دنیاکاسب سے بڑاپاگل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کاگستاخ ہے از تفسیر ناموس رسالت

دنیاکاسب سے بڑاپاگل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کاگستاخ ہے

وَ اِذَا قِیْلَ لَہُمْ اٰمِنُوْا کَمَآ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوْٓا اَنُؤْمِنُ کَمَآ اٰمَنَ السُّفَہَآء ُ اَلَآ اِنَّہُمْ ہُمُ السُّفَہَآء ُ وَلٰکِنْ لَّا یَعْلَمُوْنَ}(۱۳){وَ اِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْٓا اٰمَنَّا وَ اِذَا خَلَوْا اِلٰی شَیٰطِیْنِہِمْ قَالُوْٓا اِنَّا مَعَکُمْ اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَہْزِء ُوْنَ(۱۴)اَللہُ یَسْتَہْزِئُ بِہِمْ وَیَمُدُّہُمْ فِیْ طُغْیٰنِہِمْ یَعْمَہُوْنَ}(۱۵){اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الضَّلٰلَۃَ بِالْہُدٰی فَمَا رَبِحَتْ تِّجٰرَتُہُمْ وَمَا کَانُوْا مُہْتَدِیْنَ}(۱۶)
ترجمہ کنزالایمان: اور جب ان سے کہا جائے ایمان لاؤجیسے اور لوگ ایمان لا ئے ہیں تو کہیں کیا ہم احمقوں کی طرح ایمان لے آئیں وہی احمق ہیں مگر جانتے نہیں ۔
اور جب ایمان والوں سے ملیں تو کہیں ہم ایمان لائے اور جب اپنے شیطانوں کے پاس اکیلے ہوں تو کہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں ہم تو یونہی ہنسی کرتے ہیں ۔اللہ ان سے استہزاء فرماتا ہے (جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے)اور انہیں ڈھیل دیتا ہے کہ اپنی سرکشی میں بھٹکتے رہیں۔وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خریدی تو ان کا سودا کچھ نفع نہ لایا اور وہ سودے کی راہ جانتے ہی نہ تھے ۔
ترجمہ ضیاء الایمان:اورجب ان کو کہاجائے کہ ایمان لائوجیسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایمان لائے توکہتے ہیں :کیاہم ان کی طرح ایمان لائیں جس طرح احمق ایمان لائے ۔احمق وہی ہیں لیکن وہ جانتے نہیں ۔ اورجب وہ ایمان والوں سے ملتے ہیں توکہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اورجب وہ اپنے شیطانوں کے ساتھ تنہائی میں ہوتے ہیں تو ان کو کہتے ہیں کہ ہم تمھارے ساتھ ہیں ، ہم توان کے ساتھ ویسے ہنسی کررہے تھے ، اللہ تعالی ان کے ساتھ جیسے اس کی شان ہے استہزاء فرماتاہے اوران کو ڈھیل دیتاہے کہ وہ اپنی سرکشی میں بھٹکتے رہیں ،یہی ہیں وہ لوگ جنہوںنے ہدایت کے بدلے گمراہی خریدی ،اوران کی تجارت نے ان کو نفع نہ دیااوریہ لوگ راستہ جانتے ہی نہ تھے ۔

منافقین کے استہزاء پر آیت کانزول

قال ابن عباس نزلت ہذہ الآیۃ فی عبد اللہ بن أبی وأصحابہ، وذلک أنہم خرجوا ذات یوم فاستقبلہم نفر من أصحاب رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم فقال عبد اللہ بن أبی لأصحابہ انظروا کیف أرد ہؤلاء السفہاء عنکم؟ فذہب فأخذ بید أبی بکر الصدیق فقال:مرحبا بالصدیق سید بنی تمیم وشیخ الإسلام وثانی رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم فی الغار الباذل نفسہ ومالہ لرسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم ثم أخذ بید عمر فقال:مرحبا بسید بنی عدی بن کعب الفاروق القوی فی دین اللہ الباذل نفسہ ومالہ لرسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم ثم أخذ بید علی فقال:مرحبا یا ابن عم رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم وختمہ وسید بنی ہاشم ما خلا رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم فقال لہ علی: اتق اللہ یا عبد اللہ ولا تنافق فإن المنافقین شر خلیقۃ اللہ فقال مہلا یا أبا الحسن إنی لا أقول ہذا نفاقا واللہ إن إیماننا کإیمانکم وتصدیقنا کتصدیقکم ثم تفرقوا فقال عبد اللہ لأصحابہ کیف رأیتمونی فعلت؟ فأثنوا علیہ خیرا.
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیںکہ یہ آیت مبارکہ عبداللہ بن ابی اوراس کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی ، انہوںنے ایک بار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھاتوعبداللہ بن ابی نے کہاکہ دیکھومیں ان کو کیسے بے وقوف بناتاہوں، اس نے حضرت سیدناابوبکرالصدیق رضی اللہ عنہ کاہاتھ مبارک پکڑکرکہا:مرحبااے بنوتمیم کے سردار! شیخ الاسلام ،غارمیں رسول اللہ ﷺکے ساتھ دوسرے ، رسول اللہﷺ پر اپنی جان اوراپنامال خرچ کرنے والے۔ پھراس نے حضرت سیدناعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کاہاتھ پکڑکرکہا:مرحبااے بنوعدی کے سردار!فاروق ، اللہ تعالی کے دین میں قوی ، اپنی جان اورمال کو اللہ تعالی کی راہ میں خرچ کرنے والے ، پھرحضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ کاہاتھ پکڑکرکہا: مرحبا ! اے رسول اللہﷺ عم زاد ، اورآپ ﷺکے داماد ، رسول اللہ ﷺکے سواتمام بنوہاشم کے سردار، حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے ابی ! اللہ تعالی سے ڈراورمنافقت کامظاہرہ نہ کر، منافق اللہ تعالی کی بدترین مخلوق ہے، عبداللہ بن ابی نے کہا: اے ابوالحسن ! ذرارکیے، اللہ تعالی کی قسم ! میں نے یہ باتیں ازراہ نفاق نہیں کیں ، ہماراایمان آپ ہی کی طرح ہے ، پھرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے جانے کے بعد عبداللہ بن ابی نے اپنے ساتھیوں سے کہا: تم نے دیکھامیں نے ان کو کیسے بے وقوف بنایا( معاذ اللہ ) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے واپس آکر یہ واقعہ رسول اللہ ﷺکی بارگاہ میں عرض کیا تو یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی ۔
(لباب التأویل فی معانی التنزیل: علاء الدین علی بن محمد بن إبراہیم المعروف بالخازن (۱:۲۸)
انسان حقیقت میں صرف وہی ہے جواللہ تعالی اوراس کے رسول ﷺپر ایمان رکھتاہو ، اورمنافقین نے اللہ تعالی کے مخلص بندوں کو احمق کہا، یہی حال ملحدین اورزندقہ کاہے وہ آیات واحادیث شریفہ میں تاویلات فاسدہ کے ذریعے مسلمانوں میں فتنہ فساد برپاکرتے ہیں اوررسول اللہ ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق بکواسات کرتے رہتے ہیں ۔ آج کے منافق اورلبرل بے دین طبقہ بھی رسول اللہ ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق ایسی باتیں کرتے رہتے ہیں ۔ جن کو منافقین دیوانہ اوراحمق کہیں ان کے دانااورسمجھ دارہونے کی دلیل ہے ۔ کیاخوب کہاہے کسی نے کہ :
واذااتتک مذمتی من ناقص فھی الشہادۃ لی بانی کامل
بے وقوف شخص کا میری مذہت کرناہی میرے کامل العقل ہونے کی دلیل ہے ۔

شیطان کون ہیں؟

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا:وَہُمْ خَمْسَۃُ نَفَرٍ مِنَ الْیَہُودِ کَعْبُ بْنُ الْأَشْرَفِ بِالْمَدِینَۃِ وَأَبُو بُرْدَۃَ فِی بَنِی أَسْلَمَ وَعَبْدُ الدَّارِ فِی جُہَیْنَۃَ، وَعَوْفُ بْنُ عَامِرٍ فِی بَنِی أَسَدٍ، وَعَبْدُ اللَّہِ بْنُ السَّوْدَاء ِ بِالشَّامِ. وَلَا یَکُونُ کَاہِنٌ إِلَّا وَمَعَہُ شَیْطَانٌ تَابِعٌ لَہُ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ یہودیوں کے سردار اورکاہن پانچ تھے جو شیطان تھے اوریہی ان کے سرغنہ تھے (۱)کعب بن اشرف یہودی مدینہ منورہ میں رہتاتھا(۲)ابوبردہ جس کاتعلق بنواسلم کے ساتھ تھا(۳)عبدالدارجس کاتعلق قبیلہ بنوجہینہ سے تھا(۴) عوف بن عامر جس کاتعلق بنی اسد سے تھا(۵) عبداللہ بن السوداء جس کاتعلق شام سے تھا۔ اورہر کاہن کے ساتھ شیطان ہوتاہے جو اس کی پیروی کرتاہے ۔
(اللباب فی علوم الکتاب: أبو حفص سراج الدین الحنبلی الدمشقی النعمانی (ا:۳۶۰)

شیطان کامعنی کیاہے ؟

وَالشَّیْطَانُ:الْمُتَمَرِّدُ الْعَاتِی مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَمِنْ کُلِّ شَیْء ٍ وَأَصْلُہُ الْبُعْدُ، یُقَالُ بِئْرٌ شُطُونٌ أَیْ:بَعِیدَۃُ الْعُمْقِ.سُمِّیَ الشَّیْطَانُ شَیْطَانًا لِامْتِدَادِہِ فِی الشَّرِّ وَبُعْدِہِ مِنَ الْخَیْرِ۔۔
ترجمہ :امام محی السنہ ابومحمدالحسین البغوی المتوفی : ۵۱۰ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیںکہ لغت میں شیطان سرکش نافرمان اورحدسے گزرنے والے کوکہتے ہیں،خواہ اس کاتعلق جنوںکے ساتھ ہویاانسانوںکے ساتھ،اسی طرح ہر چیزسے جو بھی سرکش ہواس کوشیطان کہاجاتاہے۔عربی میں محاورہ ہے کہ بئر شطون یعنی گہراکنواں شیطان کو شیطان اسی لئے کہاجاتاہے کہ وہ بھی شر میں بڑھاہواہوتاہے اورہر طرح کی خیر سے دورہوتاہے ۔
( تفسیر البغوی:محیی السنۃ ، أبو محمد الحسین بن مسعود بن محمد بن الفراء البغوی الشافعی (ا:۸۸)
رسول اللہ ﷺکے ساتھ استہزاء کرتے تھے
(قَالُوا إِنَّا مَعَکُمْ)أَیْ:عَلَی دِینِکُمْ (إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَہْزِئُونَ) بِمُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِہِ بِمَا نُظْہِرُ مِنَ الْإِسْلَامِ.
ترجمہ :امام محی السنہ ابومحمدالحسین البغوی المتوفی : ۵۱۰ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جب وہ آکر یہ کہتے ہیں کہ ہم تمھارے ساتھ ہیں اوررسول اللہ ﷺپر ایمان لائے ہیں تووہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺکے ساتھ استہزاء کرتے ہیں اوررسول اللہ ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ بھی استہزاء کرتے ہیں کیونکہ ہم ان کے سامنے آکر اسلام ظاہرکرتے ہیں۔
( تفسیر البغوی:محیی السنۃ ، أبو محمد الحسین بن مسعود بن محمد بن الفراء البغوی الشافعی (ا:۸۸)

رسول اللہ ﷺکاگستاخ ہی پاگل ہے

وَإِنَّمَا سَمَّی الْمُنَافِقُونَ الْمُسْلِمِینَ بِالسُّفَہَاء ِ، لِأَنَّ الْمُنَافِقِینَ کَانُوا مِنْ أَہْلِ الْخَطَرِ وَالرِّیَاسَۃِ، وَأَکْثَرُ الْمُؤْمِنِینَ کَانُوا فَقُرَاء َ، وَکَانَ عِنْدَ الْمُنَافِقِینَ أَنَّ دِینَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَاطِلٌ، وَالْبَاطِلُ لَا یَقْبَلُہُ إِلَّا السَّفِیہُ، فَلِہَذِہِ الْأَسْبَابِ نَسَبُوہُمْ إِلَی السَّفَاہَۃِ ثُمَّ إِنَّ اللَّہَ تَعَالَی قَلَبَ عَلَیْہِمْ ہَذَا اللَّقَبَ وَقَوْلُہُ الْحَقُّ- لِوُجُوہٍ: أَحَدُہَا: أَنَّ مَنْ أَعْرَضَ عَنِ الدَّلِیلِ ثُمَّ نَسَبَ الْمُتَمَسِّکَ بِہِ إِلَی السَّفَاہَۃِ فَہُوَ السَّفِیہُ. وَثَانِیہَا: أَنَّ مَنْ بَاعَ آخِرَتَہُ بِدُنْیَاہُ فَہُوَ السَّفِیہُ وَثَالِثُہَا:أَنَّ مَنْ عَادَی مُحَمَّدًا عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ فَقَدْ عَادَی اللَّہَ، وَذَلِکَ ہُوَ السَّفِیہُ۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن عمر الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ منافقین اہل اسلام کو احمق اس لئے کہتے تھے کہ منافقین مالدار تھے اورصاحب اقتدارتھے اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں اکثرفقراء تھے ، منافقین کے ہاں رسول اللہ ﷺکادین باطل تھااورباطل کو قبول کرنے والااوراس پر عمل کرنے والااحمق تھا۔ انہیں اسباب کی وجہ سے وہ رسول اللہ ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ لقب دیاکرتے تھے ۔ پھراللہ تعالی نے ان وجوہات کی بناپرانہیں یہ لقب دیااوراللہ تعالی کاہی قول شریف حق ہے ۔
(۱) جو شخص دلیل سے اعراض کرے اوردلیل ماننے والے کو احمق کہے وہ خود احمق بھی ہے اوربے وقوف وپاگل بھی ۔
(۲) جس نے اپنی آخرت دنیاکے بدلے بیچ دی وہی پاگل ہے ۔
(۳) جس نے رسول اللہ ﷺکے ساتھ دشمنی کی اس نے اللہ تعالی کے ساتھ دشمنی کی اورایساشخص ہی پاگل ہے ۔
(التفسیر الکبیر: أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۲:۳۰۸)
یہودی بھی رسول اللہ ﷺکی گستاخی کی وجہ سے شیاطین بنے
عَنْ عِکْرِمۃ أَوْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْر، عن ابن عَبَّاسٍ:(وَإِذَا خَلَوْا إِلَی شَیَاطِینِہِمْ) مِنْ یَہُودَ الَّذِینَ یَأْمُرُونَہُمْ بِالتَّکْذِیبِ وَخِلَافِ مَا جَاء َ بِہِ الرَّسُولُ.
ترجمہ :حضرت سیدناعکرمہ یاحضرت سیدناسعید بن جبیر رضی اللہ عنہماحضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت کرتے ہیں کہ یہ شیاطین ان کے امیرامراء اورسرداران کفرتھے اوران کے ہم عقیدہ لوگ تھے ، شیاطین یہودی بھی ان کو مشورے دیاکرتے تھے کہ وہ رسول اللہ ﷺکواورقرآن کریم کو جھوٹاکہاکریں۔
(تفسیر القرآن العظیم:أبو الفداء إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی البصری ثم الدمشقی (ا:۸۲)
اس سے معلوم ہوگیاکہ جن کو منافقین جاکر رسول اللہ ﷺکے خلاف باتیں کرتے ان کو شیطان کیوں کہاگیا، اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ بھی رسول اللہ ﷺکی گستاخیاں کرتے اوران کو گستاخیاں کرنے پر آمادہ کرتے تھے ۔
اللہ تعالی منافقوں کے ساتھ کیسے استہزاء فرمائے گا؟
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: ہُوَ أَنْ یُفْتَحَ لَہُمْ بَابٌ مِنَ الْجَنَّۃِ فَإِذَا انْتَہَوْا إِلَیْہِ سُدَّ عَنْہُمْ، وَرُدُّوا إِلَی النَّارِ وَقِیلَ ہُوَ أَنْ یُضْرَبَ لِلْمُؤْمِنِینَ نُورٌ یَمْشُونَ عَلَی الصِّرَاطِ فَإِذَا وَصَلَ الْمُنَافِقُونَ إِلَیْہِ حِیلَ بَیْنَہُمْ وَبَیْنَ الْمُؤْمِنِینَ کَمَا قَالَ اللَّہُ تَعَالَی:وَحِیَلَ بَیْنَہُمْ وَبَیْنَ مَا یَشْتَہُونَ:(سَبَأٍ:۵۴) قَالَ اللَّہُ تَعَالَی :فَضُرِبَ بَیْنَہُمْ بِسُورٍ لَہُ بَابٌ۔الْآیَۃَ الْحَدِیدِ:۱۳)
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ ان منافقین کے ساتھ استہزاء کابدلہ اس طرح ہوگاکہ ان کے لئے جنت کادروازہ کھولاجائے گا،پس جب اس کی طرف پہنچیں گے تو دروازہ ان پر بندکردیاجائے گا اورآگ کی طرف لوٹادیئے جائیں گے اوربعض نے یہ بھی کہاہے کہ استہزاء کابدلہ اس طرح ہوگاکہ ایمان والوں کے لئے نوررکھائے گاجس سے وہ پل صراط سے گزریں گے جب منافق وہاںتک پہنچیں گے تومنافقوں اورمومنوں کے درمیان ایک رکاوٹ بنادی جائے گی، جیسے اللہ تعالی فرماتاہے کہ منافقوں وران کی چاہتوں کے درمیان رکاوٹ قائم کردی جائے گی اوراللہ تعالی نے یہ بھی فرمایا: پھران کے درمیان ایک دیوار بنادی جائے گی ، جس کاایک دروازہ ہوگا۔
(لباب التأویل فی معانی التنزیل:علاء الدین علی بن محمد أبو الحسن، المعروف بالخازن (ا:۲۸)
ہمیں بھی یہ بات بہت زیادہ ستاتی ہے کہ آخرایساکیسے ہوگیاکہ منافقین رسول اللہ ﷺکو دیکھ کر بھی کافررہے ، اس کے جواب میں حضور امیرالمجاہدین حضرت فضیلۃ الشیخ مولاناحافظ خادم حسین رضوی حفظہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جب قوم کے ذہن گندے ہوجائیں تو پھرسامنے اللہ تعالی کے نبی حضرت سیدناہاروں علیہ السلام بھی کھڑے ہوں تو قوم ان کو چھوڑ کر بچھڑے کی پوجاکرنے لگ جاتی ہے۔

