تفسیر سورۃ الشعراء آیت ۲۲۴تا ۲۲۷۔ وَ الشُّعَرَآء ُ یَتَّبِعُہُمُ الْغَاونَ

اشعارکی صورت میں حضورتاجدارختم نبوتﷺکی ناموس کاپہرہ دینا

{وَ الشُّعَرَآء ُ یَتَّبِعُہُمُ الْغَاونَ}(۲۲۴){اَلَمْ تَرَ اَنَّہُمْ فِیْ کُلِّ وَادٍ یَّہِیْمُوْنَ}(۲۲۵){وَ اَنَّہُمْ یَقُوْلُوْنَ مَا لَا یَفْعَلُوْنَ}(۲۲۶){اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ ذَکَرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًاوَّانْتَصَرُوْا مِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْاوَ سَیَعْلَمُ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْٓا اَیَّ مُنْقَلَبٍ یَّنْقَلِبُوْنَ}(۲۲۷)
ترجمہ کنزالایمان:اور شاعروں کی پیرو ی گمراہ کرتے ہیں ۔ کیا تم نے نہ دیکھا کہ وہ ہر نالے میں سرگرداں  پھرتے ہیں ۔ اور وہ کہتے ہیں  جو نہیں کرتے۔مگر وہ جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے اور بکثرت اللہ کی یاد کی اور بدلہ لیا بعد اس کے کہ ان پر ظلم ہوا اور اب جانا چاہتے ہیں ظالم کہ کس کروٹ پر پلٹا کھائیں  گے۔
ترجمہ ضیاء الایمان:اور شاعروں کی پیرو ی گمراہ لوگ ہی کرتے ہیں ۔ کیا تم نے نہ دیکھا کہ شاعر ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں ۔ اور یہ کہ وہ ایسی بات کہتے ہیں جو کرتے نہیں ۔مگر وہ جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے اعمال کئے اور اللہ تعالی کو کثرت سے یاد کیا اورمظلوم ہونے کے بعد بدلہ لیا اورعنقریب ظالم جان لیں  گے کہ کس کروٹ پر پلٹا کھائیں  گے۔
قرآن مجید کی ان آیات میں تمام شعراء کی مذمت کی گئی ہے البتہ چند کو ان سے مستثنی کر دیا گیا ہے۔ اب اہم ترین اور اصولی بات یہ ہے کہ کتاب وسنت کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ فنون لطیفہ موسیقی، مصوری، مجسمہ سازی، شعر وشاعری اور فن تعمیر میں اصل ممانعت ہے البتہ ان سب میں کچھ استثناء ات موجود ہیں۔ اور اس ممانعت کی اصل وجہ یہ ہے کہ یہ تمام فنون انسان کے مقصد زندگی یعنی بندگی رب میں رکاوٹ بنتے ہیں۔قرآن کریم نے جن شعراء کی مذمت کی ہے، ان کی تین صفات بیان فرمائی ہیں۔ جن شعراء میں یہ تین صفات ہوں تو وہ قابل مذمت شعراء ہیں۔ وہ شعراء کہ جن کے پیروکار، ان کے شارحین اور انہیں سراہنے والے نقاد، بھٹکے ہوئے لوگ ہوں۔ اور وہ شعراء کہ جن کی شاعری بے مقصد کی ہو کہ فن برائے فن ہو، ادب برائے ادب ہو، اور یہ وہ لوگ ہیں کہ جو تصورات اور تخیلات کی ہر وادی میں گھومتے پھرتے ہوں۔ تیسرا وہ شعراء جو بے عمل ہوںاور ان شعراء کو قرآن مجید نے مستثنی قرار دیا ہے کہ جن میں چار صفات ہوں۔ ان میں سے تین صفات تو شاعر کی ہیں اور دو اس کے کلام کی ہیں۔ شاعر کی تین صفات میں سے یہ ہیں کہ وہ شاعر ایمان والے ہوں، دوسرا عمل صالح کرنے والے ہوں، تیسرا اللہ تعالی کا کثرت سے ذکر کرنے والے ہوں۔ اور ان کے کلام کی دو صفات میں سے یہ ہیں کہ ان کے کلام میں اللہ تعالی کا ذکر کثرت سے موجود ہو اور ان کا کلام ظلم کے خلاف ہو۔ پس وہ شاعری مذموم نہیں ہے کہ جس میں توحید کا بیان ہو، رسالت کا ذکر ہوں، آخرت کا تذکرہ ہو، اور وہ شاعری کہ جس میں ظلم کا بدلہ لیا جائے، ظلم کے خلاف آواز بلند کی جائے۔
جہاں تک یہ دعوی ہے کہ شاعری انسانی جذبات میں لطافت اور نزاکت پیدا کرتی ہے کہ جس کی بنا پر ایک شاعر کو قرآن مجید کی آیات کو سمجھتے ہوئے جو احساسات حاصل ہوتے ہیں، وہ غیر شاعر کو نہیں ہوتے ہیں۔ یہ قطعی طور غلط دعوی ہے۔ ایک غیر شاعر کے احساسات اور جذبات، ایک شاعر سے بہت بہتر ہو سکتے ہیں کیونکہ شاعری میں جن جذبات اور احساسات کو مخاطب کیا جاتا ہے، وہ غیر حقیقی ہوتے ہیں کہ جھوٹے تخیلات اور تصورات کا نتیجہ ہوتے ہیں۔
اس کے برعکس ہمارا دین، جو دین فطرت ہے، وہ انسانی جذبات اور احساسات کی تربیت اور نشوونما جس حقیقی اصول پر کرتا ہے، وہ صلہ رحمی، مسلم اخوت، باہمی الفت اور ہمدردی کا رشتہ ہے کہ دنیا کے ایک کونے میں کسی مسلمان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو دوسرے کونے میں موجود مسلمان بے چین ہو جاتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ سارے جہاں کا درد اگر کسی دل میں ہو سکتا ہے، وہ سچے مومن کا دل ہے کہ جو انسانوں اور مسلمانوں بلکہ جانوروں تک سے اپنے تعلق میں سچا ہے کہ ان کی تکلیف محسوس کرتا ہے نہ کہ جھوٹے شاعر کا کہ جس کا کلام اور نہ سہی تو کم از کم مبالغہ آمیز محبت یا نفرت کے اظہار کی وجہ سے ہی جھوٹا ہے۔

حضرت سیدناحسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کاگستاخوں کو جواب

گستاخوں کو جواب دینے والے کے مددگار جبریل امین علیہ السلام
عَنْ أَبِی إِسْحَاقَ، عَنِ الْبَرَاء ِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم لِحَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ: اہْجُ الْمُشْرِکِینَ، فَإِنَّ رُوحَ الْقُدُسِ مَعَکَ۔
ترجمہ :حضرت سیدنابراء بن عازب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے حضرت سیدناحسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کو فرمایا: اے حسان ! تم مشرکین کی مذمت کروبے شک حضرت جبریل امین علیہ السلام تمھاری مددکریں گے ۔
(المسند الجامع: محمود محمد خلیل(۳:۱۸۳)
جو چیز زیادہ نقصان دے اس کااستعمال کرو
وروی أبو الحسن بن الضحاک عن حسان رضی اللَّہ تعالی عنہ أن رسول اللَّہ صلی اللَّہ علیہ وسلم قال: إذا حارب أصحابی بالسّلاح، فحارب أنت بلسانک۔
ترجمہ:حضرت سیدناحسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: اے حسان ! جب میرے صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم )اسلحہ کے ساتھ جنگ کریں توتم دشمنوں کے ساتھ اپنی زبان کے ساتھ جنگ کرنا۔
(سبل الہدی والرشاد، فی سیرۃ خیر العباد: محمد بن یوسف الصالحی الشامی (۹:۳۵۰)
جہاں تلوار کام کررہی ہووہاں زبان کے ساتھ لڑنے حکم رسول اللہ ﷺنے خود عطافرمایاتاکہ یہ دونوں سنت بن جائیں اوراس سے لوگوں کویہ بھی معلوم ہوجائے کہ گستاخوں کے خلاف اپنی زبان کے ساتھ جہاد کرنابھی رسول اللہ ﷺنے خود جاری فرمایاہے ۔
جب ہم گستاخوں کے خلاف بولتے ہیں توکئی لوگوں کوتکلیف ہوتی ہے کہ تم سخت باتیں کیوں کرتے ہوحالانکہ یہ تورسول اللہ ﷺنے خود حکم دیاہے ۔

گستاخوں کے رد میں مبالغہ کرناضروری ہے

عن أبی سلمۃ بن عبد الرحمن قال: لما أن ہجت قریش النبی صلی اللہ علیہ وسلم أحزنہ ذلک فقال لعبد اللہ بن رواحۃ:اہج قریشا، فہجاہم ہجاء لیس بالبلیغ إلیہم، فلم یرض بذلک، فبعث إلی کعب بن مالک فقال: اہج قریشا، فہجاہم ہجاء لم یبالغ فیہ، فلم یرض بذلک، فبعث إلی حسان بن ثابت وکان یکرہ أن یبعث إلی حسان، فقال حین جاء ہ الرسول أن اہج قریشا: قد آن لکم أن تبعثوا إلی ہذا الأسد الضارب بذنبہ فقال حسان بن ثابت: والذی بعثک بالحق لأفرینہم بلسانی ہذا! ثم أطلع لسانہ فتقول عائشۃ: واللہ لکأن لسانہ لسان حیۃ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: إن لی فیہم نسبا وأنا أخشی أن تصیب بعضہ فأت أبا بکر فإنہ أعلم قریش بأنسابہا فیخلص لک نسبی، قال حسان: والذی بعثک بالحق لأسلنک منہم ونسبک مثل سل الشعرۃ من العجین! فہجاہم حسان فقال لہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: لقد شفیت یا حسان واشتفیت۔
ترجمہ :حضرت سیدناابوسلمہ بن عبدالرحمن رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ جب قریش نے رسول اللہ ﷺکی ہجومیں اشعارکہے تو رسول اللہ ﷺکادل مبارک غمگین ہوگیااورآپ ﷺنے حضرت سیدناعبداللہ بن رواحۃ رضی اللہ عنہ سے فرمایا:قریش کی ہجوکروچنانچہ آپ رضی اللہ عنہ نے قریش کی ہجوکی لیکن اس میں مبالغہ نہ کرسکے اورآپ ﷺبھی اس سے راضی نہ ہوئے ، آپﷺنے حضرت سیدناکعب بن مالک رضی اللہ عنہ کو پیغام بھیجاکہ قریش کی ہجوکرو،کعب رضی اللہ عنہ نے بھی ہجوکی لیکن وہ بھی اس میں مبالغہ نہ کرسکے ، اورنہ ہی رسول اللہ ﷺکو یہ پسندآئی ،رسول اللہ ﷺنے حضرت سیدناحسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کو پیغام بھیجاحالانکہ آپ ﷺان کو پیغام بھیجنااچھانہیں سمجھتے تھے ، جب قاصد پہنچاتواس نے کہا: قریش کی ہجومیں اشعارکہو، یہ سنتے ہی حضرت سیدناحسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہاکہ کیاوقت آگیاہے کہ تم اس بپھرے ہوئے شیرکو پیغام بھیجوجو اپنی دم سے حملہ کرے ، حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے فرمایا: قسم اس ذات کی جس نے آپ ﷺکو مبعوث کیاہے ؟میں اپنی زبان سے ان کابھرگس نکال دوں گا،پھرحضرت سیدناحسان رضی اللہ عنہ نے اپنی زبان نکالی ، حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ خداتعالی کی قسم ! حضرت سیدناحسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کی زبان سانپ کی زبان تھی ، رسول اللہ ﷺنے فرمایا: قریش میں میرانسب ہے ،مجھے خدشہ ہے کہ کہیں تم مجھے بھی ان میں خلط ملط نہ کردو، لھذاابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے پاس جائووہ قریش کے سب سے بڑے نسب دان ہیں ، وہ میرانسب تم کو الگ کرکے بتائیں گے ، حضرت سیدناحسان رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: قسم اس ذات کی جس نے آپ ﷺکو برحق مبعوث فرمایاہے ، میں آپ ﷺکو قریش سے اس طرح نکال لوں گاجیسے آٹے سے بال نکال لیاجاتاہے ۔چنانچہ حضرت سیدناحسان رضی اللہ عنہ نے قریش کی ہجوکی اوررسول اللہ ﷺنے فرمایا: اے حسان ! تم نے ہم کوبھی شفاء دی اورخود بھی شفاء پائی ۔(یعنی بھرپورہجوکی )
(کنز العمال:علاء الدین علی بن حسام الدین ابن قاضی خان القادری الشاذلی الہندی (۱۳:۳۴۲)
 گستاخوں کے خلاف زبان سے جہادکرنے میں ضروری ہے کہ اس میں مبالغہ ہواوراسی مبالغہ کو رسول اللہ ﷺپسندفرماتے ہیں ،حضرت سیدناعبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ اورحضرت سیدناکعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے کلام پر اسی لئے راضی نہ ہوئے کہ ان میں مبالغہ نہیں تھا،اس سے ثابت ہواکہ جو شخص رسول اللہ ﷺکے گستاخوں کے خلاف کلام کرنے میں مبالغہ کرتاہے رسول اللہ ﷺاس پر راضی ہوتے ہیں ۔
اس حدیث پاک میں یہ بات بھی بڑی قابل غورہے کہ حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ جب حضرت سیدناحسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے اپنی زبان مبارک نکالی تو وہ سانپ والی زبان تھی ،اس کامطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ ان کی زبان سانپ جیسی تھی بلکہ انہوںنے جب رسول اللہ ﷺکے گستاخوں کے خلاف اپنے اشعارکہے تووہ ایسے سخت تھے گویاہر ایک لفظ سانپ کے ڈنک کی مانندتھا۔
اوراس سے یہ بھی معلوم ہواکہ اہل اسلام کے پاس گستاخوں کے لئے زبان ہمیشہ سے زہریلی ہی رہی ہے ، کبھی بھی گستاخوں کے لئے نرم خوئی نہیں اپنائی گئی ۔
دوسراحضرت سیدناحسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے آتے ہی یہ کہاکہ اب وقت آگیاہے کہ اس بپھرئے ہوئے شیر کو بلایاجائے جواپنی دم سے گستاخوں پر حملہ کردے ۔اس سے معلوم ہواکہ بندہ مومن گستاخوں کے خلاف ہمہ وقت بپھرئے شیر کی طرح ہوتاہے نہ کہ کتے (لوسی ) کی طرح گستاخوں کے سامنے دم ہلانے والا۔
اوراس حدیث پاک میں یہ بات بڑی قابل غورہے کہ جب قریش کے گستاخوں نے رسول اللہ ﷺکی گستاخی کی توآپ ْﷺکاقلب مبارک غمگین ہوگیااورجب حضرت سیدناحسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے ان کو جواب دیاتو رسول اللہ ﷺنے فرمایا: اے حسان ! تم نے ہمیں بھی شفاء دی اوراپنے آپ کو بھی شفاء دی ۔سے یہ سمجھ آیاکہ جب کوئی شخص رسول اللہ ﷺکی گستاخی کرتاہے تورسول اللہ ﷺکادل مبارک غمگین ہوجاتاہے اوراس غم کی شفاء اسی میں ہے کہ رسول اللہ ﷺکے گستاخوں کو بھرپورجواب دیاجائے ۔

گستاخوں کے رد سے شفاء پائی

 حدثنا محمد بن عوف الطائی حدثناآدم بن أبی إیاس حدثنا ابن أبی ذئب حدثنا محمد بن عمر بن عطاء عن ذکوان عن یمان عن عائشۃ أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: اہجوا قریشا فإنہ أشد علیہم من رشق النبل، فأرسل إلی ابن رواحۃ فقال:اہجہم، فہجاہم فلم یرض، فأرسل إلی کعب بن مالک، ثم أرسل إلی حسان بن ثابت، فلما دخل علیہ حسان قال: قد آن لکم أن ترسلوا إلی ہذا الأسد الضارب بذنبہ ثم أدلع لسانہ فجعل یخرجہ فقال:والذی بعثک بالحق! لأفرینہم بلسانی فریالأدیم! فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:لا تعجل فإن أبا بکر أعلم قریش بأنسابہا وإن لی فیہم نسبا حتی یخلص نسبی، فأتاہ حسان ثم رجع فقال:یا رسول اللہ! قد خلصت نسبک والذی بعثک بالحق لأسلنک منہم کما تسل الشعرۃ من العجین! قالت عائشۃ:فسمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول لحسان: إن روح القدس لا یزال مؤیدک ما نافحت عن اللہ ورسولہ، وقالت:سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول: ہجاہم فشفی واشتفی۔
ترجمہ :حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: قریش کی ہجوکرو، چونکہ ہجوکے اشعار قریش پر تیروں کی بارش سے بھی زیادہ سخت ہیں،رسول اللہ ﷺنے فرمایا: حضرت سیدناعبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کی طرف پیغام بھیجاکہ قریش کی ہجوکرو،حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ان کی ہجومیں اشعارکہے ، لیکن رسول اللہ ﷺ ان کے اشعار سے راضی نہ ہوئے ، آپ ﷺنے کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کو پیغام بھیجا، پھران کے بعد حضرت سیدناحسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کو پیغام بھیجا، جب آپ ﷺکے پاس حضرت سیدناحسان رضی اللہ عنہ حاضرہوئے توانہوںنے عرض کیا؛ اب وقت آگیاہے کہ آپ ﷺ اس بپھرئے شیرکو پیغام بھیجوجو اپنی دم سے حملہ کرے گا ، پھرحضرت سیدناحسان رضی اللہ عنہ نے اپنی زبان گھماکرکہا: قسم اس ذات کی جس نے آپ ﷺکو برحق مبعوث فرمایاہے ، میں ان لوگوں کو اپنی زبان سے ایساکاٹوں گاکہ حق اداکردوں گا، رسول اللہ ﷺنے فرمایا:جلدی نہ کرو، یقیناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ قریش کے سب سے بڑے نسب دان ہیں ، اورمیراسلسلہ نسب بھی قریش میں ہے ، اورمجھے ان سے الگ تھلگ رکھناہے ، حضرت سیدناحسان رضی اللہ عنہ حضرت سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضرہوئے اورنسب دانی کاضروری علم لیکر واپس رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضرہوئے اورعرض کیا:ـ یارسول اللہ ﷺ! ہم نے آپ ﷺکانسب شریف الگ کردیاہے ، قسم اس ذات کی جس نے آپ ْﷺکو برحق مبعوث کیاہے ،میں آپ ﷺکو قریش سے ایسے نکال لوں گاجس طرح آٹے سے بال نکال لیاجاتاہے ، حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جبریل امین علیہ السلام تمھاری تائید کرتے رہتے ہیں جب تک تم اللہ تعالی اوراس کے رسول ﷺکادفاع کرتے رہتے ہو۔ حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں میں نے رسول اللہ ﷺکوفرماتے ہوئے سناکہ اے حسان ! مشرکین کی ہجوکروتوآپ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺکاسینہ مبارکہ بھی ٹھنڈاکردیااوراپنے لئے بھی سکون کاسامان کیا۔یعنی حضرت سیدناحسان رضی اللہ عنہ نے خوب ہجوکی ۔
(معرفۃ الصحابۃ:أبو نعیم أحمد بن عبد اللہ بن أحمد بن إسحاق بن موسی بن مہران الأصبہانی (۲:۸۴۶)
مسلم شریف کے الفاظ یہ ہیں 
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِکِ بْنُ شُعَیْبِ بْنِ اللَّیْثِ، حَدَّثَنِی أَبِی، عَنْ جَدِّی، حَدَّثَنِی خَالِدُ بْنُ یَزِیدَ، حَدَّثَنِی سَعِیدُ بْنُ أَبِی ہِلَالٍ، عَنْ عُمَارَۃَ بْنِ غَزِیَّۃَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاہِیمَ، عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَائِشَۃَ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: اہْجُوا قُرَیْشًا، فَإِنَّہُ أَشَدُّ عَلَیْہَا مِنْ رَشْقٍ بِالنَّبْلِ فَأَرْسَلَ إِلَی ابْنِ رَوَاحَۃَ فَقَالَ: اہْجُہُمْ فَہَجَاہُمْ فَلَمْ یُرْضِ، فَأَرْسَلَ إِلَی کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ، ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَی حَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَیْہِ، قَالَ حَسَّانُ:قَدْ آنَ لَکُمْ أَنْ تُرْسِلُوا إِلَی ہَذَا الْأَسَدِ الضَّارِبِ بِذَنَبِہِ ، ثُمَّ أَدْلَعَ لِسَانَہُ فَجَعَلَ یُحَرِّکُہُ، فَقَالَ:وَالَّذِی بَعَثَکَ بِالْحَقِّ لَأَفْرِیَنَّہُمْ بِلِسَانِی فَرْیَ الْأَدِیمِ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَا تَعْجَلْ، فَإِنَّ أَبَا بَکْرٍ أَعْلَمُ قُرَیْشٍ بِأَنْسَابِہَا، وَإِنَّ لِی فِیہِمْ نَسَبًا،حَتَّی یُلَخِّصَ لَکَ نَسَبِی فَأَتَاہُ حَسَّانُ، ثُمَّ رَجَعَ فَقَالَ:یَا رَسُولَ اللہِ قَدْ لَخَّصَ لِی نَسَبَکَ، وَالَّذِی بَعَثَکَ بِالْحَقِّ لَأَسُلَّنَّکَ مِنْہُمْ کَمَا تُسَلُّ الشَّعْرَۃُ مِنَ الْعَجِینِ قَالَتْ عَائِشَۃُ:فَسَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ لِحَسَّانَ: إِنَّ رُوحَ الْقُدُسِ لَا یَزَالُ یُؤَیِّدُکَ، مَا نَافَحْتَ عَنِ اللہِ وَرَسُولِہِ، وَقَالَتْ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: ہَجَاہُمْ حَسَّانُ فَشَفَی وَاشْتَفَی۔
ترجمہ:حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:قریش کی ہجوکرو، کیونکہ ان پر اپنی ہجوتیروں کی بوچھاڑ سے زیادہ سخت ہے ، پھرآپ ﷺنے حضرت سیدناعبداللہ بن رواحۃ رضی اللہ عنہ کی طرف پیغام بھیجاکہ کفارقریش کی ہجوکرو، انہوںنے کفارقریش کی ہجوکی ،وہ آپ ﷺ کو پسند نہیںآئی ، پھرآپ ﷺنے حضرت سیدناکعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی طرف پیغام بھیجا، پھرحضرت سیدناحسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کی طرف پیغام بھیجا، جب حضرت سیدناحسان رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺکی خدمت اقدس میں حاضرہوئے توانہوںنے کہا: اب وقت آگیاہے آپ ﷺنے اس شیر کی طرف پیغام بھیجاہے جو اپنی دم سے مارتاہے ، پھراپنی زبان نکال کر اس کو ہلانے لگے ،پھرعرض کیا: اس ذات کی قسم ! جس نے آپ ﷺکو حق دے کربھیجاہے ، میں ان کو اپنی زبان سے اس طرح چیر پھاڑ کررکھ دوں گاجس طرح چمڑے کو پھاڑتے ہیں ۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جلدی نہ کرو، کیونکہ ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ قریش کے نسب کو سب سے زیادہ جاننے والے ہیں اوران میں میرانسب بھی ہے ،تاکہ ابوبکررضی اللہ عنہ میرانسب ان سے الگ کردے ، حضرت سیدناحسان رضی اللہ عنہ حضرت سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں گئے اورپھرلوٹ آئے اورعرض کی : یارسول اللہ ْﷺ! آپ ﷺکانسب شریف ان سے الگ کردیاگیاہے ، اس ذات کی قسم ! جس نے آپ ﷺکو حق دے کر بھیجاہے ، میں آپ ﷺ کو ان میں سے اس طرح نکال لوں گاجیسے گوندھے ہوئے آٹے سے بال نکال لیاجاتاہے ۔
حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺکو فرماتے ہوئے سناکہ جب تک تم اللہ تعالی اوراس کے رسول ﷺکی طرف سے گستاخوں کو جواب دیتے رہتے ہوروح القدس علیہ السلام تمھاری تائید کرتے رہتے ہیں ۔نیز حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہانے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺکو یہ بھی فرماتے ہوئے سناکہ حسان رضی اللہ عنہ نے کفارِقریش کی ہجوکرکے مسلمانوں کو شفاء دی (یعنی ان کادل ٹھنڈاکردیا) اورکفارکے دلوں کو بیمارکردیا۔
(مسلم :مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشیری النیسابوری (۴:۱۹۳۵)
حضرت سیدناحسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کاگستاخانہ اشعارکاجواب
قصیدۃ لحسان بن ثَابت قَالَہَا قبل فتح مَکَّۃ مدح بہَا النَّبِی صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم َ وہجا أَبَا سُفْیَان وَکَانَ ہجا النَّبِی صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم َ قبل إِسْلَامہ وَہِی ہَذِہ:
عفت ذَات الْأَصَابِع فالجواء
إِلَی عذراء منزلہَا خلاء
وَکَانَت لَا یزَال بہَا أنیس
خلال مروجہا نعم وَشاء
فدع ہَذَا وَلَکِن من لطیف
یؤرقنی إِذا ذہب الْعشَاء
لشعثاء الَّتِی قد تیمتہ
 فَلَیْسَ لِقَلْبِہِ مِنْہَا شِفَاء
کَأَن خبیئۃ من بَیت رَأس
یکون مزاجہا عسل وَمَاء
إِذا مَا الأشربات ذکرن یَوْمًا
فہن لطیب الراح الْفِدَاء
نولیہا الْمَلَامَۃ إِن ألمنا
إِذا مَا کَانَ مغث أَو لحاء
ونشربہا فتترکنا ملوکاً
وأسداً مَا ینہنہنا اللِّقَاء
عدمنا خَیْلنَا إِن لم تَرَوْہَا
 تثیر النَّقْع موعدہا کداء
 .یبارین الأسنۃ مصغیات
علی أکتافہا الأسل الظلماء
تظل جیادنا متمطرات
تلطمہن بِالْخمرِ النِّسَاء
 .فإمَّا تعرضوا عَنَّا اعتمرنا
وَکَانَ الْفَتْح وانکشف الغطاء
وَإِلَّا فَاصْبِرُوا لجلاد یَوْم
یعین اللہ فِیہِ من یَشَاء
وَقَالَ اللہ: قد یسرت جنداً
ہم الْأَنْصَار عرضتہا اللِّقَاء
لنا فِی کل یَوْم من معد
قتال أَو سباب أَو ہجاء
وَقَالَ اللہ: قد أرْسلت عبدا
یَقُول الْحق إِن نفع الْبلَاء
شہِدت بِہِ وقومی صدقوہ
 فقلتم مَا نجیب وَمَا نشَاء
وَجِبْرِیل أَمِین اللہ فِینَا
 وروح الْقُدس لَیْسَ لَہُ کفاء
أَلا أبلغ أَبَا سُفْیَان عنی
 مغلغلۃ فقد برح الخفاء
 بِأَن سُیُوفنَا ترکتک عبدا
َعبد الدَّار سادتہا الْإِمَاء
ہجوت مُحَمَّدًا فأجبت عَنہ
وَعند اللہ فِی ذَاک الْجَزَاء
أتہجوہ وَلست لَہُ بکفء
فشرکما لخیرکما الْفِدَاء
ہجوت مُبَارَکًا برا حَنِیفا
أَمِین اللہ شیمتہ الْوَفَاء
أَمن یہجو رَسُول اللہ مِنْکُم
ویمدحہ وینصرہ سَوَاء
فَإِن أبی ووالدہ وعرضی
لعرض مُحَمَّد مِنْکُم وقاء
 لسانی صارم لَا عیب فِیہِ
وبحری لَا تکدرہ الدلاء
ترجمہ :ایک شاعر نے جب حضورتاجدارختم نبوتﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کرتے ہوئے ہجویہ اشعار کہے تھے۔ جب وہ اشعار آپﷺ کی خدمت میں پیش ہوئے تو آپﷺنے اپنے شاعر خاص حضرت سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایاکہ حسان اٹھو، اور ان اشعار کا جواب دو۔ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے ان ہجویہ اشعار کا جواب کچھ اس طرح سے دیا کہ
