تفسیر سورہ بقرہ آیت ۱۶۸۔۱۶۹۔ فلمیں، ڈرامے بنانے والے اورقوم کو بے حیائی پر ابھارنے والے شیطان کے پیروکارہیں

فلمیں، ڈرامے بنانے والے اورقوم کو بے حیائی پر ابھارنے والے شیطان کے پیروکارہیں

{یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ کُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلًا طَیِّبًا وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ اِنَّہ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ}(۱۶۸){اِنَّمَا یَاْمُرُکُمْ بِالسُّوْٓء ِ وَالْفَحْشَآء ِ وَاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَی اللہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ}(۱۶۹)
ترجمہ کنزالایمان:اے لوگوں کھاؤ جو کچھ زمین میں حلال پاکیزہ ہے اور شیطان کے قدم پر قدم نہ رکھو بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔وہ تو تمہیں یہی حکم دے گا بدی اور بے حیائی کا اور یہ کہ اللہ پر وہ بات جوڑو جس کی تمہیں خبر نہیں۔
ترجمہ ضیاء الایمان: اے لوگو! جوکچھ زمین میں حلال اورپاکیزہ چیزیں ہیں انہیں کھائواورشیطان کی پیروی نہ کرو، بے شک وہ تمھاراکھلادشمن ہے ، وہ توتمھیں برائی اوربے حیائی کاحکم دے گااوریہ بھی کہے گاکہ تم اللہ تعالی کے متعلق وہ بات کہوجسکی تمھیں خبرہی نہیں ۔

خطوات الشیطان سے مراد ؟

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:’’ خُطُواتِ الشَّیْطانِ‘‘ أَعْمَالُہُ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ ’’خطوات الشیطان ‘‘سے مراد شیطانی اعمال ہیں۔
(تفسیر الماوردی :أبو الحسن علی بن محمد بن محمد الشہیر بالماوردی (۱:۲۲۰) دار الکتب العلمیۃ بیروت لبنان

کھلادشمن

’’إِنَّہُ لَکُمْ عَدُوٌّ مُبِینٌ‘‘أَخْبَرَ تَعَالَی بِأَنَّ الشَّیْطَانَ عَدُوٌّ، وَخَبَرُہُ حَقٌّ وَصِدْقٌ. فَالْوَاجِبُ عَلَی الْعَاقِلِ أَنْ یَأْخُذَ حَذَرَہُ مِنْ ہَذَا الْعَدُوِّ الَّذِی قَدْ أَبَانَ عَدَاوَتَہُ مِنْ زَمَنِ آدَمَ، وَبَذَلَ نَفْسَہُ وَعُمْرَہُ فِی إِفْسَادِ أَحْوَالِ بَنِی آدَمَ، وَقَدْ أَمَرَ اللَّہُ تَعَالَی بِالْحَذَرِ مِنْہُ۔
ترجمہ :اللہ تعالی نے ارشادفرمایا:{اِنَّہُ لَکُمْ عَدُوٌّ مُبِینٌ}شیطان تمھارا کھلا دشمن ہے اوراللہ تعالی کی خبرحق اورسچ ہے ، عقلمندپر واجب ہے کہ وہ اس دشمن سے بچے ، جس کی عداوت حضرت سیدناآدم علیہ السلام سے ظاہرہے ، اس نے پوری عمر انسان کے احوال کو خراب کرنے میں خرچ کردی ہے ۔ اللہ تعالی نے اس سے بچنے کاحکم دیاہے ۔
(تفسیر القرطبی: أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی (۲:۲۰۸)

ہروہ حکم جو قرآن کے مخالف ہو۔۔

وَأخرج ابْن أبی حَاتِم عَن ابْن عَبَّاس قَالَ: مَا خَالف الْقُرْآن فَہُوَ من خطوَات الشَّیْطَان۔
ترجمہ:حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ ہروہ کام جو اللہ تعالی کے قرآن کریم کے مخالف ہے وہ شیطان کے خطوات سے ہے۔
(الدر المنثور:عبد الرحمن بن أبی بکر، جلال الدین السیوطی (ا:۴۰۳)

اپنی طرف سے حلال کوحرام کرنے والا؟

، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: أُتِیَ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ مَسْعُودٍ بِضِرْعٍ وَمِلْحٍ، فَجَعَلَ یَأْکُلُ فَاعْتَزَلَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ. فَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: نَاوِلُوا صَاحِبَکُمْ فَقَالَ لَا أُرِیدُہُ. قَالَ:أَصَائِمٌ أَنْتَ؟ قَالَ:لَا قَالَ: فَمَا شَأْنُکَ؟ قَالَ: حَرَّمْتُ أَنْ آکُلَ ضِرْعًا أَبَدًا.فَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: ہَذَا مِنْ خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ، فَاطْعَمْ وَکَفِّرْ عَنْ یَمِینِکِ.
ترجمہ:حضرت سیدنامسروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس ایک جانورکادودھ اورنمک لایاگیا، وہ تناول فرمانے لگے ، ایک شخص علیحدہ بیٹھاہواتھا، حضرت سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اپنے ساتھی کو بھی پیش کرو، اس نے کہا: میں نہیں کھاتا۔ اس سے پوچھاگیاکہ کیاتوروزے سے ہے ؟ تواس نے کہاکہ نہیں ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اس سے پوچھاکیاوجہ ہے ؟ اس نے کہاکہ میں نے اپنے اوپردودھ کو حرام کرلیاہے ۔ حضرت سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:یہ خطوات الشیطان سے ہے ، کھائواوراپنی قسم کاکفارہ دے دو۔
(تفسیر القرآن العظیم لابن أبی حاتم:أبو محمد عبد الرحمن بن محمد الحنظلی، الرازی ابن أبی حاتم (۱:۲۸۰)
الفحشاء اورالسوء کامعنی
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ:الْفَحْشَاء ُ مِنَ الْمَعَاصِی مَا یَجِبُ فِیہِ الْحَدُّ، وَالسُّوء ُ مِنَ الذُّنُوبِ مَا لَا حَدَّ فِیہِ، وَقَالَ السُّدِّیُّ: ہِیَ الزِّنَا۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ ’’الفحشاء ‘‘ سے مراد وہ گناہ ہے جس میں حدلازم ہوتی ہے اور’’السوء‘‘ سے مراد وہ گناہ ہے جس میں شرعاً حد نہیں ہے ۔ امام السدی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ـ’’الفحشاء‘‘ سے مراد زناہے ۔
(تفسیر البغوی :محیی السنۃ ، أبو محمد الحسین بن مسعود بن محمد بن الفراء البغوی الشافعی (ا:۱۹۸)

شیطان کااپنے چیلوں سے گارگزاریاں سننا

عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:إِنَّ إِبْلِیسَ یَضَعُ عَرْشَہُ عَلَی الْمَاء ِ، ثُمَّ یَبْعَثُ سَرَایَاہُ، فَأَدْنَاہُمْ مِنْہُ مَنْزِلَۃً أَعْظَمُہُمْ فِتْنَۃً، یَجِیء ُ أَحَدُہُمْ فَیَقُولُ:فَعَلْتُ کَذَا وَکَذَا، فَیَقُولُ: مَا صَنَعْتَ شَیْئًا، قَالَ ثُمَّ یَجِیء ُ أَحَدُہُمْ فَیَقُولُ:مَا تَرَکْتُہُ حَتَّی فَرَّقْتُ بَیْنَہُ وَبَیْنَ امْرَأَتِہِ، قَالَ:فَیُدْنِیہِ مِنْہُ وَیَقُولُ:نِعْمَ أَنْتَ قَالَ الْأَعْمَشُ:أُرَاہُ قَالَ:فَیَلْتَزِمُہُ۔
ترجمہ :حضرت سیدناجابررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایاکہ ابلیس اپناتخت پانی پربچھاتاہے اورپھراپنے لشکرکے لوگوں کوبہکانے کے لئے بھیجتاہے ، اس کے یہاں ادنی ادنی مرتبہ کے شیطان بھی جہاں میں بڑے بڑے فتنے پھیلادیتے ہیں ، چنانچہ جب وہ بہکاکرآتے ہیں تو ہرایک اپنی اپنی کارگزاری بیان کرتاہے ، کوئی کہتاہے کہ میں نے آج فلاں براکام کروادیا، ابلیس کہتاہے کہ تونے کچھ بھی نہیں کیا، پھرایک اورآتاہے وہ کہتاہے کہ میں نے بہت بڑاکام کیاہے ، ایک شخص اوراس کی بیوی میں جدائی ڈال دی ، ابلیس سن کربہت زیادہ خوش ہوتاہے اوراسے اپنامقرب بنالیتاہے اورکہتاہے کہ تونے خوب کام کیاہے ۔
(صحیح مسلم :مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشیری النیسابوری (۲:۲۱۶۷)

شیطان کے بہکانے کے مختلف طریقے

حضرت مفتی احمدیارخان نعیمی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جیسے توحیداختیارکرنااورکفرسے بچناضروری ہے ایسے ہی صحیح غذاکھانااورحرام اورگندی چیزوں سے بچنالازم کہ غذاکااخلاق پر اثرپڑتاہے ، نیزحلال اورطیب چیزوں سے بچنامحرومی لھذاجوکچھ زمین میں حلال اورپاکیزہ چیزیں ہیں انہیں کھائواورخواہ مخواہ انہیں حرام جان کر شیطان کی راہ پرنہ چلو، کیونکہ وہ توتمھارا پہلے ہی کھلادشمن ہے ۔ جن باتوں کو اچھی کرکے دکھاتاہے وہ درپردہ بری ہیں ، وہ تمھیں ہمیشہ برائیوں اوربے حیائیوں کاہی مشورہ دے گا، تمھیں یہ بھی بتائے گاکہ خود مسائل گھڑکررب تعالی کی طرف منسوب کردیاکرو، لھذاتم اس کی باتوں میں نہ آئو۔ روح البیان میں ہے کہ شیطانی وسوسوں کے چھے درجے ہیں ۔ (۱)ایمان سے ہٹاکرکفرمیں پھنسائے گا،ا گریہاں اس کادائوچل گیاتو پھرانسان کے پیچھے نہیں پڑتا(۲) دوسرایہ کہ مسلمان کو گمراہی اوربدعادت میں مبتلاء کردے اورفساد عقیدہ گناہوں سے بدترہے (۳) صحیح العقیدہ مسلمان کوکبیرہ گناہوں میں پھنسادے (۴) پرہیزگارمسلمان سے معمولی گناہ کروادے کہ کبھی معمولی باتیں بھی گناہ کبیرہ بن جاتی ہیں ،چھوٹی سی چنگاری سے بھی گھرجل جاتاہے (۵) نہایت متقی اورپرہیز گارمسلمان کو بے کارباتوں میں لگادے تاکہ وہ ثواب نہ کماسکے ۔ اگرکہیں بھی دائو نہ چلاتو چھٹافریب یہ ہے کہ افضل کام سے روکنے کے لئے فضول کام میں لگادے تاکہ آدمی ثواب سے محروم رہے ،جیسے مفتی اورعالم دین کو خدمت دین سے روک کر نفل نماز میں مشغول کردے یاحج سے روک کر نفلی روزوں میں لگادے ۔ غرضیکہ اس کے شرسے بچنابہت مشکل ہے ۔ ہرانسان کے پاس نئے لباس میں آتاہے ، خیال رہے کہ جس منہ کے کام یعنی کھانے پینے میں سے بعض حلال ہیں اوربعض حرام ، ایسے ہی تمام اعضاکے کاموں میں بعض حلال ہیں اوربعض حرام ہیں ، بعض نظریں حلال جیساکہ اپنی بیوی کو دیکھنااوربعض حرام جیسے غیرعورتوں کو بدنظری سے دیکھنا۔ زبان سے جھوٹ غیبت اورچغلی بولناحرام اورجائز باتیں اورجائز بولناحلال ۔ کان سے گانے باجے سنناحرام ہے اورمباح باتیں سنناحلال ، پائوں سے چوری کرنے اورسینمادیکھنے جاناحرام ہے ، جائز جگہ جاناحلال ، ہاتھ سے غیرکامال چھونا،غیرعورت کو شہوت سے چھوناحرام ،درست جگہ ہاتھ استعمال کرناحلال ۔ یہ آیت صرف کھانوں کے لئے ہے مگروہ ساری چیزیں بھی اس سے معلوم کرناچاہیں۔
(تفسیرنعیمی از مفتی احمدیارخان نعیمی ( ۲: ۱۳۶،۱۳۷)

حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی اتباع کے ساتھ ہی نجات وابسطہ ہے

قَالَ سَہْلُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ:النَّجَاۃُ فِی ثَلَاثَۃٍ:أَکْلُ الْحَلَالِ، وَأَدَاء ُ الْفَرَائِضِ، وَالِاقْتِدَاء ُ بِالنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّہِ السَّاجِیُّ وَاسْمُہُ سَعِیدُ بْنُ یَزِیدَ: خَمْسُ خِصَالٍ بِہَا تَمَامُ الْعِلْمِ، وَہِیَ:مَعْرِفَۃُ اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ، وَمَعْرِفَۃُ الْحَقِّ وَإِخْلَاصُ الْعَمَلِ لِلَّہِ، وَالْعَمَلِ عَلَی السُّنَّۃِ، وَأَکْلُ الْحَلَالِ، فَإِنْ فُقِدَتْ وَاحِدَۃً لَمْ یُرْفَعِ الْعَمَلُ۔

ترجمہ :حضرت سیدناسہل بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نجات صرف تین چیزوں میں ہے :حلال کھانا، فرائض اداکرنااورحضورتاجدارختم نبوت ﷺکی پیروی کرنا۔حضرت سیدناسعیدبن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پانچ خصال کے ساتھ علم مکمل ہوتاہے (۱) اللہ تعالی کی معرفت (۲) حق کی معرفت (۳) اللہ تعالی کے لئے عمل کرنے میں اخلاص (۴) حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی سنت شریفہ کی پیروی (۵) حلال کھانا۔ان میں سے ایک بھی نایاب ہوتو عمل اللہ تعالی کی بارگاہ میں نہیں پہنچتا۔
(تفسیر القرطبی: أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی (۲:۲۰۸)

معارف ومسائل

(۱)بے حیائی (فحش)کی اشاعت ایک جامع بات ہے جس میں زنا، تہمت زنا، بے حیائی کی باتوں کا چرچا کرنا اور انسان کو زنا کی طرف مائل کرنے وا لی باتیں اور حرکتیں کرنا سب شامل ہیں۔ موجودہ زمانہ میں اشاعتِ فحش کے ماڈرن طور طریقے ایجاد ہوگئے ہیں مثلاً نائٹ کلب، مخلوط تیراکی کے مظاہرے، عشق بازی کا جنون پیدا کرنے وا لی فلمیں، جنسی بے راہ روی پیدا کرنے والے اور اخلاق سوز گانے، ذہنوں پر عورت کا بھوت سوار کرانے والے اشتہارات، حسن کے مقابلے، ٹی وی پر عورتوں کے بے ڈھنگے پن کے مظاہرے، ہیجان انگیز ناولیں اور افسانے، اخبارات و رسائل میں عورتوں کی برہنہ اور نیم برہنہ تصویریں اور ڈانس کے پروگرام وغیرہ۔
(۲)مسلم معاشرے میں ہمیشہ نیک عادات کا چلن ہوناچاہیے تاکہ معاشرہ پاکیزہ رجحانات کا حامل بن سکے ،جھوٹی خبر کی اشاعت،بے حیائی کی طرف دعوت اور معاشرے میںبُرے رجحانات کی تبلیغ اس قدر مذموم حرکت ہے کہ ا ﷲرب العالمین نے ایسے لوگوں کو دنیا اور آخرت میں درد ناک عذاب کی دھمکی دی ہے۔ ظاہر ہے کہ معاشرے میں جب برے رجحانات عام ہوںگے تو معاشرہ انار کی کا شکار ہوگا ،برائیاں سر چڑھ کر بولیں گی ،بے حیائی اور بدکاری کا دور دورہ ہوگا اور اس طرح پورا معاشرہ ہلاکت کا شکار ہوجائے گا اوریہ ذہن میں رہے کہ جتنے بھی لوگ ان کاموں میں ملوث ہیں وہ سب کے سب شیطان کے پیروکارہیں۔
٭ جولوگ جنسی انار کی کو ہوا دینے کے لیے بدکاریوں کے اڈے قائم کرتے ہیں ۔
٭ جولوگ شہوات کو بھڑکانے والے قصے ،کہانیوں، گانوں اور کھیل تماشوں پر مشتمل پروگرام تیار کرتے ،اس قبیل کے رسالے اور لٹریچر شائع کرتے ہیں ۔
٭ جولوگ کلبوں اور ہوٹلوں میں رقص و سرود کی محفلیں سجاتے اور مخلوط تفریحات کا انتظام کرتے ہیں۔
٭ جو لوگ اخبارات ،ریڈیو،ٹی وی اورفلمی ڈراموں کے ذریعہ بے حیائی پھیلا رہے ہیں اورگھر گھر اسے پہنچا رہے ہیں۔
٭ جولوگ اپنے گھروں میں ٹی وی لاکر رکھے ہوئے ہیں اور ان کے اہل خانہ اس سے بے حیائی کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
٭ جو لوگ اپنی دوکانوں میں فحش لٹریچر، مخرب اخلاق رسالے ،سی ڈیز ،ویڈیوز ، اورنشہ آوراشیاء فروخت کرتے ہیں ۔
قرآن کے مطابق یہ سارے لوگ مجرم ہیں اور یہ سب اس جرم میں برابر کے شریک ہیں جن کو آخرت میں ہی نہیں دنیا میں بھی سزا ملنی چاہیے کہ ان کی بے حیائی خود ان تک محدود نہیں بلکہ یہ مسلم معاشرے میں بھی بدکاری اور بد اخلاقی کو فروغ دینے کا موجب بن رہی ہے۔
(۳) اس سلسلے میں صاحبِ اقتدار لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ بدکاری کے اڈے ختم کریں، بداخلاقی کے لئے ترغیب دینے والے ذرائع کا سدِ باب کریں ۔ بلکہ اسلام کی منشا تو یہ ہے کہ اگر کوئی بے حیائی اور بدی پھیلانے کی ترغیب دے تو اس کا مال بحقِ سرکار ضبط ہو جانا چاہئیے ۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے چھوٹے گناہوں پر گرفت نہیں کرتا جو فحاشی او رکبیرہ گناہوں سے اپنے دامن کو بچا کر رکھتے ہیں۔ بے حجابی، عریانی اور بے حیائی اگر کہیں سرائیت کرتی نظر آتی ہے تو اس سے معاشرتی بگاڑ ضرور پیدا ہوتا ہے۔ نمائشِ حُسن اور آرائش جمال، فحاشی کے اڈے، قحبہ خانے اور شراب خانوں وغیرہ سے مسلمان معاشرے کا دُور کا بھی تعلق نہیں۔ یہ ہماری تہذیب و ثقافت نہیں ہے۔ دین اسلام دنیا کے سامنے ہمیشہ ایک نمونے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ آج بھی اگر ہم اسلام کو بطورِ ایک نمونہ کے پیش کرنا چاہیںتو ہمیں بے حجابی، عریانی، عورتوں اور مردوں کے اختلاط اور فحاشی کے تمام ذرائع سے خود کو دور رکھنا ہوگا۔ اُمتِ مسلمہ اگر خلوصِ دل سے اِن تقاضوں کو پورا کرے تو غلبہ اسلام کا غروب نہ ہونے والا سورج ایک بار پھر اس آسمان پر چمکے گا اور پوری دنیا اِس کی ضیاء پاشیوں سے منور ہو گی۔ بے راہ روی کی ایک وجہ بے پردگی بھی ہے۔ بدقسمتی سے ہم نے پردہ کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھ کر اِس کو تقریباً ختم کر دیا ہے۔ جبکہ حضورتاجدارختم نبوتﷺ نے اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق پردے کی سختی سے تلقین فرمائی ہے۔ محرم اور نامحرم کا امتیاز پیدا کر کے قوانین و ضوابط ارشاد فرمائے ہیں تاکہ ممکنہ برائی کو پھیلنے ہی نہ دیا جائے جو آگے چل کر پورے اسلامی معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ اِس سلسلہ میں ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کو بھی گھروں سے نکلنے کی ممانعت کر دی گئی تھی۔ بدقسمتی سے فیشن پرستی اور دوسروں کی نقالی میں آجکل مسلمان بہت آگے نکلنے کی کوشش میں ہیں اور اپنی شناخت کھو بیٹھے ہیں۔ اِس سے ایک طرف تو اسلامی اقدار مجروح ہوئی ہیں اور دوسری طرف یہی لوگ معاشرے میں بگاڑ کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ دوسروں کی نقالی کرنے والے احساسِ کمتری میں مبتلاء ہوتے ہیں۔نقالی نہ صرف لباس، رہن سہن اور کھانے پینے کی چیزوں میں کی جاتی ہے بلکہ مردزنانہ لباس اور عورتیں مردانہ لباس میں خود کو دیکھنا قابلِ فخر سمجھتی ہیں۔حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا :لعنت ہے ان عورتوں پر جو مردوں سے مشابہت پیدا کرتی ہیں اور ان مردوں پر جو عورتوں سے مشابہت پیدا کرتے ہیں۔ آج معاشرہ بدامنی، بے چینی کے دور سے گزر رہا ہے۔ قتل و غارت گری، ڈاکے، راہزنی، نسل کشی، اور بے راہروی کا بازار گرم ہے۔ شرعی احکام کی پابندی کے بجائے اس پرمذاق کیا جا تا ہے۔ ایسے میں اس کی اصلاح کے لئے اسلامی احکامات کو بحیثیت نظام زندگی غالب کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے جو ایک صالح قیادت ہی کر سکتی ہے۔

Leave a Reply