احمق کون ؟

عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ الْکَیِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَہُ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ وَالْعَاجِزُ مَنْ أَتْبَعَ نَفْسَہُ ہَوَاہَا وَتَمَنَّی عَلَی اللَّہِ قَالَ ہَذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ قَالَ وَمَعْنَی قَوْلِہِ مَنْ دَانَ نَفْسَہُ یَقُولُ حَاسَبَ نَفْسَہُ فِی الدُّنْیَا قَبْلَ أَنْ یُحَاسَبَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ۔
ترجمہ :حضرت سیدناشداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:عقل مند وہ ہے جو اپنے نفس کو اللہ تعالی کافرمانبردار کرلے اورموت کے بعد کی زندگی کے لیے عمل کرے اور عاجز وبے وقوف وہ ہے جو اپنے نفس کو خواہشات پر لگادے اور رحمت الٰہی کی آرزو رکھے ۔
(سنن الترمذی:محمد بن عیسی بن سَوْرۃ بن موسی بن الضحاک، الترمذی، أبو عیسی (۶:۴۳۸)
اس حدیث شریف سے معلوم ہواکہ احمق کون ہے کیونکہ دنیادار کمینے اہل اللہ کواحمق کہتے ہیں ، جس طرح آج بھی منافقین اورلبرل اہل ایمان کو احمق کہتے ہیں کہ ان کو تودنیاکاپتہ ہی نہیں ہے ۔اس سے معلوم ہواکہ داناوہ نہیں جو اللہ تعالی کی بارگاہ تک ہی نہ پہنچ سکے بلکہ داناوہ جس کادنیاکانقصان توہوجائے لیکن آخرت کانقصان نہ ہونے پائے اورااللہ تعالی کی بارگاہ میں بھی پہنچ جائے۔

