احکامات شرع پر اعتراض کرنے والے کون؟
{سَیَقُوْلُ السُّفَہَآء ُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلّٰیہُمْ عَنْ قِبْلَتِہِمُ الَّتِیْ کَانُوْا عَلَیْہَا قُلْ لِّلہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَآء ُ اِلٰی صِرٰطٍ مُّسْتَقِیْمٍ}(۱۴۲)وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَآء َ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْہَآ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰی عَقِبَیْہِ وَ اِنْ کَانَتْ لَکَبِیْرَۃً اِلَّا عَلَی الَّذِیْنَ ہَدَی اللہُ وَمَا کَانَ اللہُ لِیُضِیْعَ اِیْمٰنَکُمْ اِنَّ اللہَ بِالنَّاسِ لَرَء ُوْفٌ رَّحِیْمٌ}(۱۴۳){قَدْ نَرٰی تَقَلُّبَ وَجْہِکَ فِی السَّمَآء ِ فَلَنُوَ لِّیَنَّکَ قِبْلَۃً تَرْضٰیہَا فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَیْثُ مَا کُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْہَکُمْ شَطْرَہ وَ اِنَّ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ لَیَعْلَمُوْنَ اَنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّہِمْ وَمَا اللہُ بِغٰفِلٍ عَمَّا یَعْمَلُوْنَ}(۱۴۴)
ترجمہ کنزالایمان:اب کہیں گے بیوقوف لوگ کس نے پھیردیامسلمانوں کو ان کے اس قبلہ سے جس پر تھے تم فرمادو کہ پورب پچھم سب اللہ ہی کا ہے جسے چاہے سیدھی راہ چلاتا ہے۔
اور بات یوں ہی ہے کہ ہم نے تمہیں کیا سب امتوں میں افضل تم لوگوں پر گواہ ہو اور یہ رسول تمہارے نگہبان و گواہ اور اے محبوبﷺ تم پہلے جس قبلہ پر تھے ہم نے وہ اسی لئے مقرر کیا تھا کہ دیکھیں کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹے پاؤں پھر جاتا ہے اور بیشک یہ بھاری تھی مگر ان پر جنہیں اللہ نے ہدایت کی اور اللہ کی شان نہیں کہ تمہارا ایمان اکارت کرے بیشک اللہ آدمیوں پر بہت مہربان رحم والا ہے
ہم دیکھ رہے ہیں بار بار تمہارا آسمان کی طرف منہ کرنا تو ضرور ہم تمہیں پھیردیں گے اس قبلہ کی طرف جس میں تمہاری خوشی ہے ابھی اپنا منہ پھیر دو مسجد حرام کی طرف اور اے مسلمانو تم جہاں کہیں ہو اپنا منہ اسی کی طرف کرو اور وہ جنہیں کتاب ملی ہے ضرور جانتے کہ یہ ان کے رب کی طرف سے حق ہے اور اللہ ان کے کوتکوں سے بے خبر نہیں۔
ترجمہ ضیاء الایمان: اب بے وقوف لوگ کہیں گے کہ کس نے اہل اسلام کو ان کے پہلے قبلہ سے پھیردیاہے جس پر وہ پہلے تھے ، اے حبیب کریمﷺ! آپ فرمائو!مشرق ومغرب سب اللہ تعالی کے ہیں جسے چاہے سیدھی راہ پرچلاتاہے۔
اوربات ایسی ہے کہ ہم نے آپ کو تمام امتوں سے افضل بنایااورتم لوگوں پرگواہ ہواوررسول اللہ ﷺتمھارے نگہبان اورتم پر گواہ ہیں ،اے حبیب کریمﷺ ! آپ جس قبلہ کی طر ف منہ کرکے نماز اداکرتے تھے وہ ہم نے اسی لئے مقررکیاتھاکہ دیکھیں کہ کون ہمارے رسول کریمﷺکی پیروی کرتاہے اورکون الٹے پائوں پھرجاتاہے اوربے شک یہ بات بہت زیادہ بھاری تھی مگران پر جنہیں اللہ تعالی نے ہدایت عطافرمائی ۔اوراللہ تعالی کی یہ شان نہیں ہے کہ وہ تمھارے اعمال ضائع فرمادے ، بے شک اللہ تعالی اپنے بندوں پر بڑارحم فرمانے والاہے ۔
ہم دیکھ رہے ہیں باربارآپ ﷺکاآسمان کی طرف منہ کرناتوضرورہم آپ ﷺکو اس قبلہ کی طرف ہی پھیردیں گے جس میں آپ ﷺکی خوشی ہے اورآپ ﷺابھی اپنامنہ پھیردو مسجد حرام شریف کی طرف اوراے مسلمانو! تم جہاں کہیں بھی ہواپنامنہ کعبہ مشرفہ کی طرف کرواوروہ لوگ جنہیں کتاب ملی وہ ضرورجانتے ہیں کہ یہ ان کے رب تعالی کی طرف سے حق ہے اوراللہ تعالی ان کے اعمال سے باخبرہے۔
جب قبلہ کی تبدیلی کاحکم ہواتوباطل پرست اورکمزورعقیدے والے لوگوں نے آسمان سرپراٹھاکرطرح طرح کے اعتراضات شروع کردیئے ، اللہ تعالی نے انہیں جو اب دیاکہ حکم ، تصرف اورہر قسم کااختیاراللہ تعالی کاہے جو مالک الملک ہے ، جدھرمنہ کرواسی طرف اس کی رحمت تمھاری طرف متوجہ ہے ، بھلائی اس میں نہیں بلکہ اصل توایمان کی مضبوطی ہے جوہرحکم کے ماننے پرمجبورکردیتی ہے ، اس میں گویااہل ایمان کو ادب سکھایاگیاہے کہ ان کاکام صرف اورصرف حکم پرعمل کرنااورفرمان کی بجاآوری ہے ، جدھرانہیں منہ کرنے کاحکم دیاجائے یہ فوراً اسی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں ۔ اطاعت کے معنی ہی یہی ہیں کہ اللہ تعالی کے حکم کو پوراکیاجائے، اگراللہ تعالی ایک دن میں سومرتبہ ہر طرف منہ کرنے کاحکم دے توہم بغیرکسی حیل وحجت کے بخوشی گھوم جائیں گے ، ہم اس کے غلام ہیں اوراس کے حکم کے ماتحت ہیں ، اس کے فرمانبرداراوراس کے خادم ہیں ، جس سمت کااللہ تعالی حکم دے گاہم سعادت جان کراسی طرف منہ کرلیںگے۔
رسول اللہ ﷺکی امت پر یہ بھی اللہ تعالی کاکرم ہے کہ انہیں حضرت سیدناابراہیم علیہ السلام کے قبلہ کی طرف منہ کرنے کاحکم ہواجواسی اللہ تعالی و حدہ لاشریک کے نام پربناہے ،جسے تمام فضیلتیں حاصل ہیں ۔
اوران آیات مبارکہ میں اسی بات کاجواب دیاجارہاہے کہ اللہ تعالی کے علم ازلی میں تمھاراوہی قبلہ ہے جو حضرت سیدناابراہیم علیہ السلام کاقبلہ چلاآرہاتھا، جس قبلہ یعنی بیت المقدس کی طرف چندماہ آپ ﷺبھی نما زاداکرتے رہے ، اس کو ہم نے آپ ﷺکااصلی قبلہ نہیں بنایاتھابلکہ صرف اورصرف اس مصلحت کے لئے تاکہ یہ معلوم اورظاہرہوجائے کہ کون رسول اللہ ﷺکی پیروی کرتاہے اورکون رسول اللہ ﷺکی تصدیق کے بجائے انکارکرتاہے اورحق سے پھرجاتاہے ۔ یعنی بجائے کعبۃ اللہ شریف کے بیت المقدس کو قبلہ مقررکرنے میں مسلمانان قریش کاامتحان مقصودتھا، کون رسول اللہ ﷺکاسچافرمانبردارہے کہ جس قبلہ کی جانب بھی نماز اداکرنے کاحکم دیتے ہیں بلاتامل اسی جانب منہ کرکے نماز اداکرتاہے اورکون قومی حمیت کی رعایت کرتاہے ، اس لئے کہ قریش کعبۃ اللہ کی تعظیم پرفخرکرتے تھے اورقبلہ ابراہیمی کی مجاورت اورخدمت پر ناز کیاکرتے تھے اوربنی اسرائیل کے قبلہ یعنی بیت المقدس سے نفرت کرتے تھے ۔ اللہ تعالی نے اس قومی حمیت کے امتحان کے لئے بجائے خانہ کعبہ کے بیت المقدس کے استقبال کاحکم دیایعنی بیت المقدس کوقبلہ مقررکرنے میں مسلمانان قریش کاامتحان تھا، چونکہ یہ دونوں حکم انسانی نفوس پرشاق اورگراں تھے ، اسی لئے فرمایاکہ بے شک بیت المقدس کااستقبال قریش اورعرب پر بوجہ اولاد ابراہیم علیہ السلام کے ہونے کے سخت گراں تھامگرجن لوگوں کو اللہ تعالی نے ہدایت سے نوازاانہیں مکمل اتباع رسول ﷺنصیب فرمایااوراللہ تعالی کے احکامات پر انہیں بغیرچوں چراعمل کرنے کی توفیق عطافرمائی ۔ ان کے لئے اللہ تعالی کے احکامات پر چلنااورسرتسلیم خم کرناکوئی مشکل نہیں ہے وہ جدھربھی اللہ تعالی کاحکم ہوگاوہ اسی جانب متوجہ ہوجائیں گے ۔
اخص الخواص حضرات یعنی جماعت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ایسے لوگ بھی تھے جو اپنے ذوق سلیم سے یہ خیال کرتے تھے کہ اگرچہ خانہ کعبہ بیت المقدس سے افضل ہے مگرچونکہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺتمام انبیاء کرام علیہم السلام کے جامع ہیں ، آپ ﷺامام القبلتیں بھی ہیں اورآپ ﷺکی بعثت تمام اقوام عالم اورپوری کی پوری خلقت کے لئے ہے اسی لئے یہ لوگ اپنی فطرت اورنورِ فراست سے یہ بات سمجھتے تھے کہ یہ ضروری ہے کہ کسی بھی وقت اس استقبال کی نوبت آئے گی اورکچھ عرصہ گزرنے کے بعد اصل قبلہ یعنی کعبہ مشرفہ کی جانب متوجہ کیاجائے گاجو کہ افضل الرسل حضور تاجدارختم نبوت ﷺکے شان عالی کے عین مناسب ہے ۔
شان نزول
عَنْ الْبَرَاء ِ قَالَ صَلَّیْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَحْوَ بَیْتِ الْمَقْدِسِ ثَمَانِیَۃَ عَشَرَ شَہْرًا وَصُرِفَتْ الْقِبْلَۃُ إِلَی الْکَعْبَۃِ بَعْدَ دُخُولِہِ إِلَی الْمَدِینَۃِ بِشَہْرَیْنِ وَکَانَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّی إِلَی بَیْتِ الْمَقْدِسِ أَکْثَرَ تَقَلُّبَ وَجْہِہِ فِی السَّمَاء ِ وَعَلِمَ اللَّہُ مِنْ قَلْبِ نَبِیِّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُ یَہْوَی الْکَعْبَۃَ فَصَعِدَ جِبْرِیلُ فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُتْبِعُہُ بَصَرَہُ وَہُوَ یَصْعَدُ بَیْنَ السَّمَاء ِ وَالْأَرْضِ یَنْظُرُ مَا یَأْتِیہِ بِہِ فَأَنْزَلَ اللَّہُ قَدْ نَرَی تَقَلُّبَ وَجْہِکَ فِی السَّمَاء ِ الْآیَۃَ فَأَتَانَا آتٍ فَقَالَ إِنَّ الْقِبْلَۃَ قَدْ صُرِفَتْ إِلَی الْکَعْبَۃِ وَقَدْ صَلَّیْنَا رَکْعَتَیْنِ إِلَی بَیْتِ الْمَقْدِسٍ وَنَحْنُ رُکُوعٌ فَتَحَوَّلْنَا فَبَنَیْنَا عَلَی مَا مَضَی مِنْ صَلَاتِنَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَا جِبْرِیلُ کَیْفَ حَالُنَا فِی صَلَاتِنَا إِلَی بَیْتِ الْمَقْدِسِ فَأَنْزَلَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ وَمَا کَانَ اللَّہُ لِیُضِیعَ إِیمَانَکُمْ(البقرۃ:۱۴۳)
ترجمہ :سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا:ہم نے رسول اللہ ﷺکے ساتھ اٹھارہ مہینے تک بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نمازیں ادا کیں ، پھر آپ ﷺکے مدینہ تشریف لانے کے دو ماہ بعد کعبہ کو قبلہ مقرر کر دیا گیا تھا۔ رسول اللہ ﷺجب بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے تو اکثر آسمان کی طرف چہرہ مبارک اٹھاتے۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے نبی کریمﷺ کے دل کی کیفیت معلوم تھی کہ وہ کعبہ شریف(کو قبلہ بنانے)کی خواہش رکھتے ہیں۔ جبریل علیہ السلام (آسمان کی طرف)بلند ہوئے تو جب وہ آسمان اور زمین کے درمیان بلند ہوتے جا رہے تھے تو رسول اللہ ﷺیہ معلوم کرنے کی خواہش رکھتے تھے کہ جبریل علیہ السلام کیا وحی لے کر نازل ہوں گے۔ (آخر کار)اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فر دی:(قَدْ نَرٰی تَـقَلُّبَ وَجْہِکَ فِی السَّمَآء ِ )ہم آپﷺ کے چہرے کو بار بار آسمان کی طرف اٹھتے ہوئے دیکھتے ہیں۔۔۔۔ ہمارے پاس ایک آدمی آیا، اس نے کہا:قبلہ(بیت المقدس سے)کعبہ کی طرف منتقل ہوگیا ہے۔ ہم نے دو رکعتیں بیت المقدس کی طرف منہ کر کے ادا کی تھیں(اور ابھی نماز مکمل نہیں ہوئی تھی)ہم رکوع میں تھے(جب یہ خبر ملی)ہم نے (فوراً)رخ پھیر لیا اور جو نماز پڑھی جا چکی تھی، اس پر باقی نماز کی بنا کر لی تو رسول اللہ ﷺنے فرمایا: اے جبریل!ہماری بیت المقدس کی طرف منہ کر کے پڑھی ہوئی نمازوں کا کیا حال ہوگا؟ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما دی:(و کان اللہ لیضیع ایمانکم) اللہ تعالیٰ تمہارے ایمان(تمھاری نمازیں)ضائع نہیں کریگا۔
(سنن ابن ماجہ:ابن ماجۃ أبو عبد اللہ محمد بن یزید القزوینی، وماجۃ اسم أبیہ یزید (ا:۳۲۲)
امت وسط کامطلب ؟
عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُدْعَی نُوحٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَیَقُولُ لَبَّیْکَ وَسَعْدَیْکَ یَا رَبِّ فَیَقُولُ ہَلْ بَلَّغْتَ فَیَقُولُ نَعَمْ فَیُقَالُ لِأُمَّتِہِ ہَلْ بَلَّغَکُمْ فَیَقُولُونَ مَا أَتَانَا مِنْ نَذِیرٍ فَیَقُولُ مَنْ یَشْہَدُ لَکَ فَیَقُولُ مُحَمَّدٌ وَأُمَّتُہُ فَتَشْہَدُونَ أَنَّہُ قَدْ بَلَّغَ وَیَکُونَ الرَّسُولُ عَلَیْکُمْ شَہِیدًا فَذَلِکَ قَوْلُہُ جَلَّ ذِکْرُہُ وَکَذَلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّۃً وَسَطًا لِتَکُونُوا شُہَدَاء َ عَلَی النَّاسِ وَیَکُونَ الرَّسُولُ عَلَیْکُمْ شَہِیدًا وَالْوَسَطُ الْعَدْلُ
ترجمہ :حضرت سیدناابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:قیامت کے دن حضرت سیدنانوح علیہ السلام کو بلایا جائے گا تو وہ عرض کریں گے:پروردگار!میں حاضر ہوں۔ آپ کا جو ارشاد ہو میں اسے بجا لانے کے لیے تیار ہوں۔ پروردگار فرمائے گا:کیا تم نے لوگوں کو ہمارے احکام بتا دیے تھے؟ وہ کہیں گے:ہاں۔پھر ان کی امت سے پوچھا جائے گا:کیا انہوں نے تمہیں میرا حکم پہنچایا تھا؟ وہ کہیں گے:ہمارے پاس تو کوئی ڈرانے والا آیا ہی نہیں۔ اللہ تعالٰی حضرت سیدنا نوح علیہ السلام سے فرمائے گا: تمہارا کوئی گواہ ہے؟ وہ عرض کریں گے:حضرت سیدناتاجدارختم نبوت ْﷺاور ان کی امت گواہ ہے۔ پھر اس امت کے لوگ گواہی دیں گے کہ حضرت نوح علیہ السلام نے اللہ کا پیغام پہنچایا تھا۔ اور حضورتاجدارختم نبوت ﷺتم پر گواہ بنیں گے۔اللہ تعالٰی کے اس ارشاد کا یہی مطلب ہے:اسی طرح ہم نے تمہیں امت وسط بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور رسول تمہارے لیے گواہی دے۔آیت میں لفظ وسط کے معنی عادل اور منصف کے ہیں۔
(صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۶:۲۱)
انتم شہداء اللہ
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ مُرَّ بِجَنَازَۃٍ فَأُثْنِیَ عَلَیْہَا خَیْرًا فَقَالَ نَبِیُّ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَجَبَتْ وَجَبَتْ وَجَبَتْ وَمُرَّ بِجَنَازَۃٍ فَأُثْنِیَ عَلَیْہَا شَرًّا فَقَالَ نَبِیُّ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَجَبَتْ وَجَبَتْ وَجَبَتْ قَالَ عُمَرُ فِدًی لَکَ أَبِی وَأُمِّی مُرَّ بِجَنَازَۃٍ فَأُثْنِیَ عَلَیْہَا خَیْرٌ فَقُلْتَ وَجَبَتْ وَجَبَتْ وَجَبَتْ وَمُرَّ بِجَنَازَۃٍ فَأُثْنِیَ عَلَیْہَا شَرٌّ فَقُلْتَ وَجَبَتْ وَجَبَتْ وَجَبَتْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ أَثْنَیْتُمْ عَلَیْہِ خَیْرًا وَجَبَتْ لَہُ الْجَنَّۃُ وَمَنْ أَثْنَیْتُمْ عَلَیْہِ شَرًّا وَجَبَتْ لَہُ النَّارُ أَنْتُمْ شُہَدَاء ُ اللَّہِ فِی الْأَرْضِ أَنْتُمْ شُہَدَاء ُ اللَّہِ فِی الْأَرْضِ أَنْتُمْ شُہَدَاء ُ اللَّہِ فِی الْأَرْضِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبد العزیز بن صہیب رضی اللہ عنہ نے حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی،انھوں نے کہا:ایک جنازہ گزرا تو اس کی اچھی صفت بیان کی گئی اس پر حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فر مایا:واجب ہو گئی واجب ہو گئی واجب ہو گئی ،اس کے بعد ایک اور جنازہ گزرا تو اس کی بری صفت بیان کی گئی تو حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرما یا :واجب ہو گئی واجب ہو گئی واجب ہو گئی اس پرحضرت سیدناعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: آپﷺ پر میرے ماں باپ فدا ہوں!ایک جنازہ گزرا اور اس کی اچھی صفت بیان کی گئی تو آپ ﷺنے فر مایا :واجب ہو گئی واجب ہو گئی واجب ہو گئی ۔ایک اور جنازہ گزرا اور اس کی بری صفت بیان کی گئی تو آپ ﷺنے فرما یا واجب ہو گئی واجب ہو گئی واجب ہو گئی(اس کا مطلب کیا ہے؟ )تو حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرما یا :جس کی تم لو گوں نے اچھی صفت بیان کی اس کے لیے جنت واجب ہو گئی اور جس کی تم نے بری صفت بیان کی اس کے لیے آگ واجب ہو گئی تم زمین میں اللہ کے گواہ ہو تم زمین میں اللہ کے گواہ ہو تم زمین میں اللہ کے گواہ ہو۔
(صحیح مسلم :مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشیری النیسابوری (۲:۶۶۵)
تحویل قبلہ کے وقت لوگوں میں اختلاف کاواقع ہونا
وَأخرج ابْن جریر عَن السّدیّ قَالَ: لما وَجہ النَّبِی صلی اللہ عَلَیْہِ وَسلم قبل الْمَسْجِد الْحَرَام اخْتلف النَّاس فِیہَا فَکَانُوا أصنافاً فَقَالَ المُنَافِقُونَ: مَا بالہم کَانُوا علی قبْلَۃ زَمَانا ثمَّ ترکوہا وتوجہوا غَیرہَا وَقَالَ الْمُسلمُونَ: لَیْت شعرنَا عَن إِخْوَاننَا الَّذین مَاتُوا وہم یصلونَ قبل بَیت الْمُقَدّس ہَل یقبل اللہ منا وَمِنْہُم أم لَا وَقَالَ الْیَہُود: إِن مُحَمَّدًا اشتاق إِلَی بلد أَبِیہ ومولدہ وَلَو ثَبت علی قبلتنا لَکنا نرجو أَن نَکُون یکون ہُوَ صاحبنا الَّذِی نَنْتَظِر وَقَالَ الْمُشْرکُونَ من أہل مَکَّۃ: تحیر علی مُحَمَّد دینہ فَتوجہ بقبلتہ إِلَیْکُم وَعلم أَنکُمْ اہدی مِنْہُ ویوشک أَن یدْخل فِی دینکُمْ فَأنْزل اللہ فِی الْمُنَافِقین (سَیَقُولُ السُّفَہَاء من النَّاس) إِلَی قَوْلہ (إِلَّا علی الَّذین ہدی اللہ)وَأنزل فِی الآخرین الْآیَات بعْدہَا۔
ترجمہ :امام السدی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے کعبہ مشرفہ کی طرف منہ کیاتو لوگوں میں اختلاف پیداہوگیا، لوگ مختلف نظریات رکھتے تھے ، منافقین نے کہاکہ ان لوگوں کو کیاہے کہ ایک وقت تک ایک قبلہ پر رہتے ہیں اورپھراسے تر ک کرکے دوسرے قبلہ کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں،اہل اسلام نے کہاکہ کاش کہ ہمیں یہ بات معلوم ہوجاتی کہ ہمارے وہ بھائی جو بیت المقدس کی جانب منہ کرکے نمازیں پڑھتے رہے ہیں ، کیااللہ تعالی نے ان کی نمازیں قبول فرمائی ہیں یانہیں ؟ یہودیوں نے کہا: محمدﷺاپنے والد ماجد حضرت سیدناعبداللہ کے شہر اوراپنے مولد سے محبت کرنے لگے ہیں ۔ اگروہ ہمارے قبلہ پر ثابت قدم رہتے توہم بھی امیدکرسکتے تھے کہ وہ ہمارے ساتھی ہیں ، جن کے ہم منتظرتھے ، مکہ کے مشرکین نے کہاکہ محمدﷺپر اپنادین خلط ملط ہوگیاہے اوراس نے تمھارے قبلہ کی طرف توجہ کی ہے ، اسے معلوم ہوگیاہے کہ تم ان سے زیادہ ہدایت یافتہ ہو ، ہوسکتاہے کہ وہ تمھارے دین میں داخل ہوجائے ، اللہ تعالی نے منافقین کے متعلق {سَیَقُولُ السُّفَہَاء من النَّاس}سے لیکر{إِلَّا علی الَّذین ہدی اللہ}نازل فرمائیں۔
(جامع البیان فی تأویل القرآن:محمد بن جریر بن یزید بن کثیر بن غالب الآملی، أبو جعفر الطبری (۳:۱۴۰)
تحویل قبلہ کے وقت حکم الہی پراعتراض کرنے والے کافرہوگئے
یَتَّبِعُ الرَّسُولَ یَعْنِی فِیمَا أُمِرَ بِہِ مِنَ اسْتِقْبَالِ الْکَعْبَۃِ{مِمَّنْ یَنْقَلِبُ عَلی عَقِبَیْہِ }یَعْنِی مِمَّنْ یَرْتَدُّ عَنْ دِینِہِ، لِأَنَّ الْقِبْلَۃَ لَمَّا حُوِّلَتِ ارتد من المسلمین قوم ونافق قوم ولہذا قَالَ:وَإِنْ کانَتْ لَکَبِیرَۃًأَیْ تَحْوِیلُہَا۔
ترجمہ :یعنی قریش کعبہ سے محبت کرتے تھے ، پس اللہ تعالی نے انہیں غیرمالوف سے آزمایاتاکہ ظاہرہوجائے جو حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی اتباع کرتاہے اس سے جو اتباع نہیں کرتا۔ یعنی جو اللہ تعالی کے دین سے مرتدہوتاہے کیونکہ قبلہ جب تبدیل ہواتواہل اسلام میں سے کچھ مرتدہوگئے تھے اورایک قوم منافق ہوئی تھی ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی ۲:۱۴۸)
صرف اتناکہنے پر کافرہوگئے
وَأخرج ابْن جریر عَن ابْن جریج قَالَ: بَلغنِی أَن أُنَاسًا من الَّذین أَسْلمُوا رجعُوا فَقَالُوا مرّۃ ہَہُنَا وَمرَّۃ ہَہُنَا
ترجمہ:امام ابن جریر رحمہ اللہ تعالی نے حضرت سیدناجریج رضی اللہ عنہ سے نقل کیاہے کہ مجھے یہ خبرپہنچی ہے کہ مسلمانوں میں سے کچھ لوگ مرتدہوگئے تھے کیونکہ انہوںنے یہ کہاتھاکہ کبھی ادھراورکبھی ادھر۔
(الدر المنثور:عبد الرحمن بن أبی بکر، جلال الدین السیوطی (ا:۳۵۲)
وہ اعتراض کرنے والے کون تھے؟
الزَّجَّاجُ:کُفَّارُ قُرَیْشٍ لَمَّا أَنْکَرُوا تَحْوِیلَ الْقِبْلَۃِ قَالُوا:قَدِ اشْتَاقَ مُحَمَّدٌ إِلَی مَوْلِدِہِ وَعَنْ قَرِیبٍ یَرْجِعُ إِلَی دِینِکُم۔
ترجمہ :حضرت الزجاج رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جنہوںنے اعتراض کیاوہ کفارقریش تھے اورانہوں نے تحویل قبلہ پر یہ کہاتھاکہ رسول اللہ ﷺنے کعبہ مشرفہ کی جانب منہ اس لئے کیاہے کہ ان کامولد شریف ادھرہے اوریہ عنقریب تمھارے دین کی جانب لوٹ آئیں گے ۔(نعوذ باللہ )
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی ۲:۱۴۸)
کعبہ کے قبلہ بنانے میں حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی عظمتوں کااظہار
قَالَ بَعْضُ الْمَشَایِخِ: إِنَّ الْیَہُودَ اسْتَقْبَلُوا الْقِبْلَۃَ لِأَنَّ النِّدَاء َ لِمُوسَی عَلَیْہِ السَّلَامُ جَاء َ مِنْہُ، وَذَلِکَ قَوْلُہُ: وَما کُنْتَ بِجانِبِ الْغَرْبِیِّ (الْقَصَصِ:۴۴)الْآیَۃَ، وَالنَّصَارَی اسْتَقْبَلُوا الْمَغْرِبَ، لِأَنَّ جِبْرِیلَ عَلَیْہِ السَّلَامُ إِنَّمَا ذَہَبَ إِلَی مَرْیَمَ عَلَیْہَا السَّلَامُ مِنْ جَانِبِ الْمَشْرِقِ، لِقَوْلِہِ تَعَالَی:وَاذْکُرْ فِی الْکِتابِ مَرْیَمَ إِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ أَہْلِہا مَکاناً شَرْقِیًّا(مَرْیَمَ: ۱۶)وَالْمُؤْمِنُونَ اسْتَقْبَلُوا الْکَعْبَۃَ لِأَنَّہَا قِبْلَۃُ خَلِیلِ اللَّہِ، وَمَوْلِدُ حَبِیبِ اللَّہِ، وَہِیَ مَوْضِعُ حَرَمِ اللَّہِ، وَکَانَ بَعْضُہُمْ یَقُولُ:اسْتَقْبَلَتِ النَّصَارَی مَطْلَعَ الْأَنْوَارِ، وَقَدِ اسْتَقْبَلْنَا مَطْلَعَ سَیِّدِ الْأَنْوَارِ، وَہُوَ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَمِنْ نُورِہِ خُلِقَتِ الْأَنْوَارُ جَمِیعًاوَسَادِسُہَا:قَالُوا:الْکَعْبَۃُ سُرَّۃُ الْأَرْضِ وَوَسَطُہَا، فَأَمَرَ اللَّہُ تَعَالَی جَمِیعَ خَلْقِہِ بِالتَّوَجُّہِ إِلَی وَسَطِ الْأَرْضِ فِی صَلَاتِہِمْ، وَہُوَ إِشَارَۃٌ إِلَی أَنَّہُ یَجِبُ الْعَدْلُ فِی کُلِّ شَیْء ٍ، وَلِأَجْلِہِ جَعَلَ وَسَطَ الْأَرْضِ قِبْلَۃً لِلْخَلْقِ وَسَابِعُہَا: أَنَّہُ تَعَالَی أَظْہَرَ حُبَّہُ لِمُحَمَّدٍ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ بِوَاسِطَۃِ أَمْرِہِ بِاسْتِقْبَالِ الْکَعْبَۃِ، وَذَلِکَ لِأَنَّہُ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ کَانَ یَتَمَنَّی ذَلِکَ مُدَّۃً لِأَجْلِ مُخَالَفَۃِ الْیَہُودِ، فَأَنْزَلَ اللَّہُ تَعَالَی:قَدْ نَری تَقَلُّبَ وَجْہِکَ فِی السَّماء ِ (الْبَقَرَۃ:۱۴۴)الْآیَۃَ، وَفِی الشَّاہِدِ إِذَا وُصِفَ وَاحِدٌ مِنَ النَّاسِ بِمَحَبَّۃِ آخَرَ قَالُوا: فُلَانٌ یُحَوِّلُ الْقِبْلَۃَ لِأَجْلِ فُلَانٍ عَلَی جِہَۃِ التَّمْثِیلِ، فَاللَّہُ تَعَالَی قَدْ حَوَّلَ الْقِبْلَۃَ لِأَجْلِ حَبِیبِہِ مُحَمَّدٍ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ عَلَی جِہَۃِ التَّحْقِیقِ۔
ترجمہ :بعض مشائخ کرام رحمہم اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یہود قبلہ کی طرف منہ اس لئے کرتے کہ وہاں سے حضرت سیدناموسی علیہ السلام کو آوا ز آئی تھی اور{وَما کُنْتَ بِجانِبِ الْغَرْبِیِّ }الْقَصَصِ: ۴۴)اورآپ طورپر مغرب کی جانب نہ تھے ۔
نصاری مشرق کی طرف منہ کیاکرتے تھے کہ حضرت سیدناجبریل امین علیہ السلام حضرت سیدتنامریم علیہاالسلام کے پاس مشرق کی جانب سے گئے تھے،{وَاذْکُرْ فِی الْکِتابِ مَرْیَمَ إِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ أَہْلِہا مَکاناً شَرْقِیًّا}(مَرْیَمَ: ۱۶)اورکتاب میں مریم کو یادکرو،جب اپنے گھروالوں سے مشرق کی جانب الگ ہوگئیں۔
اہل ایمان کعبۃ اللہ کی جانب منہ کرتے ہیں ،کیونکہ حضرت سیدناابراہیم علیہ السلام کاقبلہ ہے اوروہ {وَمَوْلِدُ حَبِیبِ اللَّہِ}اوریہی اللہ تعالی کے حبیب کریم ﷺکی ولادت گاہ ہے اوراللہ تعالی کاحرم ہے ۔
بعض مشائخ کرام نے یہ کہاکہ نصاری نے انوارکے جائے طلوع کو قبلہ بنایااورہم نے سیدالانوارﷺکی جائے طلوع کو جائے قبلہ بنایا اوروہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی ذات گرامی ہے اورآپ ﷺکے نور مبارک سے تمام انوارکی تخلیق ہوئی ۔
کچھ مشائخ نے یہ بھی کہاکہ کعبہ زمین کی ناف اوراس کاوسط ہے ، اللہ تعالی نے تمام مخلوق کو حالت نمازمیں وسط زمین کی طرف متوجہ رہنے کاحکم دیا، اس میں اشارہ ہے کہ ہر چیز میں عدل لازم ہے ، اس لئے وسط زمین کو تمام مخلوق کاقبلہ بنایا۔
اللہ تعالی نے کعبہ مشرفہ کو قبلہ بناکرحضور تاجدارختم نبوت ﷺکے ساتھ اپنی محبت کااظہارفرمایاکیونکہ مخالفت یہود کی وجہ سے کافی مدت سے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی تمنابھی تھی تواللہ تعالی نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی {قَدْ نَری تَقَلُّبَ وَجْہِکَ فِی السَّماء ِ }(الْبَقَرَۃ:۱۴۴)اے حبیب کریم ﷺ! ہم آپ کا آسمان کی طرف باربارچہرہ اٹھانادیکھ رہے ہیں ۔
مشاہدہ یہ ہے کہ جب کسی کی دوسرے سے محبت بیان کی جاتی ہے توکہتے ہیں کہ فلان یحول القبلۃ لاجل الفلان ۔ فلاں نے فلاں کے لئے قبلہ بدل دیا، یہ بطورتمثیل اورمجازاً کہتے ہیں ۔ { فَاللَّہُ تَعَالَی قَدْ حَوَّلَ الْقِبْلَۃَ لِأَجْلِ حَبِیبِہِ مُحَمَّدٍ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ عَلَی جِہَۃِ التَّحْقِیق}مگراللہ تعالی نے اپنے حبیب کریم ﷺکے لئے عملاً قبلہ تبدیل فرمادیا۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۴:۸۲)
قبلہ کی تعظیم رسول اللہ ﷺکی تعظیم ہے
أَنَّ الْکَعْبَۃَ مَنْشَأُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَتَعْظِیمُ الْکَعْبَۃِ یَقْتَضِی تَعْظِیمَ مُحَمَّدٍ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ، وَذَلِکَ أَمْرٌ مَطْلُوبٌ لِأَنَّہُ مَتَی رَسَخَ فِی قَلْبِہِمْ تَعْظِیمُہُ، کَانَ قَبُولُہُمْ لِأَوَامِرِہِ وَنَوَاہِیہِ فِی الدِّینِ وَالشَّرِیعَۃِ أَسْرَعَ وَأَسْہَلَ، وَالْمُفْضِی إِلَی الْمَطْلُوبِ مَطْلُوبٌ، فَکَانَ تَحْوِیلُ الْقِبْلَۃِ مُنَاسِبًا.
ترجمہ:کعبہ مشرفہ رسول اللہ ﷺکاقیام گاہ تھااوروہیں پر رسول ا للہ ﷺکی زندگی مبارکہ کے اتنے سال گزرے تھے ، توکعبہ کی تعظیم کا تقاضاکرنارسول اللہ ﷺکی تعظیم کاتقاضاہے ، اوریہی امرمطلوب ہے کیونکہ جب ان کے دلوںمیں حضور تاجدارختم نبوت ﷺکی تعظیم ہوگی تودین وشریعت میں آپ ﷺکے اوامرونواہی دونوں کو اس قدرجلدی اورآسانی کے ساتھ قبول کریں گے ، مطلوب کاذریعہ حصول بھی مطلوب ہی ہوتاہے ۔ لھذا کعبہ مشرفہ کوقبلہ بناناہی مناسب تھا۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۴:۸۲)
جو شخص حکم شرع پر اعتراض کرتاہے وہ پاگل ہوجاتاہے
قال بعض ارباب الحقیقۃ سمی الطاعنین من الیہود والمشرکین والمنافقین سفہاء لاحتجاب عقولہم عن حقیۃ دین الإسلام ولو أدرکوا الحق مطلقا لاخلصوہ کما أخلص المؤمنون فلم تبق محاجتہم معہم ولو کانت عقولہم رزینۃ لاستدلت بالآیات وأنکروا التحویل لانہم کانوا معتدین بالجہۃ فلم یعرفوا التوحید الوافی بالجہات کلہا۔
ترجمہ :بعض ارباب حقیقت فرماتے ہیں کہ یہودونصاری اورمنافقین کو بے وقوف اس لئے کہاگیاکہ دین اسلام کی حقیقت نہ سمجھنے سے ان کے عقول پر پردے آگئے ہیں ، اگرانہیں حق سمجھنے کاکچھ حصہ نصیب ہوتاتواہل ایمان کی طرح مخلص ہوتے ، اگران کی عقلیں صحیح وسالم ہوتیں تووہ آیات کریمہ سے صحیح استدلال کرتے اورتحویل قبلہ کاانکاربھی اسی لئے کربیٹھے کہ وہ خود جہت کے پابندتھے ۔ انہیں توحید الہی کی معرفت نہ تھی کہ تمام جہتیں اسی ذات کے لئے ہیں ۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (ا:۲۴۶)
معترضین نے اعتراض کیوں کیا؟
واعلم ان جماعۃ قد ارتدوا عن الإسلام عند تحویل القبلۃ لتعلقہم بما سوی اللہ تعالی وعدم فنائہم فی اللہ ورضاہم بما یجئی علیہم من القضاء فاخذتہم الکدرۃ کالسیل واما الذین سعدوا سعادۃ ازلیۃ فلم یتعلقوا فی الحقیقۃ بیت المقدس ولا بالکعبۃ بل الرب الخالق لہما ولغیرہما وفنوا عن إرادتہم فجاء ت ارادۃ اللہ لہم کالشہد المصفی فأخذہم السرور والصفا۔
ترجمہ:امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی : ۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یہ بات توجان لے کہ ایک جماعت تحویل قبلہ کے وقت مرتدہوگئی ، اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کاتعلق ماسوی اللہ سے تھا اوروہ فنافی اللہ نہیں تھے اوراللہ تعالی کے فیصلے پر راضی نہ ہوئے تھے جو ان کے حق میں ہوا، انہیں میلان الی الباطل نے گھیرلیااورگمراہی کے سیلاب میں بہہ گئے ، وہ لوگ جو ازل سے سعادت مندتھے ، نہ وہ بیت المقدس کے خوگرتھے اورنہ ہی انہیں کعبہ سے غرض تھی،بلکہ وہ تواللہ تعالی کے ہی عاشق تھے،اسی لئے اللہ تعالی نے انہیں ارتدادسے محفوظ رکھااورارادہ الہی کے شہد سے نوازے گئے جیسے انہیں دائمی سروروصفانصیب ہوا۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (ا:۲۴۶)
فہم قرآن سے کون محروم کردیاجاتاہے ؟
{سَاَصْرِفُ عَنْ اٰیٰتِیَ الَّذِیْنَ یَتَکَبَّرُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَ اِنْ یَّرَوْا کُلَّ اٰیَۃٍ لَّایُؤْمِنُوْا بِہَا وَ اِنْ یَّرَوْا سَبِیْلَ الرُّشْدِ لَا یَتَّخِذُوْہُ سَبِیْلًا وَ اِنْ یَّرَوْا سَبِیْلَ الْغَیِّ یَتَّخِذُوْہُ سَبِیْلًا ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَکَانُوْا عَنْہَا غٰفِلِیْنَ }{وَالَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ لِقَآء ِ الْاٰخِرَۃِ حَبِطَتْ اَعْمٰلُہُمْ ہَلْ یُجْزَوْنَ اِلَّا مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ }
ترجمہ کنزالایمان:اور میں اپنی آیتوں سے انہیں پھیردوں گا جو زمین میں ناحق اپنی بڑائی چاہتے ہیںاور اگر سب نشانیاں دیکھیں ان پر ایمان نہ لائیں اور اگر ہدایت کی راہ دیکھیں اس میں چلنا پسند نہ کریںاور گمراہی کا راستہ نظر پڑے تو اس میں چلنے کو موجود ہوجائیں یہ اس لئے کہ انہوں نے ہماری آیتیں جھٹلائیں اور ان سے بے خبر بنے اور جنہوںنے ہماری آیتیں اور آخرت کے دربار کو جھٹلایا ان کا سب کیا دھرا اکارت گیا انہیں کیا بدلہ ملے گا مگر وہی جو کرتے تھے( سورۃ الاعراف :۱۴۶،۱۴۷)
سید نعیم الدین مراد آبادی رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ ذوالنون قُدِّسَ سِرُّہ نے فرمایا کہ اللہ تعالٰی حکمتِ قرآن سے اہلِ باطل کے قُلوب کا اکرام نہیں فرماتا ۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا مراد یہ ہے کہ جو لوگ میرے بندوں پر تَجبُّر کرتے ہیں اور میرے اولیاء سے لڑتے ہیں میں انہیں اپنی آیتوں کے قبول اور تصدیق سے پھیر دوں گا تاکہ وہ مجھ پر ایمان نہ لائیں یہ ان کے عناد کی سزا ہے کہ انہیں ہدایت سے محروم کیا گیا ۔
قرآن کے سامنے اکڑنے والے وحی کی برکات سے محروم
حَدَّثَنِی عَبْدُ الرَّحِیمِ بْنُ الْحَسَنِ الصَّفَّارُ قَالَ:قَالَ سُفْیَانُ بْنُ عُیَیْنَۃَ فِی قَوْلِ اللَّہِ: سَأَصْرِفُ عَنْ آیَاتِی الَّذِینَ یَتَکَبَّرُونَ فِی الْأَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ یَقُولُ: أَنْزِعُ عَنْہُمْ فَہْمَ الْقُرْآنِ فَأَصْرِفُہُمْ عَنْ آیَاتِی.
ترجمہ :حضرت سیدناسفیان بن عیینہ رضی اللہ عنہ اللہ تعالی کے اس فرمان شریف کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’میں عن قریب ان کو اپنی آیتوں سے پھیردوں گاجو زمین میں ناحق تکبرکرتے ہیں ‘‘میں ان سے قرآن کریم کی سمجھ چھین لوں گااورپھران کو اپنی آیتوں سے پھیردوں گا۔
(تفسیر القرآن العظیم :أبو محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدریس بن المنذر التمیمی، الحنظلی، الرازی ابن أبی حاتم (۵:۱۵۶۷)
امام فریابی رحمہ اللہ تعالی کاقول
ثنا الْوَلِیدُ بْنُ عُتْبَۃَ قَالَ:سَمِعْتُ الْفِرْیَابِیَّ یَقُولُ فِی قَوْلِ اللَّہِ:سَأَصْرِفُ عَنْ آیَاتِی الَّذِینَ یَتَکَبَّرُونَ فِی الأَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ قَالَ: أَمْنَعُ قُلُوبَہُمْ مِنَ التَّفْکِیرِ فِی أَمْرِی.
ترجمہ :حضرت سیدناولیدبن عتبہ رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیںکہ میں نے حضرت سیدنافریابی رحمہ اللہ تعالی سے اللہ تعالی کے اس فرمان شریف کے بارے میں سناکہ ’’عن قریب میں ان کو اپنی آیات سے پھیردوں گاجو زمین میں ناحق تکبرکرتے ہیں ‘‘اس کامعنی یہ ہے کہ میں ان کے دل پھیردوں گاکہ یہ میرے امر میں غورہی نہ کریں۔
(تفسیر القرآن العظیم :أبو محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدریس بن المنذر التمیمی، الحنظلی، الرازی ابن أبی حاتم (۵:۱۵۶۷)
رب تعالی ایسے شخص کو ایمان کی توفیق سے محروم کردیتاہے
(سَأَصْرِفُ عَنْ آیَاتِیَ)أی:سأصرفہم عن قبولہا وتصدیقہا؛ إذ لم یستقبلوہا بالتعظیم لہا، بل استہزء وا بہا واستخفوا بہا علی علم منہم أنہا آیات من اللہ وحجۃ۔
ترجمہ :امام اہل سنت ابومنصورالماتریدی المتوفی : ۳۳۳ھ) رحمہ اللہ تعالی اس آیت کے تحت فرماتے ہیں کہ عنقریب ہم ان کو قرآن کے قبول کرنے سے روک دیں گے اوراس کی تصدیق بھی نہیں کرنے دیں گے کیونکہ جس نے اس کی تعظیم نہیں کی بلکہ مذاق اڑایااوراس قرآن کریم کے احکامات کی توہین کی باوجو د اس کے اس کو علم تھاکہ یہ اللہ تعالی کی منزل ہے ۔
(تفسیر الماتریدی:محمد بن محمد بن محمود، أبو منصور الماتریدی (۵:۳۸)
حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماکافرمان شریف
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:یُرِیدُ الَّذِینَ یَتَجَبَّرُونَ عَلَی عِبَادِی وَیُحَارِبُونَ أَوْلِیَائِی حَتَّی لَا یُؤْمِنُوا بِی، یَعْنِی سَأَصْرِفُہُمْ عَنْ قَبُولِ آیَاتِی وَالتَّصْدِیقِ بِہَا عُوقِبُوا بِحِرْمَانِ الْہِدَایَۃِ لِعِنَادِہِمْ لِلْحَقِّ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ اس آیت مبارکہ میں وہ لوگ مراد ہیں جو اللہ تعالی کے بندوں پر جبرکرتے ہیں اوراللہ تعالی کے اولیاء کرام کے ساتھ جنگ کرتے ہیں ، وہ لوگ اللہ تعالی پر ایمان نہیں لائیں گے یعنی اللہ تعالی فرماتاہے کہ میں ان لوگوں کو اپنی آیت پر ایمان نہیں لانے دوں گاان کی حق کے ساتھ دشمنی کی وجہ سے ان کو قبول ِ حق سے محروم کردوں گا۔
(تفسیر البغوی :محیی السنۃ ، أبو محمد الحسین بن مسعود بن محمد بن الفراء البغوی الشافعی (۲:۲۳۴)
وہ رسول اللہ ﷺکی پیروی نہیں کرتے
وَالْآیَاتُ عَلَی ہَذَا الْمُعْجِزَاتُ أَوِ الْکُتُبُ الْمُنَزَّلَۃُوَقِیلَ:خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَیْ أَصْرِفُہُمْ عَنْ الِاعْتِبَارِ بِہَا(یَتَکَبَّرُونَ) یَرَوْنَ أَنَّہُمْ أَفْضَلُ الْخَلْقِ وَہَذَا ظَنٌّ بَاطِلٌ، فَلِہَذَا قَالَ:(بِغَیْرِ الْحَقِّ) فَلَا یَتَّبِعُونَ نَبِیًّا وَلَا یَصْغُونَ إِلَیْہِ لِتَکَبُّرِہِمْ۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ القرطبی المتوفی: ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس آیت میں آیات سے مراد یاتورسول اللہ ﷺکے معجزات ہیں یاپھرآسمانی کتب ہیں اوریہ بھی قول ہے کہ اس سے مراد آسمانوں اورزمینوں کی تخلیق ہے توپھراس کامعنی یہ ہوگاکہ ہم ان کو زمین وآسمان میں غورنہیں کرنے دیتے کہ اس میں غورکرکے عبرت پکڑلیں ، وہ تکبرکرتے ہیں یعنی اپنے آپ کو بڑاسمجھتے ہیں اورساری مخلوق میں افضل جانتے ہیں اوریہی گمان ان کاباطل ہے ، اسی وجہ سے اللہ تعالی نے بغیرالحق کالفظ ارشادفرمایا۔ وہ اپنے تکبرکی وجہ سے رسول اللہ ﷺکی پیروی نہیں کرتے
(تفسیر القرطبی: أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی (۷:۲۸۳)
جو استاد کے سامنے اکڑے وہ بھی علم سے محروم رہتاہے
وَقَالَ بَعْضُ السَّلَفِ:لَا یَنَالُ الْعِلْمَ حَیِیٌّ وَلَا مُسْتَکْبِرٌ.وَقَالَ آخَرُ:مَنْ لَمْ یَصْبِرْ عَلَی ذُلِّ التَّعَلُّمِ سَاعَۃً، بَقِیَ فِی ذُلِّ الْجَہْلِ أَبَدًا.
ترجمہ :حافظ ابن کثیررحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ہمارے اسلاف فرمایاکرتے تھے کہ جو شخص بہت زیادہ شرمیلاہووہ اورجو شخص متکبرہویہ دونوں علم سے محروم رہتے ہیں اوردوسرے بزرگ یہ فرمایاکرتے تھے کہ جو شخص حصول علم میں ذلت برداشت نہیں کرسکتاوہ پھرساری زندگی جہالت کی ذلت برداشت کرتاہے ۔
(تفسیر القرآن العظیم: أبو الفداء إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی البصری ثم الدمشقی (۳:۴۷۴)
وحی پر عقل کو ترجیح دینے والوں کاردبلیغ
یہاں حضرت سیدنامجددالف ثانی رضی اللہ عنہ کاایک مکتوب شریف نقل کرتے ہیں اوراس کے افادے کے پیش نظرمکمل نقل کررہے ہیں جس میں آپ رضی اللہ عنہ نے ان فلاسفرکی خوب تردیدکی ہے جو خو دکوعقل کل گردانتے ہیں اوراحکامات شرع کو بھی کچھ نہیں سمجھتے ۔
بخواجہ ابراہیم قبادیانی صدوریافتہ درآنکہ او تعالی بتوسط انبیاء علیہم السلام خبرداداست از ذات وصفات خود واعمال مرضیہ ونامرضیہ عبادکہ عقل رادران مدخل نیست ۔
الحمدللہ الذی انعم علیناوھداناالی الاسلام وجعلنامن امۃ محمدﷺ انبیاء رحمتہااند مرعالمیان ِ راعلیہم الصلوۃ والتسلیمات کہ حضرت حق سبحانہ وتعالی بتوسط بعثت ایں بزرگواران ِ علیہم الصلوۃ والتسلیمات والتحیات از ذات وصفات خود بمع ناقص عقلان وقاصرادراکان خبرداداست دربانزادازہ فہم کوتہ مابرکمالات ذاتیہ وصفاتیہ خود اطلاع بخشید ومراضی خود رااز نامرارضی خویش جداساختہ ومنافع دنیوی واخروی مارااز مضار ماممتاز فرمود ۔ اگرتوسل وجود شریف نبودے عقول بشری دراثبات صانع تعالی عاجز بودے وادراک کمالات او سبحانہ تعالی ناقص وقاصر آمدے ۔ قدماء فلاسفہ کو خود رااکابرارباب ِ عقول میگردندمکنرصانع بودندواشیار انقصانِ عقل بدہرمنسوب می ساختندومجادلہ نمرود بادشاہ روئے زمین بودہ است بحضرت خلیل علی نبیناوعلیہ الصلوۃ والسلام دراثبات خالق سموات وارض مشہوراست ودرقرآن مجید ہم مذکوروفرعون بے دولت مے گفت ماعلمت لکم من الہ غیری ونیز فرعون بحضرت موسی علی نبیناوعلیہ الصلوۃ والسلام خطاب کردہ گفتہ است لئن اتخذت الہاً غیری لاجعلنک من المسجونین ونیز آن بے دولت بہامان گفتہ است یاھان ابن لی صرحاً لعلی ابلغ الاسباب اسباب السموات فاطلع الی الہ موسی وانی لاظنہ کاذباً بالجملہ عقل دراثبات ِ این دولت عظمی قاصر است وبدون ہدایت این بزرگواران باین دولت سراغیرمہتدوچون بتواترانبیاء علیہم السلام دعوت ایشان بخداکہ خالق زمان وزمین است جل شانہ شہرت یادت وکلمہ این بزرگواران مرتفع گشت سفہائے ہر وقت کہ درثبوت صانع ترددداشتندبرقبح خومطلع شدہ بے اختیاربوجودصانع قائل گشتندواشیاراباوتعالی مستندساختنداین نوریست کہ از انوار انبیاء مقتبس گشتہ است واین دولتے است کہ از خوان ِ انبیاء بروئے کار آمدہ علیہم الصلوۃ والتسلیمات الی یوم التناد بل الی ابدالآباد وہمچنین سائرسمعیات کہ بہ تبلیغ انبیاء علیہم الصلوۃ والتسلیمات بمارسیدہ است از ووجود صفات ِ کمال واجبی جل سلطانہ واز بعثتِ انبیاء واز عصمت ملائکہ علیہم الصلوات والتسلیمات والتحیات والبرکات واز حشرونشر وازوجود بہشت ودوزخ وتنعیم وتعذیب دائمی واینہاوامثال اینہاکہ شریعت بآن ناطق است عقل وادراک شان قاصراست وبے سماع ازین بزرگواران دراثبات آنہاناقص ِ وغیرمستقل وچنانچہ طورعقل وروائے طور حس است کہ آنچہ بحس مدرک نشودعقل ادراک آن مے نمایدہمچنین طورنبوت ورائے طور عقل است آنچہ بعقل مدرک نشود بتوسل نبوت بدرک می درآیدہر کہ ورائے طورعقل طریقے از برائے اثبات معرفت اثبات نہ مینمایدفی الحقیقت منکرطورِ نبوت است ومصادم بداہت است پس از وجود انبیاء چارہ نبودبشکرِ منعم جل سلطانہ کہ بہ عقل واجب است دلالت نمایندوتعظیم مولانعم جل وعلی کہ ب علم ومعل تعلق دارد از قبل او سبحانہ معلوم ساختہ ظاہرسازندچہ تعظیم او تعالی کہ از نزداو سبحانہ مستفاد نشود شایانِ شکراونیست تعالی زیراکہ قوت بشری درادراک آن عاجز است بلکہ بساست کہ غیرتعظیم اوراسبحانہ تعظیم او تعالی انگارد واز شکر بہ ہمچورودوطریق استفادہ تعظیم آن حضرت جل شانہ ازان حضرت تعالی وتقدس مقصود برنبوت است ومنحصردرتبلیغ انبیاء کرام علیہم الصلوات والتسلیمات والہام کہ اولیاء راست مقتبس از انوار نبوت است وازبرکات وفیوض ِ متابعت فلاسفہ یونان کہ مقتدائے خود عقل راساختہ اند دربیہ ضلالت نمے ماندندوحق راسبحانہ از ہمہ بیش مے شناختندوحال آنکہ جاہل ترین مردم درذات وصفات واجبی جل سلطانہ باختیارباوتعالی مستندنساختہ عقل فعال از نزدخود تراشیدہ حوادث راخالق سموات وارض باز داشتہ باومنسوب میدارند واثررااز موثر حقیقی جل سلطانہ منع نمودہ آن راثرمنحوت خود میدانند چہ نزداینہامعلول اثرعلت قریبہ است علت بعیدہ رادرحصول معلوم تاثیر ندانستہ اند وبجہل این عدم استناد اشیاء راباوتعالی کمال او سبحانہ تصورنمودہ اند وتعطیل انگاشتہ وحال آنکہ حضرت سبحانہ خوداربخلق ِسموات وارض می ستاید ومدح خود بر ب المشرق والمغرب میفرماید واین سفیہان رابزعم فاسد خود باحضرت سبحانہ تعالی ہیچ احتیاجے نیست وباوسبحانہ ہیچ سرنیاز از وخواہندکہ معاملے راباورجوع رداشتہ اند بلکہ عقل ِ فعال نیز چوں بزعم اینہاموجب است نہ مختاردرقضائے حاجت از وے خواستن ہم غیرمعقول است ان الکافرین لامولی لھم عقل فعال چہ بود کہ سرانجام اشیاء نماید وحوادث باومستند باشند درنفس وجود وثبوت او ہزاران سخن است چہ تحقق وحصول او مبتنی برمقدمات زرااندوہ فلسفیہ است کہ باصول حقہ اسلامیہ ناتمام ونافرجام اند ابلہے بود کہ اشیاء از قادرمختارجل شانہ باز داشتہ باین چنین امر موہوم مستندسازد بلکہ اشیاء ہزاران ننگ وعاراست کہ بمخوت فلسفی مستند باشندبلکہ اشیاء بعدم خود راضی وخود سندبودندوہرگزمیل وجود ننماینداس آنکہ استناد وجودشان بہ مجعول سفسطی نمودہ آید واز سعادت انتساب بقدرت قادرمختارجل سلطانہ ممتنع گردندکبرت کلمۃ تخرج من افاہہم ان یقولوں الاکذباً۔ کفاردارالحرب باوجود بت برستیہاازین جماعہ احسن حال اندکہ بحضرت حق سبحانہ جل وعلا درتنگی التجادانرد وبتہاراوسیلہ شفاعت پیش او تعالی سازند عجب ترآنکہ جمعے این سفہاء راحکمامے نامندوبحکمت منسوب میدارنداکثراحکام ایشان سیمادرالہیات کہ مقصدِ اسنی است کاذبہ اند ومخالفت کتاب وسنت اطلاق حکمابراینہاکہ سراسرجہل مرکب نصیب ِ نشان است بکدام اعتبارنمودہ آیدمگربرسبیل تہکم واستہزاء گفتہ شود ویااز قبیل اطلاق بصیر براعمی شمردہ آید وجمعے ازین سفہاکہ بے التزام طریق انبیاء کرا م علیہم الصلوات والتسلیمات بتقلید صوفیہ آلہیہ کہ درہرعصر از متابعان انبیاء بودہ اند علیہم الصلوات والتسلیمات طریق ریاضت ومجاہدت اختیارنمودہ اند بصفائے وقت ِ خود مغرورگشتہ وبرخواب وچناں خود اعتمادکردہ اند وکشوف خیالی خود رامقتداء ساختہ ضلو ا فاضلوا نمیداندکہ این صفاصفائے نفس است کہ راہے بضلالت دارد نہ صفائے قلب کہ دریجہ ہدایت است چہ صفائے قلب منوط بہ مطابعت انبیاء است علیہم الصلوات والتسلیمات وتزکیہ نفس مربوط بصفائے قلب وسیاست اوست مرنفس رانفس کہ صفاپیداکند باجود ظلمت قلب کہ محل ظہور انوارقدم است حکم آن داردکہ چراغ برافروختہ باشنداز برائے تاراج کردن دشمن کمین کہ ابلیس لعین بود بالجملہ تاریک ریاضت ومجاہدت دررنگ تاریک نظرواستدلال وقتے اعتبار واعتماد پیداکندکہ مقرون بتصدیق انبیاء بود علیہم الصلوات والتسلیمات کہ از قبل حق جل وعلی تبلیغ مے نمایندباتائید او سبحانہ مویداند کارخانہ این بزرگواران بنزول ملائکہ معصومین از کیدومکردشمن لعین محفوظ است{ ان عبادی لیس لک علیہم سلطان }نقدوقت شان است ودیگران رااین دولت میسرنشدہ است واز دامے نافرجام لعین رہائی متصورناگشتہ مگرکہ التزامے متابعت این بزرگوران نمودہ آید وبراثرایشان رفتہ شود علیہم الصلوات والتسلیمات
بیت
محال است سعد ی کہ راصفا توان رفت جز برپے مصطفی
علیہ وعلی آلہ وعلی اجمیع اخوانہ الصلوات والتسلمیات العلی
سبحانہ اللہ افلاطون کہ رئیس فلاسفہ است دولت بعثت حضرت عیسی راعلی نبیناوعلیہ الصلوۃ والسلام دریابدوخو راز نادانی مستغنی دانستہ بآنحضرت نگرددواز برکات نبوت بہرہ نگیرد ومن لم یجعل اللہ لہ نوراًفمالہ من نور۔ قال اللہ تعالی ولقد سبقت کلمتنا بعبادناالمرسلین انہم لھم المنصورون وان جندنالھم الغالبون}عجب معاملہ است عقول ناقصہ فلاسفہ گویادرطرف نقیض بطور نبوت افتادہ است ہم درمبداوہم درمعاد واحکام آنہامخالف احکام انبیاء است علیہم الصلوات والتسلمیات نہ ایمان باللہ درست کردہ اند ونہ ایمان بآخرت بقدم عالم قائل اند وحال آنکہ اجماع ملیین است برحدوث عالم بجمیع اجزائے خود وہم چنین بے انشقاق سموات وانتشار کواکب واند کاک جبال وانفجاربحار کہ بروزقیامت کہ موعود است قائل نیستندومنکرحشراجساد اند وانکارنصوص قرآنی مے نمایندومتاخران آنہاکہ درزمرہ اہل اسلام خود راداخل ساختہ از ہمچنان براصول فلسفی خود راسخ اندوبقدم سموات وکواکب وامثال اینہاقائل اند وعدم فناوہلاک اینہاحاکم قوت ایشان تکذیب نصوص قرآنی است ورزق شان انکارضروریات دین عجب مومن اند بخداورسول ایمان آرنداماآنچہ خداورسول اوفرمودہ است قبول ندارندسفاہت از ین نمی گزرد
بیت :
فلسفہ چون اکثراش باشدسفہ پس کل آن ہم سفہ باشد کہ حکم کل حکم اکثراست
این جماعہ عمر ِ خود رادرتعلیم وتعلم آلتے کہ عاصمے از خطائے فکری است صرف کردندودران باب دقتہانمودندچون بامقصد اقصائے ذات وصفات وافعال وحی رسیدندجل سلطانہ دست وپائے خود گم کردندوآلتے عاصمہ رااز دست دادہ خبطہ خود رادندودرتیہ ضلالت ِ مانددنددررنگ آنکہ شخصے سالہاآلات حرب راتیار ساز وودروقت حرب درست وپاخود راگم کردہ بیکارنبرد مردم علوم فلسفی رامتسق ومنتظم داند واز غلط وخطامحفوظ مے انگارندبرتقدیرتسلیم این حکم در علوم صادق باشد کہ عقل رادرآنہااستقلال واستبداداست کہ خارج از مبحث اندوداخل دائرہ مالایعنی اند وبآخرت کہ دائمی است کارندوآرندونجات اخروی بآنہامربوط نیست سخن درعلوم است کہ عقل رادرادراک آنہاعجز وقصوراست وبطورنبوت مربوط اند ونجات اخروی بآنہامنوط است ۔
حجۃ الاسلام امام غزالی رحمہ اللہ تعالی دررسالہ منقظ عن الضلال می فرمایدکہ فلاسفہ علم طب وعلم نجوم رااز کتب انبیاء ماتقدم علی نبیناوعلیہ الصلوات والتسلیمات سرقہ کردہ اند وخواص ادویہ وغیرآنراکہ عقل دردرک آنہاقاصراست از صحف وکتب منزلہ بانبیاء علیہم الصلوات والتسلیمات والتحیات اقتباس نمودہ وعلم تہذیب اخلاق رااز کتب صوفیاء الہیہ کہ درہر عصر درہر امت پیغمبربودہ انداز برائے ترویج اباطیل خود سرقہ کردہ اند پس این سہ علم معتبرشان سرقہ گشت وخبطہاکہ درعلم الہی درذات وصفات وافعال واجبی جل سلطانہ خوردہ اند ودرایمان باللہ ودرایمان بآخرت مخالفتہابنصوص قرآنی نمودہ اند شمہ ازان بالاذکریافتہ است ماند علم ہندسہ ومثل آن کہ بانہانوع اختصاص دارد اگرمتسق ومنتظم باشدبچہ کارخواہد آمد وکدام عذاب ووبال آخرت راخواددوساخت علامۃ اعراضہ تعالی عن البعد اشتغالہ بمالایعنیہ وہرچہ بآخرت بکارنیاید مالایعنی است وعلم منطق کہ علم آلی وآنراعاصم از خطااست گفتہ اند بکارایشان نیامدودرمقصداسنی از غلط وخطاایشان رانہ برآورد وبکاردریگران چگونہ خواہد آمد وز خطاچگونہ خواہد رہانید{رَبَّنَا لَا تُزِ غْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ہَدَیْتَنَا وَہَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً اِنَّکَ اَنْتَ الْوَہَّابُ}وبعضے از مردم کہ بعلوم فلسفی سرے دارندوبتسویلات فلسفی مفتون اند این جماعہ راحکمادانستہ عدیل انبیاء میدانندعلیہم الصلوات والتسلیمات بلکہ نزدیک است کہ علوم کاذبہ ایشان راصادقہ دانستہ برشرائع انیباء تقدیم دہندعلیہم الصلوات التسلیمات اعاذنااللہ سبحانہ عن الاعتقاد السوء آرے ہر گاہ اینہاحکماء دانند علم اینہاراحکمت گویندناچاردریں بلاافتندچہ حکمت عبارت از علم بشے است کہ مطابق نفس الامر باشد علومے کہ مخالفت آنہابود غیرمطابقت بنفس امر خواہد داشت بالجملہ تصدیق اینہاوتصدیق علم اینہامستلزم تکذیب انبیا ء وعلوم انبیاء است علیہم الصلوات والتسلیمات کہ این دوعلم دردوطرف نقیض افتادہ اند تصدیق یکے مستلزم تکذیب دیگرے است ہرکہ خواہد ملت انبیاء راالتزام نماید وازخرب حق باشدجل وعلا وازاہل نجات بودوہرکہ خواہدفلسفی شود درگروہ شیطان باشدوخاسروخائب بود ۔{وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّکُمْ فَمَنْ شَآء َ فَلْیُؤْمِنْ وَّ مَنْ شَآء َ فَلْیَکْفُرْ اِنَّآ اَعْتَدْنَا لِلظّٰلِمِیْنَ نَارًا اَحَاطَ بِہِمْ سُرَادِقُہَا وَ اِنْ یَّسْتَغِیْثُوْا یُغَاثُوْا بِمَآء ٍ کَالْمُہْلِ یَشْوِی الْوُجُوْہَ بِئْسَ الشَّرَابُ وَسَآء َتْ مُرْتَفَقًا }والسلام علی من اتبع الہدی والتزم متابعۃ المصطفی علیہ وعلی جمیع اخوانہ من الانبیاء الکرام ولملائکۃ العظام الصلوات والتسلیمات اتمہاواکملہاوالسلام۔
ترجمہ :اللہ تعالی کی حمد ہے جس نے ہم پر انعام کیااورہم کو اسلام کی ہدایت دی اورحضورتاجدارختم نبوتﷺکی امت میں سے بنایا، انبیاء کرام علیہم السلام اہل جہان کے لئے سراسررحمت ہیں ، جن کی بعثت کے ذریعے حق تعالی نے اپنی ذات وصفات سے ہم ناقص عقلوں اورکم فہموں کو خبردی ہے اورہمارے کم فہم کے موافق اپنے ذاتی وصفاتی کمالات پر اطلاع بخشی ہے اوراپنی رضامندی کو اپنی ناراضگی سے جداکیاہے ، اورہمارے دنیاوآخرت کے نفعوں کو ہمارے فروع سے ممتاز فرمایا۔ اگرانبیاء کرام علیہم السلام کے وجود شریف کاوسیلہ نہ ہوتاتو انسانی عقلیں اللہ تعالی کے اثبات میں عاجز رہتیں ، اوراس کے کمالات کے ادراک میں ناقص وقاصرہوتیں ، متقدمین اہل فلسفہ جو اپنے آپ کو ارباب عقول جانتے ہیں وہ اللہ تعالی کے منکرتھے ، اوراپنی کم عقلی کے باعث اشیاء کو دہریعنی زمانہ کی طرف منسوب کرتے تھے ۔ نمرود جو روئے زمین کابادشاہ گزراہے ، زمین وآسمان کے خالق کے اثبات میں حضرت سیدناابراہیم علیہ السلام کے ساتھ اس کاجھگڑنامشہور ہے ۔ قرآن کریم میں موجود ہے کہ فرعون بدبخت کہاکرتاتھاکہ {مَا عَلِمْتُ لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرِیْ}میں اپنے سواتمھاراکوئی معبود نہیںجانتا۔
نیز فرعون نے حضرت سیدناموسی علیہ السلام کو مخاطب کرکے کہاتھا{قَالَ لَئِنِ اتَّخَذْتَ اِلٰـہًا غَیْرِیْ لَاَجْعَلَنَّکَ مِنَ الْمَسْجُوْنِیْنَ }
اگرتومیرے سواکسی اورمعبو دکی عبادت کرے گا تو میں تجھے قید کردوں گا۔ نیز اس بدبخت نے ہامان کو کہا:
{وَ قَالَ فِرْعَوْنُ یٰہٰمٰنُ ابْنِ لِیْ صَرْحًا لَّعَلِّیْٓ اَبْلُغُ الْاَسْبٰبَ }ااَسْبٰبَ السَّمٰوٰتِ فَاَطَّلِعَ اِلٰٓی اِلٰہِ مُوْسٰی وَ اِنِّیْ لَاَظُنُّہ کَاذِبًا }
ترجمہ : اے ہامان ! ایک بڑااونچامکان بنوائوںتاکہ میں آسمانوں پر چڑھ کر موسی کے خداکی خبرلوں ، میراگمان ہے کہ وہ جھوٹ کہتاہے۔
عقل اس اعلی دولت کے اثبات میں کوتاہ ہے ۔ ان انبیاء کرام علیہم السلام کی ہدایت کے بغیراس دولت سے سراسرگمراہ ہے ۔ جب انبیاء کرام علیہم السلام نے متواترطورپر مخلوقات کو خداتعالی کی طرف جو زمین وآسمان کاخالق ہے دعوت فرمائی اوران انبیاء کرام علیہم السلام کابول بالاہواتوہر زمانے کے جاہل اوراحمق لوگ جوصانع عزوجل کے ثبوت میں مترددتھے اپنی برائی پر مطلع ہوکر بے اختیار صانع عزوجل کے وجود کے قائل ہوگئے اوراشیاء کو اللہ تعالی کی طرف منسوب کیا۔ یہ وہ نور ہے یعنی اللہ تعالی کے وجود کاقائل ہوناجو انبیاء کرام علیہم السلام کے انوارسے حاصل ہواہے اوریہ وہ دولت ہے جو اللہ تعالی کے انبیاء کرام علیہم السلام کے دسترخوان سے ملی ہے ۔
اسی طرح تمام سمعیات یعنی وہ باتیں جو سنی ہوئی ہیں جو انبیاء کرام علیہم السلام کی تبلیغ سے ہم تک پہنچی ہیں یعنی حق تعالی کی صفات کمال کاوجود انبیاء کرام علیہم السلام کی بعثت ، ملائکہ کرام کی عصمت ، حشرونشر، بہشت ودوزخ اوران کادائمی رنج وراحت وغیرہ وغیرہ ۔ جو شریعت مبارکہ نے بیان کی ہے ، عقل ان کے ادراک سے قاصرہے ۔ اورانبیا ء کرام علیہم السلام سے سنے بغیران کے اثبات میں ناقص اورغیرمستقل ہے ۔ جس طرح طورِ عقل طورِ حس سے ماوراء ہے کہ جو چیز حس سے مدرک نہ ہوسکے عقل اس کاادراک کرسکتی ہے ۔ اسی طرح طور ِ نبوت بھی طور عقل سے ماوراء ہے جس چیز کاعقل سے ادراک نہ ہوسکے نبوت کے ذریعے ادراک میں آجاتی ہے ۔ جو شخص طور ِ عقل کے ماسواء اورکوئی طریقہ اللہ تعالی کی معرفت کے لئے ثابت نہیں کرتاوہ درحقیقت طورِ نبوت کامنکراوربداہت وصراحت کامخالف ہے ۔
پس انبیاء کرام علیہم السلام کاوجود ضروری تھاتاکہ اللہ تعالی جو کہ منعم ہے کے شکر پر جو عقل کی روسے واجب ہے دلالت کریں اورنعمتوں کے دینے والے مولاتعالی کی تعظیم جو علم وعمل سے تعلق رکھتی ہے اسی کی طرف سے معلوم کرکے ظاہرکریں کیونکہ حق تعالی کی وہ تعظیم جو اس کی طرف سے حاصل نہ ہووہ اس کے شکر کے لائق نہیں ہے ، اس لئے کہ قوت انسانی اس کے ادراک سے عاجز ہے ۔ بسااوقات اس کی بے ادبی کو تعظیم جانتاہے اورشکر کرنے کی بجائے اللہ تعالی کے لئے نازبیالفظ بولناشروع کردیتاہے ۔ حق تعالی سے اس کی تعظیم کے استفادہ کاطریق نبوت اورانبیاء کرام علیہم السلام کی تبلیغ پر موقوف ہے ، اوراولیاء کرام علیہم الرحمہ کاالہام بھی انوارِ نبوت سے مقتبس ہے اورانبیاء کرام علیہم السلام ہی کی متابعت کے فیض وبرکت کانتیجہ ہے ، اگراس امر میں عقل کافی ہوتی تویونان کے فلاسفریعنی لبرل جنہوں نے اپنی عقل کو اپنامقتداء بنایاہے گمراہ نہ ہوتے اورحق تعالی کو سب سے زیادہ پہچان لیتے۔ حالانکہ حق تعالی کی ذات وصفات کے بارے میں تمام لوگوں سے بڑھ کر جاہل یہی لوگ ہیں جنہوں نے اللہ تعالی کو بے کار اورمعطل جانا(نعوذ باللہ من ذلک )اورایک چیز کے سوا(اوروہ بھی ایجاب واضطرار کے ساتھ نہ کہ اختیارکے ساتھ ) کچھ بھی اللہ تعالی کی طرف منسوب نہیں کیاہے ، عقل فعال اپنے پاس سے بناکر حوادث کو زمین وآسمان کے خالق کی طرف سے ہٹاکر اس کی طرف منسوب کرتے ہیں اوراثرکو موثرحقیقی جل شانہ سے ہٹاکر اس کو اپنابنایاہوااثرجانتے ہیں کیونکہ معلول ان کے نزدیک علت قریبہ کااثرہے اورمعلوم کے حاصل ہونے میں علت بعیدہ کی کچھ تاثیرنہیں جانتے ۔ اوراشیاء کو حق تعالی کی طرف منسوب نہ کرنے کی جہالت کو حق تعالی کاکمال جانتے ہیں اوراس کے معطل رہنے کو بزرگی جانتے ہیں ، حالانکہ حق تعالی زمین وآسمان کے پیداکرنے سے اپنی تعریف فرماتاہے اوراپنی مدح میں {رَبُّ الْمَشْرِقَیْنِ وَ رَبُّ الْمَغْرِبَیْنِ }فرماتاہے ، ان کو چاہیئے کہ اضطرارواحتیاج کے وقت بھی اپنی عقل فعال کی طرف رجوع کریں اوراپنی حاجتیں اسی سے طلب کریں کیونکہ اپناسب کاروبار اسی یعنی عقل کے حوالے کرتے ہیں بلکہ عقل فعال بھی ان کے خیال میں موجب اورنہ ہی مختار، اس سے بھی قضائے حاجت طلب کرناپسندیدہ نہیں ہے ۔ {ذٰلِکَ بِاَنَّ اللہَ مَوْلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ اَنَّ الْکٰفِرِیْنَ لَا مَوْلٰی لَہُمْ }یہ اس لئے کہ مسلمانوں کا مولٰی اللہ ہے اور کافروں کا کوئی مولٰی نہیں۔
عقل فعال کیاہے ؟ جو اشیاء کو سرانجام دے سکے اورحوادث اس کی طرف منسوب ہوسکیں ، اس کے نفس وجود اورثبوت میں ہزاروں اعتراض ہیں کیونکہ اس کاتحقق اورحصول فلسفہ کے چند ملمع مقدمات پر مبنی ہے جو اسلام کے اصول حق کے مقابلہ میں ناتمام اورادھورے ہیں، وہ شخص بہت ہی بے وقوف ہے جو اشیاء کو قادرومختارجل شانہ کی طرف سے ہٹاکرایسے موہوم امر کی طرف منسوب کرے بلکہ اشیاء کے لئے ہزارہاننگ وعار کاموجب ہے کہ فلسفہ کے تراشیدہ اوروضع کردہ امر کی طرف منسوب ہوں ، اشیاء کااپنے عدم پر راضی وخوش رہنااورہرگز وجود کی خواہش نہ کرناان کے حق میں اس امر سے بہترہے کہ ان کے وجود کو فلسفی اورمجعول یعنی بنائے ہوئے اورموضوع امر کی طرف منسوب کریں اورقادرومختارجل شانہ کی قدرت کی طرف منسوب ہونے کی سعادت سے محروم رہیں ۔ {کَبُرَتْ کَلِمَۃً تَخْرُجُ مِنْ اَفْوٰہِہِمْ اِنْ یَّقُوْلُوْنَ اِلَّاکَذِبًا }کتنا بڑا بول ہے کہ ان کے منہ سے نکلتا ہے نِرا جھوٹ کہہ رہے ہیں ۔
دارالحرب کے کفار باوجود بت پرستی کے ان لوگوں سے اچھے ہیں جو تنگی کے وقت حق تعالی کی بارگاہ میں التجاکرتے ہیں اوربتوں کو حق تعالی کے آگے سفارش کاوسیلہ بناتے ہیں ، اس سے بھی زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ بعض لوگ ان بے وقوفوں کو حکماء اورداناکہتے ہیں (یعنی آجکل ہمارے دورمیں ان کو پروفیسراورمذہبی اسکالرکہتے ہیں ) ان کو حکمت کی طرف منسوب کرتے ہیں ، ان کے اکثراحکام خاص کر الوہیات میں جو ان کااعلی مقصد ہے سراسرجھوٹے اورکتاب وسنت کے مخالف ہیں، یہ لوگ جو سراسرجہل مرکب ہیں، ان پر حکماء کااطلاق کس طرح کیاجائے ۔ ہاں اگرتہکم اوراستہزاء کے طور پر کہاجائے یااندھے کو اکھیاراپر اطلاق کرنے کی قسم سے شمارکیاجائے توپھرصحیح ہے ۔ ان احمقوں میں بعض نے انبیاء کرام علیہم السلام کے طریق کو چھوڑ کران صوفیاء الہیہ کی تقلید پر جو ہر زمانہ میں انبیاء کرام علیہم السلام کے تابعداررہے ۔ ریاضیات ومجاہدات کاطریق اختیارکیااوراپنے صفائے وقت پر مغرورہوکر اپنے خواب وخیال پر اعتماد کیاہے اوراپنے خالی کشفوں کو مقتداء بناکر خود بھی گمراہ ہوگئے اورلوگوں کو بھی گمراہ کیا، ان پاگلوں نے یہ نہیں جاناکہ یہ صفائی نفس کی صفائی ہے جو گمراہی کو زیادہ کرتی ہے نہ کہ قلب کی صفائی جو ہدایت کادروازہ ہے کیونکہ قلب کی صفائی انبیاء کرام علیہم السلام کی متابعت پر وابستہ ہے اورنفس کاتزکیہ قلب کی صفائی اوراس کی سیاحت پر موقوف ہے ، وہ صفائی جو قلب کی سیاہی کے ہوتے ہوئے جو انوار ِ قدم کے ظہورکامحل ہے نفس کو حاصل ہواس کی مثال ایسی ہے جیساکہ چراغ روشن کردیں تاکہ پوشیدہ دشمن یعنی شیطان لعین اس کی روشنی میںبخوبی لوٹ لے ، غرض ریاضت ومجاہدہ کاطریق نظرواستدلال کے طریق کی طرح اس وقت اعتبارواعتماد کے لائق ہوتاہے ، جبکہ انبیا کرام علیہم السلام کی تصدیق کے ساتھ مل جائے جو حق تعالی کی طرف سے تبلیغ کرتے ہیں اورحق تعالی کی تائیدسے موید ہیں ، ان انبیاء کرام علیہم السلام کاکارخانہ پاک فرشتوں کے نزول کے باعث دشمن لعین کے مکروہ فریب سے محفوظ ہے ۔
جیساکہ اللہ تعالی نے فرمایا:{اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْہِمْ سُلْطٰنٌ اِلَّا مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْغَاوِیْنَ }بیشک میرے بندوں پر تیرا کچھ قابو نہیں سوا ان گمراہوں کے جو تیرا ساتھ دیں۔
ان کانقد وقت ہے ، دوسروں کو یہ دولت میسرنہیں ہے اورشیطان لعین کے مکرو فریب سے نہیں بچ سکے ، جب تک ان انبیاء کرام علیہم السلام کو لازم نہ پکڑااوران کے قدم بقدم نہیں چلے ۔
محال است سعدی کہ راہ صفا تواں رفت جز درپئے مصطفی
یہ یقین کرلوکہ راہ صفاء رسول اللہ ﷺکی اتباع کے بغیر کبھی بھی حاصل نہیں ہوسکتا۔سبحان اللہ تعالی ۔ افلاطون جوفلسفیوں کارئیس ہے ، حضرت سیدناعیسی علیہ السلام کی بعثت کی دولت کو پائے اوراپنے آپ کو نادانی کے باعث مستغنی جان کر ان پر ایمان نہ لائے اورنبوت کے برکات سے حصہ حاصل نہ کرے ، اس کی بڑی بدبختی اورنادانی ہے ۔
{ وَ مَنْ لَّمْ یَجْعَلِ اللہُ لَہ نُوْرًا فَمَا لَہ مِنْ نُّوْرٍ }اور جسے اللہ نور نہ دے اس کے لئے کہیں نور نہیں ۔اللہ تعالی فرماتاہے کہ {وَ لَقَدْ سَبَقَتْ کَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِیْنَ اِنَّہُمْ لَہُمُ الْمَنْصُوْرُوْنَ وَ اِنَّ جُنْدَنَا لَہُمُ الْغٰلِبُوْنَ }اور بیشک ہمارا کلام گزر چکا ہے ہمارے بھیجے ہوئے بندوں کے لئے کہ بیشک انہیں کی مدد ہوگی اور بیشک ہمارا ہی لشکر غالب آئے گا ۔
عجب معاملہ ہے کہ فلاسفہ کی ناقص عقلیں مبداء میں بھی اورمعاد میں بھی طورِ نبوت کے نقیض ہیں اوران کے احکام انبیاء کرام علیہم السلام کے مخالف ہیں ، نہ ان کاایمان اللہ تعالی کی ذات پر درست ہے اورنہ ہی آخرت پر ۔ قِدم عالم کے قائل ہیں ، حالانکہ بڑامضبوط اجماع ہے اس بات پرکہ عالم بمع اپنے تمام اجزا کے حادث ہے ، ایسے آسمانوں کے پھٹ جانے اورستاروں کے اڑجانے اورپہاڑوں کے ریزہ ریزہ ہونے اوردریائوں کے پھوٹنے کے جن کاقیامت کے دن وعدہ ہے قائل نہیں ہیں اورحشراجساد کے منکرہیں اورنصوص قرآنی کاانکارکرتے ہیں، ان میں سے متاخرین جو اہل اسلام میں داخل ہیں اسی طرح اپنے فلسفی اصول پر راسخ ہیں اورآسمانوں اورستاروں وغیرہ کے قدم اوران کے فنااورہلاک نہ ہونے کے قائل ہیں ۔ نصوص قرآنی کی تکذیب ان کی خوراک اوردین کی ضروریات کاانکاران کارزق ہے ،یہ عجب قسم کے مومن ہیں کہ اللہ تعالی اوراس کے رسول ﷺپر توایمان لاتے ہیں لیکن جو کچھ اللہ تعالی اوراس کے رسول ﷺنے فرمایاہے اس کو قبول نہیں کرتے ۔ اس سے بڑھ کر سفاہت اورپاگل پن کیاہوگا؟
فلسفہ چون اکثرش باشد سفہ پس کل آنہ ہم سفہ باشد کہ حکم کل اکثراست ۔
ترجمہ :فلسفہ کاجب اکثرپاگل پن ہے تو پھراس کاکل بھی پاگل پن ہی ہوگاکیونکہ اکثرپر کل کاحکم لگتاہے ۔
ان لوگوں نے اپنی عمر کو ایک آلہ جو ان کے نزدیک خطافکری سے محفوظ ہے یعنی علم منطبق کی تعلیم وتعلم میں برباد کردیااوراس بارے میں بڑے باریک اوردقیق مسائل نکالے اوربڑی بڑی موشگافیاں کیں لیکن جب حق تعالی کی ذات وصفات وافعال کے اعلی مقصد تک پہنچے تو ان کے ہوش وحواس جاتے رہے اوران کاوہ آلہ عاصمہ بھی کام نہ آیااورخبط میں پھنس کر گمراہی کے جنگل میں بھٹکتے رہے ، جس طرح کوئی شخص کئی سال لگاکر لڑائی کے آلات تیارکرتاہے مگرلڑائی کے وقت اس کے ہاتھ پائوں بے کارہوجائیں اورآلات کو کام میں نہ لاسکیں ۔ لوگ فلسفہ کے علوم کو بڑے نظم ونسق والاجانتے ہیں اورغلط وخطاء سے محفوظ سمجھتے ہیں اگراس بات کو مان بھی لیں تویہ حکم ان علوم میں صادق آتاہے جن میں عقل کااستقلال اوراستحکام ہے جو اس بحث سے خارج اوردائرہ مالایعنی میں داخل ہیں اورآخرت کے ساتھ جس کامعاملہ دائمی ہے کچھ تعلق نہیں رکھتے اورنہ ہی آخرت کی نجات ان پر وابستہ ہے، گفتگوان علوم میں ہے جن کے ادراک میں عقل عاجز اورقاصرہے اورطورِ نبوت پرموقوف ہے اورجن پر آخرت کی نجات منحصر ہے ۔
حجۃ الاسلام امام غزالی رحمہ اللہ تعالی اپنی کتاب ’’المنقذ عن الضلال ‘‘ میں فرماتے ہیں کہ اہل فلسفہ نے علم طب اورعلم نجوم گزشتہ انبیاء کرام علیہم السلام کی کتابوں سے چوری کیے ہیںاوردوائوں کی خاصیتیں جن کے سمجھنے سے عقل قاصر ہے، انبیاء کرام علیہم السلام کی آسمانی کتابوں اورصحیفوں سے اقتباس کی ہیں اورعلم تہذیب واخلاق کو صوفیاالہیہ کی کتابوں سے جو ہرزمانہ میں کسی نہ کسی نبی کے امت رہے ہیں۔ اپنی بے ہودہ باتوں کو رواج دینے کے لئے چرالیاہے ،الغرض ان کے تینوں علم انبیاء کرام علیہم السلام اورصوفیاء کرام کے علوم سے چرائے ہوئے ہیں۔ علم الہیہ میں اللہ تعالی کی ذات وصفات وافعال ایمان باللہ اورایمان بالآخرت کے بارے میں جو خبط انہوں نے ظاہرکئے ہیں وہ سب کے سب نصوص قرآنی کے مخالف ہیں ، جن کاتھوڑاذکرہم کرآئے ہیں، باقی رہاعلم ہندسہ جو خاص طور پر ان کے ساتھ مخصوص ہے اگرمتسق اورمنتظم ( یعنی کامل وتمام ) بھی ہوگاتوکس کام آئے گا، اورآخرت کے کون سے عذاب واحوال کو دورکردے گا؟{ علامۃ اعراضہ تعالی عن العبداشتغالہ بمالایعنیہ }ترجمہ : بندے سے حق تعالی کی روگردانی کی علامت بندے کابے ہودہ کاموں میں مشغول ہوناہے ۔ جو آخرت میں کچھ کام نہ آئے وہ لایعنی اوربے ہودہ ہے ، ان کاعلم منطق علم آلہ یعنی غلط وصحیح فکر میں تمیز کرنے کاآلہ ہے اورجس کو خطاسے محفوظ بتلاتے ہیں جب ان کے اپنے کام نہ آیااورمقصد اعلی کے حاصل کرنے میں ان کو غلطی اورخطاسے نہ بچاسکاتوپھراوروں کے کام کس طرح آئے گااوردوسروں کو خطاسے کیسے بچاسکے گا {رَبَّنَا لَا تُزِ غْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ہَدَیْتَنَا وَہَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً اِنَّکَ اَنْتَ الْوَہَّابُ}اے رب ہمارے دل ٹیڑھے نہ کر بعد اس کے کہ تو نے ہمیں ہدایت دی اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا کر بے شک تو بڑا دینے والا ۔
بعض لوگ جو علوم فلسفی سے تعلق رکھتے ہیں اورفلسفی تسویلات پر فریفتہ ہیں ان لوگوں کو حکماء جان کرانبیاء کرام علیہم السلام کے برابرسمجھتے ہیں بلکہ ان کے جھوٹے علوم کو سچاجان کر انبیاء کرام علیہم السلام کی شرائع پر بھی مقدم سمجھتے ہیں۔ اعاذنااللہ تعالی عن الاعتقاد الاسوء ۔( اللہ تعالی ہم کو اس گندے عقیدہ سے بچائے ) جب ان کو حکماء جانتے ہیں اوران کے علم کو حکمت کہتے ہیں توپھرکیونکراس بلاء میں مبتلاء نہ ہوں ، کیونکہ حکمت سے مراد کسی چیز کاوہ علم ہے جو نفس الامر کے مطابق ہولیکن وہ علوم جو ان کے مخالف ہوں وہ نفس الامر کے غیرمطابق ہوں گے۔ غرض ان کی اوران کے علوم کی تصدیق سے انبیاء کرام علیہم السلام کی اوران کے علوم کی تکذیب لازم آتی ہے ،کیونکہ یہ دونوں علم ایک دوسرے کی نقیض ہیں اورایک کی تصدیق میں دوسرے کی تکذیب ہے ، اب جو چاہے انبیاء کرام علیہم السلام کے مذہب کو لازم پکڑلے اورحق تعالی کے گروہ میں سے ہوجائے اورنجات پاجائے اورجو چاہے فلسفی اورسائنسدان بن جائے اورشیاطین کے گروہ میں داخل ہوجائے اورہمیشہ کے لئے نقصان اٹھانے والااوراللہ تعالی کی رحمت سے ناامیدبن جائے ۔
اللہ تعالی فرماتاہے :
{فَمَنْ شَآء َ فَلْیُؤْمِنْ وَّ مَنْ شَآء َ فَلْیَکْفُرْ اِنَّآ اَعْتَدْنَا لِلظّٰلِمِیْنَ نَارًا اَحَاطَ بِہِمْ سُرَادِقُہَا وَ اِنْ یَّسْتَغِیْثُوْا یُغَاثُوْا بِمَآء ٍ کَالْمُہْلِ یَشْوِی الْوُجُوْہَ بِئْسَ الشَّرَابُ وَسَآء َتْ مُرْتَفَقًا }
ترجمہ :تو جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے بیشک ہم نے ظالموں کے لئے وہ آگ تیار کر رکھی ہے جس کی دیواریں انہیں گھیر لیں گی اور اگرپانی کے لئے فریاد کریں تو ان کی فریاد رسی ہوگی اس پانی سے کہ چرخ دیئے ہوئے دھات کی طرح ہے کہ ان کے منہ بھون دے گا کیا ہی برا پینا ہے اور دوزخ کیا ہی بری ٹھہرنے کی جگہ۔
والسلام علی من اتبع الہدی والتزم متابعۃ المصطفی علیہ وعلی جمیع اخوانہ من الانبیاء الکرام ولملائکۃ العظام الصلوات والتسلیمات اتمہاواکملہاوالسلام۔
( مکتوبات امام ربانی دفترسوم(مکتوب نمبر۲۳) ازمجددالف ثانی )
اسلامی احکامات میں حکمت پوچھ کرعمل کرنے والے عباداللہ نہیں ہیں
اللہ تعالی کے نازل کردہ احکامات میں بعض لوگ اپنی فہم کے مطابق ان احکامات کو تراش خراش کر ان احکامات کی کچھ حکمتیں دریافت کرلیتے ہیں اوران احکام پر عمل کرنے یانہ کرنے کو ان حکمتوں کے پائے جانے نہ پائے جانے پر موقوف کرلیتے ہیں ، اس کانتیجہ یہ نکلتاہے کہ قرآن کریم اورسول اللہ ﷺکی حدیث شریف میں مذکورہ واضح احکامات میں اپنی خودساختہ علتوں کی بنیاد پر تصرف کرنے اوردخل دینے لگتے ہیں چنانچہ بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جنہوںنے وضوکی حکمت اورمقصد صرف جسم کی ظاہری صفائی اورپاکیزگی کو سمجھ لیاجب نماز کے وقت انہوںنے محسوس کیاکہ وہ توپہلے سے ہی صاف ستھرے ہیں توانہوںنے وضوکی ضروت ہی محسوس نہ کی ، اب بے وضونماز پڑھناشروع کردی ۔ اسی طرح ایک اچھے بھلے مولوی صاحب سے ملاقات ہوئی جو ایک بہت بڑے مدرسہ میں تعلیم دیاکرتے تھے ، ان کے ہاتھوں کے ناخن بہت بڑے بڑے تھے جب ان سے ہم نے دریافت کیاکہ جناب یہ ناخن آپ نے اتنے بڑے رکھے ہوئے ہیں توکہنے لگے کہ آپ نے کبھی غورکیاکہ ناخن تراشنے کی علت کیاہے ؟ پھرخود ہی بیان کرنے لگے کہ ناخن تراشنے کی علت صرف اورصرف صفائی ہے ، لھذامیں ہمہ وقت صفائی رکھتاہوں ، اس لئے میں جتنے مرضی ناخن بڑھالوں سب جائز ہے ۔ اسی طرح بعض لوگوں نے نماز کامقصود اعلی اخلاقی آراستگی اوراصلاح سمجھااوراس کے حصول کو مقصد اورنصیب العین بناکر نماز کی ا دائیگی کاسلسلہ ختم کردیا، اسی طرح نماز روزے اورحج کے معاملے میں بھی ہواکہ لوگوں نے ان کی حکمتیں معلوم کرکے سمجھاکہ یہ احکامات تو ہم پراس لئے لاگوہوئے ہیں لھذا وہ آہستہ آہستہ ان احکامات سے ہاتھ دھوبیٹھے ۔
اوراس کے ساتھ ساتھ جن چیزوں کی ممانعت قرآن کریم میں تھی جیسے سود اوراس کے علاوہ بے حجابی وغیرہ توان میں بھی من مانی حکمتوں کی بنیاد پر دخل دیناشروع کردیا،اس طرح پوری کی پوری شریعت مبارکہ کو ختم کرکے رکھ دیا۔ یہی رویہ الحاد اوربے دینی اورلبرل از م اورسیکولرازم کہلاتاہے ۔ان کے اس رویے سے کفراوراتداد ظاہر ہے کیونکہ جو شخص بھی اسلامی احکامات میں من مانی تاویلات کرے گا اوراحکامات کو انہیں تاویلات کی بناء پرترک کرے گاوہ کافرومرتدہوجائے گا۔
الانتباہات المفیدہ میں ہے کہ کیایہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ تعالی کی طرف سے بہت سے احکام جن کابندوں کو مکلف بنایاگیاہے ، ان کی بجاآوری کااصل مقصد امتحان ِ عبدیت یااپنے بندوں کی بندگی کاامتحان مقصود ہو، یہی ان احکام کااصل سبب ہو، باقی ان احکامات کی جو حکمتیں اورمقاصد آپ حضرات ذکرکرتے ہیں وہ درست نہ ہوں ، بھلااس بات پر کیادلیل ہے کہ ان احکامات کے مقاصد وہی ہوں جو آپ حضرات اپنی عقل سے بیان کررہے ہیں ، اس طرح یہ بھی ممکن ہے کہ ان احکام کے مقاصد ایسے نتائج ہوں جو ان کو دیگراحکامات شرع سے ملاکر عمل کرنے کے نتیجے میں پیداہوتے ہوں ، تنہاانفرادی حیثیت سے ان کی افادیت کااندازہ لگاناممکن نہ ہو، جیساکہ بعض ادویہ میں دیکھاجاتاہے کہ اس استعمال کے بعد اجزائے دواکے معلوم اثرات کے برخلاف ثانوی اثرات نئی کیفیت یافائدے ظاہرہوناشروع ہوجاتے ہیں ، اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ممکن ہے کہ کسی حکم کی علت کسی انسان کی سمجھ میں کچھ آئی ہواورکسی دوسرے انسان کے خیال میں کوئی اوروجہ سمجھ آئی ہو، ان میں سے ایک رائے کو دوسری رائے پر کسی دلیل کی بنیادپر ترجیح دی جائے گی ، عام طور پر یکساں دلائل کے ٹکرائوکے وقت یہی قاعدہ ہوتاہے کہ دونوں کو کالعدم قراردے دیاجائے ، کالعدم قرارنہ دینے کی صورت میں اس کی زدبراہ راست احکام پرپڑے گی اورکوئی ان احکامات کو سرے سے ہی بے بنیاد قراردے دے گا۔ کیاکوئی بھی عقل مندانسان جسے دین سے ذراسی بھی عقیدت ہواس بھیانک نتیجے کاقائل ہوسکتاہے؟ ۔
(الانتباہات المفیدہ عن الاشتباہات الجدیدۃ :۱۶۶)
آج جسے بھی دیکھووہ کفارکے سامنے احکامات شرع کی علتوں کو بیان کررہاہے اور پھران کی بنیاد پر مزید فروعی مسائل کو ثابت کیاجاتاہے ، یادرکھیں اس میں بڑی خرابی یہ ہے کہ ان احکامات کی خودساختہ علتیں محض تخمینی اندازے اورقیاس ہیں ، کسی خاص موقع پر ان سے کچھ فائدے حاصل ہوجاتے ہیں لیکن ان مواقع پربھی یہ خدشہ ضروررہتاہے اگرکسی اورزاویے اورنظریئے سے اس حکم کی علت نکالی گئی تو پہلی علت پر زد آنے کی وجہ سے قرآن وحدیث کے اصل حکم کے بارے میں شکوک وشبہات پیداہوجائیں گے اوردین دشمن طبقہ کو اسلام کے احکام پر اعتراض کرنے کاہمیشہ کے لئے ایک راستہ مل جائے گا۔
ان احکامات کے بارے صرف یہی بات ذہن نشین رکھنے کی اشدضرورت ہے کہ یہ اللہ تعالی کے قوانین ہیں اورقانون اورضابطے میں اس کے اسرار نہیں تلاش کئے جاتے اورنہ ہی اپنی عقل کے وضع کردہ ضابطوں کے اسرارورموز کی بنیاد پر کسی کو قانون میں تبدیلی یااسے چھوڑ نے کااختیارحاصل ہوجاتاہے ۔ البتہ خود بانی اورقانون ایجاد کرنے والے کو یہ اختیارات حاصل ہوتے ہیں ، اگرکوئی یہ اعتراض کرے کہ فقہاء کرام اورمجتہدین نے بھی بہت سے احکامات کی از خود علتیں نکالی ہیں توایسے لوگوں کو سمجھناچاہئے کہ ان احکامات میں ان کی ضرورت تھی ، جن چیزوں کے بارے میں قرآن کریم اورحدیث شریف نے وضاحت نہیں کی ان کاحکم دریافت کیاجائے دوسری بات یہ ہے کہ اس کام کاسلیقہ اورصلاحیت بھی تھی ، آجکل یہ دونوں باتیں مفقود ہیں ۔ بلکہ ایک بڑی رکاوٹ بھی پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ کم علمی کی وجہ سے احکامات کی علتیں نکالنے کے چکر میں نفسانی خواہشات میں مبتلاہونے کاقوی اندیشہ موجود رہتاہے اورایسے بہت سے لوگ جو ان احکامات میں حکمتیں اورمصلحتیں تلاش کرنے والے تھے اوران کوعلماء کی مجلس میں بیٹھنانصیب نہیں ہواتو بس مصلحت کی حد تک دین پر عمل پیرارہے بالآخردین کو ترک کردیا۔
اوراحکامات شرع کوحکمتوں سے مشروط کرنایااحکام شرع میں حکمتیں تلاش کرناایک ایسابے معنی اورفضول عمل ہے ، اگراس کاسلسلہ شروع کردیاگیاتو اس کاکوئی اختتام نہیں ، دوسرایہ کہ اس کاکوئی فائدہ بھی نہیں ہوگاکیونکہ احکام شرع کامکمل ادراک انسانی فہم سے بالاترہے ۔ پانی کی عدم موجودگی میں پاکی حاصل کرنے کے لئے تیمم کرنے کاحکم دیاگیا، لیکن اس کی کیاتوجیہ پیش کی جائے گی کہ مٹی پر ہاتھ مارنے سے اعضاء صاف ہونے کی بجائے مزید آلودہ ہوجاتے ہیں ، احرام کی حالت میں ناخن کاٹنااورخوشبولگانامنع ہے حالانکہ یہ نبی کریم ﷺکی بڑی پیاری سنت ہے۔ حج کے موقع پر شیطان کو کنکرمارے جاتے ہیں جو کہ بظاہر سمجھ آنے والی بات نہیں ہے ، احکامات شرع میں حکمتوں کی تلاش دراصل اللہ تعالی کے احکامات میں عقل کے دروازے کھولنے کے مترادف ہے ، جس کااختتام بالآخردین پر عدم اعتمادکی صورت میں نکلے گا۔
اگرغورکیاجائے تواسلام کے احکام کے باب میں ان فرضی مصلحتوں اورحکمتوں کاگھڑلینااوراختراع کرلیناسب دنیاوی مقاصد کے تحت اورآخرت کی مقصودیت سے انکارہے ، اگرآخرت نام کی کوئی چیز ہے اوراس نے کبھی واقع ہوناہے تووہ ایک دوسری دنیاہے ، عین ممکن ہے کہ اس دنیاکے خواص اوراثرات اس دنیاسے کچھ نسبت نہ رکھتے ہوں ، جیساکہ ایک براعظم کے احوال دوسرے براعظم سے مختلف ہوتے ہیں یاجیساکہ سیارہ مریخ کے احوال زمین کے احوال سے یکسرمختلف ہیں ۔ اوراس جہان کے مکمل احوال ہمیں معلوم نہ ہوں ۔ اسی طرح ممکن ہے کہ آخرت کے خواص اورآخرت کی کامیابی خالصتاً ان اسلامی احکام اوراعمال پر منحصرہوجن کاباہمی ربط اورمناسبت ہم اپنی کم علمی کی وجہ سے دریافت نہ کرسکتے ہوں ۔ پھران اختراعی مصلحتوں کی کیااوقات رہ جائے گی ۔ فرض کریں اگریہی معاملہ کسی دنیاوی حکومت کے قوانین کے ساتھ کرے اورہر حکم کی اپنی طرف سے ایک حکمت اورمصلحت وضع کرلے اوراپنی فہم سے دوسرے آسان طریقوں سے اس مصلحت کو حاصل کرکے اصل قانون کی بجاآوری کاانکارکرنے لگے توہر شخص یہ بات بخوبی سمجھ سکتاہے کہ اس دنیاکے حکمران اس کے ساتھ کیاسلوک کریں گے ؟ آسان سی بات ہے کہ اگرکسی کے نام انگریزی کوٹ سے ثمن آجائے اوروہ اطلاع ملنے کے باوجود مقررہ تاریخ پر حاضرنہ ہواوریہ کہہ دے کہ میرے حاضرہونے کا مقصدگواہی دیناہے جس کاایک دوسراآسان طریقہ بھی موجود ہے اوروہ یہ ہے کہ بذریعہ رجسٹری تمام گواہی لکھ کر ڈاک کے ذریعے بھیج دیتاہوں ، خصوصاً اس صورت میں جج صاحب اس کے دستخط بھی جانتے ہوں توکیاایساکرنے پراوراس شخص کے حاضرنہ ہونے پر اس کو گرفتارنہ کیاجائے گا؟ کیاوہ سزاکامستحق نہ بنے گا؟ کیااس کاخط روانہ کردیناکافی سمجھاجائے گا، جب کہ حاضرہونے کامقصد پوراہورہاہو۔
اس بات سے کوئی شخص یہ گمان نہ کرے کہ ہم اسلامی شریعت اوراحکامات کو حکمتوں اوراثرات سے خالی جانتے ہیں یایہ کہ ان رازوں سے علماء کرام کو آگاہی نہیں ہے ، ایسی بات نہیں ہے ، یقیناشریعت مبارکہ کے احکامات میں حکمتیں پوشیدہ ہیں اورعلماء کرام ان سے واقف بھی ہیں، اس حوالے سے ان کی معلومات میں اضافہ بھی ہوتارہتاہے ، لیکن ان احکامات پر عمل کادارومدار حکمتوں اورمصلحتوں کی آگاہی پر نہیں ہے ۔ اگرکسی حکم کی مصلحت نہیں معلوم تب بھی اس حکم پر عمل کرناواجب ہے ، یہ بالکل ملکی قوانین جیسی صورت حال ہے کہ رعایاکاوجہ وسبب جاننے تک ان پر عمل کرنے سے انکارجرم عظیم ہے ۔ ان قوانین کی وضاحت میں جو کچھ بیان کردیاجاتاہے وہ ریاست کااحسان ہے ، قوانین کے اثرات سے جس قدرمطلع کیاجاتاہے وہ بھی محض قیاس اوراندازے ہیں ، بعض قوانین ایسے بھی ہیں جن کی وجوہات بالکل نہیں بیان کی جاتیں اوراس پر کسی کو حیرت بھی نہیں ہوتی ۔
ہم دیکھتے ہیں گھرمیں جس شخص کو ملازم رکھاجاتاہے اس کو گھرکے معاملات کی وجہ اورسبب معلوم نہیں ہوسکتے۔ حالانکہ مالک بھی نوکرہی کی طرح کی ایک مخلوق ہے ،جب مخلوق کو مخلوق کے راز معلوم نہیں ہوتے حلانکہ دونوں کے علم میں نسبت محدودہے تواگرمخلوق کو اللہ تعالی کے رازوں کابالکل ہی علم نہ ہویادرست اورصحیح اطلاع نہ ہوجب کہ مخلوق کاعلم محدود اورخالق تعالی کاعلم لامحدود ہوتو اس پر تعجب اورحیرانگی کیسی؟ بقول ایک فلسفی کے کہ اگرتمام دینی احکام کی حکمتیں عقلی طورپر مکمل انداز میں معلوم ہوجائیں تو پھریہ شبہ پیداہوجائے گاکہ شاید کسی عقل مندشخص یاجماعت نے یہ مذہب خود بنالیاہوگا۔ سارے عقل مندوں کی اس کی حکمتوں تک رسائی ہوگی ، خداتعالی کے مذہب کی شان تویہ ہونی چاہئے کہ اس کے رازوں تک مکمل طورپر کسی کی بھی رسائی نہ ہونے پائے۔ اس وضاحت سے یہ نہیں سمجھناچاہئے کہ جن احکامات کی حکمتیں عقلی طورپرسمجھ میں نہیں آتیں وہ خلاف عقل ہیں ، ہرگزہرگزایسانہیں ہے ۔ عقل کے خلاف ہونااوربات ہے اورعقل میں نہ آنااوربات ہے ۔
اب یہاں پر ائمہ کرام علیہم الرحمہ کاکلام نقل کرتے ہیں جس میں یہ بیان کیاگیاہے کہ احکام شرع کی علت اورسبب جانے بغیرعمل کرنے میں بہت بڑااجر ہے کیونکہ احکامات الہیہ کی پیروی تعبدی ہونی چاہئے نہ کہ معقول المعنی ۔
امام عزالدین بن عبدالسلام المتوفی :۶۶۰ھ) رحمہ اللہ تعالی کاقول
وَسُئِلَ رَضِی اللہ عَنہُ:ہَل التعبدیّ أفضل أَو مَعْقُول الْمَعْنی؟ فَأجَاب بقولہ:قَضِیَّۃ کَلَام الْعِزّ بن عبد السَّلَام أَن التعبدی أفضل لِأَنَّہُ لمحض الإنقیاد بِخِلَاف مَا ظَہرت علتہ فَإِن ملابسہ قد یَفْعَلہ لأجل تَحْصِیل مصْلحَتہ وَفَائِدَتہ ۔
ترجمہ
شیخ الاسلام امام ابن حجررحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ امام عزالدین بن عبدالسلام الشافعی رحمہ اللہ تعالی سے سوال کیاگیاکہ تعبدی عبادت افضل ہے یامعقول المعنی؟ توآپ رحمہ اللہ تعالی نے جواب دیاکہ تعبدی عبادت افضل ہے کیونکہ یہ محض اللہ تعالی کے حکم کو پوراکرنے کے لئے ہوتی ہے ، بخلاف اس عبادت کے جس کی علت ظاہرہوتی ہے ۔ کیونکہ اس عبادت کو بجالانے والاکبھی اپنی مصلحت اورکبھی اپنافائدہ حاصل کرنے کے لئے بھی انجام دیتاہے ۔
(الفتاوی الحدیثیۃ:أحمد بن محمد بن علی بن حجر شہاب الدین شیخ الإسلام، أبو العباس :۳۶)
احکامات الہیہ کی حکمت جانے بغیرعمل کیاجائے
وَفِی الْحِلْیَۃِ عِنْدَ الْکَلَامِ عَلَی فَرَائِضِ الْوُضُوء ِ:وَقَدْ اخْتَلَفَ الْعُلَمَاء ُ فِی أَنَّ الْأُمُورَ التَّعَبُّدِیَّۃَ ہَلْ شُرِعَتْ لِحِکْمَۃٍ عِنْدَ اللَّہِ تَعَالَی وَخَفَتْ عَلَیْنَا أَوْ لَا؟ وَالْأَکْثَرُونَ عَلَی الْأَوَّلِ وَہُوَ الْمُتَّجَہُ لِدَلَالَۃِ اسْتِقْرَاء ِ عِبَادَۃِ اللَّہِ تَعَالَی عَلَی کَوْنِہِ سُبْحَانَہُ جَالِبًا لِلْمَصَالِحِ دَارِئًا لِلْمَفَاسِدِ، فَمَا شَرَعَہُ إنْ ظَہَرَتْ حِکْمَتُہُ لَنَا قُلْنَا إنَّہُ مَعْقُولٌ وَإِلَّا قُلْنَا إنَّہُ تَعَبُّدِیٌّ، وَاَللَّہُ سُبْحَانَہُ الْعَلِیمُ الْحَکِیمُ ۔
ترجمہ:امام محمدبن امین بن عمر عابدین الشامی الحنفی المتوفی : ۱۲۵۲ھ) رحمہ اللہ تعالی نقل فرماتے ہیں کہ ’’الحلبہ ‘‘میں وضو کے فرائض پرکلام کے وقت ہے کہ علماء کرام کااس میں اختلاف ہے کہ امورتعبدیہ کیااللہ تعالی کی بارگاہ میں کسی حکمت کی وجہ سے مشروع کئے گئے ہیںاوروہ حکمت ہم سے مخفی ہے یاکسی حکمت کی وجہ سے مشروع نہیں ہوئے ؟ اکثرعلماء کرام کانظریہ پہلی صورت پر ہے اوریہ قابل توجہ ہے کیونکہ اللہ تعالی کی عادت کااستقراء اس پر دلالت کرتاہے کہ اللہ تعالی مصالح کولانے والاہے اورمفاسدکودورکرنے والاہے ، پس جو اس نے مشروع فرمایا، اگراس کی حکمت ہمارے لیے ظاہرہوئی تو ہم نے کہایہ معقول ہے اورجس کی حکمت ہمارے لئے ظاہرنہ ہوئی توہم نے کہاکہ یہ امرتعبدی ہے ۔
(رد المحتار علی الدر المختار:ابن عابدین، محمد أمین بن عمر بن عبد العزیز عابدین الدمشقی الحنفی(۱:۴۴۷)
امام شمس الدین محمدبن ابی العباس الرملی المتوفی: ۱۰۰۴ھ) رحمہ اللہ تعالی کاقول
وَالرَّاجِحُ أَنَّ التَّعَبُّدِیَّ أَفْضَلُ مِنْ مَعْقُولِ الْمَعْنَی لِأَنَّ فِیہِ إرْغَامًا لِلنَّفْسِ۔
ترجمہ:امام شمس الدین محمدبن ابی العباس الرملی المتوفی: ۱۰۰۴ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ راجح یہی ہے کہ عبادت تعبدی معقول المعنی سے افضل ہے کیونکہ اس میں نفس کی ذلت اوراس کو قابوپانے کی ہمت ہوتی ہے ۔
(نہایۃ المحتاج إلی شرح المنہاج:شمس الدین محمد بن أبی العباس أحمد بن حمزۃ شہاب الدین الرملی (۱:۱۵۴)
اس کی وجہ صاف ظاہرہے کہ جس حکم کی علت کاپتہ ہوتوہوسکتاہے کہ انسان اسی نیت کے ساتھ وہ عبادت بجالائے جیسے روزہ رکھنے سے انسان کے جسم میں ہلکاپن محسوس ہوتاہے اورکوئی شخص اس نیت کے ساتھ روزے رکھنے شروع کردے تاکہ اس کاجسم ہلکاہوجائے توایسے شخص کے لئے روزہ رکھناآسان ہوجائے گااوراس کانفس راضی خوشی روزے رکھے گا، اگراس کے برخلاف اس کو یہ معلوم نہ ہوکہ روزہ رکھنے سے مجھے دنیوی فائدہ کیاحاصل ہوگا؟ اوروہ صرف اورصرف اللہ تعالی کے حکم پر عمل کرنے کی نیت سے روزہ رکھے تواس میں اس کانفس اس کے تابع ہوجائے گا اورنیکی کے امور میں اس کو مشکل توہوگی مگرآہستہ آہستہ نفس ذلیل ہوکررہے گا۔
امام سلیمان بن محمدبن عمر المصری الشافعی المتوفی : ۱۲۲۱ھ) رحمہ اللہ تعالی کاقول
وَالتَّعَبُّدِیُّ أَفْضَلُ مِنْ مَعْقُولِ الْمَعْنَی لِأَنَّ الِامْتِثَالَ فِیہِ أَشَدُّ ۔
ترجمہ:امام سلیمان بن محمدبن عمر المصری الشافعی المتوفی : ۱۲۲۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ عبادت تعبدی ہی افضل ہے معقول المعنی سے کیونکہ عبادت تعبدی میں اللہ تعالی کے حکم پر عمل کرنے میں زیادہ فرمانبرداری پائی جاتی ہے ۔
(تحفۃ الحبیب علی شرح الخطیب :سلیمان بن محمد بن عمر البُجَیْرَمِیّ المصری الشافعی(۱:۱۲۸)
حجۃ الاسلام امام محمدبن محمدالغزالی المتوفی :۵۰۵ھ) رحمہ اللہ تعالی کا اس مسئلہ پر بلیغ کلام
ولذلک وظف علیہم فیہا أعمالاً لا تأنس بہا النفوس ولا تہتدی إلی معانیہا العقول کرمی الجمار بالأحجار والتردد بین الصفا والمروۃ علی سبیل التکراروبمثل ہذہ الأعمال یظہر کمال الرق والعبودیۃ فإن الزکاۃ إرفاق ووجہہ مفہوم وللعقل إلیہ میل والصوم کسر للشہوۃ التی ہی آلۃ عدو اللہ وتفرغ للعبادۃ بالکف عن الشواغل والرکوع والسجود فی الصلاۃ تواضع للہ عز وجل بأفعال ہی ہیئۃ التواضع وللنفوس أنس بتعظیم اللہ عز وجل فأما ترددات السعی ورمی الجمار وأمثال ہذہ الأعمال فلا حظ للنفوس ولا أنس فیہا ولا اہتداء للعقل إلی معانیہا فلا یکون فی الإقدام علیہا باعث إلا الأمر المجرد وقصد الامتثال للأمر من حیث إنہ أمر واجب الاتباع فقط وفیہ عزل للعقل عن تصرفہ وصرف النفس والطبع عن محل أنسہ فإن کل ما أدرک العقل معناہ مال الطبع إلیہ میلاً ما فیکون ذلک المیل معیناً للأمر وباعثاً معہ علی الفعل فلا یکاد یظہر بہ کمال الرق والانقیاد ولذلک قال صلی اللہ علیہ وسلم فی الحج علی الخصوص لبیک بحجۃ حقاً تعبداً ورقاً ولم یقل ذلک فی صلاۃ ولا غیرہا۔
ترجمہ :امام غزالی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ حج میں ان اعمال کی بجاآوری کاحکم ہے جن سے لوگ مانوس نہیں ہیں ، اورنہ ہی عقل ان کے باطنی معنی تک رسائی پاتی ہے ، جیسے رمی جمار اورصفاومروہ کی سعی ۔ ان جیسے اعمال سے غلامی اوربندگی کاکمال ظاہرہوتاہے ، کیونکہ زکوۃ میں نرمی ہے ، اس کی حکمت سمجھ آتی ہے اورعقل اس کی طرف مائل ہوتی ہے ، روزہ اس خواہش کو توڑتاہے جو اللہ تعالی کے دشمن شیطان کاآلہ ہے اورمصروفیات سے رک کرعبادت کے لئے فارغ ہوناہے ، نماز میں رکوع وسجودایسے افعال ہیں جن کی ادائیگی کے طریقے میں ہی اللہ تعالی کے لئے عاجزی پائی جاتی ہے ، اللہ تعالی کی تعظیم سے لوگوں کو انس حاصل ہوتاہے ۔ لیکن باربارصفاومروہ کے درمیان دوڑنے ، جمرات کو کنکریاں مارنے اوران جیسے دیگرافعال حج میں نفوس کاکوئی حصہ نہیں ہے اورنہ ہی ان سے طبیعت کو انس حاصل ہوتاہے اورنہ ہی عقل کی ان کے باطنی معنی تک رسائی ہوتی ہے ، لھذاان کی بجاآوری کاباعث محض حکم الہی ہے ، حکم کی بجاآوری اس اعتبارسے ہے کہ اس کے حکم پر عمل کرناواجب ہے اورعقل کو اس میں تصرف سے روکنااورنفس وطبیعت کو ان کے محل انس سے پھیرناہے ، کیونکہ ہروہ چیز جس کے معنی میںعقل کی رسائی ہوطبیعت اس کی طرف مائل ہوجاتی ہے تویہ میلان حکم ماننے میں معاون ثابت ہوتاہے اوراس کام کاباعث بنتاہے ، اس سے غلامی اورفرمانبرداری کاکمال ظاہرنہیں ہوتا۔ اس لئے رسول اللہ ﷺنے حج کے متعلق خصوصی طورپر ارشادفرمایا: میں حج کے لئے حاضرہواجو خالص بندگی کاحق ہے جبکہ نماز وغیرہ کے متعلق رسول اللہ ﷺنے ایسی بات ارشادنہیں فرمائی ۔
(إحیاء علوم الدین:أبو حامد محمد بن محمد الغزالی الطوسی (۱:۲۶۶)
امام غزالی رحمہ اللہ تعالی مزیدکلام فرماتے ہیں کہ
وإذا اقتضت حکمۃ اللہ سبحانہ وتعالی ربط نجاۃ الخلق بأن تکون أعمالہم علی خلاف ہوی طباعہم وأن یکون زمامہا بید الشرع فیترددون فی أعمالہم علی سنن الانقیاد وعلی مقتضی الاستعباد کان ما لا یہتدی إلی معانیہ أبلغ أنواع التعبدات فی تزکیۃ النفوس وصرفہا عن مقتضی الطباع والأخلاق مقتضی الاسترقاق وإذا تفطنت لہذا فہمت أن تعجب النفوس من ہذہ الأفعال العجیبۃ مصدرہ الذہول عن أسرار التعبدات وہذا القدر کاف فی تفہم أصل الحج إن شاء اللہ تعالی۔
ترجمہ :حکمت الہی کاتقاضاہے کہ مخلوق کی نجات ان اعمال سے مربوط ہوجوطبیعتوں کی خواہش کے مخالف ہوں اورمخلوق کی لگام شریعت کے ہاتھ میں ہواوروہ انہیں تسلیم کرنے اوربندگی کرنے کے طریقے پر بجالائیں کیونکہ جن اعمال کے باطنی معنی سمجھ نہیں آتے وہ تزکیہ نفس ، طبیعت کے تقاضے اورعادات کو بندگی کی طرف پھیرنے کے سلسلے میں زیادہ بلیغ ہوتے ہیں ، اس لئے کہ ان میں خالصتاً بندگی کے معنی پائے جاتے ہیں۔ یہ بات سمجھ جائوکہ تم جان لوگے ان عجیب افعال میں نفوس کاتعجب کرنااس وجہ سے ہے کہ وہ عبادات کے اسرارسے بے خبرہیں حج کی حقیقت کو جاننے کے لئے اتنی وضاحت کافی ہے ۔
(إحیاء علوم الدین:أبو حامد محمد بن محمد الغزالی الطوسی (۱:۲۶۶)
امام شاطبی رحمہ اللہ تعالی کاکلام
وَظَاہِرُ کَلاَمِ الشَّاطِبِیِّ الأَْخْذُ بِقَوْل مَنْ یَقُول:إِنَّ التَّعَبُّدِیَّ أَفْضَل، وَذَلِکَ حَیْثُ قَال:إِنَّ التَّکَالِیفَ إِِذَا عُلِمَ قَصْدُ الْمَصْلَحَۃِ فِیہَا فَلِلْمُکَلَّفِ فِی الدُّخُول تَحْتَہَا ثَلاَثَۃُ أَحْوَالٍ:الأَْوَّل: أَنْ یَقْصِدَ بِہَا مَا فُہِمَ مِنْ مَقْصِدِ الشَّارِعِ فِی شَرْعِہَاوَہَذَا لاَ إِشْکَال فِیہِ، وَلَکِنْ لاَ یَنْبَغِی أَنْ یُخَلِّیَہُ مِنْ قَصْدِ التَّعَبُّدِ، فَکَمْ مِمَّنْ فَہِمَ الْمَصْلَحَۃَ فَلَمْ یَلْوِ عَلَی غَیْرِہَا، فَغَابَ عَنْ أَمْرِ الآْمِرِ بِہَاوَہِیَ غَفْلَۃٌ تُفَوِّتُ خَیْرَاتٍ کَثِیرَۃً، بِخِلاَفِ مَا إِِذَا لَمْ یُہْمَل التَّعَبُّدَثُمَّ إِنَّ الْمَصَالِحَ لاَ یَقُومُ دَلِیلٌ عَلَی انْحِصَارِہَا فِیمَا عُلِمَ إِلاَّ نَادِرًا، فَإِِذَا لَمْ یَثْبُتِ الْحَصْرُ کَانَ قَصْدُ تِلْکَ الْحِکْمَۃِ الْمُعَیَّنَۃِ رُبَّمَا أَسْقَطَ مَا ہُوَ مَقْصُودٌ أَیْضًا مِنْ شَرْعِ الْحُکْمِ.الثَّانِی: أَنْ یُقْصَدَ بِہَا مَا عَسَی أَنْ یَقْصِدَہُ الشَّارِعُ، مِمَّا اطَّلَعَ عَلَیْہِ أَوْ لَمْ یَطَّلِعْ عَلَیْہِ.وَہَذَا أَکْمَل مِنَ الْقَصْدِ الأَْوَّل، إِلاَّ أَنَّہُ رُبَّمَا فَاتَہُ النَّظَرُ إِِلَی التَّعَبُّدِ.الثَّالِثُ: أَنْ یُقْصَدَ مُجَرَّدُ امْتِثَال الأَْمْرِ، فُہِمَ قَصْدُ الْمَصْلَحَۃِ أَوْ لَمْ یُفْہَمْ.قَال: فَہَذَا أَکْمَل وَأَسْلَمُ.أَمَّا کَوْنُہُ أَکْمَل فَلأَِنَّہُ نَصَبَ نَفْسَہُ عَبْدًا مُؤْتَمَرًا وَمَمْلُوکًا مُلَبِّیًا، إِذْ لَمْ یَعْتَبِرْ إِلاَّ مُجَرَّدَ الأَْمْرِ. وَقَدْ وُکِّل الْعِلْمُ بِالْمَصْلَحَۃِ إِِلَی الْعَالِمِ بِہَا جُمْلَۃً وَتَفْصِیلاً وَہُوَ اللَّہُ تَعَالَی.وَأَمَّا کَوْنُہُ أَسْلَمَ؛ فَلأَِنَّ الْعَامِل بِالاِمْتِثَال عَامِلٌ بِمُقْتَضَی الْعُبُودِیَّۃِ، فَإِِنْ عَرَضَ لَہُ قَصْدٌ غَیْرَ اللَّہِ رَدَّہُ قَصْدُ التَّعَبُّدِ ۔
ترجمہ :تکالیف کی مصلحت کے قصدکاجب علم ہوکہ تین حالتوں کے تحت مکلف اس میں داخل ہوتاہے ۔
پہلی حالت : وہ اس چیز کاقصدکرے جو شارع کے مقصدکی مشروعیت سے سمجھ میں آتاہے ، اس صورت میں داخل ہونے میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔ لیکن اسے اپنے قصد کو تعبدکے قصدسے خالی نہ رکھناچاہئے ۔ کیونکہ بندوں کے مصالح تو تعبدکی راہ سے آئے ہیں ۔اسی لئے وہ احکامات عقلی نہیں ،اورباقی قصد تعبدکے مقصود کے تابع ہی ہوتے ہیں ، جب ایسااعتبارکیاجائے گاتو معبودیت کے ثابت ہونے کازیادہ امکان ہوگااورمکلف کی عادات سے شمارکرنے سے بہت زیادہ دورجائے گا، کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جنہوںنے مصلحت کو سمجھاتودوسری طرف توجہ ہی نہ کی ، اسی طرح حکم دینے والے اللہ تعالی کے حکم سے غائب رہے اوریہ ایسی غفلت ہے کہ جس سے بہت سی بھلائیاں فوت ہوجاتی ہیں بخلاف اس کے کہ وہ تعبدکے قصد میں غفلت نہ کرے ، علاوہ ازیں جو مصالح ظاہرہیں ان کے اسی حد تک محدودرہنے پر کوئی دلیل قائم نہیں ہے مگروہ دلیل جو اس حدپرنص ہو، جب نصی علت کے مسلک میں نظرڈالی جائے توکس قدرکم ہوتی ہے ، جبکہ وہ شارع کے کلام میں ہی کم کردی جاتی ہے ۔ مثلاً یہ کہے کہ یہ حکم میں نے اس حکمت کے لئے مشروع کیاہے ، توجب حکمت ثابت نہیں یااگرکسی جگہ ثابت ہے بھی اوروہ رائج نہیں ہوا، اس حکمت کاقصدبسااوقات اس مقصود کو بھی گرادیتاہے جس کے لئے وہ حکم مشروع ہوا، گویاایساقصد دوسری صورتوں کے کمال کے مقابلے میں ناقص ہوتاہے ۔
دوسری حالت :ا س چیز کاقصدکرے کہ شایدشارع نے اسی کاقصدکیاہو، ان باتوں میں بھی جن پروہ مطلع ہواہے اوران میں بھی جن میں وہ مطلع نہیں ہوا، یہ قصد پہلی حالت کے قصدسے اکمل ہے ، الایہ کہ بعض اوقات تعبدسے نظرہٹ جاتی ہے ، اس کی طرح قصدفوت ہوجاتاہے کیونکہ جو شخص یہ جانتاہے کہ یہ عمل اس مصلحت کے لئے مشروع ہواپھراسی قصدسے عمل کرے تواس مصلحت کاقصدرکھتے ہوئے یہ عمل کررہاہے اوراس عمل میں امتثال امرسے غافل ہے ، وہ اس شخص کی طرح ہے جو شخص حکم کے تحت عمل نہ کررہاہواس انداز پر عمل کرنے والے کاعمل عادی ہوتاہے ، جس میں تعبدکاقصدنہیں ہوتا، کبھی اس عمل کے دوران شیطان اسے بہکاتاہے اوراس میں مخلوق کے ہاں تقرب یاوجاہت یاکسی دنیاوی چیز کے حصول یاایسے ہی اجر کی بازیافت والے کسی دوسرے کام کاقصدداخل کردیتاہے اوروہ کبھی محض اپنے نفس کے لئے عمل کرتاہے گویااس کااجراس کمال کو نہیں پہنچتاجس کمال تک تعبدکاقصدکرنے والاپہنچتاہے ۔
تیسری حالت :وہ صرف اورصرف اللہ تعالی کے حکم کو پوراکرنے کاقصدکرے ، مصلحت کے قصد کی اسے سمجھ آئے یانہ آئے ، ایساشخص کامل ترین بھی ہے اورسلامتی والابھی ہے ، اکمل اس طرح ہے کہ اس نے اپنے آپ کو اس طرح اللہ تعالی کی بارگاہ میں یوں کھڑاکیاکہ وہ ایک حکم کاپابند، غلام اورلبیک کہنے والامملوک ہے جو حکم کے علاوہ کسی بھی چیز کااعتبارنہیں کرتا،اس کے علاوہ جب وہ حکم بجالایاتوگویااس نے مصلحت کے علم کو ایسے عالم کے سپردکردیاجو اس کی اجمالاً وتفصیلاً سب مصلحتیں جانتاہے ، اس نے کسی ایک مصلحت کوچھوڑتے ہوئے دوسری پر اپنے عمل کو محدودنہیں کیااوراس عمل سے جو بھی مصلحت پیداہوسکتی ہے اسے تواللہ تعالی ہی جانتاہے ، وہ گویااپنے غلامی میں اللہ تعالی اوراس کے حبیب کریم ﷺکے حکم کاپابندہے اورجو بعض مصالح کی قید نہیں لگاتااوراسلم بہت زیادہ سلامتی والاورمحفوظ ، اسی طرح کے امتثال کاعامل دراصل عبودیت مقتضی کاعامل ہوتاہے ، جوخداتعالی کے مرکز پر کھڑاہے ، اگراس پر اللہ تعالی کے علاوہ کسی اورکاقصدپیش کیاجائے تو وہ اسے تعبدکے قصدکی طرف پھیردیتاہے ، بلکہ اکثرچیزیں تواس پر داخل ہی نہیں ہوتیں ، جب وہ اس بناء پرعمل کرتاہے کہ وہ ایک مملوک غلام ہے جو نہ کسی چیز کامالک ہے اورنہ ہی کسی چیز پر قادر ، بخلاف اس شخص کے جو مصلحتیں دیکھ دیکھ کر اللہ تعالی کے احکامات پر عمل کرتاہے ، کیونکہ اس نے اپنی ذات کو بندوں اوران کی مصلحتوں کے درمیان واسطہ قراردیا، اگرچہ یہ واسطہ اس کی اپنی ذات کے لئے بھی ہوتاہے توبعض اوقات مشارکت کے اعتقاد سے کوئی چیز مداخلت کرتی ہے ، اس کے لئے وہ اپنی ذات کو کھڑاکرتاہے ،اس کے علاوہ امر ونہی کے تحت رک جانے کاتقاضایہ ہوتاہے کہ اس جہت سے اس کاحظ مٹ جائے اورحظوظ پر عمل کرنانیت کے فساد میں داخل ہونے کاراستہ ہے اورحظوظ کو ساقط کرتے ہوئے عمل کرنااس سے برات کی راہ ہے۔
(الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ(۱۲:۲۱۲)
عابدہے کون؟
وفی قولہ تعالی وَنَحْنُ لَہُ عابِدُونَ اشارۃ الی ان العارفین یعبدون ربہم لا لشوق الجنۃ ولا لخوف النار قال اللہ تعالی فی الزبور ومن اظلم ممن عبدنی لجنۃ او نار فلو لم اخلق جنۃ ولا نارا لم أکن مستحقا لان اعبد واعلم ان العابد ہو العامل بحق العبودیۃ فی مرضاۃ اللہ تعالی والعبادۃ دون العبودیۃ وہی دون العبودۃ لان من لم یبخل بروحہ فہو صاحب عبودۃ فالعبادۃ ببذل الروح فوق العبادۃ ببذل النفس۔
ترجمہ :حضرت سیدناامام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی : ۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ { وَنَحْنُ لَہُ عابِدُونَ}میں لطیف اشارہ ہے کہ عارفین صرف اللہ تعالی کے لئے عبادت کرتے ہیں ، زبورشریف میں ہے اللہ تعالی نے فرمایا: اس سے بڑھ کراورکون ظالم ہوجومیری عبادت محض اس لئے کرتاہے کہ میں اسے جنت دوں اوراسے دوزخ سے بچائوں؟ تواس کامطلب یہ ہواکہ اگرمیں جنت ودوزخ کو پیدانہ فرماتاتو وہ میری عبادت ہی نہ کرتے ۔
عابدوہ جو اللہ تعالی کو معبودجان کر صرف اسی کی رضاطلب کرنے کے لئے عبادت کرے اور عبادت درجے میں عبودیت سے کم ہے اورعبودیت عبودۃ سے کم ہے کیونکہ جو اپنے مالک پر روح کو قربان کردے اس کانام عبودۃ ہے اورعبادت یہ ہے کہ وہ اپنے مالک کی مرضی میں نفس کو قربان کردے ۔ اس لحاظ سے عبادت کادرجہ عبودۃ سے کم ہوا۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (ا:۱۴۴)
عارفین صرف اللہ تعالی کے لئے عبادت کرتے ہیں ، زبورشریف میں ہے اللہ تعالی نے فرمایا: اس سے بڑھ کراورکون ظالم ہوجومیری عبادت محض اس لئے کرتاہے کہ میں اسے جنت دوں اوراسے دوزخ سے بچائوں؟ تواس کامطلب یہ ہواکہ اگرمیں جنت ودوزخ کو پیدانہ فرماتاتو وہ میری عبادت ہی نہ کرتے ۔
عابدوہ جو اللہ تعالی کو معبودجان کر صرف اسی کی رضاطلب کرنے کے لئے عبادت کرے اوربس عبادت درجے میں عبودیت میں کم ہے اورعبودیت عبودۃ سے کم ہے کیونکہ جو اپنے مالک پر روح کو قربان کردے اس کانام عبودۃ ہے اورعبادت یہ ہے کہ وہ اپنے مالک کی مرضی میں نفس کو قربان کردے ۔ اس لحاظ سے عبادت کادرجہ عبودۃ سے کم ہوا۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (ا:۱۴۴)