تفسیرسورۃبنی اسرائیل آیت ۱ ۔ معراج کا واقعہ/ معراج کی حقیقت

حضورتاجدارختم نبوتﷺکومعراج اس لئے کرائی گئی تاکہ غلبہ دین کی راہ میں آنے والی شدائد ومصائب پرآپﷺ کاقلب اطہرمضبوط ہوجائے

{سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہ لِنُرِیَہ مِنْ اٰیٰتِنَا اِنَّہ ہُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ}(۱)

ترجمہ کنزالایمان:پاکی ہے اسے جو راتوں رات اپنے بندے کو لے گیا مسجد ِحرام سے مسجد ِ اقصیٰ تک جس کے گردا گرد ہم نے برکت رکھی کہ ہم اسے اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں بیشک وہ سنتا دیکھتا ہے۔

ترجمہ ضیاء الایمان : پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے عبدخاص کو رات کے کچھ حصے میں مسجد حرام شریف سے مسجد اقصیٰ شریف تک کی سیر کرائی جس کے اردگرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں تاکہ ہم انہیں اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں، بیشک وہ سنتا دیکھتا ہے۔
یہاں ہم دومسئلے بیان کریں گے : ایک تویہ کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکومعراج کس لئے ہوئی اوردوسرامسئلہ یہ کہ معراج کاانکارکرنے کا حکم شرعی کیاہے ؟

معراج کس لئے ہوئی ؟اس کا جواب قرآن مجید میں موجود ہے یعنی ہم نے اپنے حبیب کریم ﷺکو معراج میں اس لئے بلایا تا کہ ہم ان کو اپنی قدرت ،اپنی ربوبیت،اپنی حکمت غرض کہ اپنی تمام صفات اورتمام کائنات کا مشاہدہ کرادیں۔خداوند قدوس کی نشانیاں دو قسم کی ہیں ۔ایک آیات صغریٰ یعنی چھوٹی نشانیاں ۔اور دوسری آیات کبریٰ یعنی بڑی بڑی نشانیاں ۔سورہ والنجم میں اللہ تعالی نے فرمایاکہ حبیب کریم ﷺنے معراج میں اپنے رب تعالی کی بڑی بڑی نشانیوں کو دیکھا مطلب یہ کہ آیات صغریٰ تو بہت سے خواص یعنی انبیاء علیہم السلام واولیاء کرام کو دکھائی گئیں مگر آیات کبریٰ یعنی بڑی بڑی نشانیوں کو دیکھ لینا یہ صرف حضورتاجدارختم نبوتﷺ ہی کاخا صہ تھا، جن کو دکھا نے کیلئے اللہ تعالی نے آپﷺ کو معراج میں بلایا۔اب یہ سوال رہا کہ کن کن آیات کبریٰ کا اللہ تعالی نے اپنے حبیب کریمﷺکو مشاہدہ کرایا ؟اور کون کون سی بڑی نشانیوں کو حضورتاجدارختم نبوتﷺنے دیکھا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس کا علم اللہ اور رسول کریمﷺ کے سوا کسی کو نہیں ۔ اس کو تو بس دکھانے والا ہی جانتا ہے کہ اس نے کیا کیا دکھایااور دیکھنے والے ہی جانتے ہیں کہ انہوں نے کیا کیا دیکھا ؟بہرحال رہی یہ بات کہ اللہ تعالی نے یہ آیات کبری کیوں دکھائیں اس کی چندوجوہات ہم یہاں نقل کرتے ہیں ۔

معراج کامقصد:غلبہ دین کی راہ میں آنے والی شدائد ہلکی ہوجائیں

أَنَّہُ لَا یَبْعُدُ أَنَّہُ إِذَا صَعَدَ الْفَلَکَ وشاہد أحوال السموات وَالْکُرْسِیَّ وَالْعَرْشَ، صَارَتْ مُشَاہَدَۃُ أَحْوَالِ ہَذَا الْعَالَمِ وَأَہْوَالِہِ حَقِیرَۃً فِی عَیْنِہِ، فَتَحْصُلُ لَہُ زِیَادَۃُ قُوَّۃٍ فِی الْقَلْبِ بِاعْتِبَارِہَا یَکُونُ فِی شُرُوعِہِ فِی الدَّعْوَۃِ إِلَی اللَّہِ تَعَالَی أَکْمَلَ وَقِلَّۃُ الْتِفَاتِہِ إِلَی أَعْدَاء ِ اللَّہِ تَعَالَی أَقْوَی، یُبَیِّنُ ذَلِکَ أَنَّ مَنْ عَایَنَ قُدْرَۃَ اللَّہِ تَعَالَی فِی ہَذَا الْبَابِ، لَا یَکُونُ حَالُہُ فِی قُوَّۃِ النَّفْسِ وَثَبَاتِ الْقَلْبِ عَلَی احْتِمَالِ الْمَکَارِہِ فِی الْجِہَادِ وَغَیْرِہِ إِلَّا أَضْعَافَ مَا یَکُونُ عَلَیْہِ حَالُ مَنْ لَمْ یُعَایِنْ وَاعْلَمْ أَنَّ قَوْلَہُ: لِنُرِیَہُ مِنْ آیاتِنا کَالدَّلَالَۃِ عَلَی أَنَّ فَائِدَۃَ ذَلِکَ الْإِسْرَاء ِ مُخْتَصَّۃٌ بِہِ وَعَائِدَۃٌ إِلَیْہِ عَلَی سَبِیلِ التَّعْیِینِ.

ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی: ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یہ بات بعیدنہیں ہے کہ جب حضورتاجدارختم نبوتﷺمعراج کی رات افلاک پرتشریف لے گئے اورآسمان پرکرسی وعرش کے احوال کامشاہدہ کیاتواس کائنات کے احوال وسختیاں آپ ﷺکی نظرمیں حقیرٹھہریں اورقلب اطہرمیں ان کی وجہ سے قوت حاصل ہو، اس وجہ سے اللہ تعالی کی طرف سے آپﷺکی دعوت مبارکہ اکمل ہوجائے گی اوراللہ تعالی کے دشمنوں اورگستاخوں کی طرف التفات کم ہوجائے گی، اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جوشخص اللہ تعالی کی قدرتوں کامشاہدہ کرلیتاہے اس کاحال قوت نفس اوراس کی استقامت جہاد وغیرہ میں برداشت کرنے پرکئی گنابڑھ جاتاہے جنہیں یہ مشاہدہ حاصل نہیں ہے ۔واضح رہے کہ اللہ تعالی کاارشادعالیہ {لِنُرِیَہُ مِنْ آیاتِنا }اس پردلیل ہے کہ اس سیرکانفع آپﷺ کے ساتھ مختص ہے اورآپ ﷺکی طرف ہی لوٹ رہاہے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۲۰:۲۹۱)

انبیاء کرام علیہم السلام کے ساتھ ملاقات کروانے میں کیاحکمت تھی؟

فَإِن قلت:مَا الْحِکْمَۃ فِی الِاقْتِصَار علی ہَؤُلَاء ِ الْأَنْبِیَاء الْمَذْکُورین فِیہِ دون غَیرہم مِنْہُم؟ قلت:للْإِشَارَۃ إِلَی مَا سیقع لَہُ صلی اللہ عَلَیْہِ وَسلم، مَعَ قومہ مَعَ نَظِیر مَا وَقع لکل مِنْہُم۔

ترجمہ :امام أبو محمد محمود بن أحمد بن موسی الحنفی بدر الدین العینی المتوفی : ۸۵۵ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ معراج کی رات حضورتاجدارختم نبوتﷺکی کچھ مخصوص انبیاء کرام علیہم السلام سے ملاقاتیںکروائی گئیں جس کاایک خاص مقصدتھا، اس مقصد کوبیان کرتے ہوئے امام العینی رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ اگرتویہ کہے کہ انہی چندانبیاء کرام علیہم السلام کوحضورتاجدراختم نبوتﷺکے ساتھ ملاقات کروانے میں کیاحکمت ہے؟۔
تواس کاجواب یہ ہے کہ اس سے ان خاص حالات کی طرف اشارہ تھاجوآپﷺکوبعد میں وقتاًفوقتاًمشرکین کی طرف سے پیش آنے والے تھے جیساکہ ان انبیاء کرام علیہم السلام کو ان کی قوموں کی طرف سے پیش آئے ۔
(عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری:أبو محمد محمود بن أحمدلحنفی بدر الدین العینی (۱۷:۲۷)

اس سے معلوم ہواکہ ان انبیاء کرام علیہم السلام کوجوحالات پیش آئے تھے اوردوران ِ دعوت ان کی قوموں نے ان کے ساتھ جو سلوک کیاتھا، ان کے ساتھ ملاقات کروانے میں اسی بات کی طرف اشارہ تھاکہ آپﷺکوبھی انہی جیسے حالات کاسامناکرناپڑاہے اورآنے والے وقت میں بھی کرناپڑے گااورجس طرح ان انبیاء کرام علیہم السلام اوررسل عظام علیہم السلام کی قوموں نے ان کے ساتھ سلوک کیاتھا، آپ ﷺکی قوم بھی آپ ﷺکے ساتھ اسی طرح کاطرز عمل اختیارکررہی ہے اورآنے والے وقت میں بھی یہی کرے گی ۔ گویاجہاں آپﷺکوگزشتہ حالات کے حوالے سے تسلی دی جارہی ہے اوردلجوئی کی جارہی ہے وہاں پیش آنے والے حالات کے لئے آپﷺکوپہلے سے تیارکیاجارہاہے ۔

دوسوالات اوران کے جوابات
وَمِمّا سُئِلَ عَنْہُ مِنْ حَدِیثِ الْإِسْرَاء ِ وَتَکَلّمَ فِیہِ لِقَاؤُہُ لِآدَمَ فِی السّمَاء ِ الدّنْیَا، وَلِإِبْرَاہِیمَ فِی السّمَاء ِ السّابِعَۃِ وَغَیْرِہِمَا مِنْ الْأَنْبِیَاء ِ الّذِینَ لَقِیَہُمْ فِی غَیْرِ ہَاتَیْنِ السّمَاء َیْنِ وَالْحِکْمَۃُ فِی اخْتِصَاصِ کُلّ وَاحِدٍ مِنْہُمْ بِالسّمَاء ِ الّتِی رَآہُ فِیہَا، وَسُؤَالٌ آخَرُ فِی اخْتِصَاصِ ہَؤُلَاء ِ الْأَنْبِیَاء ِ بِاللّقَاء ِ دُونَ غَیْرِہِمْ وَإِنْ کَانَ رَأَی الْأَنْبِیَاء َ کُلّہُمْ فَمَا الْحِکْمَۃُ فِی اخْتِصَاصِ ہَؤُلَاء ِ الْأَنْبِیَاء ِ بِالذّکْرِ؟
ترجمہ :امام أبو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ بن أحمد السہیلی المتوفی : ۵۸۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ایک توسوال یہ ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے حضرت سیدناآدم علیہ السلام سے پہلے آسمان پرملاقات فرمائی اورحضرت سیدناابراہیم علیہ السلام سے ساتویں آسمان پرملاقات کی اوردیگرانبیاء کرام علیہم السلام سے مختلف آسمانوں پرملاقات کی ، ہرہرنبی علیہ السلام کو اس آسمان کے ساتھ مختص کرنے کی کیاوجہ ہے ؟ جس میں آپﷺنے ان سے ملاقات کی؟۔

دوسراسوال یہ ہے کہ آسمانوں پرصرف ان انبیاء کرام علیہم السلام سے ہی کیوں ملاقات ہوئی اوراگرآپﷺنے تمام انبیاء کرام علیہم السلام سے ملاقات فرمائی توپھرصرف ان انبیاء کرام علیہم السلام کاذکرکیوں کیا؟
(الروض الأنف:أبو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ بن أحمد السہیلی(۳:۲۷۵)

حضرت سیدناآدم علیہ السلام کے ساتھ ملاقات کروانے کی دووجوہات

وَحَدِیثُ الْإِسْرَاء ِ کَانَ بِمَکّۃَ وَہِیَ حَرَمُ اللہِ وَأَمْنُہُ وَقُطّانُہَا جِیرَانُ اللہِ لِأَنّ فِیہَا بَیْتَہُ فَأَوّلُ مَا رَأَی عَلَیْہِ مِنْ الْأَنْبِیَاء ِ آدَمُ الّذِی کَانَ فِی أَمْنِ اللہِ وَجِوَارِہِ فَأَخْرَجَہُ عَدُوّہُ إبْلِیسُ مِنْہَا، وَہَذِہِ الْقِصّۃُ تُشْبِہُہَا الْحَالَۃُ الْأُولَی مِنْ أَحْوَالِ النّبِیّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِینَ أَخْرَجَہُ أَعْدَاؤُہُ مِنْ حَرَمِ اللہِ وَجِوَارِ بَیْتِہِ فَکَرَبَہُ ذَلِکَ وَغَمّہُ وَأَشْبَہَتْ قِصّتُہُ فِی ہَذَا قِصّۃَ آدَمَ مَعَ أَنّ آدَمَ تُعْرَضُ عَلَیْہِ أَرْوَاحُ ذُرّیّتِہِ الْبَرّ وَالْفَاجِرِ مِنْہُمْ فَکَانَ فِی السّمَاء ِ الدّنْیَا بِحَیْثُ یَرَی الْفَرِیقَیْنِ لِأَنّ أَرْوَاحَ أَہْلِ الشّقَاء ِ لَا تَلِجُ فِی السّمَاء ِ وَلَا تُفَتّحُ لَہُمْ أَبْوَابُہَا کَمَا قَالَ اللہُ تَعَالَی۔

ترجمہ :امام أبو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ بن أحمد السہیلی المتوفی : ۵۸۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ معراج کاواقعہ مکہ مکرمہ میں ظہورپذیرہوا، یہ اللہ تعالی کاحرم محترم اوراس کی امن گاہ ہے ، یہ اللہ تعالی کے پڑوسیوں کامسکن ہے کیونکہ یہاں اس کاگھرہے ، حضورتاجدارختم نبوتﷺنے سب سے پہلے حضرت سیدناآدم علیہ السلام سے ملاقات کی ، وہ اللہ تعالی کے امن اوراس کے پڑوس میں تھے لیکن اللہ تعالی کے دشمن ابلیس نے انہیں وہاں سے نکال دیا۔ یہ داستان حضورتاجدارختم نبوتﷺکے احوال میں سے پہلی حالت کے ساتھ مشابہت رکھتی ہے ، آپﷺکے دشمنوں نے آپﷺکواللہ تعالی کے حرم مکرم اوراس کے پڑوس سے نکال دیا، آپﷺکواس سے بہت زیادہ دکھ اورغم ہوا، آپﷺکایہ قصہ حضرت سیدناآدم علیہ السلام کے قصہ سے بہت زیادہ مشابہت رکھتاہے ۔ اس کے علاوہ حضرت سیدناآدم علیہ السلام کے پاس ان کی اولاد کی روحیں پیش کی جاتی ہیں ، آپﷺنے وہاں فاسق وفاجراورپاکبازاورصالحین کی ارواح کودیکھاحالانکہ بدبختوں کی ارواح آسمان پرنہیں جاسکتیں اورنہ ہی آسمان کے دروازے ان کے لئے کھولے جاتے ہیں ۔
(الروض الأنف:أبو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ بن أحمد السہیلی(۳:۲۷۵)

حضرت سیدناعیسی علیہ السلام اوریحیی علیہ السلام سے ملاقات کروانے کاسبب

ثُمّ رَأَی فِی الثّانِیَۃِ عِیسَی وَیَحْیَی وَہُمَا الْمُمْتَحَنَانِ بِالْیَہُودِ أَمَا عِیسَی فَکَذّبَتْہُ الْیَہُودُ وَآذَتْہُ وَہَمّوا بِقَتْلِہِ فَرَفَعَہُ اللہُ وَأَمّا یَحْیَی فَقَتَلُوہُ وَرَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْدَ انْتِقَالِہِ إلَی الْمَدِینَۃِ صَارَ إلَی حَالَۃٍ ثَانِیَۃٍ مِنْ الِامْتِحَانِ وَکَانَتْ مِحْنَتُہُ فِیہَا بِالْیَہُودِ آذَوْہُ وَظَاہَرُوا عَلَیْہِ وَہَمّوا بِإِلْقَاء ِ الصّخْرَۃِ عَلَیْہِ لِیَقْتُلُوہُ فَنَجّاہُ اللہُ تَعَالَی کَمَا نَجّی عِیسَی مِنْہُمْ ثُمّ سَمّوہُ فِی الشّاۃِ فَلَمْ تَزَلْ تِلْکَ الْأَکْلَۃُ تُعَاوِدُہُ حَتّی قَطَعَتْ أَبْہَرَہُ کَمَا قَالَ عِنْدَ الْمَوْتِ وَہَکَذَا فَعَلُوا بِابْنَیْ الْخَالَۃِ عِیسَی وَیَحْیَی، لِأَنّ أُمّ یَحْیَی أَشْیَاعُ بِنْتُ عِمْرَانَ أُخْتُ مَرْیَمَ، أُمّہُمَا:حَنّۃُ ۔

ترجمہ :امام أبو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ بن أحمد السہیلی المتوفی : ۵۸۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ دوسرے آسمان پرحضورتاجدارختم نبوتﷺنے حضرت سیدناعیسی علیہ السلام اورحضرت سیدنایحیی علیہ السلام سے ملاقات فرمائی ، ان ددنوں کو یہودیوں نے ستایااوران پرظلم وستم کیااورحضرت سیدناعیسی علیہ السلام کی یہودیوں نے تکذیب کی اورآپ علیہ السلام پربہت زیادہ ستم کیا، ان کے قتل کاارادہ کیالیکن اللہ تعالی نے ان کو اٹھالیا، حضرت سیدنایحیی علیہ السلام کو یہودیوں نے شہیدکردیا، حضورتاجدارختم نبوتﷺبھی مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کے بعد ایک اورامتحان سے دوچارہوئے ، وہاں آپﷺکویہودیوں کے ساتھ واسطہ پڑا، انہوںنے آپ ﷺکواذیت دی ، آپﷺکے خلاف دشمنوں کی مددکی،آپﷺپربڑاساپتھرپھینک کرآپﷺکوشہیدکرنے کی کوشش کی لیکن اللہ تعالی نے آپﷺکواسی طرح نجات دی جس طرح اس نے حضرت سیدناعیسی علیہ السلام کو یہودیوں کے شرسے بچالیاتھا، انہوںنے آپﷺکوزہرآلود گوشت کھلایا، وصال شریف تک آپﷺاس زہرکااثرمحسوس فرماتے رہے ۔ آپﷺنے اپنے وصال شریف کے وقت فرمایا: دوخالہ زادبھائیوں حضرت سیدناعیسی علیہ السلام اورحضرت سیدنایحیی علیہ السلام کے ساتھ بھی اسی طرح کیاگیا، کیونکہ حضرت سیدنایحیی علیہ السلام کی والدہ محترمہ اشیاع بنت عمران حضرت سیدتنامریم رضی اللہ عنہماکی بہن تھیں ، ان کی والدہ کانام حنہ تھا۔
(الروض الأنف:أبو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ بن أحمد السہیلی(۳:۲۷۵)

حضرت سیدنایوسف علیہ السلام کے ساتھ ملاقات کروانے کاسبب

وَأَمّا لِقَاؤُہُ لِیُوسُفَ فِی السّمَاء ِ الثّالِثَۃِ فَإِنّہُ یُؤْذِنُ بِحَالَۃِ ثَالِثَۃٍ تُشْبِہُ حَالَ یُوسُفَ، وَذَلِک بِأَنّ یُوسُفَ ظَفِرَ بِإِخْوَتِہِ بَعْدَمَا أَخْرَجُوہُ مِنْ بَیْنِ ظَہْرَانَیْہِمْ فَصَفَحَ عَنْہُمْ وَقَالَ(لَا تَثْرِیبَ عَلَیْکُمُ)(یُوسُف:۹۲)الْآیَۃَ وَکَذَلِک نَبِیّنَا عَلَیْہِ السّلَامُ أَسَرَ یَوْمَ بَدْرٍ جُمْلَۃً مِنْ أَقَارِبِہِ الّذِینَ أَخْرَجُوہُ فِیہِمْ عَمّہُ الْعَبّاسُ وَابْنُ عَمّہِ عَقِیلٌ فَمِنْہُمْ مَنْ أَطْلَقَ وَمِنْہُمْ مَنْ قَبِلَ فِدَاء َہُ ثُمّ ظَہَرَ عَلَیْہِمْ بَعْدَ ذَلِکَ عَامَ الْفَتْحِ فَجَمَعَہُمْ فَقَالَ لَہُمْ أَقُولُ مَا قَالَ أَخِی یُوسُفُ (لَا تَثْرِیبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ)۔

ترجمہ :امام أبو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ بن أحمد السہیلی المتوفی : ۵۸۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ آپﷺنے تیسرے آسمان پرحضرت سیدنایوسف علیہ السلام کے ساتھ ملاقات فرمائی ، آپﷺکی تیسری کیفیت حضرت سیدنایوسف علیہ السلام کی حالت سے بہت زیادہ مشابہت رکھتی ہے ، جب حضرت سیدنایوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں پرغلبہ پایاتوانہیں معاف فرمادیا، حالانکہ انہوں نے حضرت سیدنایوسف علیہ السلام کو گھرسے نکالاتھا، حضرت سیدنایوسف علیہ السلام نے فرمایا: {لَا تَثْرِیبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ}اسی طرح حضورتاجدارختم نبوتﷺنے غزوہ بدرکے دن اپنے عزیزواقارب کو گرفتارکرلیا، انہوں نے آپﷺکومکہ مکرمہ سے نکالاتھا، ان قیدیوں میں آپ ﷺکے چچاحضرت سیدناعباس رضی اللہ عنہ اورچچازادبھائی عقیل رضی اللہ عنہ بھی تھے ، ان میں سے بعض کوحضورتاجدارختم نبوتﷺنے ویسے ہی آزادفرمادیااوربعض سے فدیہ لیا، پھرفتح مکہ کے دن آپﷺنے ان پرغلبہ پالیا، آپﷺنے انہیں جمع کیااورفرمایا: آج میں تم کو وہی کہتاہوں جوحضرت سیدنایوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے کہاتھا{لَا تَثْرِیبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ}۔
(الروض الأنف:أبو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ بن أحمد السہیلی(۳:۲۷۵)

حضرت سیدناادریس علیہ السلام کے ساتھ ملاقات کی وجہ ؟

ثُمّ لِقَاؤُہُ لِإِدْرِیسَ فِی السّمَاء ِ الرّابِعَۃِ وَہُوَ الْمَکَانُ الّذِی سَمّاہُ اللہُ مَکَانًا عَلِیّا، وَإِدْرِیسُ أَوّلُ مَنْ آتَاہُ اللہُ الْخَطّ بِالْقَلَمِ فَکَانَ ذَلِکَ مُؤْذِنًا بِحَالَۃِ رَابِعَۃٍ وَہِیَ عُلُوّ شَأْنِہِ عَلَیْہِ السّلَامُ حَتّی أَخَافَ الْمُلُوکَ وَکَتَبَ إلَیْہِمْ یَدْعُوہُمْ إلَی طَاعَتِہِ حَتّی قَالَ أَبُو سُفْیَانَ وَہُوَ عِنْدَ مَلِکِ الرّومِ، حِین جَاء َہُ کِتَابٌ لِلنّبِیّ عَلَیْہِ السّلَامُ وَرَأَی مَا رَأَی مِنْ خَوْفِ ہِرَقْلَ:لَقَدْ أَمِرَ أَمْرُ ابْنِ أَبِی کَبْشَۃَ، حَتّی أَصْبَحَ یَخَافُہُ مَلِکُ بَنِی الْأَصْفَرِ وَکُتِبَ عَنْہُ بِالْقَلَمِ إلَی جَمِیعِ مُلُوکِ الْأَرْضِ فَمِنْہُمْ مَنْ اتّبَعَہُ عَلَی دِینِہِ کَالنّجَاشِیّ وَمَلِکِ عُمَانَ، وَمِنْہُمْ مَنْ ہَادَنَہُ وَأَہْدَی إلَیْہِ وَأَتْحَفَہُ کَہِرَقْلَ وَالْمُقَوْقَسِ، وَمِنْہُمْ مَنْ تَعَصّی عَلَیْہِ فَأَظْہَرَہُ اللہُ عَلَیْہِ فَہَذَا مَقَامٌ عَلِیّ، وَخَطّ بِالْقَلَمِ کَنَحْوِ مَا أُوتِیَ إدْرِیسُ عَلَیْہِ السّلَامُ۔

ترجمہ :امام أبو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ بن أحمد السہیلی المتوفی : ۵۸۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ پھرحضورتاجدارختم نبوتﷺنے چوتھے آسمان پرحضرت سیدناادریس علیہ السلام کے ساتھ ملاقات کی ، ان کے مقام کو اللہ تعالی نے { مَکَانًا عَلِیّا}سے تعبیرفرمایاہے ، حضرت سیدناادریس علیہ السلام کو اللہ تعالی نے سب سے پہلے قلم سے لکھنے کی توفیق عطافرمائی ، یہ حالت حضورتاجدارختم نبوتﷺکی چوتھی حالت کے مشابہ ہے ، یہ حالت علوشان ہے حتی کہ آپﷺنے بادشاہوں کوخوف زدہ کیا، انہیں خط لکھے اورانہیں اپنی اطاعت کی طرف بلایا، جب حضورتاجدارختم نبوتﷺ کامکتوب گرامی روم کے بادشاہ کی طرف پہنچاتواس وقت ابوسفیان وہیں تھے ، جب انہوں نے ہرقل کاخوف ملاحظہ کیاتوانہوںنے کہاابن ابی کبشہ ﷺکی عظمت اتنی زیادہ ہوگئی ہے کہ بنواصفر کابادشاہ بھی ان سے ڈرنے لگاہے ۔ آپﷺنے قلم کے ذریعے سے روئے زمین کے تمام بادشاہوں کے نام مکتوب گرامی لکھے ، ان میں سے کچھ نے آپﷺکے دین متین کی اتباع کرلی مثلاً ہرقل اورمقوقس ۔ بعض نے آپﷺکی نافرمانی کی ، اللہ تعالی نے آپﷺکوان پرغلبہ عطافرمایا، یہی مقام علو ہے ۔ آپﷺنے قلم سے بھی لکھاہے جس طرح حضرت سیدناادریس علیہ السلام نے لکھا۔
(الروض الأنف:أبو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ بن أحمد السہیلی(۳:۲۷۵)

حضرت سیدناہارون علیہ السلام کے ساتھ ملاقات کی وجہ؟

وَلِقَاؤُہُ فِی السّمَاء ِ الْخَامِسَۃِ لِہَارُونَ الْمُحَبّبِ فِی قَوْمِہِ یُؤْذِنُ بِحُبّ قُرَیْشٍ، وَجَمِیعِ الْعَرَبِ لَہُ بَعْدَ بُغْضِہِمْ فِیہ۔
ترجمہ :امام أبو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ بن أحمد السہیلی المتوفی : ۵۸۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ پانچویں آسمان پرحضرت سیدناہارون علیہ السلام کے ساتھ ملاقات ہوئی ، وہ اپنی قوم میں بڑے محبوب تھے ، اس میں اشارہ ہے کہ قریش اورتمام دیگرلوگ بغض کے بعد آپﷺکی محبت کے اسیرہوجائیں گے۔
(الروض الأنف:أبو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ بن أحمد السہیلی(۳:۲۷۵)

حضرت سیدناموسی علیہ السلام کے ساتھ ملاقات کی وجہ؟

وَلِقَاؤُہُ فِی السّمَاء ِ السّادِسَۃِ لِمُوسَی یُؤْذِنُ بِحَالَۃِ تُشْبِہُ حَالَۃَ مُوسَی حِینَ أَمَرَ بِغَزْوِ الشّامِ فَظَہَرَ عَلَی الْجَبَابِرَۃِ الّذِینَ کَانُوا فِیہَا، وَأَدْخَلَ بَنِی إسْرَائِیلَ الْبَلَدَ الّذِی خَرَجُوا مِنْہُ بَعْدَ إہْلَاکِ عَدُوّہِمْ وَکَذَلِک غَزَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَبُوکَ مِنْ أَرْضِ الشّامِ، وَظَہَرَ عَلَی صَاحِبِ دَوْمَۃَ حَتّی صَالَحَہُ عَلَی الْجِزْیَۃِ بَعْد أَنْ أُتِیَ بِہِ أَسِیرًا، وَافْتَتَحَ مَکّۃَ، وَدَخَلَ أَصْحَابُہُ الْبَلَدَ الّذِی خَرَجُوا مِنْہُ ۔

ترجمہ :امام أبو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ بن أحمد السہیلی المتوفی : ۵۸۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ چھٹے آسمان پرحضورتاجدارختم نبوتﷺنے حضرت سیدناموسی علیہ السلام کے ساتھ ملاقات کی ، آپﷺحضرت سیدناموسی علیہ السلام کی اس حالت کے مشابہ ہیں جس میں آپ علیہ السلام کوشام پرحملہ کرنے کاحکم دیاگیا، آپ علیہ السلام وہاں کے جابرحکمرانوں پرغالب آگئے بنواسرائیل کے دشمنوں کو ہلاک کرنے کے بعد انہیں اس شہرسے نکالاگیاتھا، اسی طرح حضورتاجدارختم نبوتﷺنے سرزمین شام میں مقام تبوک کی طرف لشکرکشی کی اوردومہ کے بادشاہ پرغلبہ پا لیا، پابندسلاسل ہونے کے بعد اس نے جزیہ دینے پرصلح کرلی ، آپﷺنے مکہ مکرمہ فتح کیا۔ اپنے ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو وہاں داخل کیاجواس پاکیزہ شہرسے نکالے گئے تھے ۔
(الروض الأنف:أبو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ بن أحمد السہیلی(۳:۲۷۵)

حضرت سیدناابراہیم علیہ السلام کے ساتھ ملاقات کی وجہ اوراختتامی کلام

ثُمّ لِقَاؤُہُ فِی السّمَاء ِ السّابِعَۃِ لِإِبْرَاہِیمَ عَلَیْہِ السّلَامُ لِحِکْمَتَیْنِ إحْدَاہُمَا:أَنّہُ رَآہُ عِنْدَ الْبَیْتِ الْمَعْمُورِ مُسْنِدًا ظَہْرَہُ إلَیْہِ وَالْبَیْتُ الْمَعْمُورُ حِیَالَ مَکّۃَ، وَإِلَیْہِ تَحُجّ الْمَلَائِکَۃُ کَمَا أَنّ إبْرَاہِیمَ ہُوَ الّذِی بَنَی الْکَعْبَۃَ، وَأَذّنَ فِی النّاسِ بِالْحَجّ إلَیْہَا وَالْحِکْمَۃُ الثّانِیَۃُ أَنّ آخِرَ أَحْوَالِ النّبِیّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَجّہُ إلَی الْبَیْتِ الْحَرَامِ، وَحَجّ مَعَہُ نَحْوٌ مِنْ سَبْعِینَ أَلْفًا مِنْ الْمُسْلِمِینَ وَرُؤْیَۃُ إبْرَاہِیمَ عِنْدَ أَہْلِ التّأْوِیلِ تُؤْذِنُ بِالْحَجّ لِأَنّہُ الدّاعِی إلَیْہِ وَالرّافِعُ لِقَوَاعِدِ الْکَعْبَۃِ الْمَحْجُوبَۃِ فَقَدْ انْتَظَمَ فِی ہَذَا الْکَلَامِ الْجَوَابُ عَنْ السّؤَالَیْنِ الْمُتَقَدّمَیْنِ أَحَدُہُمَا:السّؤَالُ عَنْ تَخْصِیصِ ہَؤُلَاء ِ بِالذّکْرِ وَالْآخَرُ السّؤَالُ عَنْ تَخْصِیصِہِمْ بِہَذِہِ الْأَمَاکِنِ مِنْ السّمَاء ِ الدّنْیَا إلَی السّابِعَۃِ وَکَانَ الْحَزْمُ تَرْکَ التّکَلّفِ لِتَأْوِیلِ مَا لَمْ یَرِدْ فِیہِ نَصّ عَنْ السّلَفِ وَلَکِنْ عَارَضَ ہَذَا الْغَرَضُ مَا یَجِبُ مِنْ التّفْکِیرِ فِی حِکْمَۃِ اللہِ وَالتّدَبّرِ لِآیَاتِ اللہِ وَقَوْلُ اللہِ تَعَالَی: (إِنّ فِی ذَلِکَ لَآیَاتٍ لِقَوْمٍ یَتَفَکَّرُونَ)(الرَّعْد:۳) وَقَدْ رُوِیَ أَنّ تَفَکّرَ سَاعَۃٍ خَیْرٌ مِنْ عِبَادَۃِ سَنَۃ مَا لَمْ یَکُنْ النّظَرُ وَالتّفْکِیرُ مُجَرّدًا مِنْ مُلَاحَظَۃِ الْکِتَابِ وَالسّنّۃِ وَمُقْتَضَی کَلَامِ الْعَرَبِ، فَعِنْدَ ذَلِکَ یَکُونُ الْقَوْلُ فِی الْکِتَابِ وَالسّنّۃِ بِغَیْرِ عِلْمٍ عَصَمَنَا اللہُ تَعَالَی مِنْ ذَلِکَ۔وَجَعَلَنَا مِنْ الْمُمْتَثِلِینَ لِأَمْرِ۔

ترجمہ :امام أبو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ بن أحمد السہیلی المتوفی : ۵۸۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ پھرحضورتاجدارختم نبوتﷺنے ساتویں آسمان پرحضرت سیدناابراہیم علیہ السلام کے ساتھ ملاقات فرمائی ، اس میں دوحکمتیںہیں:

پہلی حکمت : حضورتاجدارختم نبوتﷺنے حضرت سیدناابراہیم علیہ السلام کو دیکھاوہ بیت المعمورکے ساتھ ٹیک لگائے ہوئے تشریف فرماتھے ، بیت المعمورمکہ مکرمہ کے بالکل اوپرہے ، ملائکہ کرام علیہم السلام اسی کی طرف حج اداکرنے کے لئے جاتے ہیں ۔ حضرت سیدناابراہیم علیہ السلام نے کعبہ مشرفہ کو تعمیرفرمایااورلوگوں میں اعلان کیاکہ وہ اس کی طرف حج کرنے کے لئے آئیں ۔

دوسری حکمت : آپ ﷺکے آخری احوال میں سے آپﷺکابیت اللہ شریف کاحج ہے ، اس وقت آپﷺکے ہمراہ ایک لاکھ چوبیس ہزارصحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی تھے ، وہاں حضرت سیدناابراہیم علیہ السلام کے ساتھ ملاقات اسی حج کی طرف اشارہ ہے کیونکہ بیت اللہ شریف کی طرف سب سے پہلے داعی آپ علیہ السلام ہی ہیںاورکعبہ مشرفہ کی بنیادوں کو آپ علیہ السلام نے ہی اٹھایاتھا۔

یہ تمام تفصیل ان دوسوالوں کے جوابات پرمشتمل ہے کہ صرف ان انبیاء کرام علیہم السلام کاذکرکیوں کیااوران کی ملاقات کے لئے آسمان دنیاسے لیکرساتویں آسمان تک مختلف آسمانوں کو مختص کیو ںکیا؟۔ احتیاط کاتقاضاتویہ تھاکہ سلف نے جس میں کوئی تاویل نہیں کی اسے ترک کردیاجائے لیکن حکمت خداوندی میں تفکراوراللہ تعالی کی نشانیوں میں تدبرنے مجھے یہ ترغیب دی ، اللہ تعالی کافرمان شریف ہے کہ {إِنّ فِی ذَلِکَ لَآیَاتٍ لِقَوْمٍ یَتَفَکَّرُونَ}اس میں تفکرکرنے والی قوم کے لئے نشانیاں ہیں ) روایت ہے کہ ایک لمحہ کاتفکرایک سال کی عبادت سے بہترہے ، اس سے مراد وہ غوروفکرہے جوکتاب وسنت کے دائرہ سے باہرنہ ہواوراہل عرب کے کلام کے مقتضی کے مطابق ہوورنہ کتاب وسنت میں گفتگوعلم کے بغیرہوگی، اللہ تعالی ہمیں ایسے تفکروتدبرسے بچائے اوران لوگوں میں سے کرے جواس کاحکم شریف بجالاتے ہیں ۔
(الروض الأنف:أبو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ بن أحمد السہیلی(۳:۲۷۵)

اس سے معلوم ہواکہ معراج کے ذریعے حضورتاجدارختم نبوتﷺکی انبیا ء کرام علیہم السلام سے ملاقاتیں کرواکرآئندہ پیش آنے والے حالات کی طرف اشارات دیئے گئے ، مختلف انبیاء کرام علیہم السلام کو اپنے اپنے زمانے میں مختلف حالات کاسامناکرناپڑااوران کی اقوام نے مختلف نوعیتوں کابرتائوکیا، چنانچہ آپﷺکی جوحالت جس نبی علیہ السلام کے مشابہ تھی اس سے ملاقات کروائی گئی ، جس میں قابل توجہ بات یہ ہے کہ آپﷺکوجس ترتیب سے مختلف احوال سے سابقہ پڑا،اسی ترتیب سے پہلے سے لیکر ساتویں آسمان تک انبیاء کرام علیہم السلام کے ساتھ ملاقاتیں کروائی گئیں ، مثلاًبعثت کے بعد دعوت کاکام شروع کرنے کے بعد آپﷺکوآپﷺ کی قوم نے مکہ سے ہجرت کرنے پرمجبورکردیاتھا، گویایہ آپﷺکی پہلی حالت تھی جوحضرت سیدناآدم علیہ السلام کی جنت سے دنیاکی طرف نکالے جانے یعنی ہجرت کے مشابہ تھی توسب سے پہلے حضرت سیدناآدم علیہ السلام کے ساتھ ملاقات کروائی گئی ۔

اسی طرح بعد میں پیش آنے والے احوال جس ترتیب سے جس نبی علیہ السلام کے احوال کے مشابہ تھے انہیں سے ملاقات کروائی گئی یہاں تک کہ ساتویں آسمان میں بانی کعبہ مشرفہ حضرت سیدناابراہیم علیہ السلام کے ساتھ ملاقات کروائی گئی جوآپﷺکی آخری حالت حجۃ الوداع کی طرف اشارہ تھا۔ گویاآپﷺکے سامنے آپﷺکی دعوت وتحریک کی ترتیب پیش کی گئی اوریوں آپﷺکو تسلی دی گئی کہ بتدریج حالات میں بہتری آئے گی اورآپ ﷺکوکامیابی ، فتح اورغلبہ حاصل ہوگا، لھذاگھبرانے اوردلبرداشتہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے جیساکہ اللہ تعالی کافرمان عالی شان ہے {وَ لَلْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ لَّکَ مِنَ الْاُوْلٰی}(اور بے شک پچھلی تمہارے لیے پہلی سے بہتر ہے)
لھذاداعی کے لئے لازم ہے کہ وہ مخالفین کی مخالفت ، ظلم وستم ، جبروتشدد، رکاوٹوں سے خوفزدہ ہوئے بغیراس بات پریقین رکھے کہ غلبہ دین کی تحریک میں یہ مراحل آتے رہتے ہیں اوردین دشمن لوگ اپنی چالوں سے حق کودبانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اورحالات بتدریج بہتری کی طرف بڑھتے رہتے ہیں اوربالآخر فتح وغلبہ کامرحلہ ضرورآتاہے۔

انبیاء کرام علیہم السلام کے ساتھ ملاقات کی جووجوہات بیان کی گئی ہیں ان کے متعلق مزیدمطالعہ کرنے کے لئے سورۃ بنی اسرائیل کے تحت روح البیان ، تفسیرالمناسبات اورسیرت حلبیہ میں ملاحظہ فرمائیں۔اورروح البیان میں بہت زبردست طریقہ کے ساتھ اسے بیان کیاگیاہے اہل ذوق وہاں ضرورمطالعہ کریں۔

اسی طرح اللہ تعالی آج بھی جس درویش سے کام لیناچاہتاہے اسے بھی اپنی نشانیاں دکھاکراس کادل مضبوط کردیتاہے جیسے غازی علم الدین شہیدرحمہ اللہ تعالی کو میانوالی جیل میں حضرت سیدناموسی علیہ السلام کی زیارت کروائی گئی اورحضورتاجدارختم نبوتﷺکی متعددبار زیارت کاشر ف بخشاگیا، اسی طرح جب حضرت غازی ملک ممتاز حسین قادری شہیدرحمہ اللہ تعالی کو جیل میں بندکیاگیاتوبھی ان کو بیداری میں متعددبارحضورتاجدارختم نبوتﷺکی زیارت کاشرف ملا۔ محترم جناب غازی تنویرحسین قادری رضوی حفطہ اللہ کو بھی بہت بڑی نشانیاں دکھائی گئیں اورغیبی آواز سنائی گئی اورجب گستاخ کوقتل کرنے کے لئے روانہ ہوئے توعرض کی کہ مجھے تویہ علم نہیں کہ وہ کہاں رہتاہے ؟ تواللہ تعالی نے آسمانی بدلی ان کے ساتھ کردی ، یہ اسے دیکھ کرچلتے رہے یہاں تک کہ اس گستاخ کی دکان پرجاپہنچے اوراسے واصل باالنارکیا۔ اوراسی طرح ابھی کچھ دن پہلے جب غازی محمدفیصل خان جوپشاورسے تعلق رکھنے والے ہیں نے ایک گستاخ کو عدالت میں ہی قتل کردیا، انہوں نے خود بیان کیاکہ ان کو خواب میں حضورتاجدارختم نبوتﷺنے خودپستول عطافرمایااورفرمایاکہ اسے تم قتل کردو۔
جن سے اللہ تعالی اپنے دین کے غلبہ کے لئے کام لیناچاہتاہے ان کو اپنی نشانیاں بھی بڑی دکھاتاہے تاکہ ان کادل اورایمان مضبوط ہوجائے۔

دوسرامسئلہ
جس طرح قوم قریش نے معراج کی تکذیب کی ،پھراللہ تعالی نے حضرت سیدناجبریل امین علیہ السلام کے ذریعے بیت المقدس کانظارہ اپنے حبیب کریم ﷺکے سامنے رکھ دیاچنانچہ آپ ﷺنے دیکھتے ہوئے ان کے سوالات کے ٹھیک ٹھیک جوابات دے کران کو خاموش کرادیا، اسی طرح زمانہ رسالت مآب ﷺسے لیکرآج تک دشمنان اسلام خاص کریہودونصاری نے اس حق وصداقت کے واقعہ کو اتنااچھالااورغلط پیرایہ پراس کی اتنی تشہیرکی جس کی حدنہ ہو، یہاں تک کہ یہود ونصاری کے غلام اورانگریزی خواںلبرل وسیکولرطبقہ نے چہ میگوئیاں شروع کردیں اورمعراج شریف کاانکارکرتے ہوئے اسے غیرممکن کہاکہ ایک رات کے بہت مختصروقت اتنی زمینی اورآسمانی مسافتوں کو کیسے طے کیاجاسکتاہے ، کبھی کہتے ہیں کہ اوپرکرہ نارہے جس میں ہرچیز جل کربھسم ہوجاتی ہے یاکرہ زمہریرہے جس میں پہنچ کرہرچیزمنجمدہوجاتی ہے یاکرہ ہواہے جوہرچیزکو فناکردیتی ہے یااوپرجانے کے بعد آکسیجن ختم ہوجاتی ہے وغیرہ وغیرہ جتنے منہ اتنی باتیں۔

کبھی پہلے زمانہ میں کوئی اس طرح کی بات کرتاتواس کی کچھ وجہ بھی تھی کہ اس وقت دنیامیں سادگی تھی کوئی خوارق عادت ایجادات کاوجود نہ تھا، اب دنیانے توان تمام اشکالات اورشکوک وشبہات کاپردہ چاک کرکے بہت سے محالات کو ممکنات کی صف میں لاکھڑاکیا، آج لوگ چاند پرپہنچنے کے بعد زیادہ اوپرجانے کے ارادوں میں ہیں ۔ سرعت رفتارکایہ عالم ہے کہ انسان کے ہاتھ کی بنائی ہوئی بجلی کی رفتارایک منٹ میں تقریباًاسی لاکھ میل ہے ، میزائلوں

اوردیگرجدیدآلات کایہ حال ہے کہ انسان نے پوری کائنات کو ایک چھوٹے سے کمپیوٹرمیں بندکیاہواہے ، ایک شخص مشرق میں بیٹھ کر مغرب کو دیکھ رہاہے اورہزاروں میل دورایک دوسرے کو دیکھ رہے ہیں اوربات بھی کررہے ہیں ، پس معراج کے مسئلہ کاتعلق ایک ایسی عظیم ذات کے ساتھ وابستہ ہے جوکہ سورج کو تیرہ لاکھ بارزمین سے بڑے ہونے کے باوجود لاکھوں میل فی منٹ بھگاکرمغرب تک بارہ گھنٹوں میں رواں دواں سیرکراتاہے ، وہ ذات پاک ہرچیز پرقادرہے اس کی قدرت ہرہرچیز پرحاوی ہے ، اس قادرمطلق نے جب حضورتاجدارختم نبوتﷺکواپنے پاس بلایاتوعلویات وسفلیات پوری کائنات کے تکوینی نظام کوتھوڑی دیرکے لئے منجمدکرکے رکھ دیا، اس نکتہ پرغورکرنے سے ہرقسم کے شبہات خودبخودختم ہوجائیں گے اورمعراج کی حقانیت نکھرکرسامنے آجائے گی ۔

حضورتاجدارختم نبوتﷺکے معراج کے قصہ پراعتراض نہ کرو

قال فی التأویلات النجمیۃ کلمۃ سبحان للتعجب بہا یشیر الی اعجب امر من أمورہ تعالی جری بینہ وبین حبیبہ وفی الاسئلۃ الحکم اما اقتران الاسراء بالتسبیح لیتقی بذلک ذو العقل وصاحب الوہم ومن یحکم علیہ خیالہ من اہل التشبیہ والتجسیم مما یخیلہ فی حق الخالق من الجہۃ والجسد والحد والمکان.

ترجمہ :امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی : ۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ تاویلات النجمیہ میں ہے کہ لفظ ’’سبحان‘‘سے جوکہ کلام تعجب ہے سے شروع کرنے میں اس طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالی اورحضورتاجدارختم نبوتﷺکے مابین جوواقعہ ہوانہایت ہی تعجب خیز اورحیرت انگیزہے ۔ اسئلۃ الحکم میں ہے کہ اللہ تعالی نے اسراء کے بیان میں لفظ تنزیہ (سبحان) میں جیسے عقل والوں کو تنبیہ ہے اسی طرح وہمی مزاج کو بھی کہ شب معراج کے واقعات اگرچہ تمھارے عقل وفہم کو وسوسہ میں ڈالیں توبھی دامن حق کو نہ چھوڑنا، اس لئے کہ بظاہرہم نے ان واقعات کو تمھارے امتحان کے لئے بیان کیاہے تاکہ تم کو جہاں عقل وفہم چکردے توفوراًکہہ دیاکروسبحان اللہ ، اس سے اپنے خیالوں کی پیروی کرنے والوں اوراہل تشبیہ وتجسیم کارد ہوگیایعنی ان مذاہب کاجواللہ تعالی کے لئے جہت وحدومکان ثابت کرتے ہیں ۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۶:۱۰۲)

’’بعبدہ ‘‘سے پاگلوں کی تردیدہوگئی

وانما قال بعبدہ دون بنبیہ لئلا یتوہم فیہ نبوۃ والوہۃ کما توہموا فی عیسی ابن مریم علیہما السلام بانسلاخہ عن الأکوان وعروجہ بجسم الی الملأ الأعلی مناقضا للعادات البشریۃ وأطوارہا۔
ترجمہ :بعبدہ میں ایک نکتہ ہے ورنہ بنبیہ کہاجاتا، وہ یہ کہ امت کے بعض پاگل دماغوں میں توہم نہ ہوکہ معاذاللہ !حضورتاجدارختم نبوتﷺنبی بھی ہیں اورخدابھی ہیں ، جیساکہ نصرانیوں نے اپنے نبی علیہ السلام کے لئے سمجھا، جبکہ بعبدہ کہاگیاتوتصریح ہوگئی کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنبی اورعبدہیں ، خدایاخداتعالی کے بیٹے نہیں ہیں۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۶:۱۰۲)

معراج کے انکارکی وجہ سے لوگ مرتدہوگئے

وَلَوْ کَانَ مَنَامًا لَقَالَ بِرُوحِ عَبْدِہِ وَلَمْ یَقُلْ بِعَبْدِہِ وَقَوْلُہُ مَا زاغَ الْبَصَرُ وَما طَغی یَدُلُّ عَلَی ذَلِکَ وَلَوْ کَانَ مَنَامًا لَمَا کَانَتْ فِیہِ آیَۃٌ وَلَا مُعْجِزَۃٌ، وَلَمَافیکذبوک، والأفضل أَبُو بَکْرٍ بِالتَّصْدِیقِ، وَلَمَا أَمْکَنَ قُرَیْشًا التَّشْنِیعُ وَالتَّکْذِیبُ، وَقَدْ کَذَّبَہُ قُرَیْشٌ فِیمَا أَخْبَرَ بِہِ حَتَّی ارْتَدَّ أَقْوَامٌ کَانُوا آمَنُوا، فَلَوْ کَانَ بِالرُّؤْیَا لَمْ یُسْتَنْکَرْ۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکی معراج خواب میں ہوتی تواللہ تعالی { بِرُوحِ عَبْدِہِ }فرماتاکہ اس نے اپنے بندے کی روح کو سیرکرائی اوریہ نہ کہتاکہ {بِعَبْدِہِ }اوراللہ تعالی کایہ فرمان شریف { مَا زاغَ الْبَصَرُ وَما طَغی}اس پردلالت کرتاہے اوراگریہ خواب ہوتی تواس میں کوئی نشانی اورمعجزہ نہ ہوتااورنہ حضرت سیدتناام ہانی رضی اللہ عنہاآپﷺکویہ نہ کہتیں کہ آپﷺ لوگوںکے سامنے بیان نہ کریںوہ آپﷺکوجھوٹاکہیں گے اورنہ ہی اس کے سبب حضرت سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کو فضیلت دی جاتی اورنہ قریش کے لئے تشنیع وتکذیب ممکن ہوتی حالانکہ جب آپ ﷺنے اس بارے میں خبردی توقریش نے آپﷺکو جھٹلایاحتی کہ کچھ لوگ معراج کے انکارکی وجہ سے مرتدہوگئے جوایمان لاچکے تھے ، پس اگریہ خواب ہوتی توکوئی بھی اس کاانکارنہ کرتا۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۱۰:۲۰۴)

زندیق اورملحدمعراج شریف کے منکرہیں

فحدیث الإسراء أجمع علیہ المسلمون، وأعرض عنہ الزنادقۃ والملحدون یُرِیدُونَ لِیُطْفِؤُا نُورَ اللَّہِ بِأَفْواہِہِمْ وَاللَّہُ مُتِمُّ نُورِہِ وَلَوْ کَرِہَ الْکافِرُونَ ۔
ترجمہ :امام ابن کثیرالمتوفی : ۷۷۴ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اہل اسلام اجماعی طورپرمعراج شریف کے قائل ہیںہاں بے شک ملحدین اورزندیق اسکے منکرہیں ۔ وہ اللہ تعالی کے نورانی چراغ کو منہ کی پھونکوں سے بجھاناچاہتے ہیں لیکن وہ پوری روشنی کے ساتھ چمکتاہواہی رہے گااگرچہ کافروں کو برالگے۔
(تفسیر ابن کثیر:أبو الفداء إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی البصری ثم الدمشقی (۵:۴۲)
یادرہے کہ سرسید اورجاویدغامدی اوران کے متبعین بھی معراج شریف کے منکرہیں ۔

Leave a Reply