان کیے ہیں، جو شخص ان کو غور سے ملاحظہ کر لے، اسے چاہئیے کہ وہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اہل بیت رضی اللہ عنہم سے محبت رکھے، سب کے لیے رحمت اور مغفرت کی دُعا کرے۔ ان (کے بارے میں اس عقیدے )کو اللہ تعالیٰ کے دربار میں وسیلہ بناتے ہوئے اس طرف توفیق دینے پر اللہ تعالیٰ کا شکر بھی ادا کریں، وہ صحابہ کرام کے مابین جو اختلافات ہوئے، ان کا نہ ذکر کرے، نہ ان کے بارے میں بحث و تفتیش میں پڑے۔ اگر راہِ ہدایت سے بھٹکا ہوا کوئی جاہل اور پاگل شخص تکرار کرتے ہوئے ہمیں کہے کہ فلاں صحابی نے فلاں سے لڑائی کیوں کی اور فلاں نے فلاں کو قتل کیوں کیا ؟ تو ہم اسے جواب میں یہ کہیں گے کہ ہمیں اس بات کا نہ تو کوئی فائدہ ہے نہ ہم اسے معلوم کرنے پر مجبور ہیں۔ اگر وہ کہے کہ کیوں ؟ تو ہم کہیں گے کہ یہ فتنے تھے جن سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا پالا پڑا اور انہوں نے ان فتنوں میں وہی طریقہ کار اپنایا جس کی طرف ان کے علمی اجتہاد نے ان کی رہنمائی کی۔ وہ ان فتنوں کی حقیقت کو بعد والوں سے بڑھ کر جانتے تھے۔ وہ بعد والوں سے زیادہ سیدھے راستے پر گامزن تھے، کیونکہ وہ اہل جنت تھے، ان کے سامنے قرآن نازل ہوا، انہوں نے رسول اللہﷺ کا دیدار کیا اور آپﷺ کی معیت میں جہاد بھی کیا، اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے اپنی خوشنودی، مغفرت اور اجر عظیم کی ضمانت دی اور رسولِ کریم ﷺنے ان کے خیرالقرون ہونے کی گواہی دی۔ وہ اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑھ کر معرفت رکھنے والے تھے، اس کے رسولﷺکو سب سے زیادہ جاننے والے اور قرآن و سنت کو سب سے زیادہ سمجھنے والے تھے، لہٰذا ہم علم انہی سے اخذ کرتے ہیں، ان کے اقوال سے تجاوز نہیں کرتے، انہی کے فیصلوں کو نافذ کرتے ہیں، اپنے آپ کو انہی کے رنگ میں رنگتے ہیں، انہی کی پیروی کرتے ہیں اور ہمیں حکم بھی اسی بات کا دیا گیا ہے۔ اگر وہ شخص یہ کہہ دے کہ ہمیں صحابہ کرام کے باہمی اختلافات کی جانچ پڑتال میں پڑنے سے کون سا نقصان ہو جائے گا ؟ تو ہم کہیں گے مشاجرات ِ صحابہ میں دخل دینے سے نقصان میں مبتلا ہونا لازم ہے، کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عقلی اعتبار سے ہم سے بہت فائق تھے، جبکہ ہم ان کے مقابلے میں بہت زیادہ کم عقل ہیں، یوں اگر ہم ان کے مابین اختلافات میں غور و خوض کریں گے تو ضروری طور پر راہِ حق سے گمراہ ہو جائیں گے اور ان کے بارے میں جس سلوک کا ہمیں حکم دیا گیا ہے، اس سے منحرف ہو جائیں گے۔ اگر وہ سوال کرے کہ ہمیں صحابہ کرام کے بارے میں کیا حکم دیا گیا ہے ؟ تو ہم کہیں گے کہ ہمیں ان کے لیے استغفار اور رحمت کی دُعا کرنے، ان سے محبت رکھنے اور ان کی اطاعت کرنے کا حکم سنایا گیا ہے۔ اس پر کتاب و سنت اور ائمہ مسلمین کے اقوال دلیل ہیں۔ ہمیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین اختلافات کو ذکر کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ وہ حضورتاجدارختم نبوتﷺ کی صحبت سے مشرف ہوئے اور انہوں نے آپﷺسے رشتہ داری اختیار کی اور آپ ﷺ نے بھی ان سے رشتہ داری بنائی۔ حضورتاجدارختم نبوتﷺکی صحبت کی بنا پر ہی اللہ کریم ان کو معاف فرما دے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں یہ ضمانت دی ہے کہ وہ ان میں سے کسی کو رسوا نہیں کرے گا اور قرآنِ کریم میں یہ بھی ذکر کیا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی نشانیاں توراۃ و انجیل میں مذکور ہیں۔ یوں اللہ تعالیٰ نے انہیں بہترین محاسن و اوصاف سے متصف فرمایا اور ہمیں یہ بتا دیا کہ اس نے اُن کی توبہ قبول کر لی ہے۔ جب ان کی توبہ قبول ہو گئی ہے تو ان میں سے کسی کو کبھی بھی عذاب نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے راضی ہو گیا اور صحابہ کرام اللہ تعالیٰ سے راضی ہو گئے ہیں۔ یہ لوگ اللہ کا گروہ تھے اور اللہ کا گروہ ہی کامیاب و کامران ہے۔ اگر کوئی کہے کہ اس سے میری مراد یہ ہے کہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اختلافات سے باخبر ہو جاؤں اور وجہ اختلاف جاننا مجھے اچھا لگتا ہے۔ اسے کہا جائے کہ تو فتنہ برپا کرنا چاہتا ہے، کیونکہ تو وہ چیز طلب کر رہا ہے جو تجھے کوئی فائدہ نہیں دے سکتی، البتہ نقصان ضرور دے گی۔ اگر اس کے بجائے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کیے گئے فرائض و واجبات کی ادائیگی کر کے اور اس کے بیان کردہ محرمات سے بچ کر اپنی بندگی کی اصلاح کر لیتا تو یہ کام تیرے لیے بہتر ہوتا، خصوصاً ہمارے اس زمانے میں جب کہ بہت سی گمراہیاں بھی سر اٹھا چکی ہیں۔ تیرے کھانے پینے، لباس اور معاش کا انتظام کہاں سے ہو گا اور مال کو خرچ کہاں کرنا ہے ؟ اس بارے میں غور و فکر تیرے لیے زیادہ بہتر ہے۔ صحابہ کرام کے مشاجرات کی بحث و تفتیش میں پڑنے کے بعد تیرا دل کج روی سے محفوظ نہیں رہ پائے گا اور تو وہ سوچنے لگے گا، جو تیرے لیے جائز ہی نہیں، شیطان تجھے بہکائے گا اور تو ان ہستیوں کو برا بھلا کہنے لگے گا اور ان سے بغض رکھنے لگے گا، جن سے محبت کرنے، جن کے بارے میں استغفار کرنے اور جن کی پیروی کرنے کا تجھے اللہ کی طرف سے حکم ہے۔ یوں تو شاہراہِ حق سے بھٹک کر باطل کی پگڈنڈیوں کا راہی بن جائے گا۔ اگر وہ کہے کہ ہمیں قرآن و سنت کی نصوص اور علمائے مسلمین کے اقوال میں وہ بات دکھاؤ جس سے تمہارا مدعا ثابت ہوتا کہ ہم صحابہ کرام کے باہمی اختلافات کے بارے میں بحث و تفتیش کی خواہش سے باز آ جائیں، تو اس سے کہا جائے گا کہ اس سلسلے میں وہ تمام چیزیں ہم ذکر کر چکے ہیں جن سے ذی شعور شخص کو حقیقت کا ادراک ہو سکتا ہے، البتہ ان میں سے کچھ باتیں یہاں دوبارہ ذکر کی جائیں گی تاکہ حق کے متلاشی مؤمن کا ضمیر جاگ جائے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
{مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّـہِ وَالَّذِینَ مَعَہُ أَشِدَّاء ُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَاء ُ بَیْنَہُمْ تَرَاہُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّـہِ وَرِضْوَانًا سِیمَاہُمْ فِی وُجُوہِہِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَلِکَ مَثَلُہُمْ فِی التَّوْرَاۃِ وَمَثَلُہُمْ فِی الْإِنْجِیلِ کَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَہُ فَآزَرَہُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَی عَلَی سُوقِہِ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیظَ بِہِمُ الْکُفَّارَ}(الفتح: ۴۸ 🙂
محمد ﷺاللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ آپ ﷺکے ساتھ ہیں، وہ کافروں پر بہت سخت اور آپس میں بہت مہربان ہیں، آپ ﷺانہیں رکوع و سجود کرتے دیکھیں گے، وہ اللہ کا فضل اور اس کی رضامندی کے طلبگار رہتے ہیں، ان کی ایک خصوصی پہچان ان کے چہروں میں سجدوں کا نشان ہے، ان کی یہ صفت تورات میں ہے، اور انجیل میں ان کی صفت اس کھیتی کے مانند ہے جس نے اپنی کونپل نکالی، پھر اسے مضبوط کیا اور وہ (پودا)توانا ہو گیا، پھر اپنے تنے پر سیدھا کھڑا ہو گیا، یہ صورت حال کسانوں کو خوش کرتی ہے، (اللہ کی طرف سے یہ اس لیے ہوا) تاکہ ان (صحابہ کرام )کی وجہ سے کفار کو غیض و غضب میں مبتلا کرے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کو مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ دیا۔ یہ بھی فرمایاکہ :
{لَقَدْ تَابَ اللَّـہُ عَلَی النَّبِیِّ وَالْمُہَاجِرِینَ وَالْأَنْصَارِ الَّذِینَ اتَّبَعُوہُ فِی سَاعَۃِ الْعُسْرَۃِ}:(التوبۃ :۱۱۷)
بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے حضورتاجدارختم نبوتﷺ اور ان مہاجرین و انصار پر شفقت فرمائی جنہوں نے تنگی کے عالم میں آپ ﷺکی پیروی کی۔
نیز فرمایا
{وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُہَاجِرِینَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِینَ اتَّبَعُوہُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِیَ اللَّـہُ عَنْہُمْ} (التوبۃ :۱۰۰)
مہاجرین اور انصار میں سے اسلام میں سبقت کرنے والے اور جن لوگوں نے اچھے طریقے سے ان کی پیروی کی، اللہ ان سے راضی ہو گیا
{یَوْمَ لَا یُخْزِی اللَّـہُ النَّبِیَّ وَالَّذِینَ آمَنُوا مَعَہُ نُورُہُمْ یَسْعَی بَیْنَ أَیْدِیہِمْ وَبِأَیْمَانِہِمْ}(التحریم : ۸)
(قیامت وہ دن ہے)جس دن اللہ اپنے نبی(ﷺ)اور ان کے ساتھ ایمان لانے والوں کو رسوا نہیں کرے گا، ان کا نور ان کے آگے اور ان کے دائیں طرف دوڑتا ہو گا۔ {کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ} (آل عمران :۱۱۰)تم بہتر امت ہو۔ {لَقَدْ رَضِیَ اللَّـہُ عَنِ الْمُؤْمِنِینَ} (الفتح :۱۸)یقیناً اللہ تعالیٰ مؤمنوں سے راضی ہو گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی تعریف بھی کی جو صحابہ کرام کے بعدآ کر ان کے لیے استغفار کریں گے اور دُعا کریں گے کہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں کوئی خلش نہ ڈالے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کی بہت زیادہ ثناء کی ہے۔
نبی اکرم ﷺنے فرمایا :سب سے بہترین لوگ میرے زمانے کے لوگ ہیں، پھر وہ جو ان کے بعد آئے اور پھر وہ جو ان کے بعد آئے ۔جو شخص اللہ تعالیٰ اور حضورتاجدارختم نبوتﷺکے یہ فرامین سن لے، اسے کہا جائے کہ اگر تو ہدایت و بھلائی کا طالب ہے تو اللہ تعالیٰ کی نصیحت پر عمل کر اور اگر اب بھی تو اپنی من مرضی کرے گا تو ڈر ہے کہ تیرا شمار ان لوگوں میں سے ہو جائے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :{وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ ہَوَاہُ بِغَیْرِ ہُدًی مِنَ اللَّـہِ}(القصص :۵۰) اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہے جس نے اللہ کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنے نفس کی پیروی کر لی ؟ {وَلَوْ عَلِمَ اللَّـہُ فِیہِمْ خَیْرًا لَأَسْمَعَہُمْ وَلَوْ أَسْمَعَہُمْ لَتَوَلَّوْا وَہُمْ مُعْرِضُونَ}(الانفال :۲۳)اگر اللہ ان میں کوئی بھلائی جانتا تو انہیں ضرور سنا (سمجھا)دیتا، اور اگر وہ انہیں (سمجھا)دیتا تو بھی وہ ضرور پھر جاتے اور اعراض کرنے والے ہوتے اور اسے یہ بھی کہا جائے کہ جو شخص حضورتاجدارختم نبوتﷺ کے بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر طعن کرے اور بعض کی تعریف کرے، نیز بعض پر تنقید کرے، اور بعض کی مدح کرے، وہ فتنہ پرور ہے اور فتنے میں مبتلا ہو چکا ہے، کیونکہ اس پر فرض تھا کہ سب صحابہ کرام سے محبت کرتا اور سب کے لیے استغفار کرتا۔ اللہ تعالیٰ صحابہ کرام سے راضی ہو اور ہمیں ان کی محبت کے سبب نجات دے۔۔۔
الشریعۃ:أبو بکر محمد بن الحسین بن عبد اللہ الآجُرِّیُّ البغدادی (۵:۲۴۸۵)
محدثین کرام علیہم الرحمہ کانظریہ
والکف عن الوقیعۃ فیہم، وتاول القبیح علیہم، ویکلونہم فیما جرٰی بینہم علی التاویل إلی اللہ عز وجل
ترجمہ : امام ابوبکر، احمد بن ابراہیم اسماعیلی رحمہ اللہ المتوفی:۳۷۱ھ)محدثین کرام کا عقیدہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ائمہ حدیث صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے باہمی اختلافات کے بارے میں اپنی زبان بند رکھتے ہیں، بری باتیں ان پر نہیں تھوپتے اور اجتہادی طور پر ان کے مابین جو بھی ناخوشگوار واقعات ہوئے، ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑتے ہیں۔
اعتقاد أئمۃ الحدیث:أبو بکر أحمد بن إبراہیم الجرجانی :۷۹) دار العاصمۃ الریاض
امام ابوالحسن الاشعری المتوفی : ۳۲۴ھ) رحمہ اللہ تعالی کانظریہ
فأما ما جری من علی والزبیر وعائشۃ رضی اللہ عنہم أجمعین، فإنما کان علی تأویل واجتہاد، وعلی الإمام، وکلہم من أہل الاجتہاد، وقد شہد لہم النبی صلی اللہ علیہ وسلم بالجنۃ والشہادۃ، فدل علی أنہم کلہم کانوا علی حق فی اجتہادہم، وکذلک ما جری بین سیدنا علی ومعاویۃ رضی اللہ عنہما، فدل علی تأویل واجتہاد.وکل الصحابۃ أئمۃ مأمونون غیر متہمین فی الدین، وقد أثنی اللہ ورسولہ علی جمیعہم، وتعبدنا بتوقیرہم وتعظیمہم وموالاتہم، والتبری من کل من ینقص أحدا منہم رضی اللہ عنہم أجمعین.
