قیامت کے دن ایک بارپھراہل اسلام سے جھگڑنے والوں کامقدمہ پیش ہونے والاہے
{ہٰذٰنِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا فِیْ رَبِّہِمْ فَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا قُطِّعَتْ لَہُمْ ثِیَابٌ مِّنْ نَّارٍ یُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُء ُوْسِہِمُ الْحَمِیْمُ }(۱۹){یُصْہَرُ بِہٖ مَا فِیْ بُطُوْنِہِمْ وَالْجُلُوْدُ}(۲۰){وَلَہُمْ مَّقَامِعُ مِنْ حَدِیْدٍ }(۲۱){کُلَّمَآ اَرَادُوْٓا اَنْ یَّخْرُجُوْا مِنْہَا مِنْ غَمٍّ اُعِیْدُوْا فِیْہَا وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ }(۲۲)
ترجمہ کنزالایمان:یہ دو فریق ہیں کہ اپنے رب میں جھگڑے تو جو کافر ہوئے ان کے لئے آگ کے کپڑے بیونتے گئے ہیں اور ان کے سروں پر کھولتا ہوا پانی ڈالا جائے گا۔ جس سے گل جائے گا جو کچھ ان کے پیٹوں میں ہے اور ان کی کھالیں۔اور ان کے لیے لوہے کے گرز ہیں ۔جب گھٹن کے سبب اس میں سے نکلنا چاہیں گے پھر اس میں لوٹا دیئے جائیں گے اور حکم ہوگا کہ چکھو آگ کا عذاب۔
ترجمہ ضیاء الایمان:یہ دو فریق ہیں جو اپنے رب تعالی کے بارے میں جھگڑتے ہیں تو کافروں کے لیے آگ کے کپڑے کاٹے گئے ہیں اور ان کے سروں پر کھولتا ہواپانی ڈالا جائے گا۔ جس سے جو کچھ ان کے پیٹوں میں ہے وہ اور ان کی کھالیں جل جائیں گی۔اور ان کومارنے کے لیے لوہے کے گرز ہیں ۔جب سخت عذاب کے سبب اس میں سے نکلنا چاہیں گے توپھر اسی میں واپس لوٹا دیئے جائیں گے اور تب انہیں کہا جائے گا کہ آگ کا عذاب چکھو۔
سب سے پہلے مولاعلی رضی اللہ عنہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں مقدمہ پیش کریں گے
عَنْ قَیْسِ بْنِ عُبَادٍ عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنَّہُ قَالَ أَنَا أَوَّلُ مَنْ یَجْثُو بَیْنَ یَدَیْ الرَّحْمَنِ لِلْخُصُومَۃِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَقَالَ قَیْسُ بْنُ عُبَادٍ وَفِیہِمْ أُنْزِلَتْ ہَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِی رَبِّہِمْ قَالَ ہُمْ الَّذِینَ تَبَارَزُوا یَوْمَ بَدْرٍ حَمْزَۃُ وَعَلِیٌّ وَعُبَیْدَۃُ أَوْ أَبُو عُبَیْدَۃَ بْنُ الْحَارِثِ وَشَیْبَۃُ بْنُ رَبِیعَۃَ وَعُتْبَۃُ بْنُ رَبِیعَۃَ وَالْوَلِیدُ بْنُ عُتْبَۃَ۔
ترجمہ :حضرت سیدناقیس بن عباد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنامولا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ قیامت کے دن میں پہلا شخص ہوں گا جو اللہ تعالی کے دربار میں جھگڑا چکانے کے لیے دوزانوں ہو کر بیٹھوں گا۔ قیس بن عباد نے کہا کہ انہی کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی:یہ دونوں فریق ہیں جنہوں نے اپنے رب تعالی کے بارے میں جھگڑا کیا۔ان سے مراد وہ حضرات ہیں جو غزوہ بدر کے دن ایک دوسرے کے مقابلے کے لیے لڑائی میں نکلے۔ مسلمانوں کی طرف سے حضرت سیدناالشہداء امیرحمزہ رضی اللہ عنہ ، حضرت سیدنامولا علی رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدنا عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ اور کفار کی طرف سے شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ سامنے آئے۔
(صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۵:۷۵)
حضرت سیدناابوذرغفاری رضی اللہ عنہ کی روایت
عَنْ قَیْسِ بْنِ عُبَادٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا ذَرٍّ یُقْسِمُ قَسَمًا إِنَّ ہَذِہِ الْآیَۃَ ہَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِی رَبِّہِمْ نَزَلَتْ فِی الَّذِینَ بَرَزُوا یَوْمَ بَدْرٍ حَمْزَۃَ وَعَلِیٍّ وَعُبَیْدَۃَ بْنِ الْحَارِثِ وَعُتْبَۃَ وَشَیْبَۃَ ابْنَیْ رَبِیعَۃَ وَالْوَلِیدِ بْنِ عُتْبَۃَ۔
ترجمہ :حضرت سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ قسم اٹھا کر کہا کرتے تھے کہ اس آیت کریمہ{ہٰذٰنِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْا فِیْ رَبِّہِمْ}میںیہ دو فریق ہیں جنہوں نے اپنے رب تعالی کے بارے میں جھگڑا کیا۔ان لوگوں کے متعلق نازل ہوئی جو بدر کی لڑائی میں ایک دوسرے کے مقابلے کے لیے نکلے تھے، یعنی حضرت سیدنا امیرحمزہ رضی اللہ عنہ ،حضرت سیدنامولا علی رضی اللہ عنہ اورحضرت سیدنا عبیدہ بن حارث رضی اللہ عنہ مسلمانوں کی طرف سے۔ اور عتبہ، شیبہ، جو ربیعہ کے بیٹے تھے، نیز ولید بن عتبہ کفار کی طرف سے نکلے تھے۔
(صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۵:۷۵)
حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماکی روایت
وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:نَزَلَتْ ہَذِہِ الْآیَاتُ الثَّلَاثُ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِینَۃِ فِی ثَلَاثَۃِ نَفَرٍ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ وَثَلَاثَۃِ نَفَرٍ کَافِرِینَ، وَسَمَّاہُمْ، کَمَا ذَکَرَ أَبُو ذَرٍّ.
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے مروی ہے کہ یہ تینوں آیات کریمہ حضورتاجدارختم نبوتﷺپرمدینہ منورہ میں نازل ہوئی تھیں اورچھے افرادکے بارے میں نازل ہوئی تھیں ، تین کاتعلق اہل اسلام کے ساتھ تھااورتین کاتعلق کافروں کے ساتھ ۔اوران کے نام بھی ذکرکئے جیساکہ حضرت سیدناابوذرغفاری رضی اللہ عنہ نے نقل کئے ہیں۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۱۲:۲۵)
ایک اورروایت
وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ أَیْضًا:ہُمْ أَہْلُ الْکِتَابِ قَالُوا لِلْمُؤْمِنِینَ:نَحْنُ أَوْلَی بِاللَّہِ مِنْکُمْ، وَأَقْدَمُ مِنْکُمْ کِتَابًا، وَنَبِیُّنَا قَبْلَ نَبِیِّکُمْ وَقَالَ الْمُؤْمِنُونَ:نَحْنُ أَحَقُّ بِاللَّہِ مِنْکُمْ، آمَنَّا بِمُحَمَّدٍ وَآمَنَّا بِنَبِیِّکُمْ وَبِمَا أُنْزِلَ إِلَیْہِ مِنْ کِتَابٍ، وَأَنْتُمْ تَعْرِفُونَ نَبِیَّنَا وَتَرَکْتُمُوہُ وَکَفَرْتُمْ بِہِ حَسَدًا، فَکَانَتْ ہَذِہِ خُصُومَتَہُمْ، وَأُنْزِلَتْ فِیہِمْ ہَذِہِ الْآیَۃُ. وَہَذَا قَوْلُ قَتَادَۃَ، وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے مروی ہے کہ اہل کتاب نے اہل ایما ن کوکہاکہ ہم تم سے زیادہ اللہ تعالی کے قریب ہیں اورتم سے بھی پہلے ہم کو کتاب ملی ہے اورہمارے نبی تمھارے نبی علیہ السلام سے پہلے ہیں ، اہل ایمان نے کہاکہ ہم تم سے زیادہ اللہ تعالی کے قریب ہیں ، ہم حضورتاجدارختم نبوتﷺپرایمان لائے اورہم تمھارے نبی حضرت سیدناموسی علیہ السلام پربھی ایمان لائے اوراس پربھی ایمان لائے جوان پرکتاب نازل کی گئی اورتم ہمارے نبی ﷺکوجانتے ہواورتم نے انہیں چھوڑدیااورحسدکی وجہ سے تم نے ان کاانکارکیا، یہ ان کی خصومت تھی جس کے بارے میں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ، یہ حضرت سیدناقتادہ رضی اللہ عنہ کاقول ہے ، پہلاقول زیادہ اصح ہے جس کوامام بخاری رحمہ اللہ تعالی کے حوالے سے نقل کیاگیاہے۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۲۳:۲۱۵)
چوتھاقول
وَفِیہِ قَوْلُ رَابِعٍ أَنَّہُمُ الْمُؤْمِنُونَ کُلُّہُمْ وَالْکَافِرُونَ کُلُّہُمْ مِنْ أَیِّ مِلَّۃٍ کَانُوا، قَالَہُ مُجَاہِدٌ وَالْحَسَنُ وَعَطَاء ُ بْنُ أَبِی رَبَاحٍ وَعَاصِمُ بْنُ أَبِی النَّجُودِ وَالْکَلْبِیُّ وَہَذَا الْقَوْلُ بِالْعُمُومِ یَجْمَعُ الْمُنَزَّلَ فِیہِمْ وَغَیْرَہُمْ۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی نقل فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنامجاہد، امام حسن بصری رضی اللہ عنہمااورعطاء بن ابی رباح اورعاصم بن ابی النجود اورالکلبی رحمہ اللہ تعالی نے فرمایاکہ وہ تمام مومنین تھے اورتمام کافرتھے خواہ ان کاتعلق کسی بھی ملت سے ہو۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۱۲:۲۵)
اس چوتھے قول سے معلوم ہواکہ یہ بشارت ان تمام مجاہدین کے لئے ہے جوقیامت تک کافروں کے کسی بھی گروہ کے ساتھ دین متین کے دفاع میں لڑیں گے ، اللہ تعالی جہاد کی مشقتوں کے بدلے میں ان کو جنت عطاء فرمائے گا، انہوں نے ہاتھ میں مومن کازیوراسلحہ اٹھایاتھا، اللہ تعالی انہیں جنت کازیورپہنائے گا، انہوںنے اپنے جسموں کوجہاد میں گردآلود کیاتھاتواللہ تعالی ان کو ریشم کالباس پہنائے گا(جیساکہ اگلی آیت میں مذکورہے) دنیامیں ان کو سخت باتیں سنناپڑی تھیں اللہ تعالی آخرت میں ان کو فرشتوں کاسلام سنائے گا۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے گستاخوں پردوزخ کاکھولتاہواپانی انڈیلاجائے گا
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ الْحَمِیمَ لَیُصَبُّ عَلَی رُء ُوسِہِمْ فَیَنْفُذُ الْحَمِیمُ حَتَّی یَخْلُصَ إِلَی جَوْفِہِ فَیَسْلِتُ مَا فِی جَوْفِہِ حَتَّی یَمْرُقَ مِنْ قَدَمَیْہِ وَہُوَ الصَّہْرُ ثُمَّ یُعَادُ کَمَا کَانَ۔
ترجمہ :حضرت سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا:جہنمیوں کے سرپر ماء حمیم (گرم پانی)انڈیلا جائے گا تو وہ (بدن میں)سرایت کرجائے گا یہاں تک کہ اس کے پیٹ تک جاپہنچے گا اور اس کے پیٹ کے اندر جو کچھ ہے اسے کاٹے گا یہاں تک کہ اس کے پیروں (یعنی سرین)سے نکل جائے گا۔ یہی وہ صہر ہے(جس کا ذکر قرآن میں آیا ہے)پھر اسی طرح لوٹا دیاجائے گا جس طرح تھا۔
(سنن الترمذی:محمد بن عیسی بن سَوْرۃ بن موسی بن الضحاک، الترمذی، أبو عیسی (۴:۲۸۶)
کیونکہ اس آیت کریمہ میں یہ بیان ہواکہ جولوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مقابلے میں بدرمیں آئے تھے ان کے ساتھ یہ حشرہوگاتوحضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماکی روایت سے یہ بات ثابت ہے کہ اس آیت کریمہ میں عموم ہے کہ قیامت تک جولوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ جھگڑیں گے یااہل ایمان کے ساتھ ان سب کاحشریہی ہوگا۔
دوزخ کی آگ خیرہے یاشر؟
ان قیل نار جہنم خیر أم شر قلنا لیست ہی بخیرولا بشر بل عذاب وحکمۃ وقیل خیر من وجہ کنار نمرود شر فی أعینہم وبرد وسلام علی ابراہیم وکالسوط فی ید الحاکم خیر للطاغی وشر للمطیع فالنار خیر ورحمۃ علی مالک وجنودہ وشر علی من دخل فیہا من الکفار وایضا خیر لعصاۃ المؤمنین حیث تخلص جواہر نفوسہم من ألواث المعاصی وشر لغیرہم کالطاعون رحمۃ للمؤمنین ورجز للکافرین والوجود خیر محض عند العارفین والعدم شر محض عند المحققین لان الوجود اثر صنع الحکیم کما قال (ما خَلَقْتَ ہذا باطِلًا سُبْحانَکَ)فالشرور بالنسبۃ الی الأعیان الکونیۃ لا بالنسبۃ الی افعال اللہ وللہ فی ملکہ ان یفعل ما یشاء ویحکم ما یرید فالنار مظہر الجلال فمن جہۃ مظہریتہا خیر محض ومن جہۃ تعلقہا ببعض الأعیان شر محض ۔
ترجمہ :امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی: ۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ایک سوال ہے کہ جہنم کی آگ اچھی ہے یابری ہے ؟ تواس کاجواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ نہ وہ اچھی ہے اورنہ وہ بری ہے ، بلکہ ایک قسم کاسخت عذاب ہے جس میں اللہ تعالی کی خاص حکمت ہے ، بعض نے کہاکہ وہ من وجہ اچھی ہے اورمن وجہ بری ہے ، جیسے نمرودکی آگ ، بظاہرتولوگوں کی نظرمیں بری تھی مگرحضرت سیدناابراہیم علیہ السلام کے لئے وہ ٹھنڈی اورسلامتی والی ثابت ہوئی یاجیسے تھانے دارکے ہاتھ میں ڈنڈانافرمان اورسرکش لوگوں کے لئے مفیدہوتاہے اورفرمانبرداراورنیک لوگوں کے لئے براہوتاہے ۔ اسی طرح نارجہنم کے داروغہ حضرت سیدنامالک علیہ السلام اوران کے عملہ کے لئے اچھی ہے لیکن اللہ تعالی کے دشمنوں اورحضورتاجدارختم نبوتﷺکے گستاخوں کے لئے بری ہے جواس میں داخل ہوں گے ، اسی طرح یہی دوزخ اہل ایمان فساق کے لئے بھی اچھی ہے ،جب وہ اس میں داخل ہوں گے توان کے نفوس کے جواہر میں معاصی اورجرائم کی آمیزش ہوگی اس سے وہ صاف وشفاف ہوجائیں گے لیکن دوسرے یعنی کفارومشرکین کے لئے بری ہے۔ اسے طاعون اوروباکی طرح سمجھیں کہ وہ اہل ایمان کے لئے رحمت ہے لیکن کفارکے لئے زجروتوبیخ۔ اسی طرح وجود بھی عارفین کے نزدیک خیرمحض ہے لیکن محققین اسے شرخالص سے تعبیرکرتے ہیں ، وہ اس لئے کہ وجود بھی باری تعالی کی صفت کاایک نشان ہے{ کما قال اللہ تعالی ربناماخلقت ھذاباطلاً}اس معنی میں وجود کواعیان کونیہ سے منسوب ہونے کی وجہ سے شرکہہ سکتے ہیں لیکن جب اسے افعال الہی سے نسبت ہوگی تواسے خیرہی خیرمانناپڑے گااوراللہ تعالی اپنے ملک میں جوچاہے کرے اورجس طرح چاہے حکم فرمائے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ دوزخ کی آگ اللہ تعالی کے جلال کامظہرہے اسی لئے ہم کہنے پرمجبورہیں کہ چونکہ یہ مظہرِ جلال ہے یہ خیرہی خیرہے اورچونکہ پھراسے بعض اعیان سے تعلق ہے اس لئے اسے شرہی شرسمجھناہوگا۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۶:۱۹)
دوزخ کی تخلیق حضورتاجدارختم نبوتﷺکے گستاخوں کے لئے ہوئی ہے