معار ف ومسائل

(۱) اس سے ثابت ہواکہ منافقین رسول اللہ ﷺکے ساتھ استہزاء کیاکرتے تھے ۔
(۲) رسول اللہ ﷺکے گستاخوں کو جواب دینااللہ تعالی کی سنت کریمہ ہے ۔
(۳) رسول اللہ ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے گستاخوں کوجواب دینابھی اللہ تعالی کی سنت کریمہ ہے ۔
(۴)رسول اللہ ﷺکے گستاخ کو شیطان کہناقرآن کریم کافیصلہ ہے ۔
(۵)صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کاگستاخ شیطان ہوتاہے ۔ کیونکہ مومن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کابے ادب نہیں ہوتا۔
(۶) رسول اللہ ﷺکے گستاخ کو شیطان کہنایااس کے علاوہ کوئی سخت لفظ اس کے لئے بولناجائز ہے ۔ اوراسے گالی شمار نہیں کیاجاسکتاہے بلکہ یہ حقیقت کابیان ہے ۔
(۷) اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ جہاں بھی دین اوراہل دین کے خلاف باتیں ہوں ، ان باتوں کے کرنے والے شیطان ہی ہوں گے۔ لھذااس سے معلوم ہواکہ ہر دین دشمن کو شیطان کہنابالکل جائز ہے ۔
(۸)قیامت کے دن اللہ تعالی بھی ان منافقین کو ان کے استہزاء کابدلہ دے گا۔
(۹) اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ ہر دورمیں منافقین نے اہل دین پر طعنے کسے ہیں ۔
(۱۰) منافقین نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ’’احمق‘‘ کہااللہ تعالی نے ان کو احمق فرمایااورانہوںنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جاہل کہااللہ تعالی نے ان کے متعلق اسںسے بھی بڑی بات فرمائی کہ یہ جاہل بھی ہیں اوران کو اپنے جاہل ہونے کابھی علم نہیںبلکہ خود کوعالم سمجھتے ہیں ۔ تومعلوم ہواکہ ان کی جہالت دائمی ہے جوزائل ہونے والی نہیں ہے ۔
(۱۱)اس سے یہ بھی معلوم ہواجب کسی کی اپنی ذات کی بات ہوتوپہلی توبات یہی ہے کہ معاف کردیاجائے، اگربدلہ لیناضروری جانتاہوپھربرابربدلہ لیاجائے ۔ مگرقربان جائیں اللہ تعالی کی سنت کریمہ پر کہ انہوںنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ’’جاہل ‘‘ کہاتواللہ تعالی نے ان کو جاہل بھی فرمایااورساتھ ساتھ جہل مرکب کاشکارقراردیاجو کہ دائمی جہالت ہے ۔ یعنی جب بات رسول اللہ ﷺکی عزت کی آئے یارسول اللہ ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عزت کی آئے تو پھرگستاخوں کو بھرپورجواب دینے کاحکم ہے ۔
(۱۲) منافقین کو اللہ تعالی نے احمق کیوں قراردیا؟ اس کی وجہ معلوم کرناانتہائی آسان ہے کیونکہ وہ رات دن رسول اللہ ﷺکے معجزات شریفہ دیکھتے تھے اورتورات شریفہ کو وہ پڑھتے تھے اوررسول اللہ ﷺکی معرفت حاصل ہونے کے باوجود وہ ایمان نہیں لاتے تھے اوررسول اللہ ﷺکاانکارکرتے تھے ۔ یہی تواحمق پن ہے جوان میں موجود ہے۔
(۱۳)منافقین کے قبح کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالی نے ایک جگہ لایعلمون فرمایااوردوسری جگہ لایشعرون فرمایااوردونوں جگہوں پر ان دونوں فعلوں کامفعول ذکرنہیں فرمایاتاکہ ان کی بے شعوری اورجہالت عمومی طورپر ثابت ہوجائے یعنی ایسی بات نہیں ہے کہ وہ فلاں بات نہیں جانتے بلکہ مفعول ذکرنہ کرکے رب تعالی نے واضح فرمادیاکہ میرے حبیب کریم ﷺکے دشمن اورمیرے حبیب ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دشمن کچھ بھی نہیں جانتے ۔
(۱۴)منافقین یہی کہتے تھے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دنیاکو چھوڑ کر صرف آخرت کے پیچھے لگے ہوئے ہیں وہ جہان کس نے دیکھاہے ایسے ہی سب خیالی باتیں ہیں ۔ حلانکہ وہی شخص پاگل ہے جو ہمیشہ رہنے والی زندگی کے مقابلے میں دنیاکی نعمتوں پرہی فریفتہ ہوگیاہے ۔ بس یہی فرق ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں اوران منافقین میں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنی دنیاکانقصان توگواراکرلیالیکن آخرت اپنی اچھی کرلی اوررہے منافق جنہوں نے اپنی دنیابنانے کے چکر میں آخرت خراب کرلی۔
(۱۵)منافق ہر بات کو چالاکی سے سنتا ہے اور اس کے طرح طرح کے مطلب نکالتا ہے اور آخرت کی بے فکری کی وجہ سے باتوں کی اونچ نیچ ہی میں الجھا رہتا ہے جبکہ مؤمن بھولا بھالا اور شریف ہوتا ہے اور وہ ہر بات سے دین اور آخرت کا نفع اور خیر ڈھونڈتا ہے اور فضول باتوں پر زیادہ غور نہیں کرتا۔ بس اس کی اس عادت پر منافق لوگ اس کو سادہ اور کم عقل سمجھتے ہیں، آج کل بھی جو مسلمان رسول اللہ ﷺکی عزت وناموس کی بات کرے یادین کے دفاع کی بات یاپھرقرآن مجید اور احادیث رسول ﷺسے جہاد کا پیغام سن کر جہاد کا جذبہ رکھتے ہیں اور جہاد کے لئے نکل کھڑے ہوتے ہیں تو منافق لبرلز، سیکولرز اور ملحدین ان کو کم عقل، بیوقوف، جذباتی، انتہا پسند، دہشت گرد اور گمراہ قرار دیتے ہیں۔
(۱۶)ان آیات مبارکہ میں اس عالم دین کے لئے بھی تسلی کاسامان ہے جس کو جہلاء اورلبرل لوگ اس قسم کی باتیں کرتے ہیں۔
(۱۷){اللہ یستہزی بہم }میں لفظ اللہ کو مقدم کرکے یہ بات واضح فرمائی کہ کوئی اور نہیں بلکہ خدا تم سے استہزاء کر رہا ہے۔ پھر دیکھو اسکااستہزاء کیسا ہے جس طرح کوئی بادشاہ اپنے نمک حلال نوکر کی طرف سے اس کے مخالف کو یوں کہے کہ تجھ سے بادشاہ مقابلہ کر رہا ہے تاکہ اس کو خوف پیدا ہو اور اپنی حرکت ناشائستہ سے باز آئے۔
(۱۸) اللہ مستہزی نہ کہا کہ جو ظاہر میں مطابق تھا مگر اس نکتہ کے لیے یستہزی جملہ فعلیہ فرمایا کہ تجدد اور حدوث پر دلالت کرے اور وقتاً فوقتاً خدا کی طرف سے مصائب کا نازل ہونا ان کو معلوم ہوجائے۔ {کماقال اَوْلاَ یَرَوْنَ اِنَّہُم یُفْتِنَوْنَ فِیْ کُلِّ عَامٍ مَرَّۃٍ اَوْ مَرَّتَیْنِ} الآیہ اب اگلی آیتوں میں خداتعالیٰ منافقوں کے اس فعلِ بد کا نتیجہ بڑے لطف کے ساتھ بیان فرماتا ہے کہ ان لوگوں نے عمر عزیز صرف کرکے کیا حاصل کیا۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ محبت پرانعام اوران کے ساتھ بغض رکھنے والوں کے لئے وعید

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعظیم و تکریم ایسا مسئلہ نہیں کہ اس سے بے اعتنائی برتی جائے اور اسے معمولی سمجھ کر نظر انداز کردیا جائے بلکہ یہ مسلمانوں کے ایمان کا مسئلہ ہے اور اصولِ دین کا ایک اہم اصول ہے، چنانچہ ائمہ سلف نے عقیدہ واصول پر مستقل کتابیں لکھی ہیں، انہوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، ان کی صداقت و عدالت کو دین کا اصل الاصول قرار دیا ہے۔ چنانچہ امام عبداللہ بن احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی کتاب السنۃ، امام ابوبکر احمد بن محمد الخلال رحمہ اللہ کی السنۃ، امام ابوبکر محمد بن الحسین الآجری رحمہ اللہ کی کتاب الشریعۃ، امام محمد بن اسحاق بن مندہ رحمہ اللہ کی الایمان، امام ابن ابی عاصم رحمہ اللہ کی السنۃ، امام ابوالقاسم اللالکائی رحمہ اللہ کی شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ والجماعۃ، امام طحاوی رحمہ اللہ کی العقیدۃ الطحاویۃ ، امام ابومحمد الحسن بن علی البربہاری رحمہ اللہ کی شرح السنۃ، امام ابن بطہ رحمہ اللہ کی کتاب الشرح والابانۃ، امام ابوعثمان اسماعیل بن عبدالرحمن الصابونی رحمہ اللہ کی عقیدۃ السلف واصحاب الحدیث، علامہ ابن ہمام رحمہ اللہ کی المسامرۃ بشرح المسایرۃ، امام ابن قدامہ رحمہ اللہ کی لمعۃ الاعتقاد الہادی الی سبیل الرشاد، امام ابوالحسن علی بن اسماعیل الاشعری رحمہ اللہ کی الابانۃ عن اصول الدیانۃ، علامہ محمد بن احمد السفارینی رحمہ اللہ کی شرح الفقہ الاکبر، علامہ تفتازانی رحمہ اللہ کی شرح العقائدوغیرہ قابل قدرکتب ہیں۔

مجھے رسول اللہ ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ محبت ہے

عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ السَّاعَۃِ، فَقَالَ:مَتَی السَّاعَۃُ؟ قَالَ: وَمَاذَا أَعْدَدْتَ لَہَاقَالَ:لاَ شَیْء َ، إِلَّا أَنِّی أُحِبُّ اللَّہَ وَرَسُولَہُ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ قَالَ أَنَسٌ:فَمَا فَرِحْنَا بِشَیْء ٍ،فَرَحَنَا بِقَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:أَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ قَالَ أَنَسٌ: فَأَنَا أُحِبُّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَبَا بَکْرٍ، وَعُمَرَ، وَأَرْجُو أَنْ أَکُونَ مَعَہُمْ بِحُبِّی إِیَّاہُمْ، وَإِنْ لَمْ أَعْمَلْ بِمِثْلِ أَعْمَالِہِمْ۔
ترجمہ:حضرت سیدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ ایک شخص نے رسول اللہﷺکی خدمت اقدس میں عرض کی ـ: یارسول اللہ ﷺ! قیامت کب آئے گی ؟ تورسول اللہ ﷺنے فرمایا: تم نے اس کے لئے کیاتیاری کی ہے؟ تواس نے عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ! میرے پاس توکچھ بھی نہیں ہے سوائے اس کے کہ میں اللہ تعالی اور اس کے حبیب کریمﷺکے ساتھ محبت کرتاہوں، تورسول اللہ ﷺنے فرمایا: پھرتوقیامت کے دن اسی کے ساتھ ہوگاجس کے ساتھ محبت کرتاہے۔حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:ہمیں آپﷺکے اس ارشاد پر اتنی خوشی ہوئی کہ اتنی خوشی کسی اور بات سے نہیںہوئی ’’کہ تم اس کے ساتھ ہوگے جس سے تم محبت کرتے ہو‘‘۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:پس میں نبی کریم ﷺسے، ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے محبت کرتا ہوں اورامید رکھتا ہوں کہ ان سے محبت کی بنا پر ان کے ساتھ رہوں گا، اگرچہ میں ان کے اعمال جیسے عمل نہیں کرسکا۔
صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۵:۱۲)

صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کی تعظیم دراصل رسول اللہ ﷺکی تعظیم ہے

وَمِن تَوَقِیرِہ وَبِرّہ صَلَّی اللَّہ عَلَیْہ وَسَلَّم تَوْقِیر أصْحَابِہ وَبرُّہُم وَمَعْرِفَۃ حَقّہِم وَالاقْتِدَاء بِہِم وَحُسْن الثَّنَاء عَلَیْہِم وَالاسْتِغْفَار لَہُم ۔
ترجمہ :امام ابوالفضل قاضی عیاض المتوفی : ۵۴۴ھ) رحمۃ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺکی تعظیم وتوقیر اور آپﷺسے حسن سلوک کا تقاضا ہے کہ آپﷺکے صحابہ رضی اللہ عنہم کی بھی توقیر کی جائے اور ان سے حسن سلوک کا اظہار کیا جائے، ان کے حق کو سمجھا جائے، ان کی اقتداء کی جائے اور ان کی تعریف کی جائے اور ان کے لیے بخشش کی دعا کی جائے۔
(الشفا بتعریف حقوق المصطفی:أبو الفضل القاضی عیاض بن موسی الیحصبی (۲:۵۲)

نفاق سے بری ہونے کازبردست نسخہ

وَمِن أَحْسَن الثَّنَاء عَلَی أَصْحَاب مُحَمَّد صَلَّی اللَّہ عَلَیْہ وَسَلَّم فَقَد بَرِء مِن النّفَاق وَمِن انْتَقَص أحَدًا منہم فَہُو مُبْتَدع مُخَالِف لِلسُّنَّۃ وَالسَّلِف الصَّالِح وأخاف أن لَا یَصْعَد لَہ عَمَل إِلَی السَّمَاء حَتَّی یُحبَّہُم جَمِیعًا وَیَکُون قَلْبُہ سَلِیمًا۔
ترجمہ :امام ابوالفضل قاضی عیاض المتوفی : ۵۴۴ھ) رحمۃ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اچھی تعریف کرتا ہے، وہ نفاق سے بری ہے اور جو ان میں سے کسی ایک کی تنقیص کرتا ہے، وہ بدعتی ہے، سنت اور سلف صالحین کے طریقہ کے مخالف ہے۔ مجھے خطرہ ہے کہ ا س کا کوئی عمل (قبولیت کیلئے )اس وقت تک آسمان پر نہیں جائے گا جب تک وہ سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت نہ کرے اور اس کا دل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ بغض سے بچا ہوا نہ ہو۔
(الشفا بتعریف حقوق المصطفی:أبو الفضل القاضی عیاض بن موسی الیحصبی (۲:۵۴)
جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عزت نہ کرے وہ مومن ہی نہیں
قَال سَہْل بن عَبْد اللَّہ التُّسْتَرِیّ:لَم یُؤْمِن بِالرَّسُول من لَم یُوقّر أصْحَابَہ وَلَم یُعِزّ أوَامِرَہ۔
ترجمہ:حضرت سہل بن عبداللہ تستری رحمہ اللہ سے یہ بھی نقل کیا گیاہے کہ انہوں نے فرمایاکہ جو رسول اللہﷺکے صحابہ کی توقیر نہیں کرتا ، اس کا آپﷺپر ایمان ہی نہیں۔
(الشفا بتعریف حقوق المصطفی:أبو الفضل القاضی عیاض بن موسی الیحصبی (۲:۵۴)
جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عزت کرتے ہیں ہمیں ان سے ۔۔
وَقَالَ الْفُضَیْلُ: إِنِّی أُحِبُ مَنْ أُحَبَّہُمُ اللہُ وَہُمُ الَّذِینَ یُسَلِّمُ مِنْہُمْ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأُبْغِضُ مَنْ أَبْغَضَہُ اللہُ وَہُمْ أَصْحَابُ الْأَہْوَاء ِ وَالْبِدَعِ۔
ترجمہ :حضرت سیدنافضیل بن عیاض رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میں ان سے محبت کرتا ہوں جن سے اللہ تعالی محبت کرتاہے اور وہ وہی ہیں جن کی زبان درازیوں سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم محفوظ ہیں اور میں ان سے بغض رکھتا ہوں جن سے اللہ تعالی بغض رکھتاہے وہ نفسانی خواہشات کے پیچھے چلنے والے اور بدعتی ہیں۔
(حلیۃ الأولیاء وطبقات الأصفیاء : أبو نعیم أحمد بن عبد اللہ بن أحمد الأصبہانی (۸:۱۰۳)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بے ادبی نہ کرنے والے کی بخشش
لَوْ أَنَّ رَجُلا ارْتَکَبَ کُلَّ خطیئۃٍ مَا خَلا الشِّرْکَ بِاللَّہِ، وَخَرَجَ مِنَ الدُّنْیَا سَلِیمَ الْقَلْبِ لأَصْحَابِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ غَفَرَ اللَّہُ لَہُ۔
ترجمہ :امام ابوحفص عمر بن سلیم رحمہ اللہ المتوفی۲۶۴ھ) جو شیخ خراسان اور امام القدوۃ الربانی کے القاب سے یاد کیے جاتے ہیں، فرماتے ہیںاگر کوئی شرک کے علاوہ دوسرے گناہ کا مرتکب ہو اور دنیا سے جائے کہ اس کا دل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں پاک صاف ہو، اللہ تعالیٰ اسے معاف فرما دے گا۔ان سے کہا گیا کہ اس کی کوئی دلیل ہے تو انہوں نے فرمایا:ہاں، اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا ہے :اے میرے نبیﷺ!آپ فرمادیں کہ اگر تم اللہ سے محبت چاہتے ہو تو میری اتباع کرو، آپﷺکی اتباع یہ ہے کہ آپﷺ کی وجہ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت کی جائے(کہ آپﷺبھی اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت کرتے تھے)حضرت ابوسعید احمد بن محمد نیسابوری رحمہ اللہ جو اس قول کے راوی ہیں، فرماتے ہیں کہ میں فارس میں تھا تو مجھ سے امام ابو حفص رحمہ اللہ کے اس قول کے بارے میں پوچھا گیا تو میں نے ایک دن میں ان کا یہ قول ایک ہزار مرتبہ ذکر کیا اور لوگوں کو املاء کروایا۔
( الفوائد والاخبار والحکایات، للامام ابی علی الحسن بن الحسین الہمزانی:۴۴)
میراسب سے بڑاعمل حب صحابہ ہے
یَقُولُ:سَمِعْتُ عُبَیْدَ بْنَ مُحَمَّدٍ الْوَرَّاقَ، یَقُولُ:سَمِعْتُ بِشْرَ بْنَ الْحَارِثِ یَقُولُ:أَوْثَقُ عَمَلِی فِی نَفْسِی حُبُّ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
ترجمہ:حضرت سیدنابشربن الحارث رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک میرا سب سے پختہ عمل رسول اللہ ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت ہے۔
( الفوائد والاخبار والحکایات، للامام ابی علی الحسن بن الحسین الہمزانی:۴۴)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے گستاخ کو توبہ کی توفیق نہیں ملتی
حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ الْمُخْتَارِقَالَ:سَمِعْتُ بِشْرَ بْنَ الْحَارِثِ یَقُولُ:نَظَرْتُ فِی ہَذَا الأَمْرِ؛ فَوَجَدْتُ لِجَمِیعِ النَّاسِ تَوْبَۃً إِلا مَنْ تَنَاوَلَ أَصْحَابَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؛ فَإِنَّ اللہَ عَزَّ وَجَلَّ حَجَزَ عَنْہُمُ التَّوْبَۃَ۔
ترجمہ:امام بشر حافی رحمہ اللہ فرماتے ہیںکہ میں نے دین کے معاملے میں غور کیا تو یہ بات معلوم ہوئی کہ تمام لوگوں کیلئے توبہ ہے مگر جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر طعن کرتا ہے ان کی توبہ نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس سے توبہ کی توفیق سلب کرلی ہے۔
(المجالسۃ وجواہر العلم :أبو بکر أحمد بن مروان الدینوری المالکی (۶:۳۹۷)
کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر حرف گیری اہل بدعت کا شعار ہے، ظاہر ہے کہ جب وہ اس بُری عادت سے باز آئیں گے تبھی انہیں توبہ کی توفیق ملے گی، بالکل یہی حضرت سیدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں :
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ؛ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:إِنَّ اللہَ احْتَجَزَ التَّوْبَۃَ عَنْ کُلِّ صَاحِبِ بِدْعَۃٍ .
ترجمہ :حضرت سیدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بے شک اللہ تعالی بدمذہب کو توبہ کی توفیق نہیں دیتا۔
(المجالسۃ وجواہر العلم :أبو بکر أحمد بن مروان الدینوری المالکی (۶:۳۹۷)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دشمن کی بخشش نہیں ہوگی
سَمِعْتُ بِشْرَ بْنَ الْحَارِثِ یَقُولُ:سَمِعْتُ الْفُضَیْلَ بْنَ عِیَاضٍ یَقُولُ:بَلَغَنِی أَنَّ اللہَ تَبَارَکَ وَتَعَالَی قَدْ حَجَزَ التَّوْبَۃَ عَنْ کُلِّ صَاحِبِ بِدْعَۃٍ، وَشَرُّ أَہْلِ الْبِدَعِ الْمُبْغِضُونَ لِأَصْحَابِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ. ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَیَّ؛ فَقَالَ لِیَ:اجْعَلْ أَوْثَقَ عَمَلِکَ عِنْدَ اللہِ حُبَّکَ أَصْحَابَ نَبِیِّہِ؛ فَإِنَّکَ لَوْ قَدِمْتَ الْمَوْقِفَ بِمِثْلِ قُرَابِ الأَرْضِ ذُنُوبًا غَفَرَہَا اللہُ لَکَ، وَلَوْ جِئْتَ الْمَوْقِفَ وَفِی قَلْبِکَ مِقْیَاسُ ذَرَّۃٍ بُغْضًا لَہُمْ لَمَا نَفَعَکَ مع ذلک عمل.
ترجمہ :حضرت سیدنابشربن حارث رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت سیدنافضیل بن عیاض رحمہ اللہ تعالی نے فرمایاکہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی بدعتی کی توبہ قبول نہیں کرتااور سب سے بُری بدعت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بغض رکھنا ہے۔ امام بشر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:یہ بات کہہ کر امام فضیل رحمہ اللہ نے میری طرف دیکھا اور فرمایا:اللہ تعالیٰ کے ہاں اپنا پختہ عمل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی محبت کو بناؤ، اگر تو قیامت کے دن ریت کے ذرات کے برابر گناہ لے کر آئے گا تو اللہ تعالیٰ تمہیں معاف فرما دے گا لیکن اگر تیرے دل میں ذرہ بھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں بغض ہوا تو تیرا کوئی عمل تجھے فائدہ نہیں دے گا۔
(المجالسۃ وجواہر العلم :أبو بکر أحمد بن مروان الدینوری المالکی (۶:۳۹۷)
ہمیں توسب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پیار ہے
قال ابن المبارک:(خَصْلَتانِ مَنْ کَانَتْ فِیہ؛ الصِّدْقُ وحُبُّ أصحابِ محمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم، فَأَرْجُو أَنْ ینجُوَ إِنْ سَلِم۔
ترجمہ:امام عبداللہ بن مبارک رضی اللہ عنہ سے بسند ِ حسن امام ابو طاہر السلفی رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا:ایمان وتسلیم کے بعد دو خصلتیں ہیں جس میں وہ پائی جائیں گی امید ہے وہ نجات پاجائے گا:ایک سچ وصدق اور دوسری رسول اللہ ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت۔
(الطیوریات: صدر الدین، أبو طاہر السِّلَف (۲:۳۱)

بہترین توشہ آخرت کیاہے ؟

حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ یَزِیدَ قَالَ:سَمِعْتُ الْفُضَیْلَ بْنَ عِیَاضٍ یَقُولُ:حُبُّ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذُخْرٌ أَدَّخِرُہُ ثُمَّ قَالَ:رَحِمَ اللَّہُ مَنْ تَرَحَّمَ عَلَی أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَإِنَّمَا یَحْسُنُ ہَذَا کُلُّہُ بِحُبِّ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:وَسَمِعْتُ فُضَیْلًا یَقُولُ:قَالَ ابْنُ الْمُبَارَکِ:خَصْلَتَانِ مَنْ کَانَتَا فِیہِ الصِّدْقُ وَحُبُّ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَرْجُو أَنْ یَنْجُوَ وَیَسْلَمَ۔
ترجمہ:امام ابوبکر الآجری رحمہ اللہ نے یہی قول امام الفضیل بن عیاض رحمہ اللہ کے واسطہ سے امام ابن مبارک رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے اور اس قول کو حکایت کرنے سے پہلے خود امام الفضیل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت کا ذخیرہ جمع کررہا ہوں، جو صحابہ رضی اللہ عنہم کیلے رحم و کرم کی دعا کرتا ہے، اللہ تعالی اس پر رحم فرمائے، یہ سب کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی محبت سے درست ہے۔
حضرت سیدناامام عبداللہ بن مبارک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس شخص میں دوچیزیں ہوایک توصد ق اوردوسراحضورتاجدارختم نبوتﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی محبت تومجھے امیدہے کہ وہ شخص نجات پاجائے گا۔
(الشریعۃ:أبو بکر محمد بن الحسین بن عبد اللہ الآجُرِّیُّ البغدادی (۴:۱۶۸۷)
وہ جھوٹے ہیں؟
عَنْ حُمَیْدٍ الطَّوِیلِ قَالَ:قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ:قَالُوا:إِنَّ حُبَّ عُثْمَانَ وَعَلِیٍّ لَا یَجْتَمِعَانِ فِی قَلْبٍ مُؤْمِنٍ وَکَذَبُوا , قَدْ جَمَعَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ حُبَّہُمَا بِحَمْدِ اللَّہِ فِی قُلُوبِنَا۔
ترجمہ:حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بسند ِ صحیح منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا:لوگ کہتے ہیں کہ حضرت سیدنا عثمان غنی اورحضرت سیدنا مولاعلی رضی اللہ عنہما دونوں سے محبت مؤمن کے دل میں جمع نہیں ہوسکتی۔ مگر یہ جھوٹ کہتے ہیں۔ بحمد اللہ ہمارے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے دونوں کی محبت جمع کردی ہے۔
(الشریعۃ:أبو بکر محمد بن الحسین بن عبد اللہ الآجُرِّیُّ البغدادی (۴:۱۷۷۰)

کون بلاحساب جنت جائے گا؟

وَقَالَ ابْنُ وَہْبٍ عَنْ مَالِکٍ عَنِ الزُّہْرِیِّ قَالَ:سَأَلْتُ سَعِیدَ بْنَ الْمُسَیَّبِ عَنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لِی:اسْمَعْ یَا زُہْرِیُّ، مَنْ مَاتَ مُحِبًّا لِأَبِی بَکْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ وَعَلِیٍّ، وَشَہِدَ لِلْعَشَرَۃِ بِالْجَنَّۃِ، وَتَرَحَّمَ عَلَی معاویۃ، کان حقا عَلَی اللَّہِ أَنْ لَا یُنَاقِشَہُ الْحِسَابَ۔
ترجمہ :امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں حضرت سیدناسعید بن مسیب رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا:زہری!سنو، جو ابوبکر ، عمر، عثمان اور علی رضی اللہ عنہم سے محبت کرے، عشرہ مبشرہ رضی اللہ عنہم کے جنتی ہونے کی شہادت دے، معاویہ رضی اللہ عنہ کے لئے رحمت کی دعا کرے، اللہ تعالیٰ پراس بندہ مومن کاحق ہے کہ اس سے حساب و کتاب نہ لے۔
(البدایۃ والنہایۃ:أبو الفداء إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی البصری ثم الدمشقی (۸:۱۳۹)
خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کی محبت ۔۔۔
حَدَّثَنَا خَالِدٌ یَعْنِی الْوَاسِطِیَّ قَالَ:سَمِعْتُ أَبَا شِہَابٍ یَقُولُ: لَا یَجْتَمِعُ حُبُّ أَبِی بَکْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ وَعَلِیٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمْ إِلَّا فِی قُلُوبِ أَتْقِیَاء ِ ہَذِہِ الْأُمَّۃِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناامام ابو شہاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:حضرات ابوبکر ، عمر، عثمان اور علی رضی اللہ عنہم کی محبت صرف اس امت کے اتقیاء کے دلوں میں جمع ہوتی ہے۔(یعنی متقی لوگ ہی حضورتاجدارختم نبوتﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ محبت کرتے ہیں ، فاسق وفاجراورگھٹیااورکمینے لوگ اورشرابی اورچرسی حضورتاجدارختم نبوتﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ محبت نہیں رکھتے بلکہ وہ چوکوں وچوراہوں میں کھڑے ہوکران پاکان امت پرتبراکرتے ہیں)
(الشریعۃ: أبو بکر محمد بن الحسین بن عبد اللہ الآجُرِّیُّ البغدادی (۴:۱۷۷۱)
اس لیے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بالعموم اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم سے بالخصوص محبت ایمان کا حصہ ہے اور ان سے بغض و عداوت، نفاق اور بدعت کی علامت ہے۔

شیخین کریمین رضی اللہ عنہماکے ساتھ محبت رکھنافرض عین ہے

نا الْوَلِیدُ بْنُ الْفَضْلِ، قَالَ:حَدَّثَنِی عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ جَعْفَرٍ اللُّؤْلُؤِیُّ، قَالَ:قُلْتُ لِلْحَسَنِ:حُبُّ أَبِی بَکْرٍ وَعُمَرَ سُنَّۃٌ؟ قَالَ: لَا، فَرِیضَۃٌ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبدالعزیز بن جعفررحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میں نے ایک دن حضرت سیدناامام حسن بصری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں عرض کی : کیاحضرت سیدناابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ اورحضر ت سیدناعمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ محبت رکھناسنت ہے ؟توآپ رضی اللہ عنہ نے جواباً فرمایاکہ نہیں! بلکہ ان کے ساتھ محبت رکھنافرض ہے ۔
(شرح أصول اعتقاد أہل السنۃ والجماعۃ: أبو القاسم ہبۃ اللہ بن الحسن الرازی اللالکائی (۷:۱۳۱۲)

حضرت سیدناطائوس رحمہ اللہ تعالی کاقول

أَبُو مُعَاوِیَۃَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ بِلَالٍ، عَنْ طَاوُسٍ، قَالَ: حُبُّ أَبِی بَکْرٍ وَعُمَرَ، وَمَعْرِفَۃُ فَضْلِہِمَا مِنَ السُّنَّۃِ۔
ترجمہ :حضرت سیدنامحمدبن بلال رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیںکہ حضرت سیدناطائوس رحمہ اللہ تعالی فرمایاکرتے تھے کہ حضرت سیدناابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ اورحضرت سیدناعمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ محبت رکھناسنت ہے اوران کی عظمت وشان کی معرفت حاصل کرنابھی سنت ہے ۔
(شرح أصول اعتقاد أہل السنۃ والجماعۃ:أبو القاسم ہبۃ اللہ بن الحسن الرازی اللالکائی (۷:۱۳۱۲)

جاہل کون؟

عَنْ أَبِی جَعْفَرٍ یَعْنِی مُحَمَّدَ بْنَ عَلِیِّ بْنِ الْحَسَنِ، قَالَ:مَنْ جَہِلَ فَضْلَ أَبِی بَکْرٍ وَعُمَرَ، فَقَدْ جَہِلَ السُّنَّۃَ۔
ترجمہ:حضرت سیدناامام باقررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جوشخص حضرت سیدناابوبکرالصدیق رضی اللہ عنہ اورحضرت سیدناعمر رضی اللہ عنہ کی عظمت وشان سے جاہل رہاوہ سنت مبارکہ سے جاہل رہا۔
(فضائل الصحابۃ:أبو عبد اللہ أحمد بن محمد بن حنبل بن ہلال بن أسد الشیبانی (ا:۱۳۵)

حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ کافرمان عالی شان

عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ مُلَیْلٍ قَالَ:قَالَ عَلِیٌّ:إِنَّہُ لَمْ یَکُنْ نَبِیُّ إِلَّا قَدْ أُعْطِیَ سَبْعَۃَ رُفَقَاء َ نُجَبَاء َ، وَإِنَّ نَبِیَّکُمْ عَلَیْہِ السَّلَامُ أُعْطِیَ أَرْبَعَۃَ عَشَرَ، قُلْنَا:مَنْ ہُمْ؟ قَالَ:أَنَا، وَابْنَایَ، وَحَمْزَۃُ، وَجَعْفَرٌ، وَأَبُو بَکْرٍ، وَعُمَرُ، وَعَبْدُ اللَّہِ بْنُ مَسْعُودٍ، وَحُذَیْفَۃُ، وَعَمَّارٌ، وَالْمِقْدَادُ، وَأَبُو ذَرٍّ، وَسَلْمَانُ، وَبِلَالٌ رَحِمَہُمُ اللَّہُ.
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن ملیل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:بے شک اللہ تعالی کے ہر ہرنبی (علیہ السلام)کو سات رفقاء بطورنجیب کے ملے ہیں اوربے شک تمھارے نبی کریم ﷺکو اللہ تعالی نے چودہ نجباء عطافرمائے ہیں۔
ہم نے عرض کی: حضور! وہ کون ہیں؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں اورمیرے دوبیٹے ، سید الشہداء امیرحمزہ ، حضرت سیدناجعفر، حضرت سیدناابوبکر الصدیق ، حضرت سیدناعمر بن خطاب ، حضرت سیدناعبداللہ بن مسعود ، حضرت سیدناحذیفہ ، حضرت سیدناعمار، حضرت سیدنامقداد ، حضرت سیدناابوذر، حضرت سیدناسلمان اورحضرت سیدنابلال رضی اللہ عنہم ۔
(فضائل الصحابۃ:أبو عبد اللہ أحمد بن محمد بن حنبل بن ہلال بن أسد الشیبانی (ا:۱۳۵)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی محبت کیسے سکھائی جاتی تھی ؟
عَنْ مَالِکِ بْنِ أَنَسٍ، قَال:کَانَ السَّلَفُ یُعَلِّمُونَ أَوْلَادَہُمْ حُبَّ أَبِی بَکْرٍ وَعُمَرَ کَمَا یُعَلِّمُونَ السُّورَۃَ مِنَ الْقُرْآنِ۔
ترجمہ :حضرت سیدنامالک بن انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ ہمارے بزرگ اپنے بچوں کو حضرت سیدناابوبکرالصدیق رضی اللہ عنہ اورحضرت سیدناعمر رضی اللہ عنہ کی محبت اپنے بچوں کو ایسے سکھاتے تھے جیسے وہ قرآن کریم کی کوئی سورت سکھاتے تھے ۔
(شرح أصول اعتقاد أہل السنۃ والجماعۃ: أبو القاسم ہبۃ اللہ بن الحسن الرازی اللالکائی (۷:۱۳۱۲)

جماعت کون؟

ا عَلِیُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ شَقِیقٍ، قَالَ: سَأَلْتُ عَبْدَ اللَّہِ بْنَ الْمُبَارَکِ عَنِ الْجَمَاعَۃِ، فَقَالَ: أَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعلی بن حسین بن شقیق رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سیدناعبداللہ بن مبارک رضی اللہ عنہ سے سوال کیاکہ جماعت کون ہیں؟ توآپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حضرت سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ اورحضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ ۔
(موسوعۃ مواقف السلف :أبو سہل محمد بن عبد الرحمن المغراوی(۳:۵۸)

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کادشمن منافق ہے

عَنْ عَدِیِّ بْنِ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِیِّ، قَالَ:سَمِعْتُ الْبَرَاء َ بْنَ عَازِبٍ، یَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْأَنْصَارِ:لَا یُحِبُّہُمْ إِلَّا مُؤْمِنٌ وَلَا یُبْغِضُہُمْ إِلَّا مُنَافِقٌ، فَمَنْ أَحَبَّہُمْ أَحَبَّہُ اللَّہُ وَمَنْ أَبْغَضَہُمْ أَبْغَضَہُ اللَّہُ۔
ترجمہ :حضرت سیدناالبراء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے انصار کے متعلق فرمایا: ان کے ساتھ صرف وہی محبت کرے گا جو مومن ہوگااوران کے ساتھ صرف وہی بغض رکھے گا جو منافق ہوگا، پس جس نے ان کے ساتھ محبت رکھی اللہ تعالی بھی اس کے ساتھ محبت رکھے گااورجس نے ان کے ساتھ بغض رکھااللہ تعالی بھی اس کے ساتھ ایساہی معاملہ فرمائے گا۔
(مسند أبی داود الطیالسی:أبو داود سلیمان بن داود بن الجارود الطیالسی البصری (۲:۴۷)
ایمان کی علامت انصار رضی اللہ عنہم سے محبت کرنا ہے اور نفاق کی علامت انصار رضی ا للہ عنہم سے بغض رکھنا ہے۔
انصار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت ایمان کی علامت اس بنا پر ہے کہ انہوں نے بڑے مشکل وقت میں رسول اللہﷺکی بیعت کی، اپنی جان پر کھیل کر آپﷺکو مدینہ طیبہ میں لائے، سارا عرب ان کا دشمن ہوگیا، منافقین مدینہ ان سے اسی بنا پر بغض رکھتے تھے، ان سے محبت رسول اللہﷺسے رشتہ داری کی بنیاد پر نہیں بلکہ خادم اسلام ہونے کے ناطے اور رسول اللہﷺکی خدمت گزاری اور وفا شعاری کے نتیجہ میں ہے۔

حضرت ابوبکروعمررضی اللہ عنہماکاذکرخیرکرناسنت ہے

عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّہِ، قَالَ:کُنَّا نَرَی أَنَّ ذِکْرَ أَبِی بَکْرٍ وَعُمَرَ مِنَ السُّنَّۃِ۔
ترجمہ :حضرت سیدنامسروق رضی اللہ عنہ حضرت سیدناعبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیںکہ حضرت سیدناابوبکررضی اللہ عنہ اورحضرت سیدناعمر رضی اللہ عنہ کاذکرخیر کرناہمارے نزدیک سنت مبارکہ ہے ۔
(شرح أصول اعتقاد أہل السنۃ والجماعۃ:أبو القاسم ہبۃ اللہ بن الحسن الرازی اللالکائی (۷:۱۳۱۲)
اگرابوبکروعمرنہ ہوتے تو؟
أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ یُونُسَ قَالَ:سَمِعْتُ وَکِیعَ بْنَ الْجَرَّاحِ یَقُولُ: لَوْلَا أَبُو بَکْرٍ الصِّدِّیقُ ذَہَبَ الْإِسْلَام۔
ترجمہ :حضرت سیدناوکیع بن الجراح رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ اگرحضرت سیدناابوبکر وعمر رضی اللہ عنہمانہ ہوتے تو اسلام رخصت ہوجاتا۔
(فضائل الصحابۃ: أبو عبد اللہ أحمد بن محمد بن حنبل بن ہلال بن أسد الشیبانی (ا:۱۳۵)

نفاق سے بری ہونے کاآسان نسخہ

عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَۃَ قَالَ: قَالَ أَیُّوبُ السَّخْتِیَانِیُّ: مَنْ أَحَبَّ أَبَا بَکْرٍ الصِّدِّیقَ فَقَدْ أَقَامَ الدِّینَ، وَمَنْ أَحَبَّ عُمَرَ فَقَدْ أَوْضَحَ السَّبِیلَ، وَمَنْ أَحَبَّ عُثْمَانَ فَقَدِ اسْتَنَارَ بِنُورِ الدِّینِ، وَمَنْ أَحَبَّ عَلِیَّ بْنَ أَبِی طَالِبٍ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالعُرْوَۃَ الْوُثْقَی، وَمَنْ قَالَ الْحُسْنَی فِی أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَدْ بَرِئَ مِنَ النِّفَاقِ ۔
ترجمہ :حضرت سیدناایوب السختیانی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جس نے حضرت سیدناابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ محبت کی اس نے اپنادین قائم کرلیا، اورجس نے حضرت سیدناعمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ محبت کی اس نے اپناراستہ واضح کرلیا، اورجس نے حضرت سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ محبت کی اس نے اپنادین منور کرلیا، اورجس نے حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ کے ساتھ محبت کی اس نے عروۃ الوثقی(مضبوط رسی ) کو تھام لیااورجس نے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں اچھاعقیدہ رکھاوہ شخص منافقت سے بری ہوگیا۔
(شرح أصول اعتقاد أہل السنۃ والجماعۃ:أبو القاسم ہبۃ اللہ بن الحسن الرازی اللالکائی (۷:۱۳۱۲)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ بغض درحقیقت رسول اللہ ﷺکے ساتھ بغض ہے
عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مُغَفَّلٍ الْمُزَنِیِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:اللہَ اللہَ فِی أَصْحَابِی، اللہَ اللہَ فِی أَصْحَابِی، لَا تَتَّخِذُوہُمْ غَرَضًا بَعْدِی، فَمَنْ أَحَبَّہُمْ فَبِحُبِّی أَحَبَّہُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَہُمْ فَبِبُغْضِی۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:میرے بعد میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرنا اور ان کو ہدفِ ملامت نہ بنانااس لیے کہ جس نے ان سے محبت کی اس نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھنے کی وجہ سے ان سے بغض رکھا.
(مسند الإمام أحمد بن حنبل:أبو عبد اللہ أحمد بن محمد بن حنبل بن ہلال بن أسد الشیبانی (۳۴:۱۶۹)
یعنی میرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر تنقید کرنے ،سب و شتم کرنے، ان کی برائی بیان کرنے سے بچو!جو کوئی بھی ان سے محبت کرتا ہے وہ میری محبت کی وجہ سے کرتا ہے اس لیے کہ وہ نسبت ِمحمدیﷺ کے ساتھ صحابی بنا ہے.چنانچہ جس کے دل میں میری محبت ہے تواس کے دل میں میرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی محبت بھی ہو گی.دوسری بات یہ کہ جو میرے صحابہ سے بغض رکھے گا تو اس کا اصل بغض مجھ سے ہے۔میرے صحابہ پر جو بغض نکالتا ہے ان پرسب و شتم کرتا ہے، تبرا کرتا ہے ،انہیں برا بھلا کہتا ہے ان پر تنقیدیں کرتا ہے۔وہ در حقیقت مجھ سے سب و شتم ، بغض و حسد کرتا ہے ۔

ماخوذ از تفسیر ناموس رسالت

Leave a Reply

%d bloggers like this: