حضورتاجدارختم نبوتﷺکوگستاخ نہ دیکھ سکتے تھے
{وَ اِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ جَعَلْنَا بَیْنَکَ وَ بَیْنَ الَّذِیْنَ لَایُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ حِجَابًا مَّسْتُوْرًا }(۴۵)
ترجمہ کنزالایمان:اور اے محبوب تم نے قرآن پڑھا ہم نے تم پر اور ان میں کہ آخرت پر ایمان نہیں لاتے ایک چھپا ہوا پردہ کردیا۔
ترجمہ ضیاء الایمان :اور اے حبیب کریمﷺ!جب آپﷺ نے قرآن پڑھا تو ہم نے آپ ﷺاور آخرت پر ایمان نہ لانے والوں کے درمیان ایک پوشیدہ پردہ کردیا۔
شان نزول
عَنْ أَسْمَاء َ بِنْتِ أَبِی بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ تَعَالَی عَنْہُمَا قَالَتْ:لَمَّا نَزَلَتْ سُورَۃُ تَبَّتْ یَدا أَبِی لَہَبٍ أَقْبَلَتِ الْعَوْرَاء ُ أُمُّ جَمِیلِ بِنْتُ حَرْبٍ وَلَہَا وَلْوَلَۃٌ وَفِی یَدِہَا فِہْرٌ وَہِیَ تَقُولُ
مُذَمَّمًا عَصَیْنَا … وَأَمْرَہُ أَبَیْنَا وَدِینَہُ قَلَیْنَا
وَالنَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَاعِدٌ فِی الْمَسْجِدِ وَمَعَہُ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ، فَلَمَّا رَآہَا أَبُو بَکْرٍ قَالَ: یَا رَسُولَ اللَّہِ، لَقَدْ أَقْبَلَتْ وَأَنَا أَخَافُ أَنْ تَرَاکَ! قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:إِنَّہَا لَنْ تَرَانِی وَقَرَأَ قُرْآنًا فَاعْتَصَمَ بِہِ کَمَا قَالَ.قَرَأَوَإِذا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ جَعَلْنا بَیْنَکَ وَبَیْنَ الَّذِینَ لَا یُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَۃِ حِجاباً مَسْتُوراًفَوَقَفَتْ عَلَی أَبِی بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ وَلَمْ تَرَ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: یَا أَبَا بَکْرٍ، أُخْبِرْتُ أَنَّ صَاحِبَکَ ہَجَانِی! فَقَالَ: لَا وَرَبِّ ہَذَا الْبَیْتِ مَا ہَجَاکِ. قَالَ: فَوَلَّتْ وَہِیَ تَقُولُ: قَدْ عَلِمَتْ قُرَیْشُ أَنِّی ابْنَۃُ سَیِّدِہَا.
ترجمہ :حضرت سیدتنااسماء بنت ابی بکرصدیق رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ جب سورۃ تبت یداابی لہب نازل ہوئی توام جمیل جوکہ آنکھوں سے کانی تھی ، وہ بڑی جوش اورغصے میں تھی اوراس کے ہاتھ میں پتھرتھااوروہ کہہ رہی تھی :
ہم نے مذمم کی نافرمانی کی ، ہم نے اس کے حکم کاانکارکیااورہم نے اس کے دین کو ناپسندکیا۔
اوراس وقت حضورتاجدارختم نبوتﷺمسجد شریف میں تشریف فرماتھے اورآپﷺکے ساتھ حضرت سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ بھی تھے ، پس جب حضرت سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے اسے دیکھاتوحضورتاجدارختم نبوتﷺکی بارگاہ ختم نبوتﷺمیں عرض کی : یارسول اللہ ﷺ!وہ آرہی ہے اورمجھے خوف ہے کہ وہ آپﷺکو دیکھ لے گی ، توآپﷺنے فرمایا: بے شک وہ مجھے ہرگزنہیں دیکھ سکے گی اورآپﷺنے قرآن کریم کی تلاوت کی اوراس کے ساتھ محفوظ رہے جیسے آپﷺنے فرمایاتھا۔ اورآپﷺنے یہ آیت کریمہ {وَإِذا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ جَعَلْنا بَیْنَکَ وَبَیْنَ الَّذِینَ لَا یُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَۃِ حِجاباً مَسْتُوراً}تلاوت کی ، پس وہ حضرت سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آکررکی اور اس نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکو نہ دیکھااورکہنے لگی : اے ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ !مجھے خبردی گئی ہے کہ تیرے ساتھی نے میری ہجوکی توآپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نہیں ، اس گھر کے رب تعالی کی قسم !انہوں نے تیری کوئی ہجو نہیں کی ۔ آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وہ واپس مڑی تویہ کہہ رہی تھی : تحقیق قریش جانتے ہیں کہ میں ان کے سردارکی بیٹی ہوں ۔
(تفسیر مقاتل بن سلیمان:أبو الحسن مقاتل بن سلیمان بن بشیر الأزدی البلخی (۴:۹۱۶)
گستاخ عورت حضورتاجدارختم نبوتﷺکونہ دیکھ سکی
وَقَالَ سَعِیدُ بْنُ جُبَیْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ:لَمَّا نَزَلَتْ تَبَّتْ یَدا أَبِی لَہَبٍ وَتَبَّ جَاء َتِ امْرَأَۃُ أَبِی لَہَبٍ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمَعَہُ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ، فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ:لَوْ تَنَحَّیْتَ عَنْہَا لِئَلَّا تُسْمِعَکَ مَا یُؤْذِیکَ، فَإِنَّہَا امْرَأَۃٌ بَذِیَّۃٌ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:إِنَّہُ سَیُحَالُ بَیْنِی وَبَیْنَہَافَلَمْ تَرَہُ فَقَالَتْ لِأَبِی بَکْرٍ:یَا أَبَا بَکْرٍ،ہَجَانَا صَاحِبُکَ!فَقَالَ:وَاللَّہِ ما ینطق بالشعر ولا یقولہ فقالت:وإنک لَمُصَدِّقَۃٌ، فَانْدَفَعَتْ رَاجِعَۃً فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ:یَا رَسُولَ اللَّہِ، أَمَا رَأَتْکَ؟ قَالَ:لَامَا زَالَ مَلَکٌ بَیْنِی وَبَیْنَہَا یَسْتُرُنِی حَتَّی ذَہَبَتْ۔
ترجمہ :حضرت سیدناسعید بن جبیررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب یہ سورت {تَبَّتْ یَدا أَبِی لَہَبٍ وَتَب}نازل ہوئی توابولہب کی بیوی ام جمیل حضورتاجدارختم نبوتﷺکی طرف آئی تواس وقت حضرت سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکی خدمت اقدس میں حاضرتھے ۔ حضرت سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کی : یارسول اللہ ﷺ!کاش کہ آپﷺاس سے دورہٹ جائیںکہ کہیں یہ آپﷺکی گستاخی ہی نہ کردے جس سے آپﷺکوکوئی تکلیف پہنچے، کیونکہ یہ فحش بکواس کرنے والی عورت ہے ۔ توحضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا: بلاشبہ میرے درمیان اوراس کے درمیان ایک پردہ حائل کردیاجائے گا، پس وہ آپﷺکونہ دیکھ سکی اوراس نے حضر ت سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ سے پوچھا: اے ابوبکر!تیرے ساتھی نے میر ی ہجوکی ہے !توآپ نے فرمایاکہ خداتعالی کی قسم !نہ وہ شعرلکھتے ہیں اورنہ وہ شعرکہتے ہیں تواس نے کہا: بلاشبہ آپ ان کی تصدیق کرتے ہیں ، پھروہ وہیں سے واپس لوٹ گئی توحضرت سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کی : یارسول اللہ ﷺ!کیااس نے آپﷺکو نہیں دیکھا؟ آپﷺنے فرمایا: نہیں ۔ میرے اوراس کے درمیان حائل ہوکرفرشتے نے مجھے مسلسل ڈھانپے رکھایہاں تک کہ وہ دفع ہوگئی ۔
(اللباب فی علوم الکتاب:أبو حفص سراج الدین الحنبلی الدمشقی النعمانی (۲۰:۵۵۱)
حضورتاجدارختم نبوتﷺکوگستاخ نہ دیکھ سکتے تھے
قَالَہُ الزَّجَّاجُ وَغَیْرُہُ وَقِیلَ:نَزَلَتْ فِی قَوْمٍ کَانُوا یُؤْذُونَ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا قَرَأَ الْقُرْآنَ، وَہُمْ أَبُو جَہْلٍ وَأَبُو سُفْیَانَ وَالنَّضْرُ بْنُ الْحَارِثِ وَأُمُّ جَمِیلٍ أَمْرَأَۃُ أَبِی لَہَبٍ وَحُوَیْطِبٌ، فَحَجَبَ اللَّہُ سُبْحَانَہُ وَتَعَالَی رَسُولَہُ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ أَبْصَارِہِمْ عِنْدَ قِرَاء َۃِ الْقُرْآنِ، وَکَانُوا یَمُرُّونَ بِہِ وَلَا یَرَوْنَہُ۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یہ بھی بیان کیاگیاہے کہ یہ آیت کریمہ ان گستاخوں کے بارے میں نازل ہوئی جو حضورتاجدارختم نبوتﷺکوتکالیف پہنچاتے تھے ، جب آپﷺقرآن کریم کی تلاوت کیاکرتے تھے ،ابوجہل ، ابولہب ، ابوسفیان ، نضربن حارث اورابولہب کی بیوی ام جمیل اورحویطب تھے ، پس اللہ تعالی نے اپنے حبیب کریم ﷺکو قرآن کریم پڑھنے کے وقت ان کی آنکھوں سے اوجھل کردیا۔ وہ آپﷺکے پاس سے گزرتے تھے اورآپﷺکودیکھ نہ سکتے تھے۔ یہ امام الزجاج رحمہ اللہ تعالی کاقول ہے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۱۰:۲۶۹)
حضورتاجدارختم نبوتﷺتین آیات کریمہ کی تلاوت کرتے اورمشرکین سے اوجھل ہوجاتے تھے
وَقَالَ کَعْبٌ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فِی ہَذِہِ الْآیَۃِ:کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَسْتَتِرُ مِنَ الْمُشْرِکِینَ بِثَلَاثِ آیَاتٍ:الْآیَۃِ الَّتِی فِی الْکَہْفِ إِنَّا جَعَلْنا عَلی قُلُوبِہِمْ أَکِنَّۃً أَنْ یَفْقَہُوہُ وَفِی آذانِہِمْ وَقْراً ، والآیۃ التی فی النحل أُولئِکَ الَّذِینَ طَبَعَ اللَّہُ عَلی قُلُوبِہِمْ وَسَمْعِہِمْ وَأَبْصارِہِمْ ، وَالْآیَۃِ الَّتِی فِی الْجَاثِیَۃِ أَفَرَأَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلہَہُ ہَواہُ وَأَضَلَّہُ اللَّہُ عَلی عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلی سَمْعِہِ وَقَلْبِہِ وَجَعَلَ عَلی بَصَرِہِ غِشاوَۃً الْآیَۃَ فَکَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا قَرَّأَہُنَّ یَسْتَتِرُ مِنَ الْمُشْرِکِینَ قَالَ کَعْبٌ رَضِیَ اللَّہُ تَعَالَی عَنْہُ: فَحَدَّثْتُ بِہِنَّ رَجُلًا مِنْ أَہْلِ الشَّامِ، فَأَتَی أَرْضَ الرُّومِ فَأَقَامَ بِہَا زَمَانًا، ثُمَّ خَرَجَ ہَارِبًا فَخَرَجُوا فِی طَلَبِہِ فَقَرَأَ بِہِنَّ فَصَارُوا یَکُونُونَ مَعَہُ عَلَی طَرِیقِہِ وَلَا یُبْصِرُونَہُ.
ترجمہ :حضرت سیدناکعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺتین آیات کریمہ کی وجہ سے مشرکین سے اوجھل ہوجایاکرتے تھے :
ایک آیت کریمہ وہ ہے جوسورۃ الانعام میں ہے { إِنَّا جَعَلْنا عَلی قُلُوبِہِمْ أَکِنَّۃً أَنْ یَفْقَہُوہُ وَفِی آذانِہِمْ وَقْراً }
اوردوسری آیت کریمہ وہ جو سورۃ النحل میں ہے { أُولئِکَ الَّذِینَ طَبَعَ اللَّہُ عَلی قُلُوبِہِمْ وَسَمْعِہِمْ وَأَبْصارِہِمْ }
تیسری آیت کریمہ سورۃ جاثیہ میں ہے { أَفَرَأَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلہَہُ ہَواہُ وَأَضَلَّہُ اللَّہُ عَلی عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلی سَمْعِہِ وَقَلْبِہِ وَجَعَلَ عَلی بَصَرِہِ غِشاوَۃً }
حضورتاجدارختم نبوتﷺجب یہ آیات کریمہ تلاوت فرمالیاکرتے تھے تومشرکین سے اوجھل ہوجایاکرتے تھے ۔
حضرت سیدناکعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ان آیات کریمہ کے بارے میں اہل شام میں سے ایک شخص کو بتایا، پس وہ روم آگیااوروہاں طویل عرصہ تک قیام پذیررہا، پھروہ وہاں سے بھاگ نکلاتووہ لوگ اس کی تلاش میں نکلے تواس نے یہی آیات کریمہ تلاوت کرلیں تووہ اس طرح ہوگئے کہ راستہ میں اس کے ساتھ ہونے کے باوجود اس کودیکھ نہ سکتے تھے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۱۰:۲۶۹)
کوئی بھی کافرحضورتاجدارختم نبوتﷺکونہیں دیکھ سکا
نقل ان السلطان محمدالغازی رحمہ اللہ تعالی جاء من غزنۃ الی مکان الشیخ ابی الحسن رحمہ اللہ تعالی زائراًلہ ، ونزل خارج القریۃ ، وبعث الیہ شخصاًوامرہ ان یقول للشیخ ان السلطان قطع منازل وجاء الیک ، فعلیک ان تاتی الی خیمۃ من بیتک وان لم یقبل تقرء علیہ ہذہ الآیۃ {یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُم}(سورۃ النساء : ۵۹)فلمااطلع علی المقصود ، تبرم عن الذہاب الیہ واعتذرفقرء علیہ الرجل الآیۃ ، قال الشیخ رحمہ اللہ تعالی قداستغرقت {اَطِیْعُوا اللّٰہ}بحیث مااتفرغ الی{وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْل}وحصل منہ الخجالات فکیف التفت الی {وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُم}فرجع الرجل ، واخبرالسلطان بماسمع ، فرق قلب السلطان وقال : قوموا نذہب الیہ فانہ لیس مماظنناہ ، فالبس ثیابہ وزیہ مملوکہ الذی یسمی ایاساًوقدمہ وھویمشی خلفہ علی ہئیۃ الغلمان ومعہ جماعۃ من الغلمان العبیدوالجواری فدخل ایاس علی ہئیۃ السلطان وسلم فرد الشیخ الجواب ولم یقم والاالتفت الی ایاس ،بل نظرالی السلطان وعرفہ بنورہ الفراسۃ وامسک یدہ واجلسہ فی جنبہ ، ثم محمود التمس منہ شئیاًمن کلمات ابی یزید، قال الشیخ ابوالحسن رحمہ اللہ تعالی مرھذہ الجواری لیخرجن من المجلس فانہن اجنبیات قال : قال ابویزیدرحمہ اللہ تعالی من رانی فقدنجاعن رقم الشقاوۃ ، قال محمودیلوح عن ھذاالکلام ان ابایزیدیکون افضل من النبی ﷺلان ابالہب واباجہل وغیرہمامن الکفاررائواالنبی ﷺولم یامنوا من الشقاوۃ ؟ فقال الشیخ رحمہ اللہ تعالی تتخط الادب مارای النبی ﷺغیراصحابہ رضی اللہ عنہم والکفارمارائووان کانوایبصرونہ والدلیل علیہ قولہ تعالی {وَ تَرٰیہُمْ یَنْظُرُوْنَ اِلَیْکَ وَ ہُمْ لَا یُبْصِرُوْنَ}
ترجمہ :حضرت سیدنا شیخ ابو الحسن خرقانی رحمہ اللہ تعالی بہت بڑے ولی گزرے ہیں۔ آپ رحمہ اللہ تعالی سلطان محمود غزنوی رحمہ اللہ تعالی کے ہم عصر تھے۔ ان کی شہرت چہار دانگ عالم میں پھیلی تو سلطان محمود غزنوی رحمہ اللہ تعالی کو ان کی زیارت کا شوق پیدا ہوا۔ چنانچہ وہ خدم و حشم کے ساتھ غزنی سے خرقان پہنچے اور ایک قاصد کے ہاتھ شیخ کو پیغام بھیجا کہ میں آپ کی زیارت کے لئے غزنی سے یہاں آیا ہوں۔ آپ خانقاہ سے میرے خیمہ تک قدم رنجہ فرمائیں۔
اس کے ساتھ ہی سلطان نے قاصد کو ہدایت کی اگر شیخ یہاں آنے سے انکار کریں تو ان کو قرآن حکیم کی یہ آیت پڑھ کر سنا دینا۔
ترجمہ:اطاعت کرو خدا کی اور اس کے رسول کریمﷺ کی اور حاکم کی جو تم میں سے ہے۔
قاصد نے شیخ کی خدمت میں حاضر ہو کر سلطان کا پیغام دیا تو آپ رحمہ اللہ تعالی نے فرمایا مجھے معذور رکھو۔ اس نے آیت مذکورہ پڑھی تو فرمایا {در اطیعوا اللہ خپاں مستغرق ام کہ اطیعوا الرسول خجالت ہا دارم تابہ الوالا مرچہ رسف} یعنی ابھی میں خدا تعالی کی اطاعت میں ایسا مستغرق ہوں کہ اطاعت رسولﷺ کے معاملے میں نادم اور شرم سار ہوں۔ پھر اولی الامر منکم (حاکم)کی جانب کیوں کر متوجہ ہوسکتا ہوں؟قاصد نے واپس جا کر سلطان کو شیخ کا جواب سنایا تو اس پر رقت طاری ہوگئی اور وہ حضرت سیدنا شیخ ابو الحسن رحمہ اللہ تعالی کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے درخواست کی کہ حضرت سیدنا بایزید بسطامی رحمہ اللہ تعالی کے حالات و اقوال سنایئے۔
حضرت سیدناشیخ ابوالحسن رحمہ اللہ تعالی نے فرمایا:حضرت سیدنابایزیدرحمہ اللہ تعالی فرماتے تھے، جس نے مجھے دیکھا بدبختی اس سے دور ہوگئی (یعنی وہ کفرو شرک سے محفوظ ہوگیا)
سلطان محمودرحمہ اللہ تعالی نے کہا: حضورتاجدارختم نبوتﷺ کو ابو لہب ابوجہل اور کتنے ہی دوسرے منکروں نے دیکھا، لیکن یہ بدبخت کے بدبخت (یعنی کافر)ہی رہے، کیا بایزید کا درجہ (خدا کی پناہ)حضورتاجدارختم نبوتﷺ سے بھی بلند ہے؟
یہ سن کر شیخ کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا اور آپ نے جلال کے عالم میں فرمایا:محمود حد ادب سے قدم باہر نہ رکھ، حضورتاجدارختم نبوتﷺ کو آپ ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہی نے دیکھا تھا، ابو لہب، ابوجہل اور دوسرے کفار نے فی الحقیقت حضورتاجدارختم نبوتﷺ کو دیکھا ہی نہیں، کیا تو نے قرآن کریم میں یہ آیت نہیں پڑھی:
{وَ تَرٰیہُمْ یَنْظُرُوْنَ اِلَیْکَ وَ ہُمْ لَا یُبْصِرُوْنَ}
ترجمہ:اے رسول کریمﷺآپ ان کو دیکھتے ہیں، جو آپﷺکی طرف نظر کرتے ہیں حالانکہ وہ آپﷺ کو نہیں دیکھتے۔
سلطان محمود غزنوی شیخ خرقانی رحمہ اللہ تعالی کے ارشادات سے بہت متاثر ہوئے۔
(تذکرۃ لاولیاء لشیخ فریدالدین العطار:۸۸۵)
امام حسن بصری رضی اللہ عنہ کودیکھ کرحجاج بن یوسف کی پولیس کااندھاہونا
نقلست کہ یکروز کسان حجاج ظالم حسن بصری را رضی اللہ عنہ طلب کردند حسن در صومعہ حبیب عجمی قدس سرہ پنہان شد حبیب را کفتند امروز حسن را دیدی کفت دیدم کفتند کجاست کفت درین صومعہ شد در صومعہ رفتند چندانکہ طلب کردند حسن را نیافتند چنانکہ حسن کفت ہفت بار دست بر من نہادند ومرا ندیدند وبیرون آمدند وکفتند ای حبیب آنچہـ حجاج با شما کند سزای شماست تا چرا دروغ میکویید حبیب کفت او در پیش من درین جا شد اگر شما نمی دانید ونمی بینید مرا چہـ جرم عوانان دیکر بارہ طلب کردند نیافتند حسن از صومعہ بیرون آمد کفت ای حبیب حق أستاذی نکاہ داشتی ومرا بعوانان غمز میکردی کفت ای أستاذ برو کہ براست کفتن خلاص یافتی کہ اگر دروغ میکفتمی ہر دو کرفتار خواستیم شدن۔(قال الحافظ) بصدق کوش کہ خورشید زاید از نفست کہ از دروغ سیہ روی کشت صبح نخست حسن کفت چہـ کردی کہ مرا ندیدند کفت نہ بار آیۃ الکرسی ونہ بار آمن الرسول ونہ بار قل ہو اللہ أحد بخواندم وباز کفتم کہ خدایا حسن را بتو سپردم کہ نکاہش داری وہکذا یحفظ اللہ أولیاء ہ الصادقین وینصرہم ویترک أعداء ہ الکافرین ویخذلہم۔
ترجمہ : ایک مرتبہ حضرت سیدناامام حسن بصری رضی اللہ عنہ حجاج بن یوسف کے سپاہیوں سے چھپتے ہوئے حضرت سیدنا حبیب عجمی رضی اللہ عنہ کی عبادت گاہ میں پہنچ گئے۔جب سپاہیوں نے حضرت سیدنا حبیب عجمی رضی اللہ عنہ سے معلومات لیں تو اُنہوں نے صاف صاف بتا دیا کہ حسن عبادت گاہ کے اندر ہیں، لیکن پورے عبادت خانے کی تلاشی کے باوجود بھی حضرت سیدناامام حسن بصری رضی اللہ عنہ کا سراغ نہ مل سکا۔حضرت سیدناامام حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سات مرتبہ سپاہیوں نے میرے اوپر ہاتھ رکھالیکن مجھے نہ دیکھ سکے۔ پھر سپاہیوں نے حضرت حبیب رضی اللہ عنہ سے کہا کہ حجاج تم کو جھوٹ بولنے کی سزا دے گا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ امام حسن بصری رضی اللہ عنہ میرے سامنے عبادت گاہ میں داخل ہوئے تھے اگر وہ تمہیں نظر نہیں آئے تو اِس میں میرا کیا قصور ہے۔ چنانچہ دوبارہ پھر تلاشی لی گئی لیکن اُن کو نہ پا کر سپاہی واپس چلے گئے۔ حضرت سیدناامام حسن بصری رضی اللہ عنہ نے باہر نکل کر حضرت سیدنا حبیب عجمی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ رضی اللہ عنہ نے تو اُستادی کے حق کا بھی کچھ پاس نہیں کیا اور صاف صاف اُنہیں میرا پتہ بتا دیا۔ انہوں نے جواب دیا کہ چونکہ میں نے سچ سے کام لیا اس لئے آپ محفوظ رہے اور اگر میں جھوٹ سے کام لیتا تو پھر یقینا ہم دونوں گرفتار کر لئے جاتے۔ یہ سن کر حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ آخر آپ نے کیا پڑھ دیا تھا جس کی وجہ سے میں سپاہیوں کو نظر نہ آ سکا۔ آپ نے فرمایا کہ دو مرتبہ آیت الکرسی ، دو مرتبہ قل ھواللہ احد اور دو مرتبہ آمن الرسول پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے عرض کی کہ حسن کو ترے حوالے کیا تو ہی اُن کی حفاظت کرنا۔ اللہ نے تمہاری حفاظت کی۔پانچ آدمی اللہ تعالی کی حفاظت میں ہیںحضرت سیدنامعاذبن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میںنے حضورتاجدارختم نبوتﷺکو فرماتے ہوئے سُناہے جو آدمی اللہ تعالی کے راستے میں نکلتا ہے ، جوکسی بیمار کی عیادت کرنے جاتا ہے ،جو صبح یا شام کو مسجد میں جاتا ہے ،جو مدد کرنے کے لیے امام کے پاس جاتا ہے اور جو گھر بیٹھ جاتا ہے، کسی کی بُرائی یا غیبت نہیں کرتا،یہ سب اللہ کی حفاظت میں ہوتے ہیں۔
(تذکرۃ لاولیاء لشیخ فریدالدین العطار:۸۵)
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۹:۲۷)
ساتھ ساتھ چلتے رہے مگردشمن دیکھ نہ سکے
قَالَ الکلبیُّ وَہَذَا الَّذِی یَرْوُونَہُ عَنْ کَعْبٍ حَدَّثْتُ بِہِ رَجُلًا مِنْ أَہْلِ الرِّیِّ فَأُسِرَ بِالدَّیْلَمِ، فَمَکَثَ زَمَانًا ثُمَّ خَرَجَ ہَارِبًا فَخَرَجُوا فِی طَلَبِہِ فَقَرَأَ بِہِنَّ حَتَّی جَعَلَتْ ثِیَابُہُنَّ لَتَلْمِسُ ثِیَابَہُ فَمَا یبصرونہ.
ترجمہ :حضرت سیدناثعلبی رحمہ اللہ تعالی نے بیان کیاکہ وہی جسے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اس کے بارے میں اہل الری میں سے ایک آدمی کو بتایااوروہ دیلم میں قید ہوگیا، کافی عرصہ وہاں ٹھہرارہا، پھروہاں سے بھاگ نکلاتووہ اس کی تلاش میں نکلے تواس نے یہ آیات کریمہ تلاوت کرلیں ، یہاں تک کہ اس کے کپڑے ان کے کپڑوں کے ساتھ مس ہونے لگے لیکن وہ اسے دیکھ نہ سکتے تھے ۔
(الکشف والبیان عن تفسیر القرآن:أحمد بن محمد بن إبراہیم الثعلبی، أبو إسحاق (۶:۱۰۴)
ہجرت کی رات کفارکااندھاہونا
قلت:ویزاد إلی ہذہ الآیۃ أَوَّلُ سُورَۃِ یس إِلَی قَوْلِہِ فَہُمْ لَا یُبْصِرُونَ فَإِنَّ فِی السِّیرَۃِ فِی ہِجْرَۃِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمُقَامِ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فِی فِرَاشِہِ قَالَ:وَخَرَجَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَخَذَ حَفْنَۃً مِنْ تُرَابٍ فِی یَدِہِ، وَأَخَذَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَی أَبْصَارِہِمْ عَنْہُ فَلَا یَرَوْنَہُ، فَجَعَلَ ینثر ذلک التراب علی رؤوسہم وَہُوَ یَتْلُو ہَذِہِ الْآیَاتِ مِنْ یس:یس وَالْقُرْآنِ الْحَکِیمِ. إِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِینَ. عَلی صِراطٍ مُسْتَقِیمٍ تَنْزِیلَ الْعَزِیزِ الرَّحِیمِ إِلَی قَوْلِہِ وَجَعَلْنا مِنْ بَیْنِ أَیْدِیہِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِہِمْ سَدًّا فَأَغْشَیْناہُمْ فَہُمْ لَا یُبْصِرُونَ حَتَّی فَرَغَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ ہَذِہِ الْآیَاتِ، وَلَمْ یَبْقَ مِنْہُمْ رَجُلٌ إِلَّا وَقَدْ وَضَعَ عَلَی رَأْسِہِ تُرَابًا، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَی حَیْثُ أَرَادَ أَنْ یَذْہَبَ.
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میں کہتاہوں کہ ان آیات کریمہ کے ساتھ سورۃ یسن کی ابتداء سے لے کر{فہُمْ لَا یُبْصِرُونَ}تک کااضافہ کرتے ہیں کیونکہ اس میں حضورتاجدارختم نبوتﷺکی ہجرت فرمانے اورحضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ کاآپﷺکے بسترمبارک پرآرام فرمانے کاتذکرہ مبارک موجودہے ، اس میں ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺاپنے کاشانہ اقدس سے باہرتشریف لائے اورایک مشت مٹی اپنے مبارک ہاتھ میں اٹھائی اوراللہ تعالی نے ان کی آنکھوں پرآپﷺکودیکھنے سے پردہ ڈال دیا، پس وہ آپﷺکونہ دیکھ سکے اورآپﷺنے وہ مٹی ان کے سروں پرپھینک دی اورآپﷺسورۃ یسن کی یہ آیت کریمہ تلاوت فرماتے رہے ۔
{یس وَالْقُرْآنِ الْحَکِیمِ إِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِینَ عَلی صِراطٍ مُسْتَقِیمٍ تَنْزِیلَ الْعَزِیزِ الرَّحِیمِ إِلَی قَوْلِہِ وَجَعَلْنا مِنْ بَیْنِ أَیْدِیہِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِہِمْ سَدًّا فَأَغْشَیْناہُمْ فَہُمْ لَا یُبْصِرُونَ}
یہاں تک کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺان آیات کریمہ کو پڑھ کرفارغ ہوئے اوران میں سے کوئی بھی آدمی باقی نہ رہاجس کے سرپرمٹی نہ پڑی ہو، پھرآپﷺاس طرف تشریف لے گئے جہاں جانے کاارادہ رکھتے تھے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۱۰:۲۶۹)
امام القرطبی رحمہ اللہ تعالی کاذاتی تجربہ
قُلْتُ: وَلَقَدِ اتَّفَقَ لِی بِبِلَادِنَا الْأَنْدَلُسِ بِحِصْنِ مَنْثُورٍ مِنْ أَعْمَالِ قُرْطُبَۃَ مِثْلُ ہَذَا. وَذَلِکَ أَنِّی ہَرَبْتُ أَمَامَ الْعَدُوِّ وَانْحَزْتُ إِلَی نَاحِیَۃٍ عَنْہُ، فَلَمْ أَلْبَثْ أَنْ خَرَجَ فِی طَلَبِی فَارِسَانِ وَأَنَا فِی فَضَاء ٍ مِنَ الْأَرْضِ قَاعِدٌ لَیْسَ یَسْتُرُنِی عَنْہُمَا شی، وَأَنَا أَقْرَأُ أَوَّلَ سُورَۃِ یس وَغَیْرَ ذَلِکَ مِنَ الْقُرْآنِ، فَعَبَرَا عَلَیَّ ثُمَّ رَجَعَا مِنْ حَیْثُ جَاء َا وَأَحَدُہُمَا یَقُولُ لِلْآخَرِ:ہَذَا دَیْبَلَۃٌ ،یَعْنُونَ شَیْطَانًاوَأَعْمَی اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ أَبْصَارَہُمْ فَلَمْ یَرَوْنِی، وَالْحَمْدُ لِلَّہِ حَمْدًا کَثِیرًا عَلَی ذلک.
