تفسیر سورہ بقرہ آیت ۱۰۲ ۔ ہاروت و ماروت کے واقعات اور تذکرے

انبیاء کرام علیہم السلام کی عزت وناموس کادفاع کرنااللہ تعالی کی سنت ہے

{وَاتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّیٰطِیْنُ عَلٰی مُلْکِ سُلَیْمٰنَ وَمَا کَفَرَ سُلَیْمٰنُ وَلٰکِنَّ الشَّیٰطِیْنَ کَفَرُوْا یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَآ اُنْزِلَ عَلَی الْمَلَکَیْنِ بِبَابِلَ ہٰرُوْتَ وَمٰرُوْتَ وَمَا یُعَلِّمَانِ مِنْ اَحَدٍ حَتّٰی یَقُوْلَآ اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَۃٌ فَلَا تَکْفُرْ فَیَتَعَلَّمُوْنَ مِنْہُمَا مَا یُفَرِّقُوْنَ بِہٖ بَیْنَ الْمَرْء ِ وَزَوْجِہٖ وَمَا ہُمْ بِضَآرِّیْنَ بِہٖ مِنْ اَحَدٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللہِ وَیَتَعَلَّمُوْنَ مَا یَضُرُّہُمْ وَلَا یَنْفَعُہُمْ وَلَقَدْ عَلِمُوْا لَمَنِ اشْتَرٰیہُ مَا لَہ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنْ خَلٰقٍ وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِہٖٓ اَنْفُسَہُمْ لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ}(۱۰۲)
ترجمہ کنزالایمان :اور اس کے پیرو ہوئے جو شیطان پڑھا کرتے تھے سلطنتِ سلیمان کے زمانہ میں اور سلیمان نے کفر نہ کیا ،ہاں شیطان کافر ہوئے لوگوں کو جادو سکھاتے ہیں اور وہ (جادو)جو بابل میں دو فرشتوں ہاروت و ماروت پر اترا اور وہ دونوں کسی کو کچھ نہ سکھاتے جب تک یہ نہ کہہ لیتے کہ ہم تو نری آزمائش ہیں تو اپنا ایمان نہ کھو تو ان سے سیکھتے وہ جس سے جدائی ڈالیں مرد اور اس کی عورت میں اور اس سے ضرر نہیں پہنچا سکتے کسی کو مگر خدا کے حکم سے اور وہ سیکھتے ہیں جو انہیں نقصان دے گا نفع نہ دے گا اور بیشک ضرور انہیں معلوم ہے کہ جس نے یہ سودا لیا آخرت میں اس کا کچھ حصہ نہیں اور بیشک کیا بری چیز ہے وہ جس کے بدلے انہوں نے اپنی جانیں بیچیں کسی طرح انہیں علم ہوتا۔
ترجمہ ضیاء الایمان:اور یہ حضرت سلیمان (علیہ السلام)کے عہدِ حکومت میں اس جادو کے پیچھے پڑگئے جو شیاطین پڑھا کرتے تھے اور سلیمان(علیہ السلام) نے کفر نہ کیابلکہ شیطان کافر ہوئے جو لوگوں کو جادو سکھاتے تھے اور (یہ تو اس جادو کے پیچھے بھی پڑگئے تھے)جو بابل شہر میں دو فرشتوںہاروت وماروت پراتارا گیاتھا اور وہ دونوں کسی کو کچھ نہ سکھاتے جب تک یہ نہ کہہ لیتے کہ ہم توصرف(لوگوں کا)امتحان ہیں تو(اے لوگو!تم )اپنا ایمان ضائع نہ کرو۔وہ لوگ ان فرشتوں سے ایسا جادوسیکھتے جس کے ذریعے مرد اور اس کی بیوی میں جدائی ڈال دیں حالانکہ وہ اس کے ذریعے کسی کو اللہ کے حکم کے بغیر کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے اور یہ ایسی چیز سیکھتے تھے جو انہیں نقصان دے اور انہیں نفع نہ دے اور یقینا انہیں معلوم ہے کہ جس نے یہ سودا لیا ہے آخرت میں اس کا کچھ حصہ نہیں اور انہوں نے اپنی جانوں کا کتنا برا سودا کیا ہے، کیا ہی اچھا ہوتا اگر یہ جانتے۔

حضرت سلیمان علیہ السلام کی عزت کادفاع بزبان مصطفی ﷺ

إن بنی إسرائیل اشتغلوا بتعلیم السحر فی زمانہ فمنعہم سلیمان من ذلک وأخذ کتبہم ودفنہا تحت سریرہ، فلما مات استخرجہا الشیاطین وقالوا للناس إنما ملککم سلیمان بہذا فتعلموہ فأما صلحاء بنی إسرائیل وعلماؤہم فأنکروا ذلک وقالوا:معاذ اللہ أن یکون ہذا العلم من علم سلیمان وأما السفلۃ منہم. فقالوا: ہذا ہو علم سلیمان وأقبلوا علی تعلیمہ وترکوا کتب أنبیائہم وفشت الملامۃ لسلیمان فلم تزل ہذہ حالہم إلی أن بعث اللہ تعالی محمدا صلّی اللہ علیہ وسلّم وأنزل علیہ براء ۃ سلیمان علیہ السلام۔
ترجمہ :حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانہ میں بنی اسرائیل جادو سیکھنے میں مشغول ہوئے تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان کو اس سے روکا اور ان کی کتابیں لے کر اپنی کرسی کے نیچے دفن کردیں۔ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وفات کے بعد شیاطین نے وہ کتابیں نکال کر لوگوں سے کہا کہ حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اسی کے زور سے سلطنت کرتے تھے۔ بنی اسرائیل کے نیک لوگوں اور علماء نے تو اس کا انکار کیا لیکن ان کے جاہل لوگ جادو کو حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا علم مان کر اس کے سیکھنے پر ٹوٹ پڑے، انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی کتابیں چھوڑ دیں اور حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر ملامت شروع کر دی۔ہمارے آقا محمد مصطفی ﷺکے زمانے تک یہی حال رہا اور اللہ تعالیٰ نے حضور اقدس ﷺ کے ذریعے حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی جادو سے براء ت کا اظہار فرمایا۔
لباب التأویل فی معانی التنزیل: علاء الدین علی بن محمد أبو الحسن، المعروف بالخازن (ا:۶۴)
یہودی حضرت سیدناسلیمان علیہ السلام کوسرعام گالیاں دیتے اورآپ کی تکفیرکرتے
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: کَانَ آصِفُ کَاتِبَ سُلَیْمَانَ بْنِ دَاوُدَ عَلَیْہِ السَّلَامُ، وَکَانَ یَعْلَمُ الِاسْمَ الْأَعْظَمَ، کَانَ یَکْتُبُ کُلَّ شَیْء ٍ یَأْمُرُہُ بِہِ سُلَیْمَانُ عَلَیْہِ السَّلَامُ وَیَدْفُنُہُ تَحْتَ کُرْسِیِّہِ، فَلَمَّا مَاتَ سُلَیْمَانُ أَخْرَجَتْہُ الشَّیَاطِینُ، فَکَتَبُوا بَیْنَ کُلِّ سَطْرٍ مِنْ سِحْرٍ وَکَذِبٍ وَکُفْرٍ، فَقَالُوا: ہَذَا الَّذِی کَانَ یَعْمَلُ سُلَیْمَانُ بِہَا، فَأَکْفَرَہُ جُہَّالُ النَّاسِ وَسُفَہَاؤُہُمْ وَسَبُّوہُ، وَوَقَفَ عُلَمَاؤُہُمْ، فَلَمْ یَزَلْ جُہَّالُہُمْ یَسُبُّونَہُ حَتَّی أَنْزَلَ اللہُ جَلَّ وَعَزَّ: (وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُوا الشَّیَاطِینُ عَلَی مُلْکِ سُلَیْمَانَ وَمَا کَفَرَ سُلَیْمَانُ وَلَکِنَّ الشَّیَاطِینَ کَفَرُوا)۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ آصف بن برخیا رضی اللہ عنہ حضرت سیدناسلیمان علیہ السلام کے کاتب تھے اوروہ اسم اعظم جانتے تھے ، وہ ہر چیز حضرت سیدناسلیمان علیہ السلام کے حکم پر ہی لکھاکرتے تھے اوراسے آپ علیہ السلام کی کرسی کے نیچے دفن کردیتے تھے ۔ جب حضرت سیدناسلیمان علیہ السلام کاوصال شریف ہواتو شیطان نے وہ تحریریں نکال لیں اوران کی ہردوسطروں کے درمیان جادو اورکفریہ عبارات لکھ دیں ۔ شیطانوں نے کہاکہ حضرت سیدناسلیمان علیہ السلام ان پر عمل کرتے تھے ۔ پس جاہل لوگوں نے حضرت سیدناسلیمان علیہ السلام پر کفرکافتوی لگادیاکہ حضرت سیدناسلیمان علیہ السلام مسلمان نہیں ہیں (نعوذ باللہ من ذلک ) اورآپ علیہ السلام کی گستاخیاں کیں۔ اوران کے علماء اس مسئلہ میں خاموشی اختیارکئے رہے ، جاہل لوگ حضر ت سیدناسلیمان علیہ السلام کو سرعام گالیاں دیتے رہے ۔ حتی کہ اللہ تعالی نے رسول اللہ ﷺپر حضرت سیدناسلیمان علیہ السلام کی براء ت نازل فرمائی ۔
(السنن النسائی :أبو عبد الرحمن أحمد بن شعیب بن علی الخراسانی، النسائی (۱۰:۱۳)
انبیاء کرام علیہم السلام کے گستاخ کاشرعی حکم
کما قال فی الأشباہ کل کافر تاب فتوبتہ مقبولۃ فی الدنیا والآخرۃ الا الکافر بسب نبی وبسب الشیخین او أحدہما وبالسحر ولو امرأۃ۔
ترجمہ :الاشباہ والنظائر میں ہے کہ ہر کافرکی توبہ دنیاوآخرت میں قبول ہے، لیکن جو شخص کسی بھی نبی علیہ السلام کی گستاخی کرے یاپھرحضرت سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ یاحضرت سیدناعمر رضی اللہ عنہ کی گستاخی کرے یاان پر جادوکاعمل کرے ۔اس کی توبہ قبول نہیں ہے ،جبکہ توبہ سے پہلے اسے گرفتارکرلیاجائے اگرچہ وہ عورت ہی ہو۔
(روح البیان: إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی , المولی أبو الفداء (۱:۱۹۱)

ہاروت وماروت کے متعلق غلط روایات

حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت
عن ابن عباس قال: إن اللہ أفرج السماء لملائکتہ ینظرون إلی أعمال بنی آدم، فلما أبصروہم یعملون الخطایا قالوا: یا رب، ہؤلاء بنو آدم الذی خلقتہ بیدک، وأسجدت لہ ملائکتک، وعلمتہ أسماء کل شیء ، یعملون بالخطایا! قال: أما إنکم لو کنتم مکانہم لعملتم مثل أعمالہم. قالوا: سبحانک ما کان ینبغی لنا! قال: فأمروا أن یختاروا من یہبط إلی الأرض، قال: فاختاروا ہاروت وماروت. فاہبطا إلی الأرض، وأحل لہما ما فیہا من شیء ، غیر أن لا یشرکا باللہ شیئا ولا یسرقا، ولا یزنیا، ولا یشربا الخمر، ولا یقتلا النفس التی حرم اللہ إلا بالحق قال: فما استمرا حتی عرض لہما امرأۃ قد قسم لہا نصف الحسن، یقال لہا’’بیذخت‘‘ فلما أبصراہا أرادا بہا زنا، فقالت:لا إلا أن تشرکا باللہ، وتشربا الخمر، وتقتلا النفس، وتسجدا لہذا الصنم!فقالا ما کنا لنشرک باللہ شیئا! فقال أحدہماللآخر: ارجع إلیہا. فقالت:لا إلا أن تشربا الخمر فشربا حتی ثملا ودخل علیہما سائل فقتلاہ، فلما وقعا فیما وقع من الشر، أفرج اللہ السماء لملائکتہ، فقالوا:سبحانک! کنت أعلم! قال: فأوحی اللہ إلی سلیمان بن داود أن یخیرہما بین عذاب الدنیا وعذاب الآخرۃ، فاختارا عذاب الدنیا، فکبلا من أکعبہما إلی أعناقہما بمثل أعناق البخت، وجعلا ببابل.
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے ملائکہ کے لئے آسمان سے جھری کی ، جب انہوںنے بنوآدم کو گناہوں کاارتکاب کرتے ہوئے دیکھاتوانہوںنے عرض کی : یااللہ !یہ وہ بنوآدم ہیں جن کو تونے اپنے دست قدرت سے پیداکیااوراپنے فرشتوں سے اس کوسجدہ کروایااوروہ گناہوں کاارتکاب کررہے ہیں ، اللہ تعالی نے فرمایا: اگران کی جگہ تم ہوتے توتم بھی انہیں جیسے اعمال کرتے ۔ توانہوںنے عرض کیا: توسبحان ہے ۔ہم ایسانہیں کرسکتے ،پھران سے کہاگیاکہ تم دوفرشتوں کو منتخب کرلوتوانہوںنے ہاروت وماروت کو منتخب کرلیا، انہیں زمین پر بھیج دیاگیا، ان کے لئے زمین پر ہر چیز حلال کردی گئی اورشرک ،چوری ،زنااورشراب نوشی اورقتل ناحق سے منع کردیا۔ وہ زمین پر آکر رہنے لگے وہاں انہوںنے بیذغت نام کی ایک عورت دیکھی جوبہت حسین تھی وہ اس پر فریفتہ ہوگئے ۔ انہوںنے اس سے زناکاارادہ کیااس نے کہاکہ تم پہلے اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرو، شراب پیواورقتل ناحق کرو، اس بت کو سجدہ کرو، شروع میں انہوںنے انکارکیالیکن جب وہ عورت اس کے بغیرراضی نہ ہوئی توانہوں نے یہ سب کام کرلئے ، اللہ تعالی نے فرشتوں کو یہ منظردیکھایا۔فرشتوں نے کہا: توسبحان ہے اورتجھ کو خوب علم ہے ۔ پھراللہ تعالی نے حضرت سیدناسلیمان بن دائودعلیہماالسلام کے ذریعے ان کو پیغام دیاکہ وہ دنیاوآخرت کے عذاب میں سے جسے چاہے اختیارکرلیں ، انہوںنے دنیاکے عذاب کو اختیارکرلیا، سوان کو بابل (دنباوندیہ عراق یاکوفہ کی ایک بستی ) میں عذاب دیاجارہاہے۔حضرت مجاہد رحمۃ اللہ تعالی علیہ بیان کرتے ہیں کہ وہ لوہے کی زنجیروں کے ساتھ لٹکے ہوئے ہیں ۔اوران کے ٹخنوں کو ان کی گردنوں کے ساتھ بیڑیوں میں جکڑاہواہے ۔
(جامع البیان فی تأویل القرآن: محمد بن جریر بن یزید بن کثیر بن غالب الآملی، أبو جعفر الطبری (۲:۴۱۹)

حضرت سیدنامولاناعلی رضی اللہ عنہ کی روایت
حدثنی المثنی قال، حدثنی الحجاج قال، حدثنا حماد، عن خالد الحذاء ، عن عمیر بن سعید قال، سمعت علیا یقول: کانت الزُّہَرَۃ امرأۃ جمیلۃ من أہل فارس، وأنہا خاصمت إلی الملکین ہاروت وماروت، فراوداہا عن نفسہا، فأبت إلا أن یعلماہا الکلام الذی إذا تُکُلِّم بہ یعرج بہ إلی السماء . فعلماہا، فتکلمت بہ، فعرجت إلی السماء ، فمسخت کوکبا۔
ترجمہ :حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ فارس کی زہرہ نام کی ایک حسین عورت تھی ،ہاروت اورماروت نے اس سے اپنی خواہش پوری کرناچاہی ، اس نے کہا: مجھے وہ کلام سکھائوجس کو پڑھ کرمیں آسمان پر چلی جائوں ، انہوںنے اسے وہ کلام سکھایاوہ اسے پڑھ کر آسمان پر چلی گئی وہاںاسے مسخ کرکے زہرہ ستارہ بنایاگیا۔
(جامع البیان فی تأویل القرآن: محمد بن جریر بن یزید بن کثیر بن غالب الآملی، أبو جعفر الطبری (۲:۴۲۸)
زہرہ ستارہ آسمان پر پہلے سے موجود ہے اس لئے یہ روایت عقلاً باطل ہے ۔

قصہ ہاروت وماروت کے متعلق ائمہ اعلام کانظریہ

حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ تعالی علیہ کاکلام
وَأَمَّا مَا یَذْکُرُہُ کَثِیرٌ مِنَ المفسِّرین فِی قِصَّۃِ ہَارُوتَ وَمَارُوتَ مِنْ أَنَّ الزُّہْرَۃَ کَانَتِ امرأۃ فَرَاوَدَاہَا عَلَی نَفْسِہَا فَأَبَتْ إِلَّا أَنْ یُعَلِّمَاہَا الِاسْمَ الْأَعْظَمَ فَعَلَّمَاہَا فَقَالَتْہُ فَرُفِعَتْ کَوْکَبًا إِلَی السَّمَاء ِ فَہَذَا أَظُنُّہُ مِنْ وَضْعِ الْإِسْرَائِیلِیِّینَ وَإِنْ کان قد أخرجہ کَعْبُ الْأَحْبَارِ وَتَلَقَّاہُ عَنْہُ طَائِفَۃٌ مِنَ السَّلَفِ فَذَکَرُوہُ عَلَی سَبِیلِ الْحِکَایَۃِ وَالتَّحْدِیثِ عَنْ بَنِی إِسْرَائِیلَ وَقَدْ رُوی الْإِمَامُ أَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ فِی صَحِیحِہِ فِی ذَلِکَ حَدِیثًا رَوَاہُ أَحْمَدُ عَنْ یَحْیَی بْنِ بُکَیْرٍ عَنْ زُہَیْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُوسَی بْنِ جُبَیْرٍ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَذَکَرَ الْقِصَّۃَ بِطُولِہَا وَفِیہِ:فَمَثَّلَتْ لَہُمَا الزَّہْرَۃُ امْرَأَۃً مِنْ أَحْسَنِ الْبَشَرِ فَجَاء َتْہُمَا فَسَأَلَاہَا نَفْسَہَا وَذَکَرَ الْقِصَّۃَ.وَقَدْ رَوَاہُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ فِی تَفْسِیرِہِ عَنِ الثَّوْرِیِّ عَنْ مُوسَی بْنِ عُقْبَۃَ عَنْ سَالِمٍ عَنْ کَعْبِ الْأَحْبَارِ بِہِ.وَہَذَا أَصَحُّ وَأَثْبَتُ.وَقَدْ رَوَی الْحَاکِمُ فِی مُسْتَدْرَکِہِ وَابْنُ أَبِی حَاتِمٍ فِی تَفْسِیرِہِ عَنِ ابْنِ عبَّاس۔
ترجمہ :ہاروت وماروت کے قصہ میں بہت سے مفسرین نے لکھاہے کہ زہرہ ایک عورت تھی، انہوںنے اس سے اپنی خواہش پوری کرنی چاہی اس نے کہاکہ پہلے مجھے اسم اعظم سکھائو، وہ اسم اعظم پڑھ کرآسمان پر چلی گئی اورستارہ بن گئی ، میراگمان ہے کہ اس قصہ کو اسرائیلیوں نے گھڑاہے ، ہرچندکہ اس کو کعب الاحبار رضی اللہ عنہ نے روایت کیاہے اوران سے متقدمین کی ایک جماعت نے بطور حدیث بنی اسرائیل کے نقل کیاہے ، امام احمدبن حنبل اورامام ابن حبان نے اس کو اپنی صحیح میں اپنی سندوں کیساتھ حضرت سیدناعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماسے مرفوعاً نقل کیاہے اوراس میں بہت طویل قصہ ہے اورامام عبدالرزاق نے اس کو اپنی سند کے ساتھ کعب الاحبار رضی اللہ عنہ سے روایت کیاہے ، اوراس کی سند زیادہ صحیح ہے ۔ امام حاکم رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے المستدرک میں اورامام ابن ابی حاتم نے اس کو اپنی تفسیر میں حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت کیاہے ۔
(البدایۃ والنہایۃ: أبو الفداء إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی البصری ثم الدمشقی (۱:۳۹)
تفسیرابن کثیر میں ہے
وَقَدْ رُوی فِی قِصَّۃِ ہاروتَ وماروتَ عَنْ جَمَاعَۃٍ مِنَ التَّابِعَیْنِ، کَمُجَاہِدٍ والسُّدی وَالْحَسَنِ الْبَصَرِیِّ وَقَتَادَۃَ وَأَبِی الْعَالِیَۃِ وَالزُّہْرِیِّ والرَّبیع بْنِ أَنَسٍ ومقاتل ابن حَیَّانَ وَغَیْرِہِمْ، وقصَّہا خلقٌ مِنَ الْمُفَسِّرِینَ، مِنَ الْمُتَقَدِّمِینَ وَالْمُتَأَخِّرِینَ. وحاصلُہا رَاجِعٌ فِی تَفْصِیلِہَا إِلَی أَخْبَارِ بَنِی إِسْرَائِیلَ، إِذْ لَیْسَ فِیہَا حدیثٌ مَرْفُوعٌ صَحِیحٌ متّصلُ الْإِسْنَادِ إِلَی الصَّادِقِ الْمَصْدُوقِ الْمَعْصُومِ الذِی لَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوَی. وظاہرُ سِیَاقِ الْقُرْآنِ إجمالُ الْقِصَّۃِ مِنْ غَیْرِ بسْطٍ وَلَا إطنابٍ فِیہَا، فَنَحْنُ نؤمِن بِمَا وَرَدَ فِی الْقُرْآنِ عَلَی مَا أَرَادَہُ اللَّہُ تَعَالَی، واللہ أعلم بحقیقۃ الحال۔
ترجمہ :ہاروت وماروت کے قصہ میں تابعین کی ایک جماعت مثلاً مجاہد ،سدی ، امام حسن بصری ، قتادہ ، ابوالعالیہ ، زہری ، ربیع بن انس ، مقاتل بن حیان وغیرہم نے روایات ذکرکی ہیں اوربہت سے متقدمین اورمتاخرین مفسرین نے بھی اس کاذکرکیاہے اوراس کامرجع بنی اسرائیل ہیں کیونکہ اس قصہ میں معصوم نبی کریم ﷺصادق اورمصدوق سے کوئی حدیث مرفوع صحیح متصل الاسناد مروی نہیں ہے ۔اورقرآن کریم نے ہاروت وماروت کابغیرکسی تفصیل کے اجمالاً ذکرکیاہے ۔سوہم اس پر ایمان لاتے ہیں جوقرآن کریم میں اللہ تعالی کی مراد ہے ۔
(تفسیر القرآن العظیم: أبو الفداء إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی البصری ثم الدمشقی (ا:۳۲)
امام قرطبی المتوفی ۶۷۱ھ)لکھتے ہیں
قُلْنَا: ہَذَا کُلُّہُ ضَعِیفٌ وَبَعِیدُ عَنِ ابن عمر وغیرہ، لا یصح منہ شی، فَإِنَّہُ قَوْلٌ تَدْفَعُہُ الْأُصُولُ فِی الْمَلَائِکَۃِ الَّذِینَ ہُمْ أُمَنَاء ُ اللَّہِ عَلَی وَحْیِہِ، وَسُفَرَاؤُہُ إِلَی رُسُلِہِ” لَا یَعْصُونَ اللَّہَ مَا أَمَرَہُمْ وَیَفْعَلُونَ مَا یُؤْمَرُونَ بَلْ عِبادٌ مُکْرَمُونَ. لَا یَسْبِقُونَہُ بِالْقَوْلِ وَہُمْ بِأَمْرِہِ یَعْمَلُونَ ،یُسَبِّحُونَ اللَّیْلَ وَالنَّہارَ لَا یَفْتُرُونَ . وَأَمَّا الْعَقْلُ فَلَا یُنْکِرُ وُقُوعَ الْمَعْصِیَۃِ مِنَ الْمَلَائِکَۃِ وَیُوجَدُ مِنْہُمْ خِلَافُ مَا کُلِّفُوہُ، وَیَخْلُقُ فِیہِمُ الشَّہَوَاتِ، إِذْ فِی قُدْرَۃِ اللَّہِ تَعَالَی کُلُّ مَوْہُومٍ، وَمِنْ ہَذَا خَوْفُ الأنبیاء والأولیاء الفضلاء العلماء ، ولکن وُقُوعُ ہَذَا الْجَائِزِ لَا یُدْرَکُ إِلَّا بِالسَّمْعِ وَلَمْ یَصِحَّ. وَمِمَّا یَدُلُّ عَلَی عَدَمِ صِحَّتِہِ أَنَّ اللَّہَ تَعَالَی خَلَقَ النُّجُومَ وَہَذِہِ الْکَوَاکِبَ حِینَ خَلَقَ السَّمَاء َ، فَفِی الْخَبَرِ: (أَنَّ السَّمَاء َ لَمَّا خُلِقَتْ خُلِقَ فِیہَا سَبْعَۃُ دَوَّارَۃٍ زُحَلُ وَالْمُشْتَرِی وَبَہْرَامُ وَعُطَارِدُ وَالزُّہَرَۃُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ”.
ترجمہ :یہ تمام روایات ضعیف ہیں کیونکہ حضرت سیدناعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماسے بہت بعید ہے کہ وہ ایسی روایت بیان کریں ، ان میں سے کوئی بھی روایت صحیح نہیں ہے ، فرشتے اللہ تعالی کے سفیر اوراس کی وحی پر امین ہیں ۔وہ اللہ تعالی کے کسی حکم کی نافرمانی نہیں کرتے ، وہی کرتے ہیں جس کاانہیں اللہ تعالی کی طرف سے حکم ہوتاہے ، ہر چندکے عقلاً فرشتوں سے معصیت ممکن ہے اوران میں شہوت کاپیداہوناممکن ہے اورہر ممکن اللہ تعالی کی قدرت میں ہے لیکن یہ ممکن بغیر کسی صحیح کے ثابت نہیں ہوسکتااوراس قصے کے متعلق جتنی روایات ہیں ان میں کوئی صحیح نہیں ہے اوراس کے صحیح نہ ہونے پر دلیل یہ ہے کہ جب اللہ تعالی نے سات آسمانوں کو پیداکیااس وقت اللہ تعالی نے آسمانوں میں ان سات سیاروں کو بھی پیدافرمایا۔زحل ،مشتری ، بہرام ، عطارد ، زہرہ ، شمس اورقمر۔اوراس روایت میں یہ بیان کیاگیاہے کہ وہ عورت زہرہ ستارہ بن گئی ۔
(تفسیر القرطبی: أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی (۲:۵۲)

امام رازی رحمۃ اللہ تعالی علیہ المتوفی ۶۰۶ھ)فرماتے ہیں
وَاعْلَمْ أَنَّ ہَذِہِ الرِّوَایَۃَ فَاسِدَۃٌ مَرْدُودَۃٌ؍ غَیْرُ مَقْبُولَۃٍ لِأَنَّہُ لَیْسَ فِی کِتَابِ اللَّہِ مَا یَدُلُّ عَلَی ذَلِکَ، بَلْ فِیہِ مَا یُبْطِلُہَا مِنْ وجوہ، الأول: ما تقدم من الدلائل الدَّالَّۃِ عَلَی عِصْمَۃِ الْمَلَائِکَۃِ عَنْ کُلِّ الْمَعَاصِی، وَثَانِیہَا: أَنَّ قَوْلَہُمْ إِنَّہُمَا خُیِّرَا بَیْنَ عَذَابِ الدُّنْیَا وَبَیْنَ عَذَابِ الْآخِرَۃِ فَاسِدٌ، بَلْ کَانَ الْأَوْلَی أَنْ یُخَیَّرَا بَیْنَ التَّوْبَۃِ وَالْعَذَابِ لِأَنَّ اللَّہَ تَعَالَی خَیَّرَ بَیْنَہُمَا مَنْ أَشْرَکَ بِہِ طُولَ عُمُرِہِ، فَکَیْفَ یَبْخَلُ عَلَیْہِمَا بِذَلِکَ؟ وَثَالِثُہَا: أَنَّ مِنْ أَعْجَبِ الْأُمُورِ قَوْلَہُمْ: إِنَّہُمَا یُعَلِّمَانِ السِّحْرَ فِی حَالِ کَوْنِہِمَا مُعَذَّبَیْنِ وَیَدْعُوَانِ إِلَیْہِ وَہُمَا یُعَاقَبَانِ وَلَمَّا ظَہَرَ فَسَادُ ہَذَا الْقَوْلِ فَنَقُولُ: السَّبَبُ فِی إِنْزَالِہِمَا وُجُوہٌ. أَحَدُہَا: أَنَّ السَّحَرَۃَ کَثُرَتْ فِی ذَلِکَ الزَّمَانِ وَاسْتَنْبَطَتْ أَبْوَابًا غَرِیبَۃً فِی السِّحْرِ، وَکَانُوا یَدَّعُونَ النُّبُوَّۃَ وَیَتَحَدَّوْنَ النَّاسَ بِہَا، فَبَعَثَ اللَّہُ تَعَالَی ہَذَیْنِ الْمَلَکَیْنِ لِأَجْلِ أَنْ یُعَلِّمَا النَّاسَ أَبْوَابَ السِّحْرِ حَتَّی یَتَمَکَّنُوا مِنْ مُعَارَضَۃِ أُولَئِکَ الَّذِینَ کَانُوا یَدَّعُونَ النُّبُوَّۃَ کَذِبًا۔
ترجمہ:یہ تمام روایات فاسد ،مردود اورغیرمقبول ہیں ، کتاب اللہ میں ان میں سے کسی پر دلالت نہیں ہے ، اورقرآن کریم میں فرشتوں کی عصمت بیان کی گئی ہے ،یہ روایات اس کی مخالف ہیں ،نیز ان روایات میں یہ بیان کیاگیاہے کہ ہاروت وماروت کو عذاب دنیااورعذاب آخرت میں اختیاردیاگیاہے ،حالانکہ اللہ تعالی کی سنت یہ ہے کہ وہ شرک کرنے والوں کوا ور تاحیات شرک کرنے والوں کو بھی توبہ اورعذاب آخرت میں اختیاردیتاہے ، سویہ روایات اللہ تعالی کی سنت جاریہ کے بھی خلاف ہیں اوران بعض روایات میں یہ بھی مذکور ہے کہ وہ حالت عذاب میں لوگوں کو جادوسکھاتے تھے اورجادو کی دعوت دیتے تھے اوریہ غیرمعقول ہے ،رہایہ کہ ان فرشتوں کو کیوں نازل کیاگیا؟سو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس زمانہ میں بہت جادوگرہوگئے تھے جو جادو سے عجیب وغریب کام کرتے اورنبوت کادعو ی کرتے تھے اورلوگوں کو اس کے معارضہ کاچیلنج دیتے تھے ، تب اللہ تعالی نے ان فرشتوں کو جادوسکھانے کے لئے بھیجاتاکہ مومنین جھوٹے نبیوں کاجادوسے معارضہ کرسکیں ۔
(التفسیر الکبیر: أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۳:۶۳۱)

امام بیضاوی شافعی المتوفی ۶۸۵ھ) لکھتے ہیں
فمحکی عن الیہود ولعلہ من رموز الأوائل وحلہ لا یخفی علی ذوی البصائروقیل رجلان سمیا ملکین باعتبار صلاحہما۔
ترجمہ :یہ روایات یہودیوں سے نقل کی گئی ہیں اوریہ ہوسکتاہے کہ متقدمین کی رموز ہوں جن کاحل کرنااہل نظرپرمخفی نہیں ہے ، ایک قول یہ ہے کہ ہاروت وماروت دوآدمی تھے جن کو غیرمعمولی نیکیوں کی وجہ سے فرشتہ بنادیاگیا۔
(أنوار التنزیل وأسرار التأویل: ناصر الدین أبو سعید عبد اللہ بن عمر بن محمد الشیرازی البیضاوی (ا:۹۷)

قصہ ہاروت وماروت کے متعلق امام احمدرضاحنفی کاقول

قصہ ہاروت وماروت جس طرح عام میں شائع ہے ائمہ کرام کو اس پرسخت انکارشدید ہے، جس کی تفصیل شفاء شریف اوراس کی شروح میں ہے، یہاں تک کہ امام اجل قاضی عیاض رحمۃ اﷲتعالٰی علیہ نے فرمایا:
وَہَذِہِ الْأَخْبَارُ مِنْ کُتُبِ الْیَہُودِ وَافْتِرَائِہِمْ۔
ترجمہ:یہ خبریں یہودیوں کی کتابوں اوران کی افتراؤں سے ہیں۔
(الشفا بتعریف حقوق المصطفی: عیاض بن موسی بن عیاض بن عمرون الیحصبی السبتی، أبو الفضل (۲:۴۰۰)
اورراجح یہی ہے کہ ہاروت وماروت دوفرشتے ہیں جن کو رب عزوجل نے ابتلائے خلق کے لئے مقررفرمایاکہ جو سحرسیکھناچاہے اسے نصیحت کریں کہ :
{إِنَّما نَحْنُ فِتْنَۃٌ فَلا تَکْفُرْ}ترجمہ:ہم توآزمائش ہی کے لئے مقررہوئے ہیں توکفرنہ کر۔(سورۃ البقرۃ رقم الآیۃ ۱۰۲)
اورجونہ مانے اپنے پاؤں جہنم میں جائے اسے تعلیم کریں تووہ طاعت میں ہیں نہ کہ معصیت میں۔
بہ قال اکثرالمفسرین علی ماعزاالیھم فی الشفاء الشریف۔
ترجمہـ اکثرمفسرین نے یہی کہاہے جیساکہ شفاشریف میں ان کی طرف منسوب ہے
(الشفا بتعریف حقوق المصطفی: عیاض بن موسی بن عیاض بن عمرون الیحصبی السبتی، أبو الفضل (۲:۴۰۰)
اوریہ روایت کہ تاریخ الخلفاء کی طرف نسبت کی قطعا باطل اوربے اصل محض ہے
(فتاوی رضویہ لامام احمدرضاخاں حنفی رحمۃ اللہ تعالی علیہ ( ۲۶: ۳۹۶)
جادوگروں کے متعلق احکام شرع

جادوگروں کے کفریات

واکثر من یتعاطی السحر من الانس النساء وخاصۃ فی حال حیضہم والأرواح الخبیثۃ تری غالبا للطبائع المغلوبۃ والنفوس الرذیلۃ وان لم یکن لہم ریاضۃ کالنساء والصبیان والمخنثین والإنسان إذا فسد نفسہ او مزاجہ یشتہی ما یضرہ ویتلذذ بہ بل یعشق ذلک عشقا یفسد عقلہ ودینہ وخلقہ وبدنہ ومالہ والشیطان خبیث فاذا تقرب صاحب العزائم والاقسام وکتب الروحانیات السحریۃ وأمثال ذلک إلیہم بما یحبونہ من الکفر والشرک صار ذلک کالرشوۃ والبرطیل لہم فیقضون بعض أغراضہم کمن یعطی رجلا مالا لیقتل من یرید قتلہ او یعینہ علی فاحشۃ او ینال منہ فاحشۃ ولذلک یکتب السحرۃ والمعزمون فی کثیر من الأمور کلام اللہ تعالی بالنجاسۃ والدماء ویتقربون بالقرابین من حیوان ناطق وغیر ناطق والبخور وترک الصلاۃ والصوم واباحات الدماء ونکاح ذوات المحارم وإلقاء المصحف فی القاذورات وغیر ذلک مما لیس للہ فیہ رضی فاذا قالوا کفرا او کتبوہ او فعلوہ اعانتہم الشیاطین لاغراضہم او بعضہا اما بتغویر ماء واما بان یحمل فی الہواء الی بعض الامکنۃ واما ان یأتیہ بمال من اموال الناس کما یسرقہ الشیاطین من اموال الخائنین ومن لم یذکر اسم اللہ علیہ ویأتی بہ واما غیر ذلک من قتل أعدائہم او امراضہم او جلب من یہوونہ وکثیرا ما یتصور الشیطان بصورۃ الساحر ویقف بعرفات لیظن من یحسن بہ الظن انہ وقف بعرفات وقد زین لہم الشیطان ان ہذا کرامات الصالحین وہو من تلبیس الشیطان فان اللہ تعالی لا یعبد الا بما ہو واجب او مستحب وما فعلوہ لیس بواجب ولا مستحب شرعا بل ہو منہی حرام ونعوذ باللہ من اعتقاد ما ہو حرام عبادۃ ولاہل الضلال الذین لہم عبادۃ علی غیر الوجہ الشرعی مکاشفات أحیانا وتأثیرات یأوون کثیرا الی مواضع الشیاطین التی نہی عن الصلاۃ فیہا کالحمام والمزبلۃ واعطان الإبل وغیر ذلک مما ہو من مواضع النجاسات لان الشیاطین تنزل علیہم فیہا وتخاطبہم ببعض الأمور کما یخاطبون الکفار وکما کانت تدخل فی الأصنام وتکلم عابدی الأصنام قال العلماء ان کان فی السحر ما یخل شرطا من شرائط الایمان من قول وفعل کان کفرا والا لم یکن کفرا وعامۃ ما بایدی الناس من العزائم والطلاسم والرقی التی لا تفہم بالعربیۃ فیہا ما ہو شرک وتعظیم للجن ولہذا نہی علماء المسلمین عن الرقی التی لا یفہم بالعربیۃ معناہا لانہا مظنۃ الشرک وان لم یعرف الراقی انہا شرک ۔
ترجمہ :عام طور پر جادوعورتوں سے زیادہ ہوتاہے ، خصوصاً حالت حیض میں اوریہ ہوتابھی ان ارواح خبیثہ میں ہے ، جن کی طبائع خرابیوں اورفساد کی طرف راغب ہوں ، اس کے لئے کسی قسم کی ریاضت بھی نہیں ہوتی ، اس قسم کی عادت عورتوں اوربچوں اورمخنثوں (ہیجڑوں ) میں ہوتی ہے ۔ جب کسی انسان کامزاج فاسد ہوجاتاہے تووہ ایسی باتوں کی طرف میلان رکھتاہے ، جو نقصان دہ ہوں ، اورانہیں سے اسے لذت حاصل ہوتی ہے ۔ بہت باردیکھاگیاہے کہ وہ ایسی باتوں کاعاشق ہوتاہے ، اس سے وہ اپنی عقل ، دین ، شکل وصورت ، جسم وجان اورمال کو برباد کرڈالتاہے ۔ شیطان کی خباثت مشہور ہے ، جب دیکھتاہے کہ کسی میں اس قسم کی خرابی ہوگئی ہوتو اس کاحامی ہوجاتاہے اوروہ امور اس کی طبیعت میں گھس جاتے ہیں ۔ جیسے رشوت خورکو رشوت کی عادت ہوتی ہے ۔ پھران کے ذریعے اپنے مقاصد پورے کرتے ہیں ، اس کی مثال ایسے ہے جیسے کسی کو مال دے کرکہاجائے کہ فلاں کو جاکر قتل کردویابرائی پر اعانت کی نیت سے مال دیاجائے ۔ اس وجہ سے جادوگرہوں یاایسے بدمعاش لوگ آیات کلام اللہ کو نجاست اورخون سے لکھتے ہیں ،اس کے علاوہ کئی دوسرے غلیظ طریقے استعمال کرتے ہیں اوردھونی وغیرہ بھی دیتے ہیں ۔ نمازوروزے کے قریب نہیں جاتے ۔ ناجائز طریقے سے ناحق قتل کروادیتے ہیں ۔ ذی محرم عورتوں کے ساتھ نکاح کرلیتے ہیں ۔ قرآن کریم کو نجاست کے مقام پر پھینکنے سے گریز نہیں کرتے وغیرہ وغیرہ ۔ ایسے برے اعمال کاوہ ارتکاب کرتے ہیں جن سے اللہ تعالی ناراض ہوتاہے ، جب وہ کوئی براعمل کرتے ہیں تو شیطان ان کی مددکرتاہے ۔ بعض دفعہ یوں ہوتاہے کہ وہ پانی پرتیرتے ہیں ، ہوامیں اڑتے ہیں ، دوردورکے مقامات تک پہنچ جاتے ہیں۔ لوگوں کامال جمع کرکے لادیتے ہیں ، بعض کے دشمنوں کو مروادیتے ہیں ، بعض کو بیمارکرڈالتے ہیں ، بسااوقات جادوگرعرفات میںحاجیوںکو نظرآتے ہیں ، تاکہ لوگوں کو نیک گمان ہوکہ فلاں صاحب توبڑے بزرگ ہیں ۔ حالانکہ وہ شیطان جادوگرکی صورت میں متصور ہوکر جاتے ہیں ، بظاہروہ لوگوں کو کرامت محسوس ہوتی ہے لیکن ہوتاوہ شیطان کی مکاری کانتیجہ ہے ۔
ان تمام افعال کو ہم پر حرام کیاگیاہے ۔ اللہ تعالی ہم سب کو ان حرام امور سے بچائے ۔
علماء کرام فرماتے ہیں کہ جادوکے عمل سے اگرایمان کی شرائط میںسے کوئی فعلی یاقولی شرط ضائع ہوتی ہوتو ایسے جادوکو اپناناکفرہے ۔ عوام کے جھاڑ پھونک میں بعض طریقے ایسے ہوتے ہیں جن کامعنی ومطلب معلوم نہیں ہوتایاوہ شرکیہ کلمات ہوتے ہیں یاجنات کی تعظیم کے الفاظ ہوتے ہیں ۔ علماء اسلام نے ایسی جھاڑپھونک سے منع فرمایاہے ، کیونکہ ان میں شرکیہ الفاظ کاخطرہ ہے ۔ اگرجھاڑ پھونک والے کو معلوم بھی نہ ہوکہ یہ کلمات شرکیہ ہیں یانہیں تو بھی وہ کافرہوجائے گا۔
(روح البیان: إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی , المولی أبو الفداء (ا:۱۹۱)

جادوگرکے قتل کے متعلق حکم شرعی

امام اعظم وامام مالک رضی اللہ عنہماکانظریہ
وَرُوِیَ عَنْ مَالِکٍ وَأَبِی حَنِیفَۃَ أَنَّہُ لَا تُقْبَلُ تَوْبَتُہُ۔عَنْ أَبِی حَنِیفَۃَ رَحِمَہُ اللَّہُ أَنَّہُ قَالَ: یُقْتَلُ السَّاحِرُ إِذَا عُلِمَ أَنَّہُ سَاحِرٌ وَلَا یُسْتَتَابُ وَلَا یُقْبَلُ ۔
ترجمہ :امام مالک رضی اللہ عنہ اورامام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جادوگرکو قتل کیاجائے گااوراس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی۔اوراسی طرح امام اعظم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جادوگرکو قتل کیاجائے گاجب یہ جان لیاجائے یہ جادوگرہے اوراس کو نہ توبہ کی مہلت دی جائے گی اورنہ ہی اس کی توبہ قبول کی جائے گی۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۳:۶۲۷)
حضرت سیدناعبدالرحمن بن زید رضی اللہ عنہ کاجادوگرعورت کو قتل کرنا
عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ:أَنَّ جَارِیَۃً لِحَفْصَۃَ سَحَرَتْہَا وَوَجَدُوا سِحْرَہَا، فَاعْتَرَفَتْ بِہِ، فَأَمَرْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ زَیْدٍ، فَقَتَلَہَا، فَبَلَغَ ذَلِکَ عُثْمَانَ، فَأَنْکَرَہُ وَاشْتَدَّ عَلَیْہِ، فَأَتَاہُ ابْنُ عُمَرَ فَأَخْبَرَہُ أَنَّہَا سَحَرَتْہَا وَاعْتَرَفَتْ بِہِ وَوَجَدُوا سِحْرَہَا، فَکَأَنَّ عُثْمَانَ إِنَّمَا أَنْکَرَ ذَلِکَ لِأَنَّہَا قُتِلَتْ بِغَیْرِ إِذْنِہِ۔
ترجمہ:امام نافع رضی اللہ عنہ نے حضرت سیدناعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماسے نقل کیاکہ حضرت سیدتناحفصہ رضی اللہ عنہاکی لونڈی نے جادوکیاتووہ پکڑی گئی ، اس نے اعتراف کرلیا، اس کے بعد حضرت سیدناعبدالرحمن بن زید رضی اللہ عنہ نے اس کو قتل کردیا، حضرت سیدناعثمان رضی اللہ عنہ تک یہ بات پہنچی توناراض ہوئے ۔ توحضرت سیدناعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمانے حاضرہوکر تمام معاملہ عرض کیا، گویاکہ حضرت سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کی ناراضگی کاسبب ان کی اجازت کے بغیرقتل تھا۔
(مصنف ابن ابی شیبہ: أبو بکر بن أبی شیبۃ، عبد اللہ العبسی (۳:۴۵۳)

حضرت سیدناعمر رضی اللہ عنہ کاحکم

رُوِیَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِینَارٍ، أَنَّہُ سَمِعَ بِجَالَۃَ یَقُولُ:کَتَبَ عُمَرُ أَنِ اقْتُلُوا کُلَّ سَاحِرٍ وَسَاحِرَۃٍ، فَقَتَلْنَا ثَلاثَ سَوَاحِرَ.
ترجمہ:حضرت سیدناعمروبن دینارضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ حضر ت سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے اپنے عمالوں کے نام خط لکھے کہ جادوگروں کوقتل کردیاجائے توہم نے تین جادوگروں کوقتل کردیا۔
(شرح السنۃ:محیی السنۃ، أبو محمد الحسین بن مسعود بن محمد بن الفراء البغوی الشافعی (۱۰:۲۳۹)

معارف ومسائل

(۱)یہودیوں نے مسلسل حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی تکذیب کی اورتقریباًچارسوانبیاء کرام علیہم السلام کو شہید کیا۔
(۲) انبیاء کرام علیہم السلام پرالزام تراشی بلکہ انہیں کافر، ساحر وجادوگرکہنایہودیوں کاوطیرہ رہاہے ۔
(۳) یہودیوں نے حضرت سیدناسلیمان علیہ السلام جیسے عظیم نبی پر یہ الزام عائد کیاکہ آپ علیہ السلام کی ازواج مطہرات بت پرست اورمشرکہ ہیں اوران کے ساتھ ملکر آپ بھی بتوں کی پوجاکرتے ہیں۔
(۴) یہودی یہ بھی کہتے تھے کہ حضرت سیدناسلیمان علیہ السلام بڑے ساحرتھے ، اوراسی سحرکی قوت سے آپ نے حکومت کی اوریہودیوں نے یہ بھی کہاکہ ہمیں تومحمدﷺپر حیرانی ہوتی ہے کہ یہ نبی ہوکر سلیمان (علیہ السلام ) کاتذکرہ کرتے ہیں حالانکہ وہ توجادوگرتھے ۔
(۵) یہودی یہ بھی کہتے تھے کہ جادوکے علم کے بانی حضرت سیدناسلیمان علیہ السلام تھے ۔
(۶) دنیابھرمیں اب بھی سب سے زیادہ جادوگریہودی مذہب میں پائے جاتے ہیں۔
(۷)اکثر اوقات احباب اس بات کی شکایت کرتے ہیں کہ نامعلوم طریقے سے ان کے زیورات یا نقدی گم ہو جاتی ہے ، یا پھر ان کے کاروبار میں بندش ہے جہاں ان پر پریشانیوں کے دیگر امکانات ہیں وہاں یہ امکان بھی قابل غور ہے کہ شاید کسی شیطان جادو گر یا اس کے کسی چیلے کی کارستانی ہوگی ۔
(۸) اس سے یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے جادو کی وجہ سے انسانی طبیعت پہ جو ناگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں ان میں سے ایک خوف زدہ ہونا اور دوسرا اشیاء کا خوفناک چیزوں کا روپ دھارکر خلاف حقیقت نظر آنا بھی ہے لہٰذا اگر کوئی شحض بیمار ی میں اس بات کا اظہار کرے کہ اسے خوف محسوس ہوتا ہے یا پھر خوفناک چہرے اور ڈرائونی چیزیں نظر آتی ہیں تو اس کی تردید کرنے کی بجائے اس کی پریشانی کو سمجھنے کی کوشش کریں بلکہ اگر ہوسکے تو اس کے غم میں شریک ہوکر اس کی تکلیف کو کم کرنے کی کوشش کریں ۔
(۹) اس سے معلوم ہواکہ جادوشیطانوںکی ایجاد ہے نہ کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی ۔
(۱۰) جادواکثرکفرہی ہوتاہے یاخود اس میں کفریہ کلمات ہوتے ہیں یاکفریہ شرائط ہوتی ہیں اوریہ سب کام کفارکے ہیں اورکفرہیں۔
(۱۱) اگرجادواولیاء کرام کے مقابلے میں کیاجائے تو حرام ہے اوراگرانبیاء کرام علیہم السلام کے مقابلے میںکیاجائے توکفرہے اورکرنے والاکافرہے ۔
(۱۲) حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی عزت کادفاع کرنااللہ تعالی کی سنت ہے ، دیکھویہودیوں نے حضرت سیدناسلیمان علیہ السلام پر الزام لگایاتو اللہ تعالی نے ان کی عزت کادفاع کیا۔
(۱۳) رسول اللہ ﷺکاتمام انبیا کرام علیہم السلام پر احسان ہے کہ رسول اللہﷺ کی برکت سے ان پر کفارکے الزامات دورہوئے۔
(۱۴) کفریہ اورشرکیہ الفاظ کے ساتھ جادوکرنااورقرآنی آیات کو غلیظ چیز کے ساتھ لکھناکفرہے اوراس میں ان کی توہین ہے ۔

Leave a Reply