حضورتاجدارختم نبوتﷺکے گستاخوں کی ذلت وخواری کابیان
{فَقَدْ کَذَّبُوْا بِالْحَقِّ لَمَّا جَآء َہُمْ فَسَوْفَ یَاْتِیْہِمْ اَنْبٰٓؤُا مَا کَانُوْا بِہٖ یَسْتَہْزِء ُوْنَ }(۵){اَلَمْ یَرَوْا کَمْ اَہْلَکْنَا مِنْ قَبْلِہِمْ مِّنْ قَرْنٍ مَّکَّنّٰہُمْ فِی الْاَرْضِ مَا لَمْ نُمَکِّنْ لَّکُمْ وَ اَرْسَلْنَا السَّمَآء َ عَلَیْہِمْ مِّدْرَارًا وَّ جَعَلْنَا الْاَنْہٰرَ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہِمْ فَاَہْلَکْنٰہُمْ بِذُنُوْبِہِمْ وَ اَنْشَاْنَا مِنْ بَعْدِہِمْ قَرْنًا اٰخَرِیْنَ }(۶)
ترجمہ کنزالایمان:تو بیشک انہوں نے حق کو جھٹلایا جب ان کے پاس آیا تو اب انہیں خبر ہوا چاہتی ہے اس چیز کی جس پر ہنس رہے تھے۔ کیا انہوں نے نہ د یکھا کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی سنگتیں کھپا دیں انہیں ہم نے زمین میں وہ جماؤ دیا جو تم کو نہ دیا اور ان پر موسلا دھار پانی بھیجا اور ان کے نیچے نہریں بہائیں تو انہیں ہم نے ان کے گناہوں کے سبب ہلاک کیا اور ان کے بعد اور سنگت اٹھائی۔
ترجمہ ضیاء الایمان: بیشک انہوں نے حق کو جھوٹاکہا جب ان کے پاس آیا تو عنقریب ان کے پاس اس کی خبریں آنے والی ہیں جس کا یہ مذاق اڑاتے تھے۔کیا انہوں نے نہیں د یکھا کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی قوموں کو تباہ کردیا، ان کوہم نے زمین میں وہ قوت و طاقت عطا فرمائی تھی جو تم کو نہیں دی اور ہم نے ان پر موسلا دھار بارش بھیجی اور ان کے نیچے نہریں بہا دیں پھر ان کے گناہوں کی وجہ سے انہیں ہلاک کردیا اور ان کے بعد دوسری قومیں پیدا کردیں۔
آ یت نمبرپانچ میںحق سے قرآنِ مجیدکی آیات مراد ہیں یاحضورتاجدارختم نبوتﷺاور آپﷺکے معجزات کہ جب بھی قرآن کی آیتیں یا حضورتاجدارختم نبوتﷺکے معجزات کفارِ مکہ کے سامنے آتے حضورتاجدارختم نبوتﷺ انہیں کچھ سمجھاتے تو وہ آپﷺکو جھٹلاتے۔ اس پر فرمایا کہ عنقریب ان کے پاس خبریں آنے والی ہیں اس چیز کی جس کا یہ مذاق اڑاتے تھے اور انہیں معلوم ہو جائے گا کہ وہ کیسی عظیم الشان خبر ہے اور اس کی ہنسی بنانے کا انجام کیسا خوفناک ہے ۔
کفارمکہ کی کمال بدبختی
فَقَدْ کَذَّبُوا بِالْحَقِّ لَمَّا جاء َہُمْ فان الحق عبارۃ عن القرآن الذی اعرضوا عنہ حیث اعرضوا عن کل آیۃ منہ وعبر عنہ بذلک لکمال قبح ما فعلوا بہ فان تکذیب الحق مما لا یتصور صدورہ عن أحد۔
ترجمہ :امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی : ۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جب کفارمکہ کے پاس حضورتاجدارختم نبوتﷺحق لے کرآئے توانہوںنے انکارکردیا، یہاں حق سے مراد قرآن کریم ہے یعنی انہوں نے قرآن کریم کی ہرہرآیت کریمہ کاانکارکردیا، قرآن کریم کو حق سے تعبیرکرنے میں اس طرف اشارہ ہے کہ وہ اتنے بدبخت تھے کہ ایسے کلام کاانکارکردیاجواللہ تعالی کی طرف سے نازل کردہ تھا،یہ ان کے کمال قبح کی دلیل ہے ۔ اس لئے کہ حق کی تکذیب توکسی فردوبشرسے متصورہی نہیں لیکن ان بدبختوں نے اس کوبھی جھوٹاکہہ دیا۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۳:۸)
پہلے گستاخ بھی مال ودولت کے دلدادہ تھے مگراللہ تعالی نے سب کو تباہ کردیا
