مکہ کے کفارکوصحابہ کرام سے اورلبرل وسیکولرکودینی مدارس کے طلبہ سے نفرت کیوں؟
{وَلَا تَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْہَہ مَا عَلَیْکَ مِنْ حِسَابِہِمْ مِّنْ شَیْء ٍ وَّمَا مِنْ حِسَابِکَ عَلَیْہِمْ مِّنْ شَیْء ٍ فَتَطْرُدَہُمْ فَتَکُوْنَ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ }(۵۲){وَکَذٰلِکَ فَتَنَّا بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ لِّیَقُوْلُوْٓا اَہٰٓؤُلَآء ِ مَنَّ اللہُ عَلَیْہِمْ مِّنْ بَیْنِنَا اَلَیْسَ اللہُ بِاَعْلَمَ بِالشّٰکِرِیْنَ }(۵۳)
ترجمہ کنزالایمان: اور دور نہ کرو انہیں جو اپنے رب کو پکارتے ہیں صبح اور شام اس کی رضا چاہتے تم پر ان کے حساب سے کچھ نہیں اور ان پر تمہارے حساب سے کچھ نہیں پھر انہیں تم دور کرو تو یہ کام انصاف سے بعید ہے۔اور یونہی ہم نے ان میں ایک کودوسرے کے لئے فتنہ بنایا کہ مالدار کافر محتاج مسلمانوں کو دیکھ کر کہیں کیا یہ ہیں جن پر اللہ نے احسان کیا ہم میں سے کیا اللہ خوب نہیں جانتا حق ماننے والوں کو۔
ترجمہ ضیاء الایمان:اے حبیب کریم ﷺ!آپ ﷺان لوگوں کواپنی بارگاہ سے دور نہ کریں جو صبح و شام اپنے رب تعالی کو اس کی رضا چاہتے ہوئے پکارتے ہیں۔آپ ﷺپر ان کے حساب سے کچھ نہیں اور ان پرآپﷺکے حساب سے کچھ نہیں۔ پھر آپ ﷺانہیں اپنی بارگاہ سے دور کریں تو یہ کام انصاف سے بعید ہے ۔اور اسی طرح ہم نے ان میں بعض کی دوسروں کے ذریعے آزمائش کی کہ یہ کہیں :کیا یہ لوگ ہیں جن پرہمارے درمیان میں سے اللہ تعالی نے احسان کیا ؟کیا اللہ تعالی شکر گزاروں کو خوب نہیں جانتا؟
شان نزول
عَنْ عَبْدِ اللہِ قَالَ:مَرَّ الْمَلَأُ مِنْ قُرَیْشٍ عَلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَعِنْدَہُ أُنَاسٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ وَصُہَیْبٌ وَخَبَّابٌ، فَقَالُوا:یَا مُحَمَّدُ، أَہَؤُلَاء ِ مَنَّ اللہُ عَلَیْہِمْ مِنْ بَیْنِنَا؟ لَوْ طَرَدْتَ ہَؤُلَاء ِ لَاتَّبَعْنَاکَ، فَأَنْزَلَ اللہُ عَزَّ وَجَلَّ (وَلَا تَطْرُدِ الَّذِینَ یَدْعُونَ رَبَّہَمْ بِالْغَدَاۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیدُونَ وَجْہَہُ) (الأنعام:۵۲)إِلَی قَوْلِہِ (أَلَیْسَ اللہُ بِأَعْلَمَ بِالشَّاکِرِینَ)(الأنعام:۵۳) ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ قریش کی ایک جماعت حضورتاجدارختم نبوتﷺ کے پاس سے گزری اس وقت آپﷺکے پاس حضرت سیدناصہیب رضی اللہ عنہ ، حضرت سیدنابلال رضی اللہ عنہ ، حضرت سیدناخباب رضی اللہ عنہ اورحضرت سیدناعماربن یاسررضی اللہ عنہ جیسے کمزورمسلمان بیٹھے ہوئے تھے توقریشیوں نے کہاکہ اے محمدﷺ!کیاآپ قوم کے ان افراد سے راضی ہیں کہ اللہ تعالی نے ہم پراحسان فرمایاہے ، کیاہم ان لوگوں کی اتباع کریں؟ آپﷺان کو اپنے پاس سے دورکردیں ، اگرآپﷺان کو اپنے پاس سے ہٹادیں توشایدہم بھی آپﷺکی اتباع کرلیں تواللہ تعالی نے ان کے بارے یہ آیات کریمہ نازل فرمائیں۔
(المعجم الکبیر: سلیمان بن أحمد بن أیوب بن مطیر اللخمی الشامی، أبو القاسم الطبرانی (۱۰:۲۱۷)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس بیٹھنابھی ان کوگوارانہ تھا
وَأخرج الزبیر بن بکار فِی أَخْبَار الْمَدِینَۃ عَن عمر بن عبد اللہ بن المُہَاجر مولی غفرۃأَنہ قَالَ فِی أسطوان التَّوْبَۃ: کَانَ أَکثر نَافِلَۃ النَّبِی صلی اللہ عَلَیْہِ وَسلم إِلَیْہَا وَکَانَ إِذا صلی الصُّبْح انْصَرف إِلَیْہَا وَقد سبق إِلَیْہَا الضُّعَفَاء وَالْمَسَاکِین وَأہل الضّر وضیفان النَّبِی صلی اللہ عَلَیْہِ وَسلم والمؤلفۃ قُلُوبہم وَمن لَا مبیت لَہُ إِلَّا الْمَسْجِدقَالَ: وَقد تحلقوا حولہَا حلقا بَعْضہَا دون بعض فَیَنْصَرِف إِلَیْہِم من مُصَلَّاہُ من الصُّبْح فیتلو عَلَیْہِم مَا أنزل اللہ عَلَیْہِ من لیلتہ ویحدثہم ویحدثونہ حَتَّی إِذا طلعت الشَّمْس جَاء َ أہل الطول والشرف والغنی فَلم یَجدوا إِلَیْہِ مخلصاً فتاقت أنفسہم إِلَیْہِ وتاقت نَفسہ إِلَیْہِم فَأنْزل اللہ عز وَجل (واصبر نَفسک مَعَ الَّذین یدعونَ رَبہم بِالْغَدَاۃِ والعشی یُرِیدُونَ وَجہہ)الْکَہْف الْآیَۃ ۲۸ إِلَی مُنْتَہی الْآیَتَیْنِ فَلَمَّا نزل ذَلِک فیہم قَالُوا: یَا رَسُول اللہ صلی اللہ عَلَیْہِ وَسلم لَو طردتہم عَنَّا ونکون نَحن جلساء ک وإخوانک لَا نُفَارِقک فَأنْزل اللہ عز وَجل (وَلَا تطرد الَّذین یدعونَ رَبہم بِالْغَدَاۃِ والعشی) إِلَی مُنْتَہی الْآیَتَیْنِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعمربن عبداللہ بن مہاجرمولی غفرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے اسطوانہ التوبہ کے بارے میں کہاہے کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺاکثرنوافل اس کے پاس ادافرماتے تھے ، جب آپﷺصبح کی نماز سے فارغ ہوتے تواس کے پاس تشریف لاتے ، پھرضعفاء ومساکین اوراہل مصیبت حضورتاجدارختم نبوتﷺکے مہمان اورمولفۃ القلوب تمام لوگ اس ستون کے پاس آجاتے ، اس کے علاوہ وہ لوگ بھی آتے جو رات مسجد شریف میں ہی گزارتے تھے ، یہ تمام لوگ اس ستون کے گردحلقہ بناکربیٹھ جاتے تھے اورحضورتاجدارختم نبوتﷺبھی اپنی جائے نمازسے صبح کی نماز کے وقت ان کی طرف متوجہ ہوجاتے اورانہیں وہ آیات کریمہ پڑھ کرسناتے جو رات کے وقت اللہ تعالی نے آپﷺپرنازل فرمائی ہوتی تھیں، پھرحضورتاجدارختم نبوتﷺان کے ساتھ گفتگوفرماتے یہاں تک کہ سورج طلوع ہوجاتاتوخوشحال اورذی شرف اوراہل ثروت آتے ، توجب وہ آپﷺکواپنے لئے فارغ نہ پاتے توان کے نفس آپ ﷺکے مشتاق ہوتے اورآپ ﷺکادل مبارک ان کی طرف مائل ہوتاتواللہ تعالی نے یہ آیات کریمہ نازل فرمائیں ، پس جب اللہ تعالی نے ان کے بارے میں یہ آیات نازل فرمائیں تووہ کہنے لگے کہ یارسول اللہ ﷺ!اگرآپﷺان کو اپنے پاس سے بھگادیںتوہم آپﷺکے ہم نشین اوربھائی بن کررہیں گے اورکبھی بھی آپﷺسے جدانہیں ہوں گے تواللہ تعالی نے یہ آیات کریمہ نازل فرمائیں۔
(وفاء الوفاء:علی بن عبد اللہ بن أحمد الحسنی الشافعی، نور الدین أبو الحسن السمہودی (۲:۴۲)
وہ ساتھ کھڑے ہوکرنماز اداکرنے کو تیارنہ تھے
وَأخرج ابْن مرْدَوَیْہ عَن ابْن عَبَّاس (وَکَذَلِکَ فتنا بَعضہم بِبَعْض) الْآیَۃقَالَ: ہم أنَاس کَانُوا مَعَ النَّبِی صلی اللہ عَلَیْہِ وَسلم من الْفُقَرَاء فَقَالَ أنَاس من أَشْرَاف النَّاس:نؤمن لَک فَإِذا صلینَا مَعَک فَأخر ہَؤُلَاء ِ الَّذین مَعَک فلیصلوا خلفنا۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمااس آیت کریمہ {وَکَذَلِکَ فتنا بَعضہم بِبَعْض}کی تفسیرمیں فرماتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکے ساتھ فقراء میں سے کچھ لوگ تھے ، تومکہ مکرمہ کے امیروں نے کہاکہ ہم آپﷺپرایمان لے آئیں گے لیکن جب ہم نمازپڑھنے لگیں توآپﷺان لوگوں کو اپنے پیچھے سے ہٹادیں گے تاکہ وہ ہمارے پیچھے کھڑے ہوکرنمازاداکریں۔
(الدر المنثور:عبد الرحمن بن أبی بکر، جلال الدین السیوطی (۳:۲۷۵)
کفارمکہ کاصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ایمان پرحملہ
لما لم یقتصر المشرکون فی طعن فقراء المسلمین علی وصفہم بکونہم موالی ومساکین بل طعنوا فی ایمانہم ایضا حیث قالوا یا محمد انہم انما اجتمعوا عندک وقبلوا دینک لانہم یجدون عندک مأکولا وملبوسا بہذا السبب والا فہم عارون عن دینک والایمان بک دفع اللہ تعالی ما عسی یتوہم کونہ مسوغا لطردہم من أقاویلہم فقال ما عَلَیْکَ ای لیس علیک الا اعتبار ظاہر حالہم وہو اتسامہم بسمۃ المتقین وان کان لہم باطن غیر مرضی کما یقولہ المشرکون فمضرۃ حساب ایمانہم لا ترجع الا إلیہم لا إلیک لان المضرۃ المرتبۃ علی حساب کل نفس عائدۃ إلیہا لا الی غیرہا فالمقصود منہ دفع طعن الکفار وتثبیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی تربیۃ الفقراء وادنائہم.
ترجمہ :امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی : ۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ مکہ مکرمہ کے کفارنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اظہارنفرت کیابلکہ انہوں نے ایمان میں بھی طعن وتشنیع کی کہ وہ فقراء ومساکین دین اسلام کوصرف اس لئے قبول کرتے ہیںکہ حضورتاجدارختم نبوتﷺسے کھاناپینااورلباس وغیرہ مفت میں ملتارہے ، اورانہیں دین اسلام کے ساتھ دورکابھی واسطہ نہیں ہے ، نعوذباللہ من ذلک ۔اللہ تعالی نے ان کے اعتراض کو خوددفع فرمایاکہ اے حبیب کریم ﷺ!آپ کے لئے توان کے ظاہری حال پراعتبارکرناضروری ہے کہ وہ متقین کاطریقہ رکھتے ہیںاگرچہ بقول مشرکین ان کاباطنی حال خراب ہواس لئے ان کے ایمان کاحساب اوراس کاضررانہیں پہنچے گا، آپﷺسے کسی قسم کاحساب نہ ہوگااس لئے کہ ہر ایک کاحساب اسی کی طرف
لوٹتاہے کسی دوسرے کو اس سے کسی قسم کانقصان نہ ہوگا۔
اس آیت کریمہ میں کفارکے طعن وتشنیع کارداورحضورتاجدارختم نبوتﷺکو اپنے طریقہ کارپرثابت قدمی کی تلقین فرمائی گئی کہ آپﷺفقراء ومساکین کی جس طرح تربیت فرمارہے ہیں فرماتے جائیں اورانہیں زیادہ سے زیادہ اپنے قریب لائیں۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۳:۳۶)
اگرغریب مجھ سے پہلے اسلام قبول نہ کرتاتومیں بھی مسلمان ہوجاتا
قال الکلبی ان الشریف إذا نظر الی للوضیع قد اسلم قبلہ استنکف وانف ان یسلم وقال قد سبقنی ہذا بالإسلام فلا یسلم۔
ترجمہ :امام الکلبی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اگرکوئی اونچے گھروالے سے کوئی غریب گھرانے والاپہلے اسلام قبول کرلیتاتوکہتاکہ اگریہ میرے سے پہلے اسلام قبول نہ کرتاتومیں بھی مسلمان ہوجاتالیکن چونکہ اب مجھ سے پہلے یہ مسلمان ہوچکاہے اس لئے میں اسلام قبول نہیں کرتا، اس حقارت ونفرت کی وجہ سے وہ اسلام کی دولت سے محروم رہتا۔
روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۳:۳۶)
ایک بادشاہ کادینی مدرسہ کے طلبہ کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنا
پادشاہ بدیدہ استحقاردرطائفہ درویشاںنظرکردے یکے ازمیاںبفراست بجائے آوردوگفت اے ملک !مادریں دنیابہ عیش از اتوخوشتریم وبہ جیش از توبکمتریم وبمگرگ برابریم وبقیامت بہتران شاء اللہ تعالی ۔
اگرکشورکشائی کامران است وگردرویش حاجتمندنان است
دراں ساعت کہ خواہندوایں وآں مرد نخواہنداز جہاں بیش از کفن برد
چورخت از مملکت بربست خواہی گدائی بہتراست از پادشاہی
ترجمہ:حضرت سیدناشیخ سعدی الشیرازی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ایک بادشاہ نے دینی مدرسہ کے طلبہ کو حقارت کی نگاہ سے دیکھاتوان طلبہ میں ایک طالب علم دانائی کے ساتھ بادشاہ کی نیت کو جان گیااوراس نے کہاکہ اے بادشاہ !اس دنیامیں ہم تجھ سے زیادہ خوشحال ہیں لیکن اگرلشکردیکھاجائے اورلوگوں کی جمعیت دیکھی جائے توتجھ سے کم ہیں ، لیکن مرنے میں ہم سب برابرہیں اورقیامت کے دن ان شاء اللہ تعالی تجھ سے بہت بہترہوں گے۔
اگرکشورکشائی کامران است وگردرویش حاجتمندنان است
دراں ساعت کہ خواہندوایں وآں مرد نخواہنداز جہاں بیش از کفن برد
چورخت از مملکت بربست خواہی گدائی بہتراست از پادشاہی
اگربادشاہ کامیاب ہے اوردینی مدرسہ کاطالب علم روٹی کاحاجت مندہے ، اس گھڑی جب بادشاہ اوردینی مدرسہ کاطالب علم یعنی علماء اوراہل مذہب اس دنیاسے رخصت ہوں گے تواس جہان سے کفن کے علاوہ کچھ بھی نہیں لے کرجائیں گے ۔اے بادشاہ جب دنیاسے اپنارخت سفرباندھے گاتوپھرتجھے بھی یقین ہوجائے گاکہ ہماری جیسی درویشی ہی بہترتھی تمھاری اس بادشاہی سے ۔
(گلستان سعدی از شیخ مصلح الدین سعدی الشیرازی :۳۳)
امام احمدرضاحنفی رحمہ اللہ تعالی علیہ اورمغرورامیرزادہ
ایک صاحب اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمہ اللہ تعالی کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے اور اعلیٰ حضرت رحمہ اللہ تعالی بھی کبھی کبھی ان کے یہاں تشریف لے جایا کرتے تھے ۔ ایک مرتبہ آپ رحمہ اللہ تعالی ان کے یہاں تشریف فرما تھے کہ ان کے محلے کا ایک بے چارہ غریب مسلمان ٹوٹی ہوئی پرانی چارپائی پر جو صحن کے کنارے پڑی تھی جھجکتے ہوئے بیٹھا ہی تھا کہ صاحبِ خانہ نے نہایت کڑوے تیوروں سے ا س کی طرف دیکھنا شروع کیا یہاں تک کہ وہ ندامت سے سر جھکائے اٹھ کر چلا گیا۔ اعلیٰ حضرت رحمہ اللہ تعالی کو صاحبِ خانہ کی اس مغرورانہ روش سے سخت تکلیف پہنچی مگر کچھ فرمایا نہیں ، کچھ دنوں بعد وہ صاحب اعلیٰ حضرت رحمہ اللہ تعالی کے یہاں آئے تو آپ نے اسے اپنی چارپائی پر جگہ دی۔ وہ بیٹھے ہی تھے کہ اتنے میں کریم بخش حجام اعلیٰ حضرت رحمہ اللہ تعالی کا خط بنانے کے لئے آئے، وہ اس فکر میں تھے کہ کہاں بیٹھوں ؟ اعلیٰ حضرت رحمہ اللہ تعالی نے فرمایا: بھائی کریم بخش!کیوں کھڑے ہو؟ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور ان صاحب کے قریب بیٹھنے کا اشارہ فرمایا۔ کریم بخش حجام ان کے ساتھ بیٹھ گئے ۔ اب ان صاحب کے غصہ کی یہ کیفیت تھی کہ جیسے سانپ پھنکاریں مارتا ہو اور فوراً اٹھ کر چلے گئے پھر کبھی نہ آئے۔ ملخصاً۔
(حیاتِ اعلیٰ حضرت از مولاناظفرالدین بہاری (۱:۱۰۸)
معارف ومسائل
