تفسیر سورۃالانفال آیت ۱۳۔۱۴۔ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ شَآقُّوا اللہَ وَرَسُوْلَہ وَمَنْ یُّشَاقِقِ اللہَ وَرَسُوْلَہ فَاِنَّ اللہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ

بدر حضورتاجدارختم نبوتﷺکے گستاخوں سے انتقام کادن تھا

{ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ شَآقُّوا اللہَ وَرَسُوْلَہ وَمَنْ یُّشَاقِقِ اللہَ وَرَسُوْلَہ فَاِنَّ اللہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ }(۱۳){ذٰلِکُمْ فَذُوْقُوْہُ وَ اَنَّ لِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابَ النَّارِ }(۱۴)
ترجمہ کنزالایمان:یہ اس لیے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے مخا لفت کی اور جو اللہ اور اس کے رسول سے مخالفت کرے تو بیشک اللہ کا عذاب سخت ہے۔یہ تو چکھو اور اس کے ساتھ یہ ہے کہ کافروں کو آگ کا عذاب ہے۔
ترجمہ ضیاء الایمان:یہ عذاب اس لیے ہواکہ انہوں نے اللہ تعالی اور اس کے رسول کریمﷺ سے مخا لفت کی اور جو اللہ تعالی اور اس کے رسول کریمﷺسے مخالفت کرے تو بیشک اللہ تعالی کی سزا بڑی سخت ہے۔تواس کامزہ چکھواور اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ کافروں کے لئے آگ کا عذاب ہے۔

اللہ تعالی اورحضورتاجدارختم نبوتﷺکے مخالفوں کے لئے دنیاوآخرت میں عذاب

وَالْمَعْنَی:أَنَّہُ تَعَالَی أَلْقَاہُمْ فِی الْخِزْیِ وَالنَّکَالِ مِنْ ہَذِہِ الْوُجُوہِ الْکَثِیرَۃِ بِسَبَبِ أَنَّہُمْ شَاقُّوا اللَّہ وَرَسُولَہُ.یَعْنِی أَنَّ ہَذَا الَّذِی نَزَلَ بِہِمْ فِی ذَلِکَ الْیَوْمِ شَیْء ٌ قَلِیلٌ مِمَّا أَعَدَّہُ اللَّہ لَہُمْ مِنَ الْعِقَابِ فِی الْقِیَامَۃِ، وَالْمَقْصُودُ منہ الزجر عن الکفر والتہدید علیہ۔أَنَّہُ تَعَالَی لَمَّا بَیَّنَ أَنَّ مَنْ یُشَاقِقِ اللَّہ وَرَسُولَہُ فَإِنَّ اللَّہ شَدِیدُ الْعِقَابِ، بَیَّنَ مِنْ بَعْدِ ذَلِکَ صِفَۃَ عِقَابِہِ، وَأَنَّہُ قَدْ یَکُونُ مُعَجَّلًا فِی الدُّنْیَا، وَقَدْ یَکُونُ مُؤَجَّلًا فِی الْآخِرَۃِ، وَنَبَّہَ بِقَوْلِہِ: ذلِکُمْ فَذُوقُوہُ وَہُوَ الْمُعَجَّلُ مِنَ الْقَتْلِ وَالْأَسْرِ عَلَی أَنَّ ذَلِکَ یَسِیرٌ بِالْإِضَافَۃِ إِلَی الْمُؤَجَّلِ لَہُمْ فِی الْآخِرَۃِ۔

ترجمہ:امام فخرالدین الرازی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ{ِ أَنَّہُمْ شَاقُّوا اللَّہ وَرَسُولَہُ} اس کامعنی یہ ہے کہ اللہ تعالی نے کثیروجوہات سے انہیں رسوائی اورذلت میں اس لئے ڈالاکہ انہوںنے اللہ تعالی اوراس کے حبیب کریم ﷺکی مخالفت کی تھی ۔

