تفسیر سورۃالانعام آیت ۱۵۳۔ وَ اَنَّ ہٰذَا صِرٰطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ

دین قدیم کوہی تھامنااورجدیدتحقیقات اورریسرچ کرنے والے گمراہوں کے پیچھے نہ چلنا

{وَ اَنَّ ہٰذَا صِرٰطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ}(۱۵۳)
ترجمہ کنزالایمان:اور یہ کہ یہ ہے میرا سیدھا راستہ تو اس پر چلواور اور راہیں نہ چلو کہ تمہیں اس کی راہ سے جدا کردیں گی یہ تمہیں حکم فرمایا کہ کہیں تمہیں پرہیزگاری ملے۔
ترجمہ ضیاء الایمان:اور یہ کہ یہ ہے میرا سیدھا راستہ تو اس پر چلو اور اور راستوں نہ چلو کہ تمہیں اس کی راہ سے جدا کردیں گی یہ تمہیں حکم فرمایا کہ کہیں تم پرہیزگاربن جائو۔

صراط مستقیم کیاہے؟

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ ثَوْرٍ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ أَبَانٍ أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِابْنِ مَسْعُودٍ:مَا الصِّرَاطُ الْمُسْتَقِیمُ؟ قَالَ:تَرَکَنَا مُحَمَّدٌ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی أَدْنَاہُ وَطَرَفُہُ فِی الْجَنَّۃِ، وَعَنْ یَمِینِہِ جَوَادٌ وَعَنْ یَسَارِہِ جَوَادٌ، وَثَمَّ رِجَالٌ یَدْعُونَ مَنْ مَرَّ بِہِمْ فَمَنْ أَخَذَ فِی تِلْکَ الْجَوَادِ انْتَہَتْ بِہِ إِلَی النَّارِ، وَمَنْ أَخَذَ عَلَی الصِّرَاطِ انْتَہَی بِہِ إِلَی الْجَنَّۃِ، ثُمَّ قَرَأَ ابْنُ مَسْعُودٍ:وَأَنَّ ہَذَا صِرَاطِی مُسْتَقِیمًا۔
ترجمہ :حضرت سیدناابان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سوال کیاکہ ’’صراط مستقیم ‘‘کیاہے ؟ توآپ رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے ہم کو اس کے قریب چھوڑاہے ، اس کی ایک جانب جنت ہے اوردائیں جانب بھی راستے ہیں اوراس کی بائیں جانب بھی راستے ہیں اوروہاں لوگ ہیں جو اپنے پاس سے گزرنے والے کو بلاتے ہیں ، پس جس نے ان راستوں میں سے کسی کو اختیارکیاتودوزخ تک پہنچ جائے گااورجوسیدھے راستے پرچلتارہاوہ اس کے سبب جنت پہنچ جائے گا، پھرحضرت سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی ۔
(جامع البیان فی تأویل القرآن:محمد بن جریر بن یزید أبو جعفر الطبری (۱۲:۲۳۰)

نئی ریسرچ کوچھوڑو!پرانے دین کو اپنائو

عَنْ أَبِی قِلَابَۃَ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ مَسْعُودٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ:تَعَلَّمُوا الْعِلْمَ قَبْلَ أَنْ یُقْبَضَ، وَقَبْضُہُ أَنْ یَذْہَبَ أَہْلُہُ، أَلَا وَإِیَّاکُمْ وَالتَّنَطُّعَ، وَالتَّعَمُّقَ، وَالْبِدَعَ، وَعَلَیْکُمْ بِالْعَتِیقِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناابوقلابہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں کہ تم علم کے اٹھ جانے سے پہلے پہلے اسے سیکھ لواوراس کااٹھنایہ ہے کہ اہل علم دنیاسے رخصت ہوجائیں ( یعنی فوت ہوجائیں ) خبردار!تم کلام میں غلوکرنے ، اس کی انتہائی گہرائی تک پہنچنے یاچرب زبانی سے باتیں کرنے اوربدعات اختیارکرنے سے بچو!اورتم پرقدیم اول ( ابتدائی پرانادین ) کو پکڑنالازم ہے ۔
(سنن الدارمی:أبو محمد عبد اللہ بن عبد الرحمن بن الفضل بن بَہرام بن عبد الصمد الدارمی(۱:۲۵۱)

سلف وصالحین کے راستہ کواختیارکرو !

قَالَ ابْنُ شِہَابٍ: وَہَذَا کَقَوْلِہِ تَعَالَی{إِنَّ الَّذِینَ فَرَّقُوا دِینَہُمْ وَکانُوا شِیَعاً }الْآیَۃَ فَالْہَرَبَ الْہَرَبَ، وَالنَّجَاۃَ النَّجَاۃَ! وَالتَّمَسُّکَ بِالطَّرِیقِ الْمُسْتَقِیمِ وَالسَّنَنِ الْقَوِیمِ، الَّذِی سَلَکَہُ السَّلَفُ الصَّالِحُ، وَفِیہِ الْمَتْجَرُ الرَّابِحُ۔
ترجمہ :امام ابن شہاب رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یہ قول اللہ تعالی کے اس فرمان شریف کی طرح ہے کہ {إِنَّ الَّذِینَ فَرَّقُوا دِینَہُمْ وَکانُوا شِیَعاً }( بے شک جنہوںنے اپنے دین میں تفرقہ ڈالااورکئی گروہ بن گئے ) پس بھاگوبھاگو!اورنجات پائو، نجات پائواورصراط مستقیم اورمضبوط طریقے کو مضبوطی کے ساتھ تھام لو،یہ وہی ہے جس پر سلف وصالحین چلے اوریہی نفع بخش راستہ ہے۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۷:۱۳۸)

میرے دین کی پیرو ی کرناجدیدتحقیقات سے بچنا

عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَمْرٍو السُّلَمِیِّ أَنَّہُ سَمِعَ الْعِرْبَاضَ بْنَ سَارِیَۃَ یَقُولُ وَعَظَنَا رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَوْعِظَۃً ذَرَفَتْ مِنْہَا الْعُیُونُ وَوَجِلَتْ مِنْہَا الْقُلُوبُ فَقُلْنَا یَا رَسُولَ اللَّہِ إِنَّ ہَذِہِ لَمَوْعِظَۃُ مُوَدِّعٍ فَمَاذَا تَعْہَدُ إِلَیْنَا قَالَ قَدْ تَرَکْتُکُمْ عَلَی الْبَیْضَاء ِ لَیْلُہَا کَنَہَارِہَا لَا یَزِیغُ عَنْہَا بَعْدِی إِلَّا ہَالِکٌ مَنْ یَعِشْ مِنْکُمْ فَسَیَرَی اخْتِلَافًا کَثِیرًا فَعَلَیْکُمْ بِمَا عَرَفْتُمْ مِنْ سُنَّتِی وَسُنَّۃِ الْخُلَفَاء ِ الرَّاشِدِینَ الْمَہْدِیِّینَ عَضُّوا عَلَیْہَا بِالنَّوَاجِذِ وَعَلَیْکُمْ بِالطَّاعَۃِ وَإِنْ عَبْدًا حَبَشِیًّا فَإِنَّمَا الْمُؤْمِنُ کَالْجَمَلِ الْأَنِفِ حَیْثُمَا قِیدَ انْقَادَ۔

ترجمہ :حضرت سیدناعرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے ہمیں(ایسا)وعظ فرمایا، جس کے اثر سے آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور دل(اللہ کی ناراضی اور عذاب سے)خوف زدہ ہو گئے۔ ہم نے عرض کی:اے حبیب کریم ﷺ!یہ تو ایسا وعظ ہے جیسے کسی رخصت کرنے والے کی نصیحت ،تو آپﷺ ہم سے کیا وعدہ لیتے ہیں؟ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا:میں تمہیں روشن (شریعت)پر چھوڑ رہا ہوں۔ جس کی رات بھی دن کی طرح(روشن)ہے، میرے بعد وہی شخص کج روی اختیار کرے گا جو ہلاک ہونے والا ہے۔ تم میں سے جو کوئی زندہ رہے گا، وہ جلد بہت اختلاف دیکھے گا، لہٰذا تمہیں میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کا جو طریقہ معلوم ہو اسی کو اختیار کرنا۔ اسے داڑھوں کے ساتھ مضبوطی سے پکڑنا۔ اور(امیر کی)اطاعت کو لازم پکڑنا اگرچہ وہ حبشی غلام ہو کیوں کہ مومن تو نکیل والے اونٹ کی طرح ہوتا ہے جہاں لے جایا جائے، چلا جاتا ہے۔
(سنن ابن ماجہ:ابن ماجۃ أبو عبد اللہ محمد بن یزید القزوینی، وماجۃ اسم أبیہ یزید (۱:۱۶)

بدعقیدگی پھیلانے والوں سے بچو!

قال القاضی أبو محمد رضی اللہ عنہ وَہَذِہِ السُّبُلُ تَعُمُّ الْیَہُودِیَّۃَ وَالنَّصْرَانِیَّۃَ وَالْمَجُوسِیَّۃَ وَسَائِرَ أَہْلِ الْمِلَلِ وَأَہْلِ الْبِدَعِ وَالضَّلَالَاتِ مِنْ أَہْلِ الْأَہْوَاء ِ وَالشُّذُوذِ فِی الْفُرُوعِ، وَغَیْرَ ذَلِکَ مِنْ أَہْلِ التَّعَمُّقِ فِی الْجَدَلِ وَالْخَوْضِ فِی الْکَلَامِ. ہَذِہِ کلہا عرضۃ للزلل، ومظنۃ لسوء المعتقد۔
ترجمہ :قاضی ابومحمدرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جن راستوں کی پیروی سے منع کیاگیاہے اس سے مراد یہودیت ، نصرانیت ، مجوسیت ، اورتمام بدمذہب مراد ہیں ، اسی طرح جدیدتحقیقات والے ، نئی ریسرچ والے ،دین کو اپنی خواہشات کے مطابق بیان کرنے والے ، اورنفس پرست کی جملہ گمراہیوں اورفروعات میں شذوذاوراس کے علاوہ انتہائی گہرائی میں جاکرمسائل میں کھودکریدکرنے والوں کی جانب سے علم کلام میں جدل ومناظرہ وغیرہ سبھی کو شامل ہے ۔ اوریہ سب کے سب صراط مستقیم سے ہٹے ہوئے ہیں اورلوگوں میں بدعقیدگی پھیلانے والے ہیں۔
(المحرر الوجیز:أبو محمد عبد الحق بن غالب بن عبد الرحمن بن تمام بن عطیۃ (۲:۳۶۴)

ریسرچ کرنے والے کوحضرت سیدناعمربن عبدالعزیزرضی اللہ عنہ کاجواب

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کَثِیرٍ، قَالَ:حَدَّثَنَا سُفْیَانُ قَالَ کَتَبَ رَجُلٌ إِلَی عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ یَسْأَلُہُ، عَنْ الْقَدَرِ ح، وحَدَّثَنَا الرَّبِیعُ بْنُ سُلَیْمَانَ الْمُؤَذِّنُ، قَالَ:حَدَّثَنَا أَسَدُ بْنُ مُوسَی، قَالَ:حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ دُلَیْلٍ،قَالَ:سَمِعْتُ سُفْیَانَ الثَّوْرِیَّ یُحَدِّثُنَا عَنِ النَّضْرِ ح، وحَدَّثَنَا ہَنَّادُ بْنُ السَّرِیِّ، عَنْ قَبِیصَۃَ، قَالَ:حَدَّثَنَا أَبُو رَجَاء ٍ، عَنْ أَبِی الصَّلْتِ، وَہَذَا لَفْظُ حَدِیثِ ابْنِ کَثِیرٍ وَمَعْنَاہُمْ قَالَ:کَتَبَ رَجُلٌ إِلَی عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ، یَسْأَلُہُ عَنْ الْقَدَرِ؟ فَکَتَبَ: أَمَّا بَعْدُ,أُوصِیکَ بِتَقْوَی اللَّہِ، وَالِاقْتِصَادِ فِی أَمْرِہِ، وَاتِّبَاعِ سُنَّۃِ نَبِیِّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَتَرْکِ مَا أَحْدَثَ الْمُحْدِثُونَ بَعْدَ مَا جَرَتْ بِہِ سُنَّتُہُ، وَکُفُوا مُؤْنَتَہُ، فَعَلَیْکَ بِلُزُومِ السُّنَّۃِ,فَإِنَّہَا لَکَ بِإِذْنِ اللَّہِ عِصْمَۃٌ، ثُمَّ اعْلَمْ أَنَّہُ لَمْ یَبْتَدِعْ النَّاسُ بِدْعَۃً إِلَّا قَدْ مَضَی قَبْلَہَا مَا ہُوَ دَلِیلٌ عَلَیْہَا، أَوْ عِبْرَۃٌ فِیہَا, فَإِنَّ السُّنَّۃَ إِنَّمَا سَنَّہَا مَنْ قَدْ عَلِمَ مَا فِی خِلَافِہَا وَلَمْ یَقُلْ ابْنُ کَثِیرٍ:مَنْ قَدْ عَلِمَ مِنْ الْخَطَإِ وَالزَّلَلِ وَالْحُمْقِ وَالتَّعَمُّقِ، فَارْضَ لِنَفْسِکَ مَا رَضِیَ بِہِ الْقَوْمُ لِأَنْفُسِہِمْ, فَإِنَّہُمْ عَلَی عِلْمٍ وَقَفُوا، وَبِبَصَرٍ نَافِذٍ کَفُّوا، وَہُمْ عَلَی کَشْفِ الْأُمُورِ کَانُوا أَقْوَی، وَبِفَضْلِ مَا کَانُوا فِیہِ أَوْلَی، فَإِنْ کَانَ الْہُدَی مَا أَنْتُمْ عَلَیْہِ لَقَدْ سَبَقْتُمُوہُمْ إِلَیْہِ، وَلَئِنْ قُلْتُمْ: إِنَّمَا حَدَثَ بَعْدَہُمْ مَا أَحْدَثَہُ إِلَّا مَنْ اتَّبَعَ غَیْرَ سَبِیلِہِمْ، وَرَغِبَ بِنَفْسِہِ عَنْہُمْ فَإِنَّہُمْ ہُمْ السَّابِقُونَ، فَقَدْ تَکَلَّمُوا فِیہِ بِمَا یَکْفِی، وَوَصَفُوا مِنْہُ مَا یَشْفِی، فَمَا دُونَہُمْ مِنْ مَقْصَرٍ، وَمَا فَوْقَہُمْ مِنْ مَحْسَرٍ، وَقَدْ قَصَّرَ قَوْمٌ دُونَہُمْ فَجَفَوْا، وَطَمَحَ عَنْہُمْ أَقْوَامٌ فَغَلَوْا، وَإِنَّہُمْ بَیْنَ ذَلِکَ لَعَلَی ہُدًی مُسْتَقِیمٍ کَتَبْتَ تَسْأَلُ عَنْ الْإِقْرَارِ بِالْقَدَرِ؟ فَعَلَی الْخَبِیرِبِإِذْنِ اللَّہِ وَقَعْتَ:مَا أَعْلَمُ مَا أَحْدَثَ النَّاسُ مِنْ مُحْدَثَۃٍ، وَلَا ابْتَدَعُوا مِنْ بِدْعَۃٍ, ہِیَ أَبْیَنُ أَثَرًا، وَلَا أَثْبَتُ أَمْرًا مِنْ الْإِقْرَارِ بِالْقَدَر،ِ لَقَدْ کَانَ ذَکَرَہُ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ الْجُہَلَاء ُ, یَتَکَلَّمُونَ بِہِ فِی کَلَامِہِمْ وَفِی شِعْرِہِمْ، یُعَزُّونَ بِہِ أَنْفُسَہُمْ عَلَی مَا فَاتَہُمْ، ثُمَّ لَمْ یَزِدْہُ الْإِسْلَامُ بَعْدُ إِلَّا شِدَّۃً، وَلَقَدْ ذَکَرَہُ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی غَیْرِ حَدِیثٍ، وَلَا حَدِیثَیْنِ، وَقَدْ سَمِعَہُ مِنْہُ الْمُسْلِمُونَ، فَتَکَلَّمُوا بِہِ فِی حَیَاتِہِ وَبَعْدَ وَفَاتِہِ, یَقِینًا وَتَسْلِیمًا لِرَبِّہِمْ، وَتَضْعِیفًا لِأَنْفُسِہِمْ أَنْ یَکُونَ شَیْء ٌ لَمْ یُحِطْ بِہِ عِلْمُہُ، وَلَمْ یُحْصِہِ کِتَابُہُ، وَلَمْ یَمْضِ فِیہِ قَدَرُہُ، وَإِنَّہُ مَعَ ذَلِکَ لَفِی مُحْکَمِ کِتَابِہِ مِنْہُ اقْتَبَسُوہُ، وَمِنْہُ تَعَلَّمُوہُ، وَلَئِنْ قُلْتُمْ:لِمَ أَنْزَلَ اللَّہُ آیَۃَ کَذَا؟ لِمَ قَالَ کَذَا؟ لَقَدْ قَرَء ُوا مِنْہُ مَا قَرَأْتُمْ، وَعَلِمُوا مِنْ تَأْوِیلِہِ مَا جَہِلْتُمْ، وَقَالُوا بَعْدَ ذَلِکَ کُلِّہِ:بِکِتَابٍ وَقَدَرٍ، وَکُتِبَتِ الشَّقَاوَۃُ، وَمَا یُقْدَرْ یَکُنْ، وَمَا شَاء َ اللَّہُ کَانَ، وَمَا لَمْ یَشَأْ لَمْ یَکُنْ، وَلَا نَمْلِکُ لِأَنْفُسِنَا ضَرًّا وَلَا نَفْعًا، ثُمَّ رَغِبُوا بَعْدَ ذَلِکَ وَرَہِبُوا.
ترجمہ :حضرت سیدناابورجاء رضی اللہ عنہ نے حضرت سیدناابوصلت رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ ایک شخص نے حضرت سیدنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کو خط لکھا ۔ جس میں اس نے ان سے تقدیر کا مسئلہ دریافت کیا ، تو انہوں نے جواب لکھا :حمد و صلاۃ کے بعد ، میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ اللہ تعالی کا تقویٰ اختیار کیے رہو اور اللہ تعالی کے امر میں اعتدال سے کام لو ۔ اللہ تعالی کے حبیب کریمﷺ کی سنت کی اتباع کرو اور بدعتیوں کی بدعات سے دور رہو بالخصوص جب امر دین میں آپ ﷺکی سنت جاری ہو چکی اور اس میں لوگوں کی ضرورت پوری ہو چکی ۔ سنت کو لازم پکڑو یقیناً یہی چیز باذن اللہ تمہارے لیے (گمراہی سے )بچنے کا سبب ہو گی ۔ یاد رکھو ! لوگوں نے جس قدر بھی بدعات نکالی ہیں ، ان سے پہلے وہ رہنمائی آ چکی جو ان (بدعات )کے خلاف دلیل ہے ۔ یا اس میں کوئی نہ کوئی عبرت ہے ۔ بلاشبہ سنت اس مقدس ذات نے عطا فرمائی جنہیں علم تھا کہ اس کی مخالفت میں کیا کیا ہو گا، راوی محمد بن کثیر نے من قد علم کے لفظ روایت نہیں کیے ۔ خطا ٹھوکر اور حماقت اور (ہلاکت کی )کھائی ہے ۔ لہٰذا اپنے آپ کو اس چیز پر راضی اور مطمئن رکھو جس پر قوم (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم )راضی رہے ہیں ، بلاشبہ وہ لوگ علم سے بہرہ ور تھے ۔ (جن باتوں سے انہوں نے منع کیا )گہری بصیرت کی بنا پر منع کیا اور ان حقائق کی آگہی پر ( جن سے تم بزعم خویش آگاہ ہوئے ہو )وہ لوگ زیادہ قادر تھے اور اپنے فضائل کی بنا پر اس کے زیادہ حقدار تھے ۔ اگر حق و ہدایت یہی ہو جسے تم نے سمجھا ہے تو تم گویا ان سے سبقت لے گئے ۔ اگر تم یہ کہو کہ یہ امور صحابہ کرام ضی اللہ عنہم کے بعد نئے ایجاد ہوئے ہیں تو ان کے ایجاد کرنے والے ان (صحابہ کرام ضی اللہ عنہم )کی راہ پر نہیں ہیں ، بلکہ ان سے اعراض کرنے والے ہیں ۔ بلاشبہ وہ صحابہ کرام ضی اللہ عنہم ہی (حق اور نیکی میں )سبقت لے جانے والے تھے ۔ انہوں نے ان امور میں جو بات کی وہی کافی ہے ۔ جو بیان کیا اسی میں شفا ہے ۔ چنانچہ ان سے کم تر پر رکنا کوتاہی (تفریط )ہے اور ان سے بڑھ کر توضیح کرنا زیادتی یا تھکاوٹ (افراط )ہے (ان کے طرز عمل سے کمی کرنا جائز ہے ، نہ ان سے بڑھنا جائز )جنہوں نے کمی کی انہوں نے ظلم کیا اور جو آگے بڑھے انہوں نے غلو کیا ۔ جبکہ وہ ( صحابہ کرام ضی اللہ عنہم )ان کے بین بین ( اصل )ہدایت اور راہ مستقیم پر تھے ۔ تم نے تقدیر کے اقرار کے متعلق لکھ کر پوچھا ہے تو اللہ کے فضل سے تم نے ایک صاحب علم و خبر سے پوچھا ہے ۔ میں نہیں جانتا کہ لوگوں نے جتنی بھی نئی باتیں گھڑی ہیں اور جتنی بھی بدعات ایجاد کی ہیں ان میں تقدیر کے مسئلے سے بڑھ کر بھی کوئی مسئلہ واضح اور دلائل کی رو سے قوی تر ہو ، اس کا ذکر تو قدیم ترین ایام جاہلیت میں بھی ہوتا تھا ، لوگ اپنی گفتگو اور اپنے اشعار میں اس کا ذکر کرتے تھے ، جو چیز انہیں حاصل نہ ہو پاتی تھی ، تقدیر کا ذکر کر کے اس سے تسلی پاتے تھے ۔ پھر اسلام نے ان کے بعد میں عقیدہ تقدیر کو مزید (واضح اور )مستحکم کیا ہے ۔ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے ایک دو نہیں ، متعدد احادیث میں اس کا ذکر کیا ہے ۔ مسلمانوں نے آپ سے سن کر آپ کی زندگی میں اور آپ کے بعد بھی اس کے بارے میں گفتگو کی ۔ جس میں اللہ رب العزت کے سامنے تسلیم و رضا اور اپنے عجز کا اعتراف کیا کہ کوئی چیز ایسی نہیں جس پر اللہ کا علم محیط نہ ہو ، یا کتاب تقدیر میں اس کا شمار نہ ہو ، یا اس میں اس کی تقدیر جاری نہ ہوئی ہو ۔ ساتھ ہی یہ بات اس کی محکم کتاب (قرآن حکیم )میں بھی ہے ۔ صحابہ کرام ضی اللہ عنہم نے اس مسئلہ کو اسی سے اخذ کیا تھا اور یہیں سے وہ اس سے باخبر ہوئے ۔ اگر تم کہو اللہ تعالی نے فلاں آیت کیوں نازل کی اور اس طرح کیوں کہا ؟ تو (ذرا سوچو کہ )انہوں (صحابہ کرام ضی اللہ عنہم )نے بھی تو یہی آیات پڑھیں جو تم نے پڑھیں ۔ البتہ وہ اس کی تفسیر و تاویل پا گئے جس سے تم جاہل رہے ۔ اس کے بعد ان کا قول یہ ہے کہ یہ سب اللہ تعالی کی طرف سے لکھا ہوا اور اس کی تقدیر سے ہے ۔ شقاوت اور بدبختی بھی لکھی ہوئی ہے ۔ جو کچھ مقدر ہے ، ہو جاتا ہے ۔ اللہ جو بھی چاہتا ہے ہوتا ہے اور جو نہیں چاہتا نہیں ہوتا ۔ ہم اپنے نفع اور نقصان کے مالک نہیں ہیں ۔ پھر (اسی اصل پر )وہ اللہ کی طرف راغب رہے اور اسی سے ڈرتے رہے ۔
(سنن أبی داود:أبو داود سلیمان بن الأشعث بن إسحاق بن بشیر (ا:۲۰۲)

جوشخص حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے اصل دین کی بات کرے گالوگ اس کو ذلیل کریںگے

وَقَالَ سَہْلُ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ التُّسْتَرِیُّ: عَلَیْکُمْ بِالِاقْتِدَاء ِ بِالْأَثَرِ وَالسُّنَّۃِ، فَإِنِّی أَخَافُ أَنَّہُ سَیَأْتِی عَنْ قَلِیلٍ زَمَانٌ إِذَا ذَکَرَ إِنْسَانٌ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ والاقتداء بہ فی جمیع أحوال ذَمُّوہُ وَنَفَرُوا عَنْہُ وَتَبْرَء ُوا مِنْہُ وَأَذَلُّوہُ وَأَہَانُوہُ۔
ترجمہ :حضرت سیدناسہل التستری رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ تم پرآثاراوراحادیث شریفہ کی اتباع لازم ہے کیونکہ ڈرہے کہ عنقریب وہ زمانہ آئے گاجوکوئی انسان حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے تمام احوال میں آپ ﷺکی پیروی کرنے کاذکرکرے گاتولوگ اس کی مذمت کریں گے اورلوگ اس سے نفرت کریں گے اورلوگ اس سے برات کااظہارکریں گے اوروہ اسے ذلیل ورسواکریں گے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۷:۱۳۸)

ریسرچ اسکالرکے ساتھ بحث کرنے کانقصان

قَالَ سَہْلٌ:إِنَّمَا ظَہَرَتِ الْبِدْعَۃُ عَلَی یَدَیْ أَہْلِ السُّنَّۃِ لِأَنَّہُمْ ظَاہَرُوہُمْ وَقَاوَلُوہُمْ ، فَظَہَرَتْ أَقَاوِیلُہُمْ وَفَشَتْ فِی الْعَامَّۃِ فَسَمِعَہُ مَنْ لَمْ یَکُنْ یسمعہ، فلو ترکوہم وَلَمْ یُکَلِّمُوہُمْ لَمَاتَ کُلٌّ وَاحِدٍ مِنْہُمْ عَلَی ما فی صدرہ ولم یظہر منہ شی وَحَمَلَہُ مَعَہُ إِلَی قَبْرِہِ.
ترجمہ:حضرت سیدناسہل التستری رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ بے شک بدعت اہل سنت وجماعت کے ہاتھ پرظاہرہوئی ، کیونکہ انہوںنے ان کی معاونت کی ہے اورانہوںنے ہی ان کے ساتھ بحث ومباحثہ کیاہے اوران کے جھوٹے دعوے ظاہرہوئے اورعام لوگوں میں پھیل گئے ، اورہراس شخص نے سن لیاجس نے اسے نہیں سناہواتھا، اوراگراہل سنت ان کوچھوڑدیتے اوران کے ساتھ گفتگوکرنے کے لئے ان کو منہ نہ لگاتے توان میں سے ہرایک اس کے ساتھ ہی مرجاتاجوا س کے سینے میں تھااوراس سے کوئی بھی چیز ظاہرنہ ہوتی اوروہ اسے اپنے ساتھ قبر میںلے کردفن ہوجاتا۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۷:۱۳۸)

جوشخص لبرل وسیکولرسے محبت کرے اس کے تمام اعمال ضائع ہوجاتے ہیں

ثنا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ یَزِیدَ قَالَ:سَمِعْتُ الْفُضَیْلَ یَقُولُ:مَنْ أَحَبَّ صَاحِبَ بِدْعَۃٍ أَحْبَطَ اللہُ عَمَلُہُ وَأَخْرَجَ نُورَ الْإِسْلَامِ مِنْ قَلْبِہِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبدالصمدبن یزیدرحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سیدنافضیل بن عیاض رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سناکہ جو شخص کسی بھی بدعقیدہ ( لبرل ، سیکولر، منکرحدیث ،غامدی مذہب کے پیروکار) سے محبت کرے اللہ تعالی اس کے تمام نیک اعمال بربادکردیتاہے اوراس کے دل سے اسلام کانورنکال دیتاہے ۔
(حلیۃ الأولیا :أبو نعیم أحمد بن عبد اللہ بن أحمد بن إسحاق (۸:۲۰۳)

شیطان کو گناہ سے زیادہ بدعقیدگی کیوں پسندہے؟

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَمْرٍو سَمِعْتُ بِشْرَ بْنَ الْحَارِثِ یَقُولُ سَمِعْتُ یَحْیَی بْنَ الْیَمَانِ یَقُولُ قَالَ سُفْیَانُ (الْبِدْعَۃُ أَحَبُّ إِلَی إِبْلِیسِ مِنَ الَمْعَصِیَّۃِ)زَادَ الْأَشَجُّ (لَأَنَّ الْمَعْصِیَّۃَ یُتَابُ مِنْہَا وَالْبِدْعَۃَ لَا یُتَابُ مِنْہَا۔
ترجمہ :حضرت سیدنایحیی بن یمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدناسفیان رضی اللہ عنہ بیان کرتے تھے کہ شیطان کو گناہ سے بھی زیادہ بدعقیدگی پسندہے ۔ الشیخ الاشج رحمہ اللہ تعالی نے یہ الفاظ زائد نقل کئے ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہ نے یہ بھی فرمایاتھاکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان گناہ سے توتوبہ کرلیتاہے لیکن بدعقیدگی اوربدعت سے توبہ نہیں کرتا۔
(ذم الکلام وأہلہ: أبو إسماعیل عبد اللہ بن محمد بن علی الأنصاری الہروی (۱:۱۲۱)

پرانے دین کو ہی پکڑناتوتمھاری نجات ہوگی

وَقَالَ أَبُو الْعَالِیَۃِ: عَلَیْکُمْ بِالْأَمْرِ الْأَوَّلِ الَّذِی کَانُوا عَلَیْہِ قَبْلَ أَنْ یَفْتَرِقُوا.
ترجمہ :امام عبد الرحمن بن أبی بکر، جلال الدین السیوطی المتوفی : ۹۱۱ھ) رحمہ اللہ تعالی امام ابوالعالیہ رحمہ اللہ تعالی سے نقل کرتے ہیں کہ تم پراس سے پہلے امرکو مضبوطی سے پکڑنالازم ہے جس پرتم تفرقہ سے پہلے تھے ۔
(الأمر بالاتباع والنہی عن الابتداع:عبد الرحمن بن أبی بکر، جلال الدین السیوطی :۷۱)

تم سنت کی بات بھی کرو!

وقال الأوزاعی أیضاً: رأیت رب العزۃ فی المنام، فقال لی: یا أبا عبد الرحمن، أنت الذی تأمر بالمعروف وتنہی عن المنکر، فقلت: بفضلک یا رب قلت:یا رب أَمتَّنِی علی الإسلام، قال:وعلی السنۃ.
ترجمہ :امام الاوزاعی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میں نے خواب میں اللہ تعالی کادیدارکیاتواللہ تعالی نے مجھے فرمایاکہ اے ابوعبدالرحمن! تم نیکی کاحکم کرتے ہواوربرائی سے منع کرتے ہو، میں نے عرض کی : یااللہ !تیرے ہی فضل سے کرتاہوں۔تومیں نے اللہ تعالی کی بارگاہ اقدس میں عرض کی : اے اللہ !مجھے اسلام پرموت دیناتواللہ تعالی نے فرمایاکہ اوریہ بھی کہوکہ میرے حبیب کریم ﷺکی سنت پر ۔
(الأمر بالاتباع والنہی عن الابتداع:عبد الرحمن بن أبی بکر، جلال الدین السیوطی :۷۱)

بنی اسرائیل میں ۷۲ فرقے تواس میں ایک زائدکیوں اوروہ کونساہے؟

(تَفَرَّقَتْ بَنُو إِسْرَائِیلَ عَلَی ثِنْتَیْنِ وَسَبْعِینَ فِرْقَۃً وَإِنَّ ہَذِہِ الْأُمَّۃَ سَتَفْتَرِقُ عَلَی ثَلَاثٍ وَسَبْعِینَ)الْحَدِیثَ وَقَدْ قَالَ بَعْضُ الْعُلَمَاء ِ الْعَارِفِینَ: ہَذِہِ الْفِرْقَۃُ الَّتِی زَادَتْ فِی فِرَقِ أُمَّۃِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ہُمْ قَوْمٌ یُعَادُونَ الْعُلَمَاء َ وَیُبْغِضُونَ الْفُقَہَاء َ، وَلَمْ یَکُنْ ذَلِکَ قَطُّ فِی الْأُمَمِ السَّالِفَۃِ۔

ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکافرمان عالی شان ہے کہ بنی اسرائیل میں ۷۲فرقے ہوئے تھے اورمیری امت میں ۷۳ فرقے ہوں گے ۔ (الحدیث ) بعض اہل معرفت علماء کرام نے فرمایاہے کہ یہ فرقہ جو حضورتاجدارختم نبوتﷺکی امت میں زیادہ ہواہے ، یہ وہ قوم ہے جوعلماء کرام سے دشمنی رکھتی ہے اورفقہاء کرام سے بغض رکھتے ہیں اورپچھلی ساری امتوں میں یہ فرقہ کبھی نہیں ہوا۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکرشمس الدین القرطبی (۷:۱۴۱)
اس سے معلوم ہواکہ اس سے مراد یہ لبرل وسیکولرہیں جو علماء کرام کے دشمن ہیں ، اوریہی سب سے بڑے لعنتی ہیں ۔ جن کے ظہورکی خبرحضورتاجدارختم نبوتﷺنے دی تھی ۔

ایلومناٹی کے پیروکار

حَدَّثَنِی رَافِعُ بْنُ خَدِیجٍ أَنَّہُ سَمِعَ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: یَکُونُ قَوْمٌ مِنْ أُمَّتِی یَکْفُرُونَ بِاللہِ وبِالْقُرَآنِ وَہُمْ لَا یَشْعُرُونَ کَمَا کَفَرَتِ الْیَہُودُ، وَالنَّصَارَی ، قَالَ:قُلْتُ: جُعِلْتُ فِدَاکَ یَا رَسُولَ اللہِ وَکَیْفَ ذَاکَ؟، قَالَ: یُقِرُّونَ بِبَعْضِ الْقَدَرِ ویَکْفُرُونَ بِبَعْضِہِ قَالَ:قُلْتُ:ثُمَّ مَا یَقُولُونَ؟ قَالَ: یَقُولُونَ: الْخَیْرُ مِنَ اللہِ وَالشَّرُّ مِنْ إِبْلِیسَ، فَیُقِرُّونَ عَلَی ذَلِکَ کِتَابَ اللہِ ویَکْفُرُونَ بِالْقُرْآنِ بَعْدَ الْإِیمَانِ وَالْمَعْرِفَۃِ، فَمَا یَلْقَی أُمَّتِی مِنْہُمْ مِنَ الْعَدَاوَۃِ وَالْبَغْضَاء ِ وَالْجِدَالِ أُولَئِکَ زَنَادِقَۃُ ہَذِہِ الْأُمَّۃِ فِی زَمَانِہِمْ یَکُونُ ظُلْمُ السُّلْطَانِ، فَیَنَالُہُمْ مِنْ ظُلْمٍ وَحَیْفٍ وَأَثَرَۃٍ، ثُمَّ یَبْعَثُ اللہُ عَزَّ وَجَلَّ طَاعُونًا فَیُفْنِی عَامَّتَہُمْ، ثُمَّ یَکُونُ الْخَسْفُ فَمَا أَقَلَّ مَا یَنْجُو مِنْہُمْ، الْمُؤْمِنُ یَوْمَئِذٍ قَلِیلٌ فَرَحُہُ، شَدِیدٌ غَمُّہُ، ثُمَّ یَکُونُ الْمَسْخُ فَیَمْسَخُ اللہُ عَزَّ وَجَلَّ عَامَّۃَ أُولَئِکَ قِرَدَۃً وَخَنَازِیرَ، ثُمَّ یَخْرُجُ الدَّجَّالُ عَلَی أَثَرِ ذَلِکَ قَرِیبًاثُمَّ بَکَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتَّی بَکَیْنَا لِبُکَائِہِ، قُلْنَا: مَا یُبْکِیکَ؟ قَالَ:رَحْمَۃً لِہَمِّ الْأَشْقِیَاء ِ، لِأَنَّ فِیہِمُ الْمُتَعَبِّدَ، وَمِنْہُمُ الْمُجْتَہِدَ، مَعَ أَنَّہُمْ لَیْسُوا بِأَوَّلِ مَنْ سَبَقَ إِلَی ہَذَا الْقَوْلِ، وَضَاقَ بِحَمْلِہِ ذَرْعًا، إِنَّ عَامَّۃَ مَنْ ہَلَکَ مِنْ بَنِی إِسْرَائِیلَ بِالتَّکْذِیبِ بِالْقَدَرِ قُلْتُ: جُعِلْتُ فِدَاکَ یَا رَسُولَ اللہِ فَقُلْ لِی کَیْفَ الْإِیمَانُ بِالْقَدَرِ؟ قَالَ:تُؤْمِنُ بِاللہِ وَحْدَہُ وَأَنَّہُ لَا یَمْلِکُ مَعَہُ أَحَدٌ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا وَتُؤْمِنُ بِالْجَنَّۃِ وَالنَّارِ وَتَعْلَمُ أَنَّ اللہَ عَزَّ وَجَلَّ خَالِقُہُمَا قَبْلَ خَلْقِ الْخَلْقِ، ثُمَّ خَلَقَ خَلْقَہُ فَجَعَلَہُمْ مَنْ شَاء َ مِنْہُمْ لِلْجَنَّۃِ، وَمَنْ شَاء َ مِنْہُمْ لِلنَّارِ، عَدْلًا ذَلِکَ مِنْہُ، وَکُلٌّ یَعْمَلُ لِمَا فُرِغَ لَہُ وَہُوَ صَائِرٌ إِلَی مَا فُرِغَ مِنْہُ قُلْتُ:صَدَقَ اللہُ وَرَسُولُہُ۔

ترجمہ :حضرت سیدنارافع بن خدیج رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انہوںنے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکوفرماتے ہوئے سناکہ میری امت میں ایک قوم ہوگی جواللہ تعالی اورقرآن کریم کاانکارکردیں گے ، اس حال میں کہ ان کو احساس وشعوربھی نہیں ہوگا( یعنی وہ خود کو مسلمان سمجھتے ہوں گے ) جیساکہ یہودونصاری نے کفرکیا، میںنے عرض کی : یارسول اللہ ْﷺ!آپ ﷺپرمیں قربان جائوں !وہ کیسے لوگ ہوں گے ؟ آپ ﷺنے فرمایا: وہ دین کی بعض باتوں کااقرارکریں گے اوربعض باتوں کاانکارکریں گے ۔ پھرمیں نے عرض کی : یارسول اللہ ﷺ!آپ ﷺپرمیں قربان جائوں !وہ لوگ کیاکہیں گے ؟ توآپ ﷺنے فرمایا: وہ ابلیس کو اللہ تعالی کے برابراورمساوی قراردیں گے ، اس کی صفت خلق ،قوت اوررزق میں ۔ اورکہیں گے خیراوربھلائی اللہ تعالی کی جانب سے ہے اورشرابلیس کی جانب سے ۔ فرمایاکہ پس وہ اللہ تعالی کے ساتھ کفرکرتے ہیں ۔ میری امت ان کے ساتھ عداوت ، بغض اورجھگڑاوفساد نہیں کرے گی ۔ یہی لوگ میری امت کے زندیق ہیں۔
(المعجم الکبیر:سلیمان بن أحمد بن أیوب بن مطیر اللخمی الشامی، أبو القاسم الطبرانی (۴:۲۴۵)

جب علماء کو چھوڑ کر خود ریسرچ کرناشروع کردیں تو۔۔۔

عَنْ أَبِی مَالِکٍ الْأَشْعَرِیِّ أَنَّہُ سَمِعَ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:لَا أَخَافُ عَلَی أُمَّتِی إِلَّا ثَلَاثَ خِلَالٍ: أَنْ یُکْثَرَ لَہُمْ مِنَ الْمَالِ فَیَتَحَاسَدُوا فَیَقْتَتِلُوا، وَأَنْ یُفْتَحَ لَہُمُ الْکُتُبُ یَأْخُذُ الْمُؤْمِنُ یَبْتَغِی تَأْوِیلَہُ، وَلَیْسَ یَعْلَمُ تَأْوِیلَہُ إِلَّا اللہُ، وَالرَّاسِخُونَ فِی الْعِلْمِ یَقُولُونَ آمَنَّا بِہِ کُلٌّ مِنْ عِنْدِ رَبَّنَا، وَمَا یَذَّکَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ، وَأَنْ یَرَوْا ذَا عِلْمِہِمْ فَیُضَیِّعُوہُ وَلَا یُبَالُونَ عَلَیْہِ ۔

ترجمہ :حضرت سیدناابومالک الاشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انہوںنے حضورتاجدارختم نبوتﷺکوفرماتے ہوئے سناکہ میں اپنی امت پرتین چیزوں کاخوف رکھتاہوں ، ان کے لئے مال بڑھ جائے گاتویہ ایک دوسرے سے حسدکریں گے اورقتل وغارت گری کریں گے ، ان کے لئے کتابیں کھل جائیں گی اورمومن اس کو اس کی تاویل تلاش کرتے ہوئے پکڑے گاجبکہ اس کی تاویل اللہ تعالی کے سواکوئی جانتاہی نہیں اورجوعلم میں راسخ ہیں یعنی پختہ علم والے ہیں وہ کہتے ہیںکہ ہم اس پر ایمان لے آئے ، یہ سب ہمارے رب تعالی کی طرف سے حق ہے اورنصیحت توصرف عقل مندہی پکڑتے ہیںاوریہ لوگ علماء کرام کو ضائع کربیٹھیں گے یعنی ان کے علم سے فیضیاب نہیں ہوں گے اوراس کی ان کو کوئی پرواہ بھی نہیں ہوگی ۔
(مسند الشامیین:سلیمان بن أحمد بن أیوب ، أبو القاسم الطبرانی (۲:۲۴۳)

جدیدریسرچ کو ترک کردینا

عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لِعَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو:کَیْفَ بِکَ إِذَا بَقِیتَ فِی حُثَالَۃٍ مِنَ النَّاسِ، وَقَدْ مُزِجَتْ عُہُودُہُمْ وَأَمَانَاتُہُمْ، وَاخْتَلَفُوا، فَصَارُوا ہَکَذَا وشَبَّکَ بَیْنَ أَصَابِعِہِ؟ ، قَالَ:اللہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ، قَالَ:اعْمَلْ بِمَا تَعْرِفُ، وَدَعْ مَا تُنْکِرُ، وَإِیَّاکَ وَالتَّلَوُّنَ فِی دِینِ اللہِ، وَعَلَیْکَ بِخَاصَّۃِ نَفْسِکَ، وَدَعْ عَوَامَّہُمْ۔
ترجمہ :حضرت سیدناسہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے حضرت سیدناعبداللہ بن عمرورضی اللہ عنہ سے فرمایا: تیرااس وقت کیاحال ہوگاجب توبچے کھچے لوگوں میں ہوگاجب ان کے عہدمٹ چکے ہوں گے اورامانتوں کاخیال نہیں رکھاجائے گااوران کاآپس میں اختلاف ہوجائے گااوروہ اس طرح ہوجائیں گے ۔ یہ فرماتے ہوئے حضورتاجدارختم نبوتﷺنے اپنی ایک ہاتھ کی انگلی دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈالی ، انہوںنے کہاکہ اللہ تعالی اورا س کاحبیب کریم ﷺبہترجانتے ہیں ۔ آپ ﷺنے فرمایا: تم اس چیز پر عمل کرناجس کو توجانتاہے اورجس کو نہیں جانتااس کو ترک کردینا، اوردین کے اندررنگ بازی ( جدیدتحقیقات ) سے بچنااوراپنے آپ کو ان سے بچالینااورلوگوں کو چھوڑدینا۔
(مصنف ابن ابی شیبہ :أبو بکر بن أبی شیبۃ، عبد اللہ بن محمد (۷:۱۴۰)

جب علماچلے جائیں گے توریسرچ اسکالردین کو تباہ کردیں گے

عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللہِ: لَیْسَ عَامٌ إِلَّا الَّذِی بَعْدَہُ شَرٌّ مِنْہُ، وَلَا عَامٌ خَیْرٌ مِنْ عَامٍ، وَلَا أُمَّۃٌ خَیْرٌ مِنْ أُمَّۃٍ، وَلَکِنْ ذَہَابُ خِیَارِکُمْ وَعُلَمَائِکُمْ، وَیُحَدِّثُ قَوْمٌ یَقِیسُونَ الْأُمُورَ بِرَأْیِہِمْ فَیَنْہَدِمُ الْإِسْلَامُ وَیَنْثَلِمُ۔
ترجمہ :حضرت سیدنامسروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدناعبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ ہرسال کے بعد ایک شرآتاہے اورکوئی سال پچھلے سال سے افضل نہیں ہے اورکوئی بعدمیںآنے والی امت دوسری امت سے افضل نہیں لیکن تمھارے اچھے لوگ اورعلماء کرام جب جاتے رہیں گے اورپھرنئی قوم پیداہوگی (جوقرآن کریم اورحدیث شریف کی مخالف ہوگی ) جواپنی رائے کے ساتھ کچھ معاملات کو قیاس کریں گے وہ اسلام کو گرادیں گے اوراس میں رخنہ انداز ی کریں گے ۔
(المعجم الکبیر:سلیمان بن أحمد بن أیوب بن مطیر اللخمی الشامی، أبو القاسم الطبرانی (۹:۱۰۵)

منافق ریسرچ اسکالر ائمہ دین پر لعن طعن کریں گے

عَنْ أَبِی مُصَبَّحٍ الْحِمْصِیِّ، قَالَ: جَلَسْتُ إِلَی نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ , فِیہِمْ شَدَّادُ بْنُ أَوْسٍ، وَثَوْبَانُ مَوْلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَہُمْ یَتَذَاکَرُونَ، فَقَالُوا: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: إِنَّ الرَّجُلَ لَیَعْمَلُ کَذَا وَکَذَا مِنَ الْخَیْرِ، وَإِنَّہُ لَمُنَافِقٌ ، قَالُوا: یَا رَسُولَ اللہِ، وَکَیْفَ یَکُونُ مُنَافِقًا وَہُوَ مُؤْمِنٌ بِکَ؟ قَالَ: یَلْعَنُ الْأَئِمَّۃَ، وَیَطْعَنُ عَلَیْہِمْ۔
ترجمہ :حضرت سیدناابومصبح رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضورتاجدارختم نبوتﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت کے ساتھ بیٹھاہواتھا،ان میں حضرت سیدناشدادبن اوس اورحضرت سیدناثوبان رضی اللہ عنہماحضورتاجدارختم نبوتﷺ کے آزاد کردہ غلام تھے ، یہ دونوں آپس میں مذاکرہ کررہے تھے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا: بے شک کوئی آدمی فلاں فلاں اچھاعمل کرتاہے لیکن وہ منافق ہوتاہے ، لوگوں نے عرض کی: یارسول اللہ ﷺ!یہ کیسے ہوسکتاہے کہ وہ منافق ہواوروہ آپﷺپرایمان لانے والابھی ؟ توحضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایاکہ جوشخص ائمہ دین پر لعنت کرتاہے اوران پر طعن کرتاہے وہ منافق ہی ہے ۔
(المعجم الکبیر:سلیمان بن أحمد بن أیوب بن مطیر اللخمی الشامی، أبو القاسم الطبرانی (۷:۲۸۸)

بحمداللہ تعالی سورۃ الانعام ۱۶شوال المکرم ۱۴۴۱ھ/۸مئی ۲۰۲۰ء) بروزپیرشریف بوقت ۵:۳سہ پہر)

Leave a Reply