تفسیرسورۃالرعدآیت ۳۸۔وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِکَ وَ جَعَلْنَا لَہُمْ اَزْوَاجًا وَّذُرِّیَّۃً وَمَا کَانَ لِرَسُوْلٍ اَنْ یَّاْتِیَ بِاٰیَۃٍ

حضورتاجدارختم نبوتﷺکے متعددنکاح کرنے پریہودونصاری کے اعتراضات کے جوابات

{وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِکَ وَ جَعَلْنَا لَہُمْ اَزْوَاجًا وَّذُرِّیَّۃً وَمَا کَانَ لِرَسُوْلٍ اَنْ یَّاْتِیَ بِاٰیَۃٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللہِ لِکُلِّ اَجَلٍ کِتَابٌ}(۳۸)

ترجمہ کنزالایمان:اور بیشک ہم نے تم سے پہلے رسول بھیجے اور ان کے لیے بیبیاں اور بچے کیے اور کسی رسول کا کام نہیں کہ کوئی نشانی لے آئے مگر اللہ کے حکم سے ہر وعدہ کی ایک لکھت ہے۔

ترجمہ ضیاء الایمان:اور بیشک ہم نے آپ ﷺسے پہلے رسول بھیجے اور ان کے لیے بیویاں اور بچے بنائے اور کسی رسول کا کام نہیں کہ اللہ تعالی کی اجازت کے بغیر کوئی معجزہ لے آئے ۔ ہر وعدے کیلئے ایک مدت لکھی ہوئی ہے۔
شان نزول
قِیلَ: إِنَّ الْیَہُودَ عَابُوا عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْأَزْوَاجَ، وَعَیَّرَتْہُ بِذَلِکَ وَقَالُوا:مَا نَرَی لِہَذَا الرَّجُلِ ہِمَّۃً إِلَّا النِّسَاء َ وَالنِّکَاحَ، وَلَوْ کَانَ نَبِیًّا لَشَغَلَہُ أَمْرُ النُّبُوَّۃِ عَنِ النِّسَاء ِ، فَأَنْزَلَ اللَّہُ ہذہ والآیۃ، وَذَکَّرَہُمْ أَمْرَ دَاوُدَ وَسُلَیْمَانَ فَقَالَ:(وَلَقَدْ أَرْسَلْنا رُسُلًا مِنْ قَبْلِکَ وَجَعَلْنا لَہُمْ أَزْواجاً وَذُرِّیَّۃً)أی جعلناہم بشرا یقضون مَا أَحَلَّ اللَّہُ مِنْ شَہَوَاتِ الدُّنْیَا، وَإِنَّمَا التَّخْصِیصُ فِی الْوَحْیِ۔

ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی: ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ کہاگیاہے کہ یہودیوں نے حضورتاجدارختم نبوتﷺپرازوا ج مطہرات رضی اللہ عنہن کے حوالے سے نکتہ چینی کی ، انہوںنے کہا: ہم اس آدمی(حضورتاجدارختم نبوتﷺ) میں سوائے بیویوں اورنکاح کے کوئی خواہش نہیں دیکھتے ، اگریہ نبی ہوتے توامرنبوت ان کو نکاح کرنے میں مشغول رکھتا؟تواللہ تعالی نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی اوران کو حضرت سیدنادائودعلیہ السلام اورحضرت سیدناسلیمان علیہ السلام کامعاملہ یاددلاتے ہوئے فرمایا{وَلَقَدْ أَرْسَلْنا رُسُلًا مِنْ قَبْلِکَ وَجَعَلْنا لَہُمْ أَزْواجاً وَذُرِّیَّۃ}یعنی ہم نے ان کو بشربنایااورشہوات دنیامیں جواللہ تعالی کی حلال کیں ان کو وہ پوراکرتے ہیں ، ان کی تخصیص صرف وحی میں ہے ،یعنی ان کے پاس وحی کانزول ہوتاہے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۹:۳۲۷)

شبہات باطلہ کے جوابات

اعْلَمْ أَنَّ الْقَوْمَ کَانُوا یَذْکُرُونَ أَنْوَاعًا مِنَ الشُّبُہَاتِ فِی إِبْطَالِ نُبُوَّتِہِ فَالشُّبْہَۃُ الْأُولَی قَوْلُہُمْ:مالِ ہذَا الرَّسُولِ یَأْکُلُ الطَّعامَ وَیَمْشِی فِی الْأَسْواقِ (الْفُرْقَانِ:۷)وَہَذِہِ الشُّبْہَۃُ إِنَّمَا ذَکَرَہَا اللَّہُ تَعَالَی فِی سُورَۃٍ أُخْرَی.وَالشُّبْہَۃُ الثَّانِیَۃُ: قَوْلُہُمْ:الرَّسُولُ الَّذِی یُرْسِلُہُ اللَّہُ إِلَی الْخَلْقِ لَا بُدَّ وَأَنْ یَکُونَ مِنْ جِنْسِ الْمَلَائِکَۃِ کَمَا حَکَی اللَّہُ عَنْہُمْ فِی قَوْلِہِ: لَوْ مَا تَأْتِینا بِالْمَلائِکَۃِ (الْحِجْرِ:۷)وَقَوْلِہِ:لَوْلا أُنْزِلَ عَلَیْہِ مَلَکٌ (الْأَنْعَامِ: ۸)فَأَجَابَ اللَّہُ تَعَالَی عَنْہُ ہَاہُنَا بِقَوْلِہِ:وَلَقَدْ أَرْسَلْنا رُسُلًا مِنْ قَبْلِکَ وَجَعَلْنا لَہُمْ أَزْواجاً وَذُرِّیَّۃً یَعْنِی أَنَّ الْأَنْبِیَاء َ الَّذِینَ کَانُوا قَبْلَہُ کَانُوا مِنْ جِنْسِ الْبَشَرِ لَا مِنْ جِنْسِ الْمَلَائِکَۃِ فَإِذَا جَازَ ذَلِکَ فِی حَقِّہِمْ فَلِمَ لَا یَجُوزُ أَیْضًا مِثْلُہُ فِی حَقِّہِ الشُّبْہَۃُ الثَّالِثَۃُ:عَابُوا رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِکَثْرَۃِ الزَّوْجَاتِ وَقَالُوا:لَوْ کَانَ رَسُولًا مِنْ عِنْدِ اللَّہِ لَمَا کَانَ مُشْتَغِلًا بِأَمْرِ النِّسَاء ِ بَلْ کَانَ مُعْرِضًا عَنْہُنَّ مُشْتَغِلًا بِالنُّسُکِ وَالزُّہْدِ، فَأَجَابَ اللَّہُ تَعَالَی عَنْہُ بِقَوْلِہِ:وَلَقَدْ أَرْسَلْنا رُسُلًا مِنْ قَبْلِکَ وَجَعَلْنا لَہُمْ أَزْواجاً وَذُرِّیَّۃً وَبِالْجُمْلَۃِ فَہَذَا الْکَلَامُ یَصْلُحُ أَنْ یَکُونَ جَوَابًا عَنِ الشُّبْہَۃِ الْمُتَقَدِّمَۃِ وَیَصْلُحُ أَنْ یَکُونَ جَوَابًا عَنْ ہَذِہِ الشُّبْہَۃِ، فَقَدْ کَانَ لِسُلَیْمَانَ عَلَیْہِ السَّلَامُ ثَلَاثُمِائَۃِ امْرَأَۃٍ مَہِیرَۃٍ وَسَبْعُمِائَۃِ سُرِّیَّۃٍ وَلِدَاوُدَ مِائَۃُ امْرَأَۃٍ وَالشُّبْہَۃُ الرَّابِعَۃُ: قَالُوا لَوْ کَانَ رَسُولًا مِنْ عِنْدِ اللَّہِ لَکَانَ أَیُّ شَیْء ٍ طَلَبْنَا مِنْہُ مِنَ الْمُعْجِزَاتِ أَتَی بِہِ وَلَمْ یَتَوَقَّفْ وَلَمَّا لَمْ یَکُنِ الْأَمْرُ کَذَلِکَ عَلِمْنَا أَنَّہُ لَیْسَ بِرَسُولٍ، فَأَجَابَ اللَّہُ عَنْہُ بِقَوْلِہِ:وَما کانَ لِرَسُولٍ أَنْ یَأْتِیَ بِآیَۃٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّہِ وَتَقْرِیرُہُ: أَنَّ الْمُعْجِزَۃَ الْوَاحِدَۃَ کَافِیَۃٌ فِی إِزَالَۃِ الْعُذْرِ وَالْعِلَّۃِ، وَفِی إِظْہَارِ الْحُجَّۃِ وَالْبَیِّنَۃِ، فَأَمَّا الزَّائِدُ علیہافَہُوَ مُفَوَّضٌ إِلَی مَشِیئَۃِ اللَّہِ تَعَالَی إِنْ شَاء َ أَظْہَرَہَا وَإِنْ شَاء َ لَمْ یُظْہِرْہَا وَلَا اعْتِرَاضَ لِأَحَدٍ عَلَیْہِ فِی ذَلِکَ.

ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی: ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یہودیوں نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکی نبوت شریفہ کے بطلان پرکئی شبہات واردکئے:
پہلاشبہ اوراس کاجواب …اللہ تعالیٰ مخلوق کی طرف جو بھی رسول بھیجے تو اس کا فرشتوں میں سے ہونا ضروری ہے۔ اس کا جواب یہ دیا گیا کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺسے پہلے جتنے بھی انبیاء ِ کرام علیہم السلام گزرے ہیں سب انسان ہی تھے نہ کہ فرشتے، جب گزشتہ انبیاء ِ کرام علیہم السلام کے انسان ہونے کی وجہ سے ان کی نبوت پر کوئی اعتراض نہیں توحضورتاجدارختم نبوتﷺکے انسان ہونے کی وجہ سے ان کی نبوت پر اعتراض کیوں ہے۔

دوسرا شبہ اوراس کاجواب …اگریہ اللہ تعالیٰ کے رسول ہوتے تو کثیر عورتوں سے نکاح نہ کرتے بلکہ عورتوں سے اِعراض کر کے زُہد کی حالت میں زندگی گزارتے۔ اس کا یہ جواب دیا گیا کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺ سے پہلے جتنے انبیاء ِ کرام علیہم السلام گزرے ہیں ان میں سے اکثر کی کثیر بیویاں اور اولاد تھی۔ حضرت سیدنا سلیمان علیہ السلام کی ۳۰۰بیویاں اور ۷۰۰باندیاں تھیں۔ حضرت سیدنا داود علیہ السلام کی۱۰۰بیویاں تھیں۔ جب بیویوںکی اتنی کثیر تعداد کے باوجود ان کی نبوت میں کوئی فرق نہیں پڑا تو حضورتاجدارختم نبوتﷺکی چند اَزواجِ مُطہرات رضی اللہ عنہنَّ کی وجہ سے ان کی نبوت میں کیسے فرق آ سکتا ہے۔

تیسرا شبہ اورا س کاجواب…اگر یہ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں تو پھر ہم ان سے جو معجزہ بھی طلب کریں تو وہ انہیں دکھانا چاہئے تھا، لہٰذا جب معاملہ ا س کے برخلاف نظر آیا تو ہم نے جان لیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے رسول نہیں۔ اس کا جواب یہ دیا گیا کہ دلیل دینے اور عذر زائل کرنے کے لئے ایک معجزہ دکھا دینا ہی کافی ہے، ایک یا ایک سے زیادہ معجزات دکھانا اللہ تعالیٰ کی مَشِیَّت پر موقوف ہے، اگر وہ چاہے تو زیادہ معجزات ظاہر فرما دے اور چاہے تو ظاہر نہ فرمائے لہٰذاا س پر کسی کو اعتراض کا کوئی حق حاصل نہیں۔

چوتھا شبہ اوراس کاجواب …حضورتاجدارختم نبوتﷺ نے کفار کواس بات سے ڈرایا تھا کہ اللہ تعالی کی طرف سے کفار پرعذاب نازل ہو گا اور مسلمانوں کی مدد کی جائے گی، لیکن جب وہ عذاب مُوخر ہوا اورا س کی کوئی نشانی کفار کو نظر نہ آئی توحضورتاجدارختم نبوت ﷺکی نبوت میں طعن کرتے ہوئے کہنے لگے کہ اگر یہ سچے نبی ہوتے تو ان کا جھوٹ ظاہر نہ ہوتا۔ اس کا جواب یہ دیا گیا کہ کفار پر عذاب نازل ہونا اوراللہ تعالی کے مقبول بندوں کے لئے فتح و نصرت کا ظاہر ہونا اللہ تعالیٰ نے مُعَیَّن اوقات کے ساتھ خاص فرما دیا ہے اور ہر نئے ہونے والے کام کا ایک وقت معین ہے لہٰذا مخصوص وقت آنے سے پہلے وہ نیا کا م ظاہر نہ ہو گا۔ جب اصل بات یہ ہے تو وعیدوں کے موخر ہونے کی وجہ سے حضورتاجدارختم نبوتﷺکا کِذب کیسے ثابت ہو سکتا ہے؟
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۱۹:۴۹)

نورنبوت کاکمال

وَأما النِّکَاح فَإِن الْأَنْبِیَاء عَلَیْہِم السَّلَام زیدوا فِی النِّکَاح بِفضل نبوتہم فَإِنَّہُ إِذا امْتَلَأَ الصَّدْر بِالنورِ وفاض فِی الْعُرُوق التذت النَّفس وَالْعُرُوق فأثارت الشَّہْوَۃ وقواہا وریح الشَّہْوَۃ إِذا قویت فَإِنَّمَا تقَوِّی من الْقلب وَالنَّفس فَعندہَا تَجِد الْقُوَّۃ،قَالَ صلی اللہ عَلَیْہِ وَسلم أَعْطَیْت قُوَّۃ أَرْبَعِینَ رجلا من الْبَطْش وَالنِّکَاح ۔
ترجمہ :امام محمد بن علی بن الحسن بن بشر، أبو عبد اللہ، الحکیم الترمذی المتوفی: ۳۲۰ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ انبیاء کرام علیہم السلام نبوت کی فضیلت کی وجہ سے بہت بڑی قوت کے مالک ہوتے ہیں ، اسی لئے جب ان کاسینہ مبارک نورسے بھرجاتاہے تووہ نورسینہ اقدس سے نکل کران کے اجساد مقدسہ کے اندررگوں میں پھیل جاتاہے ، جس سے نفس اورتمام رگیں نورسے معمورہوتی ہیں ۔ وہ نورقوت شہوت معروفہ اورقوی جسمانیہ پراثرانداز ہوتاہے ، اسی وجہ سے عام انسانوںسے ان میں قوت مردمی بہت زیادہ ہوتی ہے ۔
حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا: میں تمام لوگوں سے چارچیزوں میں فضلیت دیاگیاہوں (۱)سخاوت(۲)شجاعت(۳) قوت بطش(۴) کثرت جماع ۔
(نوادر الأصول:محمد بن علی بن الحسن بن بشر، أبو عبد اللہ، الحکیم الترمذی (۲:۲۵۵)

یہودونصاری کارد

قال سفیان بن عیینۃ کثرۃ النساء لیست من الدنیا لان علیا رضی اللہ عنہ کان ازہد اصحاب النبی علیہ السلام وکان لہ اربع نسوۃ وسبع عشرۃ سریۃ وتزوج المغیرۃ بن شعبۃ ثمانین امرأۃ وکان الحسن بن علی رضی اللہ عنہما منکاحا حتی نکح زیادۃ علی مائتی امرأۃ وقد قال علیہ السلام (أشبہت خلقی وخلقی)یقول الفقیر قد تزوج شیخی وسندی روح اللہ روحہ قدر عشرین وجمع بین اربع مہریۃ وخمس عشرۃ سریۃ وکان یقول للعامی حین یسأل عن کثرۃ نکاحہ ان لکل أحد ابتلاء فی ہذہ الدار وقد ابتلیت بکثرۃ النکاح ویقول لہذا الفقیر فی خلوتہ انہا من اسرار النبوۃ وخصائص خواص ہذہ الامۃ۔
ترجمہ :امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی : ۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یہودونصاری کاخیال ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺمعاذاللہ عورتوں سے بہت زیادہ رغبت رکھتے تھے ، اسی لئے بہت زیادہ نکاح کئے ، لیکن ان کایہ خیال غلط ہے جیساکہ پہلے گزراہے کہ دوسرے انبیاء کرام علیہم السلام ہمارے حضورتاجدارختم نبوتﷺسے بہت زیادہ کثیرالازواج تھے ، علاوہ ازیں کثرت ازواج دنیوی معاملات سے نہیں بلکہ یہ بھی دینی معاملہ ہے چنانچہ حضرت سیدناسفیان بن عیینہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:اگریہ دنیوی معاملہ ہوتاتودین کے عشاق زیادہ شادیاں نہ کرتے ، چنانچہ حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ کے متعلق مشہورہے کہ آپ رضی اللہ عنہ ازہدالناس بلکہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے زہدمیں آپ فائق تھے ، لیکن اس کے باجودآپ رضی اللہ عنہ کی چاربیویاں اورسترہ کنیزیں تھیں، اسی طرح حضرت سیدنامغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے مختلف اوقات میں اسی خواتین کے ساتھ نکاح کیااورحضرت سیدناامام حسن رضی اللہ عنہ نے مختلف اوقات میں دوسوسے زائد خواتین کے ساتھ نکاح کیا۔

