دنیاپرست ہی انبیاء کرام علیہم السلام کی دعوت کے دشمن اوران کے گستاخ بنتے ہیں
{وَکَمْ قَصَمْنَا مِنْ قَرْیَۃٍ کَانَتْ ظَالِمَۃً وَّ اَنْشَاْنَا بَعْدَہَا قَوْمًا اٰخَرِیْنَ }(۱۱){فَلَمَّآ اَحَسُّوْا بَاْسَنَآ اِذَا ہُمْ مِّنْہَا یَرْکُضُوْنَ }(۱۲){لَاتَرْکُضُوْا وَارْجِعُوْٓا اِلٰی مَآ اُتْرِفْتُمْ فِیْہِ وَ مَسٰکِنِکُمْ لَعَلَّکُمْ تُسْـَلُوْنَ }(۱۳){قَالُوْایٰوَیْلَنَآ اِنَّاکُنَّا ظٰلِمِیْنَ }(۱۴){فَمَا زَالَتْ تِّلْکَ دَعْوٰیہُمْ حَتّٰی جَعَلْنٰہُمْ حَصِیْدًا خٰمِدِیْنَ }(۱۵)
ترجمہ کنزالایمان:اور کتنی ہی بستیاں ہم نے تباہ کردیں کہ وہ ستمگار تھیں اور ان کے بعد اور قوم پیدا کی۔ تو جب انہوں نے ہمارا عذاب پایا جبھی وہ اس سے بھاگنے لگے۔نہ بھاگو اور لوٹ کے جاؤ ان آسائشوں کی طرف جو تم کو دی گئیں تھیں اور اپنے مکانوں کی طرف شاید تم سے پوچھنا ہو ۔بولے ہائے خرابی ہماری بیشک ہم ظالم تھے ۔تو وہ یہی پکارتے رہے یہاں تک کہ ہم نے انہیں کردیا کاٹے ہوئے بجھے ہوئے۔
ترجمہ ضیاء الایمان: اور کتنی ہی بستیاں ہم نے تباہ کردیںان میں رہنے والے لوگ ظالم تھے اور ان کے بعد ہم نے دوسری قوم پیدا کردی۔تو جب انہوں نے ہمارا عذاب پایا تو اچانک وہ اس سے بھاگنے لگے ۔بھاگو نہیں اوران آسائشوں کی طرف لوٹ آوجو تمہیں دی گئی تھیں اور اپنے مکانوں کی طرف لوٹ آئوشاید تم سے سوال کیا جائے ۔انہوں نے کہا:ہائے ہماری بربادی!بیشک ہم ظالم تھے۔ تو یہی ان کی چیخ و پکاررہی یہاں تک کہ ہم نے انہیں کٹے ہوئے ، بجھے ہوئے کردیا۔
ایک شخص نے اللہ تعالی کے نبی علیہ السلام کی گستاخی کی تو۔۔۔
وَأخرج ابْن مرْدَوَیْہ من طَرِیق الْکَلْبِیّ عَن ابْن عَبَّاس قَالَ:بعث اللہ نَبیا من حمیر یُقَال لَہُ شُعَیْب فَوَثَبَ إِلَیْہِ عبد بعصا فَسَار إِلَیْہِم بخْتنصر فَقَاتلہُمْ فَقَتلہُمْ حَتَّی لم یبْق مِنْہُم شَیْء وَفِیہِمْ أنزل اللہ (وَکم قصمنا من قَرْیَۃ کَانَت ظالمۃ)إِلَی قَوْلہ: (خامدین)
ترجمہ
حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے مروی ہے کہ اللہ تعالی نے حمیرقبیلہ سے ایک نبی علیہ السلام کو مبعوث فرمایا، جن کانام شعیب علیہ السلام تھا، ان پرایک غلام نے حملہ کردیااورانہیں ڈنڈامارا، پس اس قوم کی طرف بخت نصرگیااوراس نے ان کے ساتھ جنگ کی اورانہیں قتل کردیاحتی کہ ان کاایک بھی شخص باقی نہ رہا۔یہ آیت کریمہ انہیں کے متعلق نازل ہوئی ۔
(الدر المنثور:عبد الرحمن بن أبی بکر، جلال الدین السیوطی (۵:۶۱۸)
مال دارہی انبیاء کرام علیہم السلام کی دعوت کے دشمن بنتے ہیں
عَنْ وہب قَالَ:حدثنی رجل مِنَ المجررین قَالَ: کَانَ بالیمن قریتان، یقال لإحداہما حضور، وللأخری فلانۃ، فبطروا وأترفوا حتی کانوا یغلقون أبوابہم، فلما أترفوا بعث اللہ إلیہم نبیا فدعاہم فقتلوہ، فألقی اللہ فی قلب بختنصر أن یغزوہم فجہز إِلَیْہِمْ جیشًا فقاتلوہم فہزموا جیشہ، ثُمَّ رجعوا منہزمین إلیہ فجہز إِلَیْہِمْ جیشًا آخر أکثف مِنَ الأول فہزموہم أیضًا، فلما رأی بختنصر ذَلِکَ غزاہم ہُوَ بنفسہ فقاتلوہ فہزمہم، حتی خرجوا منہا یرکضون فسمعوا منادیًا یَقُولُ: لا ترکضوا وارجعوا إلی ما أترفتم فیہ ومساکنکم فرجعوا فسمعوا منادیا یقول:یا لثارات النَّبِیّ، فقتلوا بالسیف فہی التی قَالَ اللہ: وَکَمْ قَصَمْنَا مِنْ قَرْیَۃٍ إِلَی قَوْلِہِ خَامِدِینَ ۔
ترجمہ :حضرت سیدناوہب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مجھے مجررین میں سے ایک شخص نے بتایاکہ یمن میں دوشہرتھے ، ایک کانام ’’حضور‘‘تھااوردوسرے کانام بھی اس نے بتایا، پس وہ لوگ مال ودولت حشمت وثروت پراترانے اورگھمنڈکرنے لگے حتی کہ انہوںنے اپنے دروازے بندکرلئے، جب ان کاغروروتکبرحدسے بڑھاتواللہ تعالی نے ان کی طرف ایک نبی علیہ السلام کومبعوث فرمایا، جنہوںنے ان کو دعوت توحیداورپیغام رسالت پہنچایالیکن ان بدبختوں نے ان نبی علیہ السلام کو قتل کردیا، اللہ تعالی نے بخت نصرکے دل میں ان سے جنگ کرنے کی خواہش ڈال دی ، اس نے ان کی طرف ایک لشکرروانہ کیا، انہوںنے اس کے ساتھ جنگ کی اوراس کے لشکرکوشکست دے دی ، پھروہ لشکربخت نصرکے پاس شکست خوردہ ہوکرواپس آیا، بخت نصرنے دوسرالشکربھیجاجوپہلے لشکرسے زیادہ مسلح تھا، پس انہوںنے دوسرے لشکرکوبھی شکست دے دی ، جب بخت نصرنے یہ کیفیت دیکھی تواس نے خود معرکہ میں شریک ہونے کاارادہ کیا، اس نے خود جنگ میں حصہ لیااورانہیں شکست دی ،حتی کہ وہ اپنے گھروں سے نکل کربھاگے توانہوںنے ایک آواز سنی ، بھاگومت اورلوٹوان کی آسائشوں کی طرف جوتم کو دی گئی تھیں ، پس وہ لوٹے ، پھرانہوںنے ایک آواز سنی کہ یہ ان نبی علیہ السلام کابدلہ ہے جوتم نے شہیدکئے ہیں ، پھران کو تلواروں کے ساتھ قتل کیاگیا، ا س کے متعلق اللہ تعالی نے فرمایا{وَکَمْ قَصَمْنَا مِنْ قَرْیَۃٍ کَانَتْ ظَالِمَۃً وَأَنْشَأْنَا بَعْدَہَا قَوْمًا آخَرِینَ}
(تفسیر لابن أبی حاتم:أبو محمد عبد الرحمن بن محمد الحنظلی، الرازی ابن أبی حاتم (۸:۲۴۴۷)
گستاخوں نے ایک ہی دن میں دوانبیاء کرام علیہم السلام کوقتل کردیا
وَقَالَ أَہْلُ التَّفْسِیرِ وَالْأَخْبَارِ:إِنَّہُ أَرَادَ أَہْلَ حَضُورَ وَکَانَ بُعِثَ إِلَیْہِمْ نَبِیٌّ اسْمُہُ شُعَیْبُ بْنُ ذِی مَہْدَمٍ، وَقَبْرُ شُعَیْبٍ ہَذَا بِالْیَمَنِ بِجَبَلٍ یُقَالُ لَہُ ضَنَنُ کَثِیرُ الثَّلْجِ، وَلَیْسَ بِشُعَیْبٍ صَاحِبِ مَدْیَنَ، لِأَنَّ قِصَّۃَ حَضُورَ قَبْلَ مُدَّۃِ عِیسَی عَلَیْہِ السَّلَامَ، وَبَعْدَ مِئِینَ مِنَ السِّنِینَ مِنْ مُدَّۃِ سُلَیْمَانَ عَلَیْہِ السَّلَامُ، وَأَنَّہُمْ قَتَلُوا نَبِیَّہُمْ وَقَتَلَ أَصْحَابُ الرَّسِّ فِی ذَلِکَ التَّارِیخِ نَبِیًّا لَہُمُ اسْمُہُ حَنْظَلَۃُ بْنُ صَفْوَانَ، وَکَانَتْ حَضُورُ بِأَرْضِ الْحِجَازِ مِنْ نَاحِیَۃِ الشَّامِ، فَأَوْحَی اللَّہُ إلی أرمیا أن ایت بخت نصر فَأَعْلِمْہُ أَنِّی قَدْ سَلَّطْتُہُ عَلَی أَرْضِ الْعَرَبِ وَأَنِّی مُنْتَقِمٌ بِکَ مِنْہُمْ، وَأَوْحَی اللَّہُ إِلَی أَرْمِیَا أَنِ احْمِلْ مَعْدَ بْنَ عَدْنَانَ عَلَی الْبُرَاقِ إِلَی أَرْضِ الْعِرَاقِ، کَیْ لَا تُصِیبَہُ النِّقْمَۃُ وَالْبَلَاء ُ مَعَہُمْ، فَإِنِّی مُسْتَخْرِجٌ مِنْ صُلْبِہِ نَبِیًّا فِی آخِرِ الزَّمَانِ اسْمُہُ مُحَمَّدٌ، فَحَمَلَ معد وہو ابن اثنتی عَشْرَۃَ سَنَۃً، فَکَانَ مَعَ بَنِی إِسْرَائِیلَ إِلَی أَنْ کَبِرَ وَتَزَوَّجَ امْرَأَۃً اسْمُہَا مُعَانَۃَ، ثُمَّ إن بخت نصر نَہَضَ بِالْجُیُوشِ، وَکَمَنَ لِلْعَرَبِ فِی مَکَانٍ وَہُوَ أَوَّلُ مَنِ اتَّخَذَ الْمَکَامِنَ فِیمَا ذَکَرُواثُمَّ شَنَّ الْغَارَاتِ عَلَی حَضُورَ فَقَتَلَ وَسَبَی وَخَرَّبَ الْعَامِرَ، وَلَمْ یَتْرُکْ بِحَضُورَ أَثَرًا، ثُمَّ انْصَرَفَ راجعا إلی السواد۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی کے اس فرمان شریف {وَکَمْ قَصَمْنَا مِنْ قَرْیَۃٍ کَانَتْ ظَالِمَۃً وَأَنْشَأْنَا بَعْدَہَا قَوْمًا آخَرِینَ}میں قریۃ سے مراد وہ شہرہیں جویمن میں تھے ، اہل تفسیر اوراہل اخبارنے کہاہے کہ اس سے مراد اہل حضورہیں ، یہ قوم وہ تھی جن کی طرف ایک نبی علیہ السلام کو مبعوث کیاگیاتھا، جن کانام حضرت سیدناشعیب بن ذی مہدم علیہ السلام تھا، اوران کامزاریمن میں ایک پہاڑکے پاس ہے ، جو ضمنن کہاجاتاہے اورا س میں کثیرنمک ہے ، یہ شعیب علیہ السلام وہ نہیں ہیں جوحضرت سیدناموسی علیہ السلام والے تھے کیونکہ وہ صاحب مدین تھے کیونکہ اہل حضورکاقصہ حضرت سیدناعیسی علیہ السلام سے کچھ مدت پہلے کاہے اورحضرت سیدناسلیمان علیہ السلام کی مدت سے دوسوسال بعد ہوا، ان لوگوں نے اپنے نبی علیہ السلام کوقتل کردیاتھااوراصحاب الرس نے اسی تاریخ کو اپنے نبی علیہ السلام کو قتل کردیا، ان کانام حضرت سیدناحنظلہ بن صفوان علیہ السلام تھا، جو شہرحجاز کی زمین شام کی طرف ہے ۔
اللہ تعالی نے حضرت سیدناارمیاء علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی کہ بخت نصرکے پاس جائیں اوراس سے کہیں کہ میں نے اسے عرب کی زمین پرتسلط دے دیاہے اورمیں تیرے ذریعے ان انبیاء کرام علیہم السلام کے قاتلوں سے بدلہ لینے والاہوں اوراللہ تعالی نے حضرت سیدناارمیا علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی کہ معدبن عدنان رضی اللہ عنہ کو براق پرسوارکرکے عراق کی زمین کی طرف بھیج دیں تاکہ اسے ان کے ساتھ عذاب اورمصیبت نہ پہنچے کیونکہ میں ان کی صلب سے اپنے حبیب تاجدارختم نبوتﷺکونکالنے والاہوں ، جن کانام نامی اسم گرامی محمدﷺہوگا، حضرت سیدنامعدرضی اللہ عنہ کوحضرت سیدناارمیاعلیہ السلام نے سوارکیاتوان کی عمرمبارک ابھی بارہ سال تھی ،حضرت سیدنامعدرضی اللہ عنہ بنی اسرائیل کے ساتھ رہے ، یہاں تک کہ وہ بڑے ہوگئے اورایک عورت کے ساتھ نکاح کیا، جن کانام معانہ تھا۔
پھربخت نصرلشکروں کولیکرگیااورعربوں کے لئے کمین گاہیں بنائیں ، یہ پہلاشخص تھاجس نے کمین گاہیں بنائیں ، پھراس نے اہل حضورپرکئی حملے کئے ، انہیں قتل کیااوران کو غلام بنالیااوران کی آبادیوں کوخراب کردیااوراس نے اہل حضورکانام ونشان تک مٹادیا، پھروہ السواد کی طرف لوٹا۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۱۱:۲۷۲)
انبیاء کرام علیہم السلام کے گستاخوں پربخت نصرکومسلط کیاگیا
وَقِیلَ:الْمَعْنَی لَعَلَّکُمْ تُسْئَلُونَ أَیْ تُؤْمِنُوا کَمَا کُنْتُمْ تُسْأَلُونَ ذَلِکَ قَبْلَ نُزُولِ الْبَأْسِ بِکُمْ، قِیلَ لَہُمْ ذَلِکَ اسْتِہْزَاء ً وَتَقْرِیعًا وَتَوْبِیخًا(قالُوا یَا وَیْلَنا)لَمَّا قَالَتْ لَہُمُ الْمَلَائِکَۃُ:لَا تَرْکُضُوا” وَنَادَتْ یَا لِثَارَاتِ الْأَنْبِیَاء ِ! وَلَمْ یَرَوْا شَخْصًا یُکَلِّمُہُمْ عَرَفُوا أَنَّ اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ ہُوَ الَّذِی سَلَّطَ عَلَیْہِمْ عَدُوَّہُمْ بِقَتْلِہِمُ النَّبِیَّ الَّذِی بُعِثَ فِیہِمْ، فَعِنْدَ ذَلِکَ قَالُوا یَا وَیْلَنا إِنَّا کُنَّا ظالِمِینَ۔فَاعْتَرَفُوا بِأَنَّہُمْ ظَلَمُوا حِینَ لَا یَنْفَعُ الِاعْتِرَافُ. (فَما زالَتْ تِلْکَ دَعْواہُمْ) أَیْ لَمْ یَزَالُوا یَقُولُونَ:یَا وَیْلَنا إِنَّا کُنَّا ظالِمِینَ۔
ترجمہ :اوربعض علماء کرام نے یہ بیان کیاہے کہ {لَعَلَّکُمْ تُسْئَلُونَ}تاکہ تم سے ایمان لانے کاسوال کیاجائے جیساکہ تم پرعذاب کے نزول سے پہلے یہ سوال کیاگیاتھا، ان کو یہ استہزاء تفریع اورتوبیخ کے لئے کہاجائے گا، {قالُوا یَا وَیْلَنا}جب ملائکہ کرام علیہم السلام نے ان کو کہا: بھاگومت اورکہاکہ یہ جوتم پراللہ تعالی کاعذاب آیاہے یہ بدلہ ہے اس کاکہ تم نے جوانبیاء کرام علیہم السلام کو شہیدکیاہے ، انہوںنے کلام کرتے ہوئے کوئی شخص نہ دیکھاجبکہ یہ آواز آرہی تھی تووہ جان گئے کہ اللہ تعالی نے ان پران کے دشمن کومسلط کردیاہے کیونکہ انہوںنے انبیاء کرام علیہم السلام کو قتل کیاتھاجوان کی طرف مبعوث کئے گئے تھے ، اس وقت ان لوگوںنے کہا: {یَا وَیْلَنا إِنَّا کُنَّا ظالِمِین}انہوںنے ظالم ہونے کااعتراف اس وقت کیاجب ان کااعتراف نفع بخش نہ تھا۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۱۱:۲۷۲)
گستاخوں کوجڑسے کاٹ دیاگیا
(حَتَّی جَعَلْناہُمْ حَصِیداً) أَیْ بِالسُّیُوفِ کَمَا یُحْصَدُ الزَّرْعُ بِالْمِنْجَل۔
ترجمہ :امام أبو الحسن علی بن أحمد بن محمد بن علی الواحدی، النیسابوری، الشافعی المتوفی : ۴۶۸ھ) رحمہ اللہ تعالی اللہ تعالی کے اس فرمان شریف {حَتَّی جَعَلْناہُمْ حَصِیداً}کے تحت فرماتے ہیں کہ ان گستاخوں کو تلواروں کے ساتھ اس طرح کاٹ دیاجس طرح درانتی کے ساتھ کھیتی کاٹی جاتی ہے ۔
(الوسیط فی تفسیر القرآن المجید:أبو الحسن علی بن أحمد بن محمد بن علی الواحدی، النیسابوری، الشافعی (۳:۲۲۳)