حضرت سیدنانوح علیہ السلام کے گستاخوں کاانجام
{لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰی قَوْمِہٖ فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہ اِنِّیْٓ اَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ }(۵۹){قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِہٖٓ اِنَّا لَنَرٰیکَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ }(۶۰){قَالَ یٰقَوْمِ لَیْسَ بِیْ ضَلٰلَۃٌ وَّلٰکِنِّیْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ }(۶۱){اُبَلِّغُکُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ اَنْصَحُ لَکُمْ وَاَعْلَمُ مِنَ اللہِ مَا لَاتَعْلَمُوْنَ }(۶۲){اَوَعَجِبْتُمْ اَنْ جَآء َکُمْ ذِکْرٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ عَلٰی رَجُلٍ مِّنْکُمْ لِیُنْذِرَکُمْ وَ لِتَتَّقُوْا وَلَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ }(۶۳){فَکَذَّبُوْہُ فَاَنْجَیْنٰہُ وَالَّذِیْنَ مَعَہ فِی الْفُلْکِ وَ اَغْرَقْنَا الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا اِنَّہُمْ کَانُوْا قَوْمًا عَمِیْنَ}(۶۴)
ترجمہ کنزالایمان:بیشک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تو اس نے کہا: اے میری قوم! اللہ کو پوجو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں بیشک مجھے تم پر بڑے دن کے عذاب کا ڈر ہے۔ اس کی قوم کے سردار بولے بیشک ہم تمہیں کھلی گمراہی میں دیکھتے ہیں۔کہا اے میری قوم !مجھ میں گمراہی کچھ نہیں میں تو ربُّ العالمین کا رسول ہوں۔ تمہیں اپنے رب کی رسالتیں پہنچاتا اور تمہارا بھلا چاہتا اور میں اللہ کی طرف سے وہ علم رکھتا ہوں جو تم نہیں رکھتے۔ اور کیا تمہیں اس کا اچنبھا ہوا کہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک نصیحت آئی تم میں کے ایک مرد کی معرفت کہ وہ تمہیں ڈرائے اور تم ڈرو اور کہیں تم پر رحم ہو۔تو انہوں نے اسے جھٹلایا تو ہم نے اسے اور جو اس کے ساتھ کشتی میں تھے نجات دی اور اپنی آیتیں جھٹلانے والوں کو ڈبو دیا بیشک وہ اندھا گروہ تھا۔
ترجمہ ضیاء الایمان :بیشک ہم نے نوح علیہ السلام کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو انہوںنے فرمایا:اے میری قوم !اللہ تعالی کی عبادت کرو ۔ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔بے شک میں تم پر بڑے دن کے عذاب کا ڈررکھتا ہوں۔ان کی قوم کے سردار بولے :بیشک ہم تمہیں کھلی گمراہی میں دیکھتے ہیں۔نوح علیہ السلام نے فرمایا:اے میری قوم!مجھ میں کوئی گمراہی نہیں لیکن میں تو رب العالمین کا رسول ہوں۔میں تمہیں اپنے رب تعالی کے پیغامات پہنچاتا ہوں اور تمہاری خیرخواہی کرتا ہوں اور میں اللہ تعالی کی طرف سے وہ علم رکھتا ہوں جو تم نہیں رکھتے۔ اور کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہے کہ تمہارے پاس تمہارے رب تعالی کی طرف سے تمہیں میں سے ایک مرد کے ذریعے نصیحت آئی تاکہ وہ تمہیں ڈرائے اور تاکہ تم ڈرواور تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔تو انہوں نے حضرت سیدنا نوح علیہ السلام کو جھوٹاکہا تو ہم نے ان کواور جو ان کے ساتھ کشتی میں تھے سب کو نجات دی اور ہماری آیتیں جھٹلانے والوں کو غرق کر دیا بیشک وہ اندھے لوگ تھے۔
حضرت سیدنانوح علیہ السلام کوجھوٹاکہتے!
عَن ابْن عَبَّاس أَن نوحًا بعث فِی الْألف الثَّانِی وَأَن آدم لم یمت حَتَّی ولد لَہُ نوح فِی آخر الْألف الأول وَکَانَ قد فَشَتْ فیہم الْمعاصِی وَکَثُرت الْجَبَابِرَۃ وعتوا عتوّاً کَبِیرا وَکَانَ نوح یَدعُوہُم لَیْلًا وَنَہَارًا سرا وَعَلَانِیَۃ صبوراً حَلِیمًا وَلم یلق أحد من الْأَنْبِیَاء أَشد مِمَّا لَقِی نوح فَکَانُوا یدْخلُونَ عَلَیْہِ فیخنقونہ وَیضْرب فِی الْمجَالِس ویطرد وَکَانَ لَا یدع علی مَا یصنع بِہِ أَن یَدعُوہُم وَیَقُول: یَا رب اغْفِر لقومی فَإِنَّہُم لَا یعلمُونَ فَکَانَ لَا یزیدہم ذَلِک إِلَّا فِرَارًا مِنْہُ حَتَّی إِنَّہ لیکلم الرجل مِنْہُم فیلف رَأسہ بِثَوْبِہِ وَیجْعَل أَصَابِعہ فِی أُذُنَیْہِ لکیلا یسمع شَیْئا من کَلَامہ فَذَلِک قَول اللہ (جعلُوا أَصَابِعہم فِی آذانہم واستغشوا ثِیَابہمْ)نوح الْآیَۃ ثمَّ قَامُوا من الْمجْلس فاسرعوا الْمَشْی وَقَالُوا: امضوا فَإِنَّہُ کَذَّاب وَاشْتَدَّ عَلَیْہِ الْبلَاء وَکَانَ ینْتَظر الْقرن بعد الْقرن والجیل بعد الجیل فَلَا یَأْتِی قرن إِلَّا وَہُوَ أَخبث من الأول وأعتی من الأول وَیَقُول الرجل مِنْہُم: قد کَانَ ہَذَا مَعَ آبَائِنَا وأجدادنا فَلم یزل ہَکَذَا مَجْنُونا وَکَانَ الرجل مِنْہُم إِذا أوصی عِنْد الْوَفَاۃ یَقُول لأولادہ:احْذَرُوا ہَذَا الْمَجْنُون فَإِنَّہُ قد حَدثنِی آبَائِی:إِن ہَلَاک النَّاس علی یَدی ہَذَا فَکَانُوا کَذَلِک یتوارثون الْوَصِیَّۃ بَینہم حَتَّی إِن کَانَ الرجل لیحمل وَلَدہ علی عَاتِقہ ثمَّ یقف بِہِ وَعَلِیہِ فَیَقُول:یَا بنی ان عِشْت ومت أَنا فاحذر ہَذَا الشَّیْخ فَلَمَّا طَال ذَلِک بِہِ وبہم (قَالُوا یَا نوح قد جادلتنا فَأَکْثَرت جدالنا فأتنا بِمَا تعدنا إِن کنت من الصَّادِقین)
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ حضرت سیدنانوح علیہ السلام دوسرے ہزار میں مبعوث ہوئے ، حضرت سیدناآدم علیہ السلام کاوصال شریف نہیں ہواتھا، یہاں تک کہ پہلے ہزاربرس کے آخرمیں حضرت سیدنانوح علیہ السلام کی ولادت باسعادت ہوئی ، لوگوںمیں گناہ عام ہوچکے تھے ، ظلم وزیادتی کرنے والے جابرحکمران کثیرتعداد میں تھے اوران میں تکبررعونت بھی انتہائی طورپربھرچکی تھی ، حضرت سیدنانوح علیہ السلام انتہائی صبراوربردباری کے ساتھ دن رات ، سراًوعلانیۃًان کو دعوت حق دیتے تھے ، حضرات انبیاء کرام علیہم السلام میں سے کسی کوبھی اتنے شدیداورسخت حالات پیش نہیں آئے ، جن کاسامنا حضرت سیدنانوح علیہ السلام کو کرناپڑا۔ وہ لوگ حضرت سیدنانوح علیہ السلام کے پاس آتے اورپکڑکرگلہ دبادیتے ، اورمجالس میں مارتے اورپھربھاگ جاتے تھے ، آپ علیہ السلام ان کے ایسے سلوک کے باوجود ان کے لئے دعائے جلال نہ کرتے ، بلکہ انکے لئے دعاکرتے {یَا رب اغْفِر لقومی فَإِنَّہُم لَا یعلمُونَ}اے میرے رب !میری قوم کو بخش دے کیونکہ یہ ( حقیقت حال) کو نہیں جانتے ۔مگرآپ علیہ السلام کے حسن سلوک نے ان میں فراراختیارکرنے کے سوااورکچھ اضافہ نہیں کیا، یہا ں تک کہ جب آپ علیہ السلام ان میں سے کسی بھی آدمی سے کلام کرتے ، تووہ اپنے سرکو کپڑے کے ساتھ خوب لپیٹ لیتا، اوراپنے کانوں میں انگلیاں ڈال لیتا، تاکہ آپ علیہ السلام کے کلام میں سے کوئی چیز اس کو سنائی نہ دے۔ اس لئے اللہ تعالی نے فرمایا: {جعلُوا أَصَابِعہم فِی آذانہم واستغشوا ثِیَابہم}توہربارانہوں نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ٹھونس لیں اوراپنے اوپرلپیٹ لئے اپنے کپڑے ۔ پھروہ مجلس سے اٹھ کھڑے ہوتے اورتیزی سے چلے جاتے اورکہتے کہ اسے ( حضرت سیدنانوح علیہ السلام )رہنے دوکیونکہ یہ بہت بڑاجھوٹاہے ( نعوذ باللہ من ذلک ) آپ علیہ السلام پر بڑی شدیداورسخت آزمائشیں آتی رہیں اورآپ علیہ السلام ایک زمانے کے بعد دوسرے زمانے کے لوگوں اورایک نسل کے بعد دوسری نسل کاانتظارکرتے رہے ۔ مگرجو بھی نسل آئی وہ پہلی سے زیادہ خبیث اورپہلی سے زیادہ بڑی متکبراورسرکش نکلی ، اوران میں ایک آدمی یہ کہتے کہ یہ ہمارے آبائواجداد کے ساتھ بھی تھااوریہ مسلسل جنون میں مبتلاء ہے اوران میں سے کوئی بھی آدمی مرتے وقت اپنی اولاد کو یہ وصیت کرتااس مجنوںسے بچ کررہوکیونکہ اس کے بارے میں مجھے میرے آبائواجدادنے بتایاتھاکہ لوگوں کی ہلاکت اوربربادی اسی کے ہاتھوں پر ہے ، پس وہ اس قسم کی وصیت اپنے درمیان کرتے تھے ، یہاں تک کہ کوئی آدمی اپنے بچے کو اپنے کندھے پراٹھاتاپھراس کے ساتھ ٹھہرارہتااوراس پر واقف ہوجاتاتوکہتا: اے میرے بیٹے !میں زندہ رہوں یامرجائوں تواس شخص سے بچنا، توجب آپ علیہ السلام کا ان کے ساتھ ایک طویل زمانہ گزرگیاتوانہوںنے کہا: {قَالُوْا یٰنُوْحُ قَدْ جٰدَلْتَنَا فَاَکْثَرْتَ جِدٰلَنَا فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَآ اِنْ کُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ}(سورۃ ہود:۳۲)
ترجمہ کنزالایمان:بولے اے نوح تم ہم سے جھگڑے اور بہت ہی جھگڑے تو لے آؤ جس کا ہمیں وعدہ دے رہے ہو اگر تم سچے ہو۔
(تاریخ دمشق:أبو القاسم علی بن الحسن بن ہبۃ اللہ المعروف بابن عساکر (۶۲:۲۴۴)
حضرت سیدنانوح علیہ السلام پراتناظلم کرتے کہ آپ بے ہوش ہوجاتے!
عَنْ مُجَاہِدٍ، عَنْ عُبَیْدِ بْنِ عُمَیْرٍ، قَالَ:إنْ کَانَ نُوحٌ لَیَلْقَاہُ الرَّجُلُ مِنْ قَوْمِہِ فَیَخْنُقُہُ حَتَّی یَخِرَّ مَغْشِیًّا عَلَیْہِ، قَالَ: فَیُفِیقُ وَہُوَ یَقُولُ: رَبِّ اغْفِرْ لِقَوْمِی فَإِنَّہُمْ لَا یَعْلَمُونَ ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبیدبن عمیررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنانوح علیہ السلام کوآپ کی قوم اتنامارتی یہاں تک کہ آپ علیہ السلام بے ہوش ہوجاتے ، پھرجب افاقہ ہوتاتواس طرح دعاکیاکرتے تھے {رَبِّ اغْفِرْ لِقَوْمِی فَإِنَّہُمْ لَا یَعْلَمُونَ }اے اللہ !میری قوم کوبخش دے یہ نہیں جانتے ۔
(مصنف ابن ابی شیبہ :أبو بکر بن أبی شیبۃ، عبد اللہ (۷:۱۶۵)
حضرت سیدنانوح علیہ السلام کے زمانے میں صرف زندیق ہلاک ہوئے
عَنِ ابْن مَسعُود، قَالَ: بعث اللَّہ عزَّ وجل نوحا، فما أہلک أُمتہ إلا الزنادقۃ، ثم نَبِیٌّ فَنَبِیٌّ، واللَّہ لا یہلک ہذہ الأُمۃ إلا الزنادقۃ.
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے حضرت سیدنانوح علیہ السلام کو مبعوث فرمایااورزنادقہ کے سواآپ کی امت کو ہلاک نہیں کیا، پھریکے بعددیگرے انبیاء کرام علیہم السلام تشریف لاتے رہے اوراللہ تعالی زنادقہ کے علاوہ اس امت کوہلاک نہیں کرے گا۔
(التاریخ الکبیر:محمد بن إسماعیل بن إبراہیم بن المغیرۃ البخاری، أبو عبد اللہ (۲:۲۳۵)
تنبیہ : یہ ذہن میں رہے کہ لبرل وسیکولرطبقہ بھی زنادقہ ہیں اوران شاء اللہ تعالی ہم ان کاشرعی حکم آگے چل کربیان کریں گے ۔
ہردورمیں لیڈرگستاخ اورگستاخوں کے حامی کیوں ہوتے ہیں؟
قالَ الْمَلَأُ مِنْ قَوْمِہِ استئناف ای الرؤساء من قومہ والاشراف الذین یملأون صدور المحافل باجرامہم والقلوب بجلالہم وہیبتہم والابصار بجمالہم وبہجتہم إِنَّا لَنَراکَ یا نوح فِی ضَلالٍ ذہاب عن طریق الحق والصواب لمخالفتک لنا۔
ترجمہ :امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی : ۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ {قالَ الْمَلَأُ مِنْ قَوْمِہِ }یہ جملہ مستانفہ ہے اورحضرت سیدنانوح علیہ السلام کی قوم کے لیڈروں نے کہا۔ قوم سے مراد وہ سردارہیں جوجرم وقصورکی محفلوں میں سرگرم رکن تھے اوران کی وجہ سے گناہوں کی محفلیں رونق پذیرہوتی تھیں اوروہی ان کے سرغنہ تھے ۔ انہوں نے حضرت سیدنانوح علیہ السلام کی گستاخی کرتے ہوئے کہا: اے نوح!ہم دیکھتے ہیں کہ آپ توگمراہی میں مبتلاء ہیں ۔ یعنی ہم آپ کو سیدھے راہ سے ہٹاہواسمجھتے ہیں۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۳:۱۸۴)
اس آیت کریمہ سے معلوم ہواکہ ہمیشہ امیرزادے ہی انبیاء کرام علیہم السلام کی دعوت کے دشمن رہے ہیں اوریہی ہرزمانے میں انبیاء کرام علیہم السلام کے گستاخ اورگستاخوں کے حامی رہے ہیں جیساکہ ہم آجکل اپنے زمانے کے نام نہادفرنگیوں کے غلام لیڈروں کو دیکھتے ہیںوہ بھی صرف اورصرف پیسے کی خاطرگستاخوں کی حمایت کرتے ہیں ۔
یادرہے پاکستانی حکومت نے بھی گستاخہ آسیہ ملعونہ کوچھوڑنے کے لئے کفارسے پیسے لئے ہیں جس کااقرارانگریزوں نے اپنی پارلیمنٹ میں بیٹھ کرکیااوریہ پاکستانی حکمران بھی کہہ چکے ہیں کہ انہوںنے ان سے پیسے لیئے ہیں ۔
حضرت سیدنانوح علیہ السلام نے ان کے تباہ ہونے کی دعاکی
روی ان نوحا علیہ السلام دعا بہلاک قومہ فامرہ اللہ تعالی بصنع الفلک فلما تم دخل فیہ مع المؤمنین فارسل اللہ الطوفان وأغرق الکفار وأنجی نوحا مع المؤمنین فذلک قولہ تعالی فَأَنْجَیْناہُ وَالَّذِینَ مَعَہُ من المؤمنین وکانوا أربعین رجلا وأربعین امرأۃ فِی الْفُلْکِ
ترجمہ :حضرت سیدنانوح علیہ السلام نے دیکھاکہ یہ بدبخت کوئی بات ہی نہیں مانتے تواللہ تعالی کی بارگاہ میں ان کی تباہی اوربربادی کی دعاکی ، اللہ تعالی نے حضرت سیدنانوح علیہ السلام کو ایک کشتی تیارکرنے کاحکم فرمایا، جب کشتی تیارہوگئی توآپ علیہ السلام اپنی جماعت مومنین کے ساتھ کشتی پر سوارہوئے تواللہ تعالی نے طوفان بھیج کران تمام گستاخوں کو غرق فرمادیا۔ اس طوفان سے حضرت سیدنانوح علیہ السلام اوران کے ماننے والوں نے نجات پائی ۔جیساکہ اللہ تعالی نے فرمایا{ فَأَنْجَیْناہُ وَالَّذِینَ مَعَہ}پس ہم نے انہیں نجات دی اوران لوگوں کوبھی جو آپ علیہ السلام پرایمان رکھنے والے تھے ۔
صرف چالیس مرداورچالیس عورتیں حضرت سیدنانوح علیہ السلام پرایمان لائے تھے جو طوفان سے بچ نکلے ،باقی تمام کفارومشرکین اورگستاخ غرق ہوکرتباہ ہوگئے ۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۳:۱۸۴)
رب تعالی کاعذاب صرف لیڈروں پرنہیں آتابلکہ ۔۔۔
ولیس المراد بہم الملأ المتصدین للجواب فقط بل کل من أصر علی التکذیب منہم ومن أعقابہم.
ترجمہ :امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی : ۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ان غرق ہونے والوں سے صرف لیڈرمراد نہیں ہیں کہ جنہوںنے حضرت سیدنانوح علیہ السلام کی گستاخی کی بلکہ اس سے وہ تمام لوگ مراد ہیں جو حضرت سیدنانوح علیہ السلام کی گستاخی کرتے ہوئے آپ علیہ السلام کو جھوٹاکہاکرتے تھے ۔ اس عذاب میں لیڈربھی اوران کے تابعدار( جیالے ) بھی تباہ ہوئے۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۳:۱۸۴)
ان آیات بینات سے چارفوائد حاصل ہوئے
وَفِیہِ فَوَائِدُ: أَحَدُہَا: التَّنْبِیہُ عَلَی أَنَّ إِعْرَاضَ النَّاسِ عَنْ قَبُولِ ہَذِہِ الدَّلَائِلِ وَالْبَیِّنَاتِ لَیْسَ مِنْ خَوَاصِّ قَوْمِ مُحَمَّدٍ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ بَلْ ہَذِہِ الْعَادَۃُ الْمَذْمُومَۃُ کَانَتْ حَاصِلَۃً فِی جَمِیعِ الْأُمَمِ السَّالِفَۃِ وَالْمُصِیبَۃُ إِذَا عَمَّتْ خَفَّتْ فَکَانَ ذِکْرُ قِصَصِہِمْ وَحِکَایَۃِ إِصْرَارِہِمْ عَلَی الْجَہْلِ وَالْعِنَادِ یُفِیدُ تَسْلِیَۃَ الرَّسُولِ عَلَیْہِ السَّلَامُ وَتَخْفِیفَ ذَلِکَ عَلَی قَلْبِہِ وَثَانِیہَا:أَنَّہُ تَعَالَی یَحْکِی فِی ہَذِہِ الْقِصَصِ أَنَّ عَاقِبَۃَ أَمْرِ أُولَئِکَ الْمُنْکِرِینَ کَانَ إِلَی الْکُفْرِ وَاللَّعْنِ فِی الدُّنْیَا وَالْخَسَارَۃِ فِی الْآخِرَۃِ وَعَاقِبَۃُ أَمْرِ الْمُحِقِّینَ إِلَی الدَّوْلَۃِ فِی الدُّنْیَا وَالسَّعَادَۃِ فِی الْآخِرَۃِ وَذَلِکَ یُقَوِّی قُلُوبَ الْمُحِقِّینَ وَیَکْسِرُ قُلُوبَ الْمُبْطِلِینَ وَثَالِثُہَا:التَّنْبِیہُ عَلَی أَنَّہُ تَعَالَی وَإِنْ کَانَ یُمْہِلُ ہَؤُلَاء ِ الْمُبْطِلِینَ وَلَکِنَّہُ لَا یُہْمِلُہُمْ بَلْ یَنْتَقِمُ مِنْہُمْ عَلَی أَکْمَلِ الْوُجُوہِ وَرَابِعُہَا:بَیَانُ أَنَّ ہَذِہِ الْقِصَصَ دَالَّۃٌ عَلَی نُبُوَّۃِ مُحَمَّدٍ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ لِأَنَّہُ عَلَیْہِ السَّلَامُ کَانَ أُمِّیًّا وَمَا طَالَعَ کِتَابًا وَلَا تلمذ استاذا فَإِذَا ذَکَرَ ہَذِہِ الْقِصَصَ عَلَی الْوَجْہِ مِنْ غَیْرِ تَحْرِیفٍ وَلَا خَطَأٍ دَلَّ ذَلِکَ عَلَی أَنَّہُ إِنَّمَا عَرَفَہَا بِالْوَحْیِ مِنَ اللَّہِ وَذَلِکَ یَدُلُّ عَلَی صِحَّۃِ نُبُوَّتِہِ.
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ان آیات کریمہ سے
چارفوائد حاصل ہوئے۔
پہلافائدہ : لوگوں نے ان دلائل وبیانات کوقبول کرنے سے انکارکردیا، یہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکی قوم کے ساتھ خاص نہیں بلکہ یہ مذموم عادت تمام سابقہ امتوں میں بھی موجود تھی اورمصیبت جب عام ہوجائے تووہ آسان ہوجاتی ہے توان کے واقعات کاذکراوران کی جہالت اورحضرت سیدنانوح علیہ السلام کی دشمنی پراصرارکی حکایت حضورتاجدارختم نبوتﷺکی تسلی کے لئے فائدہ اورآپ ﷺکے دل میں ذریعہ تخفیف ہے ۔
دوسرافائدہ : اللہ تعالی نے ان آیات کریمہ میں بیان فرمایاکہ ان گستاخوں کاانجام دنیامیں کفرولعنت اورآخرت میں خسارہ ہے ۔ اورحق والوں کے معاملے کاانجام دنیامیں حکومت اورآخرت میں سعادت ہے ۔ اوریہ خبرحق والوں کے دل قوی اورباطل والوں کے دل کو توڑدیتی ہے ۔
تیسرافائدہ : اس پر تنبیہ ہے کہ اگرچہ اللہ تعالی نے ان دین دشمنوں کو مہلت دی ہے مگریہ مہلت ہمیشہ نہیں رہے گی بلکہ ان سے کامل طورپرانتقام لیاجائے گا۔
چوتھافائدہ : ان واقعات کاحضورتاجدارختم نبوتﷺکی نبوت پر دلالت کرناہے اس لئے کہ آپ ﷺامی تھے ، نہ کسی کتاب کامطالعہ کیااورنہ کسی استاد کی شاگردی اختیارکی اورجب ان واقعات کوآپ ﷺنے بغیرکسی تبدیلی اورخطاکے بیان فرمایاتویہ اس پردلالت کرتاہے کہ ان واقعات کی معرفت اللہ تعالی کی طرف سے وحی سے ہوئی ہے ۔ یہ آپ ﷺکی نبوت شریفہ کی صحت پردلیل ہے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۱۴:۲۹۳)
جن کو توحیدورسالت کی معرفت نہ ہووہ اندھے ہوتے ہیں ترقی یافتہ نہیں
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:عَمِیَتْ قُلُوبُہُمْ عَنْ مَعْرِفَۃِ التَّوْحِیدِ وَالنُّبُوَّۃِ وَالْمَعَادِ ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ حضرت سیدنانوح علیہ السلام کی قوم کے دل توحیدباری تعالی اوررسالت اورمعادکی معرفت سے اندھے ہوگئے ۔
(اللباب فی علوم الکتاب:أبو حفص سراج الدین عمر بن علی بن عادل الحنبلی الدمشقی النعمانی (۹:۱۸۳)
مال کی محبت کی وجہ سے لیڈرانبیاء کرام علیہم السلام کے گستاخ بنے
وَلَمَّا أَصَرُّوا عَلَی الْعِصْیَانِ وَعَامَلُوہُ بِأَقْبَحِ الْأَقْوَالِ وَالْأَفْعَالِ، قالَ نُوحٌ رَبِّ إِنَّہُمْ عَصَوْنِی:الضَّمِیرُ لِلْجَمِیعِ، وَکَانَ قَدْ قَالَ لَہُمْ:وَأَطِیعُونِ، وَکَانَ قَدْ أَقَامَ فِیہِمْ مَا نَصَّ اللَّہُ تَعَالَی عَلَیْہِ أَلْفَ سَنَۃٍ إِلَّا خَمْسِینَ عَامًا ، وَکَانُوا قَدْ وَسَّعَ عَلَیْہِمْ فِی الرِّزْقِ بِحَیْثُ کَانُوا یَزْرَعُونَ فِی الشَّہْرِ مَرَّتَیْنِ وَاتَّبَعُوا:أَیْ عَامَّتُہُمْ وَسَفَلَتُہُمْ، إِذْ لَا یَصِحُّ عَوْدُہُ عَلَی الْجَمِیعِ فِی عِبَادَۃِ الْأَصْنَامِ مَنْ لَمْ یَزِدْہُ:أَیْ رُؤَسَاؤُہُمْ وَکُبَرَاؤُہُمْ، وَہُمُ الَّذِینَ کَانَ مَا تَأَثَّلُوہُ مِنَ الْمَالِ وَمَا تَکَثَّرُوا بِہِ مِنَ الْوَلَدِ سَبَبًا فِی خَسَارَتِہِمْ فِی الْآخِرَۃِ، وَکَانَ سَبَبُ ہَلَاکِہِمْ فِی الدُّنْیَا۔
ترجمہ :امام أبو حیان محمد بن یوسف بن علی بن یوسف بن حیان أثیر الدین الأندلسی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیںکہ جب انہوںنے برے افعال اورقبیح ترین اعمال پراصرارکیاتوحضرت سیدنانوح علیہ السلام نے اللہ تعالی کی بارگا ہ میں عرض کی : اے میرے رب !بے شک انہوںنے میری نافرمانی کی ہے ، یہاں ضمیرجمع کی ہے یعنی اس کامطلب یہ ہے کہ ان سب نے میری نافرمانی کی ہے ۔ حضرت سیدنانوح علیہ السلام نے یہ دعائے جلال ساڑے نوسوسال تبلیغ کرنے اوران پرحجت قائم کرنے کے بعد کی ۔ اوراللہ تعالی نے قوم نوح کے لئے رزق میں وسعت عطافرمائی تھی، اس حیثیت سے وہ ایک ماہ میں دوبارفصل کاشت کرتے تھے ( پندرہ دن میں ایک فصل تیارہوتی تودوسرے پندرہ دن دوسری فصل تیارہوتی تھی ){ وَاتَّبَعُوا}کامطلب یہ ہے کہ ان کے عام لوگوں اوران کے نچلے لوگوں نے اپنے دین دشمن لیڈروں کی پیروی کی ،وہ لوگ کہ جن سب کااکٹھابتوں کی پوجاکی طرف جاناٹھیک نہیں تھا، ا ن کے وڈیرے اورلیڈرمال کی محبت اوربچوں کی کثرت کی وجہ سے آخرت کے خسارے میں مبتلاء ہوگئے ۔اوریہی سبب تھاان کے دنیامیں ذلیل ورسواہونے کا۔
(البحر المحیط فی التفسیر:أبو حیان محمد بن یوسف بن علی بن یوسف بن حیان أثیر الدین الأندلسی (۱۰:۲۸۴)
حضرت سیدنانوح علیہ السلام کی گستاخی کی سزا
وَقَالَ مُقَاتِلٌ:لَمَّا کَذَّبُوا نُوحًا زَمَانًا طَوِیلًا حَبَسَ اللَّہُ عَنْہُمُ الْمَطَرَ، وَأَعْقَمَ أَرْحَامَ نِسَائِہِمْ أَرْبَعِینَ سَنَۃً، فَہَلَکَتْ مَوَاشِیہِمْ وَزُرُوعُہُمْ، فَصَارُوا إِلَی نُوحٍ عَلَیْہِ السَّلَامُ وَاسْتَغَاثُوا بِہِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناامام مقاتل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب حضرت سیدنانوح علیہ السلام کوان کی قوم نے ایک طویل عرصہ تک گستاخی کرتے ہوئے جھوٹاکہاتواللہ تعالی نے سترسال تک ان سے بارش روک لی اورچالیس سال تک ان کی خواتین کو بانجھ کردیااوران کے ہاں کوئی بھی بچہ پیدانہیں ہوا، ان کے جانورمرگئے اوران کے کھیت تباہ ہوگئے۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۱۸:۳۰۱)
جب حضرت سیدنانوح علیہ السلام کی گستاخی ہوئی توکتنے لوگوں کو تباہ کیاگیا؟
قوم نوح میں افرادکیسے بڑھتے تھے؟
وَأخرج أَبُو الشَّیْخ عَن سعد بن حسن قَالَ: کَانَ قوم نوح عَلَیْہِ السَّلَام یزرعون فِی الشَّہْر مرَّتَیْنِ وَکَانَت الْمَرْأَۃ تَلد أول النَّہَار فیتبعہا وَلَدہَا فِی آخِرہ۔
ترجمہ :حضرت سیدناسعدبن حسن رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنانوح علیہ السلام کی قوم ہرمہینہ میں دوبارفصل کاشت کرتی تھی اوروہ عورت جو دن کے پہلے حصے میں بچے کو جنم دیتی تھی تووہی عورت اسی دن کے آخری حصے میں دوسرابچہ جنم دیتی تھی ۔
(تفسیر الماوردی:أبو الحسن علی بن محمد بن محمد الشہیر بالماوردی (۶:۱۰۳)
طوفان کے وقت لوگوں کی تعدادکیاتھی؟
ثنا ابْنُ زَیْدٍ یَعْنِی عَبْدَ الرَّحْمَنِ قَالَ:مَا عُذِّبَ قَوْمُ نُوحٍ، حَتَّی مَا کَانَ فِی الْأَرْضِ سَہْلٌ، وَلَا جَبَلٌ إِلَّا لَہُ عَامِرٌ یَعْمُرُہُ، وَحَائِزٌ یَحُوزُہ۔ُ
ترجمہ :حضرت سیدناعبدالرحمن بن زیدرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنانوح علیہ السلام کی قوم کوعذاب نہیں دیاگیایہاں تک کہ زمین میں کوئی میدان اورپہاڑایسانہیں تھاجسے کوئی آبادکرنے والاآبادنہ کررہاہواوراپنی ذات کیساتھ مختص نہ کرتاہویعنی حضرت سیدنانوح علیہ السلام کی قوم پرعذاب تب آیا جب کہ وہ زمین کے نشیب وفراز ہرجگہ پرپھیلے ہوئے تھے اوراسے اپنی ملکیت قراردے چکے تھے ۔
(تفسیر القرآن العظیم:أبو محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدریس بن المنذر ابن أبی حاتم (۶:۲۱۲۲)
اس روایت سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ ان کی تعداد اس موجود ہ تعدادسے کہیں زیادہ تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ دنیامیں ہر ہرجگہ پرپھیلے ہوئے تھے ۔
لوگوں کی تعدادکی وجہ سے میدان اورپہاڑ تنگ ہوچکے تھے
حَدَّثَنِی مَالِکٌ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ، أَنَّ أَہْلَ السَّہْلِ، کَانَ قَدْ ضَاقَ بِہِمْ، وَأَہْلَ الْجَبَلِ حَتَّی مَا یَقْدِرُ أَہْلُ السَّہْلِ أَنْ یَرْتَقُوا إِلَی الْجَبَلِ وَلَا أَہْلَ الْجَبَلِ أَنْ یَنْزِلُوا إِلَی أَہْلِ السَّہْلِ فِی زَمَانِ نُوحٍ، قَالَ:حُشُوا ۔
ترجمہ :حضرت سیدنازیدبن اسلم رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنانوح علیہ السلام کے زمانے میں میدان اورپہاڑاپنے رہنے والوں کے سبب تنگ ہوچکے تھے ، یہاںتک کہ میدانوں میں رہنے والے لوگ پہاڑوں پرچڑھنے کی قدرت نہیں رکھتے تھے اورنہ ہی میدانوں میں اتنی گنجائش تھی کہ پہاڑوں پررہنے والے ان کی طرف اترسکیں ، پھرآپ رحمہ اللہ تعالی نے فرمایاکہ تم اس پریقین کرلو!۔
(تفسیر القرآن العظیم:أبو محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدریس بن المنذر ابن أبی حاتم (۶:۲۱۲۲)
معارف ومسائل
(۱)ان آیات کریمہ اورحضورسیدنانوح علیہ السلام کی دعائے جلال سے معلوم ہوتا ہے کہ قومِ نوح میں حاملینِ حق کی تعداد اور ان کی جمعیت کم تھی، بد اور منکرینِ حق اورگستاخوں کی تعدادزیادہ تھی اورتقریباً ہر زمانہ میں یہی حال اور یہی نسبت رہی ہے۔ دور جانے کی ضرورت نہیں، اپنے گرد و پیش پر نظر ڈال کر دیکھ لیجئے، سب جگہ یہی سماں طاری نظر آئے گا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
آخرایسی کیاوجہ تھی کہ وہ لوگ ایسے کیوں نکلے؟ بات یہ ہے کہ ان کے کام ہی کچھ ایسے تھے۔ کردار کا سیرت پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ قومِ نوح کی ذہنی اور عملی کیفیت کیا تھی۔ ان کی زندگی کے تانے بانے اور طول و عرض کی کیا نوعیت تھی اور اپنی افتاد طبع کے لحاظ سے وہ انسانیت سے زیادہ قریب تھی یا بہیمیت سے؟
(۲)اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ انبیاء کرام علیہم السلام کی گستاخی کی وجہ سے اللہ تعالی کی لعنت برستی ہے اورگستاخوں کی گستاخی کی سزاصرف ان کو نہیں ملتی بلکہ عام مخلوقات بھی ان کی نحوست کی وجہ سے تباہ ہوجاتی ہیں ۔
(۴) اس سے ان لوگوں کو عبرت پکڑنی چاہئے جوہمہ وقت اپنے لیڈروں کی چاپلوسی میں لگے رہتے ہیں چاہے وہ انبیاء کرام علیہم السلام کی گستاخیاں کریں یادین کے ساتھ دشمنیاں کرتے رہیں۔ ان کو چاہئے کہ یہ توبہ کریں اوران کی غلامی سے خودکو آزادکریں نہیں تویہ بھی اللہ تعالی کے عذاب کی گرفت میں آئیں گے ۔