میرے آقا میرے مولا،میرے آقا میرے مولا
محمد رسول اللہ،محمد رسول اللہ
جہاں میں ان سا چہرہ ہے نہ ہے خندہ جبیں کوئی
ابھی تک جن سکیں نہ عورتیں ان سا حسین کوئی
نہیں رکھی ہے قدرت نے میرے آقا کمی تجھ میں
جو چاہا آپ نے مولا وہ رکھا ہے سبھی تجھ میں
میرے آقا میرے مولا، میرے آقا میرے مولا
محمد رسول اللہ ،محمد رسول اللہ
بدی کا دور تھا ہر سو جہالت کی گھٹائیں تھیں
گناہ و جرم سے چاروں طرف پھیلی ہوائیں تھیں
خدا کے حکم سے نا آشنا مکے کی بستی تھی
گناہ و جرم سے چاروں طرف وحشت برستی تھی
خدا کے دین کو بچوں کا ایک کھیل سمجھتے تھے
خدا کو چھوڑ کر ہر چیز کو معبود کہتے تھے
وہ اپنے ہاتھ ہی سے پتھروں کے بُت بناتے تھے
انہی کے سامنے جھکتے انہی کی حمد گاتے تھے
کسی کا نام’’ عُزی‘‘تھا کسی کو ’’لات‘‘ کہتے تھے
’’ہُبل ‘‘نامی بڑے بُت کو بتوں کا باپ کہتے تھے
اگر لڑکی کی پیدائش کا ذکر گھر میں سن لیتے
تو اُس معصوم کو زندہ زمیں میں دفن کر دیتے
پر جو بھی بُرائی تھی سب ان میں پائی جاتی تھی
نہ تھی شرم و حیا آنکھوں میں گھر گھر بے حیائی تھی
مگر اللہ نے ان پر جب اپنا رحم فرمایا
تو عبداللہ کے گھر میں خدا کا لاڈلا آیا
عرب کے لوگ اس بچے کا جب اعزاز کرتے تھے
تو عبدالمطلب قسمت پر اپنی ناز کرتے تھے
خدا کے دین کا پھر بول بالا ہونے والا تھا
محمد سے جہاں میں پھر اُجالا ہونے والا تھا
میرے آقا میرے مولا،میرے آقا میرے مولا
محمد رسول اللہ، محمد رسول اللہ
فرشتہ ایک اللہ کی طرف سے ہم میں حاضر ہے
خدا کے حکم سے جبرئیل بھی اک فرد لشکر ہے
سپہ سالار اور قائد ہمارے ہیں رسول اللہ
مقابل ان کے آؤ گے ملے گی ذلت کُبری
ہمیں فضل خدا سے مل چکی ایماں کی دولت ہے
ملی دعوت تمہیں پر سر کشی تم سب کی فطرت ہے
سنو اے لشکر کفار ہے اللہ غنی تم سے
لیا تعمیر زمیں کا کام ہے اللہ نے ہم سے
لڑائی اور مدح و ذم میں بھی ہم کو مہارت ہے
قبیلہ معاذ سے ہر روز لڑنا سعادت ہے
زبانی جنگ میں شعر و قوافی خوب کہتے ہیں
لڑائی جب بھی لڑتے ہیں لہو دشمن کے بہتے ہیں
میرے آقا میرے مولا،میرے آقا میرے مولا
محمد رسول اللہ،محمد رسول اللہ
محمد کے تقدس پر زبانیں جو نکالیں گے
خدا کے حکم سے ایسی زبانیں کھینچ ڈالیں گے
کہاں رفعت محمد کی کہاں تیری حقیقت ہے
شرارت ہی شرارت بس تیری بے چین فطرت ہے
مذمت کر رہا ہے تُو شرافت کے مسیحا کی
امانت کے دیانت کے صداقت کے مسیحا کی
اگر گستاخی ناموس احمد کر چکے ہو تم
تو اپنی زندگی سے قبل ہی بس مر چکے ہو تم
میرا سامان جان و تن فدا ان کی رفاقت پر
میرے ماں باپ ہو جائیں نثار ان کی محبت پر
زبان رکھتا ہوں ایسی جس کو سب تلوار کہتے ہیں
میرے اشعار کو اہل جہاں ابحار کہتے ہیں
میرے آقا میرے مولا، میرے آقا میرے مولا
محمد رسول اللہ، محمد رسول اللہ
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت تیارہی گستاخوں کی مرمت کے لئے ہوئی ہے
وَقَالَ اللَّہُ قَدْ سَیَّرْتُ جُنْدًا
ہُمْ الْأَنْصَارُ عُرْضَتُہَا اللِّقَاء ُ
لَنَا فِی کُلِّ یَوْمٍ مِنْ مَعَدٍّ
سِبَابٌ أَوْ قِتَالٌ أَوْ ہِجَاء ُ
فَنُحْکِمُ بِالْقَوَافِی مَنْ ہَجَانَا
وَنَضْرِبُ حِینَ تَخْتَلِطُ الدِّمَاء ُ
ترجمہ :اللہ تعالی نے فرمایاکہ میں نے ایک لشکرتیارکیاجوانصارپرمشتمل ہے ، اس لشکرکے پیش نظرصرف ایک ہی مقصدہے اوروہ ہے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے دشمنوں کے ساتھ لڑنا، ہماراہرروز قبیلہ معدوالوں سے سب وشتم ، ہجواورلڑائی میں مقابلہ ہوتاہے ، جوشخص ہماری ہجوکرتاہے ہم اشعارکے ذریعے اس کاجواب دیتے ہیں اورجوہمارے خلاف میدان جنگ میں اترتاہے توہم تلواروں کی ضربیں بھی خوب دکھاتے ہیں ۔
(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام:عبد الملک بن ہشام أبو محمد، جمال الدین (۲:۴۲۳)
گستاخوں کے قتل میں ہی اہل ایمان کے دلوں کی شفاء ہے
وَہَاجَتْ دُونَ قَتْلِ بَنِی لُؤَی
جَذِیمَۃُ إنّ قَتْلَہُمْ شِفَاء ُ
أُولَئِکَ مَعْشَرٌ أَلّبُوا عَلَیْنَا
فَفِی أَظْفَارِنَا مِنْہُمْ دِمَاء ُ
ترجمہ :حضرت سیدناحسان بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگربنولوی والے قبیلہ جذیمہ والوں پرقابوپالیں اورانہیں قتل کردیں توان کے قتل کرنے میں ہی دلوں کی شفاء ہے ، یہ جذیمہ والے وہ لوگ ہیں جنہوںنے ہمارے خلاف ہمارے دشمنوں کی مددکی تھی ، پھرہم شیروں کی طرح ان پرجھپٹے اورابھی تک ہمارے ناخنوں میں ان کاخون موجود ہے ۔