امام اسماعیل حقی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میرے شیخ مکرم کی چاربیویاں اورپندرہ کنیزیں تھیں ، ان سے لوگوں نے پوچھاتوآپ رحمہ اللہ تعالی نے فرمایا: دنیامیں ہرایک کوآزمائش میں ڈالاگیاہے ، میری آزمائش اسی سے کی گئی ہے ۔ اورمیرے شیخ مکرم رحمہ اللہ تعالی نے مجھے خلوت میں فرمایاکہ کثرت نکاح اسرارنبوت اورحضورتاجدارختم نبوتﷺکی امت کی خصوصیات میں سے ہے۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۴:۲۸۴)

حضورتاجدارختم نبوتﷺکے متعددنکاحوں کی حکمتیں

تاریخ گواہ ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکے صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین آ پﷺ کے اشارہ ابرو پر اپنی آسائشوں اور جانوں کو قربان کرنے والے تھے ۔اگر آ پﷺکسی بھی خوبرو،جوان خاتون سے شادی کی آرزو کرتے تو یقیناً ان میں سے کوئی بھی ذرا تامل نہ کرتا اورآپﷺکی آرزو کی تکمیل میں فخرمحسوس کرتا تو پھر آخر کیا وجہ تھی کہ آپ ﷺنے عنفوان شباب میں شادی نہ کی اور کیوں کنواری خواتین کو چھوڑ کر بیواؤں کو ترجیح دی ،یہاں مشرکین مکہ کوحضورتاجدارختم نبوتﷺ کوحضرت ابو طالب کی زبانی وہ پیشکش بھی سامنے رکھنی چاہیے کہ جس میں انہوں نے آپ ﷺکو عرب کی سب سے خوبصورت لڑکی سے شادی کی پیشکش کی تھی اور اس کے بدلے آپ ﷺسے ا پنی دعوت حقہ چھوڑدینے کا تقاضا کیا تھا۔لیکن حضورتاجدارختم نبوتﷺنے بڑے قوی عزم کے ساتھ ان تینوں پیشکشوں کو ٹھکرادیا تھا۔بالفرض مستشرقین کا دعویٰ درست ہوتو آپ ﷺکے اس طرز عمل کی وہ کیا توجیہ کریں گے؟
بلاشبہ اس نکتے پر غور کرنے سے جھوٹ اور ہرزہ گوئیوں کے تمام بادل چھٹ جاتے ہیں اور تمام شکوک وشبہات رفع ہوجاتے ہیں اور اس میں معاندین کے اعتراض کا جواب بھی مل جاتا ہے جوحضورتاجدارختم نبوتﷺکی عظمت کو کم کرنے اور آپﷺکی پاکیزہ سیرت کو داغدار کرنے کے درپے ہیں۔

اس نکتہ پر غور کرنے سے یہ حقیقت بھی واضح ہوجاتی ہے کہ آپﷺکی نکاح نفس پرستی اور قضائے شہوت کے پیش نظر نہ تھیں بلکہ تمام کی تمام شادیاں دین اسلام کی پیش رفت ،اپنے رفقا کے ساتھ مودت ومحبت کے رشتہ کی استواری ،بلند مقاصد اور دیگر دینی،معاشرتی وسیاسی مصلحتوں کے تحت کی گئیں تھیں۔

دشمنان اسلام اگر اندھے مذہبی تعصب سے بالاتر ہوکر اور عقل وشعور کو فیصل مان کر ذرا غور کریں تو ان پر یہ حقیقت واشگاف ہوجائیگی کہ آپ ﷺنے جن مصالح اور مقاصد کے تحت شادیاں کیں وہ مقاصد کس قدر عظیم اور اہمیت کے حامل تھے اور ہرشادی انہیں انسانی عظمت کی عمدہ مثال نظر آئے گی جو یقیناً ایسے عظیم انسان اور مجسمہ رحمت پیغمبرﷺ میں ہونی چاہیے جو دوسروں کی مصلحت کی خاطر اپنی راحتوں کو قربان کردیا کرتاہے اور اسلام اور دعوت دین کی خاطر اپنے آپ کو تھکانے سے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔
ایک عالی نسب ،خوبرو اور نیک نام شخص جس کے لئے جوانی میں متعدد نکاح کرنے میں معاشر تی اور معاشی لحاظ سے کوئی ممانعت نہ ہو۔اس کے زمانے میں ایک سے زائد شادیوں کو کسی طرح کا کوئی عیب بھی نا سمجھا جاتا ہوپھر بھی وہ اپنے سے پندرہ سال بڑی ایک بیوہ عورت کیساتھ زندگی کے بہترین سال (۲۵)گزار دے۔

پھر پچاس سال کی عمر کے بعد شادیاں کرے بھی تو مختلف خاندانوں اور قبائل کی اکثر ان بیوہ خواتینسے ۔ پھر بھی کوئی یہ کہے کہ یہ متعددنکاح تو انھوں نے خواہشات نفسانی کی وجہ سے کئے تھے توکتنی غیر حقیقی اور ناانصافی والی بات ہوگی ؟
اگر صرف یہی اک وجہ تھی توپچاس سال بعد جو شادیاں کیں وہ تو کم از کم انہیں خوبصورت کنواری لڑکیوں سے کرنی چاہیے تھیں جب کہ انکے پاس حکومت و طاقت بھی تھی ،حکومت بھی عام نہیں کہ چند علاقوں پر ہو، وہ تو لوگوں کے دلوں پر حکومت کرتے تھے ۔لوگ ان پر جانیں قربان کرنے کو تیار تھے۔(ﷺ)
حقیقت میں جس طرح حضورتاجدارختم نبوتﷺکے باقی ہر عمل کے پیچھے بھی کوئی نا کوئی حکمت ہوتی تھی اسی طرح آپﷺ کی زندگی کایہ پہلو بھی حکمتوں سے آزاد نہ تھا ، حضورتاجدارختم نبوتﷺکی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کی کچھ اہم حکمتوں کا تذکرہ پیش خدمت ہے ۔

(۱)…اسلامی انقلاب کی وسعت تک پہنچنے کیلئے تعلقات کی وسعت اور مختلف خاندانوں اور بااثر قبائل کا تعاون ایک بنیادی ضرورت تھی ، اس غرض سے حضورتاجدارختم نبوتﷺنے بہت سی شادیا ں کیں ، یہ سب نکاح مختلف قبائل سے تھے ، جن میں سے اکثر کاسبب تالیف ِقلب یا سہارا دینا تھا، یا اس خاندان سے تعلق ورشتہ کی مزید گہرائی مقصود تھی ، یا ان رشتو ں سے اسلام کو تقویت اور اللہ تعالی کی خوشنودی مقصود تھی ۔حضرت سیدتناعائشہ رضی اللہ عنہاایک ایسے محبوب ترین رفیق اور دوست سے رشتہ کی استواری تھی ، جس نے مکہ مکرمہ کے مشکل ترین دور میں آپﷺ کاساتھ دیا ، معراج کی حیران کن خبر کی سب سے پہلے تصدیق آپ رضی اللہ عنہ نے کی ۔غار ثور کی ہولناک تاریکی میں آپ ﷺکا ساتھ دیا ، جس نے آپ ﷺپر اپنی ہر متاع عزیز لٹانے کی کوشش کی ۔ جوآپکے اولین جانشین ہوئے اور مزاج نبوت کے حامل صحابی اور رفیق رسول(ﷺ) تھے ۔انکے ساتھ رشتہ کاتعلق قائم کرنا ان کے احسانات ومحبت کا قلبی وعملی اعتراف تھا ۔اس کے علاوہ حضرت سیدتناعائشہ ر ضی اللہ عنہاکے ساتھ شادی میں حکمت یہ تھی کہ آپﷺکے حرم میں کوئی ایسی چھوٹی عمر کی خاتون داخل ہو جس نے اپنی آنکھ اسلامی ماحول میں ہی کھولی ہو پھر حضورتاجدارختم نبوتﷺکے گھرانے میں آ کر پروان چڑھے ، تاکہ اس کی تعلیم و تربیت ہر لحاظ سے مکمل اور مثالی طریقہ پر ہو اور وہ مسلمان عورتوں اور مردوں میں اسلامی تعلیمات پھیلانے کا موثر ترین ذریعہ بن سکے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت سیدتنا عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنی اس نوعمری میں کتاب وسنت کے علوم میں گہری بصیرت حاصل کی۔اسوئہ حسنہ اور حضورتاجدارختم نبوتﷺکے اعمال و ارشادات کا بہت بڑا ذخیرہ اپنے ذہن میں محفوظ رکھا اور درس و تدریس اور نقل و روایت کے ذریعہ سے اُسے پوری امت کے حوالہ کردیا۔ حضرت سیدتنا عائشہ رضی اللہ عنہا کے اپنے اقوال و آثار کے علاوہ اُن سے دوہزار دو سو دس (۲۲۱۰) مرفوع احادیث صحیحہ مروی ہیں۔ اور حضرت سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو چھوڑ کر صحابہ وصحابیات رضی اللہ عنہم میں سے کسی کی بھی تعدادِ حدیث اس سے زائد نہیں۔
آپﷺکے زیادہ نکاح کرنے کابنیادی مقصد یہ تھا کہ چند ایسی معلمات تیار ہوجائیں جو عورتوں کو شرعی مسائل کی تعلیم دیں،کیونکہ عورتیں معاشرے کا نصف حصہ ہیں اور ان پر ویسے ہی احکامات فرض ہیں،جیسے مردوں پر فرض ہیں۔پھر عورتوں کی اکثریت ایسی تھی جو فطرتاً بعض شرعی مسائل کے بارے میںحضورتاجدارختم نبوتﷺسے سوال کرنے میں شرم محسوس کرتی تھی۔خاص طور پر وہ مسائل جو عورتوں کے ساتھ مخصوص ہیں مثلاً حیض،نفاس،جنابت اور وظیفہ زوجیت وغیرہ۔

چنانچہ یہ کہنابجا ہے کہ اگر امہات المومنین رضوان اللہ عنھن اجمعین یہ فرض انجام نہ دیتیں تو آج سیرت نبویہ ﷺ کا کوئی باب بھی ہمیں مکمل نظر نہ آتا،ہر بالغ نظر تاریخ اسلام کے اوراق اُلٹ کردیکھ سکتاہے کہ حضرت سیدنا عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے دین کی جوزریں خدمات انجام دیں،قرآن وسنت کو جس محنت شاقہ سے پھیلایا۔عالم مستورات اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔عورتیں تو عورتیں بڑے بڑے فقیہ اور محدث ،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وتابعین کرام رضی اللہ عنہم بھی حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مستفید ہوتے تھے۔
اسی طرح حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی حضرت سیدتناحفصہ رضی اللہ عنہاسے شادی کی، جوبیوہ تھیں انکے شوہرحضرت سیدنا خنیس بن حذافہ رضی اللہ عنہ جنگ احد میں شہید ہوئے تو حضرت سیدنا عمررضی اللہ عنہ ان کی بیوگی سے بہت پریشان ہوگئے اور چند اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اس کا تذکرہ بھی کیالیکن انھوں نے اس کا کوئی جواب نہ دیا ۔ یہاں تک کہ خود حضورتاجدارختم نبوتﷺنے ان سے نکاح کرلیا ، اس رشتے سے حضرت سید نا عمر رضی اللہ عنہ سے تعلق مزیدگہرا ہو گیا ۔ اور ان کی دل جوئی اور معاونت کا سبب بھی بنا ، اس طرح اسلامی تحریک کے درجہ اول کے دو اہم ترین رفقاء سے حضورتاجدارختم نبوتﷺکا رشتہ کا قریب ترین تعلق پیداہوگیا ۔ ظاہر ہے کہ نکاح برائے عشرت اس طرح کے نہیں کئے جاتے یہ صریحا ًتعلقات کی مضبوطی ،گہرائی ،امداد وتعاون، تالیف قلب، اعتراف خدمت اسلامی اور سہارا دینے کے لئے دکھائی دیتے ہیں ۔اپنی پہلی شادی اپنے بھر پور عالم شباب میں ایک چالیس سالہ بیوہ خاتون سے کر کے آپ ﷺنے اپنے اوپر کسی جنسی جذبے کے غلبے کی مکمل نفی کردی تھی جو مستشرق کے دماغ پر باالعموم سوار رہتا ہے۔

(۲)…متعدد شادیوں کی ایک ظاہری حکمت یہ بھی تھی کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکو ایک سخت نا تراشیدہ قوم سے سابقہ تھا جو تہذیب وتمدن میں بہت پیچھے تھی اور جسکی معاشرتی زندگی بہت ہی غیر منظم بے ہنگم تھی ،حضورتاجدارختم نبوتﷺکے پیش نظر اس قوم کی تربیت تھی اور انکے گھروں تک اسلامی قوانین و تعلیم پہنچانے کاذریعہ یہی امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن تھیں ، امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن ہی دوسری مسلمان خواتین کی تعلیم کا ذریعہ بنیں حضورتاجدارختم نبوتﷺکی ذاتی اور گھریلو زندگی کے معمولات مبارکہ امہات المومنین خصوصا ًحضرت سیدتناعائشہ رضی اللہ عنہا کے ذریعے ہی امت کے سامنے آئے۔
(۳)…پہلے جنگ بدر پھر جنگ اُحد میں بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شہید ہوئے ۔ نصف سے زیادہ گھرانے بے آسرا ہوگئے ، بیوگان اور یتیمو ں کا کوئی سہا را نہ رہا تھا ۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے حضورتاجدارختم نبوتﷺ نے اپنے صحا بہ کرام رضی اللہ عنہم کو بیوگان سے شادی کرنے کو فرمایا ، لو گو ں کو تر غیب دینے کے لیے آپ ﷺنے حضرت سیدتنا سودہ رضی اللہ عنہا ، حضرت سیدتناام سلمہ رضی اللہ عنہا اور حضرت سیدتنا زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہماسے مختلف اوقات میں نکا ح کیے ۔ آپ ﷺکو دیکھا دیکھی صحا بہ کرام رضی اللہ عنہم نے بیوگان سے شا دیا ں کیں جس کی وجہ سے بے آسرا گھرا نے آبا د ہوگئے ۔حضرت سیدتناسودہ رضی اللہ تعالی عنہا کا خاوند فوت ہوچکا تھا ، اوریہ مشرک قوم کے درمیان رہائش پذیر تھیں ۔ ان کی عمر پچاس سال تھیں اور بیوہ تھیں ، اس قابل نہیں تھیں کہ کو ئی ان سے شادی کرتا اوران کا معاشی اور معاشرتی سہارا بنتا ، اپنے گھر جاتیں تو ان کے گھر والے کفار تھے اور جیسے دوسرے مؤمنین کو وہ اذیتیں دے رہے تھے انہیں بھی اذیتوں میں مبتلا کردیتے، اور دوبارہ کفر میں داخل ہونے پر زبردستی کرتے، چنانچہ آپﷺ نے ان سے نکاح کر لیا۔حضرت سیدتناام سلمہ رضی اللہ عنہاکے شو ہر بھی جنگ احد میں شہید ہوگئے تھے ، انھوں نے اور ان کے شوہر نے اللہ تعالی کے راستہ میں بہت زیادہ صعوبتیں اور تکلیفیں برداشت کیں ، انکا یوں بے یار ومددگار رہ جانا بہت بڑا حادثہ تھا ۔ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے بچوں سمیت ان کے سہارے کیلئے ان سے نکاح کر لیا ، اس طرح حضرت سیدتنا زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہاسے نکا ح کیا ، انکے شوہر بھی جنگ احد میں شہید ہوگئے تھے ، حضورتاجدارختم نبوتﷺنے ان سے شادی کرلی ۔
(۴)اس قبائلی معاشرہ میں آپ ﷺنے مختلف قبائل کی خواتین سے نکاح کے ذریعے ان قبائل سے اپنے معاشرتی تعلقات استوار کیے جس سے بہت قبائلی دشمنیاں آپ ﷺکے خلاف سرد پڑگئیں ۔عربو ں میں دستور تھا کہ جو شخص ان کا داما د بن جاتاا س کے خلاف جنگ کر نا اپنی عزت کے خلا ف سمجھتے ۔ جنا ب ابو سفیان رضی اللہ عنہ اسلام لانے سے پہلے حضورتاجدارختم نبوتﷺ کے شدید ترین مخالف تھے ۔ مگر جب ان کی بیٹی حضرت سیدتنا ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے حضورتاجدارختم نبوتﷺ کا نکا ح ہو اتو یہ دشمنی کم ہوگئی۔ اس طرح حضرت سیدتنا جو یر یہ رضی اللہ عنہا کا وا لد قبیلہ مصطلق کا سر دار تھا۔ یہ قبیلہ مکہ مکرمہ اورمدینہ منورہ کے درمیان رہتا تھا ۔ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے ان کے قبیلہ سے جہا د کیا ، ان کا سر دار ما را گیا ۔ حضرت سیدتناجویریہ رضی اللہ عنہا قید ہو کر آئیں ، ان سے حضورتاجدارختم نبوتﷺ نے نکاح فرمایا۔ان سے نکاح کے نتیجہ میں مسلمانوں نے بنی المصطلق کے سب قیدی رہا کر دیئے ۔ اور وہ بعد میں سب مسلمان بھی ہو گئے ۔اسی طرح حضر ت سیدتنا صفیہ رضی اللہ عنہا سے شادی ہوئی۔ خیبر کی لڑائی میں حضرت سیدتناصفیہ رضی اللہ عنہا قید ہو کر آئیں، یہ حضرت سیدنا ہارون علیہ السلام کے خاندان سے تھیں اور مشہور یہودی سردار حی بن اخطب کی صاحب زادی تھی ۔ انکا شوہر مارا گیا تھا ،حضورتاجدارختم نبوتﷺنے انکو لونڈی بننے نہیں دیا بلکہ انکو آزاد کر کے نکاح کر لیا ان کے ذریعہ سے یہود کے قبیلوں میں اسلام کے اچھے اثرات پھیلے ۔
(۵)…ان شا دیو ں کا مقصد یہ بھی تھا کہ لوگ حضورتاجدارختم نبوتﷺکے قریب آسکیں ، حضورتاجدارختم نبوتﷺ کے اخلاق کریمانہ کا مطالعہ کر سکیں تاکہ انہیں راہ ہدایت نصیب ہو ۔حضورتاجدارختم نبوتﷺکے نکاح کے ذریعے مختلف قبائل سے رشتے قائم ہوئے اور بہت سی قبائلی عصبیتوں کا قلع قمع ہوا ۔ اس کی ایک مثال حضرت سیدتنامیمونہ رضی اللہ عنہا سے نکا ح ہے ، انکی وجہ سے نجد کے علا قہ میں اسلام پھیلا ۔
(۶)…معاشرہ کی جاہلی رسم ورواج کو توڑنا بھی حضورتاجدارختم نبوتﷺکے فرائض میں شامل تھا ۔ جاہلی معا شرے میں منہ بولے بیٹے کو حقیقی بیٹا سمجھاجاتا تھا ۔جو حرمتیں سگے بیٹے سے متعلق ہوتی ہیں وہی حرمتیں منہ بولے بیٹے سے بھی وابستہ ہوتی تھیں، اس جاہلی رسم ورواج کو ختم کرنے کیلئے اللہ تعالی نے آپﷺ کا نکاح حضرت سیدتنازینب بنت جحش رضی اللہ عنہاسے کیا ۔ حضرت سیدتنازینب بنت جحش رضی اللہ عنہاکا پہلا نکاح حضورتاجدارختم نبوتﷺ کے منہ بولے بیٹے حضرت سیدنازید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے ہواتھا۔

غرض حضورتاجدارختم نبوتﷺکا کوئی رشتہ ازدواج بھی محض نکاح کی خاطر نہ تھا بلکہ اس میں بہت سی حکمتیں پوشیدہ تھیں ۔ کوئی ایک نکاح ایسانہیں جس نے اسلامی انقلاب کے لئے راستہ ہموار کر نے میں کوئی مددنہ دی ہو ۔ اس لیے بے شمار دینی، تعلیمی اور دیگر مصلحتوں اور حکمتوں کی بنیاد پر اللہ تبارک و تعالیٰ کی جانب سے بھی یہ اجازت خاص آپ ﷺکے لئے ہی تھی۔
معاصرمستشرقین بھی قدیم یہودیوں کے ہم نواہیں

عقل انسانی اللہ تعالی کی طرف سے عطا کردہ ایک عظیم نعمت ہے ، جس کے ذریعے انسان کو حق ، حقانیت اور راہ ہدایت تک رسائی حاصل ہوتی ہے ، البتہ بسا اوقات قومی عصبیت ،مذہبی تعصب اور منفی رویہ انسان کی عقل پر پردہ ڈال دیتی ہے، ایسے میں سچ اور سچائی خواہ روز روشن کی طرح عیاں ہو اس کا ادراک کرنا ایک امر محال ہوجاتا ہے ، مغرب کے نام نہاد محققین نے جب تحقیق کا لبادہ اوڑھ کر اپنے مخصوص اہداف کے حصول کے لئے اسلام اور مسلمانوں سے متعلق ہر چیز کو اپنے بے جا اعتراضات اور سخت تنقید کا نشانہ بنانا شروع کیا ،توخاص طور پر حضورتاجدارختم نبوتﷺکی پاکیزہ سیرت کو داغدار کرنے اور آپ ﷺکے تئیں اہل اسلام کی عقیدتوں کو کمزور کرنے میں اپنی پوری توانائیاں صرف کردیں اور آپﷺ کی صاف و شفاف سیرت وکردار پر ایسے بے سرو پا اعتراضات کئے اور آپﷺ کی حیات طیبہ پر ایسے اتہامات اور الزامات عائد کیے ،جن کا عقل و خرد اور حقائق سے کوئی واسطہ نہیں۔ اسی ضمن میں مستشرقین کی وہ من گھڑت اور افسانوی باتیں ہیں ، جن میں انہوں نے حضورتاجدارختم نبوتﷺ کی متعدد شادیوں کو اپنی دریدہ دہنی اور ہفوات کا نشانہ بنایا۔یہ اس قدر بے ہودہ ہیں کہ واقعات کے پس منظر پر نظر رکھنے والا کوئی بھی صاحب بصیرت شخص ان معترضین کی کج فہمی ،بہتان تراشی اور علم وتحقیق کے اصولوں سے روگردانی کو بآسانی دریافت کر سکتاہے ۔

مستشرقین کاحضورتاجدارختم نبوتﷺکی ذات اقدس پراعتراض

مستشرقین نے کثرتِ ازدواج کی بنا پر آپ ﷺکو جنسی طور پر حد سے تجاوز کرنے والے انسان کے طور پر پیش کیا ہے ، ان لوگوں نے آپ ﷺ کے خلاف ایسی زبان استعمال کی ہے، جو علمی وتحقیقی معیار سے تو کوسوں دور ہے ہی ، عام انسانی اخلاقیات بھی اس کے ذکر کی اجازت نہیں دیتے ۔ اور اس پر ستم ظریفی یہ کہ ان بازاری اور بد زبان لوگوں کو اسکالر اور محقق بھی کہا جاتاہے ۔ ولیم میور آپ ﷺ کے بارے میں لکھتا ہے :
Muhammad was now going on to three-score years: but weakness for the sex seemed only to grow with age and the attractions of his increasing harem were insufficient to prove his passion from wandering beyond its ample limits.۔
ترجمہ :اب محمد ﷺ کی عمر ساٹھ سال کے قریب تھی لیکن جنس مخالف کی طرف میلان کی کمزوری میں عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہورہاتھا آپ ﷺکے بڑھتے ہوئے حرم کی کشش آپﷺ کو اپنی وسیع حدود سے تجاوز سے روکنے کیلئے کافی نہ تھی ۔
(استشراق اور مستشرقین لشیخ محمدحسن الصانعی (۲:۲۴)

کیرن آرمسٹرانگ کی گستاخی

مستشرقہ کیرن آرمسٹرانگ نے اپنی کتاب ((Muhammad,میں بڑی عیاری کے ساتھ افسانوی انداز میں یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ کی نظر حضرت زینب بنت جحش پہ پڑی اور اس کے حسن و خوبصورتی کی وجہ سے آپ اس کی محبت میں گرفتار ہوگئے (نعوذ باللہ)پھر جلد ہی حضرت زیدرضی اللہ عنہ اور حضرت سیدتنا زینب رضی اللہ عنہاکے درمیان طلاق ہوگئی ۔
(Muhammad,P:167)

کچھ تاریخی کتابوں میں حضور تاجدارختم نبوتﷺکی حضرت سیدتنا زینب رضی اللہ عنہا سے شادی کے متعلق کچھ روایات آئی ہیں جن کو مستشرقین و ملحدین نے ایک کہانی کی شکل میں پیش کیاجسکا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت سیدتنازینب رضی اللہ عنہاکی حضرت سیدنا زیدرضی اللہ عنہ کے ساتھ شادی کے بعد حضور تاجدارختم نبوتﷺکوحضرت سیدتنا زینب رضی اللہ عنہا اچھی لگنے لگ گئی تھیں اور آپﷺ اسکو چھپاتے تھے ، بالآخر حضرت سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے حضرت سیدتنازینب رضی اللہ عنہاکو طلاق دے دیدی اور حضور تاجدارختم نبوتﷺ نے حضرت سیدتنا زینب رضی اللہ عنہاسے شادی کرلی ۔ نعوذ بااللہ

یہ جھوٹی روایات عیسائی مورخیں کا مایہ استناد ہیں اور اب انکے شاگرد ملحدین انکے اگلے ہوئے نوالے چبا رہے ہیں۔ ان متعصبین کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ اصول فن کے لحاظ سے روایت کس پایہ کی ہے۔ اسکا راوی کون ہے، اسکے بارے میں اسمائے رجال کی کتابوں میں کیسی گواہیاں نقل کی گئی ہیں۔انکو بس اعتراض کا موقع چاہیے، کسی روایت سے کچھ بھی ثابت کردیں گے ۔ان روایات کے اکثر راوی ضعیف ہیں اس لیے یہ قابل اعتبار نہیں ، پھر تاریخ سے زیادہ مستند ذریعہ قرآن اور حدیث میں حضور تاجدارختم نبوتﷺ حضرت سیدنا زیدرضی اللہ عنہ اورحضرت سیدتنا زینب رضی اللہ عنہاکے معاملے پر تفصیل موجود ہے اس لیے ان تاریخی روایات کو لینے اور ان پر مزید کسی بحث کی ضرورت نہیں رہتی ۔

کیرن آرمسٹرانگ کی دوسری ہفوات

حضرت سیدتناام سلمہ رضی اللہ عنہا سے شادی کے حوالے سے کہ جب آپ ﷺ نے انہیں پیغام بھیجا ،تو ام سلمہ نے معذرت کی اور اس کے تین اسباب بیا ن کئے : (۱)معمر ہوں (۲)یتیم بچوں کی ماں ہوں (۳)میرے جذبات میں رقابت ہے ۔اس پر کیرن آرم اسٹرانگ لکھتی ہیں :
Muhammad smiled – he had a smile of great sweetness, which almost everybody found disarming. ۔
محمدﷺ یہ بات سن کر مسکرادئیے وہی عظیم میٹھی مسکراہٹ جو ہر کسی کو پسپا کر دیتی تھی ۔
(استشراقی فریب لشیخ محمداسماعیل بدایونی :۳۲۴)

Leave a Reply