(۱)پہلی آیت کے حوالے سے یہاں فرمایا گیا کہ غریبوں کے ذریعے امیروں کی آزمائش ہوتی رہتی ہے اور گزشتہ انبیاء ِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے صحابہ کے ساتھ بھی یہ ہوتا تھا کہ مالدار کافر غریب مسلمانوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے اور ان کا مذاق اُڑاتے اور ہمیشہ سے کفار کا یہ دستور رہا ہے کہ مسلمانوں کے فقر کو دیکھ کر اسلام کی حقانیت کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر اسلام سچا اور کفر جھوٹا ہے تو مسلمان فقیر اور کفار مالدار کیوں ہیں ؟
(۲) اس سے معلوم ہوا کہ امیری و غریبی کو حق کا پیمانہ قرار نہیں دیا جاسکتا،نیز سابقہ آیت کے شانِ نزول اور اِس آیت کے درس سے بہت سے مذہبی لوگوں اور خود امیروں کو بھی درس حاصل کرنا چاہیے کیونکہ ہمارے زمانے میں بھی یہ رجحان موجود ہے کہ اگر امیر آتا ہے تو اس کی تعظیم کی جاتی ہے جبکہ غریب کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ غریب کی دل شکنی کی جاتی ہے اور امیر کے آگے پیچھے جاتے ہیں اور خود امیروں کی یہ تمنا ہوتی ہے کہ ہمیں ذرا ہٹ کر ڈِیل کیا جائے اور ہمارے لئے اسپیشل وقت نکالا جائے اور ہمارے آنے پر مولوی صاحب ساری مصروفیت چھوڑ کر اس کے پیچھے پھرتا رہے۔ غریب آدمی پاس بیٹھ جائے تو امیر اپنے سٹیٹس کے خلاف سمجھتا ہے ، اُسے غریب کے کپڑوں سے بُو آتی ہے ، غریب کا پاس بیٹھنا اُس کی طبیعت خراب کردیتا ہے، غریب سے ہاتھ ملانا اُس امیر کے ہاتھ پر جراثیم چڑھا دیتا ہے۔ الغرض یہ سب باتیں غرور وتکبر کی ہیں ، ان سے بچنا لازم وضروری ہے۔( تفسیرصراط الجنان ( ۳: ۱۱۷)
(۳) بڑے چھوٹے ، امیروغریب ، آقاوغلام کی تفریق صرف مشرکین عرب میں ہی نہ تھی بلکہ یہ ناہمواروناجائزتفریق پہلے انبیاء کرام علیہم السلام کے زمانہ میں بھی موجودتھی ، اسی طرح یہ تفریق ہمارے زمانے میں بھی بہت عروج پرہے ، جتنی تفریق موجودہ زمانہ میں ہے شایدگزشتہ زمانے میں اس کادسواں حصہ بھی نہ ہو۔ کیونکہ اس خبیث درخت کی نگہداشت اورآبیاری خصوصیت کے ساتھ انگریزوں نے بڑے اہتمام کے ساتھ کی ، اب یہ مردارناسورکینسرکی طرح عرب وعجم اورپوری دنیامیں عروج پرہے ، پہلے زمانہ میں توامیروغریب کی تفریق درمیان میں ہوتی ، اب انگریزوں نے اسے اتنی وسعت دی کہ اب عربی وعجمی ، اوروطنی ولسانی ، علاقائی ، رنگ ونسل اوردیگرکئی قسموں پرمشتمل تفریقوں کادوردورہ ہے ، جس سے خاص کرمسلمانوں کی وحدت واتحاد کاشیرازہ بکھرکررہ گیاہے کہ ایک ہی پاکستان میں پنجابی ، سندھی ، پشتون ، بلوچی ،مہاجرہرمحاذ پرصبح وشام دست وگریبان ہے ۔ ہمارے ہاں عوام توعوام ہے مگرپڑھے لکھے لوگ اورپابندصوم وصلوۃ بھی اس دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں اورباقاعدہ اس منحوس تفریق کی تبلیغ کرتے رہتے ہیں جس طرح اہل اسلام نے اسلامی تعلیمات کی تبلیغ کی تھی ۔ نعوذ باللہ من ذلک ۔
(۴)حضورتاجدارختم نبوتﷺکے زمانہ مبارک میں ایسے بہت سے متکبرتھے جن کاذکرآیت کریمہ میں ہوا، آج بھی ایسے لوگوں کی بہتات ہے جواپنے مال وسرمایہ اقتدارکے نشے میں دین سے وابستہ علماء کرام اوردین کے طلبہ کوحقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں،یہ مالدارلوگ اسلام کے دعوے داربھی ہیں مگراسلام کی روح اوراعمال صالحہ کی خوشبوسے محروم بھی ، جیسے کہ غیرمسلم اقوام یہ لوگ اپنے سے کمترمال والوں اورعوام الناس لوگوں کو حقیرجانتے ہیںکہ ان کے ساتھ نشست وبرخاست توکجاانکے سلام کاجواب دینابھی اچھانہیں سمجھتے ، یہ لوگ مساجد ومدارس ، طلبہ ، علماء طبقہ کو اپنے اوپربوجھ سمجھتے ہیں بلکہ صاف صاف یہ کہتے ہیں کہ یہ معاشرے پربوجھ ہیں اورہرقسم کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ یہی علماء کرام ہیں اورساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں، اسلام کے سب سے پہلے موذن حضرت سیدنابلال رضی اللہ عنہ کے نام پر اپنے بچوں کانام رکھنے کو تیارہیں مگراپنے بچے کو موذن بنانے کے لئے تیارنہیں لیکن دوسرے اذان دینے والے کو حقیرجانتے ہیں بلکہ اذان جب ہوتوسنتے ہی سیخ پاہوجاتے ہیں کہ ہمارے آرام میں خلل واقع ہوگیا، بچوں کی نیندخراب ہوگئی ۔
(۵) موذن کو مسجد کی روٹیاں کھاناحرام کھانے سے ہزاردرجہ بہترہے ، یہ لوگ سودی کاروبارکرکے ، دفتروں میں ، محکموں کے فنڈخوردبردکرکے اوربھاری رشوتیں لیکرپیسے جمع کرتے ہیں ، یہ سب دوزخ کے انگارے بن کر ان کو تباہ کریں گے اوران کاحال قیامت کے دن پریشان کن ہوگامگرموذن قبرسے نکلتے ہی سیدھاجنت چلاجائے گا۔
(۶) آجکل کا لبرل وسیکولرطبقہ یہ بھی کہتا ہے کہ ہمیں ملائوں کے اسلام کی ضرورت نہیں ، اس کلمہ کفرکو وہ صبح وشام رٹ لگاکرپڑھتے ہیں جیسے فرعون ملعون نے حضرت سیدناموسی علیہ السلام کو فسادی اوردہشت گردکہاتھایہ موجودہ مغربی تہذیب کادلدادہ اورتمدن کاپجاری بے دین اوردین دشمن طبقہ بھی علماء حق کویہی کہتا ہے اورجدیداسلام اورروشن خیالی پرفخرکرتے ہیں اورانہیں بھی قیامت کے دن معلوم ہوجائے گاکہ ان کاخودساختہ اسلام صرف ان کادھوکہ تھااوروہ حقیقی اسلام سے کوسوں دورتھے ۔
(۷) جوشخص کسی کی وجہ سے دین اوردینی نعمت سے محروم رہے کہ وہ کفارمکہ کے نقش قدم پرچلنے والاہے جیسے آجکل بعض لوگ مسجدشریف کی حاضری سے اس لئے محروم ہیں کہ وہاں فلاں شخص امام ہے ہم اس لئے مسجد شریف نہیں جاتے اورنہ ہی اس کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں ، اس وجہ سے وہ اکیلے نماز اداکرتے ہیں یہ شیطان کادھوکہ ہے ، جب تم اوروہ امام ایک ہی فلٹرسے پانی بھرتے ہو، ایک دکان سے سودالیتے ہواورایک ہی محلہ میں رہتے ہوتوایک مسجدمیں نماز کیوں نہیں پڑھتے ۔کسی کی وجہ سے نماز اورجماعت نہ چھوڑو۔