حضورتاجدارختم نبوتﷺکی نبوت شریفہ کے صد ق پردلائل دیکھنے کے بعدبھی کفارکادشمنی کی وجہ سے ایما ن نہ لانا
{وَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَیْہِ اٰیَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ اِنَّمَآ اَنْتَ مُنْذِرٌ وَّ لِکُلِّ قَوْمٍ ہَادٍ}(۷)
ترجمہ کنزالایمان:اور کا فر کہتے ہیں ان پر ان کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیو ں نہیں اتری تم تو ڈر سنانے والے ہو اور ہر قوم کے ہادی۔
ترجمہ ضیا ء الایمان:اور کا فر کہتے ہیں: حضورتاجدارختم نبوتﷺپر رب تعالی کی طرف سے کوئی نشانی کیو ں نہیں اتری ؟اے حبیب کریمﷺ!آپﷺتو ڈر سنانے والے ہیں اور ہر قوم کے ہادی ہیں۔
مفتی محمدقاسم قادری لکھتے ہیں کافروں کا یہ قول نہایت بے ایمانی کا قول تھا کیونکہ جتنی آیات نازل ہوچکی تھیں اور جتنے معجزات دکھائے جا چکے تھے سب کو انہوں نے کالعدم قرار دے دیا، یہ انتہا درجہ کی ناانصافی اور حق دشمنی ہے۔ جب دلائل قائم ہوچکیں اور ناقابلِ انکار شواہد پیش کردیئے جائیں اور ایسے دلائل سے مُدّعا ثابت کردیا جائے جس کے جواب سے مخالفین کے تمام اہلِ علم و ہنر عاجز اور حیران رہیں اور انہیں لب ہلانا ،زبان کھولنا محال ہوجائے ،توایسے روشن دلائل ،واضح شواہد اور ظاہر معجزات کودیکھ کر یہ کہہ دینا کہ کوئی نشانی کیوں نہیں اُترتی؟ روزِ روشن میں دن کا انکار کردینے سے بھی زیادہ بدتر اور باطل تر ہے اور حقیقت میں یہ حق کو پہچان کر اس سے عناد اور فرار ہے کیونکہ کسی دعوے پر جب مضبوط دلیل قائم ہوجائے پھر اس پر دوبارہ دلیل قائم کرنی ضروری نہیں رہتی اور ایسی حالت میں دلیل طلب کرنا عناد اور مخالفت ہوتا ہے اورجب تک پہلی دلیل کو رد نہ کردیا جائے کوئی شخص دوسری دلیل طلب کرنے کا حق نہیں رکھتا اور اگر یہ سلسلہ قائم کردیا جائے کہ ہر شخص کے لئے نئی دلیل قائم کی جائے جس کو وہ طلب کرے اور وہی نشانی لائی جائے جو وہ مانگے تو نشانیوں کا سلسلہ کبھی ختم نہ ہوگا، اس لئے اللہ تعالیٰ کی حکمت یہ ہے کہ انبیاء ِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ایسے معجزات دیئے جاتے ہیں جن سے ہر شخص ان کی صداقت اور نبوت کا یقین کرسکے اور بہت سے معجزات اس قسم کے ہوتے ہیں کہ جس میں اُن کی امت اور ان کے زمانے کے لوگ زیادہ مشق و مہارت رکھتے ہیں جیسے کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانہ میں جادو کا علم اپنے کمال کو پہنچاہوا تھا اور اس زمانے کے لوگ جادو کے بڑے ماہرِ کامل تھے تو حضر ت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو وہ معجزہ عطا ہوا جس نے جادو کو باطل کردیا اور جادوگروں کو یقین دلا دیا کہ جو کمال حضرت موسی ٰعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے دکھایا وہ رَبّانی نشان ہے ،جادو سے اس کا مقابلہ ممکن نہیں۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں طب انتہائی عروج پر تھی اس لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو شفائے اَمراض اور مردے زندہ کرنے کا وہ معجزہ عطا فرمایا جس سے طب کے ماہرین عاجز ہوگئے اور وہ اس یقین پر مجبور تھے کہ یہ کام طب سے ناممکن ہے ، لہٰذا یقینا یہ قدرتِ الٰہی کازبردست نشان ہے۔ اسی طرح حضورتاجدارختم نبوتﷺکے زمانہ مبارکہ میں عرب کی فصاحت و بلاغت اَوجِ کمال پرپہنچی ہوئی تھی اور وہ لوگ خوش بیانی میں عالَم پر فائق تھے ،حضورتاجدارختم نبوتﷺکو اللہ تعالیٰ نے وہ معجزہ عطا فرمایا جس نے اُنہیں عاجزو حیران کردیا اوراُن کے بڑے سے بڑے لوگ اور اُن کے اہلِ کمال کے گروہ قرآنِ کریم کے مقابل ایک چھوٹی سی عبارت پیش کرنے سے بھی عاجز و قاصر رہے اور قرآن کے اس کمال نے یہ ثابت کردیا کہ بیشک یہ رَبّانی عظیم نشان ہے اور اس کا مثل بنا لا نا بشری قوت کیلئے ممکن نہیں ،اس کے علاوہ اور صدہا معجزات حضورتاجدارختم نبوتﷺ نے پیش فرمائے جنہوں نے ہر طبقہ کے انسانوں کو آپﷺ کی رسالت کی صداقت کا یقین دلادیا، ان معجزات کے ہوتے ہوئے یہ کہہ دینا کہ کوئی نشانی کیوں نہیں اُتری کس قدر عناد اور حق سے مکرنا ہے۔( تفسیرصراط الجنان( ۵: ۷۷)
آیت کریمہ کی دوتفسیریں
فِی تَفْسِیرِ ہَذِہِ الْآیَۃِ وُجُوہٌ الْأَوَّلُ:الْمُرَادُ أَنَّ الرَّسُولَ عَلَیْہِ السَّلَامُ مُنْذِرٌ لِقَوْمِہِ مُبَیِّنٌ لَہُمْ، وَلِکُلِّ قَوْمٍ مِنْ قَبْلِہِ ہَادٍ وَمُنْذِرٌ وَدَاعٍ، وَأَنَّہُ تَعَالَی سَوَّی بَیْنَ الْکُلِّ فِی إِظْہَارِ الْمُعْجِزَۃِ إِلَّا أَنَّہُ کَانَ لِکُلِّ قَوْمٍ طَرِیقٌ مَخْصُوصٌ لِأَجْلِہِ اسْتَحَقَّ التَّخْصِیصَ بِتِلْکَ الْمُعْجِزَۃِ الْمَخْصُوصَۃِ، فَلَمَّا کَانَ الْغَالِبُ فِی زَمَانِ مُوسَی عَلَیْہِ السَّلَامُ ہُوَ السِّحْرَ جَعَلَ مُعْجِزَتَہُ مَا ہُوَ أَقْرَبُ إِلَی طَرِیقَتِہِمْ، وَلَمَّا کَانَ الْغَالِبُ فِی أَیَّامِ عِیسَی عَلَیْہِ السَّلَامُ الطِّبَّ، جَعَلَ مُعْجِزَتَہُ مَا کَانَ مِنْ جِنْسِ تِلْکَ الطَّرِیقَۃِ وَہُوَ إِحْیَاء ُ الْمَوْتَی وَإِبْرَاء ُ الْأَکْمَہِ وَالْأَبْرَصِ، وَلَمَّا کَانَ الْغَالِبُ فِی أَیَّامِ الرَّسُولِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْفَصَاحَۃَ وَالْبَلَاغَۃَ جَعَلَ مُعْجِزَتَہُ مَا کَانَ لَائِقًا بِذَلِکَ الزَّمَانِ وَہُوَ فَصَاحَۃُ الْقُرْآنِ فَلَمَّا کَانَ الْعَرَبُ لَمْ یُؤْمِنُوا بِہَذِہِ الْمُعْجِزَۃِ مَعَ کَوْنِہَا أَلْیَقَ بِطِبَاعِہِمْ فَبِأَنْ لَا یُؤْمِنُوا عِنْدَ إِظْہَارِ سَائِرِ الْمُعْجِزَاتِ أَوْلَی فَہَذَا ہُوَ الَّذِی قَرَّرَہُ الْقَاضِی وَہُوَ الوجہ الصَّحِیحُ الَّذِی یَبْقَی الْکَلَامُ مَعَہُ مُنْتَظِمًاوَالوجہ الثَّانِی:وَہُوَ أَنَّ الْمَعْنَی أَنَّہُمْ لَا یَجْحَدُونَ کَوْنَ الْقُرْآنِ مُعْجِزًا فَلَا یَضِیقُ قَلْبُکَ بِسَبَبِہِ إِنَّمَا أَنْتَ مُنْذِرٌ فَمَا عَلَیْکَ إِلَّا أَنْ تُنْذِرَ إِلَی أَنْ یَحْصُلَ الْإِیمَانُ فِی صُدُورِہِمْ وَلَسْتَ بِقَادِرٍ عَلَیْہِمْ وَلِکُلِّ قَوْمٍ ہَادٍ، قَادِرٌ عَلَی ہِدَایَتِہِمْ بِالتَّخْلِیقِ وَہُوَ اللَّہُ سُبْحَانَہُ وَتَعَالَی فَیَکُونُ الْمَعْنَی لَیْسَ لَکَ إِلَّا الْإِنْذَارُ، وَأَمَّا الْہِدَایَۃُ فَمِنَ اللَّہِ تَعَالَی.
ترجمہ:امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ کی یہ تفاسیرہوسکتی ہیں :
پہلی تفسیر…اس سے مراد یہ ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺاپنی قوم کے لئے منذراورداعی ہیں اورآپﷺسے پہلے ہرقوم کے ہادی اورمنذرہوئے ہیں ، اللہ تعالی نے تما م کے لئے اظہارمعجزہ کو برابرقراردیا، البتہ ہرایک قوم کاایک مخصوص طریقہ ہے جس کی وجہ سے وہ مخصوص معجزہ کے ساتھ تخصیص کی مستحق بنی ۔
حضرت سیدناموسی علیہ السلام کے زمانہ میں غالب جادوتھاتوآپ علیہ السلام کامعجزہ ایسابنایاجوان کے طریقہ کے زیادہ قریب تھا، حضرت سیدناعیسی علیہ السلام کے دورمیں طب کاغلبہ تھاتوانہیں ایسامعجزہ عطاکیا، مردوں کوزندہ کرنا، نابینوں کواوربرص والوں کوشفادینا۔ جب حضورتاجدارختم نبوتﷺکے زمانہ اقدس میں فصاحت وبلاغت کادوردورہ تھاآپﷺکو اسی زمانہ کے مطابق معجزہ دیااوروہ قرآن کریم کی فصاحت ہے ، جب عرب اس معجزہ پرایمان نہ لائے جوان کے طبائع کے زیادہ قریب اورمناسب تھاتووہ دیگرمعجزات کے ظہورپربطریق اولی ایمان نہیں لائیں گے اوریہ کلام قاضی رحمہ اللہ تعالی کاہے اوریہ ایسی صحیح وجہ بیان کی گئی ہے جس کے ساتھ کلام کانظم باقی رہتاہے ۔
دوسری تفسیر: اے حبیب کریم ﷺ!انہوںنے قرآن کریم کے معجزہ ہونے کاانکارنہیں کیا، اس وجہ سے آپﷺکادل تنگ نہیں ہوناچاہیے ، کیونکہ آپ ﷺتومنذرہیں اورآپﷺپریہی لازم ہے کہ آپﷺان کوڈرسنائیں یہاں تک کہ ان کے سینوں میں ایمان حاصل ہوجائے اورآپ ﷺاس پرقادرنہیں اورہرقوم پرہادی ہے اوران میں تخلیق ہدایت پرقادرصرف اورصرف اللہ تعالی کی ذات ہے تومعنی یہ ہواکہ آپ ﷺکاکام صرف انذارہے ، رہی ہدایت تووہ اللہ تعالی کی طرف سے ہے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۱۹:۱۳)
محض دشمنی کی وجہ سے کفارکاحضورتاجدارختم نبوتﷺکا انکارکرنا
آیَۃٌ ای علامۃ وحجۃ علی نبوتہ مِنْ رَبِّہِ لم یعتدوا بالآیات المنزلۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم- واقترحوا آیات اخر تعنتا وعنادا۔
ترجمہ :حضرت قاضی ثناء اللہ حنفی پانی پتی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ آیت یعنی کوئی خاص نشانی اورمعجزہ جو حضورتاجدارختم نبوتﷺکی نبوت کو ثابت کررہاہو۔حضورتاجدارختم نبوتﷺپرجومعجزات نازل کئے گئے کافروں کے نزدیک درخوراعتناء نہیں تھے اورحضورتاجدارختم نبوتﷺکے ساتھ دشمنی اورعناد کی وجہ سے معجزات کے طلبگارتھے ۔
(التفسیر المظہری:المظہری، محمد ثناء اللہ(۵:۲۱۷)
کفارکامعجزات طلب کرنامحض دشمنی اورعنادکی وجہ سے تھا
یَقُولُ تَعَالَی إِخْبَارًا عَنِ الْمُشْرِکِینَ أَنَّہُمْ یَقُولُونَ کُفْرًا وَعِنَادًا: لَوْلَا یَأْتِینَا بِآیَۃٍ مِنْ رَبِّہِ کَمَا أُرْسِلَ الْأَوَّلُونَ، کَمَا تَعَنَّتُوا عَلَیْہِ أن یجعل لہم الصفا ذہبا، وأن یزیح عَنْہُمُ الْجِبَالَ، وَیَجْعَلَ مَکَانَہَا مُرُوجًا وَأَنْہَارًا، قَالَ تَعَالَی: وَما مَنَعَنا أَنْ نُرْسِلَ بِالْآیاتِ إِلَّا أَنْ کَذَّبَ بِہَا الْأَوَّلُونَ (الإسراء : ۵۹)الآیۃ، قَالَ اللَّہُ تَعَالَی: إِنَّما أَنْتَ مُنْذِرٌ أَیْ إِنَّمَا عَلَیْکَ أَنْ تُبَلِّغَ رِسَالَۃَ اللَّہِ الَّتِی أمرک بہا، ولَیْسَ عَلَیْکَ ہُداہُمْ۔
ترجمہ:حافظ ابن کثیرالحنبلی المتوفی : ۷۷۴ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے کافروں کی طرف سے خبردیتے ہوئے ارشادفرمایا:کافرلوگ حضورتاجدارختم نبوتﷺکی دشمنی کی وجہ سے اورحضورتاجدارختم نبوتﷺپراعتراض کرتے ہوئے کہاکرتے تھے جس طرح پہلے انبیاء کرام علیہم السلام معجزات لے کرآئے یہ نبی ﷺکیوں نہیں لائے مثلاًصفاپہاڑ سونے کابنادیتے ،یاعرب کے پہاڑ یہاں سے ہٹ جاتے اوریہاں سبزہ اورنہریں ہوجاتیں ، پس ان کے جواب میں اللہ تعالی نے اورمقام پرفرمایا:{وَما مَنَعَنا أَنْ نُرْسِلَ بِالْآیاتِ إِلَّا أَنْ کَذَّبَ بِہَا الْأَوَّلُونَ }(الإسراء : ۵۹)ہم یہ معجزات بھی دکھادیتے مگراگلوں کی طرح ان کے جھٹلانے پرپھراگلوں جیسے عذاب ان پربھی آجاتے توان کی باتوں سے مغموم ومتفکرنہ ہوجائیں اوراے حبیب کریمﷺ!آپ ﷺکے ذمے توصرف تبلیغ ہی ہے ، آپﷺہادی ہیں ، ان کے نہ ماننے سے آپ ﷺکی پکڑنہ ہوگی ۔ ہدایت اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے ، ان کوہدایت دیناآپ ﷺپرلازم نہیں ہے ۔
(تفسیربن کثیر:أبو الفداء إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی البصری ثم الدمشقی (۴:۳۷۲)
منذرکون اورہادی کون؟
عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ،عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ،قَالَ:لَمَّا نَزَلَتْ (إِنَّمَا أَنْتَ مُنْذِرٌ وَلِکُلِّ قَوْمٍ ہَادٍ)(الرعد:۷)وَضَعَ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَدَہُ عَلَی صَدْرِہِ، فَقَالَ:َٔنَا الْمُنْذِرُ (وَلِکُلِّ قَوْمٍ ہَادٍ)(الرعد:۷)وَأَوْمَأَ بِیَدِہِ إِلَی مَنْکِبِ عَلِیٍّ فَقَالَ:أَنْتَ الْہَادِی یَا عَلِیٌّ، بِکَ یَہْتَدِی الْمُہْتَدُونَ بَعْدِی وَقَالَ آخَرُونَ:مَعْنَاہُ:لِکُلِّ قَوْمٍ دَاعٍ۔
ترجمہ :حضرت سیدناسعیدبن جبیررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمانے بیان کیاکہ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی توحضورتاجدارختم نبوتﷺنے اپنے سینہ اطہرپر ہاتھ مبارک رکھااورفرمایا: میں ڈرسنانے والاہوں اورپھرحضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ کے کندھے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اے علی !آپ ہادی ہوتمھاری وجہ سے میرے بعد لوگ ہدایت پانے والے ہدایت پائیں گے ۔
اوردوسرے مفسرین نے اس کامعنی یہ بھی بیان کیاہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ ہرقوم کودعوت دینے والاہوتاہے۔
(تفسیر الطبری :محمد بن جریر بن یزید بن کثیر بن غالب الآملی، أبو جعفر الطبری (۱۳:۴۲۲)
شاگرداورمتبعین بڑھاوٓتاکہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکی عزوجاہ میں اضافہ ہو
والغرض من الإرشاد اقامۃ جاہ محمد علیہ السلام بتکثیر اتباعہ الکاملین وفی الحدیث (تناکحوا تناسلوا فانی مکاثر بکم الأمم)وہذا التناکح والتناسل یشمل ما کان صوریا وما کان معنویا فان السلسلۃ ممدودۃ من الطرفین الی آخر الزمان۔
ترجمہ :امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی: ۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ دراصل حدیث شریف میں حضورتاجدارختم نبوتﷺکی عظمت وشان کااظہارہے تاکہ آپ ﷺکی ہدایت کادائرہ وسیع ہوتوآپ ﷺکے متبعین کاملین کی کثرت ہو۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ نکاح کرکے بہت زیادہ بچے جنو، اس لئے کہ قیامت کے دن میں تمھاری کثرت کی وجہ سے دوسری امتوں پرفخرکروں گا۔
یہ نکاح اوربچے جنناظاہری اورباطنی دونوں سلسلوں میں شامل ہے ، باطنی کامطلب یہ ہے کہ روحانی اولاد مثلاًمتبعین اورشاگرداوردینی علوم کی نشرواشاعت وغیرہ۔
( روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۴:۳۴۶)
اس سے مراد وہ حدیث شریف ہے جس میں حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایاکہ اے علی تیری وجہ سے کسی ایک شخص کاہدایت پاناتیرے لئے سرخ اونٹوں سے بہترہے ۔ چونکہ اس حدیث شریف میں بھی یہی درس دیاگیاہے کہ تمھاری وجہ سے لوگوں کاہدایت پرآناتمھارے لئے سرخ اونٹوں سے بہترہے ۔
جوشخص حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی عزت وجاہ میں اضافہ کاخواہشمندہو۔۔۔
واعلم ان المعلم الناصح إذا رغب فی إصلاحک وإصلاح غیرک حتی یودّ لو ان الناس کلہم صلحوا علی یدیہ فانما یرغب فی ذلک لیکثر اتباع محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم لما سمعہ یقول (انی مکاثر بکم الأمم)وہذا مقام رفیع لغناہ عن عظۃ فی إرشادہ وانما غرضہ اقامۃ جاہ محمد وتعظیمہ
ترجمہ :امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی : ۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اگرکوئی شخص اس نیت کے ساتھ کسی کی اصلاح کرے کہ اس کے ساتھ حضورتاجدارختم نبوتﷺکے پیروکاروں میں اضافہ ہوجیساکہ حدیث شریف میں ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا:میں تمھاری کثرت سے دوسری امتوں پرفخرکروں گا۔ ایسے شخص کابہت بلندمقام ہے ، اس لئے کہ وہ اپنے دین کے معاملے میں اپنے حبیب کریم ﷺکی تعظیم وتکریم اورعزوجاہ کی رفعت وبلندی کاخواہشمندہے۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۴:۶۷)
حضرت سیدتنارابعہ بصریہ رضی اللہ عنہاکاعمل شریف
کما یحکی ان رابعۃ العدویۃ کانت تصلی فی الیوم واللیلۃ الف رکعۃ وتقول ما أرید بہا ثوابا ولکن لیسر بہا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ویقول للانبیاء انظروا الی امرأۃ من أمتی ہذا عملہا فی الیوم واللیلۃ فاذا تعلقت نیۃ المعلم والعامل بہذا یجازیہما اللہ علی ذلک من حیث المقام۔
ترجمہ:جیساکہ حضرت سیدتنارابعہ بصریہ رضی اللہ عنہاکے متعلق منقول ہے کہ وہ رات اوردن میں ایک ہزاررکعت نفل پڑھاکرتی تھیں ، ان سے پوچھاگیاکہ آپ اتنے نوافل کیوں پڑھتی ہیں؟ توآپ رضی اللہ عنہانے جواب دیاکہ اس سے میراثواب کاارادہ نہیں ہے بلکہ تمنایہ ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺخوش ہوںاورقیامت کے دن انبیاء کرام علیہم السلام سے فرمائیں گے دیکھومیری امت کی ایک عورت یہ ہے جودن اوررات میں ہزاررکعت نفل پڑھاکرتی تھی۔
استاد اورشاگرددونوں کایہی ارادہ ہوجومذکورہواتوانہیں اللہ تعالی بہت بڑے اجروثواب سے نوازے گابلکہ بہت بلندمقام پرفائر فرمائے گا۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۴:۶۷)