{وَمَنْ یُّشَاقِقِ اللہَ وَرَسُوْلَہ}کامعنی یہ ہے کہ آج کے دن اس میں سے قلیل عذاب ان مشرکین مکہ پرنازل ہواہے جو قیامت کے دن ان کے لئے تیارکیاگیاہے اوراس سے مقصودکفرپرزجروتوبیخ ہے ۔
{ذٰلِکُمْ فَذُوْقُوْہُ وَ اَنَّ لِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابَ النَّارِ }کامطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے جب یہ واضح کردیاکہ جو اللہ تعالی اورحضورتاجدارختم نبوتﷺکی مخالفت کرے اللہ تعالی اسے شدیدعذاب میں مبتلاء فرمائے گا، پھراس کے بعد عذاب کی صفت بیان کی کہ وہ کبھی دنیامیں عذاب ہوگااورکبھی آخرت میں اسے موخرکیاجائے گاتوارشادگرامی ہے کہ {ذلِکُمْ فَذُوقُوہُ }سے اس پرتنبیہ کی اوریہ دنیامیں ہی قتل وگرفتارہوناہے اوریہ چیز آخرت میں مقررعذاب کی نسبت آسان ہے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۱۵:۴۵۴)

مشرکین مکہ پرعذاب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مخالفت کی وجہ سے آیا

ذلِکَ بِأَنَّہُمْ شَاقُّوا اللَّہَ ای شاقُّوا اللَّہَ أَیْ أَوْلِیَاء َہُ.
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ انہوںنے اللہ تعالی کی مخالفت کی سے مرادیہ ہے کفارمکہ نے اللہ تعالی کے اولیاء کرام یعنی حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مخالفت کی ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۷:۳۷۹)

بدرمیں صرف اورصرف گستاخوں کو عذاب دیاگیا

أَنَّہُمْ شَاقُّوا اللَّہَ وَرَسُولَہُ یعنی بسبب انہم عاندوہما۔
ترجمہ :حضرت قاضی ثناء اللہ حنفی پانی پتی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ {أَنَّہُمْ شَاقُّوا اللَّہَ وَرَسُولَہ}کامطلب یہ ہے کہ مکہ کے کافروںنے اللہ تعالی اورحضورتاجدارختم نبوتﷺسے دشمنی کی تواللہ تعالی نے ان کو بدرمیں یہ عذاب چکھایا۔
(التفسیر المظہری:المظہری، محمد ثناء اللہ(۴:۳۵)

معارف ومسائل

(۱) اہل اسلام جہاد میں صرف اورصرف اس لئے شرکت کریں کہ یہ لوگ اللہ تعالی اوراس کے حبیب کریمﷺکے دشمن اورگستاخ ہیں ، اس کے علاوہ ان کی کوئی نیت نہ ہوتوان شاء اللہ تعالی فتح یقینی ہے ۔ یعنی جہاد میں کلمۃ اللہ کو بلندکرنے کے لئے جائے اوراللہ تعالی اورحضورتاجدارختم نبوتﷺکی رضاپانے کی نیت سے جائے ، اپنی ناموری ، ملک گیری کے لئے نہ جائے ۔
(۲) حضورتاجدارختم نبوتﷺکی مخالفت اوردشمنی رب تعالی کی مخالفت اوردشمنی ہے ، دیکھوکفارتوصرف حضورتاجدارختم نبوتﷺیاپھرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دشمن تھے مگررب تعالی نے فرمایاکہ اللہ تعالی اوراس کے حبیب کریم ﷺکے دشمن ۔یوں ہی حضورتاجدارختم نبوتﷺکادوست رب تعالی کادوست ہے ۔ ( تفسیرنعیمی ( ۹: ۴۷۷)
(۳)ان آیات کریمہ میں کافروں کومارنے کاحکم اس لئے دیاگیاہے کہ انہوںنے اللہ تعالی اورحضورتاجدارختم نبوتﷺکی مخالفت اوردشمنی کی ہے ، اللہ تعالی کی زمین میں فسق وفساد پھیلاکرنمک حرامی کی ہے ، ان کو اللہ تعالی نے جس مقصدکے لئے پیدافرمایاانہوںنے اس مقصدکے ساتھ بغاوت کی ، سویہ فیصلہ حق بجانب ہے کہ جو کوئی اللہ تعالی اورحضورتاجدارختم نبوتﷺکے ساتھ بغاوت کرے یاان کی شان عظیم میں گستاخی کرے تواس کی سزادنیامیں قتل اورآخرت میں جہنم ہے ۔
(۴) اس آیت کریمہ سے معلوم ہواکہ دنیامیں سب سے بڑاجرم اورسب سے قابل نفرت جرم اللہ تعالی اورحضورتاجدارختم نبوتﷺکی مخالفت اوردشمنی ہے ۔

Leave a Reply

%d bloggers like this: