وزیر، مشیر، چوہدری ، وڈیرے ، نواب ، سرداردین دشمن کیوں ہوتے ہیں؟
{وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا فِیْ کُلِّ قَرْیَۃٍ اَکٰبِرَ مُجْرِمِیْہَا لِیَمْکُرُوْا فِیْہَا وَ مَا یَمْکُرُوْنَ اِلَّا بِاَنْفُسِہِمْ وَمَا یَشْعُرُوْنَ }(۱۲۳)
ترجمہ کنزالایمان: اور اسی طرح ہم نے ہر بستی میں اس کے مجرموں کے سرغنہ کیے کہ اس میں داؤں کھیلیں اور داؤں نہیں کھیلتے مگر اپنی جانوں پر اور انہیں شعورنہیں۔
ترجمہ ضیاء الایمان :اور اسی طرح ہم نے ہر بستی میں اس کے مجرموں کو (ان کا)سردار بنادیا تاکہ اس میں وہ اپنی سازشیں کریں اور وہ صرف اپنے خلاف سازشیں کر رہے ہیں اور انہیں سمجھ ہی نہیں۔
وڈیرہ شاہی نظام کاہمیشہ حق کامخالف ہونا
قَالَ مُجَاہِدٌ:یُرِیدُ الْعُظَمَاء َوَقِیلَ:الرُّؤَسَاء ُ وَالْعُظَمَاء ُوَخَصَّہُمْ بِالذِّکْرِ لِأَنَّہُمْ أَقْدَرُ عَلَی الفسادوالمکر الحیلۃ فی مخالفۃ الاستقامۃ، أصلہ الْفَتْلُ، فَالْمَاکِرُ یَفْتِلُ عَنِ الِاسْتِقَامَۃِ أَیْ یَصْرِفُ عَنْہَاقَالَ مُجَاہِدٌ:کَانُوا یُجْلِسُونَ عَلَی کُلِّ عَقَبَۃٍ أَرْبَعَۃً یُنَفِّرُونَ النَّاسَ عَنِ اتِّبَاعِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، کَمَا فَعَلَ مَنْ قَبْلَہُمْ مِنَ الْأُمَمِ السَّالِفَۃِ بِأَنْبِیَائِہِمْ۔
ترجمہ :حضرت سیدناامام مجاہدرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اکابرسے مراد وڈیرے لوگ ہیں اوریہ بھی بیان کیاگیاہے کہ اکابرسے مراد رئوساء اورعظماء ہیں اوران کوخاص طورپر اس لئے ذکرکیاہے کیونکہ یہ فساد برپاکرنے میں زیادہ قوت رکھتے ہیںاورمکرکامعنی استقامت کی مخالفت میں حیلہ سازی کرناہے ۔
اورحضرت سیدناامام مجاہد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مکہ کے وڈیرے لوگ مکہ مکرمہ کی طرف آنے والے ہرہرراستے میں چارچارلوگوں کوبٹھاتے تھے وہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکی اتباع اورپیروی کرنے سے لوگوںکو نفرت دلاتے تھے جیساکہ ان سے پہلے پچھلی امتوں نے بھی اپنے انبیاء کرام علیہم السلام کے ساتھ ایساہی کیاتھا۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۷:۷۸)
دین دشمن امیرزادوں کاپاگل ہونا
(وَما یَمْکُرُونَ إِلَّا بِأَنْفُسِہِمْ)أَیْ وَبَالُ مَکْرِہِمْ رَاجِعٌ إِلَیْہِمْ وَہُوَ مِنَ اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ الْجَزَاء ُ عَلَی مَکْرِ الْمَاکِرِینَ بِالْعَذَابِ الْأَلِیمِ(وَما یَشْعُرُونَ) فِی الْحَالِ، لِفَرْطِ جَہْلِہِمْ أَنَّ وَبَالَ مَکْرِہِمْ عَائِدٌ إلیہم.
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی اس آیت کریمہ {وَما یَمْکُرُونَ إِلَّا بِأَنْفُسِہِمْ}کے تحت فرماتے ہیں کہ ان کی دین کے خلاف سازشوں کاوبال انہیں کی طرف لوٹاہے اوریہی اللہ تعالی کی جانب سے دردناک عذاب کے ساتھ مکرکی جزااوربدلہ ہے اور{وَما یَشْعُرُونَ}اوروہ دین دشمن اپنی فرط جہالت کی وجہ سے فی الحال اس بات کو نہیں سمجھتے کہ ان کے فریب کاوبال انہیں کی طرف لوٹے گا۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۷:۷۸)
ہرہرشہرمیں دین دشمن موجودہوتے ہیں
لِیَمْکُرُوا فِیہا ای لیفعلوا المکر فی تلک القریۃ لانہم لاجل ریاستہم اقدر علی المکر والغدر وترویج الأباطیل علی الناس من غیرہم وکان صنادید قریش ومجرموہا اجلسوا علی کل طریق من طرق مکۃ اربعۃ نفر لیصرفوا الناس عن الایمان بمحمد صلی اللہ علیہ وسلم یقولون لکل من تقدم إیاک وہذا الرجل فانہ کاہن ساحر کذاب۔
ترجمہ :امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی : ۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ کسی بھی شہرکے مجرم لوگ شہروں میں مکروفریب کاجال بچھائیں اس لئے کہ ان لیڈروں کوعوام کوبہکانے پرقدرت ہوتی ہے اور وہ انہیں غلط طریقوں پرلیجانے کاحربہ استعمال کرسکتے ہیں۔ قریش کے سرداروں کاکام تھاکہ وہ مکہ مکرمہ کے بڑے بڑے چوکوں اورمشہورشاہرائوں پرچارچارآدمی بٹھاتے تھے جوآنے والوں کوحضورتاجدارختم نبوت ﷺسے متنفرکرنے کی باتیں کرتے تھے اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حضورتاجدارختم نبوت ﷺکامنکربنانے کے لئے جدوجہد کرتے تھے اورہر آنے جانے والے سے اپیل کرتے کہ جہاں جائو، جس سے بھی ملوہرہرجگہ یہی مشہورکردو!کہ محمد(ﷺ) جادوگراورکذاب ہیں(نعوذباللہ من ذلک )
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۳:۱۰۰)
دین کادشمن جہاں بھی ہوبدکاراورفاسق وفاجرہی ہوگا
کَمَا أَنَّ فُسَّاقَ مَکَّۃَ أَکَابِرُہَا، کَذَلِکَ جَعَلْنَا فُسَّاقَ کَلِّ قَرْیَۃٍ أَکَابِرَہَا، أَیْ: عُظَمَاء َہَا، جَمْعُ أَکْبَرَ، مِثْلُ أَفْضَلَ وَأَفَاضِلَ، وَأَسُودَ وَأَسَاوِدَ، وَذَلِکَ سُنَّۃُ اللَّہِ تَعَالَی أَنَّہُ جَعَلَ فِی کُلِّ قَرْیَۃٍ أَتْبَاعَ الرُّسُلِ ضُعَفَاء َہُمْ، کَمَا قَالَ فِی قِصَّۃِ نُوحٍ عَلَیْہِ السَّلَامُ:أَنُؤْمِنُ لَکَ وَاتَّبَعَکَ الْأَرْذَلُونَ (الشُّعَرَاء ِ: ۱۱۱) وَجَعَلَ فُسَّاقَہُمْ أَکَابِرَہُمْ، لِیَمْکُرُوا فِیہا۔
ترجمہ :محیی السنۃ ، أبو محمد الحسین بن مسعود بن محمد بن الفراء البغوی الشافعی المتوفی :۵۱۰ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ہرہرعلاقہ میں دین کے دشمن فاسق وفاجرہی ہوتے ہیں جیساکہ مکہ مکرمہ کے رہنے والے فاسق وفاجراوروڈیرے لوگ دین کے دشمن تھے ۔ اوریہ اللہ تعالی کاطریقہ ہے کہ وہ ہرہرنبی علیہ السلام کے تابعدارچن لیتا ہیں تووہ غریب اورمالی لحاظ سے کمزورہوتے ہیں۔ چنانچہ حضرت سیدنادائودعلیہ السلام کے قصہ میں کفارنے کہا:{أَنُؤْمِنُ لَکَ وَاتَّبَعَکَ الْأَرْذَلُونَ}اوران انبیاء کرام علیہم السلام کاہرمخالف دنیاداراورہرلحاظ سے بہت بڑاطاقتورہوتاہے تاکہ وہ دین حق کے خلاف وہ اپنی ہرطرح کی طاقت استعمال کرسکے۔
(تفسیر البغوی :محیی السنۃ ، أبو محمد الحسین بن مسعود بن محمد بن الفراء البغوی الشافعی (۲:۱۵۷)
اللہ تعالی کااپنے حبیب کریم ﷺکوتسلیاں دینا
والآیۃ تسلیۃ لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وَما یَمْکُرُونَ إِلَّا بِأَنْفُسِہِمْ لان وبالہ علیہم وَما والحال انہم لا یَشْعُرُونَ بذلک أصلا بل یزعمون انہم یمکرون بغیرہم۔
ترجمہ :امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی :۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکو تسلی دی کہ اے حبیب کریم ﷺ!یہ لوگ جو آپﷺکے خلاف سازشیں کررہے ہیںاس سے آپﷺ پریشان نہ ہوںاس لئے کہ آپ ﷺسے پہلے انبیاء کرام علیہم السلام کے ساتھ بھی لوگ اس قسم کی شرارتیں کرتے رہے ہیں۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۳:۱۰۰)
مال وجاہ کابھوکادین میں فساد کاسبب بنتاہے
عَنْ ابْنِ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ، عَنْ أَبِیہِ، قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:مَا ذِئْبَانِ جَائِعَانِ أُرْسِلَا فِی غَنَمٍ بِأَفْسَدَ لَہَا مِنْ حِرْصِ الْمَرْء ِ عَلَی الْمَالِ وَالشَّرَفِ لِدِینِہِ۔
ترجمہ:حضرت سیدناکعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے اپنے والد ماجد(حضرت سیدنا مالک انصاری رضی اللہ عنہ)سے روایت کیا: انہوں نے کہا:حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا:دو بھوکے بھیڑیے اگر بکریوں میں چھوڑ دیئے جائیں تو وہ بھی اتنا فساد برپا نہ کریں (خرابی نہ کریں)جتنا مال اور جاہ کاحریص آدمی دین کو خراب کرتا ہے۔
(سنن الدارمی:أبو محمد عبد اللہ بن عبد الرحمن بن الفضل بن بَہرام بن عبد الصمد الدارمی(۳:۱۷۷۵)
شہرت پسندی اورحکومت پسندی کے مختلف نقصانات میں سے ایک نقصان یہ ہے کہ شہرت پسند افراداورسیاست کے دلدادہ لوگوں کے رہنما بننے کے لئے انہیں گمراہ کرتے ہیں۔ گمراہ رہنما و پیشوا، اللہ تعالیٰ، قرآن کریم، حضورتاجدارختم نبوتﷺ کے بالکل دشمن ہوتے ہیں، اگرچہ وہ حق کے دعویدار ہوں اور دین و مذہب کے مقدس اور پاک الفاظ کو اپنی باتوں میں استعمال بھی کریں اورخود کو ریاست مدینہ کاخیرخواہ کہیں مگر ان کی یہ سب باتیں اور حرکتیں، دین کے ساتھ کھیل تماشا ہوتا ہے اور دین کے مقدسات کو صرف اپنی غرض اور مقصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
گمراہ پیشوا لوگوں کے بھی دشمن ہیں، کیونکہ وہ لوگوں کے دین و دنیا کو تباہ کرتے ہوئے ان کو آخرت میں خسارہ کا شکار اور عذاب جہنم کا مستحق بنادیتے ہیں، جبکہ خیرخواہ پیشوا اور امام وخلیفہ جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقام امامت وخلافت پر فائز ہو، لوگوں کی دنیا کو بھی آباد کرتا ہے اور لوگوں کو صراط مستقیم، جنت اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف ہدایت کرتا ہے، مگر گمراہ رہنما لوگوں کو اپنی طرف بلاتا ہے تاکہ انہیں اپنے اردگرد اکٹھا کرکے اپنی شہرت پسندی کی گھٹیا خواہش کو پورا کرے۔
ایک دین دشمن حاکم کاایک عالم کو شہیدکرنا
الإِمَامُ الشَّہِیْد قَاضِی مَدِیْنَۃَ بَرْقَۃَ مُحَمَّدُ بنُ الحُبُلی أَتَاہُ أَمِیْرُ بَرْقَۃ فَقَالَ:غداً العِیْد قَالَ:حَتَّی نرَی الہِلاَل، وَلاَ أفطِّر النَّاس وَأَتقلَّد إِثمَہُم فَقَالَ:بِہَذَا جَاء َ کِتَاب المَنْصُوْر، وَکَانَ ہَذَا مِنْ رَأْی العُبَیْدِیَّۃ یفطِّرون بِالِحسَاب وَلاَ یعتبرُوْنَ رُؤْیَۃ, فَلَمْ یُرَ ہِلاَل فَأَصبح الأَمِیْرُ بِالطُّبولِ وَالبُنُودِ وَأُہبَۃِ العِیْدفَقَالَ القَاضِی:لاَ أَخرج وَلاَ أُصَلِّی فَأَمر الأَمِیْرُ رَجُلاً خَطَبَ وَکَتَبَ بِمَا جرَی إِلَی المَنْصُوْرفَطَلَبَ القَاضِی إِلَیْہِ فَأُحضِرفَقَالَ لَہُ: تنصَّل وَأَعفو عَنْکَ فَامْتَنَعَ فَأَمر فعلِّق فِی الشَّمْس إِلَی أَنْ مَاتَ، وَکَانَ یَسْتَغیث العطشَ فَلَمْ یسقَ ثُمَّ صَلَبُوہُ عَلَی خَشَبَۃٍفلعنَۃُ اللہِ علی الظالمین.
ترجمہ :امام ذہبی علیہ الرحمہ’’سیر اعلام النبلاء ‘‘ میں الإمام الشہید قاضی مدینۃ برقۃ محمد بن الحبلی رحمہ اللہ تعالی کے بارے میں فرماتے ہیں:الامام الشہید قاضی مدینۃ برقۃ محمد بن الحبلی رحمہ اللہ تعالی کے پاس حاکم برقہ آیا اور بولا ’’کل عید ‘‘ہے ۔فرمایا (نہیں )جب تک ہم چاند نہ دیکھ لیں۔ میں لوگوں کا روزہ نہیں تڑوائوں گا اور ان کا گناہ اپنے سر نہ لوں گا۔ حاکم نے کہا۔ یہ خلیفہ منصور کا حکم نامہ آیا ہے ۔اور یہ عبیدیوں کی رائے تھی وہ حساب کے ساتھ (یعنی جنتری کے مطابق)عید الفطر کرتے تھے ۔اور رئویت کا اعتبار نہ کرتے تھے سو چاند نہ دیکھا (گیا)۔ پس حاکم نے صبح ڈھولوں ،جھنڈوں اور عید کی سج دھج کے ساتھ صبح کی ۔یہ دیکھ کر قاضی صاحب نے کہا ۔میں عیدکیلئے نہیں نکلوں گا اور نہ عید پڑھوں گا۔پس حاکم نے ایک شخص کو خطبہ کا حکم دیا ۔اور ماجرا منصور کو لکھ بھیجا ۔چنانچہ منصور نے قاضی صاحب کو طلب کیا ۔ پس آپ کو دربار خلافت میں حاضر کیا گیا ۔ منصور نے کہا: اپنے نکتہ نگاہ سے کنارہ کشی کرو میں تمہیں معاف کر دوں گا مگر قاضی اس کو نہ مانے۔ پس اس نے آپ کوسولی لٹکانے کا حکم دیا ۔چنانچہ آپ کو گرمی میں سولی لٹکا دیا گیا یہاں تک کہ شہیدہو گئے آپ شدید پیاس میں پانی طلب کرتے تھے پر کوئی آگے نہ بڑھا ۔پھر آپ کو لکڑی کی سولی چڑھا دیا گیا ۔ پس لعنت ہو اللہ کی ظالموں پر۔
(سیر أعلام النبلاء :شمس الدین أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن عثمان بن قَایْماز الذہبی (۱۲:۶)
یہ تھے ہمارے اکابر جنہوں نے کسی ظالم بادشاہ کے لئے شرعی احکام میں کوئی تبدیلی نہیں کی اگر چہ ان پر ظلم و ستم ہوا یہاں تک کہ پھانسی بھی دی گئی لیکن آخر دم تک استقامت اختیار کرتے رہے۔ اہل اسلام ہمیشہ چاند دیکھ کر ہی عید مناتے ہیں۔ یہ کیلنڈر والا حساب اسلام میں نہیں۔ اللہ اکبر ایسے تھے ہمارے اکابر۔آج کل حکومت کے بعض وزراء بھی شاید عبیدیوں کے راستے پر چلنا چاہ رہے ہیں۔
معارف ومسائل
(۱)اس آیت کریمہ سے معلوم ہواکہ ہردورمیں ایسے وڈیرے اورامیرزادے رہے ہیں جو دین کے دشمن ہوتے ہیںاوران کو دین کی ترقی برداشت نہیں ہوتی۔
(۲) اوراس سے یہ بھی معلوم ہواکہ ان کو دین کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی ہرسہولت میسرہوتی ہے جس طرح آج کل بے دین لوگ حکمران بنے ہوئے ہیں اورجوبھی عالم دین حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے دین کے غلبہ کے لئے آواز اٹھاتاہے اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاموش کرادیاجاتاہے۔
(۳) جیسے ہمارے ملک پاکستان میں کتنے علماء ایسے اٹھے جنہوںنے نفاذ دین اورغلبہ دین کے لئے آواز بلندکی مگران کو ہی نیست ونابودکردیاگیا۔
(۴) حضورامیرالمجاہدین شیخ الحدیث مولاناحافظ خادم حسین رضوی حفظہ اللہ تعالی کواللہ تعالی استقامت دے ،آپ ہرہرمیدان میں غلبہ دین کے لئے آواز بلندکرتے ہیں اوران کے دشمنوں کو بھی دیکھیں وہ ملک کے بڑے بڑے عہدوں پربراجمان ہیں اوران کے خلاف رات دن سازشیں کرنے میں مصروف ہیںاوران کو ہر طرح سے بدنام کرنے کی کوششیں کرتے ہیں مگران کومعلو م نہیں ہے کہ یہ لوگ صرف ایک مسجد کے مولوی کے خلاف سازشیں نہیں کررہے ہیں ، یہ لوگ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے دین حق کے غلبہ کی راہ میں رکاوٹیں پیداکررہے ہیں اوراس کی سزاان کواللہ تعالی کی طرف سے دردناک عذاب کی صورت میں ضرورملے گی ۔ اوران کواتنابھی علم نہیں ہے کہ یہ لوگ ایسی حرکتیں کرکے ابوجہل اورابولہب کے جانشین بنے ہوئے ہیں مگرخود کو عاشق رسول کہتے ہیں ، یہی ان کے پاگل ہونے کی دلیل ہے ۔
(۵) آج مساجدمیں بھی یہی وڈیرہ شاہی نظام مسلط کردیاگیاہے ، سرکاری نوکریاں کرنے والے پولیس کے افسراوردیگراداروں سے حرام خوریاں کرکے ریٹائرہونے والے ذلیل لوگ مساجدکے صدربنے بیٹھے ہیں اوروہ مساجد میں حضورتاجدارختم نبوتﷺکادین بیان نہیں کرنے دیتے ۔ اوریہ بھی اس وقت کے عظیم ابوجہل ہیں کیونکہ وہ ابوجہل اس وقت دین حق کاپیغام عام ہونے سے روکتاتھااوریہ آج دین حق کے بیان کرنے سے روکتے ہیں ۔
(۶) اس سلسلے میں ہمارے علماء کرام کو بھی چاہئے کہ جہاں ایسامعاملہ ہووہاں سے ایک طرف ہوجائیں اوراپنی تنخواہ کو پیارانہ کریں بلکہ ترجیح حضورتاجدارختم نبوتﷺکے دین متین کودیں۔
(۷) ہمارے علماء حق نے ہمیشہ حق کوترجیح دی ہے اوردین کاہی اعلاء کیاہے ، اپنی ضروریات زندگی کو کبھی بھی خاطرمیں نہیں لائے ۔ یہاں پرمیں اپنے علماء حق کے کچھ واقعات نقل کرتاہوں تاکہ ہمارے علماء کو اس سے سبق ملے کہ ہمارے بزرگ علماء کرام کااس معاملے میںکیا عمل تھا اورآخرمیں خود اپناایک قصہ تحدیث نعمت کے طورپر نقل کرتاہوں ۔
(۸)حضرت مفتی احمدیارخان نعیمی رحمہ اللہ تعالی گجرات میں مسجد شریف کے خطیب تھے ، تب بنگلہ دیش پاکستان کاہی حصہ تھا، آپ کی مسجد شریف کاصدرآپ کاہی مقتدی تھا، آپ رحمہ اللہ تعالی مسجد کے صدرکو بتائے بغیرہی بنگلہ دیش تبلیغی دورے پرچلے گئے ،جب واپس آئے تووہ صدرکہنے لگاکہ آپ چھٹی لئے بغیربنگلہ دیش چلے گئے ؟ آپ رحمہ اللہ تعالی نے جیسے ہی یہ سنافوراً اس کو کہاکہ آپ مسجد شریف کانظام خود ہی سنبھالو!میں جارہاہوں اورآپ رحمہ اللہ تعالی نے زندگی بھراپنی بیٹھک میں بیٹھ کرقرآن کریم کی تفسیربیان کی اوران کی تفسیرسننے کے لئے حضرت خواجہ عالم حضرت خواجہ محمدصادق نقشبندی مجددی رحمہ اللہ تعالی جیسے اکابرلوگ آیاکرتے تھے۔
(۹)حضورامیرالمجاہدین حضرت شیخ الحدیث مولاناحافظ خادم حسین رضوی حفظہ اللہ تعالی کو جب حکمرانوں نے پیرمکی دربارپرحق کہنے سے روکاتوآپ حفظہ اللہ تعالی نے فرمایاکہ میں حق کہوں گااوریونہی کہوں گا، توآپ نے پیرمکی کی خطابت کو چھوڑدیااورفرمایاکہ میں نوکری کی خاطرحق کہنے سے نہیں رک سکتا، ہزاروں نوکریاں قربان حضورتاجدارختم نبوتﷺکے دین متین پر ۔ آپ کوکہاگیاکہ آپ اپنی پینشن لے لیں توآپ نے وہ بھی لینے سے انکاکردیااورپھربعد میں آپ کو کہاگیاکہ آپ اپنی جگہ اپنے شہزادے کولگوادیں ، ہم اسے آپ کی جگہ پرلگانے کے لئے تیارہیں ، توآپ نے اس سے بھی انکارکردیا۔ سبحان اللہ !یہ ہیں ہمارے علماء حق جو حق کہنے سے نہیں رکتے چاہے ان کادنیوی نقصان ہی کیوں نہ ہوجائے۔
(۱۰)لاہورکے ایک بہت بڑے ہسپتال میں ایک مسجدسے ایک مولوی صاحب ریٹائرہونے لگے تو مجھے اس ہسپتال کاافسرمجبورکرکے لے گیاکہ آ پ کووہاں لگواتے ہیں ، جب وہاں پہنچے تواس کے افسران کے ساتھ ملاقات ہوئی توانہوں جو باتیں ضروری تھیں وہ پوچھیں ، پھرچھے ماہ کے بعد وہ مجھے لینے کے لئے آئے اورکہاکہ آئیں اوراس مسجد میں اپناکام شروع کریں ۔ جب میں وہاں گیاتوہسپتال کے بڑے افسرسے ملاقات کروائی گئی ، میں نے پوچھاکہ جمعہ کے دن بیان کرنے کاکیاطریقہ کارہوگاتواس نے کہاکہ آپ ہمیں بدھ والے دن تقریرلکھ کردیاکریں گے اورہم آپ کو جمعرات کو دیں گے اوربتائیں گے کہ اس میں کونسی بات کرنی ہے اورکونسی نہیں کرنی ۔جب میںنے یہ سناتوفوراًذہن میں آیاکہ یہاں رہ کرساری سہولتیں ملیں گی لیکن یہ دنیاتوچنددن کی ہے وہ توجیسے کیسے گزرہی جائے گی، اگرقیامت کے دن حضورتاجدارختم نبوتﷺنے پوچھ لیاکہ تم نے میرے دین کی خدمت کے لئے دین پڑھاتھا مگرجب اسے بیان کرنے کاوقت آیاتوتم سرکاری نوکری کرکے میرے ہی دین کو چھپانے لگے ۔ بس اتناذہن میں آیااوراللہ تعالی نے مددفرمائی میں وہاں سے فوراًاٹھااوروہ سارے کہنے لگے کہ کیاہوا؟ میں نے دروازے کو کھولتے ہوئے کہاکہ آپ اتنے داناہیں کہ آپ نے مجھے بتاناہے کہ کونسی آیت اورکونسی حدیث شریف بیان کرنی ہے توآپ خودکیوں نہیں بیان کرلیتے ۔ بس وہاں سے واپس آگیا، اس کے بعد بھی وہ آتے رہے مگراللہ تعالی نے کرم فرمایا، اس وقت بھی جس مسجد شریف میں تھاآج بھی اسی مسجد شریف میں ہوں ۔