وقد خلق اللہ النار لیعلم الخلق قدر جلال اللہ وکبریائہ ویکونوا علی ہیبۃ وخوف منہ ویؤدب بہا من لم یتأدب بتأدیب الرسل ولہذا السر علق النبی علیہ السلام السوط حیث یراہ اہل البیت لئلا یترکوا الأدب۔
ترجمہ :الشیخ العلامۃ محمد الأمین بن عبد اللہ الشافعی رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ اللہ تعالی نے دوزخ کو اس لئے پیدافرمایاتاکہ مخلوق کوجلال وکبریائی کاعلم ہواورہمیشہ اللہ تعالی کے خوف اورہیبت سے خوف زدہ ہوں اورتاکہ اس کے ذریعے بدبختوں کی سرزنش کردی جائے جنہوںنے انبیاء کرام اوررسل عظام علیہم السلام کی گستاخیاں کیں ، اس لئے حضورتاجدارختم نبوتﷺنے عصامبارک گھرمیں لٹکادیاتھاتاکہ اہل خانہ دیکھ کرادب کو ہاتھ سے نہ جانے دیں ۔
(تفسیر حدائق الروح والریحان:الشیخ العلامۃ محمد الأمین بن عبد اللہ الشافعی(۲۲:۱۶۳)
دوزخ کی تخلیق اللہ تعالی نے دشمنوں کے لئے کی ہے
وروی ان اللہ تعالی قال لموسی علیہ السلام ما خلقت النار بخلا منی ولکن اکرہ ان اجمع أعدائی وأولیائی فی دار واحدۃ۔
ترجمہ :مروی ہے کہ حضرت سیدناموسی علیہ السلام کواللہ تعالی نے وحی بھیج کرفرمایاکہ میں نے دوزخ اس لئے نہیں پیداکی کہ میرے ہاں رحمت کی کمی ہے بلکہ اسے اس لئے بنایاتاکہ دوست ودشمن کی پہچان ہواورانہیں ایک جگہ رکھناناموزوں تھا، اس لئے دوستوں کے لئے جنت اوردشمن کے لئے دوزخ پیدافرمائی ۔
(تفسیر حدائق الروح والریحان:الشیخ العلامۃ محمد الأمین بن عبد اللہ الشافعی(۲۲:۱۶۳)
دوزخ کی تخلیق بھی من وجہ رب تعالی کی رحمت کااظہارہے
وقیل خلق النار لغلبۃ الشفقۃ کرجل یضیف الناس ویقول من جاء الی ضیافتی أکرمتہ ومن لم یجء لیس علیہ شیء ویقول مضیف آخر من جاء الیّ أکرمتہ ومن لم یجء ضربتہ وحبستہ لیتبین غایۃ کرمہ وہو أکمل وأتم من الکرم الاول واللہ تعالی دعا الخلق الی دعوتہ بقولہ (وَاللَّہُ یَدْعُوا إِلی دارِ السَّلامِ)ثم دفع السیف الی رسولہ فقال من لم یجب ضیافتی فاقتلہ فعلی العاقل ان یجیب الی دعوۃ اللہ ویمتثل لامرہ حتی یأمن من قہرہ۔
ترجمہ :امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی : ۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ علماء کرام نے بیان کیاہے کہ دوزخ کی تخلیق بھی مبنی برشفقت ہے ، جیسے کوئی شخص اعلان کرے جومیری دعوت قبول کرے گا، اس کی عزت افزائی کی جائے گی اورجوقبول نہیں کرے گااس پرکوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ لیکن دوسراشخص یوں اعلان کرے جوقبول کرے گااس کی عزت ہوگی اورجوقبول نہیں کرے گااسے سزاملے گی ، ان دونوں میں سے دوسرے کوزیادہ شفیق وکریم جاناجائے گا۔
بلاتمثیل سمجھئے کہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو اپنی جنت میں دعوت کے لئے بلایاجیساکہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں بیان فرمایا، اس کے بعد حضورتاجدارختم نبوت ﷺکوتلواردے کرحکم فرمایاکہ جو میری دعوت قبول نہ کرے اسے قتل کردو۔
ہرعقلمندپرلازم ہے کہ وہ اللہ تعالی کی دعوت کوقبول کرے اوراس کے حکم کومانے تاکہ اس کے قہروغضب سے بچ سکے ۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۶:۱۹)