وَجَعَلْنَا الْأَنْہارَ ای صیرناہا تَجْرِی مِنْ تَحْتِہِمْ ای من تحت أشجارہم ومساکنہم وقصورہم والمعنی أعطیناہم من البسط فی الأجسام والامتداد فی الأعمار والسعۃ من الأموال والاستظہار بأسباب الدنیا فی استجلاب المنافع واستدفاع المضار ما لم نعط اہل مکۃ ففعلوا ما فعلوا من الکفران والعصیان فَأَہْلَکْناہُمْ بِذُنُوبِہِمْ ای أہلکت کل قرن من تلک القرون بسبب ما یخصہم من الذنوب فما اغنی عنہم تلک العدد والأسباب فسیحل بہؤلاء مثل ما حل بہم من العذاب وَأَنْشَأْنا مِنْ بَعْدِہِمْ ای أحدثنا من بعد إہلاک کل قرن قَرْناً آخَرِینَ بدلا من الہالکین وہو لبیان کمال قدرتہ تعالی وسعۃ سلطانہ وان ما ذکر من إہلاک الأمم الکثیرۃ لم ینقص من ملکہ شیئا بل کلما أہلک امۃ انشأ بدلہا اخری یعمر بہم بلادہ ومن عادتہ تعالی اذہاب اہل الظلم بعد الامہال ومجیئہ باہل العدل والانصاف ونفی اہل الریاء والسمعۃ واثبات اہل الصدق والإخلاص ولن یزال الناس من اہل الخیر فی کل عصر ۔
ترجمہ :امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی : ۱۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی نقل کرتے ہیںکہ اللہ تعالی نے پچھلی امتوں کے درختوں اورمکانوں کے نیچے نہریں جاری فرمائی تھیں ، اوریہ کہ ہم نے ان کے اجسام تندرست اورصحت اورعمروں میں برکت اوراموال میں وسعت دی ،یعنی دنیوی اسباب میں انہیں کسی قسم کی کمی نہیں تھی ، وہ جس طرح کے منافع یاجس طرح سے نقصانات کادفیعہ چاہتے ، انہیں ہرطرح کی سہولتیں میسرتھیں جوتمھیں اے مکہ والوں اس کادسواں حصہ بھی میسرنہیں ہے لیکن انہوںنے اتنی وسعت کے باوجود انبیاء کرام علیہم السلام کی گستاخیاں کیں اوران کی نافرمانیاں کیں۔
پھرہم نے ان کی گستاخیوں کی وجہ سے انہیں تباہ وبربادکرڈالایعنی ہر زمانہ کے لوگ اپنے مخصوص گناہوں کی وجہ سے تباہ وبربادہوئے نہ ان کی کثرت نے بچایااورنہ ہی دنیوی اسباب کی وافرت کی وجہ سے بچ سکے ۔ کچھ تمھاری حالت بھی یہی ہے کہ ان کی طرح تم پر بھی اللہ تعالی کے عذاب کانزول ہوگا۔
اورہرزمانے کے لوگوں کے تباہ وبربادہونے کے بعدہم نے نئے لوگ پیداکئے ۔ اوردوسرے زمانے کے لوگ یعنی ہلاک ہونے والوں کے بعد ہم نے اورلوگ پیداکردئیے ، اس میں اللہ تعالی نے اپنی کمال قدرت کااظہارفرمایاکہ ان لوگوں کے باربارتباہ ہونے کے باوجوداللہ تعالی کے ملک ومِلک میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں آئی بلکہ ایک قوم کی تباہی وبربادی کے بعد ہم نے اورقوم پیدافرمادی جوشہروں اورملکوں کو آکرآبادکرتی رہی ۔ اسی لئے اللہ تعالی کی عادت کریمہ ہے اہل ظلم کوچنددن کی مہلت دیتاہے پھران کو فناکرکے اہل عدل وانصاف کو پیدافرماتاہے اسی طرح اہل ریاوسمعہ کومٹاکراہل صدق واخلاص کو پیدافرماتاہے یہی وجہ ہے کہ ہرزمانہ میںاہل صدق ووفاپیداہوتے رہتے ہیں۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۳:۸)
حضورتاجدارختم نبوتﷺکے گستاخوں کو بدرمیں ان کی گستاخیوں کامزہ چکھایاگیا
قَوْلُہُ تَعَالَی:(فَقَدْ کَذَّبُوا)یَعْنِی مُشْرِکِی مَکَّۃَ(بِالْحَقِّ)یَعْنِی الْقُرْآنَ، وَقِیلَ:بِمُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ(فَسَوْفَ یَأْتِیہِمْ) أَیْ یَحِلُّ بِہِمِ العقاب، وأراد بالإنباء وَہِیَ الْأَخْبَارُ الْعَذَابَ، کَقَوْلِکَ:اصْبِرْ وَسَوْفَ یَأْتِیکَ الْخَبَرُ أَیِ الْعَذَابُ، وَالْمُرَادُ مَا نَالَہُمْ یَوْمَ بدر ونحوہ. وقیل:یوم القیامۃ.
ترجمہ:امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی کافرمان عالی شان ہے کہ {فَقَدْ کَذَّبُوا}’’انہوںنے حق کو جھوٹاکہا‘‘اس سے مراد مکہ مکرمہ کے کفارہیں ۔ اورحق سے مراد قرآن کریم ہے اوربعض علماء کرام نے یہ بھی بیان کیاہے کہ اس سے مراد حضورتاجدارختم نبوتﷺکی ذات والاصفات ہے ۔ ان پراللہ تعالی عنقریب عذاب نازل فرمائے گا۔ الانباء سے مراد اخبارہیں یعنی عذاب جیسے تیراقول توصبرکرعنقریب تیرے پاس خبریعنی عذاب آجائے گا، اس سے مراد وہ ہے جو انہیں جنگ بدرمیں پہنچی اوربعض علماء کرام نے یہ بھی فرمایاہے کہ اس سے مراد قیامت کاعذاب ہے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی شمس الدین القرطبی (۶:۳۹۰)
جب ایک معجزہ کاانکارکیاتوسب کاانکارہوگیا
فَقَدْ کَذَّبُوا بِالْحَقِّ بالقران وقیل بمحمد علیہ السّلام لَمَّا جاء َہُمْ الفاء للتفریع علی ما سبق فانہم لما اعرضوا عن الآیات کلہا کذبوا بالحق الذی جاء ہم فانہ من الآیات او للسببیۃ یعنی انہم لما کذبوا بالقران الذی ہو أعظم المعجزات باہر الاعجاز لفظا ومعنی فی کل حین وزمان وکذبوا محمدا صلی اللہ علیہ وسلم مع ظہور اعجاز وجودہ الشریف حیث کان مولودا فیہم امیا لم یقرء ولم یکتب فی زمان الجاہلیۃ وفترۃ العلم والحکمۃ وقد تفجر منہ ینابیع العلم والحکمۃ والآداب علی ما تساعدہ الکتب القیمۃ المتقدمۃ وأقر بنبوتہ القسیسین والأحبار والرہبان فکیف لا یعرضون عن افراد المعجزات
ترجمہ :امام قاضی ثناء اللہ پانی پتی حنفی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ کفارمکہ نے حق کوجھوٹاکہاجب حق ان کے پاس آیا، یہاں حق سے مراد قرآن کریم یاحضورتاجدارختم نبوتﷺکی ذات کریمہ ہے یعنی جب انہوںنے تمام معجزات کاانکارکردیاتو قرآن کریم کابھی انکارکردیا، یہ بھی ایک معجزہ ہی ہے ’’با‘‘سببیہ ہے یعنی جب انہوںنے قرآن کریم کی تکذیب کی جولفظاًاورمعناًہرزمانہ میں واضح ترین معجزہ ہے اورحضورتاجدارختم نبوتﷺکی تکذیب کی جن کاوجودبجائے خود معجزہ ہے ، ایک شخص انہی میں پیداہوااوراس نے نہ کسی سے کچھ پڑھانہ لکھاپھرایسے شخص سے علم وحکمت کے چشمے پھوٹیں ، جس کی تائیدسابقہ آسمانی کتابوں سے ہورہی ہے اوراس کی نبوت کااقراربڑے بڑے یہودی علماء اورنصرانی علما ء کرچکے ہیں لیکن انہوںنے اس کی نبوت کابھی اقرارنہیں کیاتوپھردوسرے متفرق معجزات سے روگردانی کیوں نہیں کریں گے ۔
(التفسیر المظہری:المظہری، محمد ثناء اللہ(۳:۲۱۶)
امیرزادے انبیاء کرام علیہم السلام کے گستاخ کیوں؟
فَأَہْلَکْناہُمْ إذا جاء تہم الرسل وکذبوہم بِذُنُوبِہِمْ بسبب عصیانہم الرسل ولم یغن مکنتہم فی الدنیا ورفاہیتہم فیہا عنہم شیئا فکیف یغنی ہؤلاء الکفار أسبابہم فی الدنیا إذا کذبوا محمدا صلی اللہ علیہ وسلم۔
ترجمہ :اللہ تعالی نے ارشادفرمایاکہ پھرہم نے ان کے گناہوںکی وجہ سے ان کو ہلاک کردیایعنی جب ہدایت کرنے کے لئے انکے پاس انبیاء کرام علیہم السلام تشریف لائے توانہوںنے انبیاء کرام علیہم السلام کو جھوٹاکہاتوہم نے ان کو ان کی اس گستاخی کی وجہ سے تباہ کردیا، اس وقت ان کی دنیوی طاقت اورخوش عیشی کچھ کام نہ آئی ، پس یہ کافرجب حضورتاجدارختم نبوتﷺکوجھوٹاکہتے ہیں اورقرآن کریم کاانکارکرتے ہیں تودنیوی سازوسامان ان کو تباہی سے نہیں بچاسکتا۔
(التفسیر المظہری:المظہری، محمد ثناء اللہ(۳:۲۱۶)
معارف ومسائل
(۱)اس سے پہلی آیات میں سرزنش اور وعید کے ذریعے کفارِ مکہ کواللہ تعالیٰ کی نشانیوں سے منہ پھیرنے، حق کو جھٹلانے اور اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کا مذاق اڑانے سے منع کیا گیا اور ا س آیت میں سابقہ قوموں کا عبرت ناک انجام بیان کر کے انہیں نصیحت کی جا رہی ہے ،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ کیا شام اور دیگر ملکوں کی طرف سفر کرنے کے دوران کفارِ مکہ نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی قوموں کو ہلاک کردیا۔ اے اہلِ مکہ!ہم نے انہیں زمین میں وہ قوت و طاقت عطا فرمائی تھی جو تمہیں نہیں دی اور جب انہیں ضرورت پیش آئی تو ہم نے ان پر موسلا دھار بارش بھیجی جس سے ان کی کھیتیاں شاداب ہوئیں اور ان کے درختوں ، رہائش گاہوں اور محلات کے قریب نہریں بہا دیں جس سے باغ پرورش پائے ،پھلوں کی کثرت ہوئی اور دنیا کی زندگانی کے لئے عیش و راحت کے اسباب بَہم پہنچے لیکن جب انہوں نے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب کی اور ان کے احکامات کو جھٹلایا تو پھر ہم نے ان کے گناہوں کی وجہ سے انہیں ہلاک کردیا اور ان کی یہ جاہ و حشمت اور سازو سامان انہیں ہلاکت سے نہ بچاسکا اور ان کے بعد دوسری قومیں پیدا کردیں اور دوسرے لوگوں کو ان کا جانشین بنا دیا۔ ان کاعبرت ناک انجام دیکھ کر تم بھی نصیحت حاصل کرو اور سابقہ کفار والی روش اختیار نہ کرو ورنہ تم پر بھی ویسا ہی عذاب آ سکتا ہے۔
(۲)اس آیت میں گزری ہوئی اُمتوں کا جو حال اور انجام بیان کیا گیا کہ وہ لوگ قوت ، دولت اور مال و عیال کی کثرت کے باوجود کفر و سرکشی اور انبیاء ِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے احکام کی مخالفت کرنے کی وجہ سے ہلاک کردیئے گئے، اس میں بطورِ خاص کفار اور عمومی طور پر ہر مسلمان کے لئے عبرت اور نصیحت ہے ،ا س لئے سب کو چاہئے کہ اُن کے حال سے عبرت حاصل کرکے خواب ِغفلت سے بیدار ہوں اور کفر و سرکشی اور گناہوں کو چھوڑ کر ایمان، اطاعت، عبادت اور نیک کاموں میں مصروف ہو جائیں۔
(۳)اس آیت سے یہ بات معلوم ہوئی کہ دنیوی خوشحالی ، مال و دولت اور سہولیات کی کثرت اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا مندی کی علامت نہیں ورنہ قارون تو بہت بڑا مقبولِ بارگاہِ الٰہی ہوتا۔ یہاں سے ان لوگوں کو درس حاصل کرنا چاہیے جو مسلمانوں کے مقابلے میں کفار کی دنیوی ترقی، سائنسی مہارت، سہولیات کی کثرت، ایجادات کی بہتات، مال و دولت کی فراوانی دیکھ کر انہیں بارگاہِ الٰہی میں مقبول اور مسلمانوں کو مردود سمجھتے ہیں اور اخلاق و کردار میں مسلمانوں کو کفار کی تقلید کامشورہ دیتے ہیں۔ کفار کی یہ دنیوی کامیابی مقبولیت کی نہیں بلکہ مہلت کی دلیل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ وہ کافروں کی جلد پکڑ نہیں فرماتا بلکہ انہیں مہلت دیتا اور آسائشیں عطا فرماتا ہے،پھر انہیں اپنے عذاب میں مبتلا کرتا ہے۔ نیز نام نہاد دانشور، مسلمانوں کو یورپ کی اندھی تقلید کا نہ ہی فرمائیں تو بہتر ہے اور وہ اپنی قارونی سوچ اپنے پاس ہی رکھیں۔ (تفسیرصراط الجنان ( ۳:۷۰،۷۱)