معرکہ بدر کے بپاہونے میں اللہ تعالی کی منشادین اسلام کوغالب کرنے کی تھی
{وَ اِذْ یَعِدُکُمُ اللہُ اِحْدَی الطَّآئِفَتَیْنِ اَنَّہَا لَکُمْ وَتَوَدُّوْنَ اَنَّ غَیْرَ ذَاتِ الشَّوْکَۃِ تَکُوْنُ لَکُمْ وَیُرِیْدُ اللہُ اَنْ یُّحِقَّ الْحَقَّ بِکَلِمٰتِہٖ وَیَقْطَعَ دَابِرَ الْکٰفِرِیْنَ }(۷){لِیُحِقَّ الْحَقَّ وَیُبْطِلَ الْبٰطِلَ وَلَوْکَرِہَ الْمُجْرِمُوْنَ }(۸)
ترجمہ کنزالایمان:جس طرح اے محبوب تمہیں تمہارے رب نے تمہارے گھر سے حق کے ساتھ برآمد کیا اور بیشک مسلمانوں کا ایک گروہ اس پر ناخوش تھا۔ سچی بات میں تم سے جھگڑتے تھے بعد اس کے کہ ظاہر ہوچکی گویا وہ آنکھوں دیکھی موت کی طرف ہانکے جاتے ہیں۔ اور یاد کرو جب اللہ نے تمہیں وعدہ دیا تھا کہ ان دونوں گروہوں میں ایک تمہارے لیے ہے اور تم یہ چاہتے تھے کہ تمہیں وہ ملے جس میں کانٹے کا کھٹکا نہیں اور اللہ یہ چاہتا تھا کہ اپنے کلام سے سچ کو سچ کر دکھائے اور کافروں کی جڑ کا ٹ دے۔کہ سچ کو سچ کرے اور جھوٹ کو جھوٹا پڑے برا مانیں مجرم ۔
ترجمہ ضیاء الایمان: اے حبیب کریم ﷺ!جیسے آپ ﷺکوآپﷺکے رب تعالی نے آپ کے گھر سے حق کے ساتھ برآمد کیا حالانکہ یقینا مسلمانوں کی ایک جماعت اس پر ناخوش تھی۔یہ حق بات کے بارے میں اس کے روشن ہوجانے کے بعد آپﷺ سے جھگڑتے تھے گویا انہیں آنکھوں دیکھی موت کی طرف ہانکا جارہا ہے۔اوراے حبیب کریمﷺ! یاد کریں جب اللہ تعالی نے آپﷺ سے وعدہ کیا کہ ان دونوں گروہوں میں ایک آپ کے لیے ہے اورآپ یہ چاہتے تھے کہ آپ کو وہ ملے جس میں کانٹے کا کھٹکا نہ ہو اور اللہ تعالی یہ چاہتا تھا کہ اپنے کلام سے حق کو حق کر دکھائے اور کافروں کی جڑ کا ٹ دے۔ تاکہ سچ کو سچ کردکھائے اور جھوٹ کو جھوٹ کردکھائے اگرچہ مجرم ناپسند کریں۔
اللہ تعالی نے بدرمیں دین متین کو غالب کردیا
(وَیُرِیدُ اللَّہُ أَنْ یُحِقَّ الْحَقَّ بِکَلِماتِہِ)أَیْ أَنْ یُظْہِرَ الْإِسْلَامَ وَالْحَقُّ حَقٌّ أَبَدًا، وَلَکِنَّ إِظْہَارَہُ تَحْقِیقٌ لَہُ مِنْ حَیْثُ إِنَّہُ إِذَا لَمْ یَظْہَرْ أَشْبَہَ الْبَاطِلَ بِکَلِماتِہِ أَیْ بِوَعْدِہِ، فَإِنَّہُ وَعَدَ نَبِیَّہُ ذَلِکَ فِی سُورَۃِ’’الدُّخَانِ‘‘فَقَالَ یَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَۃَ الْکُبْری إِنَّا مُنْتَقِمُونَ َٔیْ مِنْ أَبِی جَہْلٍ وَأَصْحَابِہِ وَقَالَ:لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّینِ کُلِّہِ وقیل:بِکَلِماتِہِ أی بِأَمْرِہِ، إِیَّاکُمْ أَنْ تُجَاہِدُوہُمْ(وَیَقْطَعَ دابِرَ الْکافِرِینَ)أَیْ یَسْتَأْصِلُہُمْ بِالْہَلَاکِ(لِیُحِقَّ الْحَقَّ)أَیْ یُظْہِرُ دین الإسلام ویعزہ(وَیُبْطِلَ الْباطِلَ) أَیِ الْکُفْرُوَإِبْطَالُہُ إِعْدَامُہُ، کَمَا أَنَّ إِحْقَاقَ الْحَقِّ إِظْہَارُہُ بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَی الْباطِلِ فَیَدْمَغُہُ فَإِذا ہُو زاہِقٌ{وَلَوْ کَرِہَ الْمُجْرِمُونَ}
ترجمہ:امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ)رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یعنی اللہ تعالی چاہتاتھاکہ وہ اسلام کو غالب کردے اورحق ہمیشہ حق ہی ہوتاہے لیکن اس کااظہاراورغلبہ اس کواس حیثیت سے ثابت کرناہے کہ اس کی باطل کے ساتھ مشابہت نہ ہو۔{بِکَلِماتِہ}سے مراد بوعدہ ہے یعنی اپنے وعدہ کے ساتھ کیونکہ اس نے اس بارے میں حضورتاجدارختم نبوتﷺسے سورۃ الدخان میں وعدہ فرمایاہے ، پس اللہ تعالی نے ارشادفرمایا: { یَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَۃَ الْکُبْری إِنَّا مُنْتَقِمُونَ}جس دن ہم انہیں پوری شدت کے ساتھ پکڑیں گے اس دن ہم ان سے سارے بدلے لیں گے یعنی ہم ابوجہل اوراس کے تمام ساتھیوں سے انتقام لینے والے ہیں اورمزیدفرمایاکہ {لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّینِ کُلِّہِ}تاکہ غالب کردے اسے تمام دینوں پر۔
اوریہ بھی کہاگیاہے کہ{ بِکَلِماتِہ}سے مراد بامرہ ہے یعنی تمھیں اپنے اس حکم کے ساتھ کہ تم کو ان کے ساتھ جہادکرو!{وَیَقْطَعَ دابِرَ الْکافِرِینَ}یعنی اللہ تعالی ان کو ہلاک کرکے نیست ونابود کردے اوران جڑکاٹ دے {لِیُحِقَّ الْحَقَّ}یعنی تاکہ وہ دین اسلام کوغلبہ عطافرمائے اوراسے تقویت دے ۔{وَیُبْطِلَ الْباطِل}اس کامطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی کفرکومٹادے اوراسے باطل کردے ، اس کفرکومٹانے سے مراد اس کو معدوم کرناہے جیساکہ حق کو حق قراردینے کامعنی اسے ظاہرکرنااورغالب کرناہے {بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَی الْباطِلِ فَیَدْمَغُہُ فَإِذا ہُو زاہِقٌ}بلکہ ہم توچوٹ لگاتے ہیں حق سے باطل پرپس وہ اسے کچل دیتاہے اوروہ یکایک ناپیدہوجاتاہے {وَلَوْ کَرِہَ الْمُجْرِمُونَ}اگرچہ عادی مجرم لوگ اسے ناپسندنہ کریں۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۷:۳۶۹)
معرکہ بدرقرآن کریم اورشریعت حقہ کے اعلائے کے لئے بپاہوا
السؤال:ألیس أن قولہ:یُرِیدُ اللَّہُ أَنْ یُحِقَّ الْحَقَّ بِکَلِماتِہِ ثُمَّ قَوْلَہُ بَعْدَ ذَلِکَ:لِیُحِقَّ الْحَقَّ تَکْرِیرٌ مَحْضٌ؟وَالْجَوَابُ:لیس ہاہنا تَکْرِیرٌ لِأَنَّ الْمُرَادَ بِالْأَوَّلِ سَبَبُ مَا وَعَدَ بِہِ فِی ہَذِہِ الْوَاقِعَۃِ مِنَ النَّصْرِ وَالظَّفَرِ بِالْأَعْدَاء ِ، وَالْمُرَادُ بِالثَّانِی تَقْوِیَۃُ الْقُرْآنِ وَالدِّینِ وَنُصْرَۃُ ہَذِہِ الشَّرِیعَۃِ، لِأَنَّ الَّذِی وَقَعَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ یَوْمَ بَدْرٍ بِالْکَافِرِینَ کَانَ سَبَبًا لِعِزَّۃِ الدِّینِ وَقُوَّتِہِ، وَلِہَذَا السَّبَبِ قَرَنَہُ بِقَوْلِہِ:وَیُبْطِلَ الْباطِلَ الَّذِی ہُوَ الشِّرْکُ، وَذَلِکَ فِی مُقَابَلَۃِ الْحَقَّ الَّذِی ہُوَ الدِّینُ وَالْإِیمَانُ۔
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی کے اس فرمان شریف {یُرِیدُ اللَّہُ أَنْ یُحِقَّ الْحَقَّ بِکَلِماتِہِ}پھراس آیت کریمہ کے بعد ارشاد{لِیُحِقَّ الْحَقَّ }تکرارمحض نہیں ہے ۔( یعنی پہلے بھی احقاق حق کاذکرآیااورپھر اس کے بعد بھی احقاق کاذکرتوتکرارہے ، اس کی کیاوجہ ہے ؟
آپ رحمہ اللہ تعالی اس کاجواب یہ دیتے ہیں کہ یہاں تکرارنہیں ہے کیونکہ پہلے سے مراد اس سبب کاذکرہے جواس واقعہ میں وعدہ ہوایعنی وہ وعدہ جو اللہ تعالی نے فرمایاکہ وہ اہل اسلام کی دشمنوںکے خلاف مددفرمائے گااوردوسرے سے مراد قرآن کریم اوردین اسلام کی تقویت اورشریعت کی مددہے ، اس لئے جو بدرکے دن اہل کفرکے ساتھ ہوااوردین کی عزت اورقوت کاسبب تھا، اس سبب سے اللہ تعالی نے اسے اپنے ارشاد{وَیُبْطِلَ الْباطِل}سے ملادیااوریہاں الباطل سے مراد شرک ہے اوریہ حق کے مقابلے میں ہے جوکہ دین اورایمان ہے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۱۵:۴۴۷)
تاکہ اللہ تعالی اسلام کوغالب کردے!
(لِیُحِقَّ الْحَقَّ)لِیُثَبِّتَ الْإِسْلَامَ، (وَیُبْطِلَ الْبَاطِلَ)أَیْ:یُفْنِی الْکُفْرَ (وَلَوْ کَرِہَ الْمُجْرِمُونَ)الْمُشْرِکُونَ. وَکَانَتْ وَقْعَۃُ بَدْرٍ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ صَبِیحَۃَ سَبْعَ عَشْرَۃَ لَیْلَۃً مِنْ شَہْرِ رَمَضَانَ۔
ترجمہ :امام محیی السنۃ، أبو محمد الحسین بن مسعود البغوی المتوفی : ۵۱۰ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ {لِیُحِقَّ الْحَقَّ}سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایاکہ وہ بدرمیں اسلام کو ثابت کردے اور{وَیُبْطِلَ الْبَاطِلَ}اورکفرکوفناکردے ۔یادرہے کہ بدرکاواقعہ جمعۃ المبارک کے دن سترہ رمضان المبارک کوپیش آیا۔
(تفسیر البغوی:محیی السنۃ، أبو محمد الحسین بن مسعود البغوی(۳:۳۳۲)
حضرت قاضی ثناء اللہ حنفی پانی پتی کاخوبصورت کلام
وَیُرِیدُ اللَّہُ أَنْ یُحِقَّ الْحَقَّ ای یظہرہ ویعلیہ بِکَلِماتِہِ للوحی بہا فی ہذہ الحال یعنی یأمرہ إیاکم بالقتال او باوامرہ للملئکۃ بالامداد وقیل بمواعدۃ التی سبقت من اظہار الدین وإعزازہ وَیَقْطَعَ دابِرَ الْکافِرِینَ ای یستاصلہم حتی لا یبقی أحد من کفار العرب الا یقتل او یسلم یعنی انکم تریدون ان تصیبوا مالا ولا تلقوا مکروہا واللہ یرید إعلاء الدین واظہار الحق وما یحصل لکم فوز الدارین.لِیُحِقَّ الْحَقَّ متعلق بیقطع او بمحذوف تقدیرہ فعل ما فعل لیثبت الإسلام وَیُبْطِلَ الْباطِلَ یعنی الکفر ولیس فی الکلام تکریر فان الاول لبیان المراد وبیان ما بین مرادہ تعالی ومرادہم من التفاوت والثانی لبیان الداعی الی حمل الرسول الی اختیار ذات الشوکۃ ونصرۃ علیہا وَلَوْ کَرِہَ الْمُجْرِمُونَ یعنی المشرکین۔
ترجمہ :حضرت قاضی ثناء اللہ حنفی پانی پتی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی کایہ فرمان شریف {وَیُرِیدُ اللَّہُ أَنْ یُحِقَّ الْحَق}کامطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی حق کو ظاہرکرناچاہتاتھااورسربلندکرناچاہتاتھا، {بِکَلِماتِہ}یعنی تم کو جہاد اورجنگ کاحکم دے کر۔ یافرشتوں کو تمھاری مددکے احکام دے کر۔ بعض کے نزدیک کلمات سے مرادوہ وعدہ ہے جواللہ تعالی نے دین کو غالب کرنے اورمعززکرنے کاپہلے کیاتھا، { وَیَقْطَعَ دابِرَ الْکافِرِین}اورکافروں کی بیخ کنی کردے کہ سارے عرب شریف میں کوئی کافربغیراسلام قبول کرنے نہ رہے ، اگررہے توقتل کردیاجائے ، مطلب یہ کہ تم بغیرشدت وتکلیف کے مال کے خواستگارتھے اوراللہ تعالی چاہتاتھاکہ دین غالب آئے ، حق ظاہرہواورتم کو دونوں جہانوں میں کامیابی حاصل ہو۔{لِیُحِقَّ الْحَقَّ}اس کاتعلق محذوف فعل سے ہے ، یعنی اللہ تعالی نے جوکچھ کیااس لئے کیاکہ اسلام کو عملاًثابت ومضبوط کردے یا{یَقْطَع}سے متعلق ہے یعنی اللہ تعالی کافروں کی جڑ اس لئے کاٹناچاہتاتھاکہ احقا ق حق کردے اور{وَیُبْطِلَ الْباطِلَ }اورکفرکوباطل کردے۔
بظاہرکلام میں تکرارنظرآرہی ہے کیونکہ پہلے بھی {لِیُحِقَّ الْحَقَّ}فرمایااورپھر{لِیُحِقَّ الْحَقَّ}فرمایا، اسی طرح پہلے { وَیَقْطَعَ دابِرَ الْکافِرِین}فرمایااورپھر{وَیُبْطِلَ الْباطِلَ }فرمایالیکن حقیقت میں یہاں کوئی تکرارنہیں ہے ، اول جملہ توصرف بیان مقصدکے لئے ہے ، اس کی غرض تویہ ہے کہ اللہ تعالی کے مقصدمیں اورمسلمانوں کے مقصدمیں جوفرق تھا، اس کو واضح کردیاجائے اوردوبارہ ذکرکرنے کی علت یہ ہے کہ وہ سبب واضح کردیاجائے جس کی وجہ سے حضورتاجدارختم نبوتﷺکوطاقتورلشکرسے مقابلہ کرنے کاحکم دیاگیا۔
{ وَلَوْ کَرِہَ الْمُجْرِمُونَ}سے مراد مشرکین ہیں، اس کامطلب یہ ہے کہ اہل اسلام غلبہ اسلام کے لئے کام کریں اورجہاد کریں چاہے مشرکین کوپسندنہ ہو۔
(التفسیر المظہری:المظہری، محمد ثناء اللہ(۴:۱۸)
معارف ومسائل
(۱)یہ بھی ذہن میں رہے کہ اس معرکہ میں اہل اسلام کی تعدادبہت کم تھی اورنہتے بھی تھے اوران کے پاس صرف اورصرف دوگھوڑے اورآٹھ تلواریں تھیں جبکہ کفارومشرکین کے پاس لشکرہزارکے قریب تھا، ان کے پاس دوسوگھوڑے تھے اورسات سوزرہیں تھیں اورنوسوتلواریں تھیں مگرظاہری اسباب کامیابی کے اسباب نہیں ہوتے ، یہ سب کچھ مسبب الاسباب کے ہاتھ میں ہوتاہے وہ اگرچاہے توابرہہ اشرم کے سترہزارلشکرجرارمسلح کواپنی کمزورمخلوق پرندوں سے تہس نہس کرکے صفحہ ہستی سے مٹادے توقادرہے اوراس کے لئے آسان ہے ۔
(۲)اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہواکہ اہل اسلام کوکفرکی اصل طاقت پروارکرناچاہئے اورجہادکے عمل کوزندہ رکھناچاہئے تاکہ احقاقِ حق ہواوراسلام کوغلبہ حاصل ہو۔
(۳)اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ شعاراسلام میں ایک اہم ترین شعارجہاد بھی ہے اوردین اسلام کاغلبہ صرف اورصرف اسی جہاد ہی کی برکت سے ہے اورکافرکویہ کبھی بھی پسندنہیں ہے ، اگراہل اسلام اس حقیقت کو اپنے دل میں بسالیں توامت مسلمہ کی اس جملہ سے جان چھوٹ جائے گی کہ ’’اسلام کافروں کی نظروں میںبدنام ہورہاہے‘‘یقیناہروہ عمل جس سے اسلام اورمسلمانوں کونفع پہنچے گاوہ عمل یقینایقینااسلام کے دشمن اورلبرل وسیکولرطبقہ کی نظروں میں بدنام ہوگاتوکیااہل اسلام کافروں کی پسندوناپسندکی وجہ سے اپنے مذہبی شعارکوترک کردیں گے ؟اس طرح وہ کل کلاں آپ کے کلمہ ، نماز ،روزہ ، حج وزکوۃ کو بھی معیوب جاننے لگیں توآپ وہ بھی ترک کردیں گے؟خداکے لئے اہل اسلام صرف اورصرف اپنے رب تعالی کی رضاومنشاکودیکھیں کہ وہ کیاچاہتاہے اوروہ کس عمل سے راضی ہے ۔