رفسیرسورۃالرعد آیت ۴۲۔ وَقَدْ مَکَرَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ فَلِلّٰہِ الْمَکْرُ جَمِیْعًا یَعْلَمُ مَا تَکْسِبُ کُلُّ نَفْسٍ وَسَیَعْلَمُ الْکُفّٰرُ لِمَنْ عُقْبَی الدَّارِ

حضورتاجدارختم نبوتﷺکے گستاخوں کو سزاضرورملے گی ظاہراًبھی اورباطناًبھی

{وَقَدْ مَکَرَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ فَلِلّٰہِ الْمَکْرُ جَمِیْعًا یَعْلَمُ مَا تَکْسِبُ کُلُّ نَفْسٍ وَسَیَعْلَمُ الْکُفّٰرُ لِمَنْ عُقْبَی الدَّارِ }(۴۲)

ترجمہ کنزالایمان:اور ان سے اگلے فریب کرچکے ہیں تو ساری خفیہ تدبیر کا مالک تو اللہ ہی ہے جانتا ہے جو کچھ کوئی جان کمائے اور اب جاننا چاہتے ہیں کافر کسے ملتا ہے پچھلا گھر۔

ترجمہ ضیاء الایمان:اور ان(انبیاء کرام علیہم السلام) سے پہلے لوگ فریب کرچکے ہیں تو ساری خفیہ تدبیر کا مالک تو اللہ تعالی ہی ہے۔وہ جانتا ہے جو کچھ کوئی جان عمل کمائے اور عنقریب کافر جان لیں گے کہ آخرت کا اچھا انجام کس کے لئے ہے؟

قدیم گستاخوں کاانجام بد

یقول تعالی:وَقَدْ مَکَرَ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِہِمْ بِرُسُلِہِمْ، وَأَرَادُوا إِخْرَاجَہُمْ مِنْ بِلَادِہِمْ، فَمَکَرَ اللَّہُ بِہِمْ وَجَعَلَ العاقبۃ للمتقین، کقولہ:وَإِذْ یَمْکُرُ بِکَ الَّذِینَ کَفَرُوا لِیُثْبِتُوکَ أَوْ یَقْتُلُوکَ أَوْ یُخْرِجُوکَ وَیَمْکُرُونَ وَیَمْکُرُ اللَّہُ وَاللَّہُ خَیْرُ الْماکِرِینَ (الأنفال:۳۰)، وقولہ تَعَالَی:وَمَکَرُوا مَکْراً وَمَکَرْنا مَکْراً وَہُمْ لَا یَشْعُرُونَ فَانْظُرْ کَیْفَ کانَ عاقِبَۃُ مَکْرِہِمْ أَنَّا دَمَّرْناہُمْ وَقَوْمَہُمْ أَجْمَعِینَ فَتِلْکَ بُیُوتُہُمْ خاوِیَۃً بِما ظَلَمُوا ۔

ترجمہ :امام حافظ ابن کثیرالحنبلی المتوفی : ۷۷۴ھ) رحمہ اللہ تعالی اس آیت کریمہ {وَقَدْ مَکَرَ الَّذِینَ مِنْ قَبْلِہِمْ}کے تحت فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے فرمایاکہ پہلے کافروں نے بھی انبیاء کرام علیہم السلام کی گستاخیاں کیں اوران کوان کے شہروں سے نکالناچاہا، اللہ تعالی نے ان سے ان کے مکرکابدلہ لیا، انجام کارمتقی لوگوں کا ہی بھلاہوا، اس سے پہلے حضورتاجدارختم نبوتﷺکے زمانے کے گستاخوں کی کارستانی بیان ہوچکی ہے کہ وہ آپﷺکو قیدکرنے یاشہیدکرنے یادیس سے نکالنے کے مشورے کررہے تھے ، حضورتاجدارختم نبوتﷺکے خلاف مشورے کررہے تھے ادھراللہ تعالی نے ان کے خلاف اپنی خفیہ تدبیرفرمائی ، بھلااللہ تعالی سے زیادہ اچھی خفیہ تدبیرکس کی ہوسکتی ہے ؟ ان کے مکرپرہم نے بھی یہی کیااوریہ بے خبررہے ، دیکھ لیں ان کے مکرکاانجام کیاہوا؟ یہی کہ ہم نے ان کو غارت کردیا۔ ان کی ساری قوم کوبربادکردیا، ان کے ظلم کی شہادت دینے والی غیرآبادبستیوں کے کھنڈرات اب بھی موجود ہیں۔
(تفسیر ابن کثیر:أبو الفداء إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی البصری ثم الدمشقی (۴:۴۰۷)

