اپنے بچوں کے ایمان کی فکرکرو
{اِذْ قَالَ لَہ رَبُّہٓ اَسْلِمْ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ}(۱۳۱){وَوَصّٰی بِہَآ اِبْرٰہٖمُ بَنِیْہِ وَیَعْقُوْبُ یٰبَنِیَّ اِنَّ اللہَ اصْطَفٰی لَکُمُ الدِّیْنَ فَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ}(۱۳۲)
ترجمہ کنزالایمان :جبکہ اس سے اس کے رب نے فرمایا گردن رکھ عرض کی میں نے گردن رکھی اس کے لئے جو رب ہے سارے جہان کا اور اسی دین کی وصیت کی ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو اور یعقوب نے کہ اے میرے بیٹو بیشک اللہ نے یہ دین تمہارے لئے چن لیا تونہ مرنا مگر مسلمان ۔
ترجمہ ضیاء الایمان:جبکہ ابراہیم ( علیہ السلام ) سے ان کے رب تعالی نے فرمایا: گردن رکھ ، توانہوںنے عرض کی: میں نے گردن رکھ دی اس کے لئے جو تمام جہانوں کارب ہے ، اوراسی دین کی وصیت کی ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے بیٹوں کواوریعقوب (علیہ السلام) نے کہ اے میرے بیٹو! بے شک اللہ تعالی نے یہ دین تمھارے لئے پسندفرمایاہے توتم نہ مرنامگرمسلمان۔
حضرت سیدنایعقوب علیہ السلام نے اپنی اولاد کوہرگزیہودیت ونصرانیت کی وصیت نہیں کی ، بلکہ ملت اسلام پر قائم رہنے کی اوراسی پرمرنے کی وصیت کی تھی ، تواہل کتا ب سے کہاجارہاہے کہ تم یہ دعوی جوکرتے ہوکہ حضرت سیدنایعقوب علیہ السلام نے اپنے وصال شریف کے وقت اپنی اولاد کویہودیت کی وصیت کی تھی ، اس کی ناکوئی سندہے اورنہ ہی کوئی ثبوت اورنہ ہی کوئی امکان ۔ یہ کیسے ہوسکتاہے کہ اللہ تعالی کے ایک برگزیدہ نبی علیہ السلام جو ملت ابراہیمی کی علامت اورداعی ہوں اوروہ اسلام کو چھوڑ کر اپنی اولاد کو کسی باطل مذہب کی وصیت کریں یہ عقل ونقل دونوں کے خلاف ہے ۔ اورمعصوم انبیاء کرام علیہم السلام کی شان کے خلاف ہے اوران کی طرف ایسی بات منسوب کرناان کی گستاخی ہے ۔
اس آیت مبارکہ میں یہ مسئلہ بیان کیاگیاہے کہ حضرت سیدنایعقوب علیہ السلام نے اپنے وصال شریف کے وقت اپنی اولاد کو دین پر قائم رہنے کی وصیت فرمائی اوروہ دین اسلام ہی تھا۔ اس مناسبت سے ہم یہاں اپنے بچوں کو دین کی طرف راغب کرنے اوران کو دینی علوم حاصل کرنے کاشوق دلانے کے متعلق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اورتابعین رضی اللہ عنہم کاطریقہ مبارکہ نقل کرتے ہیں اوراللہ تعالی کی بارگاہ میں دعاکرتے ہیں کہ اللہ تعالی ہمارے مسلمان بچوں کو انگریزی بے راہ روی سے نکل کرقرآن وحدیث شریف کے نورسے مزین ہونے کی توفیق عطافرمائے ۔
اپنی اولاد کی دینی تعلیم کی فکرکرو
مفتی احمد یار خان نعیمی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں :اچھے ادب سے مراد بچے کو دیندار،متقی،پرہیزگار بنانا ہے۔اولاد کے لئے اس سے اچھا عطیہ کیا ہو سکتا ہے کہ یہ چیز دین و دنیا میں کام آتی ہے ۔ماں باپ کو چاہئے کہ اولاد کو صرف مالدار بنا کر دنیا سے نہ جائیں انہیں دیندار بنا کر جائیں جو خود انہیں بھی قبر میں کام آئے کہ زندہ اولاد کی نیکیوں کا ثواب مردہ کوقبر میں ملتا ہے۔
(مراٰۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح از مفتی احمدیارخان نعیمی ( ۶:۴۲۰)
اچھی تربیت کرو
عَن أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ یُحَدِّثُ، عَنْ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَکْرِمُوا أَوْلَادَکُمْ وَأَحْسِنُوا أَدَبَہُمْ۔
ترجمہ :حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریمﷺنے ارشاد فرمایا:اپنی اولاد کے ساتھ نیک سلوک کرو اور انہیں اچھے ادب سکھانے کی کوشش کرو۔
(سنن ابن ماجہ:ابن ماجۃ أبو عبد اللہ وماجۃ اسم أبیہ یزید (۲:۱۲۰۸)
اس سے معلوم ہوا کہ والدین کوصرف مال کے متعلق ہی وصیت نہیں کرنی چاہیے بلکہ اولاد کو عقائد ِ صحیحہ، اعمالِ صالحہ، دین کی عظمت، دین پر استقامت، نیکیوں پر مداومت اور گناہوں سے دور رہنے کی وصیت بھی کرنی چاہیے۔ اولاد کو دین سکھانا اور ان کی صحیح تربیت کرتے رہنا والدین کی ذمہ داری ہے۔
والد کی طرف بہترین عطیہ
ثنا أَیُّوبُ بْنُ مُوسَی الْقُرَشِیُّ، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ جَدِّہِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَا نَحَلَ وَالِدٌ وَلَدًا نَحْلًا أَفْضَلَ مِنْ أَدَبٍ حَسَنٍ۔
ترجمہ:حضرت ایوب بن موسیٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھمُااپنے والد سے اور وہ اپنے داد اسے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: کسی باپ نے اپنے بچے کو ایسا عطیہ نہیں دیا جو اچھے ادب سے بہتر ہو۔
(مسند الشہاب:أبو عبد اللہ محمد بن سلامۃ بن جعفر بن علی بن حکمون القضاعی المصری (۲:۲۵۱)
جس نے اپنے بیٹے کو حدیث کی تعلیم نہ دلوائی ۔۔۔
عَن عَبْدَ اللہِ بْنَ دَاوُدَ، یَقُولُ:سَمِعْتُ الثَّوْرِیَّ، یَقُولُ: یَنْبَغِی لِلرَّجُلِ أَنْ یُکْرِہَ وَلَدَہُ عَلَی طَلَبِ الْحَدِیثِ فَإِنَّہُ مَسْئُولٌ عَنْہُ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن دائود رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سیدناسفیان ثوری رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سناکہ ہر شخص کے لئے واجب ہے کہ وہ اپنے بیٹے کو حدیث شریف کاعلم حاصل کرنے پر مجبور کرے کیونکہ قیامت کے دن اس سے یہ پوچھاجائے گاکہ تم نے اپنے بیٹے کو حدیث شریف کی تعلیم کیوں نہیں دلوائی ۔
(حلیۃ الأولیاء وطبقات الأصفیاء :أبو نعیم أحمد بن عبد اللہ بن أحمد بن إسحاق بن موسی بن مہران الأصبہانی (۶:۳۶۵)
حضرت سیدناعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماکافرمان شریف
عُثْمَانُ الْحَاطِبِیُّ، قَالَ:سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ یَقُولُ لِرَجُلٍ:أَدِّبِ ابْنِکَ، فَإِنَّکَ مَسْئُولٌ عَنْ وَلَدِکَ، مَاذَا أَدَّبْتَہُ؟ وَمَاذَا عَلَّمْتَہُ، وَإِنَّہُ مَسْئُولٌ عَنْ بِرِّکَ وَطَوَاعِیَتِہِ لَکَ۔
ترجمہ :حضرت عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے ایک شخص سے فرمایا:اپنے بچے کی اچھی تربیت کرو کیونکہ تم سے تمہاری اولاد کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ تم نے اس کی کیسی تربیت کی اور تم نے اسے کیا سکھایا۔
(شعب الإیمان:أحمد بن الحسین بن علی بن موسی الخُسْرَوْجِردی الخراسانی، أبو بکر البیہقی (۱۱:۱۳۳)
آپ بچوں کو احادیث شریفہ پڑھارہے ہیں؟
حَدَّثَنَا مِسْکِینُ بْنُ بُکَیْرٍ، قَالَ:مَرَّ رَجُلٌ بِالْأَعْمَشِ، وَہُوَ یُحَدِّثُ، فَقَالَ لَہُ:تُحَدِّثُ ہَؤُلَاء ِ الصِّبْیَانَ؟ فَقَالَ الْأَعْمَشُ: ہَؤُلَاء ِ الصِّبْیَانُ یَحْفَظُونَ عَلَیْکَ دِینَکَ۔
ترجمہ :حضرت سیدنامسکین بن بکیررحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ امام اعمش رضی اللہ عنہ کے پاس سے ایک شخص گزراتوکہنے لگاکہ اے اعمش! آپ بچوں کو احادیث شریفہ یادکروارہے ہیں؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہاں یہ بچے تیرے لئے تیرادین یادکررہے ہیں۔
(شرف أصحاب الحدیث:أبو بکر أحمد بن علی بن ثابت بن أحمد بن مہدی الخطیب البغدادی (۶۴)
اسلام کے پودے کون؟
کَانَ ابْنُ الْمُبَارَکِ، رَحِمَہُ اللَّہُ، إِذَا رَأَی صِبْیَانَ أَصْحَابِ الْحَدِیثِ، وَفِی أَیْدِیہِمُ الْمَحَابِرُ، یُقَرِّبُہُمْ، وَیَقُولُ: ہَؤُلَاء ِ غَرْسُ الدِّینِ، أُخْبِرْنَا أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:لَا یَزَالُ اللَّہُ یَغْرِسُ فِی ہَذَا الدِّینِ غَرْسًا یَشُدُّ الدِّینَ بِہِمْ ہُمُ الْیَوْمَ أَصَاغِرُکُمْ، وَیُوشِکُ أَنْ یَکُونُوا کِبَارًا مِنْ بَعْدِکُمْ۔
ترجمہ:حضرت سیدناعبداللہ بن مبارک رضی اللہ عنہ جب حدیث شریف پڑھنے والے بچوں کو دیکھتے کہ ان کے ہاتھوں میں دواتیں ہیں توآپ رضی اللہ عنہ ان کو شفقت کے ساتھ اپنے قریب کرلیتے تھے اورفرماتے تھے کہ یہ دین کی پنیری (چھوٹے چھوٹے پودوں کو کہتے ہیں ) ہیں اورفرمایاکہ ہمیں خبردی گئی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: بے شک ہمیشہ اللہ تعالی اس دین میں شجرکاری فرماتارہے گاپھران کے ساتھ دین کو تقویت دے گا ، آج جو چھوٹے ہیں کل تمھارے بعد یہی اکابربنیں گے ۔
(شرف أصحاب الحدیث:أبو بکر أحمد بن علی بن ثابت بن أحمد بن مہدی الخطیب البغدادی:۶۵)
بچوں کو احادیث شریفہ یادکرائو
عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ،قَالَ:وَقَفَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ عَلَی حَلَقَۃٍ مِنْ قُرَیْشٍ،فَقَالَ:مَا لَکُمْ قَدْ طَرَحْتُمْ ہَذِہِ الْأُغَیْلِمَۃَ؟ لَا تَفْعَلُوا،وَأَوْسِعُوا لَہُمْ فِی الْمَجْلِسِ،وَأَسْمِعُوہُمُ الْحَدِیثَ،وَأَفْہِمُوہُمْ إِیَّاہُ. فَإِنَّہُمْ صِغَارُ قَوْمٍ، أَوْشَکَ أَنْ یَکُونُوا کِبَارَ قَوْمٍ وَقَدْ کُنْتُمْ صِغَارَ قَوْمٍ، فَأَنْتُمُ الْیَوْمَ کِبَارُ قَوْمٍ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عبیدبن عمیررضی اللہ عنہم فرماتے ہیں کہ ایک دن حضرت سیدناعمر وبن العاص رضی اللہ عنہ قریش کے حلقہ کے پاس تشریف لائے توبچے ان کے حلقہ سے دوربیٹھے ہوئے تھے ،ا ٓپ رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ تم نے ان بچوں کو دورکیوں بٹھایاہواہے؟
تم اس طرح نہ کرو، بلکہ ان کے لئے مجلس کو وسیع کرو اوران کو بھی رسول اللہ ﷺکی حدیث شریف یادکروائواوران کو بھی سمجھائو ، یقینا یہ بچے آج چھوٹے ہیں عنقریب یہ اپنی قوم میں اکابربن جائیں گے جیساکہ تم پہلے اپنی قوم میں چھوٹے ہوتے تھے اورآج تم بھی اکابربن گئے ہو۔
(السنۃ قبل التدوین:محمد عجاج بن محمد تمیم بن صالح بن عبد اللہ الخطیب:۱۴۸)
حضرت سیدناابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ کی طلبہ کے ساتھ محبت
وکان أَبُو سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ یحب طلاب العلم ویفسح لہم المجالس، وکثیرًا ما کان یقول:تَحَدَّثُوا، فَإِنَّ الحَدِیثَ یُذَکِّرُ بَعْضُہُ بَعْضًا۔
ترجمہ :حضرت سیدناابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ طالب علموں کے ساتھ بہت زیادہ محبت فرماتے تھے اوران کے لئے مجالس کووسیع کردیاکرتے تھے اوریہ بات توبہت زیادہ فرمایاکرتے تھے کہ حدیث شریف بیان کیاکروبچے ایک دوسرے کو یادکروادیتے ہیں۔
(السنۃ قبل التدوین:محمد عجاج بن محمد تمیم بن صالح بن عبد اللہ الخطیب:۱۴۸)
حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماکابچوں کو تشویق دلانا
وکان ابن عباس یحض طلابہ علی مذاکرۃ الحدیث، فیقول: تَذَاکَرُوا ہَذَا الحَدِیثَ، لاَ یَنْفَلِتْ مِنْکُمْ، فَإِنَّہُ لَیْسَ مِثْلَ القُرْآنِ، القُرْآنُ مَجْمُوعٌ مَحْفُوظٌ، وَإِنَّکُمْ إِنْ لَمْ تَذَاکَرُوا ہَذَا الحَدِیثَ یَنْفَلِتْ مِنْکُمْ، وَلاَ یَقُولَنَّ أَحَدُکُمْ حَدَّثْتُ أَمْسِ لاَ أُحَدِّثُ الیَوْمَ، بَلْ حَدِّثْ أَمْسِ، وَحَدِّثْ الیَوْمَ، وَحَدِّثْ غَدًا کما کان یقول: إِذَا سَمِعْتُمْ مِنَّا، شَیْئًا فَتَذَاکَرُوہُ بَیْنَکُمْ ۔
ترجمہ :حضر ت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماطلبہ کو رسول اللہ ﷺکی حدیث شریف یادکرنے کابہت زیادہ شوق دلایاکرتے تھے اورفرماتے تھے کہ تم حدیث شریف یادکیاکروکہیں ایسانہ ہوکہ حدیث شریف تم سے چھوٹ جائے کیونکہ یہ قرآن کریم کی طرح نہیں ہے کہ وہ توجمع ہے اورمحفوظ ہے ، بے شک اگرتم نے حدیث شریف کویادنہ کیاتو یہ تم سے چھوٹ جائے گی ۔
اورتم اس طرح نہ کروکہ میں نے یہ حدیث شریف کل بیان کی تھی آج بیان نہیں کروں گا،نہیں نہیں ، گزشتہ کل بھی بیان کرواورآج بھی بیان کرواورآئندہ کل بھی بیان کرو۔ یعنی ہمہ وقت رسول اللہ ﷺکی حدیث شریف بیان کرواوراسی طرح یہ بھی فرمایاکرتے تھے کہ جب تم مجھ سے حدیث شریف سنو توآپس میں ایک دوسرے کو بھی سنایاکرو۔یہ تب کی بات ہے جب حدیث شریف کی تدوین نہیں ہوئی تھی ۔
(السنۃ قبل التدوین:محمد عجاج بن محمد تمیم بن صالح بن عبد اللہ الخطیب:۱۴۸)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کااپنے بچوں کو حدیث شریف کاشوق دلانا
وہکذا کان الصحابۃ الکرام یتواصون بحفظ الحدیث ومذاکرتہ ویحضون طلابہم علی ذلک، ویحثونہم علی تبلیغ ما یسمعون منہم وقد سار التابعون وأتباعہم علی نہج الصحابۃ، فکانوا یوصون أولادہم وتلامیذہم بحفظ السُنَّۃِ وحضور مجالس العلم، فقد أوصی عُرْوَۃُ بَنِیہِ بہذا کما أوصی طلابہ وکان علقمۃ یشجع طلابہ علی مذاکرۃ الحدیث ودراستہ کما کان عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی لَیْلَی، یَقُولُ: إِحْیَاء ُ الحَدِیثِ مُذَاکَرَتُہُ فَتَذَاکَرُوہُ واشتہرت بین العلماء َ ۔
ترجمہ:اوراسی طرح رسول اللہ ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حدیث شریف یادکرنے کی وصیتیں کرتے تھے اوراس کے مذاکرے کرتے اوربچوں کواس کاشوق دلاتے تھے اورجوکچھ بچے سنتے ان کو آگے پہنچانے کاحکم دیاکرتے تھے ،ان کے بعد تابعین کرام رضی اللہ عنہم اورتبع تابعین رضی اللہ عنہم نے بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے طریقے پر چلتے ہوئے اپنی اولادوں اوراپنے شاگردوں کو رسول اللہ ﷺکی حدیث شریف اورسنت کریمہ کو یادکرنے کی وصیتیں کیں اورعلم کی مجالس میں حاضررہنے کی ترغیب دلائی ۔اورحضرت سیدناعروہ رضی اللہ عنہ اپنے شاگردوں کویہی وصیت کیاکرتے تھے اورحضر ت سیدناعلقمہ رضی اللہ عنہ حدیث شریف یادکرنے اورپڑھانے پراپنے شاگردوں کی ہمت بندھایاکرتے تھے اورحضرت سیدناعبدالرحمن بن ابی لیلی رضی اللہ عنہ فرمایاکرتے تھے کہ حدیث شریف کااحیاء اس کامذاکرہ کرناہے ، پس تم اس کامذاکرہ کرواوراس طرح وہ حدیث شریف علماء کے مابین مشہورہوجاتی تھی ۔
(السنۃ قبل التدوین:محمد عجاج بن محمد تمیم بن صالح بن عبد اللہ الخطیب:۱۴۸)
حدیث شریف یادکرنے پر انعام دیاجاتا
وأکثر من ہذا، کان بعض الآباء یشجعون أبناء ہم علی حفظ الحدیث، ویقدمون إلیہم جوائز کلما حفظوا شیئًا منہ، من ہذا ما رواہ النَّضْرُ بْنُ الحَارِثِ، قَالَ:سَمِعْتُ إِبْرَاہِیمَ بْنَ أَدْہَمَ، یَقُولُ:قَالَ لِی أَبِی:یَا بُنَیَّ، اطْلُبِ الحَدِیثَ، فَکُلَّمَا سَمِعْتَ حَدِیثًا، وَحَفِظْتَہُ، فَلَکَ دِرْہَمٌ.فَطَلَبْتُ الحَدِیثَ عَلَی ہَذَا۔
ترجمہ :صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اورتابعین اورتبع تابعین رضی اللہ عنہم میں بہت سے وہ آباء تھے جو اپنے بیٹوں کو بہت زیادہ ہمت دیاکرتے کہ وہ رسول اللہ ﷺکی حدیث شریف زبانی یادکریں ،اورپھراپنے بچوں کو حدیث شریف یادکرنے پر انعام بھی دیاکرتے تھے ۔ حضرت سیدنانضربن حارث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سیدناابراہیم بن ادہم رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سناکہ مجھے میرے والد ماجد نے فرمایا: اے میرے بیٹے ! رسول اللہ ﷺکی حدیث شریف یادکیاکرو، جب تم مجھے کوئی حدیث شریف یادکرنے کے بعدسنائوگے تو میں تم کوایک درہم انعام دوں گا، فرماتے ہیں کہ میں تب بچہ تھااس لئے میں نے بہت زیادہ احادیث شریفہ یادکرکے اپنے والد ماجدسے انعامات لئے ۔
(السنۃ قبل التدوین:محمد عجاج بن محمد تمیم بن صالح بن عبد اللہ الخطیب:۱۴۸)
مسجد الحرام میں بے شماربچے پڑھاکرتے تھے
وفی عہد عبد الملک بن مروان الخلیفۃ الأموی، کان المسجد الحرام یغص بطلاب العلم، حتی إن الخلفیۃ أعجب بہم عندما زارہ فوجد فیہ حِلَقًا لا تحصی، تضم أبناء المسلمین وطلاب العلم، فسأل عن شیوخ ہذہ الحلقات، فکان فیہا عطاء ، وسعید بن جُبیر، ومیمون بن مہران، ومکحول، ومجاہد وغیرہم، فحث أبناء قریش علی طلب العلم والمحافظۃ علیہ۔
