بندہ مومن کارزق تنگ ہونااس کی توہین کی دلیل نہیں ہے اورنہ ہی کافرکے رزق کی وسعت اس کے عنداللہ عزت دارہونے کی دلیل ہے
{اَللہُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآء ُ وَیَقْدِرُ وَفَرِحُوْا بِالْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا فِی الْاٰخِرَۃِ اِلَّا مَتَاعٌ}(۲۶)
ترجمہ کنزالایمان:اللہ جس کے لیے چاہے رزق کشادہ اور تنگ کرتا ہے اور کا فر دنیا کی زندگی پر اترا گئے اور دنیا کی زندگی آخرت کے مقابل نہیں مگر کچھ دن برت لینا۔
ترجمہ ضیا ء الایمان:اللہ تعالی جس کے لیے چاہتا ہے رزق میںو سعت عطافرماتاہے اور تنگ کردیتا ہے اور کا فر دنیا کی زندگی پر خوش ہوگئے حالانکہ دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلے میں بالکل ایک حقیر سی چیز ہے۔
مومن اورکافرکے رزق میں تنگی اورکشادگی ہوناذلت اورعزت کامعیار نہیں ہے
قَوْلِہِ تَعَالَی:(اللَّہُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَشاء ُ وَیَقْدِرُلَمَّا ذَکَرَ عَاقِبَۃَ الْمُؤْمِنِ وَعَاقِبَۃَ الْمُشْرِکِ بَیَّنَ أَنَّہُ تَعَالَی الَّذِی یَبْسُطُ الرِّزْقَ وَیَقْدِرُ فِی الدُّنْیَا، لِأَنَّہَا دَارُ امْتِحَانٍ، فَبَسْطُ الرِّزْقِ عَلَی الْکَافِرِ لَا یَدُلُّ عَلَی کَرَامَتِہِ، وَالتَّقْتِیرُ عَلَی بَعْضِ الْمُؤْمِنِینَ لَا یَدُلُّ عَلَی إِہَانَتِہِمْ۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی اللہ تعالی کے اس فرمان شریف کے{اللَّہُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَشاء ُ وَیَقْدِرُ}تحت فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالی نے مومن وکافرکے انجام کو ذکرفرمایاتوپھریہ بیان فرمایاکہ اللہ تعالی دنیامیں رزق کو کشادہ بھی کرتاہے اورتنگ بھی ، کیونکہ یہ دارالامتحان ہے ، پس کافرپررزق کی کشادگی اس کی عزت کی دلیل نہیں ہے اورنہ ہی کسی مومن پررزق کی تنگی اس کی اہانت کی دلیل ہے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۹:۳۱۳)
کافررب تعالی کادشمن ہے تودنیوی نعمتوں کی کثرت کیوں؟
اعْلَمْ أَنَّہُ تَعَالَی لَمَّا حَکَمَ عَلَی مَنْ نَقَضَ عَہْدَ اللَّہِ فِی قَبُولِ التَّوْحِیدِ وَالنُّبُوَّۃِ بِأَنَّہُمْ مَلْعُونُونَ فِی الدُّنْیَا وَمُعَذَّبُونَ فِی الْآخِرَۃِ فَکَأَنَّہُ قِیلَ:لَوْ کَانُوا أَعْدَاء َ اللَّہِ لَمَا فَتَحَ اللَّہُ عَلَیْہِمْ أَبْوَابَ النِّعَمِ وَاللَّذَّاتِ فِی الدُّنْیَا، فَأَجَابَ اللَّہُ تَعَالَی عَنْہُ بِہَذِہِ الْآیَۃِ وَہُوَ أَنَّہُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ عَلَی الْبَعْضِ وَیُضَیِّقُہُ عَلَی الْبَعْضِ وَلَا تَعَلُّقَ لَہُ بِالْکُفْرِ وَالْإِیمَانِ، فَقَدْ یُوجَدُ الْکَافِرُ مُوَسَّعًا عَلَیْہِ دُونَ الْمُؤْمِنِ، وَیُوجَدُ الْمُؤْمِنُ مُضَیَّقًا عَلَیْہِ دُونَ الْکَافِرِ، فَالدُّنْیَا دَارُ امْتِحَانٍ۔
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۹۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالی نے قبول توحیداورنبوت کے عہدکوتوڑنے والوں کے بارے میں واضح کیاکہ یہ لوگ دنیامیں لعنتی ہیں اورآخرت میں بھی عذاب میں گرفتارہوںگے ، گویا پوچھاگیاکہ اگریہ اللہ تعالی کے دشمن تھے تو ان پرنعمتوں کے دروازے اوردنیاوی لذتوں کے دروازے کیوں کھولے ؟ تواللہ تعالی نے اس آیت کریمہ میں ان کی اس بات کاجواب یوں دیا، کچھ پررزق کی کشادگی اورکچھ پررزق کی تنگی کاکفراورایمان سے کوئی تعلق نہیں ہے ، کبھی کبھی کافرکے پاس دولت زیادہ ہوتی ہے نہ کہ اہل ایمان کے پاس اوراہل ایمان تنگ دست ہوتے ہیں نہ کہ کافر، تودنیادارامتحان ہے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۱۹:۳۸)
مولانالطیف اللہ لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمام کائنات کا خالق ہے اور کائنات کی ہر چیز کی روزی اسی کے دستِ قدرت میں ہے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ اس کا ذکر موجود ہے۔ سورۃ الذاریات میں ارشاد ہے:
{وَفِی السَّماء ِ رِزقُکُم وَما توعَدونَ }(سورۃ الذریات:۲۲)
ترجمہ ضیاء الایمان:اور تمہارا رزق اور جس چیز کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے آسمان میں (یعنی اللہ تعالیٰ کے ذمہ میں)ہے۔
سورہ ہود میں ارشاد ہے:
{وَما مِن دابَّۃٍ فِی الأَرضِ إِلّا عَلَی اللَّہِ رِزقُہا}(سورۃ ہود:۶)
ترجمہ ضیاء الایمان:اور زمین پر چلنے والے ہر جاندار کے رزق کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ میں لے لی ہے۔
دابۃ کا لفظ ہر ذی روح حیوان پر بولا جاتا ہے۔ رزق کی حقیقت کیا ہے؟
رزق کی حقیقت
وَالرِّزْقُ حَقِیقَتُہُ مَا یَتَغَذَّی بِہِ الْحَیُّ وَیَکُونُ فِیہِ بَقَاء ُ رُوحِہِ وَنَمَاء ُ جَسَدِہِ۔
ترجمہ :امام ا بوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیںرزق ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو کسی جاندار کی غذا بنے اور اس میں اس کی روح کی بقا اور جسم کی نشوونما ہو۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۹:۶)
قرآن مجید میں ایک اور جگہ اللہ تعالی نے فرمایا:
{وَجَعَلنا لَکُم فیہا مَعـٰیِشَ وَمَن لَستُم لَہُ بِرٰزِقینَ }(سورۃ الحجر:۲۰)
ترجمہ ضیاء الایمان:اور ہم نے تمہارے لئے زمین میں رزق کے سامان بنا دئیے اور ان کے لئے بھی جنہیں تم روزی دینے والے نہیں ہو۔
معیشت سے مراد کیاہے؟
وَجَعَلْنا لَکُمْ فِیہا مَعایِشَ)یَعْنِی الْمَطَاعِمَ وَالْمَشَارِبَ الَّتِی یَعِیشُونَ بِہَا، وَاحِدُہَا مَعِیشَۃوَقِیلَ: إِنَّہَا الْمَلَابِسُ، قَالَہُ الْحَسَن وَقِیلَ:إِنَّہَا التَّصَرُّفُ فِی أَسْبَابِ الرِّزْقِ مُدَّۃَ الْحَیَاۃِ قَالَ الْمَاوَرْدِیُّ:وَہُوَ الظَّاہِرُ.
