اللہ تعالی کاحضورتاجدارختم نبوتﷺکے گستاخوں پرعذاب نازل کرنا
{وَلَقَدِ اسْتُہْزِیَ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِکَ فَاَمْلَیْتُ لِلَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثُمَّ اَخَذْتُہُمْ فَکَیْفَ کَانَ عِقَابِ }(۳۲)
ترجمہ کنزالایمان:اور بیشک تم سے اگلے رسولوں پر بھی ہنسی کی گئی تو میں نے کافروں کو کچھ دنوں ڈھیل دی پھر انہیں پکڑاتو میرا عذاب کیسا تھا۔
ترجمہ ضیاء الایمان:اے حبیب کریمﷺ! بیشک آپ ﷺسے پہلے رسولوں کا مذاق اڑایا گیا تو میں نے کافروں کو ڈھیل دی پھر میں نے انہیں پکڑلیا تو میرا عذاب کیسا تھا؟۔
شان نزول
اعْلَمْ أَنَّ الْقَوْمَ لَمَّا طَلَبُوا سَائِرَ الْمُعْجِزَاتِ مِنَ الرَّسُولِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی سَبِیلِ الِاسْتِہْزَاء ِ وَالسُّخْرِیَۃِ وَکَانَ ذَلِکَ یَشُقُّ عَلَی رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَکَانَ یَتَأَذَّی مِنْ تِلْکَ الْکَلِمَاتِ فَاللَّہُ تَعَالَی أَنْزَلَ ہَذِہِ الْآیَۃَ تَسْلِیَۃً لَہُ وَتَصْبِیرًا لَہُ عَلَی سَفَاہَۃِ قَوْمِہِ فَقَالَ لَہُ إن أقوام سائر الأنبیاء استہزؤا بِہِمْ کَمَا أَنَّ قَوْمَکَ یَسْتَہْزِئُونَ بِکَ:فَأَمْلَیْتُ لِلَّذِینَ کَفَرُوا أَیْ أَطَلْتُ لَہُمُ الْمُدَّۃَ بِتَأْخِیرِ الْعُقُوبَۃِ ثُمَّ أَخَذْتُہُمْ فَکَیْفَ کَانَ عِقَابِی لَہُمْ.
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی: ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ کفار ِمکہ نے جب ان معجزات کا مطالبہ مذاق اڑانے کے طور پر کیا تو یہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکے قلبِ اطہر پر بہت گراں گزرا اور ان باتوں سے آپﷺکو بہت اَذِیّت اور تکلیف پہنچی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کریمﷺ کو تسلی دینے کے لئے یہ آیت نازل فرمائی تاکہ آپ ﷺ اپنی قوم کے ان جاہلانہ مطالبوں پر صبر فرمائیں، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اے حبیب کریمﷺ! جس طرح آپﷺ کی قوم نے آپ ﷺکا مذاق اڑانے کی نیت سے نشانیاں طلب کی ہیں اسی طرح باقی انبیائِ کرام علیہم السلام کی قوموں نے بھی ان کا مذاق اُڑایا تھا ، پھر میں نے کافروں کوکچھ دنوں کیلئے ڈھیل دینے کے بعد عذاب میں گرفتار کر دیااور دنیا میں انہیں قحط ،قتل اور قید کی مصیبتوں میں مبتلا کر دیا اور آخرت میں اُن کے لئے جہنم کا عذاب ہے
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۱۹:۴۴)
اللہ تعالی اپنے دین کے مددگاروں کی بہت جلد مددفرماتاہے
وفیہ اشارۃ الی ان من امارات الشقاء الاستہزاء بالأنبیاء والأولیاء وفی الحدیث (من أہان لی)ویروی (من عادی لی ولیا فقد بارزنی بالمحاربۃ)ای من اغضب وآذی واحدا من أولیائی فقد حاربنی واللہ اسرع شیء الی نصرۃ أولیائہ لان الولی ینصر اللہ فیکون اللہ ناصرہ،وروی- ان اللہ تعالی قال لبعض أولیائہ اما زہدک فی الدنیا فقد تعجلت راحۃ نفسک واما ذکرک إیای فقد تشرفت بی فہل والیت فیّ ولیا وہل عادیت فیّ عدوا فمحبۃ اولیاء اللہ تعالی وموالاتہم من انفع الأعمال عند اللہ وبغضہم وعداوتہم واستحقارہم والطعن فیہم من أضر الأعمال عندہ تعالی واکبر الکبائر۔
ترجمہ :امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی : ۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ انبیاء کرام علیہم السلام اور اولیاء کرام علیہم الرحمہ کا مذاق اڑانا بد بختی کی علامت ہے۔ حدیثِ قُدسی میں ہے،اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے جس نے میرے کسی ولی کی توہین کی تو اس نے مجھ سے جنگ کا اعلان کر دیا۔ یعنی جس نے میرے اولیاء میں سے کسی کو اذیت دی یا کسی کو غضب دلایا تو اس نے مجھ سے جنگ کی ۔
مزید فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اولیا ء سے محبت رکھنا، ان سے قلبی تعلقات قائم کرنا اور ان کی صحبت اختیار کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ نفع مند اعمال میں سے ہے اور اللہ تعالیٰ کے اولیا ء سے بغض و عداوت رکھنا، انہیں حقیر سمجھنا اور ان پر اعتراضات کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ نقصان دینے والے اعمال میں سے ہے۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۴:۳۷۸)
لبرل وسیکولر ہی گستاخ کیوںہوتاہے؟
ولا شک ان مثل ہذہ المعاملات القبیحۃ من غلبۃ أوصاف النفس فعلی العاقل ان یزکی نفسہ عن سفساف الأخلاق حتی یتخلص من قہر القہار الخلاق۔ ألا تری ان المؤمنین نظروا الی النبی علیہ السلام بعین التعظیم وبدلوا الکبر بالتواضع والفناء ودخلوا فی الاستسلام فاستسعدوا لسعادۃ الدارین واما الکفرۃ فعتوا عتوا کبیرا فاستأصلہم اللہ من حیث لا یحتسبون فشقوا شقاوۃ ابدیۃ وہکذا حال سائر المؤمنین والمنکرین الی یوم القیامۃ فان الأولیاء ورثۃ الرسول علیہ السلام والمعاملۃ معہم کالمعاملۃ معہ: قال الکمال الخجندی:
مقربان خدااند وارثان رسول … تو از خدای چنین دور واز رسولی چیست
ترجمہ :امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی : ۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس طرح کی شرارت یعنی انبیاء کرام علیہم السلام اوراولیاء کرام کی گستاخیاں وہی کرتاہے جس کانفس اس پرغالب آچکاہو، ورنہ شریف النفس شخص گستاخی کرنے کاسوچ بھی نہیں سکتا۔اورنہ ہی شریف النفس شخص اللہ تعالی کی ذات پاک کے متعلق بے باکانہ کلام کرسکتاہے۔
صاحب عقل پرلازم ہے کہ وہ اپنے نفس کو گندی عادتوں سے دوررکھے تاکہ قہاروجباررب تعالی کے قہرسے نجات پاسکے ۔ غورکریں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضورتاجدارختم نبوتﷺ کوادب ومحبت اورعقیدت کی نگاہ سے دیکھا، اپنی خرابیوں مثلاًتکبروغیرہ کو ختم کرکے اپنے آقاومولاحضورتاجدارختم نبوتﷺکا تواضع اورفناوادب سیکھا، اس کی برکت یہ ہوئی کہ وہ دارین کی ہرتکلیف سے محفوظ ہوگئے اورکونین کی ہرہرسعادت سے نوازے گئے ، اورکفار حضورتاجدارختم نبوتﷺکے ساتھ سرکشی کے ساتھ پیش آئے اورآپﷺکی بارگاہ کے آداب بجانہ لائے اورگستاخیاں کیں تواللہ تعالی نے ان کی جڑکاٹ دی اوردائمی شقاوت اوربدبختی ان کے گلے کاہاربنی ۔
یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گاکہ اہل ایمان کے ساتھ بغض وعداوت کافروں کونصیب ہواوراولیاء اللہ کاانکاراوران کی گستاخیاں کرنے والے قیامت تک پیداہوتے رہیں گے ، اس لئے کہ اولیاء کرام علیہم الرحمہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکے وارث وجانشین ہیں اوراولیاء کرام علیہم الرحمہ کے ساتھ محبت وعقیدت گویاحضورتاجدارختم نبوتﷺکے ساتھ عقیدت ومحبت ہے ، ان کی گستاخی ،بے ادبی اوران کے ساتھ بغض وعداوت اورسوء عقیدت حضورتاجدارختم نبوتﷺکے ساتھ بغض وعداوت اورسوء عقیدت ہے ۔
حضرت کمال خجندی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ
مقربان خدااند وارثان رسول … تو از خدای چنین دور واز رسولی چیست
ترجمہ :حضورتاجدارختم نبوتﷺکے وارث ، اللہ تعالی کے مقرب ہیں ، اے مسلمان بھائی !تم اللہ تعالی کے اولیاء سے محروم ہوکراللہ تعالی اورحضورتاجدارختم نبوتﷺسے دورکیوں ہو؟۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۴:۳۷۸)