گستاخوں اوردین دشمنوں کو تنبیہ

مر ضعیفانرا تو بی خصمی مدان

از نبی إذ جاء اللہ بخوان

کرد خود چون کرم پیلہ بر متن

بہر خود چہـ میکنی اندازہ کن

کر تو پیلی خصم تو از تو رمید

نک جزا طیرا ابابیلت رسید

کر ضعیفی در زمین خواہد أمان

غلغل افتد در سپاہ آسمان

کر بد ندانش کزی پر خون کنی

درد دندانت بگیرد چون کنی

ترجمہ :مولاناروم رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ کمزوروں کو بے یارومددگارمت جان جبکہ اللہ تعالی نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکے لئے فرمایا:{ إذ جاء اللہ} اپنے اردگردمکڑی کی طرح جالانہ بنا، اپنے اندازے کے مطابق ہی دنیاکی چیزیں حاصل کر، اگرمست ہاتھ بھی ہوتوتب بھی اللہ تعالی کی قدرت کاملہ کو مت بھول ، دیکھ اللہ تعالی نے ابرہہ کے لشکرکوابابیلوں سے مروادیااوراگرکوئی ضعیف زمین پراللہ تعالی سے مددمانگتاہے توآسمان کے لشکروں میں شوربرپاہوجاتاہے ، اگرتوکسی کو دانتوں سے چبائے گاتوتیرامنہ خون سے بھرجائے گا،ا گرتودانت اکھاڑے گاتوتجھے سخت درد ہوگا۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۴:۳۹۰)

اللہ تعالی دین کے مددگاروں کی مددفرماتاہے

قال سعدی المفتی ثم لا یبعد ان یکون المراد واللہ اعلم سیعلم الکفار من یملک الدنیا آخرا فاللام للملک انتہی فینبعی للمؤمن ان یتوکل علی المولی ویعتمد علی وعدہ ویوافقہ باستعجال ما عجلہ واستئجال ما اجلہ وکما انہ تعالی نصر رسولہ فکان ما کان کذلک ینصر من نصر رسولہ فی کل عصر وزمان فیجعلہ غالبا علی أعدائہ الظاہرۃ والباطنۃ۔

ترجمہ :الشیخ السعدی المفتی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیںکہ ممکن ہے کہ عنقریب کافروں کو معلوم ہوگاکہ بالآخردنیاکامالک کون ہے ؟ اس معنی پرلام تملیک کی ہے ۔ بندہ مومن پرلازم ہے کہ وہ صرف اورصرف اللہ تعالی کی ذات پرتوکل کرکے اس کے وعدے پراعتمادکرے اورجوچیزیں اس نے جلدعنایت فرمانے کاوعدہ فرمایاہے ان کی اسی عجلت پرراضی ہواورجن سے چندروز کی مہلت کاوعدہ فرمایاہے تواسی وعدہ کاانتظارکرے جیساکہ اللہ تعالی نے حضورتاجدارختم نبوتﷺسے وعدہ فرمایا تو ویسے ہی ہوا۔ اسی طرح جوشخص حضورتاجدارختم نبوتﷺکے دین کی مددکرتاہے خواہ وہ کسی زمانے میں ہواللہ تعالی اس کے دشمنوں پرغلبہ عطافرماتاہے ظاہراًبھی اورباطناًبھی ۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۴:۳۹۰)

حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے گستاخ کو سزا

وکان ابو لہب قد تأخر فی مکۃ وعاش بعد ان جاء الخبر عن مصاب قریش ببدر أیاما قلیلۃ ورمی بالعدسۃ وہی بثرۃ تشبہ العدسۃ من جنس الطاعون فقتلتہ فلم یحفروا لہ حفیرۃ ولکن أسندوہ الی حائط وقذفوا علیہ الحجارۃ خلف الحائط حتی واروہ لان العدسۃ قرحۃ کانت العرب تتشاء م بہا ویرون انہا تعدی أشد العدوی فلما أصابت أبا لہب تباعد عنہ بنوہ وبقی بعد موتہ ثلاثا لا یقرب جنازتہ ولا یحاول دفنہ حتی أنتن فلما خافوا السبۃ ای سب الناس لہم فعلوا بہ ما ذکر وفی روایۃ حفروا لہ ثم دفعوہ بعود فی حفرتہ وقذفوہ بالحجارۃ من بعید حتی واروہ فوجد جزاء مکرہ برسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

ترجمہ :ابولہب غزوہ بدرسے رہ گیاتھا، قریش مکہ کی ذلت وخواری کے تھوڑے عرصے بعد عدسہ کی بیماری میں واصل بالنارہوا، عدسہ ایک طاعونی بیماری کانام ہے ، جس سے مسورکی دال کے دانے کے برابرپھنسیاں جسم پرنکل آتی ہیں ، جوبہت گندی اورسخت خطرناک ہوتی ہیں ، چونکہ یہ وبائی اورمتعدی مرض ہے ، اس کے ورثاء نے اس خوف سے کہ کہیں اس کی بیمار ی دوسروں کو نہ لگ جائے ، انہوں نے بجائے گڑھاکھودنے کے ایک دیوارکے ساتھ بٹھاکراس پرپتھرڈالنے شروع کردئیے ، یہاں تک کہ اس کاجسم چھپ گیا، جیساکہ پہلے عرض کیاگیاہے کہ عدسہ ایک زخم کانام ہے جسے اہل عرب منحوس بیماری جانتے تھے ، اوران کاخیال تھاکہ اس جیسی گندی اورمتعدی مرض اورکوئی نہیں ہے ، اس لئے ابولہب کواس کے بیٹے بھی چھوڑگئے تھے ۔ تین دن تک ایسے ہی زمین پرپڑارہا، لوگ اس کی میت کے قریب جانے سے گھبراتے تھے اوروہ اسے دفن نہ کرتے تھے ، جب کافی وقت گزرگیااوراس کے مردارسے بدبواٹھنے لگی تواس کے بیٹے گبھرائے کہ کہیں عوام گالیاں ہی نہ دے اورپھروہی کاروائی کی جوپہلے ذکرکی جاچکی ہے ۔ اورایک روایت میں ہے کہ پہلے ایک گڑھاکھوداگیا، پھراسے لکڑیوں سے دھکیل کراس میں ڈال کراوپرسے پتھرپھینکے گئے ، یہاں تک کہ گڑھاپرہوگیا۔ حضورتاجدارختم نبوتﷺکے گستاخ کی سزایونہی ہوتی ہے کسی کو کھلم کھلاسزاملتی ہے توکسی کو پوشیدہ طورپر۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۴:۳۹۰)

گستاخ کی قبرکے پاس سے منہ ڈھانپ کرگزرنا

وکانت عائشۃ رضی اللہ عنہا إذا مرت بموضعہ ذلک غطت وجہہا ۔
ترجمہ :حضرت سیدتناعائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہماجب بھی ابولہب کے گڑھے کے پاس سے گزرتی تھیں تواپناچہرہ چھپالیتی تھیں جیسے کسی بدبودارچیزسے منہ چھپایاجاتاہے ۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۴:۳۹۰)

کعبہ مشرفہ کے گستاخوں کی قبروں پرپتھراوٓ

قال فی النور وہذا القبر الذی یرجم خارج باب شبیکۃ الآن لیس بقبر ابی لہب وانما ہو قبر رجلین لطخا الکعبۃ بالعذرۃ وذلک فی دولۃ بنی العباس فان الناس أصبحوا ووجدوا الکعبۃ ملطخۃ بالعذرۃ فرصدوا للفاعل فامسکوہما بعد ایام فصلبا فی ذلک الموضع فصارا یرجمان الی الآن فہذا جزاؤہما فی الدنیا وقد مکر اللہ بہما بذلک فقس علی ہذا جزاء من استہزأ بدین اللہ واہل دینہ من العلماء الأخیار والأتقیاء الأبرار۔
ترجمہ :اور’’النور‘‘میں ہے کہ باب الشبیکہ میں جس قبرکواب پتھرائوکیاجاتاہے وہ ابولہب کی قبرنہیں ہے بلکہ یہ ان دوبدبختوں میں سے ایک کی ہے جنہوںنے کعبہ مشرفہ کو گندی لیپ دی تھی ۔ یہ بنوعباسیہ کے دورکی بات ہے کہ ایک رات کو علی الصبح کعبہ مشرفہ کوگندگی کے ساتھ لتھڑاہواپایا۔غلاظت لیپنے والے بدبختوں کوتلاش کرنے پرپکڑلیاگیا، چنددنوں بعداسی مقام پران دونوں کو سولی پرلٹکایاگیا، اس وقت سے تاحال ان کی قبروں پرپتھرائوہورہاہے ، یہ توان کی دنیاوی سزاہے نامعلوم آخرت میں ان کوکتناعذاب ہوگا؟یادرکھودین یااہل دین علماء ومشائخ کی جوبھی گستاخی کرتاہے اس کاانجام تباہی اوربربادی ہوتاہے ۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۴:۳۹۰)

ایک عالم دین کی گستاخی پروزیرعذاب قبرمیں مبتلاہوگیا

وقد مکر بعض الوزراء بحضرۃ شیخی وسندی فی اواخر عمرہ فاماتہ اللہ قبلہ بایام فرؤی فی المنام وہو منکوس الرأس لا یرفعہا حیاء مما صنع بحضرۃ الشیخ اللہم احفظنا واعصمنا من سوء الحال وسیآت الأعمال۔
ترجمہ :ہمارے شیخ مکرم رحمہ اللہ تعالی کے ساتھ ایک وزیرگستاخی کے ساتھ پیش آیا، وہ چنددنوں کے بعد مرگیاتواسے خواب میں الٹالٹکاہوادیکھا، اس کی آنکھیں بندتھیں اورشرم کی وجہ سے دیکھتابھی نہیں تھا۔ اسے یہ سزاایک دین کے سچے خادم کی بے ادبی اورگستاخی کی وجہ سے ہوئی ۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۴:۳۹۰)

معارف ومسائل

(۱)علماء ، انبیاء ِ کرام علیہم السلام کے وارث ہیں اور ان کے عُلوم انبیاء ِ کرام علیہم السلام کے علوم سے حاصل شدہ ہیں تو جس طرح باعمل علماء کرام انبیاء اور مُرسَلین علیہم السلام کے اعمال اور علوم کے وارث ہیں اسی طرح علماء کا مذاق اڑانے والے ابو جہل ، عقبہ بن ابی معیط اور ان جیسے دیگر کافروں کے مذاق اڑانے میں وارث ہیں ۔اس سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنے کی شدید ضرورت ہے جو میڈیا پر اور اپنی نجی محفلوں میں اہلِ حق علمائے کرام کا مذاق اڑانے میں لگے رہتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ انہیں عقلِ سلیم عطا فرمائے۔
(۲)بعض لوگ جنت یا جہنم حتیٰ کہ فرشتوں اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں ایسے چٹکلے بیان کرتے ہیں گویا کہ یہ سب ڈھکوسلے ہوں اور’’دل کے خوش رکھنے کو یہ خیال اچھا ہے ‘‘جیسی بات ہو ۔اللہ اور اس کے رسول کریمﷺ کی بات کا احترا م اور تعظیم ہر مسلمان پر لازم ہے ۔جنت اور جہنم کے ذکر سے دلوں پر ایک ہیبت اور ایک خوف بیٹھنا چاہئے۔دین کی ہر بات کا تقدس ہے ۔جو شخص دین کی کسی بات کا مذاق اڑا کر لوگوں کو ہنسائے تو یہ صریحاً کفر ہے اور جو شخص اس استہزاء کو سنے اور اس میں ایمانی غیرت بیدار نہ ہواور اسی مجلس میں بغیر کسی سخت مجبوری کے شریک رہے تو اس کا حکم بھی وہی ہے جو دین کا استہزاء کرنے والے کا ہے ۔
(۳)پس حضورتاجدارختم نبوتﷺپر نازل ہونے والے دین کی کسی بات کا مذاق اڑانا کفر ہے چاہے وہ نماز ہو ،داڑھی ہو ، شلوار کا ٹخنے سے اوپر کرنا ہو، شرعی پردہ ہو، سود کا چھوڑنا ہو یا جنت اور جہنم کی کسی چیز کا ذکر ہو ۔ اللہ کے رسول کریمﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مذاق اڑانا جیسا کہ مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں بیان ہوا۔
سورۃ الرعدکااختتام ۵ذوالحج ۱۴۴۱ھ/۲۷جولائی ۲۰۲۰ء) بروزپیرشریف وقت ۲ بج کر۵۲ منٹ )

Leave a Reply