ترجمہ :امام ا بوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیںمعایش کا واحد معیشۃ ہے اس سے مراد وسائلِ معاش ہیں یعنی کھانے پینے کی چیزیں اور امام ماوردی نے کہا ہے کہ اس سے ’’عمر بھر اسبابِ رزق میں تصرف کرنامراد ہے‘‘۔امام حسن بصری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد لباس وغیرہ ہے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۱۰:۱۳)
قرآن کریم کی ان آیات سے یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ کائنات کی تمام چیزوں کا رزق اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔ اللہ تعالی رزق کی تقسیم میں کمی و بیشی پر قادر ہے فراوانی سے رزق دیتاہے اور جسے چاہتا ہے محدود اور تنگ رزق عطا کرتا ہے۔
قرآن مجیدمیں ارشاد خداوندی ہے:
{قُلْ إِنَّ رَبِّی یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن یَشَاء ُ وَیَقْدِرُ وَلَـٰکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُونَ }(سورۃ السباء :۳۶)
ترجمہ :اے حبیب کریمﷺ! ان سے فرمائیں میرا رب جسے چاہتا ہے کشادہ رزق دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تُلا عطا کرتا ہے مگر اکثر لوگ اس کی حقیقت نہیں جانتے۔
دنیا میں رزق کی تقسیم کا انتظام جس حکمت و مصلحت پر مبنی ہے اس کو یہ لوگ نہیں سمجھتے اور اس غلط فہمی میں پڑ جاتے ہیں کہ جسے اللہ تعالی کشادہ رزق دے رہا ہے، وہ اس کا محبوب ہے اور جسے تنگی کے ساتھ دے رہا ہے، وہ اس کے غضب میں مبتلا ہے حالانکہ اگر کوئی شخص ذرا آنکھیں کھول کر دیکھے تو اسے نظر آ سکتا ہے کہ بسا اوقات بڑے ناپاک اور گھناؤنے کردار کے لوگ نہایت خوشحال ہوتے ہیں اور بہت سے نیک اور شریف انسان جن کے کردار کی خوبی کا ہر شخص معترف ہوتا ہے تنگ دستی میں مبتلا پائے جاتے ہیں۔ اب آخر کون صاحبِ عقل یہ کہہ سکتا ہے کہ اللہ تعالی کو یہ پاکیزہ اخلاق کے لوگ ناپسند ہیں اور وہ شریر خبیث لوگ ہی اسے بھلے لگتے ہیں۔
رزق کی فراخی اور تنگی ربِ کائنات کی مشیت سے ہی وابستہ ہے جیسا کہ قرآن کریم کی درج بالا آیت کریمہ سے واضح ہوتا ہے حضور تاجدارختم نبوتﷺنے بھی اسی حقیقت کی طرف یوں اشارہ فرمایا ہے:
قَالَ طَاوُسٌ:وَسَمِعْتُ عَبْدَ اللَّہِ بْنَ عُمَرَ یَقُولُ:قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:کُلُّ شَیْء ٍ بِقَدَرٍ حَتَّی الْعَجْزِ وَالْکَیْسِ، أَوِ الْکَیْسِ وَالْعَجْزِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے ارشاد فرمایا ہر چیز تقدیر کے ساتھ ہے حتیٰ کہ بے چارگی و درماندگی اور دانائی و ہوشیاری۔
(موطأ الإمام مالک:مالک بن أنس بن مالک بن عامر الأصبحی المدنی (۲:۸۹۹)
حضورتاجدارختم نبوتﷺکی اس حدیثِ مبارکہ کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کی صفات، قابلیت و ناقابلیت، صلاحیت و عدم صلاحیت اور عقلمندی و بیوقوفی وغیرہ بھی اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہی سے ہیں۔ الغرض اس دنیا میں کوئی جیسا اور جس حالت میں ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی رضاء و قدر کے ماتحت ہے۔
اللہ تعالیٰ خالق کائنات ہے۔ ارض و سماء کا مالک ہے۔ رزق کے تمام خزانوں کا مالک ہے۔ وہ اپنے بندوں کے طبعی اور فطری حالات و عادات سے پوری طرح باخبر ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے احوال و ظروف کو جانتے ہوئے ایک مقررہ معلوم پیمانے پر رزق عطا فرماتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:{وَإِن مِّن شَیْء ٍ إِلَّا عِندَنَا خَزَائِنُہُ وَمَا نُنَزِّلُہُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُومٍ }(سورۃ الحجر:۲۱)
ترجمہ ضیاء الایمان:اور ہر چیز کے ہمارے پاس خزانے ہیں اور ہم ایک مقررہ اندازے پر نازل کرتے ہیں۔
قرآن و حدیث کے ان نصوص کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ رزق کی فراخی اور تنگی کا سلسلہ مشیتِ ایزدی پر ہے اور وہ اپنے علم کی بنا پر اپنے بندوں کی روزی اور رزق کا پیمانہ مقرر فرماتاہے۔
رزق میں مدارج و مراتب کا اختلاف اور اس کی حِکمتیں و مصلحتیں
کائنات کی ہر ذی روح مخلوق تک اللہ تعالی رزق پہنچا رہاہے دوسری مخلوقات کے برعکس انسان کے بے شمار حِکم و مصالح مضمر ہیں۔ جن کی نشاندہی قرآن مجید نے یوں بیان فرمائی ہے:
(۱)…انسانوں میں فطری کمالات و اوصاف کا اختلاف
تمام انسانوں کی تخلیق میں فطری اختلاف ہے۔ اسی اختلاف کی بناء پر ان کی ذہنی صلاحیتوں اور کمالات و اوصاف میں فرق و امتیاز ہے۔ ان کی جسمانی توانائیوں اور طاقتوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ ان کے افکار و خیالات اور نصب العین بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ نیز رزق حاصل کرنے کے اسلوب و اطوار بھی مختلف ہیں۔ چنانچہ اسی فطری اختلاف کی بدولت رزق کے پیمانے بھی مختلف ہیں اور انصاف بھی اس بات کا متقاضی ہے کہ رزق کے معاملہ میں انسان کی کوششوں اور صلاحیتوں کو مدنظر رکھا جائے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{وَأَن لَّیْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَی}(سورۃ النجم:۳۹)
ترجمہ ضیاء الایمان:اور انسان کے لئے وہی کچھ ہے جس کی اس نے کوشش کی۔
قرآن مجید میں ایک اور جگہ ارشاد ہے
{إِنَّ سَعْیَکُمْ لَشَتَّیٰ {سورۃ اللیل:۴)
ترجمہ ضیاء الایمان: بے شک تم لوگوں کی کوششیں مختلف قسم کی ہیں۔
(۲)… مربوط معاشرے کے قیام کے لئے ایک دوسرے کا محتاج ہونا
انسانوں میں رزق کے مدارج و مراتب کے اختلاف میں مضمر دوسری حکمت و مصلحت کے متعلق قرآن مجید کی سورہ زخرف میں یوں ارشاد فرمایا گیا ہے:
{أَہُمْ یَقْسِمُونَ رَحْمَتَ رَبِّکَ نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَہُم مَّعِیشَتَہُمْ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَاوَرَفَعْنَا بَعْضَہُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِّیَتَّخِذَ بَعْضُہُم بَعْضًا سُخْرِیًّا}(سورۃ الزخرف:۳۲)
ترجمہ ضیاء الایمان:کیا تیرے رب کی رحمت یہ لوگ تقسیم کرتے ہیں؟ دنیا کی زندگی میں ان کی گزر بسر کے ذرائع تو ہم نے ان کے درمیان تقسیم کئے ہیں اور ان میں سے کچھ لوگوں کو کچھ دوسرے لوگوں پر ہم نے بدرجہا فوقیت دی ہے تاکہ یہ ایک دوسرے سے خدمت لیں۔
اس آیت کریمہ میں کفار کے اعتراض کے جواب میں چند مختصر الفاظ میں بہت ہی اہم باتیں ارشاد ہوئی ہیں:
(۱)…پہلی بات یہ ہے کہ تیرے رب کی رحمت تقسیم کرنا ان کے سپرد کیسے ہو گیا ہے؟ کیا یہ طے کرنا ان کا کام ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے کس کو نوازے اور کس کو نہ نوازے؟
(۲)…دوسری بات یہ کہ نبوت تو خیر بہت بڑی چیز ہے دنیا میں زندگی بسر کرنے کے جو عام ذرائع ہیں ان کی تقسیم بھی ہم نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہے کسی اور کے حوالے نہیں کر دی۔ ہم کسی کو حسین اور کسی کو بدصورت ، کسی کو خوش آواز اور کسی کو بد آواز، کسی کو قوی ہیکل اور کسی کو کمزور، کسی کو ذہین اور کسی کو کند ذہن، کسی کو قوی الحافظہ اور کسی کو نسیان میں مبتلا، کسی کو سلیم الاعضاء اور کسی کو اپاہج یا اندھا گونگا اور بہرا، کسی کو امیر زادہ اور کسی کو فقیر زادہ، کسی کو ترقی یافتہ قوم کا فرد اور کسی کو غلام یا پس ماندہ قوم کا فرد پیدا کرتے ہیں۔ اس پیدائشی قسمت میں کوئی ذرہ برابر بھی دخل نہیں دے سکتا۔ جس کو جو کچھ ہم نے بنا دیا ہے وہی کچھ بننے پر وہ مجبور ہے۔ اور ان مختلف پیدائشی حالتوں کا جو اثر بھی کسی تقدیر پر پڑتا ہے اسے بدل دینا کسی کے بس میں نہیں ہے۔ پھر انسانوں کے درمیان رزق، طاقت، عزت، شہرت، دولت، حکومت وغیرہ کی تقسیم بھی ہم ہی کر رہے ہیں۔ جس کو ہماری طرف سے اقبال نصیب ہوتا ہے، اسے کوئی گرا نہیں سکتا اور جس پر ہماری طرف سے ادبار آجاتا ہے، اسے گرنے سے کوئی بچا نہیں سکتا۔ ہمارے فیصلوں کے مقابلے میں انسانوں کی ساری تدبیریں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ اس عالمگیر خدائی انتظام میں یہ لوگ کہاں فیصلہ کرنے چلے ہیں کہ کائنات کا مالک کسے اپنا نبی بنائے اور کسے نہ بنائے۔
(۳)…تیسری بات یہ ہے کہ اس خدائی انتظام میں یہ مستقل قاعدہ ملحوظ رکھا گیا ہے کہ سب کچھ ایک ہی کو یا سب کچھ سب کو نہ دے دیا جائے۔ آنکھیں کھول کر دیکھو ہر طرف تمہیں بندوں کے درمیان ہر پہلو میں تفاوت ہی تفاوت نظر آئے گا۔ کسی کو ہم نے کوئی چیز دی ہے تو دوسری کسی چیز سے اس کو محروم کر دیا ہے اور وہ کسی اور کو عطا کر دی ہے یہ اس حکمت کی بنا پر کیا گیا ہے کہ کوئی انسان دوسرے سے بے نیاز نہ ہو بلکہ ہر ایک کسی نہ کسی معاملہ میں دوسرے کا محتاج رہے۔ اب یہ کیسا احمقانہ خیال تمہارے دماغ میں سمایا ہے کہ جسے ہم نے ریاست اور وجاہت دی ہے، اسی کو نبوت بھی دے دی جائے؟ کیا اس طرح تم یہ بھی کہو گے کہ عقل، علم، دولت ، حسن، طاقت، اقتدار اور دوسرے تمام کمالات ایک ہی میں جمع کر دئیے جائیں اور جس کو ایک چیز نہیں ملی اسے دوسری بھی کوئی چیز نہ دی جائے۔
مربوط معاشرے کے قیام کے لئے ضروری ہے کہ معاشرے کا ہر فرد دوسرے افراد سے مل جل کر ضروریاتِ زندگی کی تکمیل کرے۔ اگر معاشرے کا ہر فرد دوسرے افراد سے بے نیاز ہو کر اپنی ضروریات پوری کرنا شروع کر دے تو مربوط معاشرہ تشکیل پذیر نہیں ہو سکتا۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے رزق میں تفاوت رکھا ہے تاکہ وہ ایک دوسرے سے خدمت لے سکیں اور آپس میں پیوستہ رہ سکیں۔
(۳)… رزق کی فراوانی ظلم و طغیانی کو بڑھا دیتی ہے
رزق کے مدارج و مراتب کے اختلاف میں ایک بڑی مصلحت یہ ہے کہ اگر تمام انسانوں کے رزق میں وسعت اور فراوانی کر دی جاتی تو ظلم و طغیانی اور سرکشی حد سے بڑھ جاتی۔ کیونکہ وسائلِ رزق کی کمی کی وجہ سے اکثر لوگ فتنہ و فساد، ظلم و زیادتی اور برے کاموں سے بچ جاتے ہیں۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
{وَلَوْ بَسَطَ اللَّـہُ الرِّزْقَ لِعِبَادِہِ لَبَغَوْا فِی الْأَرْضِ وَلَـٰکِن یُنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَّا یَشَاء ُ إِنَّہُ بِعِبَادِہِ خَبِیرٌ بَصِیرٌ}(سورۃ الشورٰی:۲۷)
ترجمہ ضیاء الایمان:اگر اللہ تعالیٰ اپنے سب بندوں کی روزی فراخ کر دیتا تو وہ زمین میں فساد برپا کر دیتے لیکن وہ اندازے کے ساتھ جو کچھ چاہتا ہے نازل فرماتا ہے، وہ اپنے بندوں سے پورا خبردار ہے اور خوب دیکھنے والا ہے۔
آیت کریمہ کی تفسیر
وَقَوْلُہُ تعالی:وَلَوْ بَسَطَ اللَّہُ الرِّزْقَ لِعِبادِہِ لَبَغَوْا فِی الْأَرْضِ أَیْ لَوْ أَعْطَاہُمْ فَوْقَ حَاجَتِہِمْ مِنَ الرِّزْقِ لَحَمَلَہُمْ ذَلِکَ عَلَی الْبَغْیِ وَالطُّغْیَانِ مِنْ بَعْضِہِمْ عَلَی بَعْضٍ أَشَرًا وَبَطَرً اوَقَالَ قَتَادَۃُ:کَانَ یُقَالُ خَیْرُ الْعَیْشِ مَا لَا یُلْہِیکَ وَلَا یُطْغِیکَ، وَذَکَرَ قَتَادَۃُ حَدِیثَ إِنَّمَا أَخَافُ علیکم ما یخرج اللہ تعالی مِنْ زَہْرَۃِ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَسُؤَالَ السَّائِلِ:أَیَأْتِی الخیر بالشر؟الحدیث وقولہ عز وجل:وَلکِنْ یُنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَا یَشاء ُ إِنَّہُ بِعِبادِہِ خَبِیرٌ بَصِیرٌ أَیْ وَلَکِنْ یَرْزُقُہُمْ مِنَ الرِّزْقِ مَا یَخْتَارُہُ مِمَّا فِیہِ صَلَاحُہُمْ وَہُوَ أَعْلَمُ بِذَلِکَ فَیُغْنِی مَنْ یَسْتَحِقُّ الْغِنَی وَیُفْقِرُ مَنْ یَسْتَحِقُّ الْفَقْرَ کَمَا جَاء َ فِی الْحَدِیثِ الْمَرْوِیِّ إِنَّ مِنْ عِبَادِی مَنْ لَا یُصْلِحُہُ إِلَّا الْغِنَی وَلَوْ أَفْقَرْتُہُ لَأَفْسَدْتُ علیہ دینہ وإن مِنْ عِبَادِی مَنْ لَا یُصْلِحُہُ إِلَّا الْفَقْرُ وَلَوْ أَغْنَیْتُہُ لَأَفْسَدْتُ علیہ دینہ۔
ترجمہ :حافظ ابن کثیرالحنبلی المتوفی : ۷۷۴ھ) رحمہ اللہ تعالی اس آیت کریمہ کے تحت فرماتے ہیں کہ اگر ان بندوں کو ان کی روزیوں میں وسعت مل جاتی، ان کی ضروریات سے زیادہ ان کے پلے پڑ جاتا تو یہ خر مستی میں آکر دنیا میں ہلڑ مچا دیتے اور دنیا کے امن کو آگ لگا دیتے۔ ایک دوسرے کو پھونک دینا، بھون کھانا، سرکشی اور طغیان، تکبر اور بے پرواہی حد سے بڑھ جاتی۔ اسی لئے حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کا فلسفیانہ مقولہ ہے کہ زندگی کا سامان اتنا ہی اچھا ہے جتنے میں سرکشی اور لاابالی پن نہ آئے۔ پھر فرماتے ہیں:وہ اللہ تعالی ایک اندازے سے روزیاں پہنچا رہا ہے، بندے کی صلاحیت کا اسے علم ہے، غناء اور فقیری کے مستحق کو وہ خوب جانتا ہے۔ حدیث قدسی شریف میں ہے:میرے بندے ایسے بھی ہیں جن کی صلاحیت مالداری میں ہے اگر میں انہیں فقیر بنا دوں تو وہ دینداری سے بھی جاتے رہیں گے اور بعض میرے بندے ایسے بھی ہیں کہ ان کے لائق فقیری ہی ہے۔ اگر وہ مال حاصل کر لیں اور تونگر بن جائیں تو اس حالت میں، میں گویا ان کا دین فاسد کر دوں۔
(تفسیرابن کثیر:أبو الفداء إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی البصری ثم الدمشقی (۷:۱۸۹)
(۴)… رزق کی وسعت و تنگی سے انسان کی آزمائش کرنا مقصود ہے
اللہ تعالیٰ رزق کی فراوانی و تنگی دونوں حالتوں میں انسان کی آزمائش کرتا ہے۔ رزق اور مال و اسباب بکثرت دے کر وہ یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ اس نے اللہ تعالی کی امانت کا حق کیسے اور کس طرح ادا کیا۔ رزق کی فراوانی نے اسے اپنے رب سے غافل تو نہیں کر دیا۔ اللہ تعالی کی نعمت پانے کے بعد اپنے منعم حقیقی کا شکر بجا لایا یا اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہا۔ رزق کی کمی اور تنگی میں مبتلا کر کے اللہ تعالیٰ یہ دیکھتا ہے کہ اس کا بندہ مصائب میں کون سا رویہ اختیار کرتا ہے، صبر کا دامن پکڑتا ہے یا شکوہ و شکایت کو اپنا معمول بناتا ہے۔ رزق کے مدارج و مراتب کے اختلاف میں یہی مصلحت و حکمت پوشیدہ ہے۔ قرآن مجید کی سورۃ الانعام میں اسی امتحان اور آزمائش کی مکمل تفصیل کے متعلق یوں ارشاد فرمایا:
{وَہُوَ الَّذِی جَعَلَکُمْ خَلَائِفَ الْأَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَکُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِّیَبْلُوَکُمْ فِی مَا آتَاکُمْ إِنَّ رَبَّکَ سَرِیعُ الْعِقَابِ وَإِنَّہُ لَغَفُورٌ رَّحِیمٌ}(سورۃ الانعام:۱۶۵)
ترجمہ ضیاء الایمان:وہی ہے جس نے تم کو زمین کا خلیفہ بنایا اور تم میں سے بعض کو بعض کے مقابلے میں زیادہ بلند درجے دئیے تاکہ جو کچھ تم کو دیا ہے اس میں تمہاری آزمائش کرے۔ بے شک تمہارا رب سزا دینے میں بہت تیز ہے اور بہت درگزر کرنے والا رحم فرمانے والا بھی ہے۔
آیت مقدسہ کی تفسیر کے ضمن میں علماء کرام نے تین حقیقتیں بیان کی ہیں:
(۱)…ایک یہ کہ تمام انسان زمین میں خدا تعالی کے خلیفہ ہیں، اس معنی میں کہ خدا تعالی نے اپنی مملوکات میں سے بہت سی چیزیں ان کی امانت میں دی ہیں اور انہیں ان پر تصرف کے اختیارات بخشے ہیں۔
(۲)…دوسرا یہ کہ ان خلیفوں میں مراتب کا فرق بھی خدا تعالی ہی نے رکھا ہے کسی کی امانت کا دائرہ وسیع ہے اور کسی کا محدود، کسی کو زیادہ چیزوں پر تصرف کے اختیارات دئیے ہیں اور کسی کو کم چیزوں پر، کسی کو زیادہ قوت کارکردگی دی ہے اور کسی کو کم اور بعض انسان بھی بعض انسانوں کی امانت میں ہیں۔
(۳)…تیسرا یہ کہ سب کچھ دراصل امتحان کا سامان ہے پوری زندگی کا ایک امتحان گاہ ہے اور جس کو جو کچھ بھی اللہ تعالی نے دیا ہے، اسی میں اس کا امتحان ہے کہ اس نے کس طرح اللہ تعالی کی امانت میں تصرف کیا۔ کہاں تک امانت کی ذمہ داری کو سمجھا اور اس کا حق ادا کیا اور کس حد تک اپنی قابلیت یا عدم قابلیت کا ثبوت دیا۔ اسی امتحان کے نتیجہ پر زندگی کے دوسرے مرحلے میں انسان کے درجے کا تعین منحصر ہے۔
معیار زندگی اور اس کے تقاضے
رزق کے مدارج و مراتب کے اختلاف میں پنہاں حکمتوں اور مصلحتوں کو واضح کرنے کے بعد وضاحت طلب امر یہ ہے کہ جن لوگوں کو کم اور محدود رزق مہیا ہوتا ہے۔ اسلام اور شریعت اسلامیہ ان سے کیا تقاضا کرتی ہے۔ ان میں کون کون سی اخلاقی خوبیاں اور اعلیٰ اوصاف ہونے چاہیئں تاکہ وہ اپنی زندگیوں کو اسلامی دائرے کے اندر سکون و طمانیت کے ساتھ بسر کرنے کے قابل ہو سکیں اور معاشی زندگی کی تلخیوں اور پریشانیوں سے نجات پا کر دنیاوی و اخروی فلاح وکامرانی سے ہمکنار ہو سکیں؟
(۱)… اللہ تعالی نے اہل اسلام کو کفارکی دنیوی ترقی کی طرف دیکھنے سے بھی منع فرمایاہے چنانچہ قرآن مجید کی سورۃ طہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{وَلَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْکَ إِلَیٰ مَا مَتَّعْنَا بِہِ أَزْوَاجًا مِّنْہُمْ زَہْرَۃَ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا لِنَفْتِنَہُمْ فِیہِ وَرِزْقُ رَبِّکَ خَیْرٌ وَأَبْقَیٰ}(سورۃ طہٰ:۱۳۱)
ترجمہ ضیاء الایمان:اے حبیب کریم ﷺ!نگاہ اٹھا کر بھی نہ دیکھیں دنیوی زندگی کی اس شان و شوکت کو جو ہم نے ان میں سے مختلف قسم کے لوگوں کو دے رکھی ہے وہ تو ہم نے انہیں آزمائش میں ڈالنے کے لئے دی ہے اور تیرے رب کریم کا دیا ہوا رزق ہی بہتر اور پائندہ تر ہے۔
قرآن مجید کی سورۃ الحجرات میں اسی مضمون کو یوں بیان فرمایا گیا ہے:
{لَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْکَ إِلَیٰ مَا مَتَّعْنَا بِہِ أَزْوَاجًا مِّنْہُمْ وَلَا تَحْزَنْ عَلَیْہِمْ وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِلْمُؤْمِنِین}(سورۃ الحجر:۸۸)
ترجمہ ضیاء الایمان :اپنی آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھئے ان (اموال)کی طرف جن سے ہم نے لطف اندوز کیا ہے ان کے مختلف طبقوں کو اور رنجیدہ خاطر بھی نہ ہوں ان (کی گمراہی)پر اور مومنوں کے لئے اپنے پہلو کو جھکا دیجئے۔
اس نعمت عظمیٰ کے سامنے، اس گنج شائیگاں کی موجودگی میں یہ دولت دنیا اس قابل ہی کب ہے کہ آپ اس کی طرف نظر التفات کریں۔ جس کے پاس کوہ نور کا ہیرا ہو وہ بھی کبھی کوڑیوں کی طرف دیکھتا ہے خواہ ان کوڑیوں کے ڈھیر ہی کیوں نہ لگے ہوں۔ حضرت سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے کیا خوب فرمایا ہے:
حَدِیث أبی بکر من أُوتِیَ الْقُرْآن فَرَأَی أَن أحدا أُوتِیَ من الدُّنْیَا أفضل مِمَّا أُوتِیَ فقد صغر عَظِیما وَعظم صَغِیرا۔
ترجمہ :جس شخص کو دولت قرآن بخشی گئی اور اس نے کسی دنیا دار کو دیکھا اور اس کے سیم و زر کو نعمت قرآن کریم سے افضل خیال کیا تو اس نے بڑی نا انصافی کی، اس نے عظیم المرتبت چیز کو حقیر جانا اور ایک حقیر چیز کو بڑا خیال کیا۔
(تخریج الأحادیث والآثار:جمال الدین أبو محمد عبد اللہ بن یوسف بن محمد الزیلعی (۲:۲۱۷)
عام انسانوں کی رہنمائی کے لئے حضور تاجدارختم نبوتﷺ کا یہ ارشاد گرامی کتنا مفید اور طمانیت بخش ہے۔
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: انْظُرُوا إِلَی مَنْ أَسْفَلَ مِنْکُمْ، وَلَا تَنْظُرُوا إِلَی مَنْ ہُوَ فَوْقَکُمْ، فَہُوَ أَجْدَرُ أَنْ لَا تَزْدَرُوا نِعْمَۃَ اللہِ ۔
ترجمہ :حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور تاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا کہ اس کی طرف دیکھو جو تم سے کم تر ہے اپنے سے برتر کی طرف نہ دیکھو، اس طرح جو نعمت اللہ تعالیٰ نے تم پر فرمائی تم اسے حقیر جاننے کی غلطی سے محفوظ رہو گے۔
(معجم ابن الأعرابی:أبو سعید بن الأعرابی أحمد بن محمد بن زیاد الصوفی (۲:۵۱۷)
حضور تاجدارختم نبوتﷺ کی ایک اور حدیث اسی موضوع کے متعلق الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ یوں ہے۔
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، عَنْ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا نَظَرَ أَحَدُکُمْ إِلَی مَنْ فُضِّلَ عَلَیْہِ فِی المَالِ وَالخَلْقِ فَلْیَنْظُرْ إِلَی مَنْ ہُوَ أَسْفَلَ مِنْہُ۔
ترجمہ:حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور تاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی شخص ایسے شخص کو دیکھے جو مال اور صورت کے لحاظ سے اس پر فضیلت رکھتا ہے تو اسے چاہیئے کہ اس شخص کو بھی دیکھے جو اس سے (مال اور صورت میں)کمتر ہے۔
(صحیح ابن حبان:محمد بن حبان بن أحمد بن حبان أبو حاتم، الدارمی، البُستی (۲:۴۸۹)
انسانی زندگی کی معاشی تلخیاں اور دشواریاں اسی وجہ سے بڑھ رہی ہیں کہ انسان رزق و معاش کے دائرے میں اپنے سے افضل و برتر افراد کی مالی حیثیت پر جب نگاہ ڈالتا ہے تو وہ اپنی حیثیت کو کم تر اور حقیر جان کر اداسی و غمزدگی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کی زندگی کا سکون و اطمینان غائب ہو جاتا ہے۔ انسانی زندگی کو امن و سکون کا گہوارہ بنانے کی خاطر قرآن مجید میں ارشاد خداوندی ہے:
{وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللَّـہُ بِہِ بَعْضَکُمْ عَلَیٰ بَعْض}(سورۃ النساء :۳۲)
ترجمہ ضیاء الایمان:اور جس چیز میں اللہ تعالیٰ نے تم میں سے ایک کو دوسرے پر بڑائی دی ہے اس کی تمنا نہ کرو۔
اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو یکساں نہیں بنایا ہے بلکہ ان کے درمیان بے شمار حیثیتوں سے فرق رکھے ہیں۔ کوئی خوبصورت ہے اور کوئی بدصورت، کوئی خوش آواز ہے اور کوئی بد آواز، کوئی طاقتور ہے اور کوئی کمزور، کوئی سلیم الاعضاء ہے اور کوئی پیدائشی طور پر جسمانی نقص لے کر آیا ہے۔ کسی کو جسمانی اور ذہنی قوتوں میں سے کوئی زیادہ قوت دی ہے اور کسی کو کوئی دوسری قوت۔ کسی کو بہتر حالات میں پیدا کیا اور کسی کو بدتر حالات میں۔ کسی کو زیادہ زرائع دئیے ہیں اور کسی کو کم، اسی فرق و امتیاز پر انسانی تمدن کی ساری گوناگونی قائم ہے اور یہ عین متقضائے حکمت ہے۔ جہاں اس فرق کو اس کے فطری حدود سے بڑھا کر انسان اپنے مصنوعی امتیازات کا اس پر اضافہ کرتا ہے وہاں ایک نوعیت کا فساد رونما ہوتا ہے اور جہاں سرے سے اس فرق ہی کو مٹا دینے کے لئے فطرت سے جنگ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، وہاں ایک دوسری نوعیت کا فساد برپا ہوتا ہے۔ آدمی کی یہ ذہنیت کہ جسے کسی حیثیت سے اپنے مقابلہ میں بڑھا ہوا دیکھے بے چین ہو جائے یہی اجتماعی زندگی میں رشک، حسد، رقابت، عداوت، مزاحمت اور کشاکش کی جز ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو فضل اسے جائز طریقوں سے حاصل نہیں ہوتا، اسے پھر وہ ناجائز تدبیروں سے حاصل کرنے پر اتر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس آیت میں اسی ذہنیت سے بچنے کی ہدایت فرما رہا ہے۔ اس کے ارشاد کا مدعا یہ ہے کہ جو فضل اس نے دوسروں کو دیا ہو، اس کی تمنا نہ کرو البتہ اللہ تعالیٰ سے فضل کی (خود)دعا کرو وہ جس فضل کو اپنے علم و حکمت سے تمہارے لئے مناسب سمجھے گا، عطا فرما دے گا۔
اجتماعی زندگی میں سکون و اطمینان پیدا کرنے کی غرض سے
حضورتاجدارختم نبوتﷺکا یہ ارشاد گرامی کتنی فضیلت و اہمیت کا حامل ہے۔ حضرت سیدناامام علی بن حسین رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:
عَنْ عَلِیِّ بْنِ حُسَیْنٍ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:إِنَّ مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْء ِ تَرْکُہُ مَا لَا یَعْنِیہِ۔
ترجمہ :حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ بے فائدہ کاموں کو چھوڑ دے۔
(مسند ابن الجعد:علی بن الجَعْد بن عبید الجَوْہَری البغدادی :۴۲۸)
جو لوگ غفلت سے لا یعنی باتوں اور بے حاصل چیزوں میں اپنا وقت اور اپنی قوتیں صرف کرتے ہیں، وہ نادان جانتے نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو کتنا قیمتی بنایا ہے اور وہ اپنے کیسے بیش بہا خزانہ کو مٹی میں ملاتے ہیں۔ اس حقیقت کو جنہوں نے سمجھ لیا ہے بس وہی دانا و عقلمند ہیں، اس لئے جو خوش نصیب چاہے کہ اس کو ایمان کا کمال حاصل ہو اور اس کے اسلام کے حسن میں کوئی داغ دھبہ نہ ہو تو اس کو چاہیے کہ اپنا وقت اور اپنی تمام خداداد قوتوں اور صلاحیتوں کو بس ان ہی کاموں میں لگائے جن میں خیر اور منفعت کا کوئی پہلو ہو یعنی جو معاد یا معاش اخروی کے لحاظ سے ضروری یا مفید ہوں۔
(۲)… صبر و استقامت کا دامن تھامنا
کم اور محدود ’’وسائل رزق‘‘رکھنے والے افراد سے اسلام کا دوسرا تقاضا یہ ہے کہ وہ صبر کا دامن مضبوطی سے پکڑے رہیں کیونکہ یہ رب کائنات کی ابتلا و آزمائش ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{وَلَنَبْلُوَنَّکُم بِشَیْء ٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِینَ }(سوؤۃ البقرۃ:۱۵۵)
ترجمہ ضیاء الایمان:اور ہم ضرور تمہیں خوف و خطر ، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمہاری آزمائش کریں گے۔اے حبیب کریمﷺ! ان حالات میں صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیں۔
صبر کے لغوی معنی روکنے اور باندھنے کے ہیں اور اس سے مراد:ارادے کی مضبوطی، عزم کی وہ پختگی اور خواشات نفس کا وہ انضباط ہے جس سے ایک شخص نفسانی ترغیبات اور بیرونی مشکلات کے مقابلے میں اپنے قلب و ضمیر کے پسند کئے ہوئے راستے پر لگاتار بڑھتا چلا جائے۔
صبر کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ اپنی مصیبت اور تکلیف کا کسی سے اظہار بھی نہ ہو اور ایسے صابروں کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مغفرت کی بشارت دی ہے:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِی اللہُ عَنْہُمَا، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:مَنْ أُصِیبَ بِمُصِیبَۃٍ فِی مَالِہِ أَوْ جَسَدِہِ فَکَتَمَہا فَلَمْ یَشْکُہا إِلَی النَّاسِ کَانَ حَقًّا عَلَی اللہِ أَنْ یَغْفِرَ لَہُ۔
ترجمہ :حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما حضورتاجدارختم نبوتﷺسے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺنے ارشاد فرمایا کہ جو بندہ کسی جانی یا مالی مصیبت میں مبتلا ہو اور وہ کسی سے اس کا اظہار نہ کرے اور نہ لوگوں سے اس کا شکوہ شکایت کرے تو اللہ تعالیٰ کا ذمہ ہے کہ وہ اس کو بخش دیں گا۔
(المعجم الکبیر:سلیمان بن أحمد بن أیوب بن مطیر اللخمی الشامی، أبو القاسم الطبرانی (۱۱:۱۸۴)
مالی مصائب کے شکار صابرین کے متعلق حضورتاجدارختم نبوتﷺ کی ایک اور حدیث یوں ہے:
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:مَنْ جَاعَ أَوِ احْتَاجَ، فَکَتَمَہُ النَّاسُ وأَفْضَی بِہِ إِلَی اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ کَانَ حَقًّا عَلَی اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ یَفْتَحَ لَہُ رِزْقًا حَسَنًا مِنْ حَلَالٍ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا: جو بھوکا ہو یا محتاج ہوا اور اس نے لوگوں سے اس کو چھپا لیا تو اللہ تعالیٰ پر حق ہے کہ اس کو ایک سال تک رزق حلال پہنچائے۔
(المعجم الأوسط:سلیمان بن أحمد بن أیوب بن مطیر اللخمی الشامی، أبو القاسم الطبرانی (۳:۲۵)
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو صبر کی جو ترغیب و تلقین فرماتاہے، اس کا منتہی و مقصود یہ ہے کہ غیروں کے سامنے ذلیل و خوار ہونے سے عوام الناس کو بچایا جا سکے لیکن اللہ تعالیٰ کے حضور انسان کا اپنی ضرورتوں اور حاجات کا پیش کرنا زندگی کے نصب العین کی تکمیل ہے۔ حدیث نبوی ﷺہے:
عَنْ عَبْدِ اللَّہِ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:مَنْ نَزَلَتْ بِہِ فَاقَۃٌ فَأَنْزَلَہَا بِالنَّاسِ لَمْ تُسَدَّ فَاقَتُہُ، وَمَنْ أَنْزَلَہَا بِاللَّہِ أَوْشَکَ أَنْ یَأْتِیَہُ بِالْغِنَی، إِمَّا غِنًی آجِلٌ، وَإِمَّا غِنًی عَاجِلٌ۔
ترجمہ:حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے ارشاد فرمایا: جس شخص کو تنگی پہنچی اور اس نے اس کو لوگوں سے بیان کیا تو اس کی تنگی بند نہیں ہوتی اور جس کو تنگی پہنچی اور اس نے اس کو اللہ تعالیٰ کے آگے بیان کیا پس امید ہے کہ اس کو اللہ تعالیٰ جلدی یا بدیر رزق نصیب کرے گا۔
(مسند ابن أبی شیبۃ:أبو بکر بن أبی شیبۃ، عبد اللہ العبسی (ا:۲۲۷)
(۳)… توکل اور رضا بالقضاء
انبیاء کرام علیہم السلام کے ذریعہ جو حقیقتیں ہم تک پہنچی ہیں، ان میں سے ایک اہم حقیقت یہ بھی ہے کہ اس کائنات میں جو کچھ ہوتا ہے، سب اللہ تعالیٰ کے حکم اور فیصلہ سے ہوتا ہے اور ظاہری اسباب کی حیثیت اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ وہ چیزوں کے ہم تک پہنچنے کے لئے اللہ تعالیٰ ہی کے مقرر کئے ہوئے ذریعے اور راستے ہیں۔ اس حقیقت پر دل سے یقین کر کے اپنے تمام مقاصد اور کاموں میں صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پر اعتماد اور بھروسہ کرنا، اسی سے لو لگانا، اسی کی قدرت اور اسی کے کرم پر نظر رکھنا، اسی سے امید یا خوف ہونا اور اسی سے دعا کرنا۔ بس اسی طرز عمل کا نام دین کی اصطلاح میں ’’توکل‘‘ہے۔ پھر’’توکل‘‘سے بھی آگے رضا بالقضاء کا مقام ہے۔ جس سے مراد یہ ہے کہ بندے پر جو بھی اچھے یا برے حالات آئیں، وہ یہ یقین کرتے ہوئے کہ ہر حال کا بھیجنے والا میرا مالک ہی ہے۔ اس کے حکم اور فیصلہ پر دل سے راضی اور خوش رہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے:
{وَیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ وَمَن یَتَوَکَّلْ عَلَی اللَّـہِ فَہُوَ حَسْبُہُ إِنَّ اللَّـہَ بَالِغُ أَمْرِہِ قَدْ جَعَلَ اللَّـہُ لِکُلِّ شَیْء ٍ قَدْرًا }(سورۃ الطلاق:۳)
ترجمہ ضیاء الایمان:اور اسے ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جس کا اسے گمان بھی نہ ہو اور جو شخص اللہ پر توکل کرے گا، اللہ اسے کافی ہو گا۔ اللہ تعالیٰ اپنا کام پورا کر کے ہی رہے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے۔
عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ ہُبَیْرَۃَ أَنَّہُ سَمِعَ أَبَا تَمِیمٍ الْجَیْشَانِیَّ یَقُولُ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ یَقُول سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: لَوْ أَنَّکُمْ تَتَوَکَّلُونَ عَلَی اللَّہِ حَقَّ تَوَکُّلِہِ؛ لَرَزَقَکُمْ کَمَا تُرْزَقُ الطَّیْرُ، تَغْدُو خِمَاصًا، وَتَرُوحُ بِطَانًا۔
ترجمہ :حضرت سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ اگر تم اللہ تعالیٰ پر توکل کرو جس طرح توکل کرنے کا حق ہے تو اللہ تعالیٰ تمہیں اس طرح رزق دے گا جس طرح پرندوں کو دیتا ہے کہ صبح کو بھوکے نکلتے ہیں اور شام کو سیر ہو کر واپس لوٹتے ہیں۔
(الزہد والرقائق:أبو عبد الرحمن عبد اللہ بن المبارک بن واضح الحنظلی، الترکی ثم المرْوزی (۱:۱۹۶)
عَنْ أَبِی الدَّرْدَاء ِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ الرِّزْقَ لَیَطْلُبُ الْعَبْدَ کَمَا یَطْلُبُہُ أَجَلُہُ۔
ترجمہ :حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا:رزق بندے کو اس طرح ڈھونڈتا ہے جس طرح اس کی اجل (موت)اس کو ڈھونڈتی ہے۔
(السنۃ:أبو بکر بن أبی عاصم وہو أحمد بن عمرو بن الضحاک بن مخلد الشیبانی (ا:۱۱۷)
عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:إِنَّ مِنْ قَلْبِ ابْنِ آدَمَ بِکُلِّ وَادٍ شُعْبَۃً، فَمَنِ اتَّبَعَ قَلْبُہُ الشُّعَبَ کُلَّہَا، لَمْ یُبَالِ اللَّہُ بِأَیِّ وَادٍ أَہْلَکَہُ، وَمَنْ تَوَکَّلَ عَلَی اللَّہِ کَفَاہُ التَّشَعُّبَ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا:آدمی کے دل کے لئے ہر میدان میں شاخ ہے (یعنی ہر میدان میں آدمی کے دل کی خواہشات پھیلی ہوئی ہیں)پس جو آدمی اپنے دل کو ان سب شاخوں اور خواہشوں میں لگا دے گا اور فکر کے گھوڑے ہر طرف دوڑائے گا تو اللہ تعالیٰ کو پرواہ نہ ہو گی کہ کس وادی اور میدان میں اس کی ہلاکت ہو اور جو آدمی اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرے (اور حاجتیں اس کے سپرد کر دے اور اپنی زندگی کو اس کا تابع فرمان بنا دے)تو اللہ تعالیٰ اس کی ساری ضرورتوں کے لئے کفایت کرے گا (اور اس کو دل کے اطمینان و سکون کی وہ دولت نصیب ہو گی جو اس دنیا کی سب سے بڑی دولت و نعمت ہے۔
(سنن ابن ماجہ:ابن ماجۃ أبو عبد اللہ محمد بن یزید القزوینی، وماجۃ اسم أبیہ یزید (۲:۱۳۹۵)
اللہ تعالیٰ کی ذات پر توکل اور بھروسہ کے ساتھ ساتھ رضا بالقضاء پر انسان کی سعادت و نیک بختی کا دارومدار ہے اور انسان کی شقاوت و بدبختی کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے سے ناخوش ہو۔ حدیث نبوی ہے:
عَنْ سَعْدٍ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:مِنْ سَعَادَۃِ ابْنِ آدَمَ رِضَاہُ بِمَا قَضَی اللَّہُ لَہُ، وَمِنْ شَقَاوَۃِ ابْنِ آدَمَ تَرْکُہُ اسْتِخَارَۃَ اللہِ، وَمِنْ شَقَاوَۃِ ابْنِ آدَمَ سَخَطُہُ بِمَا قَضَی اللَّہُ لَہُ.
ترجمہ :حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے ارشاد فرمایا کہ آدمی کی نیک بختی اور خوش نصیبی میں سے یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے لئے جو فیصلہ ہو وہ اس پر راضی رہے اور آدمی کی بدبختی اوربد نصیبی میں سے یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اپنے لئے خیر اور بھلائی کا طالب نہ ہو اور اس کی بد نصیبی اور بد بختی یہ بھی ہے کہ وہ اپنے بارے میں اللہ تعالیٰ کے فیصلہ سے ناخوش ہو۔
(المستدرک علی الصحیحین:أبو عبد اللہ الحاکم محمد بن عبد اللہ بن محمد بن حمدویہ بن نُعیم (۱:۶۹۹)
(۴)…قناعت و استغناء
قناعت و استغناء کا شمار ان اخلاقی اوصاف و صفات میں ہوتا ہے جن کی بناء پر انسان اللہ تعالیٰ کا محبوب اور اس دنیا میں بھی اعلیٰ و ارفع مقام حاصل کر لیتا ہے۔ قناعت و استغناء کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو جو کچھ ملے اس پر وہ راضی و مطمئن ہو جائے اور زیادہ کی حرص و لالچ نہ کرے، اللہ تعالیٰ جس انسان کو قناعت کی دولت نصیب فرمائے تو وہ یقینا بڑی نعمت سے نوازا گیا۔
عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ:قَدْ أَفْلَحَ مَنْ أَسْلَمَ، وَرُزِقَ کَفَافًا، وَقَنَّعَہُ اللہُ بِمَا آتَاہُ۔
ترجمہ :حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا:کامیاب اور بامراد ہوا وہ بندہ جس کو حقیقت اسلام نصیب ہوئی اور اس کو روزی بھی بقدر کفاف ملی اور اللہ تعالیٰ نے اس کو اس قدر قلیل روزی پر قانع بھی بنا دیا۔
(الآداب للبیہقی:أحمد بن الحسین بن علی بن موسی أبو بکر البیہقی:۳۱۲)
انسان وسیع رزق رکھنے کے باوجود اس میں زیادہ کا حریص ہو تو وہ مطمئن نہیں رہ سکتا اور وہ دل کا فقیر ہی رہے گا لیکن اس کے بر عکس جس کے پاس زندہ رہنے کے لئے مختصر اور محدود رزق ہو اور اس پر وہ مطمئن اور قانع ہو تو فقروافلاس کے باوجود وہ دل کا غنی رہے گا۔ اسی چیز کوحضورتاجدارختم نبوتﷺ نے ایک حدیث میں یوں بیان فرمایا:
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:لَیْسَ الْغِنَی عَنْ کَثْرَۃِ الْعَرَضِ، إِنَّمَا الْغِنَی غِنَی النَّفْسِ۔
ترجمہ :حضرت سیدنا ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے ارشاد فرمایا دولت مندی مال و اسباب سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ اصلی دولت مندی دل کی بے نیازی ہے۔
(مسند إسحاق بن راہویہ:أبو یعقوب إسحاق بن إبراہیم بن مخلد المعروف بـ ابن راہویہ (۱:۳۳۱)
اس حقیقت کو حضورتاجدارختم نبوتﷺنے ایک دوسری حدیث میں وضاحت کے ساتھ یوں بیان فرما یا:
وَعَنْ أَبِی ذَرٍّ قَالَ:قَالَ لِی رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ :یَا أَبَا ذَرٍّ، تَقُولُ:کَثْرَۃُ الْمَالِ الْغِنَی؟ قُلْتُ: نَعَمْ. قَالَ: تَقُولُ:قِلَّۃُ الْمَالِ الْفَقْرُ؟ قُلْتُ:نَعَمْ. قَالَ ذَلِکَ ثَلَاثًاثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْغِنَی فِی الْقَلْبِ، وَالْفَقْرُ فِی الْقَلْبِ، مَنْ کَانَ الْغِنَی فِی قَلْبِہِ فَلَا یَضُرُّہُ مَا لَقِیَ مِنَ الدُّنْیَا، وَمَنْ کَانَ الْفَقْرُ فِی قَلْبِہِ فَلَا یُغْنِیہِ مَا أُکْثِرَ لَہُ فِی الدُّنْیَا، وَإِنَّمَا یَضُرُّ نَفْسَہُ شُحُّہَا.
ترجمہ :حضرت سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے ایک دن مجھ سے ارشاد فرمایا۔ ابوذر کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ مال زیادہ ہونے کا نام تونگری ہے؟ میں نے عرض کیا: ہاں۔ یارسول اللہ ﷺ!۔ پھر آپﷺنے فرمایا کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ مال کم ہونے کا نام فقیری اور محتاجی ہے؟ میں نے عرض کیا:ہاں ۔یارسول اللہ ﷺ!یہ بات آپﷺ نے مجھ سے تین دفعہ ارشاد فرمائی، اس کے بعد ارشاد فرمایا اصلی دولت مندی دل کے اندر ہوتی ہے اور اصلی محتاجی اور فقیری بھی دل میں ہی ہوتی ہے۔
(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد:أبو الحسن نور الدین علی بن أبی بکر بن سلیمان الہیثمی (۱۰:۲۳۷)
(۵)… اللہ تعالیٰ کے فضل کا طلبگار اور دعاگو رہنا
سب سے اہم اور ضروری چیز جس کا اسلام اہل’’رزق و قدر‘‘سے تقاضا کرتا ہے وہ یہ ہے کہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے اس کے فضل کا طلب گار رہنا چاہیے اور اسی کے آگے دست سوال دراز کر کے اپنی حاجات براری کے لئے دعاگو ہونا چاہیے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے:
{یَسْأَلُہُ مَن فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ کُلَّ یَوْمٍ ہُوَ فِی شَأْنٍ}(سورۃ الرحمٰن:۲۹)
ترجمہ ضیاء الایمان:زمین اور آسمانوں میں جو بھی ہے، سب اپنی حاجتیں اسی سے مانگ رہے ہیں، ہر آن وہ نئی شان میں ہے۔
اللہ تعالیٰ جہاں انسانوں کو اپنے فضل کا طلب گار ہونے کی تلقین کرتا ہے، وہاں اپنے بندوں کو یہ حکم بھی دیتاہے کہ وہ ان برگزیدہ اور نیک شعار لوگوں کی صحبت اور معیت اختیار کریں جو ہمہ وقت اس کی رضا و خوشنودی کے طلب گار ہو کر اسے پکارتے رہتے ہیں۔قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے:
{وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِینَ یَدْعُونَ رَبَّہُم بِالْغَدَاۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیدُونَ وَجْہَہُ وَلَا تَعْدُ عَیْنَاکَ عَنْہُمْ تُرِیدُ زِینَۃَ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَہُ عَن ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ ہَوَاہُ وَکَانَ أَمْرُہُ فُرُطًا }(سورۃ الکہف:۲۸)
ترجمہ ضیاء الایمان:اور اپنے دل کو ان لوگوں کی معیت پر مطمئن کرو جو اپنے رب کی رضا کے طلب گار بن کر صبح و شام اسے پکارتے ہیں اور ان سے ہرگز نگاہ نہ پھیرو۔ کیا تم دنیا کی زینت پسند کرتے ہو کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور جس نے اپنی خواہش نفس کی پیروی اختیار کر لی ہے اور جس کا طریقہ کار افراط و تفریط پر مبنی ہے۔
دعا عبدیت کا جوہر اور خاص مظہر ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے وقت بندے کا ظاہر و باطن عبدیت میں ڈوبا ہوتا ہے۔ اسی لئے حضور تاجدارختم نبوتﷺنے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے کو عین عبادت قرار دیا ہے:
عن النعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال الدعا ہو العبادۃ ثم قرا(وَصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ لَّذِینَ یَدْعُونَ رَبَّہُم بِلْغَدَوٰۃِ وَلْعَشِیِّ یُرِیدُونَ وَجْہَہُ وَلَا تَعْدُ عَیْنَاکَ عَنْہُمْ تُرِیدُ زِینَۃَ لْحَیَوٰۃِ لدُّنْیَا وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَہُ عَن ذِکْرِنَا وَتَّبَعَ ہَوَیٰہُ وَکَانَ أَمْرُہُ فُرُطًا۔
ترجمہ :حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ حضور تاجدارختم نبوتﷺسے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺنے ارشاد فرمایا: دعا عبادت ہے پھر آپﷺنے یہ آیت پڑھی:
{وَصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ لَّذِینَ یَدْعُونَ رَبَّہُم بِلْغَدَوٰۃِ وَلْعَشِیِّ یُرِیدُونَ وَجْہَہُ وَلَا تَعْدُ عَیْنَاکَ عَنْہُمْ تُرِیدُ زِینَۃَ لْحَیَوٰۃِ لدُّنْیَا وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَہُ عَن ذِکْرِنَا وَتَّبَعَ ہَوَیٰہُ وَکَانَ أَمْرُہُ فُرُطًا}
حضور تاجدارختم نبوتﷺکے اس ارشاد کی منشا یہ ہے کہ کوئی یہ خیال نہ کرے کہ بندے جس طرح اپنی ضرورتوں اور حاجتوں کے لئے دوسری محنتیں اور کوششیں کرتے ہیں، اسی طرح کی ایک کوشش دعا بھی ہے۔ جو اگر قبول ہو گئی تو بندہ کامیاب ہو گیا اور اس کو کوشش کا پھل مل گیا اور اگر قبول نہ ہوئی تو کوشش بھی رائیگاں گئی، بلکہ دعا کی ایک مخصوص نوعیت ہے اور وہ یہ کہ وہ حصول مقصد کا وسیلہ ہونے کے علاوہ بذات خود عبادت اور عین عبادت ہے اور اس پہلو سے وہ بندے کا ایک مقدس عمل ہے۔ جس کا پھل اس کو آخرت میں ضرور ملے گا۔
ایک دوسری حدیث میں حضور تاجدارختم نبوتﷺنے دعا کی افضلیت و اہمیت کو اجاگر کرنے کی غرض سے یوں ارشاد فرمایا:
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:الدُّعَاء ُ مُخُّ العِبَادَۃِ.
ترجمہ :حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ حضور تاجدارختم نبوتﷺسے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺنے ارشاد فرمایا:دعا عبادت کا مغز ہے۔
(سنن الترمذی:محمد بن عیسی بن سَوْرۃ بن موسی بن الضحاک، الترمذی، أبو عیسی (۵:۳۱۶)
اللہ تعالیٰ کے نزدیک بندے کا سب سے عزیز اور قیمتی عمل دعا اور سوال ہے۔ حدیث نبویﷺہے جس کے راوی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں:
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:مَنْ لَا یَسْأَلْہُ یَغْضَبْ عَلَیْہِ۔
ترجمہ : حضور تاجدارختم نبوتﷺنے ارشاد فرمایا: جو اللہ تعالیٰ سے نہ مانگے تو اللہ تعالیٰ اس پر ناراض ہوتاہے۔
عَنْ عَبْدِ اللہِ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:سَلُوا اللَّہَ مِنْ فَضْلِہِ، فَإِنَّ اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ یُحِبُّ أَنْ یُسْأَلَ، وَأَفْضَلُ العِبَادَۃِ انْتِظَارُ الفَرَجِ.
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور تاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا: اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل مانگو، اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے کہ اس سے مانگا جائے اور افضل عبادت کشادگی کا انتظار کرنا ہے۔
(الدعاء للطبرانی:سلیمان بن أحمد بن أیوب بن مطیر اللخمی الشامی، أبو القاسم الطبرانی:۲۸)
دعا کی اہمیت و فضیلت کا اندازہ حضور تاجدارختم نبوتﷺکے اس ارشاد مبارک سے با آسانی کیا جا سکتا ہے۔
عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إِنَّ الْعَبْدَ لَیُحْرَمُ الرِّزْقَ بِالذَّنْبِ یُصِیبُہُ، وَلَا یَرُدُّ الْقَدَرَ إِلَّا الدُّعَاء ُ، وَلَا یَزِیدُ فِی الْعُمُرِ إِلَّا الْبِرُّ ۔
ترجمہ :حضرت سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور تاجدارختم نبوتﷺنے ارشاد فرمایا:انسان کو اس کے گناہ کی وجہ سے رزق سے محروم کر دیا جاتا ہے اور تقدیر کو دعا بدل دیتی ہے اور نیکی سے عمر میں اضافہ ہوتا ہے۔
(مسند الإمام أحمد بن حنبل:أبو عبد اللہ أحمد بن محمد بن حنبل بن ہلال بن أسد الشیبانی (۳۷:۱۱۱)
ان احادیث مبارکہ سے یہ حقیقت بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ دعا کا مرتبہ و مقام دوسری عبادات کے برابر ہے۔ عبادت کے علاوہ دعا حصول مقصد کا وسیلہ اور ذریعہ بھی ہے۔ اسلام ’’رزق قدر‘‘دئیے گئے افراد سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ رزق کی فراخی و فراوانی کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا اور سوال برابر کرتے رہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے اس عمل کو بہت زیادہ پسند فرماتا ہے۔ انسان جب اپنی حاجات اللہ جل شانہ کے سامنے پیش کرتا ہے تو اس کی ضروریات و احتیاجات کو اللہ تعالیٰ ضرور پورا کر دیتا ہے۔
زہد اختیار کرنا
’’زہد‘‘کے لغوی معنی کسی چیز سے بے رغبت ہو جانے کے ہیں، اور دین کی خالص اصطلاح میں آخرت کے لئے دنیا کے لذائذ و مرغوبات کی طرف سے بے رغبت ہو جانے اور عیش و تنعم کی زندگی ترک کر دینے کو ’’زہد‘‘کہتے ہیں۔حضور تاجدارختم نبوتﷺنے ’’زہد‘‘کی حقیقت یوں بیان فرمائی ہے:
عَنْ أَبِی ذَرٍّ الْغِفَارِیِّ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَیْسَ الزَّہَادَۃُ فِی الدُّنْیَا بِتَحْرِیمِ الْحَلَالِ، وَلَا فِی إِضَاعَۃِ الْمَالِ، وَلَکِنِ الزَّہَادَۃُ فِی الدُّنْیَا أَنْ لَا تَکُونَ بِمَا فِی یَدَیْکَ أَوْثَقَ مِنْکَ بِمَا فِی یَدِ اللَّہِ، وَأَنْ تَکُونَ فِی ثَوَابِ الْمُصِیبَۃِ، إِذَا أُصِبْتَ بِہَا، أَرْغَبَ مِنْکَ فِیہَا،لَوْ أَنَّہَا أُبْقِیَتْ لَکَ۔
ترجمہ :حضرت سیدناابوذرغفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور تاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا :دنیا کے بارے میں زہد اور اس کی طرف سے بے رغبتی ، حلال کو اپنے اوپر حرام کرنے اور اپنے مال کو برباد کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ ’’زہد‘‘کا اصل معیار اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ جو کچھ تمہارے پاس اور تمہارے ہاتھ میں ہو اس سے زیادہ اعتماد اور بھروسہ تم کو اس پر ہو جو اللہ تعالیٰ کے پاس اور اللہ تعالیٰ کے قبضے میں ہے، اور یہ کہ جب تم کو کوئی تکلیف اور نا خوشگواری پیش آئے تو اس کے اخروی ثواب کی رغبت تمہارے دل میں زیادہ ہو بہ نسبت اس خواہش کے کہ وہ تکلیف اور ناگواری کی بات تم کو پیش ہی نہ آتی۔
(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد:أبو الحسن نور الدین علی بن أبی بکر بن سلیمان الہیثمی (۱۰:۲۸۶)
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے حضور تاجدارختم نبوتﷺسے عرض کیا:
عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِیِّ، قَالَ:أَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ،فَقَالَ:یَا رَسُولَ اللَّہِ دُلَّنِی عَلَی عَمَلٍ إِذَا أَنَا عَمِلْتُہُ أَحَبَّنِی اللَّہُ وَأَحَبَّنِی النَّاسُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ازْہَدْ فِی الدُّنْیَا یُحِبَّکَ اللَّہُ، وَازْہَدْ فِیمَا فِی أَیْدِی النَّاسِ یُحِبُّکَ النَّاسُ۔
ترجمہ :مجھے ایک ایسا عمل بتائیں جس کو میں کروں تو اللہ تعالیٰ بھی محبت کرے اور لوگ بھی محبت کریں، آپﷺنے فرمایا: دنیا میں رغبت نہ کرو تجھ کو اللہ تعالیٰ دوست رکھے گا اور لوگوں کے پاس جو چیز ہے اس میں رغبت نہ کر تجھ کو لوگ دوست رکھیں گے۔
(مسند الشہاب:أبو عبد اللہ محمد بن سلامۃ بن جعفر القضاعی المصری (ا:۳۷۳)
ان احادیث سے واضح ہو جاتا ہے کہ جو کچھ رزق اور مال اللہ تعالیٰ عطا کر دے اس کو فانی اور ناپائیدار یقین کرتے ہوئے اس پر اعتماد اور بھروسہ نہ کرے بلکہ اس کے مقابے میں اللہ تعالیٰ کے غیر فانی غیبی خزانوں پر اور اس کے فضل پر زیادہ اعتماد اور بھروسہ کرے۔
اسلامی تقاضوں سے انحراف کے بھیانک نتائج
ایک مومن مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اسلام کے ان تقاضوں سے انحراف نہ کرے، بالخصوس ایسے افراد جن کو اللہ تعالیٰ نے محدود پیمانے پر رزق عطا کیا ہے اور وہ اپنے سے اعلیٰ اور بہتر رزق رکھنے والے افراد پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ان کے قلوب و اذہان میں بے چینی اور اضطراب کے طوفان امڈ آتے ہیں۔ زبانیں شکوے شکایات اگلتی رہتی ہیں۔ غرضیکہ ان کی زندگی میں معاشی الجھنیں ایسا تلاطم پیدا کر دیتی ہیں جس سے وہ جائز اور ناجائز میں تمیز اور فرق نہیں کر سکتے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ جرائم پیشہ افراد کی اکثریت ان لوگوں پر مشتمل ہے جو کسی نہ کسی طرح سماج اور معاشرے کے اندر رزق کے مدارج و مراتب کا اختلاف دیکھ کر انتقام پر اتر آتے ہیں کیونکہ وہ اپنے سے برتر اسباب عیش افراد کی آسائشات اور تعیشات کو دیکھ کر ان کے حصوں میں گھر کر رہ جاتے ہیں۔
مختلف جرائم کے وقوع پذیر ہونے کے اسباب پر ایک غائرانہ نگاہ ڈالئے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ بیشتر جرائم اور وارداتیں جن میں قتل، ڈاکہ، رہزنی، چوری ، لوٹ مار اور خودکشی سرفہرست ہیں، ان کے ارتکاب میں معاشی و اقتصادی پہلو کا عمل دخل ہے اور ان جرائم اور وارداتوں میں وہی لوگ ملوث ہیں جو ’’رزق قدر‘‘کے سلسلے میں اسلامی تقاضوں سے انحراف کر کے اپنی دنیا اور آخرت کا خسارہ مول لیتے ہیں۔ ان شقی القلب اور سنگ دلوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ رزق کے مدارج و مراتب کے اختلاف میں ایزدی مصلحتیں اور حکمتیں مضمر ہیں۔ ان کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ پھر ان اسلامی تقاضوں پر پورا اترنے کی جدوجہد کریں جو اسلام نے ان پر اس سلسلے میں لازم کر دی ہیں تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ وہ اپنی بیشتر خود ساختہ معاشی پریشانیاں دور کر کے قلبی طمانیت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں اور دنیا و اخروی فلاح و کامرانی سے ہمکنار ہو سکیں۔
دنیاوی مال و متاع کی حقیقت
دنیاوی مال و متاع، جس سے انسان بہرہ ور اور مستفید ہو رہا ہے، آخرت کے مقابلے میں یہ نہایت حقیر اور قلیل ہے۔ دنیاوی سامان، عیش و عشرت اور لوازمات زندگی، اخروی انعام و اکرام کے مقابلے میں کوئی قدر و منزلت نہیں رکھتے کیونکہ ایک ’’بندہ مومن‘‘دنیا کی بجائے آخرت کو مقدم رکھتا ہے جس کی اہم وجہ فانی و ناپائیدار انعامات کی بجائے دائمی و ابدی انعامات کا حصول ہے۔ دنیا کے طلب گار اس حقیقت سے ناواقف ہیں کہ آخرت میں اللہ تعالیٰ نے اس سے کہیں بڑی نعمتیں مہیا کر رکھی ہیں جو صرف ایمان والوں کے حصے میں آئیں گی۔ مومنوں کودنیا کے فریب سے محفوظ و مامون رکھنے کی خاطر قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اجمالا ًاور تفصیلا ًدنیا و آخرت کا موازنہ کر کے یہ تلقین کی گئی ہے کہ وہ دنیا کے مقابلے میں آخرت کا انتخاب کریں۔
قرآن کریم کا ارشاد ہے:
{مَن کَانَ یُرِیدُ لْحَیَوٰۃَ لدُّنْیَا وَزِینَتَہَا نُوَفِّ إِلَیْہِمْ أَعْمَـٰلَہُمْ فِیہَا وَہُمْ فِیہَا لَا یُبْخَسُونَ }{أُولَـٰٓئِکَ لَّذِینَ لَیْسَ لَہُمْ فِی الْاَخِرَۃِ إِلَّا لنَّارُ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوا فِیہَا وَبَـٰطِلٌ مَّا کَانُوا یَعْمَلُونَ}(سورۃ الہود:۱۶،۵)
ترجمہ کنزالایمان:جو لوگ دنیاوی زندگی اور اس کی زینت کے طلب گار ہوتے ہیں، ان کی کارگزاری کا سارا ثمر ہم یہیں ان کو دے دیتے ہیں اور اس میں ان کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی جاتی مگر آخرت میں ان لوگوں کے لئے آگ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ جو کچھ انہوں نے دنیا میں بنایا وہ سب ملیا میٹ ہو گیا اور ان کا سارا کیا دھرا محض باطل ہے۔
قرآن مجید میں ایک اور جگہ ارشاد ہے:
{الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِینَۃُ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَالْبَاقِیَاتُ الصَّالِحَاتُ خَیْرٌ عِندَ رَبِّکَ ثَوَابًا وَخَیْرٌ أَمَلًا}(سورۃ الکہف:۴۶)
ترجمہ ضیاء الایمان:یہ مال و اولاد محض دنیاوی زندگی کی زینت ہیں، اصل میں تو باقی رہ جانے والی نیکیاں ہی تیرے رب کے نزدیک نتیجے کے لحاظ سے بہتر ہیں اور انہی سے اچھی امیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں۔
دنیاوی مال ومتاع کی بے وقعتی کے متعلق قرآن کریم کا نظریہ معلوم ہونے کے بعد احادیث مبارکہ کی روشنی میں اس کی حقیقت کو آشکار کرنے میں بڑی مدد مل سکتی ہیں۔
حدیث نبویﷺہے
عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ:إِنَّ الدُّنْیَا حُلْوَۃٌ خَضِرَۃٌ، وَإِنَّ اللہَ مُسْتَخْلِفُکُمْ فِیہَا، فَیَنْظُرُ کَیْفَ تَعْمَلُونَ۔
ترجمہ :حضرت سیدناابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور تاجدارختم نبوتﷺنے ارشاد فرمایا:دنیا نہایت شیرین اور سرسبز یعنی نظر میں پسندیدہ چیز ہے اور خدا تعالی تمہیں دنیا میں خلیفہ بنانے والا ہے پھر وہ دیکھے گا کہ تم کس طرح عملی زندگی بسر کرتے ہو پس تم دنیا سے بچو۔
(صحیح مسلم :مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشیری النیسابوری (۴:۲۰۹۸)
ایک دوسری حدیث میںحضور تاجدارختم نبوتﷺ نے دنیا اور آخرت کی حقیقت کو بڑے دلنشین انداز میں تمثیل کے طور پر بیان فرمایا ہے آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے۔
عَنِ الْمُسْتَوْرِدِ أَخِی بَنِی فِہْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:مَا الدُّنْیَا فِی الْآخِرَۃِ إِلَّا مِثْلَ مَا یَجْعَلُ أَحَدُکُمْ أُصْبَعَہُ فِی الْبَحْرِ، ثُمَّ لَیَنْظُرْ بِمَ یَرْجِعُ۔
ترجمہ :حضرت سیدنا مستورد اخی بنی فھر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضور تاجدارختم نبوتﷺکو یہ فرماتے سنا ہے خدا کی قسم! آخرت کے مقابلے میں دنیا کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص دریا میں انگلی ڈالے اور پھر دیکھے کہ انگلی کیا چیز واپس لے کر آئی ہے (یعنی پانی کا کتنا حصہ انگلی کے ساتھ آتا ہے۔
(الآحاد والمثانی:أبو بکر بن أبی عاصم وہو أحمد بن عمرو بن الضحاک بن مخلد الشیبانی (۲:۱۲۴)
حضور تاجدارختم نبوتﷺنے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اپنی طلب و فکر کا مرکز و محور آخرت کو بنانے کی خاطر بڑا جامع انداز اپنایا ہے۔ آپﷺ کا ارشاد ہے:
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِجَدْیٍ مَیِّتٍ، فَقَالَ: أَیُّکُمْ یَسُرُّہُ أَنَّ ہَذَا لَہُ بِدِرْہَمٍ؟ قَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّہِ، مَا مِنَّا أَحَدٌ یُحِبُّ ذَلِکَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: فَوَاللَّہِ لَلدُّنْیَا أَہْوَنُ عَلَی اللَّہِ مِنْ ہَذَا عَلَیْکُمْ۔
ترجمہ:حضرت سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور تاجدارختم نبوتﷺبکری کے ایک مردہ بچے کے قریب سے گزرے جس کے چھوٹے چھوٹے کان تھے۔ آپ ﷺ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا :تم میں سے کوئی اس مرے ہوئے بچے کو صرف ایک درہم میں خریدنا پسند کرے گا؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا:ہم تو اس کو کسی قیمت پر بھی خریدنا پسند نہیں کریں گے۔ آپﷺ نے فرمایا: قسم ہے خداوند تعالیٰ کی کہ دنیا اس کے نزدیک اس سے زیادہ ذلیل اور بے قیمت ہے جتنا ذلیل اور بے قیمت تمہارے نزدیک یہ مردار بچہ ہے۔
(السنن الکبری:أحمد بن الحسین بن علی بن موسی أبو بکر البیہقی (ا:۲۱۸)
حضور تاجدارختم نبوتﷺ کا ایک اور ارشاد مبارک ہے:
عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:لَوْ کَانَتِ الدُّنْیَا تَعْدِلُ عِنْدَ اللہِ جَنَاحَ بَعُوضَۃٍ مَا سَقَی کَافِرًا مِنْہَا شَرْبَۃَ مَاء ٍ.
ترجمہ :حضرت سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور تاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا:اگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کی قدروقیمت مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو کسی کافر منکر کو وہ اس دنیا میں ایک گھونٹ پانی بھی نہ دیتا۔
(سنن الترمذی:محمد بن عیسی بن سَوْرۃ بن موسی بن الضحاک، الترمذی، أبو عیسی (۴:۱۳۸)
اس حدیث شریف سے واضح ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالی کے نزدیک دنیا نہایت ہی حقیر اور بے قیمت چیز ہے۔ اگر اس کی کچھ بھی قدروقیمت ہوتی تو اللہ تعالیٰ ان باغیوں کو پانی کا ایک گھونٹ بھی نہ دیتا۔
حضور تاجدارختم نبوتﷺ کی ایک اور حدیث سے تو دنیا کی پوری قلعی کھل جاتی ہے۔
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:الدُّنْیَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ، وَجَنَّۃُ الْکَافِرِ۔
ترجمہ :حضرت سیدنا ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دنیا مومن کا قید خانہ اور کافر کی جنت ہے۔
(صحیح مسلم :مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشیری النیسابوری (۴:۲۷۷۲)
اس حدیث مبارک میں ایمان والوں کے لئے یہ سبق ہے کہ وہ دنیا میں حکم و قانون کی پابندی اور قید خانہ والی زندگی گزاریں اور اس دنیا سے جی نہ لگائیں کیونکہ اس دنیا سے دل لگانا اور اس کے عیش کو اپنا اصل مقصود و مطلوب بنانا مومنوں کا شیوہ نہیں۔
قرآن و حدیث کے ان نصوص کی روشنی میں اسلام نے دنیا کے متعلق جو تصور دیا ہے، اس کی غرض و غایت یہ ہے کہ مومن کو ’’بندہ خدا‘‘بن کر رہنا ہے، ’’بندہ دنیا‘‘بننا اس کے ایمان اور منصب خلافت الہیہ کے شایان شان نہیں ہے۔ کیونکہ وہ دنیا پرست بن کر اس امانت کا حق ادا نہیں کر سکتا جو اس کے مالک و خالق نے اسے سونپی ہے، اس کے لئے متوازن اور معقول ترین یہی ہے کہ وہ دنیا کو خلافت و عبادت کے تقاضوں کی تکمیل میں استعمال کرے’’سامان دنیا‘‘کا فائدہ تو اٹھائے لیکن ’’لذات دنیا‘‘میں ڈوب کر نہ رہ جائے۔ مومن کے نزدیک دنیا آخرت کی کھیتی ہے وہ اس کھیتی میں محنت و مشقت کر کے نیکی کے بیج بوتا ہے تاکہ آخرت میں زیادہ سے زیادہ اور عمدہ سے عمدہ پھل پائے۔ وہ اس دنیا میں ذمہ دار بنا کر بھیجا گیا ہے اور اگر وہ ان ذمہ داریوں کو بطریق احسن نباہے گا تو آخرت کے احتساب میں سرخرو ہو کر نکلے گا۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{فَمِنَ لنَّاسِ مَن یَقُولُ رَبَّنَآ ء َاتِنَا فِی لدُّنْیَا وَمَا لَہُ فِی الاَخِرَۃِ مِنْ خَلَـٰق}{وَمِنْہُم مَّن یَقُولُ رَبَّنَآ ء َاتِنَا فِی لدُّنْیَا حَسَنَۃً وَفِی لْء َاخِرَۃِ حَسَنَۃً وَقِنَا عَذَابَ لنَّارِ}{أُولَـٰٓئِکَ لَہُمْ نَصِیبٌ مِّمَّا کَسَبُوا وَللَّہُ سَرِیعُ لْحِسَابِ}(سورۃ ابقرہ: ۲۰۰،۲۰۱،۲۰۲)
ترجمہ ضیاء الایمان:لوگوں میں کوئی تو ایسا ہے جو کہتا ہے کہ اے ہمارے رب !ہمیں دنیا ہی میں سب کچھ دے دے، ایسے شخص کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں، اور کوئی کہتا ہے کہ اے ہمارے رب !ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا۔ ایسے لوگ اپنی کمائی کے مطابق (دونوں جگہ)حصہ پائیں گے اور اللہ تعالی کو حساب چکاتے کچھ دیر نہیں لگتی۔
قرآن مجید کی ان آیات مقدسہ میں دین اور دنیا میں اعتدال و توازن قائم کرنے کا درس ملتا ہے۔ دنیا کو طلب کرنے سے دنیا تو مل جاتی ہے لیکن اخروی فلاح و کامرانی طلب کرنے والے کا مقدر نہیں بنتی، لیکن جو شخص طلب کرنے میں توازن قائم کرے یعنی دنیاوی بھلائیوں کے ساتھ ساتھ اخروی بھلائیاں اور انعامات بھی مانگے تو ایسا شخص دوگنا فائدہ اٹھائے گا۔ اس نے طلب و عمل کے ذریعے دنیا کو بھی قابل اعتنا سمجھا لیکن دنیا اس کو آخرت کے بارے میں غافل نہ کر سکی۔ اس نے ساتھ ہی آخرت کی بھلائی بھی چاہی۔
یہ ذہن میں رہے کہ جو شخص’’تہذیب اسلام‘‘کی تاریخ کا مطالعہ کرے گا اسے یہ بات نمایاں طور پر محسوس ہو گی کہ اس میں جب تک خالص اسلامیات رہی اس وقت تک یہ ایک خالص عملی تہذیب تھی، اس کے پیرووں کے نزدیک دنیا آخرت کی کھیتی تھی، وہ ہمیشہ اس کوشش میں رہتے تھے کہ دنیا میں جتنی مدت وہ زندہ ہیں اس کا ہر لمحہ اس کھیتی کو بونے اور جوتنے میں صرف کر دیں اور زیادہ سے زیادہ تخم ریزی کریں تاکہ بعد کی زندگی میں زیادہ سے زیادہ فصل کاٹنے کا موقع ملے ۔ انہوں نے رہبانیت اور مدنیت کے درمیان ایک ایسی متوازن اور متوسط حالت میں دنیا کو برتا جس کا نام و نشان بھی ہم کو کسی دوسری تہذیب میں نظر نہیں آتا۔ خلافت الہیٰ کا تصور ان کو دنیا میں پوری طرح منہمک ہونے اور اس کے معاملات کو انتہائی سرگرمی کے ساتھ انجام دینے پر ابھارتا تھا اور اس کے ساتھ مسؤلیت اور ذمہ داری کا خیال انہیں حد سے متجاوز بھی نہ ہونے دیتا تھا وہ ’’نائب خدا‘‘ہونے کی وجہ سے انتہا درجہ کے خوددار تھے اور پھر یہی تصور ان میں تکبر اور غرور کی پیدائش کو روکتا تھا۔ وہ خلافت کے فرائض انجام دینے کے لیے ان تمام چیزوں کی طرف رغبت رکھتے تھے جو دنیا کا کام چلانے کے لئے ضروری ہیں، مگر اس کے ساتھ ہی ان چیزوں کی طرف کوئی رغبت نہ تھی جو دنیا کی لذتوں میں گم کر کے اس کے فرائض سے غافل کر دینے والی ہیں۔ غرض وہ دنیا کے کام کو اس طرح چلاتے تھے کہ گویا ان کو ہمیشہ یہیں رہنا ہے اور پھر اس کی لذتوں میں منہمک ہونے سے اس طرح بچتے رہتے تھے کہ گویا یہ دنیا ان کے لئے ایک سرائے ہے جہاں محض عارضی طور پر وہ مقیم ہو گئے ہیں۔