ترجمہ :حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ ، سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاکے مابین جو اختلافات ہوئے، وہ اجتہادی تھے۔ حضرت سیدنامولا علی رضی اللہ عنہ خلیفہ تھے اور سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مجتہد تھے۔ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے ان کو جنت اور شہادت کی خوشخبری سنائی ہے۔ اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ سب اپنے اجتہاد میں حق پر تھے۔ اسی طرح سیدنامولا علی رضی اللہ عنہ اور سیدناامیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے مابین جو اختلافات ہوئے، وہ بھی اجتہادی تھے۔ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بااعتماد اور باکردار ائمہ تھے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کریم ﷺنے سب کی تعریف کی ہے اور ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم ان کی عزت و تعظیم کریں، ان سے محبت رکھیں اور جو شخص ان کی تنقیص کرتا ہے، اس سے براء ت کا اعلان کریں۔ اللہ تعالیٰ ان سب پر راضی ہو چکا ہے۔
(الإبانۃ عن أصول الدیانۃ:أبو الحسن علی بن إسماعیل بن إسحاق بن سالم بن إسماعیل:۲۶۰)
امام ابومنصور معمر بن احمد اصبہانی قوام السنہ رحمہ اللہ المتوفی:۴۱۸ھ )کانظریہ
وَمن السّنۃ السُّکُوت عَمَّا شجر بَین أَصْحَاب رَسُول اللہ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم َ وَنشر فضائلہم والاقتداء بہم، فإِنہم النُّجُوم الزاہرۃ رَضِی اللَّہ عَنْہُم ثُمَّ الترحم عَلَی التَّابِعین وَالْأَئِمَّۃ وَالسَّلَف الصَّالِحین رَحْمَۃ اللَّہ عَلَیْہِم.
ترجمہ: آپ رحمہ اللہ تعالی مشاجرات ِ صحابہ میں زبان بند رکھنے کو اہل سنت و الجماعت کا اجماعی و اتفاقی عقیدہ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں :سنت کاتقاضایہ ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین جو اختلافات ہوئے، ان کے بارے میں خاموشی اختیار کی جائے، ان کے فضائل بیان کیے جائیں اور ان کی اقتداء کی جائے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تو چمکدار ستارے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان سب پر راضی ہو گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ تابعین، ائمہ دین اور سلف صالحین کے لیے رحمت کی دُعا کی جائے۔
(الحجۃ فی بیان المحجۃ وشرح عقیدۃ أہل السنۃ:إسماعیل بن محمد الملقب بقوام السنۃ(۱:۲۵۲)
امام ابونعیم الاصبہانی المتوفی : ۴۳۰ھ) رحمہ اللہ تعالی کانظریہ
فَالْوَاجِب علی الْمُسلمین فِی أَصْحَاب رَسُول اللہ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم :إِظْہَار مَا مدحہم اللہ تَعَالَی بِہِ وشکرہم عَلَیْہِ من جمیل أفعالہم وَجَمِیل سوابقہم وَأَن یغضوا عَمَّا کَانَ مِنْہُم فِی حَال الْغَضَب والإغفال وفرط مِنْہُم عِنْد استزلال الشَّیْطَان إیَّاہُم.ونأخذ فِی ذکرہم بِمَا أخبر اللہ تَعَالَی بِہِ فَقَالَ تَعَالَی: (وَالَّذین جَاء ُوامن بعدہمْ یَقُولُونَ رَبنَا اغْفِر لنا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذین سبقُونَا بِالْإِیمَان) الْآیَۃ فَإِن الہفوۃ والزلل وَالْغَضَب والحدۃ والإفراط لَا یَخْلُو مِنْہُ أحد، وَہُوَ لَہُم غَفُور؟ ، وَلَا یُوجب ذَلِک الْبَراء مِنْہُم، وَلَا الْعَدَاوَۃ لَہُم، وَلَکِن یحب علی السَّابِقَۃ الحمیدۃ ویتولی للمنقبۃ الشَّرِیفَۃ۔
ترجمہ :حضورتاجدارختم نبوتﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں مسلمانوں پر یہ فرض ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی مدح میں جو کچھ فرمایا ہے اور ان کے اچھے افعال و کارناموں کی جو تعریفات کی ہیں، انہیں بیان کیا جائے اور شیطان کے بہکاوے میں آ کر ان سے غصے، غفلت اور شدت میں جو کوتاہیاں ہوئی ہیں، ان سے چشم پوشی کی جائے۔ اس سلسلے میں ہم اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو دلیل بناتے ہیں {وَالَّذِینَ جَاء ُوا مِنْ بَعْدِہِمْ یَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِینَ سَبَقُونَا بِالْإِیمَانِ}(الحشر:۱۰)جو لوگ ان کے بعد آئیں اور کہیں کہ اے ہمارے رب !تو ہمیں بھی معاف فرما دے اور ہم سے پہلے ایمان والوں کو بھی ) کیونکہ لغزش، غلطی، غصے، شدت اور کوتاہی سے کوئی بھی مبرا نہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کی ایسی لغزشوں کو معاف فرما دیا ہے۔ صحابہ کرام کی ایسی بشری لغزشیں ان سے براء ت اور عداوت کا باعث نہیں بن سکتیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی قابل ستائش سبقت ِ اسلام کی بنا پر ان سے محبت رکھتا ہے اور عزت والے مرتبے کی وجہ سے ان سے دوستی رکھتا ہے۔
(الإمامۃ والرد علی الرافضۃ:أبو نعیم أحمد بن عبد اللہ بن أحمد بن إسحاق بن موسی بن مہران الأصبہانی:۳۴۲)
شیخ الاسلام الصابونی المتوفی : ۴۴۹ھ) رحمہ اللہ تعالی کانظریہ
ویرون الکف عما شجر بین أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، وتطہیر الألسنۃ عن ذکر ما یتضمن عیبا لہم ونقصا فیہم، ویرون الترحم علی جمیعہم والموالاۃ لکافتہم، وکذلک یرون تعظیم قدر أزواجہ رضی اللہ عنہن، والدعاء لہن ومعرفۃ فضلہن والإقرار بأنہن أمہات المؤمنین) .
ترجمہ: اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ صحابہ کرام کے مابین اختلافات میں خاموشی اختیار کی جائے اور زبان کو ایسی باتوں سے پاک رکھا جائے جن سے صحابہ کرام کا کوئی عیب و نقص ظاہر ہوتا ہو، بلکہ ان سب کے لیے رحمت کی دُعا کی جائے اور ان سب سے محبت رکھی جائے۔اوراسی طرح ہم اہل سنت حضورتاجدارختم نبوتﷺکی تمام ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کی تعظیم کرتے ہیں اوران سب کے لئے دعاکرتے ہیں اوران کی عظمت وشان کو پہچانتے ہیں اوراس بات کااقرارکرتے ہیں کہ وہ تمام کی تمام امہات المومنین ہیں ۔
(اعتقاد أہل السنۃ شرح أصحاب الحدیث:محمد بن عبد الرحمن الخمیس:۱۲۱)
علامہ ابن حزم الاندلسی المتوفی :۴۵۶ھ) کانظریہ
فَبِہَذَا قَطعنَا علی صَوَاب عَلیّ رَضِی اللہ عہ وَصِحَّۃ أَمَانَتہ وَأَنہ صَاحب الْحق وَإِن لَہُ أَجْرَیْنِ أجر الِاجْتِہَاد وَأجر الْإِصَابَۃ وقطعنا أَن مُعَاوِیَۃ رَضِی اللہ عَنہُ وَمن مَعَہ مخطئون مجتہدون مأجورون أجرا وَاحِدًا۔
ترجمہ: ان دلائل کی رُو سے ہم یقین سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ سیدنا مولاعلی رضی اللہ عنہ درستی پر تھے، صاحب حق و امانت تھے اور ان کے لیے دو اجر ہیں، ایک اجتہاد کا اور دوسرا درستی کا۔ ہم یہ بھی یقین کے ساتھ کہتے ہیں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی غلطی پر تھے، لیکن مجتہد تھے اور ان کو اجتہاد کا ایک اجر ملے گا۔
(الفصل فی الملل والأہواء والنحل:أبو محمد علی بن أحمد بن سعید بن حزم الأندلسی القرطبی الظاہری (۴:۱۲۵)
حافظ ابن کثیرالمتوفی ۷۷۴ھ) رحمہ اللہ تعالی کانظریہ
وأما ما شجر بینہم بعدہ علیہ الصلاۃ والسلام، فمنہ ما وقع عن غیر قصد، کیوم الجمل، ومنہ ما کان عن اجتہاد، کیوم صفین والاجتہار یخطء ویصیب، ولکن صاحبہ معذور وإن أخطأ، ومأجور أیضاً، وأما المصیب فلہ أجران اثنان، وکان علی وأصحابہ أقرب إلی الحق من معاویۃ وأصحابہ رضی اللہ عنہم أجمعین.
ترجمہ :حضورتاجدارختم نبوتﷺ کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین جو اختلافات ہوئے، ان میں سے بعض ایسے تھے جو بلا قصد و ارادہ واقع ہو گئے، جیسا کہ جنگ جمل والے دن ہوا اور بعض ایسے ہیں جو اجتہادی طور پر سرزد ہوئے، جیسا کہ جنگ صفین والے دن ہوا۔ اجتہاد کبھی غلط ہوتا ہے اور کبھی درست، لیکن اجتہاد کرنے والا غلطی بھی کرے تو اسے ایک اجر ملتا ہے اور اس کا عذر قبول کیا جاتا ہے اور اگر وہ درست ہو تو اسے دو اجر ملتے ہیں۔
(اختصار علوم الحدیث:أبو الفداء إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی البصری ثم الدمشقی:۱۸۲)
مزید فرماتے ہیں
أَنَّ أَصْحَابَ عَلِیٍّ أَدْنَی الطَّائِفَتَیْنِ إِلَی الْحَقِّ، وَہَذَا ہُوَ مَذْہَبُ أَہْلِ السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ أَنَّ عَلِیًّا ہُوَ المصیب وإن کان معاویۃ مجتہدا، وہو مأجور إن شاء اللہ، ولکن علی ہو الإمام فَلَہُ أَجْرَانِ کَمَا ثَبَتَ فِی صَحِیحِ الْبُخَارِیِّ ۔
ترجمہ: بلاشبہ دونوں گروہوں میں سے سیدنامولا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھی حق کے زیادہ قریب تھے۔ اہل سنت والجماعت کا یہی مذہب ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ حق پر تھے، لیکن سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ بھی مجتہد تھے اور ان کو بھی ان شاء اللہ ایک اجر ملے گا۔
اورلیکن امام حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ تھے ان کے لئے دواجرہیں جیساکہ بخاری شریف سے ثابت ہے۔
(البدایۃ والنہایۃ:أبو الفداء إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی البصری ثم الدمشقی (ا۷:۲۲۹)
امام ابن بطہ المتوفی : ۳۸۷ھ) رحمہ اللہ تعالی کانظریہ
نکف عما شجر بین اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فقد شہدوا المشاہد معہ، وسبقوا الناس بالفضل، فقد غفر اللہ لہم، وامرک بالاستغفار لہم، والتقرب إلیہ بمحبتہم، وفرض ذٰلک علٰی لسان نبیہ، وہو یعلم ما سیکون منہم، وانہم سیقتلون، وإنہم فضلوا علٰی سائر الخلق، لان الخطا والعمد قد وضع عنہم، وکل ما شجر بینہم مغفور لہم۔
ترجمہ : آپ رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ہم اہل سنت وجماعت حضورتاجدارختم نبوتﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے باہمی اختلافات کے بارے میں اپنی زبان بند رکھتے ہیں۔ انہوں نے آپﷺ کے ساتھ جہاد میں حصہ لیا اور نیکی میں ان کو ساری امت سے سبقت حاصل ہے، اللہ تعالی نے ان کو معاف فرما دیا ہے اور مسلمانوں کو ان کے لیے دُعائے مغفرت کرنے اور ان سے محبت رکھ کر اپنا تقرب حاصل کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہ احکام اس اللہ تعالی نے اپنے نبی کریمﷺ کی زبانی فرض کیے ہیں جنہیں یہ بخوبی معلوم تھاکہ آئندہ کیا ہونے والا ہے، انہیں معلوم تھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپس میں قتال تک کریں گے۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے (انبیائے کرام علیہم السلام کے بعد)ساری مخلوق پر انہیں فضیلت عطا فرمائی۔ خطا و عمد دونوں قسم کی لغزشیں ان سے دور کر دی گئی ہیں اور ان کے تمام باہمی اختلافات بھی انہیں معاف فرما دیے گئے ہیں۔
(الإبانۃ فی اصول السنۃ لامام ابن بطہ :۵۶۷)
امام اہل سنت قاضی عیاض المتوفی : ۵۴۴ھ) رحمہ اللہ تعالی کانظریہ
وَمِن تَوَقِیرِہ وَبِرّہ صَلَّی اللَّہ عَلَیْہ وَسَلَّم تَوْقِیر أصْحَابِہ وَبرُّہُم وَمَعْرِفَۃ حَقّہِم وَالاقْتِدَاء بِہِم وَحُسْن الثَّنَاء عَلَیْہِم وَالاسْتِغْفَار لَہُم وَالْإِمْسَاک عَمَّا شَجَر بَیْنَہُم وَمُعَادَاۃ من عَادَاہُم وَالإضْرَاب عَن أخْبَار المُؤَرّخِین وَجَہَلَۃ الرُّوَاۃ وَضُلَّال الشّیعَۃ وَالمُبْتَدِعِین القَادِحَۃ فِی أحِد مِنْہُم وَأن یُلْتَمَس لَہُم فِیمَا نُقِل عَنْہُم من مِثْل ذَلِک فِیمَا کَان بَیْنَہُم مِن الفِتَن أحْسَن التَّأْویلات وَیُخَرَّج لَہُم أصْوَب المَخَارِج إِذ ہُم أَہْل ذَلِک وَلَا یُذْکَرأحد مِنْہُم بِسُوء وَلَا یُغْمَص عَلَیْہ أمْر بل نذکر حَسَناتُہُم وَفَضَائِلُہُم وَحَمِید سِیرَہِم وَیُسْکَت عَمَّا وَرَاء ذَلِک کَمَا قَال صَلَّی اللَّہ عَلَیْہ وَسَلَّم (إذَا ذُکِر أصْحَابِی فَأَمْسِکُوا)
ترجمہ:حضورتاجدارختم نبوتﷺ کی عزت و تکریم کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آپﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عزت و تکریم کی جائے، ان کا حق پہچانا جائے، ان کی اقتدا کی جائے، ان کے بارے میں حسن ظن رکھا جائے، ان کے لیے استغفار کیا جائے، ان کے مابین ہونے والے اختلافات میں اپنی زبان بند رکھی جائے، ان کے دشمنوں سے عداوت رکھی جائے، ان کے خلاف مؤرّخین کی (بے سند)خبروں، مجہول راویوں کی بیان کردہ روایات، گمراہ شیعوں اور بدعتی لوگوں کی پھیلائی ہوئی من گھڑت کہانیوں کو نظر انداز کیا جائے، جن سے ان کی شان میں کمی ہوتی ہو۔ ان کے مابین فتنوں پر مبنی جو اختلافات ہوئے ہیں، ان کو اچھے معنوں پر محمول کیا جائے اور ان کے لیے بہتر عذر تلاش کیے جائیں، کیونکہ وہ لوگ اسی کے اہل ہیں۔ ان میں سے کسی کا بھی برا تذکرہ نہ کیا جائے، نہ ان پر کوئی الزام دھرا جائے، بلکہ صرف ان کی نیکیاں، فضائل اور ان کی سیرت کے محاسن بیان کیے جائیں۔ اس سے ہٹ کر جو باتیں ہوں، ان سے اپنی زبان کو بند رکھا جائے۔