(الروض الأنف:أبو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ بن أحمد السہیلی (۷:۲۵۴)
کفرکے استیصال سے حضورتاجدارختم نبوتﷺکی آنکھیں ٹھنڈی ہوتی ہیں
وَأَقَرَّ عَیْنَ مُحَمَّدٍ وَصِحَابِہ
وَأَذَلَّ کُلَّ مُکَذِّبٍ مُرْتَابِ
عَاتِی الْفُؤَادِ مُوَقَّعٍ ذِی رِیبَۃ
فِی الْکُفْرِ لَیْسَ بِطَاہِرِ الْأَثْوَابِ
عَلِقَ الشَّقَاء ُ بِقَلْبِہِ فَفُؤَادُہ
فِی الْکُفْرِ آخِرُ ہَذِہِ الْأَحْقَابِ
ترجمہ :اللہ تعالی نے حضورتاجدارختم نبوتﷺاورآپ ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی آنکھوں کو ٹھنڈاکردیااورہرایسے جھوٹے اور دین کے متعلق شک میں مبتلاء شخص کوذلیل ورسوافرمادیاجس نے کفرکواپناشعاربنالیاتھا، حالانکہ کفرسوائے ناپاکی اورنجاست کے کچھ بھی نہیں ہے بدبختی اورشقاوت اس جھوٹے کے دل میں گھرکرچکی ہے اوروہ کفرکی گہرائی میں گراپڑاہے۔
(عیون الأثر :محمد بن محمد بن محمد بن أحمد، ابن سید الناس أبو الفتح، فتح الدین (۲:۹۹)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شیروں کی مانندکافروں پرحملہ کرتے تھے
وَخَبَّرَ بِاَلَّذِی لَا عَیْبَ فِیہِ
بِصِدْقِ غَیْرِ إخْبَارِ الْکَذُوبِ
بِمَا صَنَعَ الْمَلِیکُ غَدَاۃَ بَدْرٍ
. لَنَا فِی الْمُشْرِکِینَ مِنْ النَّصِیبِ
غَدَاۃَ کَأَنَّ جَمْعَہُمْ حِرَاء ٌ
بَدَتْ أَرْکَانُہُ جُنْحَ الْغُرُوبِ
فَلَاقَیْنَاہُمْ مِنَّا بِجَمْعٍ
کَأُسْدِ الْغَابِ مُرْدَانٍ وَشِیبِ
ترجمہ :حضرت سیدناحسان بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تم لوگوں کو بتادوکہ اللہ تعالی نے بدرکے دن مشرکین کوکیسے ہمارے لئے بچھاڑ کررکھ دیاتھا، بدرکی صبح دشمنوں کالشکرحراء پہاڑ کی مانندمعلوم ہورہاتھااوروہ لوگ حدنگاہ تک پھیلے ہوئے تھے ، ہم سب نے ملکرجنگل کے شیروں کی طرح ان کامقابلہ کیا، ہم میں جوان بھی تھے اوربوڑھے بھی ۔
(السیرۃ النبویۃ:أبو الفداء إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی الدمشقی (۲ـ:۴۵۳)
اسلام دشمنوں کو جواب
ذاواللہ نرمیہم بحرب تشیب الطفل من قبل المشیب
ترجمہ :حضرت سیدناحسان بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگرکافروں نے ہمارے ساتھ جنگ کی توخداکی قسم !ہم ان کاوہ حال کریں گے کہ ان کے نوجوان بڑھاپاآنے سے بھی پہلے بوڑھے ہوجائیں گے ۔
اس شعرمیں حضرت سیدناحسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کفارکوخبردارکیاہے کہ اسلام کے دشمنوں !تم کوہماری قوت کااندازہ نہیں ہے کیونکہ ہم اللہ تعالی کی مددکے ساتھ لڑتے ہیں ، اگرتمھیں پھربھی شوق ہے تومقابلے کے لئے آجائوتمھیں ہمارے دعوے کی سچائی کاعلم ہوجائے گا۔
ولیدبن مغیرہ کی مذمت کابیان
متی تنسب قریش اوتحصل
فمالک فی ارومتہانصاب
إذا ذکر الأطایب من قُرَیْش
 تلاقت دون نسبتکم کلاب
 نفتک بنو ہصیص عَن أبیہ
 بشجع حَیْثُ تسترق العیاب
وعمران بْن مخزوم فدعہا
ہناک العز والحسب اللباب
ترجمہ:جب قریش کے نسب نامے بیان کئے جائیں گے توقریش کے اصلی خاندانوں میں تیراذکرنہیں آئے گا، بنوہصیص نے بھی تجھے اپنے خاندان سے نکال دیاہے اوران کاکہناہے کہ توقبیلہ شجع سے ہے جہاں کپڑوں کے تھیلے چوری کیے جاتے ہیں ۔
اے مغیرہ کے بیٹے !تومحض اونٹ چرانے والاایک چرواہاہے اورتیری گردن اورمونڈھوں کے درمیان کاپٹھادودھ کامشکیزہ اٹھانے کی وجہ سے زخمی ہوچکاہے ، جب قریش کے اعلی لوگوں کاذکرکیاجائے توتمھاری برابری کتوں کے ساتھ ہوگی ۔
(جمل من أنساب الأشراف:أحمد بن یحیی بن جابر بن داود البَلَاذُری (۱۰:۱۷۱)
میں بہادرشیرکی طرح ہوں
وکأنّنی رِئْبَالُ غَابٍ ضَیْغَمٌ
یَقْرُو الأمَاعِزَ بالفِجَاجِ الأفْیَحِ
غرثت حلیلتہ وأرمل لیلۃ
 فکأنہ غضبان ما لم یجرح
فتخالہ حسان إذ حربتہ
فدع الفضاء إلی مضیقک وافسح
ترجمہ :میں جنگل کے اس بہادرشیرکی طرح ہوں جودوپہاڑوں کے درمیانی راستہ میں ریوڑ کاپیچھاکرتاہے ، میں اس شیرکی طرح ہوں جس کی بیوی بھوکی ہواوراس نے بھی بھوک کی حالت میں رات گزاری ہواوروہ اس وقت غصہ میں ہے ، جب تک اپناشکارحاصل نہ کرلے ، جب تواس سے جنگ کاارادہ کرے گاتواسے ــ’’حسان ‘‘سمجھے گا۔ پس تواپنی کھلی جگہ کوچھوڑکرتنگ جگہ میں آجااورکشادہ ہوجا۔
(دیوان حسان بن ثابت لدکتورعمرفاروق : ۲۳)
ابولہب گستاخ کو جواب
أبا لہب أبلغ بأنّ محمّدا
سیعلو بما أدّی و إن کنت راغما
و إن کنت قد کذّبتہ و خذلتہ
وحیدا و طاوعت الہجین الضّراغما
و لو کنت حرّا فی أرومۃ ہاشم
 و فی سرّہا منہم منعت المظالما
و لکنّ لحیانا أبوک ورثتہ
 و مأوی الخنا منہم فدع عنک ہاشما
سمت ہاشم للمکرمات و للعلی
و غودرت فی کأب من اللؤم جاثما
ترجمہ :ابولہب ذلیل کویہ پیغام پہنچادوکہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکادین متین ساری دنیامیں چھاکررہے گا، خواہ تجھے یہ بات انتہائی ناگوارہو، تونے حضورتاجدارختم نبوتﷺکی تکذیب کی ہے اورآپ ﷺکی گستاخیاں کی ہیں اورگھٹیالوگوں کی خوشی حاصل کرنے کی کوشش کی ہے اگرتیراتعلق ہاشم کے اعلی اورمعززلوگوں سے ہوتاتوتوکبھی یہ کمینے لوگوں والی حرکات نہ کرتا، لیکن تواپنے باپ لحیان کاوارث ہے اورتمھاراقبیلہ بدگوئی کامرکز ہے ، اس لئے توبنوہاشم کی طرف منسوب ہوناچھوڑ دے ۔ بنوہاشم نے عزتیں اوربلندیاں سمیٹ لی ہیں اورتوذلت کی گہرائیوں میں پڑارہ گیا۔
(دیوان حسان بن ثابت لدکتورعمرفاروق : ۱۲۳)
ابوجہل کی مذمت
سَمّاہُ مَعشَرُہُ أَبا حَکَم
وَاللَہِ سَمّاہُ أَبا جَہل
ِفَما یَجیء ُ الدَہرَ مُعتَمِراً
إِلّا وَمِرجَلُ جَہلِہِ یَغلی
وَکَأَنَّہُ مِمّا یَجیشُ بِہ
ِیُبدی الفُجورَ وَسَورَۃَ الجَہل
یُغری بِہِ سُفعٌ لَعامِظَۃٌ
مِثلُ السِباعِ شَرَعنَ فی الضَحل
أَبقَت رَیاسَتُہُ لِمَعشَرِہ
ِغَضَبَ الإِلَہِ وَذِلَّۃَ الأَصل
ِإِن یَنتَصِر یَدمی الجَبینُ وَإِن
یُلبَث قَلیلاً یودَ بِالرَحل
ترجمہ :ابوجہل کے خاندان نے اس کانام ابوالحکم رکھالیکن اللہ تعالی نے اس کو ابوجہل کانام دیاہے ، جب تک زمانہ باقی رہے گااس کے دل میں جہالت کی ہنڈیاابلتی رہے گی ، اس کادل گناہوں اورجہالت کامنبع ہے ، وہ سیاہ اعمال والااورشہوت پرست شخص ہے ، برے اعمال کی طرف اس طرح لپکتاہے جس طرح پیاسے جانورپانی پینے کے لئے جاتے ہیں ، اس کی سرداری اس کی قوم کے لئے ذلت کانشان ہے اوراللہ تعالی کے غضب کاذریعہ بنتی رہے گی ، اس کی بزدلی اورضعف کایہ حال ہے کہ اگرکسی سے انتقام لینے جائے توخون آلود پیشانی اورشکست آلود چہرہ لے کرواپس آتاہے اوراگرکسی ساتھی کاتاوان دے تواس کی چوری کرلیتاہے ۔
(دیوان حسان بن ثابت لدکتورعمرفاروق : ۱۳۴)
ماں کی تربیت کاانوکھاانداز
وقال الزّبیر بن بکّار فی کتاب النّسب:حدّثنی عمی مصعب، عن جدّی عبد اللَّہ بنمصعب أن العوّام لما مات کان نوفل بن خویلد یلی ابن أخیہ الزبیر، وکانت صفیۃ تضربہ وہو صغیر وتغلظ علیہ، فعاتبہا نوفل وقال:ما ہکذا یضرب الولد، إنک لتضربینہ ضرب مبغضۃ فرجزت بہ صفیۃ:
من قال إنّی أبغضہ فقد کذب
.وإنّما أضربہ لکی یلب
ویہزم الجیش ویأتی بالسّلب
ولا یکن لمالہ خبأ مخب
ترجمہ :جب حضورتاجدارختم نبوتﷺنے ہجرت کی تواس وقت حضرت سیدنازبیربن عوام رضی اللہ عنہ کی عمرمبارک اٹھائیس سال تھی ، ان کی والدہ ماجدہ حضرت سیدتناصفیہ رضی اللہ عنہانے ابتداء ہی سے ان کی ایسی تربیت کی تھی کہ وہ جوان ہوکرایک بہادراوراولوالعزم مردثابت ہوں ، چنانچہ وہ بچپن ہی میں عموماًان کو ماراکرتی تھیں اورسخت سے سخت کاموں میں ان کو مشغول رکھاکرتی تھیں ۔
ایک دفعہ حضرت سیدنانوفل بن خویلد جواپنے بھائی عوام کے انتقال کے بعد ان کے سرپست تھے ، حضرت سیدتناصفیہ رضی اللہ عنہاپربرہم ہوئے کہ کیاتم اس بچے کو اسی طرح مارمارکرماڈالوگی ،اوربنوہاشم سے کہا: تم لوگ صفیہ رضی اللہ عنہاکوسمجھاتے کیوں نہیں ؟ حضرت سیدتناصفیہ رضی اللہ عنہانے یہ رجز اس خفگی کے جواب میں پڑھا:
من قال إنّی أبغضہ فقد کذب
.وإنّما أضربہ لکی یلب
ویہزم الجیش ویأتی بالسّلب
ولا یکن لمالہ خبأ مخب
ترجمہ :جوشخص یہ کہتاہے کہ میں زبیررضی اللہ عنہ سے بغض رکھتی ہوں تووہ شخص جھوٹاہے ، میں تواس لئے اسے مارتی ہوں کہ یہ سمجھدارہوشیارہوجائے اورکافروں کے لشکروں کو شکست دے اورمال غنیمت حاصل کرے ۔
(الإصابۃ فی تمییز الصحابۃ:أبو الفضل أحمد بن علی بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلانی (۲:۴۵۸)
الدکتورعمرفاروق رحمہ اللہ تعالی کی تحقیق کے مطابق یہ اشعاربھی حضرت سیدناحسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے ہیں ۔
(دیوان حسان بن ثابت لدکتورعمرفاروق : ۱۳۴)
بحمدللہ تعالی سورۃ الفرقان کااختتام ۹ محرم الحرام ۱۴۴۲ھ/۲۹ اگست ۲۰۲۰ء) بوقت۳ بج کر۱۴منٹ )

Leave a Reply