تفسیر سورۃالانفال آیت ۱ تا ۶ ۔ معرکہ بدرکے اقدامی ہونے پردلائل قاہرہ اوراس کے منکرین کارد بلیغ

معرکہ بدرکے اقدامی ہونے پردلائل قاہرہ اوراس کے منکرین کارد بلیغ

سورۃ الانفال شریف کی آیت نمبرپانچ سے غزوہ بدرشریف کاذکرہورہاہے اس لئے ضروری ہے کہ اس کے متعلق گفتگوہوجائے ۔
حضورتاجدارختم نبوتﷺکاغزوہ بدرسے مقصدقریش کے اس تجارتی قافلہ پریلغارکرناتھاکہ جوابوسفیان کی کارکردگی میں شام سے واپس آرہاتھا، قریش مکہ کے کسی بھی حملہ سے دفاع مقصودنہ تھا، آجکل کے بعض نام نہاد دانشورکہتے ہیں کہ غزوہ بدرکامقصدکاروان تجارت پر حملہ کرنانہ تھا، بلکہ آپ ﷺکو مدینہ منورہ میں ہی یہ خبرآگئی تھی کہ قریش ایک عظیم لشکرلیکر مدینہ منورہ پرحملہ کرنے کے لئے نکلے ہیں ، اس لئے حضورتاجدارختم نبوتﷺان سے دفاع کے قصدسے نکلے اوربدرکامعرکہ پیش آیا، غزوہ بدرسے مقصود آپ ﷺکاکاروان تجارت پرحملہ کرنانہ تھا، بلکہ قریش کے حملے کادفاع مقصود تھا۔
ان نام نہاددانشوروں کایہ خیال تمام محدثین ومفسرین کی تصریحات بلکہ تمام صحیح اورصریح روایات کے خلاف ہے ۔

بدرکامعرکہ اقدامی تھانہ کہ د فاعی

وروی بن أَبِی حَاتِمٍ مِنْ حَدِیثِ أَبِی أَیُّوبَ قَالَ قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ بِالْمَدِینَۃِ إِنِّی أُخْبِرْتُ عَنْ عِیرِ أَبِی سُفْیَانَ فَہَلْ لَکُمْ أَنْ تَخْرُجُوا إِلَیْہَا لَعَلَّ اللَّہَ یُغْنِمُنَاہَا قُلْنَا نَعَمْ فَخَرَجْنَا فَلَمَّا سِرْنَا یَوْمًا أَوْ یَوْمَیْنِ قَالَ قَدْ أُخْبِرُوا خَبَرَنَا فَاسْتَعِدُّوا لِلْقِتَالِ فَقُلْنَا لَا وَاللَّہِ مَا لَنَا طَاقَۃٌ بِقِتَالِ الْقَوْمِ فَأَعَادَہُ فَقَالَ لَہُ الْمِقْدَادُ لَا نَقُولُ لَکَ کَمَا قَالَتْ بَنُو إِسْرَائِیلَ لِمُوسَی وَلَکِنْ نَقُولُ إِنَّا مَعَکُمَا مُقَاتِلُونَ قَالَ فَتَمَنَّیْنَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ لَوْ أَنَّا قُلْنَا کَمَا قَالَ الْمِقْدَادُ فَأَنْزَلَ اللَّہُ تَعَالَی کَمَا أَخْرَجَکَ رَبُّکَ مِنْ بَیْتِکَ بِالْحَقِّ وَإِنَّ فَرِیقًا من الْمُؤمنِینَ لکارہون۔

ترجمہ :حضرت سیدناابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے ہم سے مدینہ منورہ میں یہ فرمایاکہ مجھ کو یہ خبردی گئی ہے کہ ابوسفیان کاتجارتی قافلہ آرہاہے ، کیاتم کو یہ مرغوب ہے کہ تم اس تجارتی قافلے کو پکڑنے کے لئے خروج کرو؟عجب نہیں کہ اللہ تعالی اس قافلے کے اموال ہم کوبطورغنیمت کے عطافرمائے ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی : یارسول اللہ ﷺ!جی ہم کو یہ امرمرغوب ہے ۔ اس کے بعد ہم روانہ ہوگئے ، ایک یادودن کی مسافت طے کرنے کے بعد حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا:کفارمکہ کوہماری روانگی کی اطلاع مل چکی ہے ، وہ تیارہوکرہمارے ساتھ مقابلہ اورمقاتلہ کے لئے آرہے ہیں ، تم بھی ان کے ساتھ جہاد اورقتال کے لئے تیارہوجائو۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی : یارسول اللہ ﷺ!ظاہری اسباب میں ہم میں یہ طاقت نہیں کہ ہم مٹھی بھر جماعت قریش کے مسلح لشکرکے ساتھ مقابلہ کرسکیں۔ ہم تووہاں سے ابوسفیان کے قافلہ تجارت پر حملہ کرنے کے لئے نکلے تھے ، یعنی ہم کو اس کاوہم وگمان ہی نہ تھاکہ قریش سے اس طرح مقابلہ کرناپڑے گاکہ کچھ تیارہوکرنکلتے ، آپ ﷺنے اسی کام کااعادہ فرمایا۔ حضر ت سیدنامقداد رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہوکرعرض کی : یارسول اللہ ْﷺ!ہم بنی اسرائیل کی طرح آپ ﷺسے یہ نہیں کہیںگے کہ آپﷺاورآپﷺکارب جاکرلڑیں ہم تویہیں بیٹھے ہیں بلکہ ہم توآپﷺکے دائیں،بائیں اورآگے ،پیچھے ہرطرف سے آپﷺکے دشمنوں کے خلاف لڑیں گے ۔ حضرت سیدناابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اے انصار کی جماعت کاش کہ یہی بات ہم نے عرض کی ہوتی جوحضرت سیدنامقدادرضی اللہ عنہ نے کی ہے ، پھراللہ تعالی نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی{ فَأَنْزَلَ اللَّہُ تَعَالَی کَمَا أَخْرَجَکَ رَبُّکَ مِنْ بَیْتِکَ بِالْحَقِّ وَإِنَّ فَرِیقًا من الْمُؤمنِینَ لکارہون}
(فتح الباری شرح صحیح البخاری:أحمد بن علی بن حجر أبو الفضل العسقلانی الشافعی(۷:۲۸۸)

بدرکے اقدامی ہونے پردوسری حدیث شریف

عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ وَغَیْرِہِمْ مِنْ عُلَمَائِنَا عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبَّاسٍ، کُلٌّ قَدْ حَدَّثَنِی بَعْضَ ہَذَا الْحَدِیثِ فَاجْتَمَعَ حَدِیثُہُمْ فِیمَا سُقْتُ مِنْ حَدِیثِ بَدْرٍ قَالُوا لَمَّا سَمِعَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِأَبِی سُفْیَانَ مُقْبِلًا مِنَ الشَّامِ نَدَبَ الْمُسْلِمِینَ إِلَیْہِمْ، وَقَالَ ہَذِہِ عِیرُ قُرَیْشٍ فِیہَا أَمْوَالُہُمْ، فَاخْرُجُوا إِلَیْہَا لَعَلَّ اللَّہَ أی یَنْفِلَکُمُوہَا فَانْتَدَبَ النَّاسُ فَخَفَّ بَعْضُہُمْ وَثَقُلَ بَعْضُہُمْ، وَذَلِکَ أَنَّہُمْ لَمْ یَظُنُّوا أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَلْقَی حَرْبًا.وَکَانَ أَبُو سُفْیَانَ قَدِ اسْتَنْفَرَ حِینَ دَنَا مِنَ الْحِجَازِ یَتَجَسَّسُ الْأَخْبَارَ، وَیَسْأَلُ مَنْ لَقِیَ مَنِ الرُّکْبَانِ تَخَوُّفًا عَلَی أَمْرِ النَّاسِ، حَتَّی أَصَابَ خَبَرًا مِنْ بَعْضِ الرُّکْبَانِ أَنَّ مُحَمَّدًا قَدِ اسْتَنْفَرَ أَصْحَابَہُ لَکَ وَلِعِیرِکَ، فَحَذِرَ عِنْدَ ذَلِکَ فَاسْتَأْجَرَ ضَمْضَمَ بْنَ عَمْرٍو الْغِفَارِیَّ فَبَعَثَہُ إِلَی أَہْلِ مَکَّۃَ وَأَمَرَہُ أَنْ یَأْتِیَ قُرَیْشًا فَیَسْتَنْفِرَہُمْ إِلَی أَمْوَالِہِمْ وَیُخْبِرَہُمْ أَنَّ مُحَمَّدًا قَدْ عَرَضَ لَہَا فِی أَصْحَابِہِ، فَخَرَجَ ضَمْضَمُ بْنُ عَمْرٍو سَرِیعًا إِلَی مَکَّۃَ، وَخَرَجَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی أَصْحَابِہِ، حَتَّی بَلَغَ وَادِیًا یُقَالُ لَہُ ذَفِرَانَ، فَخَرَجَ مِنْہُ حَتَّی إِذَا کَانَ بِبَعْضِہِ نَزَلَ وَأَتَاہُ الْخَبَرُ عَنْ قریش بمسیرہم لیمنعوا عیرہم۔الحدیث ۔

ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیںکہ جب حضورتاجدارختم نبوتﷺنے سناکہ ابوسفیان شام سے تجارتی سامان اورقافلے کے ساتھ آرہاہے توآپ ﷺنے اہل اسلام کو فرمایاکہ چلواوران کاراستہ روکو!ممکن ہے کہ اللہ تعالی ان کے یہ مال واسباب تم کوعطافرمادے ۔چونکہ کسی لڑنے والی جماعت سے لڑائی کرنے کاخیال بھی نہ تھا، اسی لئے لوگ بغیرکسی تیاری کے جیسے تھے ویسے ہی ہلکے پھلکے نکل کھڑے ہوئے ، ابوسفیان بھی غافل نہ تھا، اس نے بھی جاسوس چھوڑرکھے تھے اورآنے والوں سے بھی دریافت حال کررہاتھا،ایک قافلے سے اس کو معلوم ہوگیاکہ حضورتاجدارختم نبوتﷺاپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو لیکرتیرے قافلے کی جانب روانہ ہوچکے ہیں ۔ اس نے ضیغم بن عمروغفاری کو انعام دے دلاکراسی وقت قریش ِ مکہ کی طرف یہ پیغام دے کربھیجاکہ تمھارے مال خطرے میں ہیں ، حضورتاجدارختم نبوتﷺاپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ اس طرف آرہے ہیں ، تم کو چاہئے کہ تم پوری تیاری کے ساتھ فوراًہماری مددکرنے کے لئے آئو، اس نے بہت جلد وہاں پہنچ کرخبردی کہ قریش نے اسی وقت حملہ کی زبردست تیاری کی اوراسی وقت نکل کھڑے ہوئے ۔ اللہ تعالی کے حبیب کریم ﷺجب وادی ذفران میں پہنچے توآپ ﷺکوقریش کے لشکروں کوسازوسامان کے ساتھ نکلنامعلوم ہوگیا، آپ ﷺنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ لیااوریہ خبربھی دی ۔
(تفسیر ابن کثیر:أبو الفداء إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی البصری ثم الدمشقی (۴:۱۴)

امام ابن حجررحمہ اللہ تعالی نقل کرتے ہیں

وَالسَّبَبُ فِی ذَلِکَ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَدَبَ النَّاسَ إِلَی تَلَقِّی أَبِی سُفْیَانَ لِأَخْذِ مَا مَعَہُ مِنْ أَمْوَالِ قُرَیْشٍ وَکَانَ مَنْ مَعَہُ قَلِیلًا فَلَمْ یَظُنَّ أَکْثَرُ الْأَنْصَارِ أَنَّہُ یَقَعُ قِتَالٌ فَلَمْ یَجُزْ مَعَہُ مِنْہُمْ إِلَّا الْقَلِیلُ وَلَمْ یَأْخُذُوا أُہْبَۃَ الِاسْتِعْدَادِ کَمَا یَنْبَغِی بِخِلَافِ الْمُشْرِکِینَ فَإِنَّہُمْ خَرَجُوا مُسْتَعِدِّینَ ذَابِّینَ عَنْ أَمْوَالِہِمْ۔
ترجمہ :امام أحمد بن علی بن حجر أبو الفضل العسقلانی الشافعی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ غزوہ بدرکاسبب یہ ہواکہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے لوگوں کو ابوسفیان کے تجارتی قافلے کی طرف خروج کی دعوت دی ، تاکہ اس کے اموال کے ذخائرپرقبضہ کیاجائے کیونکہ اس قافلے میں مال زیادہ تھااورآدمی کم تھے ، تیس چالیس لوگ تھے ، اسی لئے اکثرانصارصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ گمان بھی نہ ہواکہ نوبت قتال تک جاپہنچے گی ، اس لئے بہت تھوڑے آدمی آپ ﷺکے ساتھ ملے اورلڑائی کی خاص تیاری نہیں کی تھی ، بخلاف مشرکین کے وہ پوری تیاری کے ساتھ مکہ مکرمہ سے نکلے تھے تاکہ اپنے اموال کی حفاظت ومدافعت کریں۔
(فتح الباری شرح صحیح البخاری:أحمد بن علی بن حجر أبو الفضل العسقلانی الشافعی(۷:۲۸۵)
چوتھاقول
وَہُوَ یَقُولُ:یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ اللَّطِیمَۃَ اللَّطِیمَۃَ ، أَمْوَالُکُمْ مَعَ أَبِی سُفْیَانَ قَدْ عَرَضَ لَہَا مُحَمَّدٌ فِی أَصْحَابِہِ، لَا أَرَی أَنْ تُدْرِکُوہَا، الْغَوْثَ الْغَوْثَ.
ترجمہ :حافظ ابن کثیرالمتوفی : ۷۷۴ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ابوسفیان کو جب یہ خبرملی کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺان کے قافلہ پرحملہ کرنے کے لئے مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے ہیں ، تواس نے فوراًضمضم غفاری کو پیغام دے کرمکہ مکرمہ روانہ کیااورکہاکہ اے گروہ قریش !دوڑواورخبرلواپنے ان اونٹوں کی جوکپڑوں اورسامان سے لدے ہوئے ہیںاورخبرلواپنے مالوں کی کہ محمدﷺاپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو لے کرہم پرحملہ کرنے کے لئے راونہ ہوچکے ہیں۔ میں گمان نہیں کرتاکہ تم اپنے اموال کو صحیح وسالم پاسکوگے ۔ المددالمددمطلب کہ تم جلدی اپنے قافلے کی مددکرنے کے لئے پہنچو!۔
(البدایۃ والنہایۃ:أبو الفداء إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی البصری ثم الدمشقی(۳:۳۱۵)
پانچویں روایت
قَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ: وَلَمَّا رَأَی أَبُو سُفْیَانَ أَنَّہُ قَدْ أَحْرَزَ عِیرَہُ، أَرْسَلَ إِلَی قُرَیْشٍ:إِنَّکُمْ إِنَّمَا خَرَجْتُمْ لِتَمْنَعُوا عِیرَکُمْ وَرِجَالَکُمْ وَأَمْوَالَکُمْ، فَقَدْ نَجَّاہَا اللَّہُ فَارْجِعُوا، فَقَالَ أَبُو جَہْلِ بْنُ ہِشَامٍ: وَاللَّہِ لَا نَرْجِعُ حَتَّی نَرِدَ بَدْرًا ۔
ترجمہ :ابوسفیان نے ضمضم غفاری کے روانہ کرنے کے بعدنہایت احتیاط سے کام لیااورساحل کے راستے سے قافلے کو بچاکرنکل گیاجب قافلہ مسلمانوں کی زدسے نکل گیاتوابوسفیان نے ایک دوسراپیغام قریش کے نام روانہ کیااس کے پیغام کے متعلق امام محمدابن اسحاق رحمہ اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ جب ابوسفیان نے دیکھاکہ وہ اپنے قافلے کو اہل اسلام سے بچاکرلے گیا ہے توقریش کی طرف یہ پیغام بھیجاکہ تم فقط اپنے کاروان تجارت اوراپنے آدمیوں کی حفاظت کے لئے آئے تھے اللہ تعالی نے ان سب کو بچالیالھذاتم سب اب مکہ واپس چلے جائو!لیکن ابوجہل نے یہ سنتے ہی کہاکہ اب ہم واپس نہیں جائیں گے جب تک کہ بدرپہنچ کران سے مقابلہ نہ کرلیں۔
(البدایۃ والنہایۃ:أبو الفداء إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی البصری ثم الدمشقی(۳:۳۲۴)
چھٹی روایت
یَا بَنِی زُہْرَۃَ قَدْ نَجَّی اللَّہُ لَکُمْ أَمْوَالَکُمْ، وَخَلَّصَ لَکُمْ صَاحِبَکُمْ مَخْرَمَۃَ بْنَ نَوْفَلٍ، وَإِنَّمَا نَفَرْتُمْ لِتَمْنَعُوہُ وَمَالَہُ، فَاجْعَلُوا بِی جُبْنَہَا وَارْجِعُوا فَإِنَّہُ لَا حَاجَۃَ لَکُمْ بِأَنْ تَخْرُجُوا فِی غَیْرِ ضَیْعَۃٍ لَا مَا یَقُولُ ہَذَا.قَالَ فَرَجَعُوا فَلَمْ یَشْہَدْہَا زُہْرِیٌّ وَاحِدٌ۔

ترجمہ :حافظ ابن کثیرالمتوفی : ۷۷۴ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ابوسفیان کایہ پیغام قریش کو اس وقت پہنچاجب قریش مقام جحفہ میں پہنچ چکے تھے ، لوگوںنے چاہاکہ واپس لوٹ جائیں مگرابوجہل نے قسم کھائی کہ ہم اسی شان سے بدرتک جائیں گے اوربغیرلڑے وہاں سے واپس نہیں آئیں گے مگراخنس بن شریق نے ابوجہل کی بات کو نہ مانااوربنی زہرہ سے مخاطب ہوکریہ کہاکہ اے بنی زہرہ اللہ تعالی نے تمھارے مالوں کو بچالیااورتمھارے ساتھی مخرمہ کو بھی بچالیا، تم توفقط اپنے مالوں کو مسلمانوں سے بچانے کے لئے نکلے تھے، سووہ توبچ گئے لھذاتم سب یہاں سے واپس چلو۔ بے ضرورت نکلنے سے کیافائدہ!اخنس کے کہتے ہی تمام بنی زہرہ راستے سے ہی واپس روانہ ہوگئے ، ایک آدمی بھی بنی زہرہ کابدرکے معرکے میں شریک نہیں ہوا۔
(البدایۃ والنہایۃ:أبو الفداء إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی البصری ثم الدمشقی(۳:۳۲۴)

بنوہاشم توشروع سے ہی جنگ میں نہیں جاناچاہتے تھے ، عاتکہ بنت عبدالمطلب کے خواب کی وجہ سے نکلنے پرآمادہ نہ تھے ، پھرجہیم کے خواب نے ان کو بہت زیادہ مترددکردیا( یہ خواب کتب سیرت میں موجودہیں ان کو دیکھنے کے لئے ان کی طرف رجوع کیاجائے) پھرجب ابوسفیان کاپیغام آگیاکہ کاروان تجارت صحیح سالم بچ نکلاہے تواوربہت سے ترددمیں پڑگئے ، چنانچہ طالب ابن طالب اورکچھ لوگ ان کے ساتھ مکہ مکرمہ واپس چلے گئے ۔ پھرجب اخنس بن شریق بنوزہرہ کولیکرواپس ہوگیاتواورتذبذب میں مبتلاء ہوگئے مگرابوجہل کی ضداورہٹ دھرمی اوراس کے رعب کی وجہ سے بدرکی جانب روانہ ہوئے ، عتبہ اورشیبہ شروع سے ہی چلنے پرتیارنہ تھے اوراخیروقت تک یہی چاہتے رہے کہ مکہ مکرمہ واپس چلے جائیں ۔

کیااب اس قسم کی صریح اورناقابل تاویل روایات کے بعدبھی کسی نام نہاددانشورکے لئے گنجائش ہے کہ یہ کہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺاورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم ابوسفیان کے تجارتی قافلہ پرحملہ کرنے کے لئے نہیں نکلے بلکہ قریش کی جوجماعت مدینہ منورہ پرحملہ کرنے کے لئے نکلی تھی ، حضورتاجدارختم نبوتﷺاس کی مدافعت کے لئے بدرمیں تشریف لے گئے ۔ حضورتاجدارختم نبوت ﷺصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ساتھ لیکرمدینہ منورہ سے جب روانہ ہوئے توآپ ﷺکامقصدصرف اورصرف قریش کاتجارتی قافلہ تھا،ابوجہل اوراس کے لشکرکاوہم وگمان بھی نہ تھابلکہ نفس الامرمیں کہیں اس کاوجود اوراس کانام ونشان بھی نہ تھا، جیساکہ ابوجہل اورقریش کے کہیں حاشیہ خیال میں بھی یہ بات موجود نہ تھی کہ ہم کوئی لشکرلے کرمدینہ منورہ پرحملہ آورہوں بلکہ جب ابوسفیان کے قاصدضمضم غفاری نے مکہ مکرمہ پہنچ کریہ خبرسنائی کہ تمھاراتجارتی قافلہ خطرے میں ہے اورمسلمان اس پر حملہ کرناچاہتے ہیں تواس وقت مکہ مکرمہ میں ہلچل مچ گئی اورقریش ابوجہل کی سرکردگی میں بڑی شان وشوکت کے ساتھ زرہیں پہن کراورپوری طرح مسلح ہوکراپنے تجارتی قافلہ کو بچانے کے لئے نکلے ، قریش کو مقام جحفہ میں پہنچ کر ابوسفیان کی جانب سے یہ اطلاع ملی کہ قافلہ صحیح وسالم بچ نکلاہے اورحضورتاجدارختم نبوتﷺکومقام صفراء میں پہنچ کراطلاع ملی کہ تجارتی قافلہ تونکل گیاہے اورقریش پوری تیاری کے ساتھ مسلح ہوکرآرہے ہیںچونکہ مسلمان کسی بھی جنگ کی نیت سے نہیں نکلے تھے اسی لئے آپ ﷺنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ مشورہ کیاکہ اب کیاکرناچاہئے ، لھذاکسی بھی دانشورکایہ خیال کرناکہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے اول سے آخرتک کسی بھی تجارتی قافلے پرحملے کی نیت نہیں کی بلکہ ابتداء ہی سے حضورتاجدارختم نبوتﷺنے جو سفرشروع فرمایاوہ قریش کے اس فوجی لشکرکے مقابلے اوردفاع کے لئے تھاجواز خود مدینہ منورہ پرحملہ کرنے کے لئے اقدام کرتاہواچلاآرہاتھا، یہ خیال محض وہم باطل ہے جواپنی ایک مذموم درایت اورخود ساختہ اصول پرمبنی ہے ، جس پرتمام ذخیرہ احادیث نبویہ اورارشادات قرآنیہ اورروایات سیرت اورواقعات تاریخیہ کو قربان کرناچاہتے ہیں اورافسوس صد کہ جن اللہ تعالی کے دشمنوں نے حضورتاجدارختم نبوتﷺاورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جانی ومالی نقصان پہنچایاان کو ان کے گھروں سے نکالاہواوران کے اموال پرناجائز قبضے کئے ہوں اورآگے بھی ان کے یہی عزائم ہوں اورایک لمحہ کے لئے بھی اسلام اورمسلمانوں کو مٹانے کی تدبیرسے غافل نہ ہوں سواگرمسلمان ان کوجانی یامالی نقصان پہنچانے کے لئے کوئی اقدام کریں تواس کو خلاف تہذیب اورخلاف انسانیت سمجھاجائے ، جن روایات میں کوئی تاویل چل سکے وہاں تاویل کرلی جائے اورجہاں تاویل نہ چل سکے اس کے ذکرسے چشم پوشی کردی جائے تاکہ اپنے خود ساختہ اصول پرزدنہ پڑے ، یہ شان علم اورامانت کے خلاف ہے ۔

اب رہایہ دعوی کہ مسلمانون کوکافروں پرابتداء ًاز خود حملہ کرناجائز نہیں جب تک کفارازخود حملہ نہ کریں ، مطلب یہ ہے کہ جہاد کے لئے از خود اقدام کرناجائز نہیں ہے بلکہ جب کافرابتداء ًًً حملہ آورہوں توان کادفاع کیاجائے سواس کاجواب ہم پہلے ذکرکرچکے ہیں وہیں پرملاحظہ کیاجائے ۔
کفارمکہ جومسلمانوں کوتیرہ برس تک جانی ومالی نقصان پہنچاچکے ہوں اورہرقسم کے مظالم ان پرڈھاچکے ہوں اورآئندہ بھی باقاعدہ دھمکیاں دیتے ہوں اورمسلمانوں کے خلاف سازشوں میں سرگرداں ہوں اوراس کے بارے میں پیغامات دیتے رہتے ہوں انکے جان ومال پرمسلمانوں کے لئے از خود حملہ کرناجائز نہ ہوعقل ونقل دونوں کے خلاف ہے ۔
نتیجہ بحث
یہ ہے کہ ان تمام روایات سے روز روشن کی طرح واضح ہوگیاکہ حضورتاجدارختم نبوتﷺاورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم مدینہ منورہ سے تجارتی قافلے کے ارادے سے نکلے تھے اورقریش مکہ اسی تجارتی قافلے کو بچانے کے لئے نکلے تھے ، مومن وکافرسب کامطمع نظریہی تجارتی قافلہ ہی تھا، ہردوفریق یہی سمجھے ہوئے تھے ، آجکل کے نام نہاددانشوربزعم خودمفکرین سمجھیں یانہ سمجھیں ، نیزغزوہ بدرسے پہلے جوغزوات اورسرایاپیش آئے وہ اکثروبیشتراقدامی تھے ، دفاعی نہ تھے ، ابتداء ہی حضورتاجدارختم نبوتﷺکی طرف سے ہوئی ۔ لھذایہ کہنابدرکامعرکہ دفاعی تھااقدامی نہ تھاسراسرباطل نظریہ ہے ۔ (فتح الجواد)

Leave a Reply