تفسیر سورہ بقرہ آیت ۱۰۹ تا ۱۱۳ ۔ جہاد کاحکم ہی ناموس رسالت کے دفاع کے لئے دیاگیاہے

جہاد کاحکم ہی ناموس رسالت کے دفاع کے لئے دیاگیاہے

{وَدَّ کَثِیْرٌ مِّنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ لَوْ یَرُدُّوْنَکُمْ مِّنْ بَعْدِ اِیْمٰنِکُمْ کُفَّارًا حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِہِمْ مِّنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمُ الْحَقُّ فَاعْفُوْا وَاصْفَحُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللہُ بِاَمْرِہٖ اِنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَیْء ٍ قَدِیْرٌ}(۱۰۹)

ترجمہ کنزالایمان:بہت کتابیوں نے چاہا کاش تمہیں ایمان کے بعد کفر کی طرف پھیردیں اپنے دلوں کی جلن سے بعد اس کے کہ حق ان پر خوب ظاہر ہوچکا ہے تو تم چھوڑو اور درگزر کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے ۔
ترجمہ ضیاء الایمان: بہت اہل کتاب حق واضح ہوجانے کے بعد بوجہ حسد یہی چاہتے ہیں کہ تم کو ایمان کے بعد کفرکی طرف پھیردیں توتم ان کو چھوڑ دواوران سے درگزرکرو یہاں تک کہ اللہ تعالی اپناحکم لائے ، بے شک اللہ تعالی ہر چیز پرقادرہے ۔
ان آیات میں مسلمانوں کو متنبہ کیا جارہا ہے کہ یہود ونصاری تمہیں دین حق پر قائم نہیں دیکھنا چاہتے، ان کی کوشش ہے کہ تمہیں دوبارہ کفر کے اندھیروں میں دھکیل دیں ، تمہارے ایمان ویقین کی فصل بہار میں کفر ونفاق کا بیج بو دیں ، اس لیے وہ کبھی اسلامی عقائد واحکام کو تختہ مشق بناتے ہیں اور کبھی اسلامی طرز سیاست پر نکتہ چین ہوتے ہیں اور کبھی اسلامی تہذیب وتمدن پر حملہ آور ہوتے ہیں اور اپنی کافرانہ اور جاہلانہ تہذیب کو خوش نما ناموں مثلاً قومیت، وطنیت، ثقافت، آزادی رائے، حقوق انسانی، رفاہ عامہ، امن عامہ وغیرہ اور خوب صورت نعروں، پر فریب اصطلاحات کا لیبل لگا کر سادہ لوح مسلمانوں کے ایمان پر ڈاکہ ڈالتے ہیں ، یہ سرگرمیاں کسی ہمدردانہ جذبات کی بنیا دپر نہیں ہوتیں، بلکہ ان میں حسد کا جذبہ کار فرما ہوتا ہے، جس پر ہمدردی کا خول چڑھا ہوتا ہے، جب تک جہاد کا حکم نازل نہیں ہوا تھا یہ اپنی شرارتوں میں پوری طرح مگن تھے ۔ جس سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں اشتعال پیدا ہونا ایک طبعی امر تھا ،لیکن اللہ تعالیٰ کے حکم سے وہ عفو اور درگذر سے کام لیتے رہے، جب جہاد کا حکم ہوا تو قتل، غلامی ، جزیہ ، جلا وطنی ان کا نصیب ٹھہرا۔
رسول اللہ ﷺاور آپﷺ کی امت کو دنیا اور آخرت دونوں جہانوں کی جو خیر عطا ہوئی اس کا ظاہر ہے کوئی حد و حساب ہی نہیں۔ مگر ظاہر ہے یہ خداتعالی کا فیصلہ تھا نہ کہ کسی انسان کا۔ پھر کیوں نہ ہوتا کہ اِس بغض کا سب سے وافر حصہ آپﷺ کے اور آپﷺ کی امت کے خلاف نکلتا۔ تب سے یہ امتِ محمدﷺ زمین پر اپنے اِس منصب کی یہ قیمت دے رہی ہے کہ دنیا کی سب سے حاسد قوم اِس کو دیکھ دیکھ کر کوئلوں پر لوٹتی ہے اور اِس سے خدا کی یہ نعمت (انعمت علیہم)چھین لینے کیلئے اور اس کے بڑے حصے کو اِس نعمتِ ہدایت سے محروم کر دینے کیلئے پورے جہان کے اندر بھاگی پھر رہی ہے۔
شان نزول
روی أنَّ فنحاص بن عازوراء ، وزید بن قیس، ونفرًا من الیہود، قالوا لحذیفۃ بن الیمان، وعمّار بن یاسر رضی اللہ عنہما بعد وقعۃ أحد:ألم تروا ما أصابکم، ولو کنتم علی الحق ما ہزمتم، فارجعوا إلی دیننا، فہو خیر لکم وأفضل، ونحن أہدی منکم سبیلًا، فقال عمَّارٌ:کیف نقض العہد فیکم؟ قالوا: شدیدٌ، قال: فإنی قد عاہدت أن لا أکفر بمحمد ما عشت، فقالت الیہود:أمَّا عمَّارٌ فقد صبأ؛ أی:خرج عن دیننا بحیث لا یرجی منہ الرجوع إلیہ أبدًا، فکیف أنت حذیفۃ؟ ألا تبایعنا؟ قال حذیفۃ:رضیت باللہ ربًّا، وبمحمد نبیًّا، وبالإسلام دینًا، وبالقرآن إمامًا، وبالکعبۃ قبلۃ، وبالمؤمنین إخوانًا، فقالوا:وإلہ موسی، لقد أشرب فی قلوبکما حبُّ محمد، ثُمَّ أتیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، وأخبراہ، فقال: أصبتما خیرًا، وأفلحتما۔

ترجمہ :فخاص بن عازواورزید بن قیس یہودیوں کے چند افراد حضر ت سیدناحذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ اورحضرت سیدناعمار بن یاسررضی اللہ کو جنگ احد شریف کے بعدکہنے لگے کہ کیاتم سوچتے نہیں کہ تم کواس موقع پرکتنی تکالیف پہنچی ہیں ، اگرتم حق پرہوتے تو تمھیں احدمیں شکست نہ ہوتی ۔ اس لئے تمھیں چاہئے کہ ہمارے دین میں داخل ہوجائو، تمھارے لئے یہی بہترہے ، ہم تم سے زیادہ ہدایت یافتہ ہیں۔حضرت سیدناعمار بن یاسررضی اللہ عنہ نے فرمایا: تمھارے نزدیک وعدہ کو توڑ دیناکتنابڑاگناہ ہے ؟ انہوںنے کہا: عہد کو پختہ ہونے کے بعد توڑ دیناگناہ کبیرہ ہے ۔ حضرت سیدناعمار بن یاسررضی اللہ عنہ نے فرمایا:اب تم جواب دوکہ میں رسول اللہ ﷺکے ساتھ عہد کرچکاہوں کہ جب تک میں زندہ رہوں گاتب تک میں رسول اللہ ﷺکادامن رحمت نہیں چھوڑوں گا۔ یہودیوں نے کہاکہ افسوس کہ عمار ہمارے دین سے پھرگیاہے ۔ ہمارے دین سے ایسانکلاہے کہ اب اس کے واپس آنے کی امیدبھی نہیں ہے ۔ پھریہودیوںنے حضرت سیدناحذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے کہا: تیراکیاحال ہے ؟ انہوںنے فرمایا: میں اللہ تعالی کے رب اوررسول اللہ ﷺکے نبی اوراسلام کے دین اورقرآن کے امام اورکعبہ مشرفہ کے قبلہ اوراہل ایمان کے بھائی ہونے پرراضی ہوں۔ یہودیوں نے کہا:اس رب تعالی کی قسم ! جو حضرت سیدناموسی علیہ السلام کامعبود ہے ، تم دونوں کے دلوں میں محمدﷺکی محبت کوٹ کوٹ کر بھری گئی ہے ، وہ دونوں رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضرہوئے اورساراماجراعرض کیا۔ رسو ل اللہ ﷺنے فرمایا: تم دونوں نے بہت اچھاجوا ب دیاہے اوربڑی کامیابی حاصل کی ہے ۔
(تفسیر حدائق الروح والریحان :الشیخ العلامۃ محمد الأمین بن عبد اللہ الأرمی العلوی الہرری (۲:۲۰۲)

شان نزول کے متعلق دوسراقول
عَنِ الزُّہْرِیِّ فِی قَوْلِہِ تَعَالَی: (وَدَّ کَثِیرٌ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ)(البقرۃ: ۱۰۹)قَالَ: ہُوَ کَعْبُ بْنُ الْأَشْرَفِ۔
ترجمہ :امام الزہری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی کایہ فرمان شریف کہ ’’بہت سے لوگ یہ چاہتے ہیں کہ اہل ایمان کو ایمان لانے کے بعد کفرکی طرف پھیردیں ‘‘اس سے مراد کعب بن اشرف یہودی ہے ۔
(تفسیر عبد الرزاق:أبو بکر عبد الرزاق بن ہمام بن نافع الحمیری الیمانی الصنعانی (ا:۲۸۵)
شان نزول کے متعلق تیسراقول
عَن کَعْب بن مَالک قَالَ کَانَ الْمُشْرکُونَ وَالْیَہُود من أہل الْمَدِینَۃ حِین قدم رَسُول اللہ صلی اللہ عَلَیْہِ وَسلم یُؤْذونَ رَسُول اللہ صلی اللہ عَلَیْہِ وَسلم وَأَصْحَابہ أَشد الْأَذَی فَأمر اللہ رَسُولہ وَالْمُسْلِمین بِالصبرِ علی ذَلِک وَالْعَفو عَنْہُم ففیہم أنزل اللہ (ولتسمعن من الَّذین أُوتُوا الْکتاب من قبلکُمْ وَمن الَّذین أشرکوا أَذَی کثیرا) (آل عمرَان الْآیَۃ ۱۸۶)الْآیَۃوَفِیہِمْ أنزل اللہ (ودّ کثیر من أہل الْکتاب لَو یردونکم من بعد إیمَانکُمْ کفَّارًا حسداً) الْآیَۃ۔
ترجمہ:حضرت سیدناکعب بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مشرکین اوریہودی مدینہ منورہ میں رسول اللہ ﷺکی آمد کے بعدرسول اللہ ﷺاورآپ ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی گستاخیاں کرتے تھے ۔ اللہ تعالی نے اپنے حبیب کریمﷺ اوراہل اسلام کوصبرکرنے کاحکم دیااورمعاف کرنے کاارشادفرمایا۔ ان کے متعلق اللہ تعالی نے فرمایا: اوریقیناتم سنوگے ان سے جنہیں کتاب دی گئی تم سے پہلے اوران سے جنہوں نے شرک کیا۔ اذیت دینے والی بہت سی باتیں اگرتم صبر کرواورتقوی اختیارکروتوبے شک یہ بڑی ہمت کاکام ہے اوران کے متعلق یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی ۔
(دلائل النبوۃ:أحمد بن الحسین بن علی بن موسی الخُسْرَوْجِردی الخراسانی، أبو بکر البیہقی (۳:۱۹۶)

گستاخوں کی معافی منسوخ ہونے کابیان

حضرت سیدنااسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی روایت
عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ، قَالَ: کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُہُ یَأْخُذُونَ الْعَفْوَ مِنَ الْمُشْرِکِینَ، وَأَہْلِ الْکِتَابِ کَمَا أَمَرَہُمُ اللہُ عَزَّ وَجَلَّ، وَیَصْبِرُوا عَلَی الْأَذَی قَالَ اللہُ عَزَّ وَجَلَّ:(وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِینَ أُوتُوا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِکُمْ، وَمِنَ الَّذِینَ أَشْرَکُوا أَذًی کَثِیرًا) (آل عمران: ۱۸۶) الْآیَۃَ، وَکَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَتَأَوَّلُ فِی الْعَفْوِ مَا أَمَرَہُ اللہُ بِہِ، حَتَّی أَذِنَ اللہُ فِیہِمْ، فَلَمَّا غَزَا النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَدْرًا فَقَتَلَ اللہُ مَنْ قَتَلَ مِنَ الْکُفَّارِ مِنْ صَنَادِیدِ قُرَیْشٍ ۔
ترجمہ :حضرت سیدنااسامہ بن زید رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺاورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جب گستاخیاں کی جاتیں تووہ معاف فرمادیاکرتے تھے جیساکہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ارشادفرمایاہے اورساتھ ساتھ ان گستاخوں کی اذیتوں پر صبرکیاکرتے تھے ۔
رسول اللہ ﷺپہلے اللہ تعالی کے حکم کے مطابق گستاخوں کو معاف فرماتے رہے حتی کہ اللہ تعالی نے کفارکے خلاف جہادکرنے کاحکم دیااورپھراللہ تعالی نے کریم آقاﷺکے ذریعے قریش کے سرداروں کو قتل کروایا۔
(المعجم الکبیر:سلیمان بن أحمد بن أیوب بن مطیر اللخمی الشامی، أبو القاسم الطبرانی (ا:۱۶۳)

حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماکاقول
عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَلْحَۃَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَوْلُہُ: وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکِینَ :۳۰)وَقَوْلُہُ: فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا حَتَّی یَأْتِیَ اللَّہُ بِأَمْرِہِ :۳۱)وَنَحْوَ ہَذَا فِی الْعَفْوِ عَنِ الْمُشْرِکِینَ، نُسِخَ ذَلِکَ کلہ بقولہ:فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِینَ حَیْثُ وَجَدْتُمُوہُمْ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعلی بن ابی طلحہ رضی اللہ عنہ حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے پہلے مشرکین کومعاف کرنے کاحکم دیااوران سے اعراض کرتے رہنے کافرمان جاری فرمایا، لیکن پھروہ احکام منسوخ فرمادیئے اورفرمایا:
{قٰتِلُوا الَّذِیْنَ لَایُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَلَابِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ لَایُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللہُ وَرَسُوْلُہ وَلَایَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ حَتّٰی یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَّدٍ وَّہُمْ صٰغِرُوْنَ }
ترجمہ کنزالایمان :لڑو ان سے جو ایمان نہیں لاتے اللہ پر اور قیامت پراور حرام نہیں مانتے اس چیز کو جس کو حرام کیا اللہ اور اس کے رسول نے اور سچے دین کے تابع نہیں ہوتے یعنی وہ جو کتاب دئیے گئے جب تک اپنے ہاتھ سے جزیہ نہ دیں ذلیل ہوکر۔
اللہ تعالی نے معافی والی آیات کواس آیت کے ذریعے منسوخ فرمادیااوراہل کتاب کو قتل کرنے کاحکم دیایہاں تک کہ وہ اسلام قبول کریں یاجزیہ دیں ۔
(دلائل النبوۃ ومعرفۃ أحوال صاحب الشریعۃ:أحمد بن الحسین ، أبو بکر البیہقی (۲:۵۸۲)

گستاخوں کے ساتھ جہاد کی اجازت مدینہ منورہ میں دی گئی

قَالَ ابْنُ عَطِیَّۃَ: وَحُکْمُہُ بِأَنَّ ہَذِہِ الْآیَۃَ مَکِّیَّۃٌ ضَعِیفٌ، لِأَنَّ مُعَانَدَاتِ الْیَہُودِ إِنَّمَا کَانَتْ بِالْمَدِینَۃِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناابن عطیہ رحمہ اللہ تعالی نے فرمایا:یہ کہناکہ قتال کی اجازت والی احادیث مکی ہیں ،یہ بات ضعیف ہے ، اس لئے کہ یہودیوں کی دشمنیاں تومدینہ منورہ میں تھیں ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی (۲:۷۰)
امام ابن عطیہ رحمہ اللہ تعالی کے قول سے بھی ثابت ہواکہ یہودیوں کے ساتھ جہاد کاحکم اسی لئے دیاگیاہے کہ وہ رسول اللہ ﷺکی گستاخیاں کیاکرتے تھے ۔
امام قرطبی امام ابن عطیہ کے قول کی تائیدکرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
.{قُلْتُ:وَہُوَ الصَّحیح}اورمیں کہتاہوں کہ یہی صحیح ہے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی (۲:۷۰)
اس کے بعد اس کی تائیدمیں ایک حدیث شریف نقل کرتے ہیں جس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ رسول اللہ ﷺمدینہ منورہ تشریف لانے کے بعد بھی گستاخوں کو معافی دیتے رہے ہیں اورمدینہ منورہ میں آنے کے بعد اللہ تعالی نے گستاخوں کے قتل کاحکم دیا۔
وہ حدیث شریف یہ ہے
حَدَّثَنَا أَبُو الْیَمَانِ أَخْبَرَنَا شُعَیْبٌ عَنْ الزُّہْرِیِّ قَالَ أَخْبَرَنِی عُرْوَۃُ بْنُ الزُّبَیْرِ أَنَّ أُسَامَۃَ بْنَ زَیْدٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا أَخْبَرَہُ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَکِبَ عَلَی حِمَارٍ عَلَی قَطِیفَۃٍ فَدَکِیَّۃٍ وَأَرْدَفَ أُسَامَۃَ بْنَ زَیْدٍ وَرَاء َہُ یَعُودُ سَعْدَ بْنَ عُبَادَۃَ فِی بَنِی الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ قَبْلَ وَقْعَۃِ بَدْرٍ قَالَ حَتَّی مَرَّ بِمَجْلِسٍ فِیہِ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ أُبَیٍّ ابْنُ سَلُولَ وَذَلِکَ قَبْلَ أَنْ یُسْلِمَ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ أُبَیٍّ فَإِذَا فِی الْمَجْلِسِ أَخْلَاطٌ مِنْ الْمُسْلِمِینَ وَالْمُشْرِکِینَ عَبَدَۃِ الْأَوْثَانِ وَالْیَہُودِ وَالْمُسْلِمِینَ وَفِی الْمَجْلِسِ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ رَوَاحَۃَ فَلَمَّا غَشِیَتْ الْمَجْلِسَ عَجَاجَۃُ الدَّابَّۃِ خَمَّرَ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ أُبَیٍّ أَنْفَہُ بِرِدَائِہِ ثُمَّ قَالَ لَا تُغَبِّرُوا عَلَیْنَا فَسَلَّمَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَیْہِمْ ثُمَّ وَقَفَ فَنَزَلَ فَدَعَاہُمْ إِلَی اللَّہِ وَقَرَأَ عَلَیْہِمْ الْقُرْآنَ فَقَالَ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ أُبَیٍّ ابْنُ سَلُولَ أَیُّہَا الْمَرْء ُ إِنَّہُ لَا أَحْسَنَ مِمَّا تَقُولُ إِنْ کَانَ حَقًّا فَلَا تُؤْذِنَا بِہِ فِی مَجْلِسِنَا ارْجِعْ إِلَی رَحْلِکَ فَمَنْ جَاء َکَ فَاقْصُصْ عَلَیْہِ فَقَالَ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ رَوَاحَۃَ بَلَی یَا رَسُولَ اللَّہِ فَاغْشَنَا بِہِ فِی مَجَالِسِنَا فَإِنَّا نُحِبُّ ذَلِکَ فَاسْتَبَّ الْمُسْلِمُونَ وَالْمُشْرِکُونَ وَالْیَہُودُ حَتَّی کَادُوا یَتَثَاوَرُونَ فَلَمْ یَزَلْ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُخَفِّضُہُمْ حَتَّی سَکَنُوا ثُمَّ رَکِبَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَابَّتَہُ فَسَارَ حَتَّی دَخَلَ عَلَی سَعْدِ بْنِ عُبَادَۃَ فَقَالَ لَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَا سَعْدُ أَلَمْ تَسْمَعْ مَا قَالَ أَبُو حُبَابٍ یُرِیدُ عَبْدَ اللَّہِ بْنَ أُبَیٍّ قَالَ کَذَا وَکَذَا قَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَۃَ یَا رَسُولَ اللَّہِ اعْفُ عَنْہُ وَاصْفَحْ عَنْہُ فَوَالَّذِی أَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتَابَ لَقَدْ جَاء َ اللَّہُ بِالْحَقِّ الَّذِی أَنْزَلَ عَلَیْکَ لَقَدْ اصْطَلَحَ أَہْلُ ہَذِہِ الْبُحَیْرَۃِ عَلَی أَنْ یُتَوِّجُوہُ فَیُعَصِّبُوہُ بِالْعِصَابَۃِ فَلَمَّا أَبَی اللَّہُ ذَلِکَ بِالْحَقِّ الَّذِی أَعْطَاکَ اللَّہُ شَرِقَ بِذَلِکَ فَذَلِکَ فَعَلَ بِہِ مَا رَأَیْتَ فَعَفَا عَنْہُ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَکَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُہُ یَعْفُونَ عَنْ الْمُشْرِکِینَ وَأَہْلِ الْکِتَابِ کَمَا أَمَرَہُمْ اللَّہُ وَیَصْبِرُونَ عَلَی الْأَذَی قَالَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنْ الَّذِینَ أُوتُوا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَمِنْ الَّذِینَ أَشْرَکُوا أَذًی کَثِیرًا الْآیَۃَ وَقَالَ اللَّہُ وَدَّ کَثِیرٌ مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ لَوْ یَرُدُّونَکُمْ مِنْ بَعْدِ إِیمَانِکُمْ کُفَّارًا حَسَدًا مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِہِمْ إِلَی آخِرِ الْآیَۃِ وَکَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَتَأَوَّلُ الْعَفْوَ مَا أَمَرَہُ اللَّہُ بِہِ حَتَّی أَذِنَ اللَّہُ فِیہِمْ فَلَمَّا غَزَا رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَدْرًا فَقَتَلَ اللَّہُ بِہِ صَنَادِیدَ کُفَّارِ قُرَیْشٍ قَالَ ابْنُ أُبَیٍّ ابْنُ سَلُولَ وَمَنْ مَعَہُ مِنْ الْمُشْرِکِینَ وَعَبَدَۃِ الْأَوْثَانِ ہَذَا أَمْرٌ قَدْ تَوَجَّہَ فَبَایَعُوا الرَّسُولَ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی الْإِسْلَامِ فَأَسْلَمُوا۔

ترجمہ:حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺایک دراز گوش پر سوار ہوئے جس پر علاقہ فدک کی بنی ہوئی موٹی چادر ڈالی گئی تھی اور مجھے بھی اپنے پیچھے بٹھا لیا۔ آپﷺ قبیلہ حارث بن خزرج کے محلے میں حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لیے تشریف لے جا رہے تھے۔ یہ واقعہ غزوہ بدر سے پہلے کا ہے۔ راستے میں آپ ﷺایک مجلس سے گزرے جس میں ملے جلے لوگ، یعنی مسلمان، مشرکین اور یہودی موجود تھے۔ ان میں عبداللہ بن ابی سلول (رئیس المنافقین)بھی موجود تھا، جو ابھی مسلمان نہیں ہوا تھا اور اسی مجلس میں حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔ جب سواری کی گردوغبار ان لوگوں پر پڑی تو عبداللہ بن ابی نے اپنی ناک پر چادر ڈالی اور کہنے لگا:ہم پر گردوغبار نہ اڑاؤ۔ تب رسول اللہ ﷺنے السلام علیکم کہا اور ٹھہر گئے۔ اپنی سواری سے اتر کر آپ ﷺنے انہیں اسلام کی دعوت دی اور قرآن پڑھ کر سنایا تو عبداللہ بن ابی ابن سلول نے کہا:اے نوجوان!آپ ﷺکی باتیں بہت اچھی ہیں، تاہم آپ ﷺجو کچھ کہتے ہیں اگر سچ بھی ہو تب بھی آپ ﷺہماری مجالس میں آ کر ہمیں تکلیف نہ دیا کریں بلکہ اپنے گھر واپس چلے جائیں، پھر جو شخص آپ ﷺکے پاس آئے آپﷺ اسے اپنی باتیں سنائیں۔ اس پر حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے کہا:یارسول اللہ ﷺ!آپ ضرور ہماری مجالس میں تشریف لا کر ہمیں یہ باتیں سنایا کریں کیونکہ ہم ان باتوں کو پسند کرتے ہیں۔واپس آکر یہ بات اس حد تک بڑھ گئی کہ مسلمان، مشرک اور یہودی ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے لگے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ وہ ایک دوسرے پر حملہ کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔ نبی کریم ﷺمسلسل ان کو خاموش کراتے رہے یہاں تک کہ وہ خاموش ہو گئے۔ بعد ازاں نبی ﷺاپنی سواری پر بیٹھ کر حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لے گئے اور نبی ﷺنے ان سے فرمایا:اے سعد! ابوحباب، یعنی عبداللہ بن ابی نے جو کچھ کہا ہے کیا تم نے سن لیا ہے؟ اس شخص نے یہ یہ باتیں کی ہیں۔حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی:یارسول اللہﷺ!اسے معاف کر دیں اور درگزر سے کام لیں۔ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ ﷺپر کتاب نازل فرمائی ہے!اللہ کی طرف سے آپﷺ پر جو کچھ نازل ہوا ہے وہ برحق اور سچ ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اس بستی والوں نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ اس شخص کی تاج پوشی کریں اور اس کے سر پر سرداری کی پگڑی باندھیں، لیکن جب اللہ تعالٰی نے یہ منصوبہ اس حق کے ذریعے سے مسترد کر دیا جو آپﷺ کو عطا فرمایا ہے تو وہ اس وجہ سے جل بھن گیا ہے اور جو کچھ اس نے کہا ہے اس حسد کا نتیجہ ہے، چنانچہ رسول اللہ ﷺنے اسے معاف کر دیا۔ نبی ﷺاور آپ ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی یہ عادت رہی ہے کہ بت پرستوں اور یہودیوں کی ناشائستہ حرکات کو معاف کر دیا کرتے تھے جیسا کہ اللہ تعالٰی نے انہیں حکم دیا تھا اور ان کی ایذاء رسانی پر صبر کیا کرتے تھے۔ ارشاد باری تعالٰی اسی سے متعلق ہے:اور یقینا تم اپنے سے پیشتر اہل کتاب اور مشرکین سے بہت سی تکلیف دہ باتیں ضرور سنو گے (اور اگر تم صبر سے کام لو اور تقویٰ اختیار کرو تو یہ بڑے حوصلے اور دل گردے کی بات ہے)۔اللہ تعالٰی نے مزید فرمایا:بہت سے اہل کتاب تو اپنے دلوں کے حسد و بغض کی بنا پر یہ تمنا رکھتے ہیں کہ تمہیں ایمان سے پھیر کر دوبارہ کافر بنا ڈالیں۔نبی ﷺنے اللہ تعالٰی کے حکم کے مطابق عفو و درگزر کو اپنا وطیرہ بنائے رکھا یہاں تک کہ اللہ تعالٰی نے اہل کفر کی بابت جہاد کی اجازت دے دی، پھر جب آپ ﷺنے جنگ بدر لڑی اور اس جہاد کی وجہ سے اللہ تعالٰی نے قریش کے بڑے بڑے سرداروں کو مار ڈالا تو عبداللہ بن ابی ابن سلول اور اس کے ساتھی جو مشرک اور بت پرست تھے، کہنے لگے: اب یہ امر، یعنی اسلام ظاہر و غالب ہو چکا ہے، تب انہوں نے (بادل نخواستہ)رسول اللہ ﷺسے بیعت کر لی اور مسلمان ہو گئے۔
(صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۶:۳۹)

سب سے گھٹیاحاسدکون ہے؟

أَنَّکَ عَسَاکَ تَحْسُدُ رَجُلًا مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ وَتُحِبُّ أَنْ یُخْطِئَ فِی دِینِ اللَّہِ وَتَکْشِفَ خَطَأَہُ لِیُفْتَضَحَ وَتُحِبُّ أَنْ یُخْرَسَ لِسَانُہُ حَتَّی لَا یَتَکَلَّمَ أَوْ یَمْرَضَ حَتَّی لَا یُعَلِّمَ وَلَا یَتَعَلَّمَ وَأَیُّ إِثْمٍ یَزِیدُ عَلَی ذَلِکَ، وَأَیُّ مَرْتَبَۃٍ أَخَسُّ مِنْ ہَذِہِ.
ترجمہ:امام ابوعبداللہ محمدبن عمر الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جب تم کسی اہل علم سے حسدکروگے توتم یہ چاہوگے کہ اس سے اللہ تعالی کے دین میں خطاہوجائے اورتم اس کی خطاوغلطی کی وجہ سے اسے ذلیل ورسوا کرو۔ اوراسی طرح تم یہ چاہوگے کہ یہ گونگاہوجائے تاکہ کلام نہ کرسکے یابیمارہوجائے حتی کہ مطالعہ نہ کرسکے اورنہ ہی پڑھاسکے ۔ توبتائیے اس سے بڑاگناہ کونساہے اوراس شخص سے بڑھ کرکون گھٹیااورذلیل ہے ۔؟
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۳:۳۴۴)

یہودی سلفاً وخلفاً اللہ تعالی اورانبیاء کرام علیہم السلام کے گستاخ ہیں

اس بحث کے نقل کرنے کامقصد یہ ہے کہ ہم اہل اسلام کو یہ بات باورکراسکیں کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی گستاخی کرنایہودیوں کاکوئی نیاطریقہ نہیں ہے بلکہ یہ توشروع سے ہی گستاخ چلے آرہے ہیں ۔ اورہم یہاں محدث ابن قیم الجوزیہ کی کتاب ’’ہدایۃ الحیاری فی أجوبۃ الیہود والنصاری‘‘سے ایک فصل جدیدترتیب کے ساتھ نقل کرتے ہیں ۔
ابن قیم الجوزیہ یہودیوں کی تحریف کاپردہ چاک کرتے ہوئے لکھتے ہیں
وَہَذِہِ الطُّرُقُ یَسْلُکُہَا مَنْ یُسَاعِدُہُمْ عَلَی أَنَّہُمْ لَمْ یُحَرِّفُوا أَلْفَاظَ التَّوْرَاۃِ وَالْإِنْجِیلِ وَلَمْ یُبَدِّلُوہَا، فَیَسْلُکُہَا بَعْضُ نُظَّارِ الْمُسْلِمِینَ مَعَہُمْ مِنْ غَیْرِ تَعَرُّضٍ إِلَی التَّبْدِیلِ وَالتَّحْرِیفِ وَطَائِفَۃٌ أُخْرَی تَزْعُمُ أَنَّہُمْ بَدَّلُوا وَحَرَّفُوا کَثِیرًا مِنْ أَلْفَاظِ الْکِتَابَیْنِ، مَعَ أَنَّ الْغَرَضَ الْحَامِلَ لَہُمْ عَلَی ذَلِکَ دُونَ الْغَرَضِ الْحَامِلِ لَہُمْ عَلَی تَبْدِیلِ الْبِشَارَۃِ بِرَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِکَثِیرٍ، وَإِنَّ الْبِشَارَاتِ لِکَثْرَتِہَا لَمْ یُمْکِنْہُمْ إِخْفَاء ُہَا کُلِّہَا وَتَبْدِیلَہَا، فَفَضَحَہُمْ مَا عَجَزُوا عَنْ کِتْمَانِہِ أَوْ تَبْدِیلِہِ وَکَیْفَ تُنْکِرُ الْأُمَّۃُ الْغَضَبِیَّۃُ قَتَلَۃُ الْأَنْبِیَاء ِ الَّذِینَ رَمَوْہُمْ بِالْعَظَائِمِ أَنْ یُنْکِرُوا نَعْتَ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَصِفَتَہُ وَقَدْ جَحَدُوا بِنُبُوَّۃِ الْمَسِیحِ وَرَمَوْہُ وَأَمَّہُ بِالْعَظَائِمِ، وَنَعْتُہُ وَالْبِشَارَۃُ بِہِ مَوْجُودٌ فِی کُتُبِہِمْ؟ وَمَعَ ہَذَا أَطْبَقُوا عَلَی جَحْدِ نُبُوَّتِہِ، وَإِنْکَارِ بِشَارَۃِ الْأَنْبِیَاء ِ بِہِ، وَلَمْ یَفْعَلْ بِہِمْ مَا فَعَلَہُ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ الْقَتْلِ وَالسَّبْیِ وَغَنِیمَۃِ الْأَمْوَالِ، وَتَخْرِیبِ الدِّیَارِ وَإِجْلَائِہِمْ مِنْہَا، فَکَیْفَ لَا تَتَوَاصَی ہَذِہِ الْأُمَّۃُ بِکِتْمَانِ بَعْثِہِ وَصِفَتِہِ، وَتُبَدِّلُہُ مِنْ کُتُبِہُمْ؟ وَقَدْ نَعَی اللَّہُ سُبْحَانَہُ وَتَعَالَی عَلَیْہِمْ ذَلِکَ فِی غَیْرِ مَوْضِعٍ مِنْ کِتَابِہِ وَلَعَنَہُمْ عَلَیْہِ وَمِنَ الْعَجَبِ أَنَّہُمْ وَالنَّصَارَی یُقِرُّونَ أَنَّ التَّوْرَاۃَ کَانَتْ طُولَ مَمْلَکَۃٍ بَنِی إِسْرَائِیلَ عِنْدَ الْکَاہِنِ الْأَکْبَرِ الْہَارُونِیِّ وَحْدَہُ، وَالْیَہُودُ تُقِرُّ أَنَّ السَّبْعِینَ کَاہِنًا اجْتَمَعُوا عَلَی اتِّفَاقٍ مِنْ جَمِیعِہِمْ عَلَی تَبْدِیلِ ثَلَاثَۃَ عَشَرَ حَرْفًا مِنَ التَّوْرَاۃِ، وَذَلِکَ بَعْدَ الْمَسِیحِ فِی عَہْدِ الْقَیَاصِرَۃِ الَّذِینَ کَانُوا تَحْتَ قَہْرِہِمْ، حَیْثُ زَالَ الْمُلْکُ عَنْہُمْ، وَلَمْ یَبْقَ لَہُمْ مَلِکٌ یَخَافُونَہُ وَیَأْخُذُ عَلَی أَیْدِیہِمْ، وَمِنْہُمْ مَنْ یَقُولُ: بَلَی وَہُوَ بُخْتَ نَصَّرُ حِینَ أَلْزَمَہُمْ بِکِتَابَۃِ التَّوْرَاۃِ لِطَائِفَۃٍ مِنْ جَمَاعَتِہِ حِینَ أَسْکَنَہُمْ بَیْتَ الْمَقْدِسِ وَعَلَی تَقْدِیرِ الرِّوَایَتَیْنِ فَمَنْ رَضِیَ بِتَبْدِیلِ مَوْضِعٍ وَاحِدٍ مِنْ کِتَابِ اللَّہِ فَلَا یُؤْمَنُ مِنْہُ تَحْرِیفُ غَیْرِہِ، وَالْیَہُودُ تُقِرُّ أَنَّ السَّامِرَۃَ حَرَّفُوا مَوَاضِعَ فِی التَّوْرَاۃِ وَبَدَّلُوہَا تَبْدِیلًا ظَاہِرًا وَزَادُوا وَنَقَصُوا، وَالسَّامِرَۃُ تَدَّعِی ذَلِکَ عَلَیْہِمْ وَأَمَّا الْإِنْجِیلُ فَقَدْ تَقَدَّمَ أَنَّ الَّذِی بِأَیْدِی النَّصَارَی مِنْہُ أَرْبَعُ کُتُبٍ مُخْتَلِفَۃٍ، مَنْ تَأْلَیِفِ أَرْبَعَۃِ رِجَالٍ: یُوحَنَّا وَمَتَّی، وَمُرْقُسَ، وَلُوقَا، فَکَیْفَ یُنْکَرُ تَطَرُّقُ التَّبْدِیلِ وَالتَّحْرِیفِ إِلَیْہَا؟ وَعَلَی مَا فِیہَا مِنْ ذَلِکَ فَقَدْ صَرَفَہُمُ اللَّہُ عَنْ تَبْدِیلِ مَا ذَکَرْنَا مِنَ الْبِشَارَاتِ بِمُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ وَإِزَالَتِہِ، وَإِنْ قَدَرُوا عَلَی کِتْمَانِہِ عَلَی أَتْبَاعِہِمْ وَجُہَّالِہِمْ وَفِی التَّوْرَاۃِ الَّتِی بِأَیْدِیہِمْ مِنَ التَّحْرِیفِ وَالتَّبْدِیلِ وَمَا لَا تَجُوزُ نِسْبَتُہُ إِلَی الْأَنْبِیَاء ِمَا لَا یَشُکُّ فِیہِ ذُو بَصِیرَۃٍ، وَالتَّوْرَاۃُ الَّتِی أَنْزَلَہَا اللَّہُ عَلَی مُوسَی بَرِیئَۃٌ مِنْ ذَلِکَ۔

ترجمہ :محمدبن ابی بکربن ایوب ابن قیم الجوزیہ المتوفی : ۷۵۱ھ) لکھتے ہیں کہ یہودیوں کی ایک جماعت کاکہناہے کہ توراۃ وانجیل میں تحریف بالکل نہیں ہوئی ہے ، لیکن وہ بھی اس بات کے قائل ہیں کہ توارۃ کے تیرہ مقامات پر تبدیلی کرنے کے لئے کاہن جمع ہوئے ۔
دوسری جماعت کاکہناہے کہ توراۃ اورانجیل میں یہودیوں نے بہت سے الفاظ میں مختلف اغراض کے تحت ردوبدل کی ہے اورتمام جگہوں کے مقابلے میں نبی کریم ﷺکے متعلق پیشین گوئیوں کو بڑے پیمانے پر بدلنے کی کوشش کی ہے ، لیکن چونکہ رسول اللہ ﷺکے متعلق بشارات اتنی زیادہ تھیں کہ وہ تمام کو بدل یاچھپانہ سکے ، پھرجن مقامات پر تبدیلی کرنے یاچھپانے سے وہ عاجز رہے ۔انہیں کے ذریعے ان کے مزید کتمان علم اور تحریف وتبدیل کااندازہ ہواجس سے انہیں رسوائی اورذلت اٹھانی پڑی ۔
جن پر اللہ تعالی کاغضب نازل ہوا، جنہوں نے انبیاء کرام علیہم السلام کو شہید کیااورانہوں نے انبیاء کرام علیہم السلام پر طرح طرح کے الزامات عائد کئے ایسے یہودیوں کی جانب یہ بات منسوب کی جائے کہ انہوں نے توراۃ میں سے رسول اللہ ﷺکی صفات اورعلامات چھپانے اورردوبدل کرنے میں کوئی کسرنہیں اٹھارکھی ہے توان کی جانب سے کوئی محال بات نہیں ہے ۔ کیونکہ یہ تواس کے ماہر ہوچکے ہیں۔ انہوںنے توحضرت سیدناعیسی علیہ السلام کے متعلق بھی یہی طریقہ اپنایاتھاکہ آپ علیہ السلام کے متعلق ان کی کتاب میں اگلے انبیا ء کرام علیہم السلام کی جو بشارتیں تھیں ان کو چھپالیاتھااورمتفقہ طور پر ان کی تکذیب کے درپے ہوگئے تھے ۔ یہاں تک کہ خود آپ علیہ السلام کی ذات اورحضرت سیدتنامریم علیہاالسلام پر بڑی بڑی بہتان طرازی کی تھی ۔ لھذاجب ان کی یہ حالت ہے تونبی کریم ﷺکی صفات کے چھپانے میں انہیں کونسی جھجک ہوسکتی ہے ؟ بلکہ آپ علیہ السلام کی صفات کو چھپانے کی توانہوںنے بدرجہ اولی کوشش کی ہے ۔ کیونکہ آپ علیہ السلام کی ذات سے انہیں زبردست تکلیفیں پہنچی تھیں ۔ یہودیوں میں بنوقریظہ کو قتل کیاگیااوران کی خواتین اوربچوں کو قیدی بنالیاگیا۔ ان کے اموال مال غنیمت بنائے گئے ، انہیں میں سے بنوقینقاع اوربنونضیرکو جلاوطن کیاگیا۔ ظاہربات ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺکی صفات عالیہ کے چھپانے کی خود ہی کوشش نہیں کی ہوگی بلکہ اپنی اولاد کو بھی اس کی وصیت کردی ہوگی۔ ان کی یہی وہ خصلت ہے جس پر اللہ تعالی نے ان پر بارہاان کو لعن طعن کیاہے ۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ یہود ونصاری کااس بات پر اتفاق ہے کہ توراۃ بنی اسرائیل کے پورے عہد سلطنت میں تنہاسب سے بڑھ کر بڑے کاہن الہارونی کے پاس تھی اوریہودی اس کابھی اقرارکرتے تھے کہ توراۃ کے تیرہ حروف کو بدلنے کے لئے سترکاہن جمع ہوئے تھے ، یہ واقعہ حضرت سیدناعیسی مسیح علیہ السلام کے بعد عہدقیاصرہ میں ہواتھا۔ جنہوںنے زبردست طریقہ سے یہودیوں کو اپنے ظلم کانشانہ بنایاتھا، ان کی پوری مملکت چھین لی تھی ، حتی کہ ان کے بادشاہوں کانام ونشان مٹ گیا، ان کاکوئی بادشاہ نہ تھاجوایسے نازک وقت میں ان کی مددکرتا۔ لھذاجولوگ ایک جگہ اللہ تعالی کی کتاب میں تبدیلی کرسکتے ہیں وہ دوسرے مقامات پر بھی تبدیلی کرسکتے ہیں ۔ یہودی اس بات کابھی اقرارکرتے ہیں کہ سامرہ نے توراۃ کے متعددمقامات پر تبدیلی کی ہے اورسامرہ بھی اس چیز کادعوی یہودیوں کے خلاف کرتے ہیں۔
اورانجیل کی حقیقت یہ ہے کہ وہ چارآدمیوں کی تصنیف کردہ چارمختلف کتابیں ہیں اوروہ چارلوگ یہ ہیں :
(۱) یوحنا(۲)متی (۳) مرقس (۴) لوقا۔
لھذااس میں تحریف وتبدیل ناگزیرہے البتہ جو بشارتیں رسول اللہ ﷺکے متعلق یہاں بیان کی گئی ہیں وہ ان کی تحریف سے محفوظ ہیں اوراللہ تعالی نے ان کو یہ موقع نہیں دیاکہ اس کے اندرتحریف وتبدیل کرسکے اگرچہ ان پیشین گوئیوں کو انہوںنے عوام الناس اورمتبعین سے ایک حد تک چھپائے رکھا۔
توراۃ کاجو نسخہ یہودیوں کے ہاں پایاجاتاہے وہ تحریف وتبدیلی کاشکارہے اوراس میں اس قدرغلط اوربے سروپاباتیں ہیں جو حضرت سیدناموسی علیہ السلام پر نازل ہونے والی کتاب کی باتیں کبھی بھی نہیں ہوسکتیں اورنہ ہی کسی بھی نبی علیہ السلام کی طرف ایسی باتوں کوکو ئی عقل مندمنسوب کرسکتاہے ۔
(ہدایۃ الحیاری فی أجوبۃ الیہود والنصاری: محمد بن أبی بکر بن أیوب ابن قیم الجوزیۃ (۲:۴۱۸)
اس محرف توراۃ میں سے چندایک عبارات جو اللہ تعالی کی بارگاہ عالیہ میں گستاخی پر مبنی ہیں ان کو نقل کیاجاتاہے تاکہ یہ بات معلوم کرناآسان ہوجائے کہ یہودیوں کے اسلاف جب اتنے خناس ہیں توان کے اخلاف کس قدرگھٹیااورانسانی اقدارسے گرے ہوئے لوگ ہوں گے ۔
پہلی گستاخی
اِنَّ اللَّہَ سُبْحَانَہُ وَتَعَالَی عُلُوًّا کَبِیرًا، تَصَارَعَ مَعَ یَعْقُوبَ فَضَرَبَ بِہِ یَعْقُوبُ الْأَرْضَ.
ترجمہ :اسی کتاب میں ایک جگہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت سیدنایعقوب علیہ السلام کے ساتھ کشتی کی توحضرت سیدنایعقوب علیہ السلام نے اللہ تعالی کو اٹھاکرزمین پرپھینک دیا۔(نعوذ باللہ)
دوسری گستاخی
وَرَأَی اللَّہُ أَنْ قَدْ کَثُرَ فَسَادُ الْآدَمِیِّینَ فِی الْأَرْضِ، فَنَدِمَ عَلَی خَلْقِہِمْ، وَقَالَ:سَأُذْہِبُ الْآدَمِیِّینَ الَّذِینَ خَلَقْتُ عَلَی الْأَرْضِ وَالْخِشَاشَ وَطُیُورَ السَّمَاء ِ لِأَنِّی نَادِمٌ عَلَی خَلْقِہَا جِدًّاتَعَالَی اللَّہُ عَنْ إِفْکِ الْمُفْتَرِینَ، وَعَمَّا یَقُولُ الظَّالِمُونَ عُلُوًّا کَبِیرًا.
ترجمہ :اوراسی میں ہے کہ ایک باراللہ تعالی نے دیکھاکہ زمین میں انسان بہت زیادہ فساد مچارہے ہیں ، اللہ تعالی ان کو پیداکرکے پچھتانے لگااورکہنے لگاکہ میں زمین پر پائے جانے والے انسانوں اورکیڑوں مکوڑوں نیزفضامیں اڑنے والی چڑیوں کو ہلاک کردوں گاکیونکہ ان کو پیداکرکے بہت زیادہ شرمندہ ہوں۔
تیسری گستاخی
إِنَّ اللَّہَ تَعَالَی بَکَی عَلَی الطُّوفَانِ حَتَّی رَمَدَتْ عَیْنَاہُ وَعَادَتْہُ الْمَلَائِکَۃُ۔
ترجمہ :اللہ تعالی طوفان نوح کو دیکھ کر اس قدررویاکہ اس کی دونوں آنکھیں خراب ہوگئیں اورفرشتوں نے اللہ تعالی کی عیادت کی ۔
چوتھی گستاخی
وَقَوْلِہِمْ فِی بَعْضِ دُعَاء ِ صَلَوَاتِہِمْ:انْتَبِہْ کَمْ تَنَامُ یَا رَبِّ؟ اسْتَیْقِظْ مِنْ رَقْدَتِکَ؟فَتَجْرُء ُوا عَلَی رَبِّ الْعَالَمِینَ بِہَذِہِ الْمُنَاجَاۃِ الْقَبِیحَۃِ، کَأَنَّہُمْ یُنَاجُونَہُ بِذَلِکَ لِیَنْتَخِیَ لَہُمْ وَیَحْتَمِیَ،کَأَنَّہُمْ یُخْبِرُونَہُ أَنَّہُ قَدِ اخْتَارَ الْخُمُولَ لِنَفْسِہِ وَأَحِبَّائِہِ بِہِ فَیُہَزِّء ُونَہُ بِہَذَا الْخِطَابِ لِلنَّبَاہَۃِ وَاشْتِہَارِ الصِّیتِ قَالَ بَعْضُ أَکَابِرِہِمْ بَعْدَ إِسْلَامِہِ:فَتَرَی أَحَدَہُمْ إِذَا تَلَا ہَذِہِ الْکَلِمَاتِ فِی الصَّلَاۃِ یَقْشَعِرُّ جِلْدُہُ، وَلَا یَشُکُّ أَنَّ کَلَامَہُ یَقَعُ عِنْدَ اللَّہِ بِمَوْقِعٍ عَظِیمٍ، وَإِنَّہُ یُؤَثِّرُ فِی رَبِّہِ وَیُحَرِّکُہُ وَیَہُزُّہُ وَیُنْخِیہ فَکَذَّبَہُمُ اللَّہُ تَعَالَی بِقَوْلِہِ: لَا تَأْخُذُہُ سِنَۃٌ وَلَا نَوْمٌ الْآیَۃَ، وَکَذَّبَہُمْ عَلَی لِسَانِ نَبِیہِ بِقَوْلِہِ
ترجمہ :اوریہودی جب نماز اداکرتے ہیں تو اس میں اللہ تعالی سے اس طرح مناجات کرتے ہیںکہ اے رب! تونیندسے بیدارہوجا، توکتناسوئے گا؟ اس طرح وہ اللہ تعالی سے سرگوشی کرتے ہیںاوروہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اللہ تعالی کی تعریف کررہے ہیںاوراس کو عاردلارہے ہیں۔ تاکہ اللہ تعالی غفلت کی حالت سے باہر آجائے اوراپنی عظمت کو ظاہرکرنے کے لئے اٹھ کھڑاہو۔یہودیوں کے بعض اکابرین نے اسلام قبول کرلینے کے بعدیہ بیان کیاکہ نماز میںیہ جملہ جب یہودی کہتے ہیں توان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ درحقیقت یہ ایسی بات بھی ہے کہ اللہ تعالی پر اس کازبردست اثرہواوراس کی شان جلال بھڑک اٹھے ۔
پانچویں گستاخی
وَعِنْدَہُمْ فِی تَوْرَاتِہِمْ: أَنَّ اللَّہَ سُبْحَانَہُ وَتَعَالَی لَمَّا رَأَی فَسَادَ قَوْمِ نُوحٍ وَأَنَّ شَرَّہُمْ (قَدْ عَظُمَ)نَدِمَ عَلَی خَلْقِ الْبَشَرِ فِی الْأَرْضِ وَشَقَّ عَلَیْہِ.
ترجمہ :اوراس توراۃ میں یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی نے جب حضرت سیدنانوح علیہ السلام کی قوم کو فساد مچاتے ہوئے اوربرائی کرتے ہوئے دیکھاتو انسان کی تخلیق پر اللہ تعالی کو بہت زیادہ شرمندگی ہوئی اورزمین میں انسانوں کاوجود اس پرشاق گزرا۔
ساتویں گستاخی
وَعِنْدَہُمْ فِی تَوْرَاتِہِمْ أَیْضًا:أَنَّ اللَّہَ نَدِمَ عَلَی تَمْلِیکِہِ شَاوِلَ عَلَی إِسْرَائِیلَ.
ترجمہ :اوریہ بھی ان کی توراۃ میں ہے کہ اللہ تعالی نے اسرائیل پر شاول کو بادشاہ بنایاتوبعدمیں بہت زیادہ شرمندہ ہوا۔
آٹھویں گستاخی
وَعِنْدَہُمْ فِیہَا أَیْضًا:أَنَّ نُوحًا لَمَّا خَرَجَ مِنَ السَّفِینَۃِ بَنَی بَیْتًا مَذْبَحًا لِلَّہِ وَقَرَّبَ عَلَیْہِ قَرَابِینَ، وَاسْتَنْشَقَ اللَّہُ رَائِحَۃَ الْقُتَارِ، فَقَالَ فِی ذَاتِہِ:(لَنْ أُعَاوِدَ لَعْنَۃَ الْأَرْضِ بِسَبَبِ النَّاسِ لِأَنَّ خَاطِرَ الْبَشَرِ مَطْبُوعٌ عَلَی الرَّدَاء َۃِ، وَلَنْ أُہْلِکَ جَمِیعَ الْحَیَوَانِ کَمَا صَنَعْتُ) .
ترجمہ
اوراسی طرح ایک اورجگہ ہے جب حضرت سیدنانوح علیہ السلام کشتی سے نکلے تو انہوںنے ایک قربان گاہ تعمیرکیااوراس میں اللہ تعالی کے لئے چندقربانیاں پیش کیں ، اللہ تعالی کے ناک میں پکی ہوئی چیزوں کی خوشبوپہنچی توکہنے لگاکہ اب میں انسانوں کی وجہ سے زمین کو دوبارہ لعنت میں مبتلاء نہیں کروں گا۔ کیونکہ انسان کے دل پر خرابی وبربادی کی مہرلگادی گئی ہے ۔ لھذااب میں اس طرح تمام حیوانوں کوہلا ک نہیں کروں گا۔
(ہدایۃ الحیاری فی أجوبۃ الیہود والنصاری: محمد بن أبی بکر بن أیوب ابن قیم الجوزیۃ (۲:۴۱۸)دار الشامیۃ، جدۃ
نویں گستاخی
أَنَّ اللَّہَ تَجَلَّی لِمُوسَی فِی طُورِ سَیْنَاء َ، وَقَالَ لَہُ بَعْدَ کَلَامٍ کَثِیرٍ: أَدْخِلْ یَدَکَ فِی حِجْرِکَ وَأَخْرِجْہَا مَبْرُوصَۃً کَالثَّلْجِ وَہَذَا مِنَ النَّمَطِ الْأَوَّلِ، وَاللَّہُ سُبْحَانَہُ لَمْ یَتَجَلَّ لِمُوسَی وَإِنَّمَا أَمْرُہُ أَنْ یُدْخِلَ یَدَہُ فِی جَیْبِہِ وَأَخْبَرَہُ بِأَنَّہَا تَخْرُجُ بَیْضَاء َ مِنْ غَیْرِ سُوء ٍ أَیْ مِنْ غَیْرِ بَرَصٍ.
ترجمہ :اللہ تعالی حضرت سیدناموسی علیہ السلام کے لئے کوہ طور پرروشن ہوااوراللہ تعالی حضرت سیدناموسی علیہ السلام کے ساتھ لمبی گفتگوفرمانے کے بعد فرمانے لگاکہ تم اپنے ہاتھ اپنی گودمیں داخل کرو، جب اسے نکالوگے تو وہ بالکل سفید برص کی بیماری کاشکارہوگا۔
حالانکہ اللہ تعالی حضرت سیدناموسی علیہ السلام کے لئے روشن نہیں ہواتھا، بلکہ اس نے انہیں صرف یہ حکم دیاتھاکہ اپنی قوم کو یہ معجزہ دکھلائوکہ اپنے ہاتھ کو پہلے اپنے گریبان میں ڈالوپھرجب اسے نکالوگے تو بغیربرص کی بیماری کے بالکل سفیدچمکتاہوادکھائی دے گا۔
(ہدایۃ الحیاری فی أجوبۃ الیہود والنصاری: محمد بن أبی بکر بن أیوب ابن قیم الجوزیۃ (۲:۴۱۸)

یہودیوں کی گستاخیاں جو قرآن کریم میں مذکورہیں

یہودیوں کی اللہ تعالی کی شان میں گستاخیاں جن کاذکراللہ تعالی نے قرآن کریم میں کیاہے۔
پہلی گستاخی اوراس پر یہودیوں کارد
وَأَمَّا فِرْیَتُہُمْ عَلَی اللَّہِ وَرُسُلِہِ وَأَنْبِیَائِہِ وَرَمْیِہِمْ لِرَبِّ الْعَالَمِینَ وَرُسُلِہِ بِالْعَظَائِمِ فَکَثِیرٌ جِدًّا، کَقَوْلِہِمْ: إِنَّ اللَّہَ اسْتَرَاحَ فِی الْیَوْمِ السَّابِعِ مِنْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ۔فَأَنْزَلَ اللَّہُ تَعَالَی تَکْذِیبَہُمْ بِقَوْلِہِ: وَمَا مَسَّنَا مِنْ لُغُوبٍ۔
ترجمہ:یہودیوں نے اللہ تعالی اورا سکے انبیاء کرام علیہم السلام پر جو بہتان طرازی کی ہے اس کی چندایک مثالیں ملاحظہ فرمائیں ۔اللہ تعالی کے بارے میں یہودیوں نے کہاکہ وہ آسمان وزمین کو پیداکرنے کے بعد ساتویں دن آرام کرنے لگا۔ اس پر اللہ تعالی نے ان کی تکذیب کرنے کے لئے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی:
{وَ لَقَدْ خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ وَّ مَا مَسَّنَا مِنْ لُّغُوْبٍ }سورۃ ق:۳۸)
اور بیشک ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے چھ دن میں بنایا اور تکان ہمارے پاس نہ آئی۔
صدرفاضل سید نعیم الدین مرادآبادی رحمہ اللہ تعالی اس آیت کریمہ کاشان نزول بیان کرتے ہیں کہ مفسّرین نے کہا کہ یہ آیت یہود کے رد میں نازل ہوئی جو یہ کہتے تھے کہ اللہ تعالٰی نے آسمان و زمین اور ان کے درمیانی کائنات کو چھ روز میں بنایا جس میں سے پہلا یک شنبہ ہے اور پچھلا جمعہ ، پھر وہ معاذ اللہ تھک گیا اور سنیچر کو اس نے عرش پر لیٹ کر آرام کیا ، اس آیت میں ان کا رد ہے کہ اللہ تعالٰی اس سے پاک ہے کہ تھکے ، وہ قادر ہے کہ ایک آن میں سارا عالَم بنادے ، ہر چیز کو حسبِ اقتضائے حکمت ہستی عطا فرماتا ہے ۔ شانِ الٰہی میں یہود کا یہ کلمہ سیّدِ عالَمﷺ کو بہت ناگوار ہوا اور شدّتِ غضب سے چہرہِ مبارک پر سرخی نمودار ہوگئی تو اللہ تعالٰی نے آپﷺ کی تسکین فرمائی اور خطاب ہوا ۔
دوسری گستاخی اوراس پر یہودیوں کارد
{وَ قَالَتِ الْیَہُوْدُ یَدُ اللہِ مَغْلُوْلَۃٌ غُلَّتْ اَیْدِیْہِمْ وَلُعِنُوْا بِمَا قَالُوْا بَلْ یَدَاہُ مَبْسُوْطَتَانِ یُنْفِقُ کَیْفَ یَشَآء ُ وَلَیَزِیْدَنَّ کَثِیْرًا مِّنْہُمْ مَّآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ طُغْیٰنًا وَّکُفْرًا وَاَلْقَیْنَا بَیْنَہُمُ الْعَدٰوَۃَ وَالْبَغْضَآء َ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ کُلَّمَآ اَوْقَدُوْا نَارًا لِّلْحَرْبِ اَطْفَاَہَا اللہُ وَیَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا وَاللہُ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ }سورۃ المائدۃ :۶۴)
ترجمہ کنزالایمان: اور یہودی بولے اللہ کا ہاتھ بندھا ہوا ہے اِنہیں کے ہاتھ باندھے جائیںاور ان پر اس کہنے سے لعنت ہے بلکہ اس کے ہاتھ کشادہ ہیں عطا فرماتا ہے جسے چاہے اور اے محبوب یہ جو تمہاری طرف تمہارے رب کے پاس سے اترا اس سے ان میں بہتوں کوشرارت اور کفر میں ترقی ہوگی اور ان میں ہم نے قیامت تک آپس میں دشمنی اور بَیرڈال دیا جب کبھی لڑائی کی آگ بھڑکاتے ہیں اللہ اُسے بجھا دیتا ہے اور زمین میں فساد کیلئے دوڑتے پھرتے ہیں اور اللہ فسادیوں کو نہیں چاہتا۔
اس آیت کریمہ کاشان نزول نقل کرتے ہوئے صدرالافاضل سیدنعیم الدین مرادآبادی رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ حضرت سیدناعبداللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ یہود بہت خوش حال اور نہایت دولت مند تھے جب انہوں نے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب و مخالفت کی تو ان کی روزی کم ہو گئی ، اس وقت فخاص یہودی نے کہا کہ اللہ کا ہاتھ بندھا ہے یعنی معاذ اللہ وہ رزق دینے اور خرچ کرنے میں بُخل کرتا ہے ، اس کے اس قول پرکسی یہودی نے منع نہ کیا بلکہ راضی رہے اسی لئے یہ سب کا مقولہ قرار دیا گیا اور یہ آیت ان کے حق میں نازل ہوئی ۔
تیسری گستاخی اوراس پر یہودیوں کارد
{اَلَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللہَ عَہِدَ اِلَیْنَآ اَ لَّا نُؤْمِنَ لِرَسُوْلٍ حَتّٰی یَاْتِیَنَا بِقُرْبَانٍ تَاْکُلُہُ النَّارُ قُلْ قَدْ جَآء َکُمْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِیْ بِالْبَیِّنٰتِ وَبِالَّذِیْ قُلْتُمْ فَلِمَ قَتَلْتُمُوْہُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ }(سورۃ آل عمران : ۱۳۸)
ترجمہ کنزالایمان :وہ جو کہتے ہیں اللہ نے ہم سے اقرار کرلیا ہے کہ ہم کسی رسول پر ایمان نہ لائیں جب تک ایسی قربانی کا حکم نہ لائے جسے آگ کھائے تم فرما دو مجھ سے پہلے بہت رسول تمہارے پاس کھلی نشانیاں اور یہ حکم لے کر آئے جو تم کہتے ہو پھر تم نے انہیں کیوں شہید کیا اگر سچے ہو ۔
اس آیت کریمہ کے شان نزول کے متعلق حضرت سیدناصدرالافاضل سید نعیم الدین مراد آبادی رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ یہود کی ایک جماعت نے سید عالم ﷺ سے کہا تھا کہ ہم سے توریت میں عہد لیا گیا ہے کہ جو مدعی رسالت ایسی قربانی نہ لائے جس کو آسمان سے سفید آگ اتر کر کھائے اس پر ہم ہرگز ایمان نہ لائیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور انکے اس کذب محض اور افتراء خالص کا ابطال کیا گیا کیونکہ اس شرط کا توریت میں نام و نشان بھی نہیں ہے اور ظاہر ہے کہ نبی کی تصدیق کے لئے معجزہ کافی ہے کوئی معجزہ ہو جب نبی نے کوئی معجزہ دکھایا اس کے صدق پر دلیل قائم ہوگئی اور اس کی تصدیق کرنا اور اس کی نبوت کو ماننا لازم ہوگیا اب کسی خاص معجزہ کا اصرار حجت قائم ہونے کے بعد نبی کی تصدیق کا انکار ہے۔

انبیاء کرام علیہم السلام کی گستاخیاں

اب ہم یہاں سے یہودیوں کی موجودہ کتاب ’’توراۃ ‘‘ میں انبیاء کرام علیہم السلام کی گستاخیوں پر مشتمل عبارات کو نقل کرتے ہیںتاکہ اہل اسلام کو معلوم ہوسکے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی گستاخیاں کرناآج کے یہودیوں کی ایجاد نہیں ہے بلکہ ان کے آباواجداد سے ان کو یہ کمینہ پن ورثے میں ملاہے۔آیئے چندایک مقامات نقل کرتے ہیں آپ بھی ملاحظہ فرمائیں :
حضرت سیدنالوط علیہ السلام کی گستاخی
عَنْ لُوطٍ رَسُولِ اللَّہِ أَنَّہُ خَرَجَ مِنَ الْمَدِینَۃِ وَسَکَنَ فِی کَہْفِ الْجَبَلِ، وَمَعَہُ ابْنَتَاہُ، فَقَالَتِ الصُّغْرَی لِلْکُبْرَی: قَدْ شَاخَ أَبُونَا فَارْقُدِی بِنَا مَعَہُ لِنَأْخُذَ مِنْہُ نَسْلًا، فَرَقَدَتْ مَعَہُ الْکُبْرَی ثُمَّ الصُّغْرَی، ثُمَّ فَعَلَتَا ذَلِکَ فِی اللَّیْلَۃِ الثَّانِیَۃِ، وَحَمَلَتَا مِنْہُ بِوَلَدَیْنِ مُوآبَ وَعَمُونَ فَہَلْ یُحْسَنُ أَنْ یَکُونَ نَبِیٌّ رَسُولٌ کَرِیمٌ عَلَی اللَّہِ یُوقِعُہُ اللَّہُ سُبْحَانَہُ وَتَعَالَی فِی مِثْلِ ہَذِہِ الْفَاحِشَۃِ الْعَظِیمَۃِ فِی آخِرِ عُمُرِہِ، ثُمَّ یُذِیعُہَا عَنْہُ وَیَحْکِیہَا لِلْأُمَمِ؟
ترجمہ
توراۃ میں حضرت سیدنالوط علیہ السلام کے بارے میں ہے کہ وہ شہر سے نکلے اورایک پہاڑ کے دامن میں سکونت پذیرہوئے ۔ آپ علیہ السلام کے ساتھ آپ کی دوبیٹیاں بھی تھیں ۔ چھوٹی لڑکی نے بڑی لڑکی سے کہا: ہمارے باپ بوڑھے ہوچکے ہیں لھذاہمیں ان کے پاس سلادوتاکہ ان سے ہماری کوئی نسل پیداہو، چنانچہ آپ علیہ السلام کے ساتھ پہلے بڑی لڑکی سوئی ، پھرچھوٹی لڑکی ۔ دوسری رات بھی انہوںنے ایسے ہی کیا، پھردونوں حاملہ ہوگئیں ، ان میں سے ایک کے بچے کا نام ’’موا ب ‘‘ تھااوردوسری کے بچے کانام ’’عمون ‘‘تھا۔
کیاحضرت سیدنالوط علیہ السلام جیسے جلیل القدرنبی کے بارے میں یہ کہاجاسکتاہے کہ اللہ تعالی نے ان کو آخری عمر میں ایسے گناہوںکے ارتکاب سے محفوظ نہ رکھا۔ اورپھراس کاتذکرہ تمام لوگوں سے کیاجارہاہے ؟۔
(ہدایۃ الحیاری فی أجوبۃ الیہود والنصاری: محمد بن أبی بکر بن أیوب ابن قیم الجوزیۃ (۲:۴۱۸)
حضرت سیدناہارون علیہ السلام کی گستاخی
وَفِیہَا أَنَّ ہَارُونَ ہُوَ الَّذِی صَاغَ لَہُمُ الْعِجْلَ، وَہَذَا إِنْ لَمْ یَکُنْ مِنْ زِیَادَتِہِمْ وَافْتِرَائِہِمْ فَہَارُونُ اسْمُ السَّامِرِیِّ الَّذِی صَاغَہُ لَیْسَ ہُوَ بِہَارُونَ أَخِی مُوسَی.
ترجمہ :اوراسی میں ایک جگہ ہارون نے سونے کاپتھرڈھال کربنایاچونکہ سامری کانام ہارون تھا، اس لئے ان کاکہناصحیح ہے ۔ لیکن انہوں نے ہارون کہہ کرلوگوں کو دھوکہ میں ڈالنے کی کوشش کی ہے تاکہ لوگ حضرت سیدناموسی علیہ السلام کے بھائی حضرت سیدناہارون علیہ السلام کو سمجھ لیں ۔
(ہدایۃ الحیاری فی أجوبۃ الیہود والنصاری: محمد بن أبی بکر بن أیوب ابن قیم الجوزیۃ (۲:۴۱۸)

حضرت سیدناابراہیم علیہ السلام کی گستاخی

وَفِیہَا:أَنَّ اللَّہَ قَالَ لِإِبْرَاہِیمَ:اذْبَحِ ابْنَکَ بِکْرَکَ إِسْحَاقَ، وَہَذَا مِنْ بُہْتِہِمْ وَزِیَادَتِہِمْ وَافْتِرَائِہِمْ فِی کَلَامِ اللَّہِ سُبْحَانَہُ وَتَعَالَی، وَقَدْ جَمَعُوا بَیْنَ النَّقِیضَیْنِ، فَإِنَّ بِکْرَہُ ہُوَ إِسْمَاعِیلُ فَإِنَّہُ بِکْرُ أَوْلَادِہِ، وَإِسْحَاقُ إِنَّمَا بُشِّرَ بِہِ عَلَی الْکِبَرِ بَعْدَ قَضِیَّۃِ الذَّبْحِ.
ترجمہ :ایک اورجگہ پر ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت سیدناابراہیم علیہ السلام سے فرمایاکہ اپنے پہلے بیٹے حضرت سیدنااسحاق علیہ السلام کو ذبح کردو۔
یہ ان کی غایت درجہ کی بہتان طرازی اورکتاب اللہ میں زیادتی ہے کیونکہ حضرت سیدنااسماعیل علیہ السلام حضرت سیدناابراہیم علیہ السلام کے پہلے بیٹے تھے ، نہ کہ حضر ت سیدنااسحاق علیہ السلام ۔ بلکہ حضرت سیدنااسحاق علیہ السلام توحضرت سیدناابراہیم علیہ السلام کے بڑھاپے کی حالت میں اورقربانی والے واقعہ کے بعد پیداہوئے۔
(ہدایۃ الحیاری فی أجوبۃ الیہود والنصاری: محمد بن أبی بکر بن أیوب ابن قیم الجوزیۃ (۲:۴۱۸)

حضرت سیدناداوٓدعلیہ السلام کی شان میں گستاخی

وَفِیہَا:أَنَّ یَہُودَا بْنَ یَعْقُوبَ النَّبِیَّ زَوَّجَ وَلَدَہُ الْأَکْبَرَ مِنَ امْرَأَۃٍ یُقَالُ لَہَا تَامَارُ، فَکَانَ یَأْتِیہَا مُسْتَدْبِرًا فَغَضِبَ اللَّہُ مِنْ فِعْلِہِ فَأَمَاتَہُ، فَزَوَّجَ یَہُودَا وَلَدَہُ الْآخَرَ بِہَا فَکَانَ إِذَا دَخَلَ بِہَا أَمْنَی عَلَی الْأَرْضِ عِلْمًا بِأَنَّہُ إِنْ أَوْلَدَہَا کَانَ أَوَّلُ الْأَوْلَادِ مَدْعُوًّا بَاسِمِ أَخِیہِ وَمَنْسُوبًا إِلَی أَخِیہِ، فَکَرِہَ اللَّہُ ذَلِکَ مِنْ فِعْلِہِ فَأَمَاتَہُ، وَأَمَرَہَا یَہُودَا بِاللَّحَاقِ بِبَیْتِ أَبِیہَا إِلَی أَنْ یَکْبُرَ شِیلَا وَلَدُہُ وَیَتِمَّ عَقْلُہُ، ثُمَّ مَاتَتْ زَوْجَۃُ یَہُودَا وَذَہَبَ إِلَی مَنْزِلِہِ لِیَجِزَّ غَنَمَہُ، فَلَمَّا أُخْبِرَتْ تَامَارُ لَبِسَتْ زِیَّ الزَّوَانِی وَجَلَسَتْ عَلَی طَرِیقِہِ، فَلَمَّا مَرَّ بِہَا ظَنَّہَا زَانِیَۃً فَرَاوَدَہَا فَطَالَبَتْہُ بِالْأُجْرَۃِ فَوَعَدَہَا بِجَدْیٍ، وَرَمَی عِنْدَہَا عَصَاہُ وَخَاتَمَہُ فَدَخَلَ بِہَا فَعَلَقَتْ مِنْہُ بِوَلَدٍ. وَمِنْ ہَذَا الْوَلَدِ کَانَ دَاوُدُ النَّبِیُّ فَقَدْ جَعَلُوہُ وَلَدَ زِنًا، کَمَا جَعَلُوا الْمَسِیحَ وَلَدَ زِنًا، وَلَمْ یَکْفِہِمْ ذَلِکَ حَتَّی نَسَبُوا ذَلِکَ إِلَی التَّوْرَاۃِ، وَکَمَا جَعَلُوا وَلَدَیْ لُوطٍ وَلَدَیْ زِنًا، ثُمَّ نَسَبُوا دَاوُدَ وَغَیْرَہُ مِنْ أَنْبِیَائِہِمْ إِلَی ذَیْنَکِ الْوَالِدَیْنِ.وَأَمَّا فِرْیَتُہُمْ عَلَی اللَّہِ وَرُسُلِہِ وَأَنْبِیَائِہِ وَرَمْیِہِمْ لِرَبِّ الْعَالَمِینَ وَرُسُلِہِ بِالْعَظَائِمِ فَکَثِیرٌ جِدًّا۔
ترجمہ :ایک جگہ یہ بیان کیاگیاہے کہ حضرت سیدنایعقوب علیہ السلام کے بیٹے یہودانے اپنے بڑے بیٹے کی شادی کی جس کانام تامارتھا، وہ لڑکاعورت کے پچھلے مقام سے وطی کرتاتھا، اللہ تعالی کو یہ بات پسندنہ آئی ، جس کی وجہ سے اللہ تعالی نے اس سے ناراض ہوکر اس کوموت دے دی۔ پھریہودانے اپنے بیٹے کی شادی کی ، وہ لڑکاعورت سے جب جماع کرتاتومنی زمین پر گرادیتاکیونکہ وہ یہ سمجھتاتھاکہ اس عورت سے جوپہلابچہ پیداہوگاوہ اس کے لئے بھائی کی طرف منسو ب ہوگا، اللہ تعالی کو اس کایہ فعل پسندنہ آیا، چنانچہ اللہ تعالی نے اس کو بھی مارڈالا۔پھریہودانے اس عورت کو حکم دیاکہ تم اپنے باپ کے ہاں اس وقت تک پڑی رہوجب تک کہ میرالڑکاسن شعور تک نہیں پہنچ جاتااوربالغ نہیں ہوجاتا۔ پھرکچھ دنوں کے بعد یہوداکی بیوی کاانتقال ہوگیا، یہوداایک دن اپنے گھرمیں بکری ذبح کرنے کے لئے گیا، جب تامار کو یہ خبرپہنچی تووہ زانیہ عورت کالباس پہن کراس کے راستے میں بیٹھ گئی ، جب یہودااس کے پاس سے گزراتوسمجھاکہ یہ زانیہ عورت ہے تواس کو زناپرآمادہ کرلیااوراس کے ساتھ اجرت بھی طے کرلی اوراجرت میں اس نے بکری کا ایک بچہ دے دیااوراس کے پاس اپنی لاٹھی اورانگوٹھی پھینک دی اوراس کے ساتھ بدکاری کی تواس سے اس عورت کو حمل ہوگیا، پھراسی سے ولد الزنالڑکے کی نسل سے حضرت سیدنادائودعلیہ السلام کی پیدائش ہوئی ۔
اسی طرح یہودیوں نے حضرت سیدنادائود علیہ السلام کو ولدالزناقراردیا،(نعوذباللہ من ذلک)پھرحضرت سیدنادائودعلیہ السلام اورتمام انبیاء کرام علیہم السلام کو بھی اسی طرح اسی لڑکے کی طرف منسوب کرتے ہیں اورسب کو ولد الزناقراردیتے ہیں۔اوراپنی اس بکواس کو توراۃ کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔
کیایہ وہی کلام ہے جو اللہ تعالی نے اپنے انبیاء کرام علیہم السلام پر نازل فرمایاہے ، اس کو دیکھنے کے بعد کون یہ کہہ سکتاہے توراۃ میں تبدیلی نہیں ہوئی ہے ۔
(ہدایۃ الحیاری فی أجوبۃ الیہود والنصاری: محمد بن أبی بکر بن أیوب ابن قیم الجوزیۃ (۲:۴۱۸)

حضرت سیدناموسی علیہ السلام کی گستاخی

وَمِنْ جَہْلِہِمْ أَنَّ ہَارُونَ عَلَیْہِ السَّلَامُ لَمَّا مَاتَ وَدَفَنَہُ مُوسَی قَالَتْ بَنُو إِسْرَائِیلَ لِمُوسَی:أَنْتَ قَتَلْتَہُ،حَسَدْتَہُ عَلَی خُلُقِہِ وَلِینِہِ مِنْ مَحَبَّۃِ بَنِی إِسْرَائِیلَ لَہُ، قَالَ:فَاخْتَارُواسَبْعِینَ رَجُلًا مِنْ بَنِی إِسْرَائِیلَ فَوَقَفُوا عَلَی قَبْرِ ہَارُونَ، فَقَالَ مُوسَی:یَا ہَارُونُ، أَقُتِلْتَ أَمْ مُتَّ؟ فَقَالَ:بَلْ مُتُّ وَمَا قَتَلَنِی أَحَدٌفَحَسْبُکَ مِنْ جَہَالَۃِ أُمَّۃٍ وَجَفَائِہِمْ أَنَّہُمُ اتَّہَمُوا نَبِیَّہُمْ وَنَسَبُوہُ إِلَی قَتْلِ أَخِیہِ، فَقَالَ مُوسَی:مَا قَتَلْتُہُ فَلَمْ یُصَدِّقُوہُ حَتَّی أَسْمَعَہُمْ کَلَامَہُ وَبَرَّأَہُ أَخُوہُ مِمَّا رَمَوْہُ بِہِ.
ترجمہ:جب حضرت سیدناہارون علیہ السلام کاوصال شریف ہوااورحضرت سیدناموسی علیہ السلام نے ان کی تدفین کی تویہودیوں نے حضرت سیدناموسی علیہ السلام کوکہنا شروع کر دیاکہ آپ نے حضرت سیدناہارون علیہ السلام کو قتل کیاہے ۔اورآپ نے اس لئے ان کو قتل کیاہے کہ وہ بنی اسرائیل کے ساتھ محبت کرتے اورنرمی کیاکرتے تھے ،پھرحضرت سیدناموسی علیہ السلام نے ان سے فرمایاکہ تم سترآدمیوں کو منتخب کرواورحضرت سیدناہارون علیہ السلام کے مزارتک چلو۔ چنانچہ وہ حضرت سیدناہارون علیہ السلام کے مزار پرپہنچے اورکھڑے ہوگئے ۔ حضرت سیدناموسی علیہ السلام نے فرمایا: اے ہارون! کیاآپ کو قتل کیاگیاہے ؟ حضرت سیدناہارون علیہ السلام نے فرمایاکہ مجھے کسی نے قتل نہیں کیابلکہ مجھے طبعی موت آئی ہے ۔
اسی طرح انہوں نے خود حضرت سیدناہارون علیہ السلام کے بھائی اوراپنے نبی علیہ السلام پر تہمت لگائی اوران کی اظہاربرات پر تصدیق اس وقت تک نہیں کی جب تک انہوںنے حضرت سیدناہارون علیہ السلام سے طبعی موت کی خبرکوسن نہیں لیا۔
(ہدایۃ الحیاری فی أجوبۃ الیہود والنصاری: محمد بن أبی بکر بن أیوب ابن قیم الجوزیۃ (۲:۵۸۹)

معارف ومسائل

(۱) اس سے معلوم ہواکہ ساری دنیاکے کافراس مرض میں مبتلاء ہیں کہ ان کو اہل اسلام کے ساتھ حسدہے اوراس وقت کے یہودی ،عیسائی اسی مقصد کو پانے کے لئے اربوں ڈالرسالانہ خرچ کررہے ہیں کہ اہل اسلام کو اسلام سے برگشتہ کردیں ۔
(۲) امریکہ کے پادری کئی مرتبہ لاکھوں عوام کی موجودگی میں سینکڑوں نسخے قرآن کریم کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے آگ میں جلاچکے ہیں۔ اوروہ قرآن کریم کو ہاتھ میں لے کر پکارپکارکرکہتے ہیں کہ دنیامیں امن وسلامتی کے لئے کتاب بہت خطرناک ہے ، جب تک یہ کتاب کرہ ارض پر موجود ہے دنیامیں ہرگزہرگزامن قائم نہیں ہوگا۔
(۳) اسی طرح کچھ ایام پہلے کی بات ہے کہ جب کروناوائرس دنیامیں پھیلاتو کچھ عاملین نے یہ بتایاکہ فلاں سورت تلاوت کی جائے تواس کاخاتمہ ہوسکتاہے تواس خبرکولے کر انڈین ٹی وی نے کہاکہ کیااس کتاب سے شفاملے گی جو دنیامیں آئی ہی موت باٹنے کے لئے ہے ۔
(۴) رسول اللہ ﷺاورآپ ﷺکی ازواج مطہرات کے خاکے بنابناکریہودی وعیسائی اخبارات میں اورٹی وی پربڑی دریدہ دلیری کے ساتھ شائع کرتے ہیں اورمسلمان خواتین کے لئے مذہبی پردہ ، سکارف ، برقعہ پہننے پر سختی کے ساتھ پابندی عائد کی جاتی ہے ۔
(۵) برطانوی پادری قرآن کریم کو ہاتھ میں لے کر کہتاہے کہ محمدﷺکی کتاب اورتلوار نے دنیاکے امن اورتہذیب کوتہ وبالاکردیاہے ، چاہئے کہ تمام لوگ اس کے وجود سے دنیاکو پاک کردیں ۔نعوذ اللہ من ذلک ۔
(۶)اس سے معلوم ہواکہ کفاراہل ایمان پرکبھی بھی راضی نہیں ہوسکتے سوائے دوصورتوں کے ، ایک تویہ کہ وہ خود مسلمان بن جائیں اوردوسراطریقہ یہ ہے کہ نعوذ باللہ من ذلک مسلمان اسلام کو چھوڑکر کافراورمرتدہوجائیں ۔
(۷)رئیس المجاہدین امیرشکیب ارسلان رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ یورپی عیسائیوں اوریہودیوں نے رسول اللہﷺکی سیرت مبارکہ کو مسخ کرنے کے لئے اورقرآن کریم اوراحکام اسلامی کی تردیدمیں چھے لاکھ کی تعداد میں رسائل اورکتابیں شائع کی ہیں تاکہ مسلمان اپنے نجات دہندہ راہنمامحمدﷺاورقرآن کریم اوراسلام سے بدظن ہوجائیں اوراپنے نبی کریم ﷺسے کنارہ کشی کرلیں اوردھڑادھڑنصرانیت کو قبول کرلیں یاکم از کم ان میں اسلامی جذبات اوراقدارباقی نہ رہیں ۔ مشن اسکول ، مشن ہسپتال ، بے شمار این جی اوز اسی مقصد کے لئے کام کررہے ہیں اوریہ سارے کے سارے کام بھی اسلامی ممالک میں کررہے ہیں اورانتہائی افسوس ناک بات ہے کہ یہ تمام این جی اوز پاکستان میں بھی بڑے زور وشور سے کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔
(الحاضرالعالم الاسلامی لشیخ امیرشکیب ارسلان :۵۶)
(۸)انڈونیشیااورسوڈان جیسے اسلامی ممالک میں باقاعدہ ریاست کے اندر ریاست بناکر عیسائیت کی داغ بیل ڈال دی گئی ہے اوران کی وحدت کو جڑسے اکھیڑ کر پرے پھینک دیاگیاہے ، اسی طرح مراکش ، جزائر ، تیونس ، یمن ، شام ، عراق اورافغانستان وغیرہ میں جو تباہی مچائی گئی ہے یہ ایک الگ داستان ہے ۔
(۹) اس سے معلوم ہواکہ صدراسلام میں یہودی اورمشرکین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دشمن تھے اورآج جو لوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دشمن ہیں یہ بھی انہیں کے جانشین ہیں ۔
(۱۰) اسی طرح اہل اسلام کو اسلام سے برگشتہ کرنے کے لئے یہود ونصاری کی ایک جماعت جن کو مستشرقین کہاجاتاہے جن کو لبرل لوگ ریسرچ اسکالراورمحقق کہتے ہیں انہوں نے قرآن کریم اوررسول اللہ ﷺکی احادیث شریفہ میں ایسی نکتہ چینی کی ہے العیاذ باللہ ۔ ان کامقصد یہ ہے کہ کسی طرح اہل اسلام دین سے بدظن ہوجائیں ۔
گلیڈ سٹون نے برطانیہ کی پارلیمنٹ میں برملاکہاتھاکہ محمدﷺکی کتاب قرآن اوران کی تلوار انسانیت کیلئے بہت بڑاخطرہ ہیں ۔ اوراس نے قرآن کریم ہاتھ میں لیکر کہاتھاکہ جب تک یہ کتاب دنیامیں موجود ہے یہ دنیامہذب نہیں ہوسکتی ۔ لہذااس کی عزت وتوقیرلوگوں کے دلوں سے مٹاناہوگی ، اس کامطلب یہی تھاکہ قرآن کریم ایک ایسی کتاب ہے جو فحاشی سے منع کر تی ہے اورفحاشی اورعیاشی کے بغیرتہذیب نہیں آسکتی ، ان کے نزدیک انسان مہذب تب تک نہیں بنتاجب وہ برہنہ نہ ہوجائے۔ لھذااسی خواہش کے پیش نظروہ کہتے ہیں کہ قرآن کریم کو دنیاسے محوکردیاجائے ۔
(۱۱)یہودیوں نے رسول اللہ ﷺکے متعلق مختلف شکوک وشبہات پیدا کر رکھے تھے، بعض اوقات سادہ لوح مسلمان ان کے پروپیگنڈوں سے متاثر ہو کر آپﷺسے ایسا سوال کر بیٹھتے جس کی تہہ میں اعتراضی پہلو ہی کارفرما ہوتا۔آج انہیں یہودیوں کی وجہ سے جو خود کوریسرچ اسکالرکہتے ہیں دنیابھرمیں نوجوانوں کو جو اسکول وکالج سے وابسطہ ہیں لبرل بنادیاہے اورآج یہی نوجوان طبقہ دین متین کے ہرہراحکام پر اعتراض کرتاہوادکھائی دیتاہے ، اس کے متعلق ہم تھوڑاتفصیل کے ساتھ لکھتے ہیں تاکہ مسئلہ کو سجھناآسان ہوجائے ۔
سوال اگر شکوک وشبہات کے ازالے کے لیے ہو تو باعث رحمت ہے، لیکن اگر وہی سوال، اعتراض برائے اعتراض اور نفسانی شرارت کے زیر اثر ہو تو باعثِ لعنت ہے ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تنبیہ وتہدید فرمائی ہے، قبول ایمان کے بعد اعتراض کرنا کافرانہ روش ہے ،جو کفر کا سبب بھی بن سکتی ہے ،یہی روش جس سے یہود سادہ لوح مسلمانوں کو بہکانے کی کوشش کرتے ہیں۔ دین اسلام کے احکام پر اورحضورﷺ کی ذات گرامی کے بارے میں سطحی اعتراض اور منفی جذبات پیدا کرکے سادہ لوح مسلمانوں کے عقیدے پر وار کرنا اور انہیں ایمانی دولت سے محروم کرنے کی کوشش کرنا یہود کا قدیم اور تاریخی وطیرہ رہا ہے۔ جیسے امّت مسلمہ کی سیاسی وحدت پارہ پارہ ہوئی ہے اور یہود کو نصاری کی آشیر بادی سے سیاسی تحفظ حاصل ہوا ہے ، انہوں نے اپنی گستاخیوں کو علمی جامہ پہنانے کے لیے نصاری کے اتحاد سے ایک جماعت کی بنیاد رکھی، جسے مستشرقین کہا جاتا ہے۔ ان کے طریقہ ہائے واردات میں سے ایک یہ ہے کہ اولاً خوش نما الفاظ میں لپٹی ہوئی کوئی اصطلاح متعارف کراتے ہیں، مثلاً انسانی حقوق، نسوانی حقوق، امن کے لیے جنگ وغیرہ، پھر اس کا ایک خاص مفہوم گھڑتے ہیں، جس میں مذہب اسلام کا نام لیے بغیر اس سے دشمنی اور نفرت کا بھرپور اظہار ہوتا ہے، پھر سرور دو عالمﷺ کے فرمودات واعمال اور اسلام کے انفرادی، اجتماعی احکام کو ان خود ساختہ مسلمات پر پرکھ کر کسی کو انسانی حقوق، کسی کو نسوانی حقوق، کسی کو آزادی رائے وغیرہ کے حق سے متصادم قرار دے کر ناقابل فہم اورناقابل عمل قرار دیا جاتا ہے۔ اسی حربے سے اسلام کے احکام حدود وتعزیرات کو وحشیانہ تک قرار دیا گیا، انہیں مستشرقین نے اپنی تجاہل عارفانہ سرگرمیوں سے مسلمانوں میں بھی کچھ ایسے لوگوں کو ہم خیال بنا لیا ہے جو انہیں کے مُدّعٰی کو اپنے قلم سے تحقیق ومباحث کے علمی عنوانات سے پیش کرکے امت مسلمہ کے متفقہ اجماعی امور میں شکوک وشبہات پیدا کرنے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں، اللہ تعالیٰ ان بیمار ذہنوں کی فتنہ آرائی سے امّت مسلمہ کی حفاظت فرمائے۔ مذکورہ آیت میں بتایا جارہا ہے کہ یہود کی ایسی سرگرمیاں صرف مسلمانوں کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ ان ظالموں نے ماضی میں اپنے رسول حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ بھی معترضانہ گفتگو کرکے گستاخی کا ارتکاب کیا تھا۔
(۱۲)اپنی بد اخلاقیوں کی وجہ سے یہودیوں نے وہ ظلم وستم ڈھائے ہیں کہ ایک تاریخ کا طالب علم لرز اٹھتاہے۔اسلام کی دشمنی میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے والے گروہ کا نام یہود ہے۔ ملت عرب ان خیانتوں کو فراموش نہیں کر سکتی جو یہودیوں نے فلسطینیوں پر ڈھائے ہیں صیہونزم جو یہودیت کا ایک شدت پسند ٹکڑا ہے وہ جو کہتے ہیں ایک تو کریلا اس پر نیم چڑھا ایک تو یہود اسلام کا کٹر دشمن ہے جو کمی باقی رہ گئی تھی اسے صیہونزم نے آکر پورا کر دیا ۔ قریہ دیر یاسین میں صیہونزم نے حاملہ عورتوں کو ایک صف میں کھڑا کرکے انکے بدنوں میں آگ لگادی انکے شکم پارہ کر کے بچوں کو باپ کے سامنے پارہ پارہ کر دیا۔ قریہ زیتون میں بے گناہ مسلمانوں کو مسجد میں جمع کر کے مسجد کو ڈینامیٹ سے اڑادیا۔ یہ خونخوار امت جس نے انبیاء کرام علیہم السلام کے قتل سے دریغ نہ کیا اور ایک ایک دن میں کئی کئی انبیاء کرام علیہم السلام کو تہہ تیغ کیا۔ فلسطین کی مقدس سر زمین جو انبیاء کرام علیہم السلام کا مسکن تھی جہاں مسلمانوں کا قبلہ اول بیت المقدس ہے صیہونزم نے شیطان اعظم امریکا کی مدد سے اپنے خونین چنگل سے فلسطینی جوانوں کو تہہ تیغ کر دیا جوان توجوان مسلم خواتین کی عصمت کوتار تار اور مائوں کی آغوش کو ویران کر دیا۔ اسلام کی جتنی مقدس جگہیں ہیں صیہونزم کی لالچی آنکھیں ادھر گری ہیں فلسطین کو اپنے قبضہ میں لیا، اس لئے کہ فلسطین ایک ایسا پل ہے جو ممالک عربیہ کو سوریہ سے دوسری طرف مصر و عراق سے ملاتاہے۔ یہودیوں نے اپنے مقصد کی حصولیابی کے لئے شیطان اعظم امریکا کے سایہ میں اسی جگہ کومشخص کیا تا کہ اسلام کے یہ دیرینہ دشمن مسلمانوں کو نیست و نابود کر سکیں۔
وہ بیت المقدس جہاں کا ذرہ ذرہ ہماری آنکھوں کا سرمہ ہے صیہونزم نے اسے خون کا دریا بنا دیا ہے آج ایک فلسطینی نوجوان کا قلب آتش فشاں ہو رہا ہے۔ جو یہی فریاد کرتاہے مجھے پہچانومیں غزہ و حیفا کا ساکن ہوں۔ میں بیت المقدس و یروشلم کا باسی ہوں۔ میں لاکھوں بچوں اور جوانوں کا غم اٹھائے ہوں۔ وہ زمانہ تھا جب میں بستر نرم پر آرام کرتاتھا اب صحرا کی ریگزار میرا بستر اور ریتوں کا ڈھیر میرا تکیہ ہے مجھے پہچانو میری ماں مجھ سے چھین لی گئی۔ میری ناموس کی عزت میرے سامنے تار تار کی گئی۔ انتقام کا آتش فشاں میرے دلوں میں کروٹیں لے رہاہے۔
(۱۳)چنانچہ وہی یہودی اوروہی بغض و کینہ، آپ دیکھتے ہیں، آج بھی جوں کا توں ہے اور رسول اللہ ﷺکے دین سے تنگ نظر آنے والی قوتوں کو پوری دنیا میں یکجا کرنے کیلئے بھاگا پھر رہا ہے۔ آپ دیکھتے ہیں، دنیا جہان کا کوئی کفر اور کوئی ازم جو اسلام کے خلاف محاذ آرائی میں کام دے سکتا ہو، قطع نظر اس کے کہ اِن کی اپنی توراتی شریعت کی رو سے بھی وہ کتنی ہی بڑی ضلالت ہو، یہ اس کفر کی پیٹھ ضرور تھپکیں گے اور دینِ محمدﷺ پر اس کو صاف ترجیح دیں گے۔ چنانچہ اسلام کی اینٹ سے اینٹ بجانے کیلئے دنیا میں مادیت کا کفر اٹھے، تو آپ دیکھیں گے یہودی اسکے ساتھ ہیں۔ الحادی مذاہب اسلام پر حملہ آور ہونے کیلئے کیل کانٹے سے لیس ہو کر آئیں، توآپ دیکھیں گے یہودیوں کی حمایت مطلق طور پر ان الحادی مذاہب کو حاصل ہو گی ۔ غرض دنیا کا کوئی کفر اور کوئی شیطانی مذہب ہو، بس شرط یہ ہے کہ وہ اسلام کو وجود سے ختم کر دینے کیلئے میدان میں اترا ہو، پھر دیکھئے یہودی کس طرح اس کی بلائیں لیتے ہیں اور کس طرح اسلام کے مقابلے میں اُس کو صحیح تر منواتے اور اس کے پیر مضبوط کرواتے ہیں۔
(۱۴)مغرب کا لادین اور لبرل کلچر انسانیت کے نام پر دھبہ ہے۔ مغرب خود کو تہذیب کا علمبردار سمجھتا ہے اور بدقسمتی سے مسلمان ممالک کے حکمران بالخصوص اور عوام الناس بالعموم اس مرعوبیت میں مبتلا ہیں کہ واقعی مغرب میں ہر چیز معیاری اور قابلِ رشک ہے۔
مغرب کے مختلف ممالک میں وقتاً فوقتاً رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کی ناپاک حرکتیں منظر عام پر آتی رہی ہیں۔ کئی گستاخ قدرت کی پکڑ میں آ کر عبرت کا نشان بھی بنے، مگر یہ شیطانی سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ ہالینڈ میں حالیہ خباثت اُمت مسلمہ کے لیے ایک اور چرکا ہے جس کا بڑی ڈھٹائی سے مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ مغرب میں اسے جمہوریت اور شخصی آزادی کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ ایسی منافقت اور دوغلاپن ہے جس کے لیے انسانی اقدار میں فی الحقیقت کوئی گنجائش نہیں۔ تاہم لادین مغربی تہذیب کے علمبرداروں کا اصرار ہے کہ یہ بنیادی حقوق اور شخصی آزادی ہے۔ لعنت ہے ایسی تہذیب پر جو شرافت کو داغدار اور شیطا نیت کو تاجدار بناتی ہے۔ آپ اندازہ کریں کہ مغربی دنیا میں اگر کسی شخص نے یہودیوں و صہیونیوں کے بارے میں معمولی بات بھی کردی تو اس کے خلاف ہتکِ عزت کا دعویٰ کر دیا گیا۔ دوسری جانب پونے دو ارب مسلمانوں کے مرکزِ عقیدت سید الانبیاء ﷺ کی ذاتِ پاک پر حملے مغرب کے نزدیک کوئی مسئلہ ہی نہیں۔
صہیونی ویہودی دنیا میں ایک معمولی سی اقلیت ہونے کے باوجود پورے مغرب پر حاوی ہیں۔ مسلمان اربوں کی تعداد میں کرۂ ارضی پر آباد ہیں، مگر اپنی قدر وقیمت سے غافل و بے خبر ہیں۔ دنیا میں زندہ قوموں کا شعار یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنے بنیادی ایمان و عقائد کی حفاظت کرتی ہیں۔ رسول اللہﷺ جب تک ہر مومن کو اپنی جان، اپنے ماں باپ، اپنی اولاد اور دنیا کے ہر انسان سے زیادہ محبوب نہ ہو جائیں وہ اللہ کی نظروں میں حقیقی مومن نہیں کہلا سکتا۔ ہمارے مرکزِ عقیدت پر ان حملوں کی وجہ یہ ہے کہ آج پوری امتِ مسلمہ میں کوئی صلاح الدین ایوبی، سلطان محمود غزنوی، طارق بن زیاد اور محمد بن قاسم موجود نہیں ہے۔ مسلمان عوام بھی محض جذباتی اظہار عقیدت کرتے ہیں یہ نہیں سوچتے کہ اپنے ملکوں کے سیاسی نظام میں ایسی تبدیلی لائیں جس کے نتیجے میں ہمارے مقدسات محفوظ ہو سکیں۔ ہماری تو پہچان ہی ہمارے آقا و مولاﷺ ہیں۔
در دلِ مسلم مقامِ مصطفیﷺ است آبروئے ما زنام مصطفیﷺ است

Leave a Reply