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میں کہتاہوں کہ ہمارے علاقے اندلس میں اعمال قرطبہ میں حسن منثورکے ساتھ اس طرح کاواقعہ مجھے پیش آیا، وہ یہ کہ میں دشمن کے سامنے سے بھاگ گیااورمیں اس سے ایک طرف پیچھے ہٹ گیا، پس ابھی زیادہ وقت نہیں گزراتھاکہ دوگھڑسوارمیری تلاش میں نکل پڑے اورمیں زمین کی کھلی فضامیں بیٹھاہواتھااورکوئی چیز مجھے ان سے چھپانے اورڈھانپنے والی نہ تھی اورمیں نے سورۃ یسن شروع سے اورعلاوہ ازیں قرآن کریم کی آیات کریمہ تلاوت کرنے لگاتووہ دونوں مجھ سے آگے گزرگئے ، پھراسی جگہ سے واپس لوٹے توان میں سے ایک دوسرے کوکہہ رہاتھاکہ یعنی یہ شیطان جن ہے اوراللہ تعالی نے ان کی آنکھوں کو اندھاکردیااوروہ مجھے نہ دیکھ سکے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۱۰:۲۶۹)
قیامت کے دن ہرشخص کو اس کے رہنماکے ساتھ پکاراجائے گا
{یَوْمَ نَدْعُوْا کُلَّ اُنَاسٍ بِاِمَامِہِمْ فَمَنْ اُوْتِیَ کِتٰبَہ بِیَمِیْنِہٖ فَاُولٰٓئِکَ یَقْرَء ُوْنَ کِتٰبَہُمْ وَ لَا یُظْلَمُوْنَ فَتِیْلًا }(۷۱)
ترجمہ کنزالایمان:جس دن ہم ہر جماعت کو اس کے امام کے ساتھ بلائیں گے تو جو اپنا نامہ داہنے ہاتھ میں دیا گیا یہ لوگ اپنا نامہ پڑھیں گے اور تاگے بھر ان کا حق نہ دبایا جائے گا۔
ترجمہ ضیا ء الایمان: یاد کروجس دن ہم ہر جماعت کو اس کے امام کے ساتھ بلائیں گے تو جسے اس کا نامہ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو وہ لوگ اپنا نامہ اعمال پڑھیں گے اور ان پر ایک دھاگے کے برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا۔
پہلاقول
إِمَامُہُمْ نَبِیُّہُمْ رُوِیَ ذَلِکَ مَرْفُوعًا عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَیَکُونُ الْمَعْنَی أَنَّہُ یُنَادَی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَا أَمَۃَ إِبْرَاہِیمَ یَا أَمَۃَ مُوسَی یَا أَمَۃَ عِیسَی یَا أُمَّۃَ مُحَمَّدٍ فَیَقُومُ أَہْلُ الْحَقِّ الَّذِینَ اتَّبَعُوا الْأَنْبِیَاء َ فَیَأْخُذُونَ کُتُبَہُمْ بِأَیْمَانِہِمْ ثُمَّ یُنَادَی یَا أَتْبَاعَ فِرْعَوْنَ یَا أَتْبَاعَ نَمْرُودَ یَا أَتْبَاعَ فُلَانٍ وَفُلَانٍ مِنْ رُؤَسَاء ِ الضَّلَالِ وَأَکَابِرِ الْکُفْرِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناامام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ حضرت سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا: ہرامت کو ان کے نبی علیہ السلام کے ساتھ اٹھایاجائے گا۔
توا س صورت میں معنی یہ بنے گاکہ قیامت کے دن لوگوں کو یوں بلایاجائے گا: اے امت ابراہیم !اے امت موسی !اے امت عیسی !اے امت محمدﷺ!تواہل حق جنہوں نے اتباع کی وہ حاضرہوں گے اوران کے اعمال دائیں ہاتھ میں ہوں گے ، غیب سے آواز دی جائے گی۔ اے متبعین فرعون !اے متبعین نمرود !اے فلاں فلاں!گمراہ لیڈرو!اورکفارلیڈرو!۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۲۱:۳۷۵)
آج جنہوںنے حضورتاجدارختم نبوتﷺکے ساتھ غداری کرکے کفارکی پیروی کرنے کو ترجیح دی اورخود کومسلمان کہلواتے ہوئے شرم محسوس کرتے ہیں ، اہل اسلام کے دشمن اوراہل کفرکے خیرخواہ ہیں، آج جن کو حضورتاجدارختم نبوتﷺکالایاہوادین متین اچھانہیں لگتاکل کس منہ کے ساتھ وہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکی امت میں کھڑے ہوں گے ۔
وہ لوگ جوسیاست کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اوراپنے لیڈروں کو ہی حرف آخرجانتے ہیں چاہے وہ قرآن کریم کے خلاف ہی بات کیوں نہ کردیں ، چاہے وہ قرآن کریم اورحضورتاجدارختم نبوتﷺکی سنت شریفہ کامذاق ہی کیوں نہ اڑائیں انہوںنے ہرہرحال میں ان کاہی دفاع کرناہوتاہے ۔ یہ سیاسی ورکراوران کے لیڈرجنہوں نے قرآن کریم اورسنت شریفہ کو چھوڑکرکفرکی اتباع کی یہ بھی قیامت کے دن فرعون اورنمرودکے ساتھ کھڑے ہوں گے ۔
دوسراقول
وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَالْحَسَنُ وَقَتَادَۃُ وَالضَّحَّاکُ:بِإِمامِہِمْ أَیْ بِکِتَابِہِمْ، أَیْ بِکِتَابِ کُلِّ إِنْسَانٍ مِنْہُمُ الَّذِی فِیہِ عَمَلُہُ، دَلِیلُہُ فَمَنْ أُوتِیَ کِتابَہُ بِیَمِینِہِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما، امام حسن بصری رضی اللہ عنہ ، حضرت سیدناقتادہ وضحاک رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ {بِإِمامِہِمْ}سے مراد {بِکِتَابِہِمْ}ہے یعنی ان میں سے ہرانسان کو اس کتاب کے ساتھ بلایاجائے گاجس میں اس کے عمل ہوں گے اوراس کی دلیل {فَمَنْ أُوتِیَ کِتابَہُ بِیَمِینِہ}ہے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۱۰:۲۹۶)
تیسراقول
وَقَالَ ابْنُ زَیْدٍ:بِالْکِتَابِ الْمُنَزَّلِ علیہم أی یدعی کل إنسان بِکِتَابِہِ الَّذِی کَانَ یَتْلُوہُ، فَیُدْعَی أَہْلُ التَّوْرَاۃِ بالتوراۃ،واہل القرآن بالقرآن، فیقال:یأہل القرآن، ماذا عملتم، ہل امتثلتم أو مرأۃ ہَلِ اجْتَنَبْتُمْ نَوَاہِیَہُ! وَہَکَذَا۔
ترجمہ :امام ابن زید رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس سے مراد ان پرنازل کی گئی کتاب ہے یعنی ہرانسان کو اس کتاب کے ساتھ بلایاجائے گاجس کی وہ تلاوت کرتاتھا، پس اہل توراۃ کو توراۃ کے ساتھ اوراہل قرآن کوقرآن کریم کے ساتھ بلایاجائے گااورکہاجائے گا: اے اہل قرآن !تم نے کونسے عمل کئے ہیں ؟ کیاتم نے اس کے اوامرکی پیروی کی ؟ کیاتم نے اس کی نواہی سے اجتناب کیااوراسی طرح کے سوالات کئے جائیں گے۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۱۰:۲۹۶)
آج جن کو قرآن کریم کانظام ایک آنکھ نہیں بھاتااورکفرکے قانون کو ترجیح دیتے ہیں اورآج سکولوں ، کالجوں اوریونیورسٹیوںمیں انگریز کانصاب پڑھانے پرفخرمحسوس کرتے ہیں ، قرآن کریم کی آیات جوان کے نصابوں میں داخل تھیں ان کو نکال باہرکررہے ہیں توکل قیامت میں جب کہاجائے گاکہ اے اہل قرآن !توکیسے اہل قرآن کے ساتھ کھڑے ہوں گے ؟۔
چوتھاقول
وَرُوِیَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فی قولہ :یَوْمَ نَدْعُوا کُلَّ أُناسٍ بِإِمامِہِمْ فَقَالَ:کُلٌّ یُدْعَی بِإِمَامِ زَمَانِہِمْ وَکِتَابِ رَبِّہِمْ وَسُنَّۃِ نَبِیِّہِمْ فَیَقُولُ ہَاتُوا مُتَّبِعِی إِبْرَاہِیمَ ہَاتُوا مُتَّبِعِی مُوسَی ہَاتُوا مُتَّبِعِی عِیسَی ہَاتُوا مُتَّبِعِی مُحَمَّدٍعَلَیْہِمْ أَفْضَلُ الصَّلَوَاتِ وَالسَّلَامُ فَیَقُومُ أَہْلُ الْحَقِّ فَیَأْخُذُونَ کِتَابَہُمْ بِأَیْمَانِہِمْ، وَیَقُولُ:ہَاتُوا مُتَّبِعِی الشَّیْطَانِ ہَاتُوا مُتَّبِعِی رُؤَسَاء ِ الضَّلَالَۃِ إِمَامَ ہُدًی وَإِمَامُ ضَلَالَۃٍ۔
ترجمہ :حضورتاجدارختم نبوتﷺنے اللہ تعالی کے اس فرمان شریف {یوْمَ نَدْعُوا کُلَّ أُناسٍ بِإِمامِہِمْ}کے بارے میں فرمایاکہ ہرایک کو اپنے زمانے کے امام اوراپنے رب تعالی کی کتاب اوراپنے نبی علیہ السلام کی سنت کریمہ کے ساتھ بلایاجائے گا، پس اللہ تعالی فرمائے گا: اے ابراہیم علیہ السلام کی پیروی کرنے والو!آجائو، اے موسی علیہ السلام کی پیرو ی کرنے والوتم آجائو!اے عیسی علیہ السلام کی اتباع کرنے والوتم آجائو!اوراے میرے حبیب کریمﷺکی اتباع کرنے والوتم آجائو!پس اہل حق اٹھیں گے اوراپنانامہ اعمال اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑلیں گے اورپھروہ فرمائے گااے شیطان کی پیروی کرنے والوتم آجائو!اے ضلالت وگمراہی کے سرداروں اورلیڈروں کی پیروی کرنے والوتم آجائو!، اس حال میں کہ ہرایک کے لئے ہدایت کاامام بھی ہوگااورگمراہی کالیڈربھی ۔ اسی کے ساتھ اسے بلایاجائے گا۔
(غرائب التفسیر وعجائب التأویل:محمود بن حمزۃ بن نصر، أبو القاسم برہان الدین الکرمانی(۱:۶۳۶)
اب وہ لوگ غورکریں جو آج حضورتاجدارختم نبوتﷺکی سنت کریمہ کے منکرہیںاوروہ لبرل وسیکولر گمراہ پروفیسروماسٹرجواپنے کالجوں اوریونیورسٹیوں میں بیٹھ کرحضورتاجدارختم نبوتﷺکی سنت کریمہ کامذاق اڑاتے ہیں ان کفاروگمراہوں کاکیابنے گا؟ کیونکہ وہاں توبلایاہی حضورتاجدارختم نبوتﷺکی سنت کریمہ کے ساتھ جائے گااوریہ منکرہیں سنت کریمہ کے۔
پانچواں قول
وَقِیلَ: بِمَذَاہِبِہِمْ، فَیُدْعَوْنَ بِمَنْ کَانُوا یَأْتَمُّونَ بِہِ فِی الدُّنْیَا:یَا حَنَفِیُّ، یَا شَافِعِیُّ، یَا مُعْتَزِلِیُّ، یَا قَدَرِیُّ، وَنَحْوُہُ، فَیَتَّبِعُونَہُ فِی خَیْرٍ أَوْ شَرٍّ أَوْ عَلَی حَقٍّ أو باطل، وہذا معنی قولہ أَبِی عُبَیْدَۃَ۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یہ بھی بیان کیاگیاہے کہ اس سے مراد ان کے مذاہب فقہیہ ہیں ، پس انہیں ان کے ساتھ پکاراجائے گاجن کی وہ دنیامیں اقتداء کرتے تھے ، اے حنفی !اے شافعی ، اے معتزلی وقدری وغیرہ وغیرہ ۔اوراس کی اتباع کرتے ہوں خیرمیں یاشرمیں ، حق پریاباطل پراورحضرت سیدناابوعبیدہ کے قول کایہی معنی ہے ۔
(مراح لبید لکشف معنی القرآن المجید:محمد بن عمر نووی الجاوی البنتنی إقلیما، التناری بلدا (ا:۶۳۲)
قیامت کے دن اعمال نامہ ملنے کااندوہناک منظر
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی قَوْلِ اللَّہِ تَعَالَی یَوْمَ نَدْعُو کُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِہِمْ قَالَ یُدْعَی أَحَدُہُمْ فَیُعْطَی کِتَابَہُ بِیَمِینِہِ وَیُمَدُّ لَہُ فِی جِسْمِہِ سِتُّونَ ذِرَاعًا وَیُبَیَّضُ وَجْہُہُ وَیُجْعَلُ عَلَی رَأْسِہِ تَاجٌ مِنْ لُؤْلُؤٍ یَتَلَأْلَأُ فَیَنْطَلِقُ إِلَی أَصْحَابِہِ فَیَرَوْنَہُ مِنْ بَعِیدٍ فَیَقُولُونَ اللَّہُمَّ ائْتِنَا بِہَذَا وَبَارِکْ لَنَا فِی ہَذَا حَتَّی یَأْتِیَہُمْ فَیَقُولُ أَبْشِرُوا لِکُلِّ رَجُلٍ مِنْکُمْ مِثْلُ ہَذَا قَالَ وَأَمَّا الْکَافِرُ فَیُسَوَّدُ وَجْہُہُ وَیُمَدُّ لَہُ فِی جِسْمِہِ سِتُّونَ ذِرَاعًا عَلَی صُورَۃِ آدَمَ فَیُلْبَسُ تَاجًا فَیَرَاہُ أَصْحَابُہُ فَیَقُولُونَ نَعُوذُ بِاللَّہِ مِنْ شَرِّ ہَذَا اللَّہُمَّ لَا تَأْتِنَا بِہَذَا قَالَ فَیَأْتِیہِمْ فَیَقُولُونَ اللَّہُمَّ أَخْزِہِ فَیَقُولُ أَبْعَدَکُمْ اللَّہُ فَإِنَّ لِکُلِّ رَجُلٍ مِنْکُمْ مِثْلَ ہَذَا۔
ترجمہ :حضرت سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں حضورتاجدارختم نبوتﷺنے اللہ تعالیٰ کے اس قول {یَوْمَ نَدْعُو کُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِہِمْ } کے بارے میں فرمایا:ان میں سے جوکوئی (جنتی شخص)بلایا جائے گا اور اس کا نامہ اعمال اس کے داہنے ہاتھ میں دیاجائے گا اور اس کا جسم بڑھا کرساٹھ گزکا کردیا جائے گا، اس کا چہرہ چمکتا ہوا ہو گا اس کے سرپرموتیوں کا جھلملا تا ہوا تاج رکھاجائے گا، پھر وہ اپنے ساتھیوں کے پاس جائے گا، اسے لوگ دور سے دیکھ کر کہیں گے:اے اللہ !ایسی ہی نعمتوں سے ہمیں بھی نواز، اور ہمیں بھی ان میں برکت عطاکر، وہ ان کے پاس پہنچ کر کہے گا :تم سب خوش ہوجائو۔ ہرشخص کو ایسا ہی ملے گا، لیکن کافر کا معاملہ کیاہوگا؟کا فر کا چہرہ کالا کردیاجائے گا، اور اس کا جسم ساٹھ گزکا کردیاجائے گا جیساکہ آدم علیہ السلام کا تھا، اسے تاج پہنایا جائے گا۔ اس کے ساتھی اسے دیکھیں گے تو کہیں گے اس کے شر سے ہم اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔ اے اللہ!ہمیں ایسا تاج نہ دے، کہتے ہیں:پھر وہ ان لوگوں کے پاس آئے گا وہ لوگ کہیں گے:اے اللہ !اسے ذلیل کر ، وہ کہے گا:اللہ تعالی تمہیں ہم سے دورہی رکھے ، کیوں کہ تم میں سے ہر ایک کے لیے ایسا ہی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
(سنن الترمذی:محمد بن عیسی بن سَوْرۃ بن موسی بن الضحاک، الترمذی، أبو عیسی (۵:۱۵۳)
معارف ومسائل
اس سے وہ لوگ بھی عبرت پکڑیں جواس آیت کریمہ سے مراد اپنے اپنے پیروں کولیتے ہیں اورکہتے ہیں کہ ہم قیامت کے دن اپنے اپنے پیروں کے ساتھ کھڑے ہوں گے اورانہیں لوگوں نے جاہل اورگمراہ پیروں کی بیعت کررکھی ہوتی ہے اوراکثرپیرتووہ ہیں جوپکے رافضی ہیں اورجوبھی شخص ان کامریدہوتاہے بجائے اس کاعقیدہ مضبوط ہونے کے وہ رافضی ہوجاتاہے اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ بغض ونفرت کرناشروع کردیتاہے اوربعض لوگ اچھے بھلے نمازی ہوتے ہیں جاہل اورگمراہ پیروں کے بیعت ہونے کے بعد وہ نماز کوترک کردیتے ہیں اورکہتے ہیں کہ ہمارے حصہ کی نمازیں ہمارے مرشدہی اداکرتے ہیں ۔ اسی طرح ہم نے کئی لوگوں کو دیکھاہے جنہوںنے بمطابق شرع شریف مکمل داڑھی رکھی ہوئی تھی جیسے ہی کسی شیطان پیرکے ہاتھ چڑھے ساتھ ہی داڑھی صاف کروادی اوران لوگوں کودعوی ہے ہم اپنے پیروں کے ساتھ جنت میں جائیں گے ، مذکورہ کلام سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ ایسے تمام لوگ اپنے اپنے لیڈروں کے ساتھ دوزخ جائیں گے ۔