مساجد کی صفائی کرنے والے حقیرنہیں ہیں بلکہ وارثین انبیاء کرام علیہم السلام ہیں
{وَ اِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَاَمْنًا وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰہٖمَ مُصَلًّی وَعَہِدْنَآ اِلٰٓی اِبْرٰہٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَہِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّآئِفِیْنَ وَالْعٰکِفِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِ}
ترجمہ کنزالایمان:اوریاد کروجب ہم نے اس گھر کو لوگوں کے لئے مرجع اور امان بنایا اور ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کا مقام بنایا اور ہم نے تاکید فرمائی ابراہیم و اسمٰعیل کو کہ میرا گھر خوب ستھرا کرو طواف والوں اور اعتکاف والوں اور رکوع و سجود والوں کے لئے۔
ترجمہ ضیاء الایمان:اوریادکروجب ہم نے کعبہ مشرفہ کو لوگوں کے لئے مرجع اورمقام امان بنایااورابراہیم (علیہ السلام) کے کھڑے ہونے والے مقام کو تمھارے لئے نماز کامقام بنایااورہم نے ابراہیم واسماعیل علیہماالسلام کو تاکیدفرمائی کہ وہ طواف اوراعتکاف کرنے والوں کے لئے ہمارے گھرکو صاف رکھیں۔
اللہ تعالی نے حضرت سیدناابراہیم علیہم السلام اورحضرت سیدنااسماعیل علیہ السلام کو حکم دیاکہ کعبہ مشرفہ میں ہرطرح کاخیال رکھاجائے اورحرم پاک کے قرب وجوارکو ہر قسم کی غلاظتوںاورہرطرح کی بدبودارچیزوں سے پاک رکھاجائے کیونکہ لوگ وہاں عبادت کرنے کے لئے آتے ہیں اوروہاں ذکروفکرمیں مشغول رہتے ہیں ۔ اسی لئے اللہ تعالی نے فرمایاکہ آپ دونوں باپ بیٹااس کے گھرکی نظافت وصفائی کو اللہ تعالی کے مہمانوں کی خاطرقائم وجاری رکھو۔
یادرہے کہ اس گھرکو دونوں طرح کی صفائی کی ضرورت ہے ، ظاہری صفائی بھی اورباطنی بھی وہ اس طرح کہ بیت اللہ ہویاکوئی اورمسجد شریف وہاں کوئی مشرک،کافر مرتداورملحدوزندیق داخل نہ ہوں۔
آج بھی الحمدللہ علی ذالک مساجد کی صفائی کرنااوران کی ہر طرح کی دیکھ بھال علماء کرام کے ذمہ ہے یہی مساجد کی صفائی کاخیال رکھتے ہیں ۔ اورجتنے لوگ علماء کرام پرطعن وتشنیع کرتے ہیں ان کے لئے اس میں درس ہے کہ مساجد کی صفائی کرنے والے علماء کرام کو تم حقیرنہ جانوکیونکہ یہ تووہ کام ہے جوانبیاء کرام علیہم السلام سے ان کے وارثوں کو ملاہے ۔
اب ہم یہاں کچھ تفصیلاً علماء کرام کے متعلق لکھتے ہیں اوران کے خلاف ہونے والی سازشوں میں کچھ کے احوال نقل کرتے ہیں تاکہ اہل اسلام پر واضح ہوکہ علماء کرام تو آج بھی اسی طرح خدمت سرانجام دے رہے ہیں چاہے تم جتنے مرضی ان پر طعن وتشنیع کے نشترچلائواوروہ قیامت تک یہ خدمت انجام دیتے رہیںگے مگرتم اپنے ایمان کاخیال کروکہیں تم ان کی گستاخیاں کرکے دین سے خارج ہی نہ ہوجائو۔
تاریخ شاہد ہے کہ دشمنان اسلام نے اسلام کو مٹانے کی ہر دور میں ہر ممکن کوشش کی ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے انہوں نے مختلف اقسام کے حربوں کو اختیار کیا ہے۔ کبھی وہ قرآن و حدیث کی خدمت کے نام پر قرآن و حدیث میں دخل اندازی کرتے ہیں تو کبھی مسلمانوں کے افکار و نظریات کو دقیانوسی قرار دیتے ہوئے اپنے افکار و نظریات کو اپنانے کی تلقین کرتے ہیں اور کبھی مسلمانوں کے تعلیمی نظام کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتے ہیں اور ان کے اذہان میں یہ فکر اور سوچ بٹھانے کی سعی کرتے ہیں کہ اگر آگے بڑھنا اور ترقی کرنا ہے تو ہمارے جدید نظام تعلیم کو اختیار کرو اور کبھی وہ اسلام مخالف منظم تحریکات چلاتے ہیں جو کہ بظاہر اسلام کے مفاد اور حق میں معلوم ہوتی ہیں لیکن درحقیقت وہ تحریکات اسلام کے بالکل منافی ہوتی ہیں۔ اسی طرح مسلمانوں کو اسلام کے متعلق شکوک و شبہات میں مبتلا کرتے ہیں اور اخوت اسلامی کی مقدس روح کو ناپاک کرنے کی سعی مذموم کرتے ہیں۔ افسوس تو اس وقت ہوتا ہے جب ان کے دام فریب میں آکر خود مسلمان اسلام مخالف عمل کرتے ہیں اور اس خوش فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کہ وہ دین کی بڑی خدمت کر رہے ہیں۔ اسلامی تعلیمات پر حملہ کرنے والے خواہ مسلمان ہوں اور مسلم خاندانی پس منظر رکھتے ہوں یا غیر مسلم ہوں اور غیر مسلم خاندانی پس منظر رکھتے ہوں سب کی دشمنی قریب قریب یکساں نظر آتی ہے بلکہ بسا اوقات مسلم نام کے حامل افراد کازہرکچھ زیادہ ہی سنگین ہوتا ہے۔