ترجمہ :عبدالملک بن مروان اموی خلیفہ کے زمانے میں مسجدالحرام میں اتنے بچے پڑھتے تھے کہ مسجدشریف میں جگہ ہی نہیں تھی ، یہاں تک کہ جب خلیفہ نے دیکھاتو اسے بڑی حیرانی ہوئی اوراس میں اتنے بچے پڑھتے تھے کہ جن کاشمارہی نہیں ہوسکتاتھااوروہ سارے کے سارے اہل اسلام کے بچے تھے جب خلیفہ نے ان بچوں کے اساتذہ کے نام معلوم کئے تو پتہ چلاکہ ان میں حضرت سیدناعطا، سعید بن جبیراورمیمون بن مہران اورمکحول اورمجاہداوران کے علاوہ جلیل القدرعلماء ہیں جو بچوں کو پڑھاتے ہیں توخلیفہ نے پھرقریش کے بچوں کو بھی ترغیب دلائی کہ تم بھی پڑھاکرواوران سے
علم حاصل کرو۔
(السنۃ قبل التدوین:محمد عجاج بن محمد تمیم بن صالح بن عبد اللہ الخطیب:۱۴۸)
اگربچے میرے پاس نہ آئے تومیں ان کے گھرجاکرپڑھائوں گا
حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ الْیَمَانِ قَالَ:سَمِعْتُ سُفْیَانَ الثَّوْرِیَّ، یَقُولُ:لَوْ لَمْ یَأْتُونِی لَأَتَیْتُہُمْ فِی بُیُوتِہِمْ یَعْنِی أَصْحَابَ الْحَدِیثِ۔
ترجمہ :حضرت سیدنایحیی بن الیمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سیدناسفیان الثوری رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سناکہ اگرمیرے پاس بچے حدیث شریف پڑھنے نہ آئے تو میں ان کے گھرجاکران کو پڑھائوں گا۔
(شرف أصحاب الحدیث:أبو بکر أحمد بن علی بن ثابت بن أحمد بن مہدی الخطیب البغدادی :۱۰۵)
حدیث شریف نہ پڑھنے والے کے لئے جلال
حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ مُوسَی الْخُتُلِّیُّ، قَالَ:سَمِعْتُ سُفْیَانَ الثَّوْرِیَّ، إِذَا رَأَی الشَیْخ لَمْ یَکْتُبِ الْحَدِیثَ، قَالَ: لَا جَزَاکَ اللَّہُ عَنِ الْإِسْلَامِ خَیْرًا ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعباد بن موسی الختلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سیدناسفیان الثوری رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سناکہ جب بھی آپ کسی بوڑھے شخص کودیکھتے کہ وہ حدیث شریف یادنہیں کرتاتواسے فرماتے تھے کہ اللہ تعالی کرے تجھے اسلام کی طرف سے کوئی خیرنہ ملے ۔
(شرف أصحاب الحدیث:أبو بکر أحمد بن علی بن ثابت بن أحمد بن مہدی الخطیب البغدادی :۶۵)
ایک باپ کی بیٹے کو وصیت
قَالَ عَطَاء ٌ: فَلَقِیتُ الوَلِیدَ بْنَ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ، صَاحِبَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَسَأَلْتُہُ: مَا کَانَتْ وَصِیَّۃُ أَبِیکَ عِنْدَ الْمَوْتِ؟ قَالَ: دَعَانِی أَبِی فَقَالَ لِی: یَا بُنَیَّ، اتَّقِ اللَّہَ، وَاعْلَمْ أَنَّکَ لَنْ تَتَّقِیَ اللَّہَ حَتَّی تُؤْمِنَ بِاللَّہِ وَتُؤْمِنَ بِالقَدَرِ کُلِّہِ خَیْرِہِ وَشَرِّہِ، فَإِنْ مُتَّ عَلَی غَیْرِ ہَذَا دَخَلْتَ النَّارَ، إِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:إِنَّ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللَّہُ القَلَمَ، فَقَالَ: اکْتُبْ، فَقَالَ:مَا أَکْتُبُ؟ قَالَ: اکْتُبِ القَدَرَ مَا کَانَ وَمَا ہُوَ کَائِنٌ إِلَی الأَبَدِ.
ترجمہ:چنانچہ حضرت عطا رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں صحابی رسول حضرت ولید بن عبادہ بن صامت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما سے ملا اور ان سے پوچھا کہ آپ کے والد نے وصال کے وقت کیا وصیت فرمائی؟حضرت ولیدرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے فرمایا:(میرے والد نے) مجھے بلا کر فرمایا:اے بیٹے!اللہ تعالیٰ سے ڈر اور یہ بات جان لے کہ تو اللہ عَزَّوَجَل َّسے اس وقت تک ڈرنے والا نہیں بنے گا جب تک اللہ تعالیٰ پر اور ہر خیر و شر کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقدر ہونے پر ایمان نہ لائے گا اگر تو اس کے خلاف پر مر گیا تو جہنم میں داخل ہو گا۔میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا اورپھر فرمایا:لکھ۔قلم نے عرض کی:کیا لکھوں ؟ارشاد فرمایا:تقدیر کو لکھ جو ہو چکا اورجو ابد تک ہو گا۔
(سنن الترمذی:محمد بن عیسی بن سَوْرۃ بن موسی بن الضحاک، الترمذی، أبو عیسی (۴:۲۷)
حضرت سیدناعلقمہ العطاردی رحمہ اللہ تعالی کی اپنے بیٹے کو وصیت
وأما حسن الخلق فقد جمعہ علقمۃ العطاردی فی وصیتہ لابنہ حین حضرتہ الوفاۃ قال یَا بُنَیَّ إِذَا عَرَضَتْ لَکَ إِلَی صُحْبَۃِ الرِّجَالِ حَاجَۃٌ فَاصْحَبْ مَنْ إِذَا خَدَمْتَہُ صَانَکَ وإن صحبتہ زانک وإن قعدت بک مؤنۃ مانک اصحب مَنْ إِذَا مَدَدْتَ یَدَکَ بِخَیْرٍ مَدَّہَا وَإِنْ رَأَی مِنْکَ حَسَنَۃً عَدَّہَا وَإِنْ رَأَی سَیِّئَۃً سَدَّہَا اصْحَبْ مَنْ إِذَا سَأَلْتَہُ أَعْطَاکَ وَإِنْ سَکَتَّ ابْتَدَاکَ وَإِنْ نَزَلَتْ بِکَ نَازِلَۃٌ وَاسَاکَ اصْحَبْ مَنْ إِذَا قُلْتَ صَدَّقَ قَوْلَکَ وَإِنْ حاولتما أمراً أمرک وإن تنازعتما آثرک ۔
ترجمہ:حضرت علقمہ عطاردی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ِنے اپنی وفات کے وقت اپنے بیٹے کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا:اے بیٹے!جب تمہیں لوگوں کی مجلس اختیار کرنا پڑے تو ایسے آدمی کی صحبت اختیار کر کہ جب تو ا س کی خدمت کرے تو وہ تیری حفاظت کرے،اگر تو ا س کی مجلس اختیار کرے تو وہ تجھے زینت دے،اگر تجھے کوئی مشقت پیش آئے تو وہ برداشت کرے، اس آدمی کی صحبت اختیار کر کہ جب تو بھلائی کے ساتھ اپناہاتھ پھیلائے تو وہ بھی اسے پھیلائے،اگر وہ تم میں کوئی اچھائی دیکھے تو اسے شمار کرے اور اگر برائی دیکھے تو اسے روکے۔اس آدمی سے دوستی اختیار کر کہ جب تو ا س سے مانگے تو وہ تجھے دے اور اگر خاموش رہے تو خود بخود دے،اگر تجھے کوئی پریشانی لاحق ہو تو وہ غمخواری کرے۔اُس آدمی کی صحبت اختیار کرو کہ جب تم بات کہو تو وہ تمہاری بات کی تصدیق کرے ،اگر تم کسی کام کا ارادہ کرو تو وہ اچھا مشورہ دے اور اگر تم دونوں میں اختلاف ہو جائے تو وہ تمہاری بات کو ترجیح دے۔
(إحیاء علوم الدین :أبو حامد محمد بن محمد الغزالی الطوسی (۲:۱۷۱)