جیساکہ رسول اللہ ﷺنے فرمایاکہ جب میرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کاذکرکروتو سوائے خیرکی بات کے کچھ نہ کہو۔
(الشفا بتعریف حقوق المصطفی:أبو الفضل القاضی عیاض بن موسی الیحصبی (۲:۵۲)
حضورحجۃ الاسلام المتوفی : ۵۰۵ھ) رحمہ اللہ تعالی کانظریہ
وما جری بین معاویۃ وعلی رضی اللہ عنہما کان مبنیاً علی الاجتہاد لا منازعۃ من معاویۃ فی الإمامۃ ۔
ترجمہ :حضرت سیدناامام الغزالی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ سیدنا معاویہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما کے باہمی اختلافات اجتہاد پر مبنی تھے۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے امامت و خلافت کا کوئی تنازع نہیں تھا۔
(إحیاء علوم الدین:أبو حامد محمد بن محمد الغزالی الطوسی (ا:۱۱۵)
حضرت سیدناامام النووی المتوفی : ۶۷۶ھ) رحمہ اللہ تعالی کانظریہ
وَاعْلَمْ أَنَّ الدِّمَاء َ الَّتِی جَرَتْ بَیْنَ الصَّحَابَۃِ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمْ لَیْسَتْ بِدَاخِلَۃٍ فِی ہَذَا الْوَعِیدِ وَمَذْہَبُ أَہْلِ السُّنَّۃِ وَالْحَقُّ إِحْسَانُ الظَّنِّ بِہِمْ وَالْإِمْسَاکُ عَمَّا شَجَرَ بَیْنَہُمْ وَتَأْوِیلُ قِتَالِہِمْ وَأَنَّہُمْ مُجْتَہِدُونَ مُتَأَوِّلُونَ لَمْ یَقْصِدُوا مَعْصِیَۃً ولامحض الدُّنْیَا بَلِ اعْتَقَدَ کُلُّ فَرِیقٍ أَنَّہُ الْمُحِقُّ وَمُخَالِفُہُ بَاغٍ فَوَجَبَ عَلَیْہِ قِتَالُہُ لِیَرْجِعَ إِلَی أَمْرِ اللَّہِ وَکَانَ بَعْضُہُمْ مُصِیبًا وَبَعْضُہُمْ مُخْطِئًا مَعْذُورًا فِی الْخَطَأِ لِأَنَّہُ لِاجْتِہَادٍ وَالْمُجْتَہِدُ إِذَا أَخْطَأَ لَا إِثْمَ عَلَیْہِ وَکَانَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ ہُوَ الْمُحِقُّ الْمُصِیبُ فِی تِلْکِ الْحُرُوبِ ہَذَا مَذْہَبُ أَہْلِ السُّنَّۃِ وَکَانَتِ الْقَضَایَا مُشْتَبِہَۃٌ حَتَّی إِنَّ جَمَاعَۃً مِنَ الصَّحَابَۃِ تَحَیَّرُوا فِیہَا فَاعْتَزَلُوا الطَّائِفَتَیْنِ وَلَمْ یُقَاتِلُوا وَلَمْ یَتَیَقَّنُوا الصَّوَابَ ثُمَّ تَأَخَّرُوا عَنْ مُسَاعَدَتِہ۔
ترجمہ:حافظ ابوزکریایحییٰ بن شرف نووی رحمہ اللہ المتوفی :۶۷۶ھ)قتل مسلم پر جہنم کی وعید والی حدیث کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں : آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین اختلافات کے دوران جو خون بہے، وہ اس وعید میں داخل نہیں۔ اہل سنت و اہل حق کا مذہب یہ ہے کہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں حسن ظن ہی رکھتے ہیں، ان کے مابین اختلافات پر خاموشی اختیار کرتے ہیں، اہل سنت کے نزدیک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی باہمی لڑائیاں دلائل پر مبنی تھیں اور وہ اس سلسلے میں مجتہد تھے۔ ان کا ارادہ کسی گناہ یا دنیاوی متاع کا نہیں تھا، بلکہ ہر فریق یہی سمجھتا تھا کہ وہ حق پر اور ان کا مخالف باغی ہے، جس کو اللہ کے حکم کی طرف لوٹانے کے لیے قتال ضروری ہے۔ یوں بعض واقعی حق پر اور بعض خطا پر تھے، کیونکہ یہ اجتہادی معاملہ تھا اور مجتہد جب غلطی کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔ ان لڑائیوں میں سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ ہی حق پر تھے (لیکن خطا اجتہادی ہونے کی بنا پر دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر بھی کوئی قدغن نہیں )۔ اہل سنت والجماعت کا یہی مذہب ہے۔ یہ معاملات اتنے پیچیدہ تھے کہ بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی اس سلسلے میں پریشان رہے اور دونوں گروہوں سے علیحدگی اختیار کر لی۔ انہیں بالیقین درست بات کا علم نہ ہو سکا اور وہ سیدنامولا علی رضی اللہ عنہ کی حمایت سے بھی دستبردار رہے۔
(المنہاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج:أبو زکریا محیی الدین یحیی بن شرف النووی (۱۸:۱۱)
مشاجرات صحابہ کے متعلق مزید کلام
وَأَمَّا الْحُرُوبُ الَّتِی جَرَتْ فَکَانَتْ لِکُلِّ طَائِفَۃٍ شُبْہَۃٌ اعْتَقَدَتْ تَصْوِیبَ أَنْفُسِہَا بِسَبَبِہَا وَکُلُّہُمْ عُدُولٌ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمْ وَمُتَأَوِّلُونَ فِی حُرُوبِہِمْ وَغَیْرِہَا وَلَمْ یُخْرِجْ شء مِنْ ذَلِکَ أَحَدًا مِنْہُمْ عَنِ الْعَدَالَۃِ لِأَنَّہُمْ مُجْتَہِدُونَ اخْتَلَفُوا فِی مَسَائِلَ مِنْ مَحَلِّ الِاجْتِہَادِ کَمَا یَخْتَلِفُ الْمُجْتَہِدُونَ بَعْدَہُمْ فِی مَسَائِلَ مِنَ الدِّمَاء ِ وَغَیْرِہَا وَلَا یَلْزَمُ مِنْ ذَلِکَ نَقْصُ أَحَدٍ مِنْہُمْ وَاعْلَمْ أَنَّ سَبَبَ تِلْکَ الْحُرُوبِ أَنَّ الْقَضَایَا کَانَتْ مُشْتَبِہَۃً فَلِشِدَّۃِ اشْتِبَاہِہَا اخْتَلَفَ اجتہادہم وصاروا ثلاثۃ اقسام قسم ظہر لہم بِالِاجْتِہَادِ أَنَّ الْحَقَّ فِی ہَذَا الطَّرَفِ وَأَنَّ مُخَالِفَہُ بَاغٍ فَوَجَبَ عَلَیْہِمْ نُصْرَتُہُ وَقِتَالُ الْبَاغِی عَلَیْہِ فِیمَا اعْتَقَدُوہُ فَفَعَلُوا ذَلِکَ وَلَمْ یَکُنْ یَحِلُّ لِمَنْ ہَذِہِ صِفَتُہُ التَّأَخُّرُ عَنْ مُسَاعَدَۃِ امام العدل فی قتال البغاۃ فی اعتقادہ وَقِسْمٌ عَکْسُ ہَؤُلَاء ِ ظَہَرَ لَہُمْ بِالِاجْتِہَادِ أَنَّ الْحَقَّ فِی الطَّرَفِ الْآخَرِ فَوَجَبَ عَلَیْہِمْ مُسَاعَدَتُہُ وَقِتَالُ الْبَاغِی عَلَیْہِ وَقِسْمٌ ثَالِثٌ اشْتَبَہَتْ عَلَیْہِمُ الْقَضِیَّۃُ وَتَحَیَّرُوا فِیہَا وَلَمْ یَظْہَرْ لَہُمْ تَرْجِیحُ أَحَدِ الطَّرَفَیْنِ فَاعْتَزَلُوا الْفَرِیقَیْنِ وَکَانَ ہَذَا الِاعْتِزَالُ ہُوَ الْوَاجِبُ فِی حَقِّہِمْ لِأَنَّہُ لَا یَحِلُّ الْإِقْدَامُ عَلَی قِتَالِ مُسْلِمٍ حَتَّی یَظْہَرَ أَنَّہُ مُسْتَحِقٌّ لِذَلِکَ وَلَوْ ظَہَرَ لِہَؤُلَاء ِ رُجْحَانُ أَحَدِ الطَّرَفَیْنِ وَأَنَّ الْحَقَّ مَعَہُ لَمَا جَازَ لَہُمُ التَّأَخُّرُ عَنْ نُصْرَتِہِ فِی قِتَالِ الْبُغَاۃِ عَلَیْہِ فَکُلُّہُمْ مَعْذُورُونَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمْ وَلِہَذَا اتَّفَقَ أَہْلُ الْحَقِّ وَمَنْ یُعْتَدُّ بِہِ فِی الْإِجْمَاعِ عَلَی قَبُولِ شَہَادَاتِہِمْ وَرِوَایَاتِہِمْ وَکَمَالِ عَدَالَتِہِمْ رَضِیَ اللہ عنہم اجمعین۔
ترجمہ :حضرت سیدناامام النووی المتوفی :۶۷۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جو لڑائیاں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین ہوئیں، ان میں ہر گروہ کو ایک شبہ تھا جس کے مطابق ہر ایک نے اپنے آپ کو حق پر سمجھ لیا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سب کے سب عادل تھے اور اپنی لڑائیوں اور دیگر معاملات میں دلائل رکھتے تھے۔ ان میں سے کسی بھی معاملے کی بنا پر کوئی بھی صحابی رضی اللہ عنہ ثقاہت کے دائرہ کار سے خارج نہیں ہوا، کیونکہ سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مجتہد تھے، وہ کئی اجتہادی مسائل میں مختلف الخیال ہوئے، جیسا کہ بعد میں آنے والے فقہائے کرام بھی قتل و حرب سمیت بہت سے مسائل میں اختلافات کا شکار ہوئے۔ ان اختلافات سے کسی میں کوئی نقص ثابت نہیں ہوتا۔ یہاں آپ کو ان لڑائیوں کی وجہ بھی معلوم ہونی چاہئیے۔ ان کی وجہ یہ بنی کہ معاملات انتہائی پیچیدہ تھے اور اسی سخت پیچید گی کے باعث صحابہ کرام کے اجتہادات مختلف ہو گئے اور وہ تین قسموں میں بٹ گئے۔ ایک قسم وہ تھی جنہوں نے اپنے اجتہاد سے پہلے فریق کو حق پر سمجھا اور اس کے مخالف کو باغی خیال کیا، یوں ان پر پہلے فریق کی مدد کرنا اور اس کے مخالف سے لڑنا لازم ہو گیا اور انہوں نے ایسا ہی کیا۔ حق والوں کے لیے اپنے نزدیک اہل حق کی نصرت اور اہل بغاوت سے لڑائی کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ دوسری قسم ان کے برعکس تھی، انہوں نے اپنے اجتہاد سے سمجھا کہ دوسرا فریق حق پر ہے، چنانچہ ان پر دوسرے فریق کی نصرت اور ان کے مخالفین کی سرکوبی ضروری ہو گئی۔ تیسری قسم میں وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے جن پر معاملہ واضح نہ ہو سکا، وہ اس سلسلے میں کشمکش ہی کا شکار رہے اور کسی ایک فریق کی ترجیح ان پر ظاہر نہ ہو سکی۔ ایسے لوگ دونوں فریقوں سے علیحدہ ہو گئے اور ان پر یہ علیحدگی ہی ضروری تھی، کیونکہ اس وقت تک کسی مسلمان کو قتل کرنے کی کوشش جائز نہیں جب تک یہ ثابت نہ ہو جائے کہ وہ اس کا حق دارہے۔ اگر ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے کسی ایک فریق کا اہل حق ہونا عیاں ہو جاتا تو ان کے لیے اس کی نصرت و حمایت اور باغیوں سے قتال فرض ہو جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ اہل حق اور اہل علم کا اجماع ہے کہ تمام صحابہ کرام کی گواہی اور ان کی روایات قبول کی جائیں گی اور ان کی ثقاہت میں کوئی نقص نہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب پر راضی ہو چکا ہے۔
(المنہاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج:أبو زکریا محیی الدین یحیی بن شرف النووی (۱۵:۱۴۹)
امام ابن حجرالعسقلانی المتوفی : ۸۵۲ھ) الشافعی رحمہ اللہ تعالی کانظریہ
وَاتَّفَقَ أَہْلُ السُّنَّۃِ عَلَی وُجُوبِ مَنْعِ الطَّعْنِ عَلَی أَحَدٍ مِنَ الصَّحَابَۃِ بِسَبَبِ مَا وَقَعَ لَہُمْ مِنْ ذَلِکَ وَلَوْ عَرَفَ الْمُحِقَّ مِنْہُمْ لِأَنَّہُمْ لَمْ یُقَاتِلُوا فِی تِلْکَ الْحُرُوبِ إِلَّا عَنِ اجْتِہَادٍ وَقَدْ عَفَا اللَّہُ تَعَالَی عَنِ الْمُخْطِئِ فِی الِاجْتِہَادِ بَلْ ثَبَتَ أَنَّہُ یُؤْجَرُ أَجْرًا وَاحِدًا وَأَنَّ الْمُصِیبَ یُؤْجَرُ أَجْرَیْنِ۔
ترجمہ : اہل سنت والجماعت کا اتفاق ہے کہ صحابہ کرام کے باہمی اختلافات کی بنا پر کسی بھی صحابی پر طعن کرنا حرام ہے، اگرچہ کسی کو ان میں سے اہل حق کی پہچان ہو بھی جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صحابہ کرام نے اجتہادی طور پر یہ لڑائیاں کی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے اجتہاد میں غلطی کرنے والے سے درگزر فرمایا ہے، بلکہ اسے ایک اجر ملنا بھی ثابت ہے اور جو شخص حق پر ہو گا، اسے دو اجر ملیں گے۔
(فتح الباری شرح صحیح البخاری: أحمد بن علی بن حجر أبو الفضل العسقلانی الشافعی(۱۳:۳۴)
امام بدرالدین العینی الحنفی المتوفی : ۸۵۵ھ) رحمہ اللہ کانظریہ
وَالْحق الَّذِی عَلَیْہِ أہل السّنۃ الْإِمْسَاک عَمَّا شجر بَین الصَّحَابَۃ، وَحسن الظَّن بہم، والتأویل لَہُم، وَأَنَّہُمْ مجتہدون متأولون لم یقصدوا مَعْصِیّۃ وَلَا مَحْض الدُّنْیَا، فَمنہمْ المخطیء فِی اجْتِہَادہ والمصیب، وَقد رفع اللہ الْحَرج عَن الْمُجْتَہد المخطیء فِی الْفُرُوع، وَضعف أجر الْمُصِیب۔
