انبیاء کرام علیہم السلام کامذاق اڑانے والے اوران کی گستاخیاں کرنے والے دنیامیں ہی عذاب میں مبتلاہوئے
{وَلَقَدِ اسْتُہْزِیَ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِکَ فَحَاقَ بِالَّذِیْنَ سَخِرُوْا مِنْہُمْ مَّا کَانُوْا بِہٖ یَسْتَہْزِء ُوْنَ }(۱۰)
ترجمہ کنزالایمان: اور ضرور اے محبوب تم سے پہلے رسولوں کے ساتھ بھی ٹھٹّاکیا گیا تو وہ جو ان سے ہنستے تھے ان کی ہنسی انہیں کو لے بیٹھی۔
ترجمہ ضیاء الایمان :اور اے حبیب کریم ﷺ!بیشک آپ ﷺ سے پہلے رسولوں کابھی مذاق اڑایا گیا تو وہ جو ان میں سے انبیاء کرام علیہم السلام کامذاق اڑاتے تھے ان کو ان کے اس مذاق کی وجہ سے عذاب میں گرفتارکردیاگیا۔
شان نزول
قَالَ:قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ:وَمَرَّ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیمَا بَلَغَنِی بِالْوَلِیدِ بْنِ الْمُغِیرَۃِ، وَأُمَیَّۃَ بْنِ خَلَفٍ، وَأَبِی جَہْلِ بْنِ ہِشَامٍ، فَہَمَزُوہُ وَاسْتَہْزَء ُوا بِہِ، فَغَاظَہُ ذَلِکَ، فَأَنْزَلَ اللَّہُ تَعَالَی عَلَیْہِ فِی ذَلِکَ مِنْ أَمْرِہِمْ: وَلَقَدِ اسْتُہْزِئَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِکَ فَحَاقَ بِالَّذِینَ سَخِرُوا مِنْہُمْ مَا کانوا بہ یستہزؤن.
ترجمہ :حضرت سیدناامام محمدبن اسحاق رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ مجھے یہ خبرپہنچی ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکاگزرولید بن مغیرہ ، امیہ بن خلف اورابوجہل بن ہشام کے پاس سے ہواتوانہوںنے حضورتاجدارختم نبوتﷺپربہت زیادہ طعن وتشنیع کی اورآپ ﷺکامذاق اڑایا، ان کی اس گستاخی کی وجہ سے آپ ﷺبہت زیادہ پریشان اورغضبناک ہوئے تب اللہ تعالی نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی ۔{وَلَقَدِ اسْتُہْزِئَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِکَ فَحَاقَ بِالَّذِینَ سَخِرُوا مِنْہُمْ مَا کانوا بہ یستہزؤن}
(تفسیر القرآن العظیم لابن أبی حاتم:أبو محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدریس بن المنذر التمیمی (۴:۱۲۶۷)
ان کوعذاب ان کی گستاخیوں کی وجہ سے آیا
عَنِ السُّدِّیِّ، قَوْلَہُ:فَحَاقَ بِالَّذِینَ سَخِرُوا مِنْہُمْ مِنَ الرسل قَوْلَہُ:مَا کَانُوا بِہِ یستہزؤن، یَقُولُ:وَقَعَ بِہِمُ الْعَذَابُ الَّذِی اسْتَہْزَء ُوا بِہِ.
ترجمہ :امام السدی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی کایہ فرمان شریف {فَحَاقَ بِالَّذِینَ سَخِرُوا مِنْہُم}کے بارے میں فرمایاکہ منھم سے مرادانبیاء کرام علیہم السلام ہیں یعنی پھرگھیرلیاانہیں جو انبیاء کرام علیہم السلام کی گستاخیاں کرتے تھے اور{مَا کَانُوا بِہِ یستہزؤن}کے بارے میں فرماتے ہیں کہ انہیں اس چیز نے عذاب میں واقع کیاجس کے ساتھ وہ انبیاء کرام علیہم السلام کی گستاخیاں کرتے تھے ۔
(تفسیر القرآن العظیم لابن أبی حاتم:أبو محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدریس بن المنذر التمیمی (۴:۱۲۶۷)
جب پچھلے انبیاء کرام علیہم السلام کے گستاخ نہیں بچے توپھر۔۔۔
ثُمَّ قَالَ مُؤْنِسًا لِنَبِیِّہِ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ وَمُعَزِّیًا:وَلَقَدِ اسْتُہْزِئَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِکَ فَحاقَ أَیْ نَزَلَ بِأُمَمِہِمْ مِنَ الْعَذَابِ مَا أُہْلِکُوا بِہِ جَزَاء َ اسْتِہْزَائِہِمْ بِأَنْبِیَائِہِمْ. حَاقَ بِالشَّیْء ِ یَحِیقُ حَیْقًا وَحُیُوقًا وَحَیْقَانًا نَزَلَ، قَالَ اللَّہُ تَعَالَی:وَلا یَحِیقُ الْمَکْرُ السَّیِّئُ إِلَّا بِأَہْلِہِ)فاطر:۴۳) و’’ ما‘‘فی قولہ:بِما کانُوا بِمَعْنَی الَّذِی وَقِیلَ: بِمَعْنَی الْمَصْدَرِ أَیْ حاق بہم عاقبۃ استہزائہم.
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ پھراللہ تعالی نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکوتسلی دیتے ہوئے فرمایاکہ {وَلَقَدِ اسْتُہْزِئَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِکَ فَحاق}یعنی جنہوںنے انبیاء کرام علیہم السلام کامذاق اڑایااس کی سزاکے طورپران کو عذاب نازل کرکے ان کو ہلاک اورتباہ کردیاگیاحاق کامعنی ہے اترنا، اللہ تعالی کافرمان عالی شان ہے کہ {وَلا یَحِیقُ الْمَکْرُ السَّیِّئُ إِلَّا بِأَہْلِہ}اورنہیں گھیرتی گھنائونی سازش بجزسازشیوں کے۔ماکانوا میں ماالذی کے معنی میں ہے بعض نے فرمایاکہ مامصدریہ ہے یعنی ان کی گستاخی کے انجام نے ان کو گھیرلیا۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۶:۳۹۳)
اے گستاخو! گستاخوں کے علاقوں کی سیرکرو!
قَوْلُہُ تَعَالَی:(قُلْ سِیرُوا فِی الْأَرْضِ)أَیْ قُلْ یَا مُحَمَّدُ لِہَؤُلَاء ِ الْمُسْتَہْزِئِینَ الْمُسْتَسْخِرِینَ الْمُکَذِّبِینَ:سَافِرُوا فِی الْأَرْضِ فَانْظُرُوا وَاسْتَخْبِرُوا لِتَعْرِفُوا مَا حَلَّ بِالْکَفَرَۃِ قَبْلَکُمْ مِنَ الْعِقَابِ وَأَلِیمِ الْعَذَابِ وَہَذَا السَّفَرُ مَنْدُوبٌ إِلَیْہِ إِذَا کَانَ عَلَی سَبِیلِ الِاعْتِبَارِ بِآثَارِ مَنْ خَلَا مِنَ الْأُمَمِ وَأَہْلِ الدِّیَارِ، وَالْعَاقِبَۃُ آخِرُ الْأَمْرِوَالْمُکَذِّبُونَ ہُنَا مَنْ کَذَّبَ الْحَقَّ وَأَہْلَہُ لَا مَنْ کَذَّبَ بِالْبَاطِلِ.
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی کایہ ارشاد{قُلْ سِیرُوا فِی الْأَرْضِ}یعنی اے حبیب کریم ﷺ!آپ ﷺاپنے گستاخوں کو فرمائیں کہ زمین کاسفرکرواوردیکھواورخبرطلب کرو تاکہ تم جان لوجوعذاب اورعقاب تم سے پہلے گستاخوں پرنازل ہوا، ایساسفرکرنامستحب ہے ، جب پہلی امتوں کے گستاخوں کے اجڑے ہوئے کھنڈرات سے عبرت حاصل کرنے کے لئے ہواوران کاآخری انجام دیکھنے کے لئے ہو، یہاں مکذبوں سے مراد وہ ہیں جنہوںنے انبیاء کرام علیہم السلام اوران کے لائے ہوئے حق کو جھوٹاکہانہ کہ وہ جنہوںنے باطل کو جھوٹاکہا۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۶:۳۹۳)
انبیاء کرام علیہم السلام کے گستاخوں پرعذاب درعذاب
عَنْ قَتَادَۃَ، قَوْلُہُ:(قُلْ سِیرُوا فِی الْأَرْضِ ثُمَّ انْظُرُوا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ)(الأنعام:۱۱)الْمُکَذِّبِینَ:دَمَّرَ اللَّہُ عَلَیْہِمْ وَأَہْلَکَہُمْ ثُمَّ صَیَّرَہُمْ إِلَی النَّارِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناقتادہ رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالی کے اس فرمان شریف {قُلْ سِیرُوا فِی الْأَرْضِ ثُمَّ انْظُرُوا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃ}کے بارے میں یہ قول نقل کیاہے کہ اللہ تعالی کی قسم !انبیاء کرام علیہم السلام کے گستاخوں کاانجام کتنابراہواہے کہ اللہ تعالی نے ان کو تباہ وبربادکرکے رکھ دیاہے اوران کی ہلاکت کے بعد پھرانہیں جہنم کی آگ میں ڈال دیا۔
(تفسیر الطبری :محمد بن جریر بن یزید بن کثیر بن غالب الآملی، أبو جعفر الطبری (۹:۱۶۷)
مکہ مکرمہ میں گستاخوں کاعبرت ناک انجام
إِنَّا کَفَیْناکَ الْمُسْتَہْزِئِینَ ۹۵)بقمعہم وإہلاکہم قال البغوی یقول اللہ تعالی لنبیہ صلی اللہ علیہ وسلم فاصدع بامر اللہ ولا تخف أحدا غیر اللہ فان اللہ تعالی کافیک ممن عاداک کما کفاک المستہزئین وہم خمسۃ نفر من رؤساء قریش الولید بن المغیرۃ المخزومی وکان رأسہم والعاص بن وائل السہمی والأسود ابن المطلب بن الحارث بن اسد بن عبد العزی ابو زمعۃ (وکان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قد دعا علیہ فقال اللہم أعمہ بصرہ واثکلہ بولدہ)والأسود بن عبد یغوث ابن وہب بن عبد مناف بن زہرۃ والحارث بن قیس بن الطلالۃفاتی جبرئیل محمّدا صلی اللہ علیہ وسلم والمستہزء ون یطوفون بالبیت فقام جبرئیل وقام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الی جنبہ فمر بہ الولید بن المغیرۃ فقال جبرئیل یا محمّد کیف تجد ہذا قال بئس عبد اللہ قال قد کفیت وأومأ الی ساق الولید فمر برجل من خزاعۃ ینال بریش نبالہ وعلیہ بردیمان وہو یجر إزارہ فتعلقت شظیۃ من نبل بإزارہ فمنعہ الکبر ان یبطامن فینزعہا وجعلت تضرب ساقہ فخدشتہ فمرض فمات ۔ومر بہ العاص بن وائل فقال جبرئیل کیف تجد ہذا یا محمّد قال بئس عبد اللہ فاشار جبرئیل الی اخمص رجلیہ وقال قد کفیت فخرج علی راحلتہ ومعہ ابنان لہ یتنزہ فنزل شعبا من تلک الشعاب فوطی علی شبرقۃ فدخلت منہا شوکۃ فی اخمص رجلہ فقال لدغت لدغت فطلبوا فلم یجدوا شیئا وانتفخت رجلہ حتّی صارت مثل عنق بعیر فمات مکانہ ومر بہ الأسود بن المطلب فقال جبرئیل علیہ السلام کیف تجد ہذا قال عبد سوء فاشار بیدہ الی عینیہ وقال قد کفیت فعمی قال ابن عباس رضی اللہ عنہما رماہ جبرئیل بورقۃ خضراء فذہب بصرہ ووجعت عیناہ فضرب برأسہ الجدار حتّی ہلک وفی روایۃ الکلبی أتاہ جبرئیل وہو فی اصل شجرۃ ومعہ غلام لہ فجعل ینطح رأسہ بالشجرۃ ویضرب وجہہ بالشوک فاستغاث بغلامہ فقال غلامہ لا اری أحدا یصنع بک شیئا غیر نفسک حتّی مات وہو یقول قتلنی رب محمّدومر بہ الأسود بن عبد یغوث فقال جبرئیل کیف تجد ہذا قال بئس عبد اللہ علی انہ ابن خالی فقال قد کفیت وأشار الی بطنہ فاستسقی بطنہ فمات جنبا وفی روایۃ الکلبی انہ خرج من اہلہ فاصابہ السموم فاسود حتّی صار حبشیا فاتی اہلہ فلم یعرفوہ وأغلقوا دونہ الباب حتّی مات وہو یقول قتلنی رب محمّدومر بہ الحارث ابن قیس فقال جبرئیل کیف تجد ہذا قال عبد سوء فاوما الی رأسہ وقال قد کفیت فامتخط قبحا فقتلہ وقال ابن عباس انہ أکل حوتا مالحا فاصابہ العطش فلم یزل یشرب علیہ من الماء حتّی انفذ بطنہ فمات۔
ترجمہ :یہ لوگ جو آپ ْﷺکی گستاخی کرتے ہیں ان سے نمٹنے کے لئے ہم کافی ہیں ۔ یعنی ان کی جڑاکھاڑ دیں گے اوران کو برباد کردیں گے ۔
امام بغوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے لکھاہے کہ اللہ تعالی نے اپنے نبی ﷺکو حکم دیاکہ آپ ﷺ اللہ تعالی کاحکم پکارکرسنائو، اللہ تعالی کے سواکسی سے مت ڈرو ، تمھارے لئے اللہ تعالی کافی ہے ، مذاق اڑانے والوں اورتمھاری گستاخی کرنے والوں کے مقابلے میں اللہ تعالی نے تمھاری مددکی ، رسول اللہ ﷺکی گستاخی کرنے والے اورآپ ﷺکامذاق اڑانے والے قریش کے پانچ سردارتھے ۔(۱ ) ولید بن مغیرہ مخزومی یہ سب کاسرکردہ تھا، (۲) عاص بن وائل ۔ (۳) اسود بن مطلب بن حارث بن اسد بن عبدالعزی ۔رسول اللہ ﷺنے اس کے خلاف دعاکی تھی اوریہ عرض کی تھی : اے اللہ ! اس کو اندھاکردے اوراس کو لاولدکردے ۔(۴) اسود بن عبدیغوث بن وہب بن مناف بن زہرہ ۔(۵) حارث بن قیس بن الطلالہ ۔
رسول اللہ ﷺکی گستاخیاں کرنے والے کعبہ مشرفہ کاطواف کررہے تھے ، ولید بن مغیرہ آپ ﷺکے پاس سے گزرااتنے میں حضرت سیدناجبریل امین علیہ السلام آگئے اوررسول اللہ ﷺکے پہلومیں کھڑے ہوگئے اورکہاکہ یارسول اللہ ﷺ! یہ کیساشخص ہے ؟ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: یہ بہت براآدمی ہے ۔ حضرت جبریل امین علیہ السلام نے عرض کیا: آپ کاکام اللہ تعالی کی طرف سے پوراکردیاگیاہے ۔ پھرجبریل امین علیہ السلام نے ولید بن مغیرہ کی پنڈلی کی طرف اشارہ کیاچنانچہ ایک دن ولید ایک خزاعی آدمی کی طرف سے ہوکر نکلاوہ شخص اپنے تیروں کے پر درست کررہاتھا، ولید اس وقت یمنی چادراوڑھے غرورسے چل رہاتھا، خزاعی شخص کے تیرکی بوری ولید بن مغیرہ کے تہبندسے الجھ گئی ، انتہائی غرورکی وجہ سے نیچے جھک کر بوری کو تہبندسے نکالناگوارانہ کیااورزورسے اپنی پنڈلی کو دے پٹکااوربور ی سے پنڈلی میں خراش لگ گئی اوراسی خراش کی وجہ سے یہ مرگیا۔
عاص بن وائل بھی رسول اللہ ﷺکے پاس سے گزرااورجبریل امین علیہ السلام نے دریافت کیاکہ یہ کیساشخص ہے ؟ رسول اللہ ﷺنے فرمایاکہ یہ بہت براآدمی ہے ۔حضرت جبریل امین علیہ السلام نے عاص بن وائل کے قدموں کی طرف اشارہ کیا اورعرض کیاکہ آپﷺ کاکام ہوگیاہے اب آپﷺ کو اس کے مقابلے میں کچھ کرنانہیں پڑے گا ،چنانچہ ایک دن عاص بن وائل تفریح کرنے کے لئے اونٹنی پر سوارہوکر اوراپنے دونوں لڑکوں کو ساتھ لیکر مکہ سے باہر نکلااورکسی گھاٹی میں جاکر اترا،وہاں کپڑے کاکوئی ٹکڑاتھا،عاص نے اس پر قدم رکھا،کپڑے میں کوئی کانٹاتھاوہ اس کے تلوے میں چبھ گیا، عاص فوراً چلایامجھے کسی کیڑے نے ڈس لیاہے ۔لوگوں نے اس کے تلوے کو دیکھالیکن تلاش بسیارکے باجود کوئی بھی چیز نظرنہ آئی ۔ٹانگ سوج کراونٹ کی گردن کی طرح ہوگئی ۔آخراسی وقت وہیں مرگیا۔
اسود بن مطلب بھی حضرت سیدناجبریل امین علیہ السلام کی موجود گی میں رسول اللہ ﷺکی طرف سے گزرااورجبریل امین علیہ السلام کے سوال وجواب میں رسول اللہ ﷺنے فرمایا: یہ براآدمی ہے اورجبریل امین علیہ السلام نے حسب سا بق کہاکہ آپ ﷺ کاکام کردیاگیاہے اوراس کی آنکھوں کی طرف اشارہ کیاچنانچہ اسود اندھاہوگیا۔ حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ حضرت سیدناجبریل امین علیہ السلام نے ایک سبز پتااسود پر ماراجس سے اس کی نگاہ جاتی رہی اورآنکھوں میں اتنادردہواکہ دیوارسے سرمارنے لگاآخرکاردیوار میں سرمارمارکرجہنم واصل ہوگیا۔
کلبی کی روایت میں آیاہے کہ اسود اپنے غلام کے ساتھ کسی درخت کی جڑ کے پاس بیٹھاہواتھاکہ حضرت سیدناجبریل امین علیہ السلام وہاں پہنچ گئے اوراسکاسرپکڑ کر درخت میں ٹکرانے اوراس کے منہ پر کانٹے مارنے لگے اسود نے واویلامچادیااورغلام سے مددکاخواستگارہوا، غلام نے کہاکہ مجھے توکوئی اورنظرنہیں آرہا،آپ خود ہی یہ حرکت کررہے ہیں ،کہنے لگاکہ مجھے محمد ﷺ کے رب نے قتل کردیاہے ،یہی الفاظ کہتے کہتے وہ مرگیا۔
اسود بن عبدیغوث بھی گزراتھااورجبریل امین علیہ السلام کے سوال کے جواب میں رسول اللہ ﷺنے فرمایاکہ یہ بھی براآدمی ہے ،باوجودیکہ یہ میرے ماموں کابیٹاہے ۔حضرت سیدناجبریل امین علیہ السلام نے عرض کیا: اب آپﷺ کو اس کے دفاع کی کوئی ضرورت نہیں ہے ،یہ کہتے ہوئے اسود کے پیٹ کی طرف اشارہ کیاجس سے اس کو استسقاء کی بیماری لگ گئی جس کی وجہ سے یہ بھی مرگیا۔
کلبی کی روایت میں آیاہے کہ اسود ایک دن گھرسے نکلاباہرلولگ گئی ، لولگنے کی وجہ سے اس کارنگ انتہائی کالاہوگیاجب گھرآیاتواس کے گھروالوں نے اس کو پہچاننے سے انکارکردیااورگھرسے باہر نکال کردروازہ بندکردیا،اسی حالت میں وہ مرگیااورمرتے مرتے کہتارہاکہ مجھے محمدﷺکے رب تعالی نے قتل کیاہے ۔حارث بن قیس کے متعلق بھی رسول اللہ ْﷺنے جبریل امین علیہ السلام سے فرمایاتھاکہ یہ برابندہ ہے ،حضرت جبریل امین علیہ السلام نے حارث کے سرکی جانب اشارہ کرکے عرض کیاکہ آپﷺ کاکام کردیاگیاہے اب آپ ﷺکو ضرورت نہیں ۔چنانچہ اس کی ناک سے پیپ بہنے لگی اسی سے وہ جہنم واصل ہوا۔
حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ حارث بن قیس نے نمکین مچھلی کھائی تھی جس سے پیاس کی شدت ہوگئی اوربرابرپانی پیتارہاآخرکاراس کاپیٹ پھٹ گیااوروہ مرگیا۔
(دلائل النبوۃ لأبی نعیم الأصبہانی: أبو نعیم أحمد بن عبد اللہ بن أحمد بن إسحاق بن موسی بن مہران الأصبہانی:۲۶۸)
گستاخوں کے تباہ کرنے کاوعدہ بدرمیں پوراکردیاگیا
فاحاط بہم الذی کانوا یستہزئون بہ حیث اہلکوا لاجلہ فاسناد الإحاطۃ والإہلاک الی الرسل من قبیل الاسناد الی السبب والمعنی أحاط اللہ بہم واہلکہم بسبب استہزائہم بالرسل وقد أنجز اللہ ذلک یوم بدر أی انجاز۔
ترجمہ :امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی : ۱۱۲۷ھ)رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ کامعنی یہ ہواکہ وہ جس چیز کے ساتھ انبیاء کرام علیہم السلام کامذاق اڑایاکرتے تھے اسی سے ہی ہلاک وبربادہوئے ۔ اب واضح اورصاف مطلب یہ ہواکہ اللہ تعالی نے ان کو گھیرااورانہیں تباہ وبربادکردیااس لئے کہ انہوںنے انبیاء کرام علیہم السلام کی گستاخی کی اورحضورتاجدارختم نبوتﷺکے ساتھ بھی یہ وعدہ غزوہ بدرمیں پوراکردیاگیا۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۳:۱۲)
گستاخ ہرزمانہ میں رہے ہیں
اعلم ان الاستہزاء من شیم النفوس المتمردۃ بأرباب الدین من الأنبیاء والأولیاء فی کل زمان وحین۔
ترجمہ :امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی : ۱۱۲۷ھ)رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ توجان لے کہ ہرزمانہ میں ایسے سرکش اورگستاخ لوگ رہے ہیں جو انبیاء کرام علیہم السلام اوراولیاء کرام علیہم الرحمہ کی گستاخیاں کرتے رہے ہیں اوران کامذا ق اڑاتے رہے ہیں ۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۳:۱۲)
اورآج بھی لبرل وسیکولر طبقہ داڑھی ،نماز ، قربانی ، حج یہاں تک کہ ہرہرشعائراسلامی کامذاق اڑاتاہے بس فرق یہ ہے کہ پہلے کافریہ کام کرتے تھے آج نام نہادمسلمان جو انگریزی فیکٹری کے تیارکردہ پرزے ہیں وہ کرتے ہیں۔ جس طرح مکہ کے کفارذلیل ورسواہوئے اسی طرح یہ بھی دائمی نارکے مستحق بنے گے ۔ ان شاء اللہ تعالی ۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے گستاخ کاانجام بد
یروی ان النبی علیہ السلام کان جالسا فی المسجد الحرام مع جماعۃ من المستضعفین بلال وصہیب وعماروغیرہم فمر بہم ابو جہل فی ملا من قریش فقال یزعم محمد ان ہؤلاء ملوک الجنۃ فاستہزأ بفقراء المسلمین وقد فعل اللہ بہ ما فعل یوم بدر فنال جزاء استہزائہ وذلک محل العبرۃ لاولی الابصار۔
ترجمہ :ایک مرتبہ حضورتاجدارختم نبوتﷺاپنے چندغریب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ مسجد حرام شریف میں جلوہ گرتھے کہ جن میں حضر ت سیدنابلال رضی اللہ عنہ ، حضرت سیدناصہیب رضی اللہ عنہ اورحضرت سیدناعمار رضی اللہ عنہ تھے تووہاں سے ابوجہل معلون گزراتواس کے ساتھ مکہ کے بڑے بڑے رئوساء بھی تھے ، ابوجہل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف اشارہ کرکے کہنے لگاکہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکہتے ہیں کہ یہ لوگ جنت کے مالک ہیں اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف اشارہ کرکے ان کامذاق اڑاتارہا، اللہ تعالی نے کرم فرمایاصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کامذاق اڑانے والااوران کی گستاخیاں کرنے والا جہنم رسیدہوااوریہ فقراء صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اللہ تعالی کے فضل وکرم سے جنت کے مالک ہوں گے ۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۳:۱۲)
گستاخ کو قبرمیں سکون نہیں ملتا
حکی ان شیعیا یقال لہ ابن ہیلان کان یتکلم بما لا ینبغی فی حق الصحابۃ فبینما ہو یہدم خائطا إذ سقط علیہ فہلک فدفن بالبقیع مقبرۃ المدینۃ فلم یوجد ثانی یوم فی القبر الذی دفن فیہ ولا التراب الذی ردم بہ القبر بحیث یستدل بذلک لنبشہ وانما وجدوا اللبن علی حالہ حسبما شاہدہ الجم الغفیر حتی کان ممن وقف علیہ القاضی جمال الدین وصار الناس یجیئون لرؤیتہ إرسالا الی ان اشتہر امرہ وعد ذلک من الآیات التی یعتبر بہا من شرح اللہ صدرہ نسأل اللہ السلامۃ کذا فی المقاصد الحسنۃ للامام السخاوی فعلم منہ عاقبۃ الطعن والاستہزاء وان اللہ تعالی ینقل جیفۃ الفاسق من المحل المتبرک بہ الی المکان المتشأم منہ کما ورد فی الحدیث الصحیح ۔
ترجمہ :امام إسماعیل بن محمد بن عبد الہادی الجراحی العجلونی الدمشقی، أبو الفداء المتوفی: ۱۱۶۲ھ) رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ ایک رافضی جس کانام ابن ھیلان تھاجو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی گستاخیاں کرتاتھا، ایک دن وہ کسی دیوارکوتوڑرہاتھاکہ اچانک وہ دیواراس پرگرگئی اوروہیں مرگیا، اسے مدینہ منورہ میں جنت البقیع میں دفنایاگیالیکن دوسرے دن قبرکھودی گئی تووہ قبرمیں نہ پایاگیااورنہ ہی اس کی قبرکے نشان کی مٹی بلکہ ایسے معلوم ہوتاتھاکہ اس کی قبرکوکھودکرباہرنکالاگیاہے ، لیکن قبرکی ہیئت کذائیہ اپنے حال پرباقی تھی کہ جس سے کھودکرلے جانے کانام ونشان بھی باقی نہ تھااسے عالقہ کے بہت سے لوگوں نے دیکھااورحضرت قاضی جمال الدین رحمہ اللہ تعالی جو مدینہ منورہ کے قاضی تھے وہ بھی تشریف لائے انہوںنے بھی اپنی آنکھوں سے دیکھابلکہ دوردورسے لوگ چل کراس منظرکودیکھنے کے لئے آئے یہاں تک کہ وہ واقعہ بہت مشہورہوگیااورایک عرصہ تک اس کالوگوں میں چرچارہا۔
یہ بھی اللہ تعالی کی نشانیوں سے ہے لیکن اس کے لئے جس کاسینہ اللہ تعالی کھول دے توایسی باتوں سے عبرت پکڑتاہے ۔ اوراس سے یہ بھی معلوم ہواکہ جو بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کاگستاخ ہوتاہے اس کایہی انجام ہوتاہے کہ اسے متبرک مقامات سے نکال کرمنحوس مقامات کی طرف منتقل کردیاجاتاہے جیساکہ صحیح حدیث شریف میں یہ مضمون بیان ہواہے ۔
(کشف الخفاء ومزیل الإلباس:إسماعیل بن محمد بن عبد الہادی الجراحی العجلونی الدمشقی، أبو الفداء (۱:۲۸۶)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکے گستاخ کاانجام بد
سرائیکی زبان کے بہت بڑے خطیب اورعالم ربانی گزرے ہیں جن کانام سید غلام رسول شاہ صاحب تھاوہ خود کو گامن شاہ کہلواتے تھے اوروجہ یہ بیان کرتے تھے کہ میں اس لائق نہیں ہوں کہ خودکوغلام رسول کہوں ۔ اوریہ بھی ذہن میں رہے کہ آپ رحمہ اللہ تعالی امی تھے اورحامل علم لدنی تھے ، روافض کے خلاف بہت زبردست کلام کرتے تھے اوران کے دلائل کی دھجیاں ادھیڑکررکھ دیتے تھے ۔ فقیرکے ایک کریم بزرگ عالم ربانی حضرت میاں غلام حیدرصاحب حفظہ اللہ تعالی جو کہ انتہائی ثقہ عالم دین ہیں نے بیان کیاکہ یہی حضرت گامن شاہ صاحب رحمہ اللہ تعالی مظفرگڑھ کے ایک علاقہ میں بغرض بیان تشریف لے گئے ، دوران بیان ایک رافضی کھڑاہوااس نے حضرت سیدتناام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکی گستاخی کردی ، آپ رحمہ اللہ تعالی اپنے پاس پستول رکھاکرتے تھے ، اس کی بکواس سنتے ہی پستول نکالااوراسے فوراًگولی مارکرقتل کردیا۔ مجمع میں بھگدڑمچ گئی ، ہرموجود آدمی یہ قتل دیکھتے ہی وہاں سے فرارہوگیاسوائے حضرت پیرگامن شاہ صاحب رحمہ اللہ تعالی کے ، آپ اطمینان کے ساتھ کرسی پرہی جلوہ افروز رہے ، اتنے میں پولیس کو اطلاع کردی گئی توعلاقہ کاتھانے دارآدھمکااورحضرت سیدگامن شاہ صاحب رحمہ اللہ تعالی سے سوالات کرنے لگاکہ آپ نے ایک آدمی کو قتل کردیاہے ، آپ رحمہ اللہ تعالی نے کرسی پربیٹھے ہوئے قسم کھائی کہ میں نے توآج تک کسی بھی انسان کاقتل نہیں کیا، اس نے کہاکہ یہ جو سامنے لاش پڑی ہے ، یہ کیاہے ؟ آپ رحمہ اللہ تعالی فرمانے لگے کہ تم خوددیکھ لوکہ یہ کیاہے ، وہ جب قریب گیااوراس پرسے کپڑاہٹایاتوکیادیکھتاہے کہ وہ خنزیربن چکاتھا۔نعوذ باللہ من ذلک ، پھروہ پولیس والے حضرت گامن شاہ صاحب رحمہ اللہ تعالی سے معذرت کرنے لگے ۔ اس خنزیرکودیکھ کرعلاقے کے بہت سے گستاخوں نے توبہ کی اورمذہب مہذب اہل سنت وجماعت میں شمولیت اختیارکرلی ۔
گستاخوں کے معاملے میں ہمارے بزرگوں کی غیرت
فقیرکے والدماجد حضرت میاں فیاض احمدصاحب حفظہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ہمارے خالو حضرت مفتی اعظم مولاناعطاء محمد صاحب رحمہ اللہ تعالی چک بسی والے جو کہ حضرت سیدناسلطان عبدالحکیم رحمہ اللہ تعالی کے مزاراقدس پر درس نظامی کے مدرس رہے تھے بعد جب وہاں سے رخصت لے کر اپنے علاقہ چک بسی شریف آگئے توکچھ عرصہ بعد وہاں گئے ، تب ان کاایک شاگردجو کہ پہلے سنی تھاان کے وہاں سے آنے کے بعد رافضی ہوگیاتھا، جب آپ اس علاقہ میں پہنچے تواس نے آکراونٹ کی مہارپکڑلی اورکہنے لگاکہ حضورمیرے گھرتشریف لائیں ، آپ رحمہ اللہ تعالی فرمانے لگے کہ میں ایساکبھی بھی نہیں کرسکتاکہ کسی ایسے شخص کے گھرجائوں جو حضورتاجدارختم نبوتﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کاگستاخ ہوتو اس نے وہیں پرہی توبہ کی اورکہاکہ آج سے ہی میں اس گندے مذہب پرلعنت بھیجتاہوں ، بس آپ میرے گھرتشریف لائیں ، آپ رحمہ اللہ تعالی پھربھی راضی نہ ہوئے اورفرمانے لگے کہ جب تک تیرے گھرمیں اس گندے مذہب کی کتب موجود ہیں تب تک میں نہیں آئوں گا، پھراس نے ان کی تمام کتب بیچ چوراہے لاکرآگ میں جھونک دیں ، تب آپ رحمہ اللہ تعالی اس کے گھرتشریف لے گئے۔