تفسیرسورہ بنی اسرائیل آیت ۳۷۔۳۸۔ وَ لَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا اِنَّکَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا

اللہ تعالی اورحضورتاجدارختم نبوتﷺکے دشمنو ں کے خلاف تکبرکااظہارکیاجائے تووہ تکبربھی اللہ تعالی کو محبوب ہے

{وَ لَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا اِنَّکَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا }(۳۷){کُلُّ ذٰلِکَ کَانَ سَیِّئُہ عِنْدَ رَبِّکَ مَکْرُوْہًا }(۳۸)

ترجمہ کنزالایمان:اور زمین میں اتراتا نہ چل بیشک تو ہر گز زمین نہ چیر ڈالے گا اور ہرگز بلندی میں پہاڑوں کو نہ پہنچے گا۔ یہ جو کچھ گزرا ان میں کی بُری بات تیرے رب کو ناپسند ہے۔
ترجمہ ضیاء الایمان: اور زمین میںاکڑتے ہوئے نہ چل، بیشک توہر گز نہ زمین کو پھاڑ دے گا اور نہ ہرگز بلندی میں پہاڑوں کو پہنچ جائے گا۔ ان تمام کاموںمیں سے جو برے کام ہیں وہ تمہارے رب تعالی کے نزدیک ناپسندیدہ ہیں۔

جب رب تعالی کے دشمنوں کے خلاف تکبرکیاجائے توعنداللہ محبوب ہے

وَقَدْ یَکُونُ التَّکَبُّرُ وَمَا فِی مَعْنَاہُ مَحْمُودًا،وَذَلِکَ عَلَی أَعْدَاء ِ اللَّہِ وَالظَّلَمَۃِ۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ تکبراوراس جیسی چیزیں جو اس کے ہم معنی ہیں وہ اچھی اورمحمود بھی ہوتی ہیں جب یہ اللہ تعالی کے دشمنوں اورظالموں کے خلاف ہوں۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکرشمس الدین القرطبی (۱۰:۲۶۱)

اللہ تعالی کے ہاں پسندیدہ تکبرکونساہے ؟

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَتِیکٍ، أَنَّ نَبِیَّ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ یَقُولُ:مِنَ الْغَیْرَۃِ مَا یُحِبُّ اللَّہُ، وَمِنْہَا مَا یُبْغِضُ اللَّہُ فَأَمَّا الَّتِی یُحِبُّہَا اللَّہُ فَالْغَیْرَۃُ فِی الرِّیبَۃِ،وَأَمَّا الْغَیْرَۃُ الَّتِی یُبْغِضُہَا اللَّہُ فَالْغَیْرَۃُ فِی غَیْرِ رِیبَۃٍ، وَإِنَّ مِنَ الْخُیَلَاء ِ مَا یُبْغِضُ اللَّہُ، وَمِنْہَا مَا یُحِبُّ اللَّہُ فَأَمَّا الْخُیَلَاء ُ الَّتِی یُحِبُّ اللَّہُ فَاخْتِیَالُ الرَّجُلِ نَفْسَہُ عِنْدَ الْقِتَالِ، وَاخْتِیَالُہُ عِنْدَ الصَّدَقَۃِ، وَأَمَّا الَّتِی یُبْغِضُ اللَّہُ فَاخْتِیَالُہُ فِی الْبَغْیِ قَالَ مُوسَی:وَالْفَخْرِ۔
ترجمہ :حضرت سیدنا جابر بن عتیک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺفرمایا کرتے تھے غیرت کے کچھ انداز اللہ تعالیٰ کو محبوب اور کچھ ناپسند ہیں ، اللہ تعالی کی پسندیدہ غیرت وہ ہے جو شبہ کی بنا پر ہو ، مگر ایسی غیرت جو بغیر کسی شبہ کے ہو ، اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے ۔ اسی طرح تکبر کا اظہار بھی کچھ ایسا ہے جو اللہ تعالی کو ناپسند ہے اور کچھ پسندیدہ ہے ۔ پسندیدہ تکبر کا اظہار وہ ہے جو قتال کے وقت مجاہد اپنے متعلق کرتا ہے یا صدقہ کرتے وقت ہو ، اور بڑائی کا اظہار جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے وہ ہے جو ظلم اور تعدی میں ہو ۔ حضرت سیدناامام موسیٰ بن اسمٰعیل رحمہ اللہ تعالی (یہ امام ابوداؤد رحمہ اللہ تعالی کے استاد ہیں )نے (ناپسندیدہ بڑائی کے اظہار میں)نسب میں فخر کا بھی ذکر کیا ۔
(سنن أبی داود:أبو داود سلیمان بن الأشعث بن إسحاق بن بشیر السَِّجِسْتانی (۳:۵۰)

سب سے بڑاظالم وہ ہے جوتکبرنہ کرے

وَعَنْ أَبِی حَنِیفَۃَ رَحِمَہُ اللَّہُ تَعَالَی أَظْلَمُ الظَّالِمِینَ مَنْ تَوَاضَعَ لِمَنْ لَا یَلْتَفِتُ إلَیْہِ وَقِیلَ قَدْ یَکُونُ التَّکَبُّرُ لِتَنْبِیہِ الْمُتَکَبِّرِ لَا لِرِفْعَۃِ النَّفْسِ فَیَکُونُ مَحْمُودًا کَالتَّکَبُّرِ عَلَی الْجُہَلَاء ِ وَالْأَغْنِیَاء ِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناامام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ظالموں میں سب سے بڑاظالم وہ ہے جو اس شخص کے سامنے بھی عاجزی کے ساتھ پیش آئے جواس کی طرف دیکھتابھی نہیں ہے ، اوریہ بھی کہاگیاکہ کبھی تکبرمتکبرکوتنبیہ کرنے کے لئے ہوتاہے ، اپنے آپ کو اونچاظاہرکرنے کے لئے نہیں ہوتاجیساکہ وہ تکبرمحمود ہوتاہے جو جاہلوں اورمالداروں پرکیاجائے ۔
(بریقۃ محمودیۃ:محمد بن محمد بن مصطفی بن عثمان، أبو سعید الخادمی الحنفی (۲:۱۸۶)

مالدارکے سامنے تکبرکرناتواضع ہے

قَالَ یَحْیَی بْنُ مُعَاذٍ: التَّکَبُّرُ عَلَی مَنْ تَکَبَّرَ عَلَیْک بِمَالِہِ تَوَاضُعٌ۔
ترجمہ :حضرت سیدنایحیی بن معاذ الرازی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جوشخص تمھارے سامنے اپنے مال کی وجہ سے تکبرکرتاہے اس کے سامنے اکڑناتواضع ہے ۔
(الرسالۃ القشیریۃ:عبد الکریم بن ہوازن بن عبد الملک القشیری (۱:۲۸۰)

اسلام کاسب سے مضبوط کڑاکیاہے ؟

وَقَالَ الزُّہْرِیُّ التَّجَبُّرُ عَلَی أَبْنَاء ِ الدُّنْیَا أَوْثَقُ عُرَی الْإِسْلَامِ۔
ترجمہ :امام الزہری رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ دنیاداروں ( لبرل وسیکولر) پرتکبرکرنااسلام کاسب سے مضبوط کڑاہے ۔
(بریقۃ محمودیۃ:محمد بن محمد بن مصطفی بن عثمان، أبو سعید الخادمی الحنفی (۲:۱۸۶)

دنیاداروں کے سامنے تکبرکرنے کا فائدہ

فَإِن سُفْیَان الثَّوْریّ قَالَ التکبر علی الْأَغْنِیَاء یُوصل الْحُقُوق إِلَی أَرْبَابہَا ومستحقیہا۔
ترجمہ ـ:حضرت سیدناسفیان ثوری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مالداروں کے سامنے تکبرکرناحقوق کو اس کے مالکوں اوراس کے مستحقوں تک پہنچادیتاہے ۔
وصیۃ الشیخ السلمی:محمد بن الحسین بن محمد بن موسی بن خالد بن سالم النیسابوری، أبو عبد الرحمن السلمی:۵۰)مکتبۃ الصحابۃ طنطا

عاجزی کیاہے ؟

قیل لابن المبارک:ما التوضع؟ فقال:التکبر علی المتکبرین۔
ترجمہ :حضرت سیدناامام عبداللہ بن مبارک رضی اللہ عنہ سے سوال کیاگیاکہ عاجزی کیاہے ؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ تکبرکرنے والوں کے سامنے اکڑناعاجزی ہے ۔
(قوت القلوب:محمد بن علی بن عطیۃ الحارثی، أبو طالب المکی (۲:۸۸)