ترجمہ: برحق نظریہ جس پر اہل سنت والجماعت قائم ہیں، وہ یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین ہونے والے اختلافات کے بارے میں خاموشی اختیار کی جائے، ان کے بارے میں حسن ظن سے کام لیا جائے، ان کے لیے تاویل کی جائے اور یہ عقیدہ رکھا جائے کہ وہ مجتہد تھے اور ان سب کے پیش نظر دلائل تھے، ان اختلافات میں سے کسی صحابی نے بھی کسی گناہ یا دنیاوی متاع کا ارادہ نہیں کیا تھا۔ اجتہاد میں بعض کو غلطی لگی اور بعض درستی کو پہنچے۔ اللہ تعالیٰ نے فروعی معاملات میں اجتہادی غلطی کرنے والے کو گناہ گار قرار نہیں دیا (بلکہ ایک اجر کا حق دار ٹھہرایا ہے )، جبکہ درستی کو پہنچنے والے کا اجر دو گناکر دیا گیا ہے۔
(عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری:أبو محمد محمود بن أحمد بن موسی الحنفی بدر الدین العینی (ا:۲۱۲)
شیخ محقق شاہ عبدالحق محدث دہلوی المتوفی:۱۰۵۲ھ) کانظریہ
ازجملہ توقیر وبرآنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم توقیر اصحاب وبرایشاں است وحسن ثنا ورعایت ادب بایشاں ودُعا واستغفار مرایشاں راوحق است مرکسے راکہ ثنا کردہ حق تعالٰی بروے وراضی ست ازوے کہ ثنا کردہ شوبروے وسب وطعن ایشاں اگر مخالف اولہ قطعیہ است، کفر والا بدعت وفسق، وہمچنیں امساک وکف نفس ازذکر اختلاف ومنازعات ووقائع کہ میان ایشاں شدہ وگزشتہ است واعراض واضراب ازاخبار مورخین وجہلہ رواۃ وضلال شیعہ وغلاۃ ایشاں ومبتدعین کہ ذکرقوادح وزلالت ایشاں کنند کہ اکثر آں کذب وافتراست وطلب کردن درآنچہ نقل کردہ شدہ است ازایشاں ازمشاجرات ومحاربات باحسن تاویلات واصوب خارج وعدم ذکر ہیچ یکے ازیشاں بہ بدی وعیب بلکہ ذکر حسنات وفضائل وعمائد صفات ایشاں ازجہت آنکہ صحبت ایشاں بآنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یقینی ست وماورائے آں ظنی است وکافیست دریں باب کہ حق تعالٰی برگزید ایشاں رابرائے صحبت حبیبہ خود صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم طریقہ اہل سنّت وجماعت دریں باب این است درعقائد نوشتہ اند لاتذکر احدا منھم الابخیر ف وآیات واحادیث کہ درفضائل صحابہ عموماً وخصوصاً واقع شدہ است دریں باب کافی است ۔مختصراً
ترجمہ :حضورتاجدارختم نبوتﷺ کی تعظیم واحترام درحقیقت آپ ﷺکے صحابہ کا احترام اور ان کے ساتھ نیکی ہے ان کی اچھی تعریف اور رعایت کرنی چاہے اور ان کے لئے دعا وطلبِ مغفرت کرنی چاہئے بالخصوص جس جس کی اللہ تعالٰی نے تعریف فرمائی ہے اور اس سے راضی ہوا ہے اس سے وہ اس بات کے مستحق ہیں کہ ان کی تعریف کی جائے پس اگر ان پر طعن وسب کرنے والا دلائل قطعہ کا منکر ہے تو کافر ورنہ مبتدع وفاسق، اسی طرح ان کے درمیان جو اختلافات یا جھگڑے یا واقعات ہُوئے ہیں ان پر خاموشی اختیار کرنا ضروری ہے اور ان اخبار واقعات سے اعراض کیا جائے جو مورخین، جاہل راویوں اور گمراہ وغلو کرنے والے شیعوں نے بیان کیے ہیں اور بدعتی لوگوں کے ان عیوب اور برائیوں سے جو خود ایجاد کرکے ان کی طرف منسوب کردئیے اور ان کے ڈگمگا جانے سے کیونکہ وہ کذب بیانی اور افترا ہے اور ان کے درمیان جو محاربات ومشاجرات منقول ہیں ان کی بہتر توجیہ وتاویل کی جائے، اور ان میں سے کسی پر عیب یا برائی کا طعن نہ کیا جائے بلکہ ان کے فضائل، کمالات اور عمدہ صفات کا ذکر کیا جائے کیونکہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکے ساتھ ان کی محبت یقینی ہے اور اس کے علاوہ باقی معاملات ظنی ہیں اور ہمارے لئے یہی کافی ہے کہ اللہ تعالٰی نے انہیں اپنے حبیب کریمﷺ کی محبت کے لئے منتخب کرلیا ہے اہل سنت وجماعت کا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں یہی عقیدہ ہے اس لئے عقائد میں تحریر ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ہر کسی کا ذکر خیر کے ساتھ ہی کیا جائے اور صحابہ کے فضائل میں جو آیات واحادیث عموماً یا خصوصاً وارد ہیں وہ اس سلسلہ میں کافی ہیں۔
( مدارج النبوۃ از شاہ عبدالحق محدث دہلوی (۱:۳۱۳)
امام احمدرضاحنفی الماتریدی المتوفی :۱۳۴۰ھ) کانظریہ
مشاجرات صحابہ میں تواریخ وسیر کی موحش حکایتیں قطعاً مردود ہیں۔افادہ پر نظر تازہ کیجئے وہاں واضح ہوچکا ہے کہ کتبِ سیر میں کیسے کیسے مجروحوں میں مطعونوں شدید الضعفوں کی روایات بھری ہیں وہیں کلبی رافضی متہم بالکذب کی نسبت سیرت عیون الاثر کا قول گزرا کہ اُس کی غالب روایات سیر وتواریخ ہیں جنہیں علماء ایسوں سے روایت کرلیتے ہیں وہیں سیرت انسان العیون کا ارشاد گزرا کہ سیر موضوع کے سوا ہر قسم ضعیف وسقیم وبے سند حکایات کو جمع کرتی ہے پھر انصافاً یہ بھی انہوں نے سیر کا منصب بتایا جو اُسے لائق ہے کہ موضوعات تو اصلاً کسی کام کے نہیں اُنہیں وہ بھی نہیں لے سکتے ورنہ بنظر واقع سیر میں بہت اکاذیب واباطیل بھرے ہیں کمالایخفی بہرحال فرق مراتب نہ کرنا اگر جنوں نہیں تو بدمذہبی ہے بد مذہبی نہیں تو جنون ہے، سیر جن بالائی باتوں کے لئے ہے اُس میں حد سے تجاوز نہیں کرسکتے اُس کی روایات مذکورہ کسی حیض ونفاس کے مسئلہ میں بھی سننے کی نہیں نہ کہ معاذاللہ اُن واہیات ومعضلات وبے سروپا حکایات سے صحابہ کرام حضور سیدالانام علیہ وعلٰی آلہٖ وعلیہم افضل الصّلاۃ والسلام پر طعن پیدا کرنا اعتراض نکالنا اُن کی شانِ رفیع میں رخنے ڈالنا کہ اس کا ارتکاب نہ کرے گا مگر گمراہ بددین مخالف ومضاد حق تبیین آج کل کے بدمذہب مریض القلب منافق شعار ان جزافات سیروخرافات تواریخ وامثالہا سے حضرات عالیہ خلفائے راشدین وام المومنین وطلحہ وزبیر ومعاویہ وعمروبن العاص ومغیرہ بن شعبہ وغیرہم اہلبیت وصحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم کے مطاعن مردودہ اور ان کے باہمی مشاجرات میں موحش ومہل حکایات بیہودہ جن میں اکثر تو سرے سے کذب وواحض اور بہت الحاقات ملعونہ روافض چھانٹ لاتے اور اُن سے قرآن عظیم وارشاداتِ مصطفیﷺ واجماعِ اُمّت واساطین ملّت کا مقابلہ چاہتے ہیں بے علم لوگ اُنہیں سُن کر پریشان ہوتے یا فکر جواب میں پڑتے ہیں اُن کا پہلا جواب یہی ہے کہ ایسے مہملات کسی ادنٰی مسلمان کو گنہگار ٹھہرانے کیلئے مسموع نہیں ہوسکتے نہ کہ اُن محبوبانِ خدا پر طعن جن کے مدائح تفصیلی خواہ اجمالی سے کلام اللہ وکلام رسول اللہ مالامال ہیں جل جلالہ، وﷺ
(فتاوی رضویہ لامام احمدرضاخان حنفی ( ۵: ۴۸۲)
حضرت مفتی امجدعلی اعظمی حنفی المتوفی :۱۳۶۷ھ) کا زبردست کلام
تمام صحابہ کرام رضی اﷲتعالیٰ عنھم اھلِ خیر و صلاح ہیں اور عادل، ان کا جب ذکر کیا جائے تو خیر ہی کے ساتھ ہونا فرض ہے۔ کسی صحابی کے ساتھ سوء ِ عقیدت بدمذہبی و گمراہی و استحقاقِ جہنم ہے، کہ وہ حضورِ اقدسﷺکے ساتھ بغض ہے، ایسا شخص رافضی ہے، اگرچہ چاروں خلفا کو مانے اور اپنے آپ کو سُنّی کہے، مثلاً حضرت امیرِ معاویہ اور اُن کے والدِ ماجد حضرت ابو سفیان اور والدہ ماجدہ حضرت ہندہ، اسی طرح حضرت سیّدنا عَمرو بن عاص، و حضرت مغیرہ بن شعبہ،وحضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲتعالیٰ عنھم، حتیٰ کہ حضرت وحشی رضی اﷲتعالیٰ عنہ جنہوں نے قبلِ اسلام حضرت سیّدنا سید الشہدامیر حمزہ رضی اﷲتعالیٰ عنہ کو شہید کیا اور بعدِ اسلام اَخبث الناس خبیث مُسَیْلِمَہ کذّاب ملعون کو واصلِ جہنم کیا۔ وہ خود فرمایا کرتے تھے کہ میں نے خیر النّاس و شر النّاس کو قتل کیا ، اِن میں سے کسی کی شان میں گستاخی، تبرّاہے اور اِس کا قائل رافضی، اگرچہ حضراتِ شیخین رضی اﷲتعالیٰ عنھما کی توہین کے مثل نہیں ہوسکتی، کہ ان کی توہین، بلکہ ان کی خلافت سے انکار ہی فقہائے کرام کے نزدیک کفر ہے۔
کوئی ولی کتنے ہی بڑے مرتبہ کاہو، کسی صحابی کے رتبہ کو نہیں پہنچتا۔صحابہ کرام رضی اﷲتعالیٰ عنھم کے باہم جو واقعات ہوئے، ان میں پڑنا حرام، حرام، سخت حرام ہے، مسلمانوں کو تو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ سب حضرات آقائے دو عالمﷺ کے جاں نثار اور سچے غلام ہیں۔ تمام صحابہ کرام اعلیٰ و ادنیٰ (اور ان میں ادنیٰ کوئی نہیں،سب جنتی ہیں، وہ جہنم کی بِھنک نہ سنیں گے اور ہمیشہ اپنی من مانتی مرادوں میں رہیں گے، محشر کی وہ بڑی گھبراہٹ انھیں غمگین نہ کرے گی، فرشتے ان کا استقبال کریں گے کہ یہ ہے وہ دن جس کا تم سے وعدہ تھا ، یہ سب مضمون قرآنِ عظیم کا ارشاد ہے۔
صحابہ کر ام رضی اﷲتعالیٰ عنھم، انبیا نہ تھے، فرشتہ نہ تھے کہ معصوم ہوں۔ ان میں بعض کے لیے لغزشیں ہوئیں، مگر ان کی کسی بات پر گرفت اﷲو رسول (عزوجل و ﷺ)کے خلاف ہے۔ اﷲعزوجل نے ’’سورہ حدید‘‘میں جہاں صحابہ کی دو قسمیں فرمائیں، مومنین قبلِ فتحِ مکہ اور بعدِ فتحِ مکہ اور اُن کو اِن پر تفضیل دی اور فرما دیا:
{وَکُلًّا وَّعَدَ اللہُ الْحُسْنٰی }سب سے اﷲنے بھلائی کا وعدہ فرما لیا۔ساتھ ہی ارشاد فرما دیا:{وَ اللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْر}اﷲخوب جانتا ہے، جو کچھ تم کرو گے۔
تو جب اُس نے اُن کے تمام اعمال جان کر حکم فرما دیا کہ ان سب سے ہم جنتِ بے عذاب و کرامت و ثواب کا وعدہ فرماچکے تو دوسرے کو کیا حق رہا کہ اُن کی کسی بات پر طعن کرے؟کیا طعن کرنے والا اﷲ(عزوجل)سے جدا اپنی مستقل حکومت قائم کرنا چاہتا ہے۔ امیرِ معاویہ رضی اﷲتعالیٰ عنہ مجتہد تھے، اُن کا مجتہد ہونا حضرت سیّدنا عبد اﷲبن عباس رضی اﷲتعالیٰ عنھما نے حدیث ِ’’صحیح بخاری‘‘ میں بیان فرمایا ہے، مجتہد سے صواب و خطادونوں صادر ہوتے ہیں۔
خطا کی دو قسم ہے:خطاء عنادی، یہ مجتہد کی شان نہیں اور خطاء اجتہادی، یہ مجتہد سے ہوتی ہے اور اِس میں اُس پر عند اﷲاصلاً مؤاخذہ نہیں۔ مگر احکامِ دنیا میں وہ دو قسم ہے:خطاء مقرر کہ اس کے صاحب پر انکار نہ ہوگا، یہ وہ خطاء اجتہادی ہے جس سے دین میں کوئی فتنہ نہ پیدا ہوتا ہو، جیسے ہمارے نزدیک مقتدی کا امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا۔ دوسری خطاء منکَر، یہ وہ خطاء اجتہادی ہے جس کے صاحب پر انکار کیا جائے گا، کہ اس کی خطا باعثِ فتنہ ہے۔ حضرت امیرِ معاویہ رضی اﷲتعالیٰ عنہ کا حضرت سیّدنا امیرالمومنین علی مرتضیٰ کرّم اﷲتعالیٰ وجہہ الکریم سے خلاف اسی قسم کی خطا کا تھااور فیصلہ وہ جو خود رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ مولیٰ علی کی ڈِگری،اور امیر معاویہ کی مغفرت، رضی اﷲتعالیٰ عنھم اجمعین۔
(بہارشریعت از مولاناصدرالشریعہ مولاناامجدعلی اعظمی ( ۱: ۲۵۲تا۲۵۶)
(اس بحث میں کچھ حوالہ جات علامہ غلام مصطفی امن پوری کے مضمون سے لئے گئے ہیں اوربقیہ فقیرپرتقصیرنے جمع کئے ہیں)

Leave a Reply