سب سے پہلاگستاخ {وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِیْسَ اَبٰی وَاسْتَکْبَرَ وَکَانَ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ} کی تفسیر
ترجمہ کنزالایمان :اور (یاد کرو)جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے منکر ہوا اور غرور کیا اور کافر ہوگیا۔
ترجمہ ضیاء الایمان : اے حبیب (ﷺ) یادکرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیاکہ آدم کو تعظیمی سجدہ کرو توسب نے سجدہ کیاسوائے ابلیس کے ، وہ منکرہوااورغرورکیااورکافرہوگیا۔
اللہ تعالی نے حضرت سیدناآدم علیہ السلام کو زمین میں اپناخلیفہ بنایا، فرشتوں پر ان کاعلمی تفوق ظاہرفرمایا، اب خلافت کاکام سرانجام دینے کے لئے ضروری ہے کہ زمین میں موجود تمام مخلوق ان کی ماتحتی کو قبول کریں ، ان کی اطاعت کریں ، اس وقت زمین میں ذی عقل دوہی مخلوقیں تھیں ایک فرشتے اوردوسرے جن ۔
فرشتے جنات سے افضل ہیں ۔
اللہ تعالی نے حضرت سیدناآدم علیہ السلام کوعلم عطافرمانے کے بعد جب ملائکہ کرام کو حکم دیاکہ ان کو سجدہ کرو تو شیطان نے انکارکردیا۔ اس آیت کے تحت ہم تین چیزیں بیان کریں گے :(۱) اللہ تعالی کے انبیاء کرام علیہم السلام کی تعظیم کے منکرکاحکم (۲) انبیاء کرام علیہم السلام اوران کے نائبین یعنی علماء کرام کی سیاست کے منکرین کاحکم ۔(۳) چونکہ حضرت سیدناآدم علیہ السلام کو علم کی وجہ سے فضیلت دی گئی اس لئے شیطان بھی آپ علیہ السلام کادشمن بنا۔جتنے بھی علماء کرام کے ان کے علم کی وجہ سے دشمن ہیں ان کاشرعی حکم ۔
حضرت سیدناآدم علیہ السلام کی تعظیم کرنے کی برکت
وأول من سجد منہم :جبریل، فأکرم بإنزال الوحی علی النبیین، وخصوصا علی سید المرسلین، ثم میکائیل، ثم إسرافیل، ثم عزرائیل، ثم سائر الملائکۃ، وقیل:أول من سجد:إسرافیل، فرفع رأسہ، وقد ظہر کل القرآن مکتوبا علی جبہتہ کرامۃ لہ علی سبقہ إلی الائتمار.
ترجمہ :الشیخ العلامۃ محمد الأمین بن عبد اللہ الأرمی العلوی الہرری الشافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیںکہ سب سے پہلے جس نے سجدہ کیاوہ حضرت سیدناجبریل امین علیہ السلام ہیں ، اسی لئے اللہ تعالی نے آپ علیہ السلام کویہ اعزاز دیاکہ وہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام پر وحی لیکر آتے تھے اورخصوصاً سید المرسلین امام الانبیاء حضور تاجدارختم نبوت ْﷺ کی خدمت اقدس میں بھی وحی آپ ہی لیکر آتے تھے ۔
اورپھرحضرت سیدنامیکائیل علیہ السلام اورپھرحضرت سیدنااسرافیل علیہ السلام پھرحضرت سیدناعزرائیل علیہ السلام نے سجدہ کیااوریہ بھی بیان کیاگیاہے کہ سب سے پہلے حضرت سیدنااسرافیل علیہ السلام نے سجدہ کیا، پھرجب انہوں نے اپناسرسجدے سے اٹھایاتو اللہ تعالی نے ان کی پیشانی پر قرآن کریم لکھ دیایہ صرف اورصرف برکت تھی حضرت سیدناآدم علیہ السلام کی تعظیم کرنے کی ۔
(تفسیر حدائق الروح والریحان:الشیخ العلامۃ محمد الأمین الأرمی العلوی الہرری الشافعی(۱: ۳۰۹)
نبی علیہ السلام کی تعظیم کرنے پر انعام
عَن عمر بن عبد الْعَزِیز قَالَ:لما أَمر اللہ الْمَلَائِکَۃ بِالسُّجُود لآدَم کَانَ أول من سجد إسْرَافیل فأثابہ اللہ أَن کتب الْقُرْآن فِی جَبہتہ۔
ترجمہ:حضرت سیدناعمربن عبدالعزیزرضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ جب اللہ تعالی نے ملائکہ کرام علیہم السلام کو حکم دیاکہ وہ حضرت سیدناآدم علیہ السلام کو سجدہ کریں تو سب سے پہلے حضرت سیدنااسرافیل علیہ السلام نے سجدہ کیا تواللہ تعالی نے ان کو یہ اجردیاکہ ان کی مبارک پیشانی پر قرآن کریم لکھ دیا۔
(تاریخ دمشق:أبو القاسم علی بن الحسن بن ہبۃ اللہ المعروف بابن عساکر (۷:۳۹۸)
حضرت سیدناآدم علیہ السلام کو سجدہ شکر کرنے کی وجہ ؟
قلت لعلہم انما أمروا بتعظیم آدم شکرا لہ وأداء لحقہ فی التعلیم قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم- من لم یشکر الناس لم یشکر اللہ۔
ترجمہ :حضرت سیدناقاضی ثناء اللہ حنفی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میں کہتاہوں کہ حضرت سیدناآدم علیہ السلام کی تعظیم کاحکم جو دیاگیاتھاتواس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ حضرت سیدناآدم علیہ السلام نے جوانہیں اسماء الہی کی تعلیم دی توبطورشکراورادائے حق انہیں حضرت سیدناآدم علیہ السلام کی تعظیم کاحکم ہواکیونکہ رسول اللہ ﷺکافرمان عالی شان ہے کہ جو شخص لوگوں کاشکرادا نہیں کرتاوہ اللہ تعالی کاشکربھی نہیںادا کرتا۔
(التفسیر المظہری:المظہری، محمد ثناء اللہ(۱:۵۶)
اس سے معلوم ہواکہ جو شخص کسی استاد سے علم دین حاصل کرے اس کاادب بجالانااس پر لازم ہے ۔مگرآجکل لوگ علم پڑھ کر شیخ اورپیرجسے مانتے ہیں اسی کاادب واحترام اورانہیں کے ساتھ قلبی لگائو رکھتے ہیںاوروہ استاد جس نے اسے علم فقہ ، حدیث اورتفسیر پڑھایااس کے ساتھ تعلق بھی ختم ہوجاتاہے ۔ نعوذ باللہ ۔
پہلامسئلہ
شیطان کاحضرت سیدناآدم علیہ السلام کی گستاخی کرنااوراس کو سزاملنا
قالوا لما سجد الملائکۃ امتنع إبلیس ولم یتوجہ الی آدم بل ولاہ ظہرہ وانتصب ہکذا الی ان سجدوا وبقوا فی السجود مائۃ سنۃ وقیل خمسمائۃ سنۃ ورفعوا رؤسہم وہو قائم معرض لم یندم من الامتناع ولم یعزم علی الاتباع فلما رأوہ عدل ولم یسجدوہم وفقوا للسجود سجدوا للہ تعالی ثانیا فصار لہم سجدتان سجدۃ لآدم وسجدۃ للہ تعالی وإبلیس یری ما فعلوہ وہذا اباؤہ فغیر اللہ تعالی صفتہ وحالتہ وصورتہ وہیئتہ ونعمتہ فصار أقبح من کل قبیح قال اللہ تعالی إِنَّ اللَّہَ لا یُغَیِّرُ ما بِقَوْمٍ حَتَّی یُغَیِّرُوا ما بِأَنْفُسِہِمْ قال بعضہم جعل ممسوخا علی مثال جسد الخنازیر ووجہہ کالقردۃ۔
ترجمہ :امام اسماعیل حقی بن مصطفی الحنفی المتوفی : ۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ مفسرین کرام رحمہم اللہ تعالی فرماتے ہیںکہ جب ملائکہ کرام علیہم السلام حضرت سیدناآدم علیہ السلام کے لئے سجدہ میں گرگئے تو شیطان نے حضرت سیدناآدم علیہ السلام سے منہ پھیرلیااورآپ علیہ السلام کی طرف پیٹھ کرلی ، یہاں تک کہ وہ سجدے سے فارغ ہوئے اوروہ سجدہ میں ایک سوسال تک رہے ، بعض روایات میں پانچ سوسال کاذکرموجود ہے ۔جب انہوںنے سراٹھاکردیکھاتوشیطان کھڑاتھابلکہ حضرت سیدناآدم علیہ السلام کو پیٹھ کرکے کھڑاہواتھااوراپنے اس فعل اورگستاخی پرشرمندہ بھی نہیں تھابلکہ الٹااس پر عزم بالجزم کئے ہوئے تھاتواس کے سجدہ نہ کرنے اوراپنے سجدہ کرنے کے شکر میں ملائکہ کرام نے ایک سجدہ اورکردیا، اس طرح ان کے دوسجدے ہوگئے ایک حضرت سیدناآدم علیہ السلام کے لئے اوردوسرارب تعالی کے لئے ، جب یہ سجدہ کررہے تھے توشیطان دیکھ رہاتھا، اس کے بعد اللہ تعالی نے اس کی صفت ، حالت ، صورت ، ہئیت ، نعمت سب کو بدل دیاجیساکہ اللہ تعالی کافرمان عالی شان ہے کہ بے شک اللہ تعالی کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتاجب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلیں۔ جب اللہ تعالی نے اس کی شکل کو مسخ کیاتو اس کاجسم خنزیر جیسااورمنہ بندرجیسابنادیا۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۱: ۸۹)
شیطان نے حضرت سیدناآدم علیہ السلام کے مزارکی تعظیم کرنے سے انکارکردیا
حَدَّثَنَا سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ، عَنْ أَبِیہِ قَالَ:قَالَ:وَلَقِیَ إِبْلِیسُ مُوسَی فَقَالَ:یَا مُوسَی أَنْتَ الَّذِی اصْطَفَاکَ اللَّہُ بِرِسَالَتِہِ، وَکَلَّمَکَ تَکْلِیمًا، وَأَنَا مِنْ خَلْقِ اللَّہِ أَذْنَبْتُ، وَأَنَا أُرِیدُ أَنْ أَتُوبَ، فَاشْفَعْ لِی عِنْدَ رَبِّکَ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ یَتُوبَ عَلَیَّ، فَدَعَا مُوسَی رَبَّہُ فَقِیلَ یَا مُوسَی قَدْ قَضَیْتُ حَاجَتَکَ، فَلَقِیَ مُوسَی إِبْلِیسَ، فَقَالَ:قَدْ أُمِرْتَ أَنْ تَسْجُدَ لِقَبْرِ آدَمَ وَیُتَابَ عَلَیْکَ، فَاسْتَکْبَرَ وَغَضِبَ،وَقَالَ:لَمْ أَسْجُدْ لَہُ حَیًّا، أَأَسْجُدُ لَہُ مَیِّتًا؟۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمابیان کرتے ہیں کہ شیطان ایک مرتبہ حضرت سیدناموسی علیہ السلام سے ملااورکہنے لگاکہ آپ تووہ ہیں کہ جسے اللہ تعالی نے اپنے پیغامات کے لئے چن لیاہے اورجب آپ نے اللہ تعالی کی طرف رجوع کیاتو اس نے آپ کے ساتھ کلام کیا، میں اب توبہ کرناچاہتاہوں ، آپ اللہ تعالی کی بارگاہ میں عرض کریں اورمیری سفارش کریں کہ وہ میری توبہ قبول فرمائے ۔ حضرت سیدناموسی علیہ السلام نے فرمایا:ٹھیک ہے اللہ تعالی کی بارگاہ میں عرض کروں گا۔ حضرت سیدناموسی علیہ السلام نے اللہ تعالی کی بارگاہ میں عرض کی : تواللہ تعالی نے فرمایا:اے موسی ! تم نے اپناکام پوراکردیا۔ پھرحضرت سیدناموسی علیہ السلام کے سامنے جب شیطان آیاتو آپ نے اسے فرمایامجھے حکم دیاگیاہے کہ توحضرت سیدناآدم علیہ السلام کی قبرمبارک کو سجدہ کرتیری توبہ قبول ہوجائے گی ۔ یہ سنتے ہی شیطان نے تکبرکیااورغصے سے بپھرگیا۔اوراس نے کہا: جب وہ زندہ تھے تو میں نے سجدہ نہیں کیااب کیسے کرلوں؟۔
(مکائد الشیطان:أبو بکر عبد اللہ بن محمد بن عبید بن سفیان المعروف بابن أبی الدنیا :۶۵)
حضرت سیدنانوح علیہ السلام کے سامنے انکارکردیا
حَدَّثَنَا سَعِیدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِیزِ، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:لَمَّا رَکِبَ نُوحٌ السَّفِینَۃَ جَاء َ إِبْلِیسُ فَتَعَلَّقَ بِالسَّفِینَۃِ وَقَالَ:مَنْ أَنْتَ؟ قَالَ:إِبْلِیسُ، قَالَ:مَا جَاء َ بِکَ؟ قَالَ:جِئْتُ لِتَسْأَلَ لِی رَبَّکَ، ہَلْ لِی مِنْ تَوْبَۃٍ؟ قَالَ: فَأَوْحَی اللَّہُ إِلَیْہِ أَنَّ تَوْبَتَہُ أَنْ یَأْتِیَ قَبْرَ آَدَمَ فَیَسْجُدُ لَہُ، فَقَالَ:أَنَا لَمْ أَسْجُدْ لَہُ حَیًّا وَأَسْجُدُ لَہُ مَیِّتًا، فَذَلِکَ قَوْلُہُ تَعَالَی: أَبی وَاسْتَکْبَرَ وَکانَ من الْکافِرِینَ ۔
ترجمہ :حضرت سیدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنانوح علیہ السلام جب کشتی میں سوارہوئے تو شیطان آگیا۔ حضرت سیدنانوح علیہ السلام نے اس سے پوچھاکہ تم کون ہو؟ تواس نے کہا: میں شیطان ہوں ۔ آپ علیہ السلام نے پوچھاکہ توکیسے آیاہے؟ تواس نے کہاکہ آپ اللہ تعالی کی بارگاہ میں عرض کروکہ میری توبہ کی کوئی صورت ہے ؟ اللہ تعالی نے حضرت سیدنانوح علیہ السلام کو فرمایاکہ اس کی توبہ صرف اورصرف ایک صورت میں قبول ہوسکتی ہے کہ یہ حضرت آدم علیہ السلام کی قبرمبارک کو سجدہ کرلے ۔ شیطان نے کہا: جب وہ زندہ تھے تو میں نے سجدہ نہیں کیااب کیسے کرلوں۔؟؟پس اسی وجہ سے وہ کافرہوگیا۔
(المنتظم فی تاریخ الأمم والملوک:جمال الدین أبو الفرج عبد الرحمن بن علی بن محمد الجوزی (ا:۲۴۱)
گستاخ گستاخ ہی رہتاہے
وفی الخبر قیل لہ من قبل الحق اسجد لقبر آدم أقبل توبتک واغفر معصیتک فقال ما سجدت لقالبہ وجثتہ فکیف اسجد لقبرہ ومیتتہ وفی الخبر ان اللہ تعالی یخرجہ علی رأس مائۃ الف سنۃ من النار ویخرج آدم من الجنۃ ویأمرہ بالسجود لآدم فیأبی ثم یرد الی النار وَکانَ مِنَ الْکافِرِینَ ۔
ترجمہ:حدیث شریف میں ہے کہ اللہ تعالی قیامت کے دن شیطان کو ایک ہزار سال دوزخ میں رکھ کرعذاب دینے کے بعد نکال کرحکم فرمائے گاکہ اب توحضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرلے تو شیطان اس وقت بھی انکارکردے گا، پھراسے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دوزخ میں ڈال دیاجائے گا۔
(تفسیر حدائق الروح : الشیخ العلامۃ محمد الأمین بن عبد اللہ الأرمی العلوی الہرری الشافعی(۱: ۳۱۱)
حضرت آدم علیہ السلام کے گستاخ کوذلیل کرنے کابہت بڑانسخہ
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:إِذَا قَرَأَ ابْنُ آدَمَ السَّجْدَۃَ فَسَجَدَ، اعْتَزَلَ الشَّیْطَانُ یَبْکِی، یَقُولُ:یَا وَیْلَہُ أُمِرَ ابْنُ آدَمَ بِالسُّجُودِ فَسَجَدَ فَلَہُ الْجَنَّۃُ، وَأُمِرْتُ بِالسُّجُودِ فَأَبَیْتُ فَلِیَ النَّارُ ۔
ترجمہ :حضرت سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جب ابن آدم آیت سجدہ تلاوت کرکے سجدہ کرتاہے توشیطان دورکھڑاہوکر روتاہے اورکہتاہے کہ ہائے اس کی خرابی کہ ابن آدم کو حکم ہواسجدہ کرنے کااس نے کرلیااوراپنے رب کی بات مان لی اوریہ جنت کامالک بن گیااورمجھے حکم ہوامیں نے نافرمانی کی پس میرے لئے آگ ہے ۔
(صحیح مسلم :مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشیری النیسابوری (۱:۸۷)
اس سے معلوم ہواکہ اللہ تعالی کے دشمن اوررسل عظام علیہم السلام کے دشمن کو ذلیل کرنارسول اللہ ﷺکی سنت ہے ۔ اوررسول اللہ ﷺیہی چاہتے ہیں کہ حضرت سیدناآدم علیہ السلام کاگستاخ ذلیل ہوتارہے۔
شیطان اوریہودی
قال الشَّیْخُ أَبُو الْحَسَنِ الْأَشْعَرِیُّ وَغَیْرُہُ وَذَہَبَ الطَّبَرِیُّ إِلَی أَنَّ اللَّہَ تَعَالَی أَرَادَ بِقِصَّۃِ إِبْلِیسَ تَقْرِیعَ أَشْبَاہِہِ مِنْ بَنِی آدَمَ، وَہُمُ الْیَہُودُ الذی کَفَرُوا بِمُحَمَّدٍ عَلَیْہِ السَّلَامُ مَعَ عِلْمِہِمْ بِنُبُوَّتِہِ، وَمَعَ قِدَمِ نِعَمِ اللَّہِ عَلَیْہِمْ وَعَلَی أَسْلَافِہِمْ۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی نقل فرماتے ہیںکہ امام الشیخ ابولحسن الاشعری رحمہ اللہ تعالی نے فرمایاکہ امام الطبری رحمہ اللہ تعالی کایہ خیال ہے کہ اللہ تعالی کاشیطان کے واقعہ سے انسان میں جو شیطان کے مشابہ ہیں انہیں تنبیہ کرنامقصود ہے اوروہ یہودی ہیں ، جنہوںنے رسول اللہ ﷺکی نبوت کاانکارکیاحالانکہ وہ جانتے تھے کہ محمدﷺ اللہ تعالی کے سچے نبی ہیں اوران نعمتوں کو بھی جانتے تھے جو اللہ تعالی نے ان پر اوران کے اسلاف پر کی تھیں ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی (۱: ۲۹۱)
اس سے ثابت ہواکہ یہودی شیطان کے پیروکار ہیں اوراسی طرح نصاری اورلبرل طبقہ جو رسول اللہ ﷺکی نبوت شریفہ کوجانتے ہوئے انکارکرتے ہیں یہ بھی شیطان کے پیروکارہیں۔
خداورسول ﷺکے حکم کو باطل قراردینے والاکافرہے
فَکَفَّرَہُ اللَّہُ بِذَلِکَ فَکُلُّ مَنْ سَفَّہَ شَیْئًا مِنْ أَوَامِرِ اللَّہِ تَعَالَی أَوْ أَمْرِ رَسُولِہِ عَلَیْہِ السَّلَامُ کَانَ حُکْمُہُ حُکْمَہُ، وَہَذَا مَا لَا خِلَافَ فِیہِ۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیںکہ حضرت سیدناآدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے اللہ تعالی نے شیطان کو کافرقراردیا، پس جو شخص اللہ تعالی کے کسی حکم کو یارسول اللہ ﷺکے کسی حکم شریف کو باطل قراردیتاہے تواس کاحکم بھی یہی ہے یعنی وہ بھی کافرہے اور ایسے شخص کے کافرہونے میں کسی کاکوئی اختلاف نہیں ہے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی (۱: ۲۹۱)
دوسرامسئلہ
چونکہ شیطان نے حضرت سیدناآدم علیہ السلام کی تعظیم کاانکارکیااورحضرت سیدناآدم علیہ السلام کو اللہ تعالی نے علم کی دولت سے مالامال فرمایاتوعلم کی وجہ سے کسی کادشمن بن جانایہ شیطان کاطریقہ کارہے اورسب سے پہلی دشمنی علم کی وجہ سے ہوئی اوروہ دشمن شیطان تھا۔ لھذاآج بھی کوئی اگرعالم دین کادشمن ہے تو وہ یہ یقین کرلے وہ شیطان کاجانشین ہے۔
حضرت مفتی احمدیارخان نعیمی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ حق یہ ہے کہ علماء کرام دین مصطفی ﷺکے محافظ اور چوکیدارہیں۔ چورپہلے چوکیدارپر ہی حملہ کرتاہے کیونکہ اس کے ہوتے ہوئے وہ چوری نہیں کرسکتا، اس لئے آج جوبھی بے دین اٹھتاہے وہ علماء کرام پر لعن طعن کرتاہی اٹھتاہے کیونکہ وہ سمجھتاہے کہ ان کی موجودگی میں ہم دین مصطفی ﷺمیں چوری نہیں کرسکتے مگریاد رہے چوکیدارپر شہنشاہ کاہاتھ اوراس کی پشت پر ساراسلطانی عملہ ہوتاہے ۔ اسی طرح علماء کرام پر مصطفی کریمﷺ کاہاتھ ہے اورملائکہ کرام علیہم السلام ان کی حمایت پر ہیں ، اسی لئے بڑی بڑی طاقتیں جیسے خاکساری ، نیچری وغیرہ علماء سے ٹکرائیں پاش پاش ہوگئیں ۔ علماء کرام کے اقبال ووقار میں بفضلہ تعالی کوئی فرق نہیں آیا ۔ علماء کرام پر بھی لازم ہے کہ دین حق کی خدمت کو اپنامقصد قراردیں۔
(تفسیر نعیمی از مفتی احمدیارخان نعیمی (۱: ۱۷۹)
مجلس دینی میں بیٹھنے والاکافرکیسے ہوگیا؟
قَالَ شَقِیقٌ الْبَلْخِیُّ: النَّاسُ یَقُومُونَ مِنْ مَجْلِسِی عَلَی ثَلَاثَۃِ أَصْنَافٍ: کَافِرٌ مَحْضٌ، وَمُنَافِقٌ مَحْضٌ، وَمُؤْمِنٌ مَحْضٌ، وَذَلِکَ لِأَنِّی أُفَسِّرُ الْقُرْآنَ فَأَقُولُ عَنِ اللَّہِ وَعَنِ الرَّسُولِ فَمَنْ لَا یُصَدِّقُنِی فَہُوَ کَافِرٌ مَحْضٌ، وَمَنْ ضَاقَ قَلْبُہُ مِنْہُ فَہُوَ مُنَافِقٌ مَحْضٌ، وَمِنْ نَدِمَ عَلَی مَا صَنَعَ؍ وَعَزَمَ عَلَی أَنْ لَا یُذْنِبَ کَانَ مُؤْمِنًا مَحْضًا۔
ترجمہ:امام محمدبن عمر الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیںکہ امام شقیق البلخی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میری مجلس شریف میں لوگ آتے ہیں جب اٹھ کرجاتے ہیں تو اس وقت تین قسم کے ہوجاتے ہیں :
(۱) کافرمحض (۲) مومن محض (۳)منافق محض
یہ اس لیے ہوتاہے کہ میں جب قرآن کریم کی تفسیر کرتے ہوئے اللہ تعالی اوراس کے رسول ﷺکافرمان شریف پڑھتاہوں توجوتصدیق نہ کرے وہ کافرمحض بن جاتاہے اورجس کاسن کردل تنگ ہووہ منافق محض یعنی خالص منافق ہوجاتاہے اورجومجھ سے قرآن کریم کی تفسیر سن کر شرمندہ ہوجائے اورآئندہ گناہ نہ کرنے کاعہد کرلے وہ مومن محض ہوجاتاہے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۲:۴۰۲)
اس سے معلوم ہواکہ آج کتنے ہی لوگ ہیں جو محافل دینی میں طوعاً وکرہاً آتے ہیں اورآکر علماء کرام کی طرف سے کی جانے والی گفتگوکے متعلق بکواس کرتے ہیں کہ یہ ان کی اپنی بنائی ہوئی باتیں ہیں ۔ اب آپ خود غورکریں کہ مکے کاکافریہ کہے تو کافرہوجائے کہ یہ کلام یعنی قرآن کریم رسول اللہ ﷺنے خود بنالیاہے توآج کامسلمان اگریہ کہے کہ دین مولویوں نے اپنابنالیاہے یہ کیسے مسلمان رہ سکتاہے ؟
اسی طرح ناموس رسالت ﷺکے مسئلہ کے متعلق پاکستان کابہت بڑاطبقہ یہی کہتاہے کہ اسلام میں ایسانہیں ہے کہ کوئی گستاخی کرے تو اس کو قتل کردو، یہ ذہن میں رہے جو شخص رسول اللہ ﷺکے گستاخ کی شرعی سزاکامنکرہے وہ ضروریات دینی کے انکارکی وجہ سے کافرہوچکاہے چاہے وہ نمازیں پڑھتارہے یاپیربنارہے ۔
جس نے عالم دین کی توہین کی ۔۔۔
قَالَ عَلَیْہِ السَّلَامُ مَنِ اغْبَرَّتْ قَدَمَاہُ فِی طَلَبِ الْعِلْمِ، حَرَّمَ اللَّہُ جَسَدَہُ عَلَی النَّارِ، وَاسْتَغْفَرَ لَہُ مَلَکَاہُ وَإِنْ مَاتَ فِی طَلَبِہِ مَاتَ شَہِیدًا، وَکَانَ قَبْرُہُ رَوْضَۃً مِنْ رِیَاضِ الْجَنَّۃِ، وَیُوَسَّعُ لَہُ فِی قَبْرِہِ مَدَّ بَصَرِہِ، وَیُنَوَّرُ عَلَی جِیرَانِہِ أَرْبَعِینَ قَبْرًا عَنْ یَمِینِہِ وَأَرْبَعِینَ قَبْرًا عَنْ یَسَارِہِ، وَأَرْبَعِینَ عَنْ خَلْفِہِ، وَأَرْبَعِینَ أَمَامَہُ، وَنَوْمُ الْعَالِمِ عِبَادَۃٌ، وَمُذَاکَرَتُہُ تَسْبِیحٌ، وَنَفْسُہُ صَدَقَۃٌ، وَکُلُّ قَطْرَۃٍ نَزَلَتْ مِنْ عَیْنَیْہِ تُطْفِئُ بَحْرًا مِنْ جَہَنَّمَ فَمَنْ أَہَانَ الْعَالِمَ فقد أَہَانَ اللَّہَ أَہَانَہُ اللَّہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔
ترجمہ :رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جس شخص کے قدم طلب ِعلم میں خاک آلود ہوں گے اللہ تعالی اس کے جسم کو آگ پر حرام کردے گا اوراس پر مقرردونوں فرشتے اس کے لئے استغفارکریں گے ۔ اگرطلب ِعلم کے دوران ہی وہ فوت ہوجائے تو شہید لکھاجائے گا، اس کی قبرروضۃ من ریاض الجنۃ یعنی جنت کے باغوں میں سے باغ بنادی جاتی ہے ۔ اوراس کی قبرتاحدنگاہ وسیع کردی جاتی ہے اوراس کی قبرکے پڑوس دائیں بائیں اورآگے پیچھے چالیس چالیس قبریں منور کردی جاتی ہیں۔ عالم دین کی نیندعبادت اوراس کامذاکرہ کرناتسبیح ، اس کاسانس لیناصدقہ ہے ، اس کی آنکھ کاایک ایک قطرہ دوزخ کی آگ کو بجھاسکتاہے ۔ پس جس نے عالم دین کی توہین کی اس نے علم کی توہین کی ، جس نے علم کی توہین کی اس نے اللہ تعالی کے نبی ْﷺکی توہین کی اورجس نے نبی ﷺکی توہین کی اس نے جبریل امین علیہ السلام کی توہین کی اورجس نے جبریل امین علیہ السلام کی توہین کی اس نے اللہ تعالی کی توہین کی اوراللہ تعالی ایسے شخص کو قیامت کے دن ذلیل ورسوافرمادے گا۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۲:۴۰۲)
وہ اسکالرجو دین کو لبرل ازم سے ملادیں
وَمِنَ الْعُلَمَاء ِ مَنْ یَتَعَلَّمُ کَلَامَ الْمُبْطِلِینَ فَیَمْزُجُہُ بِالدِّینِ فَہُوَ فِی الدَّرْکِ السَّادِسِ مِنَ النَّارِ۔
ترجمہ :امام محمدبن عمر الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمۃ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ وہ علماء جو ملحدین اورلبرل طبقہ کاکلام سیکھ کر دین سے ملادیں وہ دوزخ کے چھٹے طبقے میں جائیں گے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۲:۴۰۲)
اس سے معلوم ہواکہ جو مذہبی شخصیات دین مبارک میں لبرل ازم گھسیڑنے کے چکر میں یاقرآن کریم اورحدیث شریف کی تفسیروتشریح سائنس کی روشنی میں کررہے ہیں اورکرتے کرتے الحاد کی کھائی میںجاگرتے ہیں یاان کی وجہ سے لوگ الحاد کاشکارہورہے ہیں ایسے تمام لوگوں کواس سے عبرت پکڑنی چاہئے ۔
اس مضمون کے تحت ہم مزیدکچھ لکھنالازمی جانتے ہیں تاکہ پتاچلے آجکل کے جو دین دشمن ہیں وہ کس طرح اپنی دشمنی کازہراگلتے ہیں ۔
حاملینِ قرآن وحدیث کی دشمنی کے پس پردہ راز کاانکشاف
رسول اللہ ﷺسے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جو محبت تھی، اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ وہ لوگ آپﷺ کی صحبت مبارکہ سے فیض یاب ہوتے رہے، ان میں اکثر حضرات تو وہ تھے جو اپنے کام کاج میں بھی مشغول رہتے اور وقتاً فوقتاً آپ ﷺکی خدمت میں حاضری بھی دیتے، جب کہ کچھ خوش قسمت حضرات وہ تھے جنہوں نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ او راپنے اوقات کا ہر ثانیہ آپ ﷺ کی خدمت میں گزارنے کا عہد کر رکھا تھا۔ آپ ﷺکسی دنیاوی جاہ وجلال کے روایتی بادشاہ نہ تھے کہ یہ لوگ محض پیٹ پروری کے لیے آپﷺکے ساتھ رہنے لگے اور نہ ہی ان حضرات کی کوئی دنیاوی غرض ہوتی تھی، بلکہ یہ لوگ جانتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ اللہ تعالی کے مبعوث کردہ نبی برحق ہیں اور آپ ﷺ کی تعلیمات قیامت تک اُمت کے لیے راہنما اور کامیابی وکامرانی کا ذریعہ ہیں۔
یہاں یہ بات ملحوظ رہے کہ سب سے پہلے جن حضرات نے اشتغال بالحدیث کی عملی بنیاد رکھی اور حدیث رسولﷺ کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا، ان لوگوں نے ایک طرف تو فقر کو اختیار کیا اور دوسری طرف اس علم کی خوب خدمت کی۔ حیرت ہوتی ہے ان کی قربانیوں پرکہ معیشت ومعاشرہ کے انتہائی سنگین ترین مسائل کی فکرسے دورہوکر دامن رسول اﷺکو نہ چھوڑا اور آپﷺ کی تعلیمات کا تمام تر حصہ اگلی نسل میں منتقل کر دیا۔ یہ وہ چراغ تھے جو خود جل جل کر روشنی دیتے اور نور کی کرنیں بکھیرتے رہے اور پھر ان کی راہ پر چلنے والے ہر دور میں پیدا ہوتے رہے اور وہ بھی ٹھیک ان کی طرح دین میں کمی کرنے والوں اور زیادتی کرنے والوں کی پکڑ کر تے رہے۔
یہ وہ عاشقانِ رسولﷺ اور اساطین علم تھے جنہوں نے کذابین اور دجالین کے کذب وافترا اور دجل وفریب کا پردہ چاک کیا اور روایت حدیث کے لیے سند کو لازمی قرار دیا، ان اسانید ہی کی بدولت ان حضرات نے دشمنان دین کی طرف سے وضع حدیث کی صورت میں اسلام کو مسخ کرنے کی ایک بہت بڑی چال کو کسی طرح سے بھی چلنے نہیں دیا۔
وضع حدیث (یعنی اپنی طرف سے کوئی بات گھڑ کر رسول اللہﷺ کی طرف منسوب کرنا)اسلام دشمن فرقوں کی وہ خطرناک چال تھی جو اگر چل جاتی تو یہ دین اسلام کی مستحکم عمارت کو وہ نقصان پہنچاتی جو اسلام کا بڑے سے بڑا طاقت ور دشمن بھی نہیں پہنچا سکتا، پھر اسلام کی وہ صاف اور ستھری صورت باقی نہ رہتی، جس پر اللہ تعالیٰ نے اس دین کو پسند کیا تھا، بلکہ اس کا حلیہ بدل جاتا اور یہ پچھلی قوموں کی طرح ایک ناقابل عمل داستان وچیستان بن جاتا، مگر اللہ تعالیٰ کی ذاتِ عالی کو فریب کاروں اور دجالوں کی حرکات کا خوب علم ہے، اس لیے قدرت کی طرف سے اس پسندیدہ دین کی حفاظت کے لیے ان برگزیدہ ہستیوں کا انتخاب کیا گیا، جنہیں دنیا محدثین کے عالی شان لقب سے یاد کرتی ہے اورہمیشہ دین دشمن طبقہ جب بھی اپناگندہ منہ کھولے گاتو صرف اسی طبقہ کے خلاف کھولے گا جو آج بھی رسول اللہ ﷺکی حدیث شریف کے دامن کے ساتھ وابستہ ہیں اورخدمت حدیث کو ہی اپنااخروی سرمایہ گردانتے ہیں اوریہ جماعت بحمداللہ تعالی آج حالات چاہے جیسے ہوں عسرہویایسرہو قال اللہ تعالی اورقال رسول اللہ ﷺکی صدائے دلنواز سے امت کے قلوب واذہان کو منورومعطرکئے ہیں ۔دشمن جب کسی گھرمیں چوری کرناچاہتاہے تو سب سے پہلے وہ چوکیدار کادشمن بنتاہے ، اسی لئے آج بھی جب دین دشمن دین کی بنیادوں کو کھوکھلاکرناچاہتے ہیں تو سب سے پہلے حاملین قرآن وحدیث کے خلاف باتیں کرتے ہیں ۔ اسی لئے ہم نے یہ اہتمام کیاکہ اس مقام پر محدثین کے دفاع میں کچھ کلام نقل کردیاجائے تاکہ اہل ایمان کے ایمان محفوظ ہوں اوردین دشمنوں کی دسیسہ کاریوں کاپردہ چاک ہو۔
رسول اللہ ﷺکے کلام سے محدثین کی جماعت کی فضیلت
عَنِ المُغِیرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لاَ یَزَالُ طَائِفَۃٌ مِنْ أُمَّتِی ظَاہِرِینَ، حَتَّی یَأْتِیَہُمْ أَمْرُ اللَّہِ وَہُمْ ظَاہِرُونَ۔
ترجمہ :حضرت سیدنامغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ رسول اللہﷺنے فرمایا:ہروقت میری امت سے ایک گروہ حق پررہے گا جو بھی انہیں ذلیل کرنے کی کوشش کرے گا وہ انہیں نقصان نہیں دے سکے گا ، حتی کہ اللہ تعالی کا حکم آجائے تووہ گروہ اسی حالت میں ہوگا ۔
(صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۹:۱۰۱)
امام احمدبن حنبل رضی اللہ عنہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں
فَلَقَدْ أَحْسَنَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلِ فِی تَفْسِیرِ ہَذَا الْخَبَرِ أَنَّ الطَّائِفَۃَ الْمَنْصُورَۃَ الَّتِی یُرْفَعُ الْخِذْلَانُ عَنْہُمْ إِلَی قِیَامِ السَّاعَۃِ ہُمْ أَصْحَابُ الْحَدِیثِ، وَمَنْ أَحَقُّ بِہَذَا التَّأْوِیلِ مِنْ قَوْمٍ سَلَکُوا مَحَجَّۃَ الصَّالِحِینَ، وَاتَّبَعُوا آثَارَ السَّلَفِ مِنَ الْمَاضِینَ وَدَمَغُوا أَہْلَ الْبِدَعِ وَالْمُخَالِفِینَ بِسُنَنِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَعَلَی آلِہِ أَجْمَعِینَ۔
ترجمہ :امام حاکم رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے اس حدیث کی بہت اچھی تفسیر اورشرح کی ہے جس میں یہ بیان کیا گیا کہ طائفہ منصورہ جوقیامت تک قائم رہے گا اوراسے کوئی بھی ذلیل نہیں کرسکے گا ، وہ محدثین کی جماعت ہی ہے ۔
تواس تاویل کا ان لوگوں سے زیادہ کون حق دار ہے جو صالحین کے طریقے پرچلیں اورسلف کے آثارکی اتباع کریں اوربدعتیوں اورسنت کے مخالفوں کوسنت رسول ﷺ کے ساتھ دبا کررکھیں اورانہیں ختم کردیں ۔
(معرفۃ علوم الحدیث:أبو عبد اللہ الحاکم محمد بن عبد اللہ بن محمد بن حمدویہ بن نُعیم :۲)
حضرت سیدناموسی بن ہارون رحمہ اللہ تعالی کاقول
مُوسَی بْنَ ہَارُونَ، یَقُولُ:سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ یَقُولُ: وَسُئِلَ عَنْ مَعْنَی ہَذَا الْحَدِیثِ، فَقَالَ:إِنْ لَمْ تَکُنْ ہَذِہِ الطَّائِفَۃُ الْمَنْصُورَۃُ أَصْحَابَ الْحَدِیثِ فَلَا أَدْرِی مَنْ ہُمْ۔
ترجمہ :حضرت سیدناموسی بن ہارون رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیںکہ میں نے حضرت سیدنااحمدبن حنبل رضی اللہ عنہ سے سناجب ان سے سوال کیاگیاکہ اس حدیث شریف کے بارے میں آپ کیافرماتے ہیں ؟(جو حدیث شریف ہم ذکرکرآئے ہیں) توآپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس سے مراد ان لوگوں کی جماعت ہے جو حدیث شریف روایت کرنے والے اوراس پر عمل کرنے والے ہیں، اگراس سے مراد یہ نہیں ہیں تو پھرمجھے نہیں معلوم کہ اس سے مراد کون ہیں؟
(معرفۃ علوم الحدیث:أبو عبد اللہ الحاکم محمد بن عبد اللہ بن محمد بن حمدویہ بن نُعیم :۲)
حضرت خطیب بغدادی رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں
وَقَدْ جَعَلَ اللَّہُ تَعَالَی أَہْلَہُ أَرْکَانَ الشَّرِیعَۃِ، وَہَدَمَ بِہِمْ کُلَّ بِدْعَۃٍ شَنِیعَۃٍ فَہُمْ أُمَنَاء ُ اللَّہِ مِنْ خَلِیقَتِہِ، وَالْوَاسِطَۃُ بَیْنَ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأُمَّتِہِ، وَالْمُجْتَہِدُونَ فِی حَفِظِ مِلَّتِہِ أَنْوَارُہُمْ زَاہِرَۃٌ تَعْکُفُ عَلَیْہِ، سِوَی أَصْحَابِ الْحَدِیثِ، فَإِنَّ الْکِتَابَ عُدَّتُہُمْ، وَالسُّنَّۃُ حُجَّتُہُمْ، وَالرَّسُولُ فِئَتُہُمْ، وَإِلَیْہِ نِسْبَتُہُمْ، لَا یُعَرِّجُونَ عَلَی الْأَہْوَاء ِ، وَلَا یَلْتَفِتُونَ إِلَی الْآرَاء ِ، یُقْبَلُ مِنْہُمْ مَا رَوَوْا عَنِ الرَّسُولِ، وَہُمُ الْمَأْمُونُونَ عَلَیْہِ وَالْعُدُولُ، حَفَظَۃُ الدِّینِ وَخَزَنَتُہُ، وَأَوْعِیَۃُ الْعِلْمِ وَحَمَلَتُہُ إِذَا اخْتُلِفَ فِی حَدِیثٍ، کَانَ إِلَیْہِمُ الرُّجُوعُ، فَمَا حَکَمُوا بِہِ، فَہُوَ الْمَقْبُولُ الْمَسْمُوعُ وَمِنْہُمْ کُلُّ عَالِمٍ فَقِیہٌ، وَإِمَامٌ رَفِیعٌ نَبِیہٌ، وَزَاہِدٌ فِی قَبِیلَۃٍ، وَمَخْصُوصٌ بِفَضِیلَۃٍ، وَقَارِئٌ مُتْقِنٌ، وَخَطِیبٌ مُحْسِنٌ وَہُمُ الْجُمْہُورُ الْعَظِیمُ، وَسَبِیلُہُمُ السَّبِیلُ الْمُسْتَقِیمُ وَکُلُّ مُبْتَدَعٍ بِاعْتِقَادِہِمْ یَتَظَاہَرُ، وَعَلَی الْإِفْصَاحِ بِغَیْرِ مَذَاہِبِہِمْ لَا یَتَجَاسَرُ مَنْ کَادَہُمْ قَصَمَہُ اللَّہُ، وَمَنْ عَانَدَہُمْ خَذَلَہُمُ اللَّہُ لَا یَضُرُّہُمُ مَنْ خَذَلَہُمْ، وَلَا یُفْلِحُ مَنِ اعْتَزَلَہُمُ الْمُحْتَاطُ لِدِینِہِ إِلَی إِرْشَادِہِمْ فَقِیرٌ، وَبَصَرُ النَّاظِرِ بِالسُّوء ِ إِلَیْہِمْ حَسِیرٌ وَإِنَّ اللَّہَ عَلَی نَصْرِہِمْ لَقَدِیرٌ۔
ترجمہ:اللہ تعالی نے محدثین کی جماعت کوارکان شریعت بنایا اور ان کے ذریعہ سے ہرشنیع بدعت کی سرکوبی فرمائی تویہ لوگ اللہ تعالی کی مخلوق میں اللہ تعالی کے امین ہیں اورنبی ﷺ اوران کی امت کے درمیان واسطہ و رابطہ اورنبیﷺ کی ملت کی حفاظت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے ۔ان کی روشنی واضح اور ان کے فضائل پھیلے ہوئے اوران کے اوصاف روز روشن کی طرح عیاں ہیں ، ان کا مسلک ومذھب واضح و ظاہر اور ان کے دلائل قاطع ہیں محدثین کے علاوہ ہر ایک گروہ اپنی خواہشات کے پیچھے چلتا اور اپنی رائے ہی کو بہترقرار دیتا ہے جس پراس کا انحصار ہوتا ہے ۔لیکن محدثین یہ کام نہیں کرتے اس لیے کہ کتاب اللہ ان کا اسلحہ اورسنت نبویہ ان کی دلیل و حجت ہے اوررسول اکرم ﷺ ان کا گروہ ہیں اوران کی طرف ہی ان کی نسبت ہے ۔وہ ھواء وخواہشا ت پرانحصار نہیں کرتے اورنہ ہی آراء کی طرف ان کا التفات ہے جوبھی انہوں نے نبیﷺسے روایات بیان کی ان سے وہ قبول کی جاتی ہیں ، وہ حدیث کے امین اور اس پرعدل کرنے والے ہیں ۔
محدثین دین کے محافظ اوراس کے دربان ہیں ، علم کے خزانے اورحامل ہیں ،جب کسی حدیث میں اختلاف پیدا ہوجائے تومحدثین کی طرف ہی رجوع ہوتا ہے اورجو وہ اس پرحکم لگا دیں وہ قبول ہوتااورقابل سماعت ہوتا ہے ۔ان میں فقیہ و عالم بھی اوراپنے نبیﷺ کی طرف سے دی جانے والی رفعت کے امام بھی ، اورزھد میں یدطولی رکھنے والے بھی ، اورخصوصی فضیلت رکھنے والے بھی ، اورمتقین قاری بھی ،بہت اچھے خطیب بھی ، اوروہ جمہورعظیم بھی ہیں ان کا راستہ صراط مستقیم ہے ، اورہربدعتی ان کے اعتقاد سے مخالفت کرتا ہے اوران کے مذھب کے بغیر کامیابی اورسراٹھانا ممکن نہیں ۔
جس نے ان کے خلاف سازش کی اللہ تعالی نے اسے نیست نابود کردیا ، جس نے ان سے دشمنی کی اللہ تعالی نے اسے ذلیل ورسوا کردیا ، جوانہیں ذلیل کرنے کی کوشش کرے وہ انہیں کچھ بھی نقصان نہیں دے سکتا ، جوانہیں چھوڑ کرعلیحدہ ہو کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتا ۔
اپنے دین کی احتیاط اورحفاظت کرنے والا ان کی رہنمائی کا فقیر ومحتاج ہے ، اوران کی طرف بری نظر سے دیکھنے والے کی آنکھیں تھک کرختم ہوجائیں گی ، اوراللہ تعالی ان کی مدد و نصرت کرنے پرقادر ہے ۔
(شرف أصحاب الحدیث:أبو بکر أحمد بن علی بن ثابت بن أحمد بن مہدی الخطیب البغدادی :۸)
لبر ل محدثین کادشمن ہوتاہے
قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّہِ:وَعَلَی ہَذَا عَہِدْنَا فِی أَسْفَارِنَا وَأَوْطَانِنَا کُلَّ مَنْ یُنْسَبُ إِلَی نَوْعٍ مِنَ الْإِلْحَادِ وَالْبِدَعِ لَا یَنْظُرُ إِلَی الطَّائِفَۃِ الْمَنْصُورَۃِ إِلَّا بِعَیْنِ الْحَقَارَۃِ، وَیُسَمِّیہَا الْحَشْوِیَّۃَ ۔
ترجمہ :حضرت سیدناامام ابوعبداللہ رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ہم نے اپنے سفر و حضر میں اسی طرح دیکھاہے کہ جس شخص میں کوئی گمراہی اور بدعت ہوتی ہے،وہ طائفہ منصورہ کو حقارت ہی کی نظر سے دیکھتا ہے اور ان کو حشویہ(گمراہ فرقہ)کا نام دیتا ہے۔
(معرفۃ علوم الحدیث: أبو عبد اللہ الحاکم محمد بن عبد اللہ بن محمد بن حمدویہ بن نُعیم :۴)
امام اوزاعی رحمہ اللہ تعالی کاقول
أَخْبَرَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ الْوَلِیدِ بْنِ مَزْیَدَ الْبَیْرُوتِیُّ، قَالَ:أَخْبَرَنِی أَبِی قَالَ:سَمِعْتُ الْأَوْزَاعِیَّ، یَقُولُ: عَلَیْکَ بِآثَارِ مَنْ سَلَفَ، وَإِنْ رَفَضَکَ النَّاسُ.وَإِیَّاکَ وَرَأْیَ الرِّجَالِ، وَإِنْ زَخْرَفُوہُ بِالْقَوْلِ. فَإِنَّ الْأَمْرَ یَنْجَلِی، وَأَنْتَ عَلَی طَرِیقٍ مُسْتَقِیمٍ
ترجمہ :امام عبد الرحمن بن عمرواوزاعی رحمہ اللہ المتوفی : ۱۵۷ھ)فرماتے ہیں تو سلف (محدثین)کے آثار کو لازم پکڑ،اگرچہ لوگ تجھے چھوڑدیں۔ تو(بدمذہب)لوگوں کی آرا سے بچ،اگرچہ وہ ان کو مزین کر کے پیش کریں،کیونکہ بلاشبہ ایسا کرنے سے تیرا معاملہ صاف ہو جائے گااور تو صراط ِ مستقیم پر گامزن ہو جائے گا۔
(معرفۃ علوم الحدیث: أبو عبد اللہ الحاکم محمد بن عبد اللہ بن محمد بن حمدویہ بن نُعیم :۷)
اہل سنت کاشعار کیاہے ؟
وشعار أہل السّنۃ اتباعہم السّلف الصَّالح، وترکہم کل مَا ہُوَ مُبْتَدع مُحدث۔
ترجمہ:علامہ ابوالمظفرسمعانی رحمہ اللہ المتوفی : ۴۸۹ھ )فرماتے ہیں :اہل سنت کا شعار سلف صالحین کی پیروی کرنا اور ہر بدعت کو چھوڑ دینا ہے ۔
(الحجۃ فی بیان المحجۃ وشرح عقیدۃ أہل السنۃ:إسماعیل بن محمد ، أبو القاسم، الملقب بقوام السنۃ (۱:۳۹۵)
صحابہ کرام اورمحدثین رضی اللہ عنہم کے خلاف باتیں بنانادین دشمن کاکام ہے
وَہٰذَا ہُوَ الْبُہْتُ الْکَبِیرُ اَنْ یُّحْکٰی اَوْ یُنْقَلَ عَنِ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ مَا لَمْ یَفْعَلُوہُ عَلٰی سَبِیلِ الْعَیْبِ وَالتَّنَقُّصِ لَہُمْ، وَمِنْ اَکْثَرِ مَنْ یَّدْخُلُ فِی ہٰذَا الْوَعِیدِ الْکَفَرَۃُ بِاللّٰہِ وَرَسُولِہٖ، ثُمَّ الرَّافِضَۃُ الَّذِینَ یَتَنَقَّصُونَ الصَّحَابَۃَ ، وَیَعِیبُونَہُمْ بِمَا قَدْ بَرَّاَہُمُ اللّٰہُ مِنْہُ، وَیَصِفُونَہُمْ بِنَقِیضِ مَا اَخْبَرَ اللّٰہُ عَنْہُمْ، فَإِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ اَخْبَرَ اَنَّہ قَدْ رَضِیَ عَنِ الْمُہَاجِرِینَ وَالْـاَنْصَارِ وَمَدَحَہُمْ، وَہٰؤُلَائِ الْجَہَلَۃُ الْـاَغْبِیَائُ یَسُبُّونَہُمْ وَیَتَنَقَّصُونَہُمْ، وَیَذْکُرُونَ عَنْہُمْ مَّا لَمْ یَکُنْ وَلَا فَعَلُوہُ اَبَدًا، فَہُمْ فِی الْحَقِیقَۃِ مَنْکُوسُو الْقُلُوبِ، یَذُمُّونَ الْمَمْدُوحِینَ وَیَمْدَحُونَ الْمَذْمُومِینَ ۔
ترجمہ:حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالی المتوفی : ۷۷۴ھ) لکھتے ہیں کہ یہ بہت بڑا بہتان ہے کہ مومنوں کی عیب جوئی اور تنقیص کے لیے ان کے بارے میں ایسی بات بیان یا نقل کی جائے جس کا انہوں نے ارتکاب نہ کیا ہو۔سب سے بڑھ کر یہ کام وہ لوگ کرتے ہیں،جو اللہ اور اس کے رسولﷺ پر ایمان نہیں لاتے۔کافروں کے بعد اس کام میں رافضیوں کا نمبر ہے،جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تنقیص کرتے ہیں اور ان پر ایسے عیب جوئی کرتے ہیں،جس سے اللہ تعالیٰ نے ان کو بَری فرما دیا ہے۔اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں جو کچھ بتایا ہے،وہ ان کے بارے میں اس کے برعکس بیان کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے تو فرمایا ہے کہ وہ مہاجرین و انصار سے راضی ہو گیا ہے اور اللہ نے ان کی تعریف بھی فرمائی ہے،لیکن یہ جاہل اور بے وقوف لوگ ان کو بُرا بھلا کہتے ہیں،ان کی گستاخیاں کرتے ہیں اور ان کے بارے میں ایسی باتیں بیان کرتے ہیں،جو کبھی معرضِ وجود میں آئی ہی نہیں اور جن کا ارتکاب انہوں نے کبھی کیا ہی نہیں۔درحقیقت ان لوگوں کی عقل و شعور اُلٹ ہو گئی ہے،اسی لیے یہ ممدوح لوگوں کی مذمت اور مذموم لوگوں کی مدح میں مصروف ہیں۔
(تفسیر القرآن العظیم:أبو الفداء إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی البصری ثم الدمشقی (۱:۴۸۰)
محدثین کے دشمن کو سنت کی حلاوت سے محروم کردیاجاتاہے
جَعْفَرَ بْنَ أَحْمَدَ بْنِ سِنَانٍ، یَقُولُ:سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ سِنَانٍ الْقَطَّانَ، یَقُولُ:لَیْسَ فِی الدُّنْیَا مُبْتَدِعٌ إِلَّا وَہُوَ یُبْغِضُ أَہْلَ الْحَدِیثِ فَإِذَا ابْتَدَعَ الرَّجُلُ نُزِعَ حَلَاوَۃُ الْحَدِیثِ مِنْ قَلْبِہِ۔
ترجمہ :امام ابوجعفر احمد بن سنان واسطی رحمہ اللہ المتوفی : ۲۵۹ھ) فرماتے ہیں کہ دنیا میں کوئی بدعتی ایسا نہیں،جومحدثین سے بغض نہ رکھتا ہو۔جب کوئی بندہ بدعتی بن جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے دل سے حدیث کی حلاوت کھینچ لیتا ہے۔
(شرف أصحاب الحدیث:أبو بکر أحمد بن علی بن ثابت بن أحمد بن مہدی الخطیب البغدادی :۷۳)
لبرل محدثین کادشمن ہے
قَالَ: أَبُو عَبْدِ اللَّہِ: وَأَہْلُ السُّنَّۃِ قَاطِبَۃً إِخْوَانُہُمْ، وَأَہْلُ الْإِلْحَادِ وَالْبِدَعِ بِأَسْرِہَا أَعْدَاؤُہُمْ ۔
ترجمہ:امام احمدبن حنبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اہل سنت سارے کے سارے آپس میں بھائی بھائی ہیں،جبکہ گمراہ و بدعتی تمام کے تمام ان کے دشمن ہیں۔(یعنی چاروں مسالک حنفیہ ، شافعیہ ،مالکیہ اورحنبلیہ )
(معرفۃ علوم الحدیث: أبو عبد اللہ الحاکم محمد بن عبد اللہ بن محمد بن حمدویہ بن نُعیم :۶)
محدثین کے دشمن ہی ذلیل ہونگے
اعْتَرَضَتْ طَائِفَۃٌ مِمَّنْ یَشْنَأُ الْحَدِیثَ وَیُبْغِضُ أَہْلَہُ، فَقَالُوا بِتَنَقُّصِ أَصْحَابِ الْحَدِیثِ وَالْإِزْرَاء ِ بِہِمْ، وَأَسْرَفُوا فِی ذَمِّہِمْ وَالتَّقَوُّلِ عَلَیْہِمْ، وَقَدْ شَرَّفَ اللَّہُ الْحَدِیثَ وَفَضَّلَ أَہْلَہُ، وَأَعْلَی مَنْزِلَتَہُ، وَحَکَّمَہُ عَلَی کُلِّ نِحْلَۃٍ، وَقَدَّمَہُ عَلَی کُلِّ عَلْمٍ، وَرَفَعَ مِنْ ذِکْرِ مَنْ حَمَلَہُ وَعُنِیَ بِہِ، فَہُمْ بَیْضَۃُ الدِّینِ وَمَنَارُ الْحُجَّۃِ۔
ترجمہ:امام ابومحمدالحسن الفارسی المتوفی : ۳۶۰ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیںکہ ایک گروہ اٹھا ہے جو حدیث اور محدثین سے بغض رکھتا ہے،انہوں نے محدثین کی تنقیص اور گستاخی شروع کی ہوئی ہے ،یہ لوگ ان کی مذمت کرنے اور ان پر بہتان لگانے میں حد سے بڑھ گئے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے حدیث کو شرف بخشا اور محدثین کو فضیلت عطا فرمائی،اس نے حدیث کا مرتبہ بلند کیا،اسے ہر ملت پر حاکم بنایا،اسے ہر علم پر فوقیت بخشی اور جو لوگ حدیث کو سیکھتے اور اس سے لگائو رکھتے ہیں،ان کو بھی ارفع مقام عطا فرمایا۔یہی لوگ دین کی بنیاد اور دلیل و حجت کے مینار ہیں۔
(المحدث الفاصل بین الراوی والواعی:أبو محمد الحسن بن عبد الرحمن بن خلاد الرامہرمزی الفارسی :۱۶۳)
حق پر کون؟
إِنَّ کُلَّ فَرِیقٍ مِّنَ الْمُبْتَدِعَۃِ إِنَّمَا یَدَّعِی اَنَّ الَّذِی یَعْتَقِدہ ہُوَ مَا کَانَ عَلَیْہِ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، لِاَنَّہُمْ کُلَّہُمْ مُّدَّعُونَ شَرِیعَۃَالْإِسْلَامِ، مُلْتَزِمُونَ فِی الظَّاہِرِ شَعَائِرَہَا، یَرَوْنَ اَنَّ مَا جَائَ بِہٖ مُحَمَّدٌ(ہُوَ الْحَقُّ)، غَیْرَ اَنَّ الطُّرُقَ تَفَرَّقَتْ بِہِمْ بَعْدَ ذٰلِکَ، وَاَحْدَثُوا فِی الدِّینِ مَا لَمْ یَاْذَنْ بِہِ اللّٰہُ وَرَسُولُہ، فَزَعَمَ کُلُّ فَرِیقٍ اَنَّہ ہُوَ الْمُتَمَسِّکُ بِشَرِیعَۃِ الْإِسْلَامِ، وَاَنَّ الْحَقَّ الَّذِی قَامَ بِہٖ رَسُولُ اللّٰہِ ہُوَ الَّذِی یَعْتَقِدہ وَیَنْتَحِلُہ، غَیْرَ اَنَّ اللّٰہَ اَبٰی اَنْ یَّکُونَ الْحَقَّ وَالْعَقِیدَۃَ الصَّحِیحَۃَ إِلَّا مَعَ اَہْلِ الْحَدِیثِ وَالْآثَارِ، لِاَنَّہُمْ اَخَذُوا دِینَہُمْ وَعَقَائِدَہُمْ خَلَفًا عَنْ سَلَفٍ، وَقَرْنًا عَنْ قَرْنٍ، إِلٰی اَنِ انْتَہَوْا إِلَی التَّابِعِینَ، وَاَخَذَہُ التَّابِعُونَ مِنْ اَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَاَخَذَہ اَصْحَابُ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ رَّسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَلَا طَرِیقَ إِلٰی مَعْرِفَۃِ مَا دَعَا إِلَیْہِ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ النَّاسَ مِنَ الدِّینِ الْمُسْتَقیمِ، وَالصِّرَاطِ الْقَوِیمِ، إِلَّا ہٰذَا الطَّرِیقَ الَّذِی سَلَکَہ اَصْحَابُ الْحَدِیثِ، وَاَمَّا سَائِرُ الْفِرَقِ فَطَلَبُوا الدِّینَ لَا بِطَرِیقِہٖ لِاَنَّہُمْ رَجَعُوا إِلٰی مَعْقُولِہِمْ، وَخَوَاطِرِہِمْ، وَآرَائِہِمْ، فَطَلَبُوا الدِّینَ مِنْ قِبَلِہٖ، فَإِذَا سَمِعُوا شَیْئًا مِّنَ الْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ عَرَضُوہُ عَلٰی مِعْیَارِ عُقُولِہِمْ، فَإِنِ اسْتَقَامَ قَبِلُوہُ، وَإِنْ لَّمْ یَسْتَقِمْ فِی مِیزَانِ عُقُولِہِمْ رَدُّوہُ، فَإِنِ اضْطُرُّوا إِلٰی قُبُولِہٖ حَرَّفُوہُ بِالتَّاْوِیلَاتِ الْبَعِیدَۃِ، وَالْمَعَانِی الْمُسْتَکْرَہَۃِ، فَحَادُوا عَنِ الْحَقِّ وَزَاغُوا عَنْہُ، وَنَبَذُوا الدِّینَ وَرَائَ ظُہُورِہِمْ، وَجَعَلُوا السُّنَّۃَ تَحْتَ اَقْدَامِہِمْ، تَعَالَی اللّٰہُ عَمَّا یَصِفُونَ، وَاَمَّا اَہْلُ الْحَقِّ فَجَعَلُوا الْکِتَابَ وَالسُّنَّۃَ إِمَامَہُمْ، وَطَلَبُوا الدِّینَ مِنْ قِبَلِہِمَا، وَمَا وَقَعَ لَہُمْ مِّنْ مَّعْقُولِہِمْ وَخَوَاطِرِہِمْ، عَرَضُوہُ عَلَی الْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ، فَإِنْ وَّجَدُوہُ مُوَافِقًا لَّہُمَا قَبِلُوہُ، وَشَکَرُوا اللّٰہَ حَیْثُ اَرَاہُمْ ذٰلِکَ وَوَفَّقَہُمْ إِلَیْہِ، وَإِنْ وَّجَدُوہُ مُخَالِفًا لَّہُمْا تَرَکُوا مَا وَقَعَ لَہُمْ، وَاَقْبلُوا عَلَی الْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ، وَرَجَعُوا بِالتُّہْمَۃِ عَلٰی اَنْفُسِہِمْ، فَإِنَّ الْکِتَابَ وَالسُّنَّۃَ لَا یَہْدِیَانِ إِلَّا إِلَی الْحَقِّ، وَرَاْیُ الْإِنْسَانِ قَدْ یَرَی الْحَقَّ، وَقَدْ یَرَی الْبَاطِلَ ۔
ترجمہ :امام ابو مظفرمنصور بن محمد،سمعانی المتوفی : ۴۸۹ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیںکہ ہر گمراہ فرقہ یہی دعویٰ کرتا ہے کہ اس کا عقیدہ وہ ہے ،جس پر رسول اللہﷺ کاربند تھے،کیونکہ تمام فرقے شریعت ِاسلام ہی کے دعویدار ہیں اور ظاہری طور پر اسلام ہی کے شعائر پر عمل کرتے ہیں،نیز ان کا یہ عقیدہ ہے کہ رسول اللہ ﷺکی تعلیمات ہی برحق ہیں۔لیکن اس کے باوجود ان کی راہیں (صراطِ مستقیم سے)جدا ہو گئیں اور انہوں نے دین میں وہ وہ چیزیں ایجاد کر لیں جن کی اللہ ورسولﷺ نے اجازت نہیں دی۔ہر فریق نے یہ دعویٰ کیا کہ وہی شریعت ِ اسلام پر کاربند ہے اور وہ حق جسے رسول اللہﷺ لے کر آئے،اسی کے پاس ہے۔ البتہ اللہ تعالیٰ نے حق اور صحیح عقیدے کی دولت سے صرف محدثین کو مالا مال کیا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ محدثین اپنا دین اور اپنے عقائد طبقہ در طبقہ سلف صالحین سے لیتے رہے ہیں، یہاں تک کہ ان کا سلسلہ تابعین عظام تک پہنچ گیا۔تابعین نے دین وعقائدرسول اللہ ﷺکے صحابہ کرام سے لیے اور صحابہ کرام نے رسول اللہ ﷺسے یہ سب کچھ سیکھا۔آپﷺنے جس مضبوط دین اور صراطِ مستقیم کی طرف دعوت دی تھی،اس کی معرفت صرف اسی طریقے سے ممکن ہے ،جسے محدثین نے اپنایا ہے۔باقی تمام فرقوں نے دین کو اس اصل طریقے سے نہیں،بلکہ اپنی عقل وشعور اور رائے سے اخذ کیا ہے۔چنانچہ جب وہ کتاب و سنت کی کسی نص کو سنتے ہیں تو اسے اپنی عقلی کسوٹی پر پیش کرتے ہیں،اگر وہ اس معیار پر درست معلوم ہو تو اسے قبول کر لیتے ہیں،ورنہ ردّ کر دیتے ہیں۔اگر وہ کسی وجہ سے اسے قبول کرنے پر مجبور ہو جائیں تو بعید از کار تاویلات اور غلط معانی کے ذریعے اس میں تحریف پر اُتر آتے ہیں۔یوں یہ باقی فرقے حق سے دُور چلے گئے ہیں،انہوں نے دین کو پس پشت ڈال دیا ہے اور سنت ِرسول کو بے وقعت کر دیا ہے۔ان کے برعکس اہل حق نے کتاب و سنت کو اپنا پیشوا اور دین کا ماخذ بنایا ہے۔ان کی عقل اور رائے جو اختراع کرتی ہے،وہ اسے کتاب و سنت پر پیش کرتے ہیں،اگر اسے کتاب و سنت کے موافق پائیں تو اسے قبول کر کے اللہ کا شکر بجا لاتے ہیں کہ اس نے انہیں درست رائے قائم کرنے کی توفیق بخشی اور اگر وہ اپنی رائے کو کتاب وسنت کے مخالف پائیں تو اسے چھوڑ کر کتاب و سنت کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں اور اس سلسلے میں اپنے آپ کو قصوروار ٹھہراتے ہیں،کیونکہ کتاب و سنت تو حق ہی کی طرف رہنمائی کرتے ہیں،جبکہ عقلِ انسانی کبھی حق کو پاتی ہے اور کبھی باطل کو۔
(الحجۃ فی بیان المحجۃ وشرح عقیدۃ أہل السنۃ:إسماعیل بن محمد ، أبو القاسم، الملقب بقوام السنۃ (۲:۳۲۷)
مزید فرماتے ہیں کہ
وَمِمَّا یَدُلُّ عَلٰی اَنَّ اَہْلَ الْحَدِیثِ ہُمْ عَلَی الْحَقِّ، اَنَّکَ لَوْ طَالَعْتَ جَمِیعَ کُتُبِہِمُ الْمُصَنَّفَۃَ مِنْ اَوَّلِہِمْ إِلٰی آخِرِہِمْ، قَدِیمِہِمْ وَحَدِیثِہِمْ مَعَ اخْتِلَافِ بُلْدَانِہِمْ وَزَمَانِہِمْ، وَتَبَاعُدِ مَا بَیْنَہُمْ فِی الدِّیَارِ، وَسُکُونِ کُلِّ وَاحِدٍ مِّنْہُم قُطْرًا مِّنَ الْـاَقْطَارِ، وَجَدتَّہُمْ فِی بَیَانِ الِاعْتِقَادِ عَلٰی وَتِیرَۃٍ وَّاحِدَۃٍ وَّنَمْطٍ وَاحِدٍ، یَجْرُونَ فِیہِ عَلٰی طَریقَۃٍ لَّا یَحِیدُونَ عَنْہَا، وَلَا یَمِیلُونَ فِیہَا، قَوْلُہُمْ فِی ذٰلِکَ وَاحِدٌ وَّنَقْلُہُمْ وَاحِدٌ، لَا تَرٰی بَیْنَہُمُ اخْتِلَافًا وَّلَا تَفَرُّقًا فِی شَیْئٍ مَّا وَإِنْ قَلَّ، بَلْ لَّوْ جَمَعْتَ جَمِیعَ مَا جَرٰی عَلٰی اَلْسِنَتِہِمْ، وَنَقَلُوہُ عَنْ سَلَفِہِمْ، وَجَدْتَّہ کَاَنَّہ جَائَ مِنْ قَلْبٍ وَّاحِد، وَجَرٰی عَلٰی لِسَانٍ وَّاحِدٍ، وَہَلْ عَلَی الْحَقِّ دَلِیلٌ اَبْیَنُ مِنْ ہٰذَا ؟قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی(اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْآنَ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا)(النساء :۸۲)، وَقَالَ تَعَالٰی :(وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا)(آل عمران:۱۰۳)، وَاَمَّا إِذَا نَظَرْتَ إِلٰی اَہْلِ الْـاَہْوَائِ وَالْبِدَعِ، رَاَیْتَہُمْ مُتَفَرِّقِینَ مُخْتَلِفِینَ اَوْ شِیَعًا وَّاَحْزَابًا، لَا تَکَادُ تَجِدُ اثْنَیْنِ مِنْہُمْ عَلٰی طَرِیقَۃٍ وَّاحِدَۃٍ فِی الِاعْتِقَادِ، یُبَدِّعُ بَعْضُہُمْ بَعْضًا، بَلْ یَرْتَقُونَ إِلَی التَّکْفِیرِ، یُکَفِّرُ الِابْنُ اَبَاہُ، وَالرَّجُلُ اَخَاہُ، وَالْجَارُ جَارَہ، تَرَاہُمْ اَبَدًا فِی تَنَازُعٍ وَّتَبَاغُضٍ وَّاخْتِلَافٍ، تَنْقَضِیْ اَعْمَارُہُمْ وَلَمَا تَتَّفِقُ کَلِمَاتُہُمْ، (تَحْسَبُہُمْ جَمِیْعًا وَقُلُوبُہُمْ شَتّٰی ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ قَوْمٌ لَّا یَعْقِلُوْنَ)(الحشر :۱۴)، اَوَ مَا سَمِعْتَ اَنَّ الْمُعْتَزلَۃَ مَعَ اجْتِمَاعِہِمْ فِی ہٰذَا اللَّقَبِ یُکَفِّرُ الْبَغْدَادِیُّونَ مِنْہُمُ الْبَصَرِیِّینَ، وَالْبَصَرِیُّونَ مِنْہُمُ الْبَغْدَادِیِّینَ، وَیُکَفِّرُ اَصْحَابُ اَبِی عَلِیٍّ الْجَبَائِیِّ ابْنَہ اَبَا ہَاشِمٍ، وَاَصْحَابُ اَبِی ہَاشِمٍ یُّکَفِّرُونَ اَبَاہُ اَبَا عَلِیٍّ، وَکَذٰلِکَ سَائِرُ رُؤُوسِہِمْ وَاَرْبَابُ الْمَقَالَاتِ مِنْہُم، إِذَا تَدَبَّرْتَ اَقْوَالَہُمْ رَاَیْتَہُمْ مُّتَفَرِّقِینَ یُکَفِّرُ بَعْضُہُمْ بَعْضًا، وَیَتَبَرَّاُ بَعْضُہُمْ مِنْ بَعْضٍ، کَذٰلِکَ الْخَوَارِجُ وَالرَّوَافِضُ فِیمَا بَیْنَہُمْ وَسَائِرُ الْمُبْتَدِعَۃُ بِمَثَابَتِہِمْ، وَہَلْ عَلَی الْبَاطِلِ دَلِیلٌ اَظْہَرُ مِنْ ہٰذَا ؟ قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی : (اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَہُمْ وَکَانُوْا شِیَعًا لَّسْتَ مِنْہُمْ فِیْ شَیْئٍ اِنَّمَا اَمْرُہُمْ اِلَی اللّٰہِ)(الانعام۱۵۹)، وَکَانَ السَّبَبُ فِی اتِّفَاقِ اَہْلِ الْحَدِیثِ اَنَّہُمْ اَخَذُوا الدِّینَ مِنَ الْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ وَطَرِیقِ النَّقْلِ، فَاَوْرَثَہُمُ الِاتِّفَاقَ والِائْتِلَافَ، وَاَہْلُ الْبِدْعَۃِ اَخَذُوا الدِّینَ مِنَ الْمَعْقُولَاتِ وَالْآرَائِ، فَاَوْرَثَہُمْ الِافْتِرَاقَ وَالِاخْتِلَافَ، فَإِنَّ النَّقْلَ وَالرِّوَایَۃَ مِنَ الثِّقَاتِ وَالْمُتْقِنِینَ قَلَّمَا یَخْتَلِفُ، وَإِنِ اخْتَلَفَ فِی لَفْظٍ اَوْ کَلِمَۃٍ، فَذٰلِکَ اخْتِلَافٌ لَّا یَضُرُّ الدِّینَ، وَلَا یَقْدَحُ فِیہِ، وَاَمَّا دَلَائِلُ الْعَقْلِ فَقَلَّمَا تَتَّفِقُ، بَلْ عَقْلُ کُلِّ وَاحِدٍ؛ یَّرٰی صَاحِبُہ غَیْرَ مَا یَرَی الْآخَرُ، وَہٰذَا بَیِّنٌ ۔
ترجمہ :محدثین کے اہل حق ہونے کے دلائل میں سے ایک دلیل یہ ہے کہ اگر آپ ان کی اول و آخر اور قدیم و جدید تمام کتابوں کا مطالعہ کرلیں،تو باوجود ان کے علاقوں اور زمانوں کے مختلف ہونے اور ان کے باہمی فاصلوں اور دنیا کے مختلف کونوں میں رہائش پذیر ہونے کے،آپ ان کو ایک ہی طرز اور طریقے پر عقائد کا بیان کرتے پائیں گے، ان کا منہج ایک ہی ہو گا،جس سے وہ کبھی نہیں ہٹیں گے۔عقائد میں ان کا قول اور دلیل ایک ہی ہو گی،ان کے مابین کوئی معمولی سا اختلاف و انتشار بھی آپ تلاش نہیں کر سکتے۔اس سے بھی بڑھ کر یہ بات کہ اگر آپ ان کی زبانوں سے نکلی ہوئی اور ان کی اپنے سلف سے نقل کردہ تمام باتیں جمع کر لیں،تو آپ کو یوں محسوس ہو گا کہ وہ ایک ہی دل سے نکل کر ایک ہی زبان پر جاری ہوئی ہیں۔کیا کسی کے حق ہونے پراس سے بڑھ کر بھی کوئی دلیل ہو گی؟اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :{اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْآنَ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِغَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا}(النساء :۸۲)کیا وہ قرآن پر غور نہیں کرتے، اگر وہ غیراللہ کی طرف سے ہوتا تو وہ اس میں بہت زیادہ اختلاف پاتے)۔نیز فرمایا :{وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا}(آل عمران :۱۰۳)اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو)۔اس کے برعکس جب آپ اہل بدعت کو دیکھیں گے تو ان کو تفرقہ و اختلاف میں مبتلا اور گروہوں میں بٹے ہوئے پائیں گے۔عقائد کے معاملے میں ان میں سے کسی دو کو بھی آپ کسی ایک منہج پر متفق نہیں پائیں گے۔ آپ دیکھیں گے کہ ان میں سے ایک دوسرے کو بدعتی کہتا ہے،بلکہ وہ ایک دوسرے کی تکفیر تک پہنچ جاتے ہیں۔بیٹا اپنے باپ کو،بھائی اپنے بھائی کو اور پڑوسی اپنے پڑوسی کو کافر قرار دیتا نظر آتا ہے۔وہ ہمیشہ جھگڑے اور بغض و عناد میں مبتلا رہتے ہیں۔ان کی عمریں گزر جاتی ہیں،لیکن کسی ایک بات پر جمع نہیں ہوپاتے۔ایسے ہی لوگوں کے بارے میں فرمانِ باری تعالیٰ ہے:{تَحْسَبُہُمْ جَمِیْعًا وَقُلُوبُہُمْ شَتّٰی ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ قَوْمٌ لَّا یَعْقِلُوْنَ}(الحشر :۱۴)(آپ انہیں متفق سمجھتے ہیں،لیکن ان کے دل جدا جدا ہیں،اس لیے کہ یہ بے شعور قوم ہیں) کیا آپ کو معلوم نہیں کہ تمام معتزلہ لقب اعتزال میں متحد تھے،اس کے باوجود بغداد کے معتزلہ بصرہ کے معتزلہ کو کافر کہتے ہیں اور بصرہ والے بغداد والوں کو،ابو علی جبائی کے اصحاب اس کے بیٹے ابوہاشم کو کافر کہتے ہیں اور ابوہاشم کے اصحاب اس کے باپ ابو علی کو کافر قرار دیتے ہیں۔یہی حال ان کے باقی اکابر اور اہل قلم کا ہے۔جب آپ گمراہ لوگوں کے اقوال پر غور کریں گے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ وہ متفرق ہیں،ایک دوسرے کو کافر کہتے ہیں اور ایک دوسرے سے براء ت کا اظہار کرتے ہیں۔خوارج ،روافض اور تمام اہل بدعت کی صورت ِحال ایسی ہی ہے۔ کیا ان کے باطل ہونے پر اس سے بھی بڑی کوئی دلیل ہو گی؟اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :{اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَہُمْ وَکَانُوْا شِیَعًا لَّسْتَ مِنْہُمْ فِیْ شَیْئٍ اِنَّمَا اَمْرُہُمْ اِلَی اللّٰہ}(الانعام: ۱۵۹)بلاشبہ جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور گروہوں میں بٹ گئے،آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں،ان کا معاملہ تو اللہ ہی کے سپرد ہے)۔محدثین کے متفق ہونے کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے اپنا دین کتاب و سنت سے نقل در نقل کے ذریعے اخذ کیا ہے۔قرآن و سنت نے ان میں اتفاق و اتحاد پیدا کر دیا،جبکہ اہل بدعت نے اپنا دین عقل اور رائے سے اخذ کیا اور عقل و رائے نے ان میں تفرقہ و اختلاف پیدا کیا۔کیونکہ ثقہ و بااعتماد راویوں کی نقل و روایت میں کم ہی اختلاف ہوتا ہے اور جو اختلاف ہوتاہے،وہ بھی لفظی ہوتا ہے، جوکہ دین میں مضر اور قابل قدغن نہیں ہوتا۔اس کے بالمقابل عقلی دلائل کم ہی متفق ہوتے ہیں،بلکہ ہر شخص کی عقل وہ سوچتی ہے جو دوسرے نہیں سوچتے۔یہ بالکل واضح بات ہے۔
(الحجۃ فی بیان المحجۃ وشرح عقیدۃ أہل السنۃ:إسماعیل بن محمد ، أبو القاسم، الملقب بقوام السنۃ (۲:۳۲۷)
جس نے سنت کو ترک کیاوہ گمراہ ہوگیا
قَالَ أَبُو حَاتِمٍ: فِی قَوْلِہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ’’فَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتیِ‘‘ عِنْدَ ذِکْرِہِ الِاخْتِلَافَ الَّذِی یَکُونُ فِی أُمَّتِہِ بَیَانٌ وَاضِحٌ أَنَّ مَنْ وَاظَبَ عَلَی السُّنَنِ قَالَ بِہَا وَلَمْ یُعَرِّجْ عَلَی غَیْرِہَا مِنَ الْآرَاء ِ مِنَ الْفِرَقِ النَّاجِیَۃِ فِی الْقِیَامَۃِ جَعَلَنَا اللہ منہم بمنہ۔
ترجمہ :امام،ابوحاتم،محمدبن حبان،ابن حبان،تمیمی المتوفی : ۳۵۴ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیںکہ جو شخص سنت کی پابندی کرتا ہے،سنت ہی کے مطابق اپنا مذہب بناتا ہے اور سنت کو چھوڑ کراپنی عقل کے پیچھے نہیں چلتا،وہ قیامت کے دن فرقہ ناجیہ میں سے ہو گا۔اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں بھی اس میں شامل فرمائے۔
( صحیح ابن حبان: محمد بن حبان بن أحمد بن حبان أبو حاتم، الدارمی، البُستی (ا:۱۷۹)
تیسرامسئلہ
چونکہ اللہ تعالی نے حضرت سیدناآدم علیہ السلام کو خلافت سے نوازاتو آپ علیہ السلام کی خلافت وسیاست کادشمن سب سے پہلے شیطان بنا، اوریہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ اللہ تعالی کے انبیاء کرام علیہم السلام اس کائنات ارضی پرسیاست کرتے رہے ہیں مگراہل کفر نے ہمیشہ ان کی مخالفت کی ہے جیساکہ شیطان نے کی تھی ۔ اوراسی طرح آج بھی جو علماء اس بات کا تقاضہ کرتے ہیں کہ سیاست علی منہاج الخلافہ ہونی چاہئے توشیاطین اوراس کے چیلے ان کی مخالفت پر کمربستہ ہوجاتے ہیں کہ علماء کرام کاکیاکام ہے سیاست میں وغیرہ وغیرہ ۔
یہ مسئلہ یعنی سیاسی امور میں مداخلت ان اعلیٰ مقاصد میں شامل ہے جن کے لئے انبیاء کرام علیہم السلام مبعوث ہوئے تھے۔ عدل وانصاف کا قیام، کیا لوگوں کے لئے عدل و انصاف فراہم کرنا سیاسی امور میں مداخلت کے بغیر ممکن ہے ؟ کیا سیاست میں مداخلت کے بغیر معاشرتی امور میں دخل اندازی کے بغیر اقوام ملل کی ضرورتوں کو پوا رکرنے کے لئے آگے بڑھے بغیر عدل وانصاف قائم ہوسکتا اور (لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ)کا مصداق حاصل ہو سکتا ہے؟
یہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ اللہ تعالی کے ہرہر نبی (ﷺ)نے سب سے پہلے طاغوتوں اور ظالموں کے خلاف تحریک چلائی ہے، چنانچہ حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام فرعون سے مقابلے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے،رسول اللہ ﷺ نے مکہ کے استعماری طاقتوں سے مقابلہ کیا اور اگر رسول اللہ ﷺصرف مسائل دین بیان فرماتے رہتے اور اگر دین صرف عبادت کے مسائل پر منحصر ہوتا تو مکہ کی جابر قوتیںرسول اللہ ﷺ سے تعارض نہ کرتیں اور نہ ہی فرعون حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے الجھتا اور نہ ہی نمرود حضرت سیدناابراہیم علیہ السلام سے لڑائی کرتااورنہ ہی آپ علیہ السلام کو آگ میں ڈالتا اورنہ ہی یزید اور حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے درمیان مقابلہ ہوتا۔
رسول اللہ ﷺ نے دین کی بنیاد سیاست کے ڈھانچے پر کھڑی کی۔ ابتدائے اسلام کی سیاست ایک عالمی سیاست تھی۔ رسول اللہ ﷺ دنیا کے اطراف و اکناف کی طرف اپنے دستہائے مبارک کو بڑھاتے ہوئے ایک عالم کو اسلام اور اسلامی سیاست کی جانب دعوت دیتے رہے۔ انہوں نے حکومت قائم کی اور خلفا ء راشدین رضی اللہ عنہم نے بھی حکومت قائم کی۔ابتدائے اسلام میں رسول اللہ ﷺ کے زمانے سے لے کر اس وقت تک کبھی انحراف پیدا نہیں ہوا تھا سیاست اور دین کا چولی دامن کا ساتھ تھا۔
جاہل لوگوں کا یہ کہنا کہ علماء کرام کو سیاست میں دخل اندازی نہیں کرنا چاہئے تاکہ ان کا تقدس بحال رہے، غلط اور دشمن کی ایک بڑی سازش تھی جس کے ذریعے وہ پوری تاریخ میں معاشرے کی حقیقی قوتوں اور سیاست و حکومت کے اصل مالکوں کو بے دخل کر نے کے لئے کوششیں بروئے کار لاتے رہے اور بعض مراحل پر وہ اس میں کامیاب بھی رہے ہیں ۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بہت سے لوگ اس نکتے سے غافل رہے کہ رسول اللہ ﷺ اور حضرت سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ اورحضرت سیدناعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اورحضرت سیدناعثمان غنی رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ سیاستدان بھی تھے۔ کیاانہوں نے حکومت قائم نہیں کی؟ اور اطراف و اکناف میں عامۃ الناس کی طرف سرکاری عہدیداروں اور اپنے گورنروں کو نہیں بھیجا؟ اور کیا انہوں نے اللہ تعالی کی حدود و تعزیرات لاگو نہیں کیں ؟ اور وہ مسلمانوں کے مالی محصول جمع اور خرچ نہیں کرتے رہے؟ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام اور ائمہ ان مسائل پر بھی توجہ مبذول کرتے تھے اور اپنی سیاسی ذمہ داریاں نبھانے کے ساتھ ساتھ وہ تقدس ، تقویٰ و پرہیزگاری کی اعلیٰ و اکمل منازل پر بھی فائز تھے۔
یہ بات لازم ہے جب آپ اس طرح کی کوشش اورجدوجہد کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺکادین مبارک تخت پرآجائے تو ہمیں اس بات کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے کہ ہم میںسے ایک لاکھ افراد بھی مارے جائیں تاکہ ان (دشمنوں )کا ظلم و ستم ختم کریں اور اسلامی مملکت سے ان کے ہاتھ کاٹ پھینکیں تو یہ قابل قدر کام ہے اور اس راہ میں انبیاء کرام علیہم السلام اور سید الشہداء امام حسین رضی اللہ عنہ کا اقدام ہمارے لئے بین حجت ہے۔
بدیہی امر ہے کہ دشمنوں کے خلاف جہاد اور جد و جہد کی راہ میں جانی اور مالی نقصانات اٹھانے پڑتے ہیں ۔ تاریخ کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام نے اس راہ میں اپنی جان ، خاندان اور خویش و اقارب کو دائوپر لگا کر ہر قسم کے مصائب و آلام جھیلے، انبیاء کرام علیہم السلام اورعلماء ومشائخ کرام کی سیرت کے عملی پہلوئوں سے ہمیں ، ظالم و آمر اور جابر طاقتوں کے خلاف جدو جہد کا درس ملتا ہے اور ہمیشہ اہل حق علماء ومشائخ کرام کے ساتھ صر ف اورصرف وہی لوگ کھڑے ہوں گے جو انتہائی غریب اورمحروم لوگ ہوں گے ،جبکہ امیر اور دولتمند افراد طاغوتی طاقتوں سے تعلق رکھتے تھے اور وہ ان کے شانہ بشانہ مقابلہ کرتے ہوئے جان بہ جان آفریں سپرد کرتے تھے۔
اوراگرہم اپنی تاریخ اٹھاکردیکھیں کہ ہمارے کتنے ائمہ کرام اورعلماء عظام صرف اسی جدوجہد میں شہید ہوئے ہیں اور یہ ایسے حقائق ہیں جن کا سیاست میں دخل اندازی کے بغیر اجاگر ہونا ممکن نہیں اور یہی سب سے بڑی دلیل بھی ہے۔
کیا آپ نے کبھی ایسے بے دین، شرابی، اور اوباش شخص کو دیکھا ہے جو الیکشن لڑتا ہو، ووٹ مانگتا ہوحالانکہ اس نے جو راستہ اختیارکیاہے وہ درست نہیںہے لیکن یہ کہتا ہو کہ میں سیاسی آدمی نہیں ہوں!دوسری طرف آپ نے کسی ایسے شخص کو ضرور دیکھا ہوگا کہ جو نمازی، پرہیزگار اور دیندار ہونے کے ساتھ ساتھ یہ کہتا ہو کہ میں سیاسی آدمی نہیں ہوں!ایسا دیندار آدمی جو اپنے آپ کو غیر سیاسی کہتا ہے، اس کے نزدیک دین فقط عبادات اور طہارت و نجاسات تک محدود ہے۔ لہذا انسان کو عبادات اور طہارت و نجاسات کے علاوہ بھی تمام تر امور میں خصوصاً سیاسی و اقتصادی معاملات میں اللہ تعا لی کے رسول ﷺ کی پیروی کرنی چاہئے ۔ ایسے لوگ دین کو دنیا چلانے کے لئے ناکافی سمجھتے ہیں، حالانکہ رسول اللہ ﷺنے دینی حکومت قائم کرکے دکھائی بھی ہے۔
ہمارے ہاں اکثریت کو یہ بھی معلوم نہیں کہ سیاست اور علومِ سیاسی میں کیا فرق ہے؟ دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سارے لوگ اگرچہ سیاست کانام لیتے ہیں لیکن سیاست کو منافقت سمجھتے ہیں۔ عام طور پر لوگ سیاست کو ایک گالی اور طعنہ سمجھتے ہیں، مثلاً اگر کسی محفل میں ایک عالم دین کا یہ تعارف کروایا جائے کہ یہ سیاسی مولوی ہیں تو اس سے لوگوں پر مثبت کے بجائے منفی اثر پڑتا ہے۔
اب آیئے اس مسئلے کے حل کی طرف چلتے ہیں، لوگوں کو دینِ سیاسی کا شعور دینے کے لئے ایک جہدِ مسلسل کی ضرروت ہے، تمام انبیائے کرام علیہم السلام اسی لئے مبعوث ہوئے کہ لوگوں کے شعور میں اضافہ کریں اور مستضعفین کو مستکبرین سے نجات دلائیں۔ اس کے بدلے میں لوگ حضرات انبیائے کرام علیہم السلام کو پتھر مارتے تھے، گالیاں دیتے تھے، طعنے دیتے تھے اور قتل کرتے تھے۔ لوگوں کا یہی رویہ انبیائے کرام علیہم السلام کے نائبین یعنی علماء کرام کے ساتھ بھی رہا۔ ہردور میں اس پیغام کو دہرانے کی ضرورت ہے کہ سیاست سے مراد سرپرستی کرنا، تدبیر کرنا، عدل و انصاف قائم کرنا ہے اور علومِ سیاسی سے مراد ایسے علوم ہیں، جو معاشرے کی مدیریت، اجتماعی فعالیت، سرپرستی، تنظیم اور تدبیر سے تعلق رکھتے ہیں۔ حسنِ اتفاق سے دینِ اسلام کا سارا ہم و غم ہی انسانی زندگی کو انفرادی، اجتماعی اور عبادی لحاظ سے منظم کرنا ہے۔ چنانچہ دینِ اسلام اور سیاست ایک ہی چیز ہیں۔
ارسطو نے علم سیاست کو حکومت کے مطالعے کا علم قرار دیا ہے اور رسول اللہ ﷺنے اسلامی تعلیمات کے مطابق حکومت قائم کرکے دکھائی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ زمانہ قدیم سے ہی انبیائے کرام علیہم السلام عوام کو طاغوتی اور ظالم بادشاہوں کے خلاف سیاسی شعور دیتے چلے آئے ہیں۔ سیاست کا ہدف ہی عوام کو طاقتور کرنا ہے، انبیائے کرام علیہم السلام اور دینِ اسلام کا ہدف بھی یہی ہے کہ مستضعف لوگوں کو اتنا باشعور کیا جائے کہ وہ ظالم حکمرانوں کے مقابلے میں طاقتور ہو جائیں۔ لغت میں سیاست سے مراد مخلوق کے امور کی اصلاح کرنا، حکومت کے کاموں کی مدیریت کرنا، ملک کے داخلی اور خارجی معاملات کی دیکھ بھال کرنا، عوام کے حقوق و فرائض اور سزا و جزا کو منظم کرنا ہے اور جو مذکورہ امور میں بصیرت، دانائی اور تجربہ رکھتا ہو، اسے سیاستدان کہتے ہیں۔انسان ایک حیوانِ سیاس ہے اور انسان کی فطرت میں ہے کہ وہ خود بھی اور دوسروں کو بھی درپیش خطرات سے نجات دلانا چاہتا ہے۔ اس وقت انسانی معاشرے کو سب سے بڑا خطرہ یہ لاحق ہے کہ وہ سعادت و خوش بختی سے دور ہوتا جا رہا ہے، لہٰذا کمال، سعادت اور خوش بختی کی پٹڑی سے اترے ہوئے اس معاشرے کو دینِ سیاسی اور سیاستِ دینی کا فرق سمجھایا جانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
سیاست اور اسلام کے بارے بہت سے نظریات موجود ہیں، مگر موجودہ دور میں ایک نظریہ یہ ہے کہ اسلام باقی مذاہب کی طرح انسان کا ذاتی معاملہ ہے اور اس کا تعلق اس کی اپنی ذات سے ہے، سیاست اور اقتدار کا مذہب سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے، اس نظریہ کو سیکولرازم کہا جاتا ہے، عیسائی تھیوکریسی کے ردعمل کے طور پر اپنائے جانے والے اس نظریے کو اور تقویت ان حلقوں کی جانب سے بھی ملی، جنہوں نے اپنا اور لوگوں کا سارا محور عبادات و عقائد اور اخلاقیات کی درستگی پر رکھا، انہوں نے ہر اس شخص پر تنقید کی، جس نے کسی بھی سیاسی سرگرمی میں دلچسپی ظاہر کی، ان کے بقول دیندار شخص کا بھلا سیاست سے کیا تعلق؟ حالانکہ اسلام عقائد و عبادات تک نہیں بلکہ مالیاتی معاملات اور سیاست کے بارے میں بھی بہت اہم احکامات بتلاتا ہے اور ان کے بغیر اسلام کا جامع تصورناممکن ہے ۔
آج جو مولوی یہ کہتاہے کہ سنتِ نبوی ﷺصرف اور صرف لباس پہننا ، حلیہ اور کھانے پینے کے طریقے کا نام ہے وہ جھوٹ بولتا ہے ، حلیہ ، لباس ، کھانے پینے کا طریقہ ، رسول اللہ ﷺکی سنتوں کا صرف ۱۰فیصد حصہ ہے ، باقی ۹۰فیصد جدوجہد ، معاشرے کی برائیوں کو ختم کرنے کی کوششیں ، معاشرے میں ظالموں کی زد سے غلاموں کو بچانے کی کوششیں ، امور حکومت ، امور جہاد ، امور انصاف ، امور معیشت ہیں ، جو کہ ایک انتہائی لمبا اور کٹھن راستہ ہے اس لیے مولویوں نے۱۰ فیصد سنتوں ، حلیہ ، لباس ، کھانے پینے کے طریقے کو ہی کل سنت قرار دے کر سخت اور پرخطر راستے سے اپنی جان بچائی ہوئی ہے ، لیکن خود کہتے ہیں :ایک بھی سنت کا تارک ولی اللہ نہیں ہوسکتا :
جبکہ خود ۹۰فیصد سنتوں کے تارک ہیں ، خیرات و داد رسی بھی رسول اللہ ﷺکی سنت ہے ، معاشرے میں ظلم بڑھ جائے تو اسکے خلاف لڑنا بھی سنت رسول ﷺہے ، دشمنوں سے حکمت کے تحت معاھدے کرنا بھی رسول اللہ ﷺکی سنت ہے ، دشمنوں سے جنگ کرنا بھی سنت ِ رسول ﷺہے ، دشمنوں کو معاف کردینا بھی حضورﷺکی سنت ہے ،اوراسی طرح اپنے گستاخوں کوقتل کروانابھی رسول اللہ ﷺکی سنت کریمہ ہے اور کار ِ حکومت چلانا بھی رسول اللہ ﷺکی سنت ہے ، لیکن ہمارے علماء نے سیدھا سیدھا راستہ نکالا کہ:’’جس دن خلافتِ راشدہ کا نظام آگیا نا ؟ اس دن سب سے بڑا سیاستدان میں ہوں گا‘‘
خداکے بندو!کیا خلافتِ راشدہ کا نظام اوپر سے گرے گا ؟ یا صبح کو اچانک ہماری آنکھ کھلے گی اور خلافت قائم ہوجائے گی ؟ یہ تو ویسی ہی بات ہوگئی کہ جیسے تحریک پاکستان میں ایک انچ کوشش نہ کرنے والا اسکندر مرزا اور بھٹو خاندان ، شریف خاندان اور دوسرے خاندان پاکستان بننے کے بعد بڑے بڑے سیاستدان بن گئے ، لیکن انکو توفیق نہ ہوئی کہ پاکستان بنانے کے لیے اپنا ایک آنہ اور ایک فرد بھی قربان کریں ، تو اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺکی سنت کو کیسے’’قائم‘‘کیا جائے ۔ مطلب کس طرح سے رسول اللہ ﷺکے طریقہ حکومت کو پاکستان میں رائج کیا جائے ، یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے نہ کہ یہ کہ نظام بحال ہونے کے بعد کون کون سا مولوی سیاست کرے گا ۔
خدا کے لیے آنکھیں کھولو جب تک معاشرے میں یہ نظام نافذ ہے تب تک تمہارا اس ۱۰ فیصد سنت پر چلنا جو کہ حلیے لباس اور کھانے پینے کے طریقے سے متعلق ہے کوئی بڑا کارنامہ نہیں داڑھی تو سکھ ،یہودی اور عیسائی بھی رکھ لیتے ہیں کچے برتنوں میں تو ہندو سادھو ، جوگی اور تارک دنیا عیسائی راہب بھی کھا لیتے ہیں ، سر پر پگڑی تو آج سے۱۰۰سال پہلے پورا پنجاب پہنتا تھا رسول اللہ ﷺکے عاشق ہو تو رسول اللہ ﷺکی صرف آسان سنتوں پر اکتفا کرکے نا بیٹھ جاؤ اس مشکل اور کٹھن سنت کو زندہ کرو جو حضرت سیدناامام حسین رضی اللہ عنہ نے کی تھی ۔
انبیاء کرام علیہم السلام کی سیاست
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ، عَنْ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ بَنِی إِسْرَائِیلَ کَانَتْ تَسُوسُہُمُ الْأَنْبِیَاء ُ إِذَا مَاتَ نَبِیٌّ قَامَ نَبِیٌّ مَکَانَہُ، وَإِنَّہُ لَا نَبِیَّ بَعْدِی ، قَالُوا: فَمَا یَکُونُ یَا رَسُولَ اللَّہِ قَالَ: خُلَفَاء ُ وَیَکْثُرُوَا فَأَدُّوا إِلَیْہِمْ حَقَّہُمْ وَسَلُوا اللَّہَ الَّذِی لَکُمْ۔
ترجمہ :حضرت سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: بنی اسرائیل کے انبیاء کرام علیہم السلام اپنی قوموں کے نبی ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی قائد بھی تھے، جب ایک نبی دنیا سے تشریف لے جاتے تو دوسرے نبی ان کی جگہ آجاتے ۔
اوررسول اللہ ﷺنے فرمایا:اورپہلے انبیاء کرام علیہم السلام میں نبوت کاتسلسل تھااس لئے ایک نبی کے بعد دوسرے نبی آتے تھے لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گاتوصحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی: یارسول اللہ ﷺ! اگرآپ ﷺکے بعد کوئی نبی نہیں آئے گاتو پھراس خلاء کو کون پرکرے گا؟ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: میرے بعد یہ منصب اور ذمہ داری خلفاء نبھائیں گے، یعنی میرے بعد خلافت کا نظام ہوگا اور خلفاء کا سلسلہ ہوگا جو نبوی ذمہ داریوں کو سنبھالیں گے۔
(مسند إسحاق بن راہویہ:أبو یعقوب إسحاق بن إبراہیم بن مخلد بن إبراہیم الحنظلی(۱:۲۵۶)
جو لوگ مذہب اور سیاست کو الگ الگ چیزیں سمجھتے ہیں وہ ذرا قدیم تاریخ کے اوراق کھولیں،اسلامی تاریخ اور حوالے بعدمیں سب سے پہلے اہلِ مغرب کی تاریخ کا مطالعہ کیجیے جن سے آپ نے سیاست اور دین کی علیحدگی کافلسفہ مستعار لیا ہے،قوم یہود (بنی اسرائیل)کی تاریخ ملاحظہ فرمائیے،بنی اسرائیل کی سیاست ہمیشہ ان کے انبیائے کرام علیہم السلام کے ہاتھ میں رہی ہے،حضرت سیدناسلیمان علیہ السلام،حضرت سیدنا داؤدعلیہ السلام،حضرت سیدنایوسف علیہ السلام ،حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل میں مشہور پیغمبر و رسول اور بادشاہ گزرے ہیں۔اس لئے یہ فلسفہ کہ دین اور سیاست دو الگ الگ چیزیں ہیں انتہائی لغو،جھوٹا اور بے بنیاد ہے،اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے اور نہ اس کا کوئی سر پیر ہے۔یہ فلسفہ اہل مغرب نے اس لئے ایجاد کیا کہ انکے مذہبی پروہتوں نے بڑی چال اور تدبیر کے ساتھ اقتدار اور حکومتوں میں نفوذ کیا اور اپنے اوچھے ہتھکنڈوں سے حکمرانوں کے اختیارات غیر اعلانیہ طور پر ہتھیائے۔ان لوگوں نے مذہب کے نام پر خود کو مرکز نگاہ بنایا،لوگوں کا اعتماد حاصل کیا،لوگوں نے ان کے پاس اپنی امانتیں رکھوانی شروع کردیں ،ان امانتوں کو انہوںنے سود پر بطور قرض دینا شروع کیا اور بہت جلد اتنی دولت اکٹھی کرلی کہ یہ حکمرانوں کو قرض دینے لگے،دنیا کا سب سے پہلا بنک اور پہلی (ابتدائی)کرنسی (رسیدات کی شکل میں)ان لوگوں نے متعارف کرائی،چونکہ بادشاہوں کو قرض دیتے تھے لہذا بادشاہوں سے بعض شرائط بھی منواتے رہے، ہوتے ہوتے یورپین ممالک میں یہ اتنے طاقتور ہوگئے کہ بادشاہ کے نام پر ٹیکس جمع کرتے تھے یعنی ٹیکس کلکٹر بن گئے،اور صرف عائد کردہ ٹیکسز کی وصولی پر ہی اکتفا نہیں کرتے تھے بلکہ اپنی ہوس کی تسکین کے لئے تحائف کے نام پر مزید کا مطالبہ بھی کرتے تھے بلکہ اس وقت تک نہ ٹلتے تھے جب تک کہ اپنا مطالبہ پورا نہ کروالیتے،بادشاہوں اور حکومتوں کو اپنے قابو میں رکھنے کے لئے یہ حکومتوں کو آپس میں لڑاتے بھی تھے کیونکہ ممالک کی آپس کی لڑائی میں ہی انکے کاروبار کی بقا تھی،انہوں نے بادشاہوں اور حکومتوں کو اپنے دام میں بری طرح پھنسا لیا تھا،یہی نہیں اخلاقی طور پر پستیوں کی جس اتھاہ گہرائیوں اور دلدل میں یہ دھنسے ہوئے تھے وہ ناقابل بیان ہے،یہی وجہ ہے کہ تنگ آکر انکے خلاف تحریک شروع ہوئی جو بالآخر فرانس کے بادشاہ فلپس چہارم کے دور میں کامیابی سے ہمکنار ہوئی،جیکس ڈی مولائے جو اس گروہ کا آخری گرینڈ ماسٹر تھا کو ہلکی آنچ پر جلاکر کباب بنادیا گیا،اور پھر کلیسا کو اقتدار سے بے دخل کردیا گیا،کلیسا کی اقتدار سے بے دخلی محض اس گروہ کی استحصالی پالیسیوں کی وجہ سے ہوئی۔ہمارے دیسی لبرلز اور سیکولرز جو اچھل اچھل کر اور گلے پھاڑ پھاڑ کر اسلام بیزاری کا اظہار کررہے ہوتے ہیں اور دین و سیاست الگ الگ چیزیں ہیں جیسے رٹے رٹائے جملے بول رہے ہوتے ہیں تو حقیقتاً نہ تو انہیں ٹمپلرز(فری میسنز)کی تاریخ کا کچھ علم ہوتا ہے اور نہ ہی ان کے اصل مقاصد کا انہیں کچھ پتا ہوتاہے۔
معارف ومسائل
(۱) اس سے معلوم ہواکہ سب سے پہلاکافر اللہ تعالی کے پاک نبی علیہ السلام کی توہین کرنے پر ہوا۔
(۲) قیامت تک جتنے بھی لوگ رسول اللہ ﷺکی یاکسی بھی نبی علیہ السلام کی گستاخی کریں گے وہ سارے کے سارے اسی شیطان کے چیلے اوراس کی روحانی اولاد ہیں۔
(۳) اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ اللہ تعالی نے شیطان کو حضرت سیدناآدم علیہ السلام کی گستاخی کرنے پر اسی وقت اس کاجسم خنزیروالااورمنہ بندروالابنادیا۔
(۴)جو لوگ رسول اللہ ﷺکے گستاخ ہیں اس دنیامیں ان کے چہرے مسخ ہوجائیں گے یاپھرقیامت کے دن جب اٹھیں گے تو ان کی شکلیں بدلی ہوئی ہوں گی ۔
(۵) یہ بھی معلوم ہواکہ جو شخص اللہ تعالی کے پاک لوگوں کی بے ادبی کرتاہے اللہ تعالی اسے بہت سخت سزادیتاہے ۔
(۶) سب سے پہلالعنتی حضرت سیدناآدم علیہ السلام کی گستاخی کی وجہ سے بنا۔
(۷) سب سے پہلاتکبربھی نبی (علیہ السلام) کے مقابلے میں کیاگیا۔
(۸) اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ جو شخص اللہ تعالی کے نبی علیہ السلام کی توہین کرتاہے یاان کی عزت کرنے سے انکارکرتاہے وہ کافرہوجاتاہے ۔
(۹) اللہ تعالی کی سب سے پہلی نافرمانی یہی ہوئی کہ اس نے تعظیم نبی علیہ السلام سے انکارکیا۔
(۱۰) اپنے آپ کو اہل اللہ سے افضل سمجھناشیطان کاکام ہے ۔
(۱۱) اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ اللہ تعالی کے پاک نبی علیہ السلام کی تعظیم کرنے کاکتنابڑااجر ہے ۔
(۱۲)شیطان سے ایک کفرتویہ ہواکہ وہ اللہ تعالی کے حکم کاانکارکرکے ضرورت دینی کامنکرہوا۔
(۱۳) شیطان نے ایک کفریہ کیاکہ اس نے اللہ تعالی کے حکم شریف کو خلاف مصلحت وحکمت سمجھا۔
(۱۴) شیطان سے ایک کفریہ ہواکہ اس نے اپنے تکبروسرکشی کو اللہ تعالی کے حکم پر عمل کرنے سے بہترسمجھا۔
(۱۵) شیطان نے بوجہ تکبراللہ تعالی کے حکم شریف کو اپنے لئے براسمجھاکیونکہ اس کے خیال میں وہ حضرت سیدناآدم علیہ السلام سے افضل تھااورحضرت سیدناآدم علیہ السلام مفضول تھے لھذامفضول کی تعظیم کاحکم دینااس کے نزدیک براتھا۔ نعوذباللہ من ذلک ۔
(۱۶)اللہ تعالی کے انبیاء کرام علیہم السلام کی تعظیم کرناملائکہ کرام علیہم السلام کی سنت مبارکہ ہے ۔
(۱۷) جو شخص اللہ تعالی کے نبی ﷺکی عزت کرتاہے اللہ تعالی اسے قرآن کریم کی خدمت کے لئے منتخب فرمالیتاہے ۔
(۱۸) اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ اللہ تعالی کے انبیاء کرام علیہم السلام کی طرف پیٹھ کرکے کھڑے ہوناشیطان کاطریقہ ہے ۔
(۱۹) اس سے علماء کرام جوکہ انبیاء کرام علیہم السلا م کے وارث ہیں کی طرف پیٹھ نہ کرناثابت ہوتاہے ۔
(۲۰) اس سے معلوم ہواکہ اہل علم کادشمن ہوناشیطان کاکام ہے ۔
(۲۱) اللہ تعالی کے نبی حضرت سیدناآدم علیہ السلام کی سیاست کاسب سے پہلادشمن شیطان تھا۔ کیونکہ اس کو معلوم تھاکہ اگرسیاست ان کے ہاتھ آگئی تو پھرلوگ راہ حق پر قائم رہیں گے ، اسی وجہ سے آج بھی دنیائے کفرکے بڑے بڑے بدمعاش علماء کرام کی سیاست سے خوف زدہ ہیں۔ جیسے حضورامیرالمجاہدین فضیلۃ الشیخ مولاناحافظ خادم حسین رضوی حفظہ اللہ تعالی سے دنیاکاہر طرح کاکافرومشرک پریشان ہے ۔
(۲۲) تمام اہل اسلام کااس بات پر اتفاق ہے کہ حضرت سیدناآدم علیہ السلام کو کیاجانے والاسجدہ ’’سجدہ تعبدی ‘‘ نہیں تھابلکہ یہ سجدہ تعظیمی تھا۔
(۲۳) سجدہ تعظیمی بھی ہماری شریعت مبارکہ میں حرام ہے ۔ اوریہ بھی یادرہے کہ سجدہ تعظیمی کے حرام ہونے پر امام احمدرضاحنفی الماتریدی رحمہ اللہ تعالی کی کتاب بھی ہے جو چھپ چکی ہے ۔
(۲۴) ایک لبرل سے سناکہ شیطان موحداعظم ہے ۔ جو خبیث اپنے آپ کو اللہ تعالی کاہم پلہ سمجھے وہ تومشرک اعظم ہے ۔
(۲۵) اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ اللہ تعالی اپنے انبیاء کرام علیہم السلام کے بے ادبوں کو توبہ کی توفیق بھی نہیں دیتا۔