یہ تمام کوششیں دشمنان اسلام کو ناکافی لگیں کیونکہ انہیں علماء اسلام کے مقام و مرتبہ کا اعتراف تھا اور انہیں یہ معلوم تھا کہ جب تک مسلمانوں کا تعلق علماء حق اور علماء ربانیین سے بنا رہے گا وہ اسلام پر باقی رہیں گے۔ لہذا انہوں نے اپنے مذموم مقاصد کو بروئے کار لانے کی خاطر عام مسلمانوں کوانبیاء کرام علیہم السلام کے وارث یعنی علماء حق سے دور کرنے کی سازشیں شروع کیں اور علماء کے تعلق سے لوگوں کے دلوں میں اس قدر نفرت اور دوری پیدا کی کہ وہ صحیح اسلام سے دور ہوگئے۔ اس کے نتیجے میں ہر کس و ناکس نے دین میں دخل اندازی شروع کردی اور دین کی ایسی ایسی تشریحات کیں کہ اسلام کاحلیہ بگاڑ کرر کھ دیا۔ دین معاشرے، معیشت اور بازاروں سے نکل گیا اور دھیرے دھیرے گھروں سے بھی نکل کر مساجد و مدارس میں خستہ حالی کی زندگی جی رہا ہے۔ کبھی کبھار دینی اجلاس و محافل میں اپنی رہی سہی شان کے ساتھ کسی شہر میں یا سوشل میڈیا پر کہیں نظر آجاتا ہے۔ ورنہ ایسا لگتا ہے کہ اب رخصت ہوا کہ تب رخصت ہوا۔
سادہ لوح عوام شعوری و غیر شعوری طور پر تعلیمات اسلامی سے برگشتہ ہونے لگے، الحاد و زندیقیت اورلبرل ازم وسیکولرازم وغیرہ اپنا سر اٹھانے لگے اور اپنی تمام تر قوتوں کے ساتھ مسلمانوں پر حملہ آور ہونے لگے۔ عیسائی مشنریز اور انگریزوں کی پیداوار اور انکی پروردہ قادیانیت بھی اپنے جامہ سے باہر آگئی اور مسلمانوں کو غربت، بے روزگاری اور زندگی کے دیگر مسائل کی آڑ لے کر دین سے پھیرنا شروع کر دیاـ ہے:
ایک دو زخم نہیں سارا بدن ہے چھلنی درد بے چارہ پریشاں ہے کہاں سے اٹھے
مختصر یہ کہ عوام نے علماء کو ناکارہ تصور کر لیا اور تمام علماء کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکتے ہوئے انکو علماء بنی اسرائیل کے مشابہ قرار دے دیا بلکہ کچھ ناعاقبت اندیشوں نے تو علماء کو فرقہ پرست، بزدل، جہنمی اور نہ جانے کیسے کیسے القاب سے نوازنا شروع کر دیا۔ علماء کی اہمیت ختم ہونے لگی اور جہلاء کا بول بالا ہونے لگا اور انھیں کو حقیقی داعی اور مبلغ سمجھ لیا گیا۔ حالانکہ علماء کرام کی جماعت اس جہاں میں انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد سب سے افضل جماعت ہے۔ وہی تو اس امت کے محافظ ہیں، دین کی حفاظت و صیانت، تفسیر و تشریح اور دعوت و تبلیغ انھیں کی ذمہ داری ہے۔ انھیں کی بدولت ہی تو کتاب و سنت کا علم اس دنیائے فانی میں باقی ہے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺکافرمان عالی شان ہے کہ
عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ العَاصِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: إِنَّ اللَّہَ لاَ یَقْبِضُ العِلْمَ انْتِزَاعًا یَنْتَزِعُہُ مِنَ العِبَادِ، وَلَکِنْ یَقْبِضُ العِلْمَ بِقَبْضِ العُلَمَاء ِ، حَتَّی إِذَا لَمْ یُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُء ُوسًا جُہَّالًا، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَیْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا۔
ترجمہ
حضرت سیدناعبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺکو فرماتے ہوئے سناکہ اللہ تعالی علم کو اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ اس کو بندوں سے چھین لے۔ بلکہ وہ علم علماء کو موت دے کر اٹھائے گا۔ حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے، پھر ان سے سوالات کئے جائیں گے تو وہ بغیر علم کے فتوی دیں گے۔ لہذا وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔
(صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۱:۳۱)
غور فرمائیں! رسول اللہ ﷺنے علماء ربانیین کی وفات کو علم کا خاتمہ بتایا ہے۔ اور ایسا کیوں نہ ہو جب کہ علماء کرام ہی وہ ستارے ہیں جن کے ذریعہ جہالت کی تاریکی کو علم کی روشنی میں بدلا جا سکتا ہے۔ فرمان الہی ہے:
{فَاسْأَلُوا أَہْلَ الذِّکْرِ إِن کُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ}
ترجمہ:اگر تم نہیں جانتے تو اہل علم سے پوچھو۔(سورۃ النحل:۴۳)
یہی وجہ ہے کہ خودرسول اللہ ﷺنے علماء حق کو وارثین انبیاء قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
(إِنَّ الْعُلَمَاء َ وَرَثَۃُ الْأَنْبِیَاء ۔)ترجمہ: علماء انبیاء کے وارث ہیں۔
(سنن ابن ماجہ:ابن ماجۃ أبو عبد اللہ محمد بن یزید القزوینی (۱:۸۱)
علماء حق کے فضائل میں وارد نصوص سے اعراض
علماء کی تحقیر و توہین اور ان پر لعن طعن کرنے والوں کو یہ اور اس طرح کی بے شمار نصوص جن میں علماء حق کے فضائل وارد ہوئے ہیں، ہضم نہیں ہوتیں یا شاید وہ جان بوجھ کر ان نصوص سے صرف نظر کرتے ہیں، لہذا انھیں صرف وہ نصوص نظر آتے ہیں جن میں علماء سوء کی مذمت وارد ہے اور انھیں نصوص کو بنیاد بنا کر وہ تمام علماء ، خواہ وہ علماء حق ہوں یا علماء سوء ، سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا شروع کر دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ روش اور طریقہ تو خوارج کا ہے کہ جو وعید کے نصوص کو لیتے ہیں اور وعدے کے نصوص کا انکار کر دیتے ہیں۔ یا یہ طریقہ اہل ہوی کا ہے جو اپنے نفس کی اتباع میں اپنے مطلب کی باتوں کو لیتے ہیں جبکہ مخالف باتوں کو چھوڑ دیتے ہیں۔
علماء کرام پر فتووں کی بوچھاڑ
ان لبرل وسیکولرلوگوں کے قدم یہیں تک رکے رہتے تو کچھ غنیمت بھی تھا لیکن ان لوگوں نے علماء کرام کی تذلیل و اہانت میں چار قدم آگے بڑھ کر ان پر فتوے بازی شروع کردی، لہذا کبھی وہ علماء کرام کو اللہ کے ڈر اور خوف سے عاری قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ اگر کوئی حقیقی معنیٰ میں اللہ سے ڈرتا ہے تو علماء حق ہی ہیں۔ فرمان الہی ہے:
{إِنَّمَا یَخْشَی اللَّہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَاء ُ}
ترجمہ ضیاء الایمان:اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں۔(سورۃ فاطر:۲۸)
بھلا بتائیے!کیا علمائے کرام کے علاوہ اللہ سے کوئی نہیں ڈرتا؟ نہیں ایسا نہیں ہے بلکہ اللہ سے ڈرنے والے تو بہت سارے لوگ ہو سکتے ہیں لیکن علماء کے ڈر اور خوف کی بات ہی کچھ اور ہوتی ہے اسی لئے اللہ رب العالمین نے ان کے ڈرنے اور خوف کھانے کی مثال دی ہے۔کبھی وہ علماء کرام کو مذہبی منافرت پھیلانے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے انہیں فرقہ پرست قرار دیتے ہیں ۔ ان کی بیان کردہ وجوہات سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ علماء صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہنا چھوڑ کر یہ بھی صحیح اور وہ بھی صحیح کا نعرہ لگانا شروع کر دیں۔ حالانکہ یہ قرآن و حدیث کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ قرآن و حدیث تو ہمیں یہ حکم دیتے ہیں کہ ہم قرآن وحدیث کے بالمقابل کسی کو ترجیح نہ دیں۔ اب اگر اس سے کسی کو لگتا ہے کہ مذہبی منافرت پھیلتی ہے اور لوگ فرقوں میں بٹتے ہیں تو اس کو اپنی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ قرآن و حدیث بیان کرنے سے ہی اتحاد کی فضا قائم ہوتی ہے نہ کہ لوگوں کے افکار و آراء بیان کرنے سے۔ کیونکہ یہ دونوں چیزیں وحی الہی ہیں۔
اسی طرح کبھی وہ علماء کو بزدلی اور مصلحت پرستی کا طعنہ دیتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ علماء کرام بوقت ضرورت اور بقدر ضرورت اپنا حق ادا کرتے رہتے ہیں۔ البتہ وہ وقتی مصلحت کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنا کام کرتے ہیں۔ انہیں معاشرتی و حکومتی مصالح اور مفاسد کا بخوبی علم ہوتا ہے اسی لئے وہ احتیاط برتتے ہیں۔
حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قَالَ زریک فسمعت الْحَسَن یَقُولُ:الفتنۃ إذا أقبلت عرفہا کل عالم وإذا أدبرت عرفہا کل جاہل.
ترجمہ
امام زریک رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میں نے امام حسن بصری رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سناکہ فتنہ جب سر اٹھاتا ہے تو ہر عالم اسے پہچان لیتا ہے، اور جب چلا جاتا ہے تو جاھل کو پتہ چلتا ہے کہ یہ فتنہ تھا۔
(التاریخ الکبیر:محمد بن إسماعیل بن إبراہیم بن المغیرۃ البخاری، أبو عبد اللہ (۴:۳۲۳)
ہم کیسے تیراک رہے ہیں جاکر پوچھو ساحل والوں سے خود تو ڈوب گئے لیکن رخ موڑ دیا طوفانوں کا
علماء کی تحقیر اور ان پر طعن کا نقصان
علماء کرام کا مذاق اڑانا اور ان پر طعن و تشنیع کوئی نئی بات نہیں۔ صدیوں سے یہ کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ البتہ دور حاضر میں خصوصاً سوشل میڈیا کے ذریعہ اس کا احاطہ عمل وسیع ہو گیا ہے۔ چنانچہ اس کے اثرات پہلے سے کہیں زیادہ محسوس کئے جاتے ہیں۔ لہذا علماء کو تمسخرانہ انداز میں ’’ملا اور جاہل مولوی‘‘ وغیرہ جیسے القاب سے پکارا جاتا ہے۔ حالانکہ علماء کرام کی توہین و تحقیر پر سخت وعیدیں وارد ہیں۔ چنانچہ علماء سے دشمنی اللہ سے جنگ ہے۔ حدیث قدسی میں فرمان الہی ہے:
{مَنْ عَادَی لِی وَلِیًّا فَقَدْ آذَنْتُہُ بِالْحَرْبِ}
ترجمہ:جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اس سے میری طرف سے اعلان جنگ ہے۔(صحیح بخاری، حدیث نمبر:۶۵)
اسکی تشریح میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
مِنْ عَادَی لِی وَلِیًّا الْمُرَادُ بِوَلِیِّ اللَّہِ الْعَالِمُ بِاللَّہِ الْمُوَاظِبُ عَلَی طَاعَتِہِ الْمُخْلِصُ فِی عِبَادَتِہِ۔
ترجمہ:اللہ کے ولی سے مراد عالم باللہ (جو اللہ کی معرفت رکھتا ہو)ہے، جو اسکی اطاعت میں ہمیشگی اور دوام برتتا ہے اور اسکی عبادت میں مخلص ہے۔
(فتح الباری شرح صحیح البخاری:أحمد بن علی بن حجر أبو الفضل العسقلانی الشافعی(۱۱:۲۴۲)
آج پرفتن دورہے کہ علماء حق کو زندگی بھرولی نہیں سمجھتے ، ہاں اس کے مقابل کوئی ایساشخص ہوجو شریعت مبارکہ کامذاق اڑانے والااورنماز وروزہ کی پابندی نہ کرنے والاہوتو اس کو ہفت اقلیم کامالک گردانتے ہیں ۔
اس کے علاوہ جو علماء کے حق کو نہیں پہچانتا اور ان کی توہین کرتا ہے وہ رسول اللہ ﷺکے طریقہ پر نہیں۔
عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:لَیْسَ مِنْ أُمَّتِی مَنْ لَمْ یُجِلَّ کَبِیرَنَا، وَیَرْحَمْ صَغِیرَنَا، وَیَعْرِفْ لِعَالِمِنَا ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے ارشادفرمایا:جو شخص ہمارے بڑوں کی تعظیم نہیں کرتا، ہمارے چھوٹوں پر شفقت نہیں کرتا اور ہمارے علماء کی قدر نہیں کرتا وہ میری امت میں سے نہیں۔
(مسند الإمام أحمد بن حنبل:أبو عبد اللہ أحمد بن محمد بن حنبل بن ہلال بن أسد الشیبانی (۳۷:۴۱۶)
علماء سلف نے بھی علماء کی توہین و تحقیر اور ان پر طعن و تشنیع سے ڈرایا ہے۔
امام طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَعُلَمَاء ُ السَّلَفِ مِنَ السَّابِقِینَ وَمَنْ بَعْدَہُمْ مِنَ التَّابِعِینَ أَہْلِ الْخَیْرِ وَالْأَثَرِ وَأَہْلِ الْفِقْہِ وَالنَّظَرِ لَا یُذْکَرُونَ إِلَّا بِالْجَمِیلِ وَمَنْ ذَکَرَہُمْ بِسُوء ٍ فہو علی غیر السبیل۔
ترجمہ:امام ابوجعفراحمدبن محمدالطحاوی المتوفی : ۳۲۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ سابقین علماء سلف اور ان کے بعد تابعین اہل خیر اور علم و فقہ والے ہیں، ان کا صرف ذکر جمیل کیا جائے گا اور جو انکا ذکر برے طریقہ سے کرتا ہے وہ راہ راست سے بھٹکا ہوا ہے۔
(تخریج العقیدۃ الطحاویۃ:أبو جعفر أحمد بن محمد الحجری المصری المعروف بالطحاوی (۱:۸۲)
اور امام ابن مبارک رحمہ اللہ کاقول
عَنِ ابْنِ المُبَارَکِ، قَالَ:مَنِ اسْتَخَفَّ بِالعُلَمَاء ِ، ذَہَبتْ آخِرَتُہُ، وَمَنِ اسْتَخَفَّ بِالأُمَرَاء ِ، ذَہَبتْ دُنْیَاہُ، وَمَنِ اسْتَخَفَّ بِالإِخْوَانِ، ذَہَبتْ مُرُوء تُہُ.
ترجمہ:جس نے علماء کی توہین کی اسکی آخرت برباد ہو گئی اور جس نے امراء کی اہانت کی اسکی دنیا چلی گئی اور جس نے بھائیوں کی ناقدری کی اسکی مرو ت ختم ہو گئی۔
(سیر أعلام النبلاء :شمس الدین أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن عثمان بن قَایْماز الذہبی (۷:۳۸۳)
امام ابن حجرالہیتمی المتوفی : ۹۷۴ھ) رحمہ اللہ تعالی کاقول
بِأَنَّ الْوَقِیعَۃَ فِی أَہْلِ الْعِلْمِ وَحَمَلَۃِ الْقُرْآنِ مِنْ الْکَبَائِرِ
ترجمہ:اہل علم کی مذمت و توہین خاص طور پر انکے اکابر کی، کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔
(الزواجر عن اقتراف الکبائر:أحمد بن محمد بن علی بن حجر الہیتمی شہاب الدین شیخ الإسلام، أبو العباس (۲:۲۰)
مذکورہ بالا احادیث اور اقوال سلف سے ہمیں درس عبرت حاصل کرنا چاہئے، علمائے کرام کی توقیر و تکریم کرنی چاہئے اور ان کے بارے میں اپنی زبانوں کو لگام دینی چاہئے۔ اختلاف رائے رکھنے کا حق سب کو ہے لیکن اس کے کچھ حدود و قیود ہیں، لہٰذا شائستگی سے اختلاف رکھنے میں کوئی حرج نہیں لیکن بے ادبی، سطحیت اور تذلیل و حقارت کسی صورت میں جائز نہیں۔ یاد رکھیں! علماء پر بہتان لگانا، سنی سنائی باتوں کو ان کی طرف منسوب کرنا اور ہر محفل میں زبان درازی کرکے اپنی علمیت ظاہر کرنا بجز جہالت کے اور کچھ نہیں۔
ان حالات کے اسباب
ان حالات کے اسباب بہت سے ہو سکتے ہیں، ان میں سے چند اہم اسباب کو میں قلمبند کرنے کی کوشش کرتا ہوں:
(۱) علماء سو کی بدکرداریاں:
علماء سوء کی وجہ سے عوام نے علماء حق سے دوری اختیارکرنا شروع کر دی اور یہ سمجھ لیا کہ علماء تمام کے تمام بدکردار اور برے ہی ہوتے ہیں۔ یہی سوچ علماء سے تنفر کے پیچھے کار فرما ہے۔
(۲) علماء اور عوام کے درمیان دوری:
اعدائے اسلام کی سازشوں اور کچھ نام نہاد مسلمانوں کی بنا ء پر عوام نے علماء سے دوری اختیار کرلی اور علماء نے بھی عوام سے ربط و تعلق کی کوشش نہیں کی۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ علماء عوام سے قربت کے ذرائع اختیار کرتے، لیکن بجز کچھ علماء کے اکثریت نے کوئی مناسب ذریعہ اور وسیلہ اختیار نہیں کیا اور آج حالت یہ ہوگئی ہے کہ فیس بک اور واٹس ایپ کے دلدادہ علماء کے پاس عوام کے لئے وقت ہی نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ نوجوانان ملت اسلامیہ کی ذہن سازی علمائے حق کی بجائے اہل مغرب اور مغربی تہذیب کے مقلد افراد کر رہے ہیں۔
(۳) سوشل میڈیا:
ستم ظریفی یہ ہے کے عوام کے پاس ایک تو علم دین کی کمی ہے، دوسرا جو کچھ ہے وہ بھی سوشل میڈیا کی دَین ہے جو بدعات و خرافات، سازشوں اور غلط فہمیوں کی ملاوٹ کا شکار ہے۔ اس کی وجہ اور سبب کافی حد تک خود علماء کا رویہ ہے۔ انہوں نے عوام کی تربیت اور ذہن سازی پر دھیان دینا ترک کر دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کے عوام نے سوشل میڈیا ہی کو حصول علم دین کا ذریعہ بنا لیا اور مساجد و مدارس سے تعلق ختم کرلیا اور سوشل میڈیا سے رطب و یابس ہر چیز علم دین کے نام پر حاصل کرنا شروع کر دیا۔
(۴) حصول علم میں احتیاط نہ کرنا:
اپنایااپنے بچوں کاکسی طرح علاج کرانے کے لئے اچھے سے اچھے ڈاکٹر کا انتخاب کیا جاتا ہے اور نیم حکیم خطرہ جان کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے جھولا چھاپ ڈاکٹروں سے اجتناب کیا جاتا ہے تاکہ علاج صحیح ڈھنگ سے ہوسکے اور نقصان کے بجائے فائدہ ہو۔ لیکن بیچارہ دین اتنا ارزاں اور حقیر ہو گیا ہے کہ لوگ دین کا علم کسی سے بھی حاصل کر لیتے ہیں اور آج یہی ہو رہا ہے کہ امت مسلمہ حصول علم دین کے سلسلے میں احتیاط کو پرے رکھتے ہوئے ہر کس و ناکس سے دین کا علم حاصل کر رہی ہے۔ اور جب ہر کس و ناکس سے علم دین کا حصول ہوگا تو ظاہر سی بات ہے فساد و بگاڑ اس امت کا مقدر بن جائے گا۔ چنانچہ علم دین کسی سے بھی حاصل کیا جا سکتا ہے اور حق جہاں سے ملے لے لینا چاہئے اسی طرح جو حق ہو اسے لے لو باقی کو چھوڑ دو جیسے پر فریب نعرے آج امت مسلمہ خصوصا نوجوانان ملت کے خاصے بن چکے ہیں۔ حالانکہ ہمارے اسلاف کا یہ طریقہ نہیں رہا ہے۔
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِیرِینَ، قَالَ: إِنَّ ہَذَا الْعِلْمَ دِینٌ، فَانْظُرُوا عَمَّنْ تَأْخُذُونَ دِینَکُمْ۔
ترجمہ:امام محمدبن سیرین رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یہ علم دین ہے، لہذا دیکھ لو کہ تم کن لوگوں سے اپنا دین اخذ کرتے ہو۔
(مقدمہ صحیح مسلم :مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشیری النیسابوری (ا:۱۴
امام مالک رضی اللہ عنہ کاقول
قال ابن أبی أویس:سمعت مالک بن أنس یقول:إِنَّ ہَذَا الْعِلْمَ ہُوَ لَحْمُکَ وَدَمُکَ، وَعَنْہُ تُسْأَلُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، فَانْظُرْ عَنْ مَنْ تَأْخُذُہُ۔
ترجمہ:امام ابن ابی اویس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے امام مالک رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سناکہ یہ علم تمہارا گوشت اور خون ہے، اس کے بارے میں قیامت کے دن تم سے سوال کیا جائے گا، لہذا دیکھ لیا کرو کہ اسے کس سے حاصل کر رہے ہو؟
(الموطأ: مالک بن أنس بن مالک بن عامر الأصبحی المدنی (۱:۲۵)
بلکہ ہمارے اسلاف حصول علم دین میں احتیاط نہ کرنے کی بنا پر ہاتھ تک اٹھا دیا کرتے تھے۔
اپنے بیٹے کو ڈنڈے کے ساتھ مارا
عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ أَبِی الْہُذَیْلِ، عَنْ خَبَّابٍ، قَالَ: رَأَی ابْنَہُ عِنْدَ قَاصٍّ، فَلَمَّا رَجَعَ اتَّزَرَ وَأَخَذَ السَّوْطَ وَقَالَ: أَمَعَ الْعَمَالِقَۃِ، ہَذَا قَرْنٌ قَدْ طَلَعَ۔
ترجمہ:حضرت سیدناعبداللہ بن ابی الہذیل رضی اللہ عنہ حضرت سیدناخباب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے اپنے بیٹے کو ایک قصہ گو کے پاس دیکھا۔ جب وہ گھر لوٹے تو ازار باندھا اور کوڑا لیکر اپنے بیٹے کو یہ کہ کر پیٹنے لگے کہ کیا عمالقہ کے ساتھ بیٹھتے ہو۔
(مصنف ابن ابی شیبہ:أبو بکر بن أبی شیبۃ، عبد اللہ العبسی (۵:۲۹۱)
ذرا سوچیں اور غور و فکر کرنے کے بعد اپنے دل سے پوچھیں کہ کیا یہ زمانہ خیرالقرون سے بہتر ہے؟ یا من جملہ اس زمانے کے لوگ خیرالقرون کے لوگوں سے بہتر ہیں؟ اگر اس کا جواب آپ کو نفی میں ملے اور حقیقت ایسی ہی ہے تو اللہ کے واسطے اسلاف کے طریقہ اور منہج پر چلیں اور ہر کس و ناکس سے علم دین کے حصول سے بچتے ہوئے صرف ان لوگوں سے علم دین حاصل کریں جن کے علم کی گواہی اور جن کا تزکیہ علماء حق نے کیا ہو۔ یہی تعلیم عبد الرحمن بن یزید بن جابر رحمہ اللہ نے دی ہے۔ فرماتے ہیں:
وَعَنِ ابْنِ جَابِرٍ أَنَّہُ قَالَ: لَا یُؤْخَذُ الْعِلْمُ إِلَّا مِمَّنْ شُہِدَ لَہُ بِالطَّلَب۔
ترجمہ:حضرت ابن جابررحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ علم اس شخص سے حاصل کیا جائے جس کے متعلم ہونے کی اہل علم نے گواہی دی ہو۔
فتح المغیث بشرح الفیۃ الحدیث للعراقی:شمس الدین أبو الخیر محمد السخاوی (۲:۱۲) مکتبۃ السنۃ – مصر
ائمہ کرام کاقول
قال بعض الأئمۃ: لا یؤخذ العلم إلا عمن عرف بالطلب.
ترجمہ :امام زین الدین عبدالرحمن الحنبلی المتوفی : ۷۹۵ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ہمارے بعض ائمہ کرام رحمہم اللہ تعالی نے فرمایاکہ علم صرف اس شخص سے حاصل کیاجائے جس کے متعلق تم جانتے ہوکہ اس نے علم حاصل کیاہے ۔
(الحکم الجدیرۃ بالإذاعۃ:زین الدین عبد الرحمن ، الحنبلی (۱:۳۹)
یاد رکھیں!اس امت میں خیر علماء حق سے ہی علم حاصل کرنے میں ہے۔ چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
لَا یَزَالُ النَّاسُ بِخَیْرٍ مَا أَخَذُوا الْعِلْمَ عَنْ أَکَابِرِہِمْ وَعَنْ أُمَنَائِہِمْ وَعُلَمَائِہِمْ فَإِذَا أَخَذُوہُ مِنْ صِغَارِہِمْ وَشِرَارِہِمْ ہَلَکُوا۔
ترجمہ:لوگ ہمیشہ خیر پر رہیں گے جب تک وہ اپنے بڑوں، امین لوگوں اور علماء سے حاصل کریں گے۔ اور جب وہ اپنے چھوٹوں اور برے لوگوں سے علم حاصل کریں گے تو ہلاک ہو جائیں گے۔
(نصیحۃ أہل الحدیث:أبو بکر أحمد بن علی بن ثابت بن أحمد بن مہدی الخطیب البغدادی :۲۵)
اسی ضمن میں یہ فتنہ بھی آتا ہے کہ علم دین کے حصول میں علماء کو چھوڑ کر صرف اور صرف انٹرنیٹ اور کتابوں پر تکیہ کر لیا گیا ہے۔ اس بیماری میں خاص طور سے امت کے نوجوان مبتلا ہیں۔ جو لوگ صرف کتابوں سے علم حاصل کرتے تھے اسلاف اسے صحفی کہا کرتے تھے اور ان سے علم دین حاصل کرنے سے منع کرتے تھے۔
حضرت ملاعلی قاری حنفی رحمہ اللہ تعالی کاقول
لَا تَأْخُذُوا الْعِلْمَ مِنَ الصَّحَفِیِّینَ۔
ترجمہ:حضرت سیدناملاعلی قاری حنفی المتوفی : ۱۰۱۴ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ صحفی لوگوں سے علم حاصل مت کرو۔
(شرح نخبۃ الفکر فی مصطلحات أہل الأثر:علی بن محمد، أبو الحسن نور الدین الملا الہروی القاری :۲۱۳)
الصحفی کون؟
أَن قوما کَانُوا أخذُوا الْعلم من الصُّحُف، من غیر أَن یلْقوا فِیہَا الْعلمَاء ، فَکَانَ یَقع فِیمَا یَرْوُونَہُ التَّغْیِیر فَیُقَال عِنْدہ: قد صحفوا، أی رَوَوْہُ عَن الصُّحُف، وہم مصحفون۔
ترجمہ :امام شمس الدین ابوالخیرمحمدبن عبدالرحمن المتوفی : ۹۰۲ھ) ر حمہ اللہ تعالی الصحفی کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ پہلے کچھ لوگ ایسے پیداہوگئے جنہوں نے علماء کرام کی خدمت میں حاضری دئیے بغیرکتابوں پر انحصارکرلیاتھااوراسی طرح روایت کرنے لگے اوران میں بہت زیادہ تغیرواقع ہوا۔ انہیں لوگوں کے بارے میں اہل علم کہتے تھے کہ یہ کتابی ہوگئے ہیں یعنی علماء سے روایت نہیں کرتے بلکہ کتابوں سے پڑھ کرروایت کردیتے ہیں ۔
(الغایۃ فی شرح الہدایۃ فی علم الروایۃ:شمس الدین أبو الخیر محمد بن عبد الرحمن السخاوی (۱:۲۲۴)
امام مالک رضی اللہ عنہ کافرمان عالی شان
إِنَّ ہَذَا الْعِلْمَ دِینٌ فَانْظُرُوا عَمَّنْ تَأْخُذُونَ دِینَکُمْ لَقَدْ أَدْرَکْتُ سَبْعِینَ مِمَّنْ یَقُولُ: قَالَ فُلَانٌ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عِنْدَ الْأَسَاطِینِ، وَأَشَارَ إِلَی مَسْجِدِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَمَا أَخَذْتُ عَنْہُمْ شَیْئًا، وَإِنَّ أَحَدَہُمْ لَوْ أُؤْتُمِنَ عَلَی مَالٍ لَکَانَ بِہِ أَمِینًا لِأَنَّہُمْ لَمْ یَکُونُوا مِنْ أَہْلِ ہَذَا الشَّأْنِ، وَیَقْدِمُ عَلَیْنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمِ بْنِ عُبَیْدِ اللَّہِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ شِہَابٍ فَیُزْدَحَمُ عَلَی بَابِہِ۔
ترجمہ:یہ علم دین ہے لہذا دیکھ لیا کرو کہ تم کس سے اپنا دین لے رہے ہو، میں نے ستّر لوگوں کو اللہ کے نبی ﷺکی مسجد میں ستون کے پاس یہ کہتے ہوئے پایا کہ فلاں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا لیکن میں نے ان سے کچھ نہ لیا، جبکہ وہ سب کے سب اس قدر امین تھے کہ اگر انہیں مال پر نگران مقرر کر دیا جاتا تو وہ امانت دار نکلتے لیکن وہ اس فن کے اھل نہ تھے۔ (ان کے بالمقابل)محمد بن شہاب الزہری رحمہ اللہ جب ہمارے پاس تشریف لاتے تو ان کے دروازے پر ہجوم لگ جایا کرتا۔
(الفقیہ و المتفقہ:أبو بکر أحمد بن علی بن ثابت بن أحمد بن مہدی الخطیب البغدادی (۲:۱۹۴)
تین مسائل (یعنی اللہ کی معرفت، رسول اللہ ﷺکی معرفت اور دین اسلام کی معرفت)یہاں تعلم (علم حاصل کرنے)سے مراد علماء کرام سے علم حاصل کرنا، اسے حفظ کرنا، اس کا فہم و ادراک حاصل کرنا ہے۔یہی تعلیم ہے۔ اس سے یہ مراد نہیں کہ محض پڑھائی یا جس طرح نام دیا جاتا ہے آزادانہ مطالعہ کیا جائے، یہ تعلم نہیں بلکہ تعلم تو یہ ہے کہ علماء کرام سے (علم)حاصل کیا جائے اس کے حفظ، فہم اور مکمل ادراک کے ساتھ، یہ ہے صحیح معنوں میں علم حاصل کرنا، جبکہ صرف خود کتاب پڑھنا اور مطالعہ کرنا اگرچہ مطلوب تو ہے مگر تعلم کے لئے کافی نہیں، اس میں فائدہ بھی ہے مگر یہ کفایت نہیں کرتا اور اس پر اقتصار کرنا کافی نہیں۔ کتابوں کا تلمذ اور شاگردی اختیار کرنا جائز نہیں جیسا کہ لوگوں کی موجودہ حالت ہے، کیونکہ کتابوں کا تلمذ اختیار کرنا بہت خطرناک ہے جس سے بہت مفاسد پیدا ہوتے ہیں اور یہ تعلم تو جہل سے زیادہ نقصان دہ ہے، کیونکہ جاہل جانتا ہے کہ وہ جاہل ہے لہذا وہ اپنی حد پر رک جاتا ہے، لیکن (علم کا دعویدار)سمجھتا ہے کہ وہ عالم ہے لہذا وہ اللہ تعالی کے حلال کردہ کو حرام اور حرام کردہ کو حلال قرار دیتا ہے اور اللہ تعالی کے بارے میں بغیر علم کے بولتا اور کلام کرتا ہے لہذا یہ مسئلہ بہت خطرناک ہے۔ چنانچہ علم کتابوں سے براہ راست حاصل نہیں کیا جاتا بلکہ کتابیں تو وسیلہ ہیں، جبکہ حقیقی معنوں میں علم تو علماء کرام سے حاصل ہوتا ہے جو ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتا رہتا ہے، اور کتابیں تو علم حاصل کرنے کے وسائل میں سے ہیں۔
(۵) غیر عالم واعظین کا تسلط اور غلبہ:
رسول اللہ ﷺنے فرمایا :
إِنَّ اللَّہَ لَا یَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا یَنْتَزِعُہُ مِنَ الْعِبَادِ، وَلَکِنْ یَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاء ِ، حَتَّی إِذَا لَمْ یُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُء ُوسًا جُہَّالًا، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَیْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا۔
ترجمہ:اللہ تعالی علم کو اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ اس کو بندوں سے چھین لے۔ بلکہ وہ علم علماء کو موت دے کر اٹھائے گا۔ حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے، پھر ان سے سوالات کئے جائیں گے تو وہ بغیر علم کے فتوی دیں گے۔ لہذا وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔
آج رسول اللہ ﷺکی پیشین گوئی حرف بہ حرف صادق آرہی ہے۔ لوگ چند کتابوں کا مطالعہ کر کے علماء کا لبادہ پہن کر سادہ لوح مسلمانوں کو غلط سلط باتیں بتا کر راہ حق اور صراط مستقیم سے برگشتہ کرتے ہوئے وقت کا علامہ بننے کی پرزور کوشش کر رہے ہیں۔ عوام بھی ان کا خوب ساتھ دے رہی ہے اور ان کو سراہتے ہوئے انہیں علماء سے زیادہ اہمیت دینے لگی ہے۔ انھیں عوام کی بدولت یہ منبر و محراب اور محافل وغیرہ میں اپنا تسلط قائم کرنے لگے ہیں۔ ان کی شہرت اور چمک دمک کو دیکھتے ہوئے نوجوانان ملت بھی اسی راہ پر چل نکلے ہیں، لہذا آپ کو سوشل میڈیا پر خاص طور سے نام نہاد مبلغین وواعظین اور محققین و مفتیان کے القاب کے مصداق افراد مل جائیں گے جو بزعم خویش دین کی بہت بڑی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ چنانچہ آپ دیکھیں گے کہ جس نے بھی ایک دو کتابیں پڑھ لیں یا دو چارتقریریں عالم کی سن لیں وہ گروپس، پیجز، بلاگس، ویب سائٹس اور یوٹیوب چینلز بناتا ہے اور قرآن و حدیث کی خود ساختہ تشریح کرتے ہوئے دین اسلام کی دھجیاں اڑانے کی کوشش کرتا ہے، لہذا کوئی محقق دوراں بنتے ہوئے احادیث کی صحت و ضعف پر کلام کرتا ہے تو کوئی منسوخ جیسی احادیث کو بیان کر کے ان سے مسائل کا استنباط کرتا نظر آتا ہے۔ یہ دقیق مسائل ہوں یا غیر دقیق سب میں اپنی رائے دینے کو اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں اور جب تک دن میں دو چار فتوے نہ دے لیں اور مناظرے نہ کر لیں ان کو سکون نہیں ملتا۔
محدث ابن جوزی رحمہ اللہ تعالی کاقول
وأکبر أَسبَابہ أَنہ قد یعانی ہَذِہ الصِّنَاعَۃ جہال بِالنَّقْلِ یَقُولُونَ مَا وجدوہ مَکْتُوبًا وَلَا یعلمُونَ الصدْق من الْکَذِب فہم یبیعون علی سوق الْوَقْت وَاتفقَ أَنہم یخاطبون الْجُہَّال من الْعَوام الَّذین ہم فِی عداد الْبَہَائِم فَلَا یُنکرُونَ مَا یَقُولُونَ وَیخرجُونَ فَیَقُولُونَ قَالَ الْعَالم فالعالم عِنْد الْعَوام من صعد الْمِنْبَر۔
ترجمہ:امام عبدالرحمن بن ابی بکرجلال الدین السیوطی المتوفی : ۹۱۱) رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ محدث ابن جوزی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ اس فن میں ان لوگوں نے دخل اندازی کی جو نقلی دلائل سے عاری و جاہل ہوتے ہیں۔ جو لکھا ہوا پاتے ہیں اسی کو یہ کہتے ہیں۔ صدق و کذب کی معرفت کی کسوٹی ان کے پاس نہیں ہوتی۔ یہ سوق وقت میں دینی خدمت کا کاروبار کرتے ہیں۔ اور (لوگوں کا)اتفاق ہے کہ یہ عام طور پر عوام میں سے ایسے جاہلوں کو مخاطب کرتے ہیں، جو چوپایوں کے قائم مقام ہوتے ہیں لہذا وہ ان کی غلطیوں پر نکیر نہیں کرتے اور یہ کہتے ہوئے نکلتے ہیں کہ عالم نے کہا۔ پس عوام کے نزدیک وہی عالم ہے جو منبر (اسٹیج)پر چڑھ گیا۔
(تحذیر الخواص من أکاذیب القصاص:عبد الرحمن بن أبی بکر، جلال الدین السیوطی :۲۳۰)
درحقیقت یہ وہی فتنہ ہے جسے ربیعہ بن ابو عبد الرحمان رحمہ اللہ نے امر عظیم قرار دیا تھا اور آنسو بہائے تھے:
قَالَ مَالِکٌ:أَخْبَرَنِیْ رَجُلٌ أَنَّہُ دَخَلَ عَلَی رَبِیعَۃَ بْنِ أَبِی عَبْدِ الرَّحْمَنِ فَوَجَدَہُ یَبْکِی، فَقَالَ لَہُ:مَا یُبْکِیکَ؟ وَارْتَاعَ لِبُکَائِہِ فَقَالَ لَہُ: أَمُصِیبَۃٌ دَخَلَتْ عَلَیْکَ؟ فَقَالَ:لَا، وَلَکِنِ اسْتُفْتِیَ مَنْ لَا عِلْمَ لَہُ وَظَہَرَ فِی الْإِسْلَامِ أَمْرٌ عَظِیمٌ، قَالَ رَبِیعَۃُ:وَلَبَعْضُ مَنْ یُفْتِی ہَا ہُنَا أَحَقُّ بِالسَّجْنِ مِنَ السُّرَّاقٌِ۔
ترجمہ:امام مالک رحمہ اللہ تعالی نے کہا کہ:مجھے ایک شخص نے خبر دی ہے، وہ ربیعہ بن ابی عبد الرحمن کے پاس آیا تو اس نے ان کو روتے ہوئے دیکھ کر پوچھا کہ آپ کو کس چیز نے رلایا؟ اور وہ ان کے رونے کی وجہ سے گھبرا گیا، لہذا اس نے ربیعہ رحمہ اللہ سے کہا کہ کیا کوئی مصیبت آن پڑی ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ نہیں!لیکن اس شخص سے فتوی پوچھا جارہا ہے جس کے پاس علم نہیں اور اسلام میں امر عظیم ظاہر ہو چکا ہے۔ ربیعہ رحمہ اللہ نے مزید فرمایا کہ یہاں بعض فتوی دینے والے ایسے ہیں جو چوروں کی بہ نسبت جیل کے زیادہ حقدار ہیں۔
(جامع بیان العلم وفضلہ:أبو عمر یوسف بن عبد اللہ القرطبی (۲:۵۵۱)
(۶) دین بیزاری:
سوشل میڈیا کے اس دور میں آزادی کا جو نعرہ بلند کیا گیا ہے لوگ اس سے اس قدر متاثر ہو گئے ہیں کہ دین پر عمل کو پابندی سمجھنے لگے ہیں، لہذا آئے دن سوشل میڈیا پر دین بیزاری کی نت نئی مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں اور اسی دین بیزاری کی ہی بنا پر علماء بیزاری وجود میں آئی ہے۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اس مہلک وبا کے علاج کا سامان کیا جائے۔ علماء کے مقام و مرتبہ اور ان پر طعن و تشنیع اور توہین کے گناہ کی سنگینی کو سمجھا جائے۔ معاشرہ پر مرتب ہونے والے برے اثرات کو زائل کرنے کی تدبیر کی جائے اور لوگوں کے دلوں میں علماء حق کے مقام اور ان کی عظمت کو راسخ کیا جائے۔ لوگوں کے مابین ان کی غلطیوں کو بیان کرنے سے احتراز کیا جائے اور یہ اعتقاد رکھا جائے کہ علماء بھی انسان ہی ہوتے ہیں بشری تقاضا کی بنا پر ان سے بھی غلطی ہو سکتی ہے۔ غلطی کی صورت میں ان کے لئے ایک اجر کی توقع کی جائے اور ان پر اعتماد کو برقرار رکھا جائے۔ ساتھ ہی ساتھ ان کے لئے عذر تلاش کیا جائے اور ان سے حسن ظن رکھا جائے۔ اسی طرح علماء کرام کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنا مقام سمجھیں اور دین حق کا کام کریں۔ جہاں غلطی ہو جائے اپنی اصلاح کریں اور عوام کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط کریں۔