حضرت سیدآدم بنوری رحمہ اللہ کاحاکم وقت کے سامنے تکبرکرنا

سید عبد اللہ صاحب (یہ شاہ عبدالرحیم کے مرشد اور سید آدم بنوری کے خلیفہ تھے)نے فرمایا کہ جب شیخ آدم بنوری سلطان شاہ جہان کے دور میں لاہور تشریف لائے تو آپ کے ساتھ معتقدین اور افغانوں کا دس ہزار سے زائد کا ہجوم رہتا تھا اور خانقاہ شہر جلیل کا نقشہ پیش کرتی تھی۔ جب شیخ آدم رحمہ اللہ تعالی کی شہرت کا چرچا شاہجہاں تک پہنچا تو اس نے حالات کے پیش نظر اپنے وزیر اعظم سعداللہ اور مولانا عبدالحکیم سیالکوٹی کو بھیجا تا کہ سید آدم سے ملاقات کریں۔ جب یہ دونوں ارکان دولت سید آدم رحمہ اللہ تعالی کی قیام گاہ پر پہنچے تو آپ مشغول عبادت تھے اور کافی وقت حالت مراقبہ میں رہے۔ دونوں کافی دیر دروازہ پر انتظار فرماتے رہے۔ جب مراقبہ سے فارغ ہوئے تو یہ دونوں صاحبان زاویہ شیخ میں داخل ہوئے۔ سید آدم رحمہ اللہ تعالی نے ان کی کوئی رسمی تعظیم ادا نہ کی جس پر وزیر اعظم سعداللہ نے فوراً اعتراض کر دیا کہ میں دنیا دار ہوں لیکن مولانا عبدالحکیم سیالکوٹی عالم ہیں ان کی تعظیم تو کرنا ضروری تھی۔ جس پر سید آدم بنوری رحمہ اللہ تعالی نے فرمایا کہ حدیث شریف میں ہے علمائے کرام دین کے امانت دار اسی وقت تک ہیں جب تک بادشاہوں سے اختلاط نہ کریں۔ بادشاہوں سے اختلاط کے بعد علماء نہیں رہتے چور ڈاکو بن جاتے ہیں۔ پھر وزیر اعظم سعداللہ نے دریافت کیا کہ آپ کا نسب کیا ہے۔ آپ یعنی سید آدم بنوری رحمہ اللہ تعالی نے جواب دیا کہ سید ہوں لیکن چونکہ نانہالی سلسلہ میں افغانوں سے رشتہ ہے اس لیے افغان مشہور ہو گیا ہوں۔ سعداللہ نے پھر دریافت کیا ہم نے سنا ہے کہ آپ علم لدنی بھی رکھتے ہیں۔ جواب ملا بیشک و الحمداللہ۔ شیخ محمد اکرم قدوسی اقتباس الانوار میں رقمطراز ہیں کہ ملا عبدالحکیم نے سید آدم سے کہا کہ درویشوں کے لیے تکبر اچھا نہیں۔ سید آدم رحمہ اللہ تعالی نے جواباً فرمایا کہ کیا آپ کو حدیث یاد نہیں ہے{ التکبر مع المتکبر صدقۃ}(متکبرین کے سامنے تکبر کرنا صدقہ ہے)اس کے بعد دونوں صاحب واپس آئے اور شاہجہان سے کہا کہ معمولی فقیر ہے مگر متکبر ہے۔ لمبے چوڑے دعوے کرتا ہے افغان ہے مگر خود کو سید کہتا ہے۔ اس کے باوجود افغانی اس کے بہت معتقد ہیں۔ خطرہ ہے کوئی فتنہ نہ کھڑا کر دے۔ شاہجہان نے متاثر ہو کر حکم حجاز صادر کر دیا۔ سید آدم رحمہ اللہ تعالی فوراً روانہ ہو کر سورت پہنچے۔ وہاں کا حاکم آپ کا معتقد تھا۔ اس سے فرمایا تمھاری خدمت یہی ہے کہ ہمارے لیے فوراً جہاز مہیا کر دو۔ شیخ سید آدم رحمہ اللہ تعالی کی روانگی کے فوراً بعد شاہجہان نے خواب دیکھا کہ اس کی حکومت تب تک ہے جب تک آدم بنوری ہندوستان میں ہیں۔ خواب سے متوحش ہو کر شاہجہان نے حاکم سورت کے پاس سید کو روکنے کا حکم بھیجا مگر سید روانہ ہو چکے تھے۔
(اقتباس الانوار ازشیخ محمد اکرم قدوسی:۷۲۵)

اس تمام بحث سے معلوم ہواکہ جولوگ حق کے دشمن ہیں ، دین کے باغی ہیں ، لبرل وسیکولر ہیں اوردنیاپرست ہیں ان کے سامنے تکبرکرنابالکل جائز ہے اورمستحسن ہے۔ بلکہ ان کے سامنے عاجزی کااظہارکرنابالکل منع ہے ۔
اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ اگرمتکبرکے سامنے لوگ عاجزی کریں گے تواس کاتکبربڑھتاجائے گااوراس کے سامنے تکبرکریں گے تواس کے لئے ان کااکڑناتنبیہ ہوگی اوروہ اس طرح تکبرسے رک جائے گا۔ اسی لئے اس کو نیکی اورصدقہ کہاگیاہے ۔

Leave a Reply

%d bloggers like this: