اللہ تعالی کے حرام کوحلال جاننے والے مشرک اورکافرہیں
{وَلَا تَاْکُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْکَرِاسْمُ اللہِ عَلَیْہِ وَ اِنَّہ لَفِسْقٌ وَ اِنَّ الشَّیٰطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ اِلٰٓی اَوْلِیَآئِہِمْ لِیُجٰدِلُوْکُمْ وَ اِنْ اَطَعْتُمُوْہُمْ اِنَّکُمْ لَمُشْرِکُوْنَ }(۱۲۱)
ترجمہ کنزالایمان: اور اُسے نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا اور وہ بیشک حکم عدولی ہے اور بیشک شیطان اپنے دوستوں کے دلوں میں ڈالتے ہیں کہ تم سے جھگڑیں اور اگر تم ان کا کہنا مانو تو اس وقت تم مشرک ہو۔
ترجمہ ضیاء الایمان:اوراس کو نہ کھائوجس پر اللہ تعالی کا نام نہ لیا گیا ہواور بیشک یہ حکم کی خلاف ورزی ہے اور بیشک شیطان اپنے دوستوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتے ہیں تا کہ وہ تم سے جھگڑیں اور اگر تم ان کا کہنا مانوگے تو اس وقت تم بھی یقینا مشرک ہوگے۔
شان نزول
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کَثِیرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْرَائِیلُ، حَدَّثَنَا سِمَاکٌ، عَنْ عِکْرِمَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، فِی قَوْلِہِ:(وَإِنَّ الشَّیَاطِینَ لَیُوحُونَ إِلَی أَوْلِیَائِہِمْ)(الأنعام:۱۲۱)یَقُولُونَ: مَا ذَبَحَ اللَّہُ,فَلَا تَأْکُلُوا، وَمَا ذَبَحْتُمْ أَنْتُمْ فَکُلُوا، فَأَنْزَلَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ:(وَلَا تَأْکُلُوا مِمَّا لَمْ یُذْکَرِ اسْمُ اللَّہِ عَلَیْہِ)(الأنعام:۱۲۱).
ترجمہ :حضرت سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہماسے اللہ تعالیٰ کے فرمان{ وَإِنَّ الشَّیَاطِینَ لَیُوحُونَ إِلَی أَوْلِیَائِہِمْ} اور شیطان اپنے دوستوں کو الہام کرتے ہیں ۔ (کی تفسیر )میں مروی ہے کہ وہ کہتے ہیں :جسے اللہ تعالیٰ نے ذبح کیا (مارا )ہو اسے مت کھاؤ اور جسے تم خود ذبح کرو وہ کھا لو ۔ تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا{وَ لَا تَاْکُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْکَرِاسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہِ} وہ چیز مت کھاؤ جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو ۔
(سنن أبی داود:أبو داود سلیمان بن الأشعث بن إسحاق بن بشیر السَِّجِسْتانی (۳:۱۰۱)
دوسری روایت
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ فِی قَوْلِہِ عَزَّ وَجَلَّ وَلَا تَأْکُلُوا مِمَّا لَمْ یُذْکَرْ اسْمُ اللَّہِ عَلَیْہِ قَالَ خَاصَمَہُمْ الْمُشْرِکُونَ فَقَالُوا مَا ذَبَحَ اللَّہُ فَلَا تَأْکُلُوہُ وَمَا ذَبَحْتُمْ أَنْتُمْ أَکَلْتُمُوہُ۔
ترجمہ :حضرت سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہمانے اللہ تعالیٰ کے فرمان{وَ لَا تَاْکُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْکَرِاسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہِ}وہ جانور نہ کھائو جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو۔ کے بارے میں فرمایا:مشرکین نے مسلمانوں سے حجت بازی کی تھی کہ جس جانور کو اللہ تعالیٰ ذبح کرے، اسے تم نہیں کھاتے اور جسے تم خود ذبح کرتے ہو، اسے کھا لیتے ہو؟۔
(السنن للنسائی: أبو عبد الرحمن أحمد بن شعیب بن علی الخراسانی، النسائی (۷:۲۳۷)
شیاطین سے مراد کون ؟
وَأَمَّا قَوْلُہُ: وَإِنَّ الشَّیاطِینَ لَیُوحُونَ إِلی أَوْلِیائِہِمْ لِیُجادِلُوکُمْ فَفِیہِ قَوْلَانِ:الْأَوَّلُ: أَنَّ الْمُرَادَ من الشیاطین ہَاہُنَا إِبْلِیسُ وَجُنُودُہُ وَسْوَسُوا إِلَی أَوْلِیَائِہِمْ مِنَ المشرکین لیجادلوا محمدا صلی اللہ علیہ وآلہ وَسَلَّمَ؍ وَأَصْحَابَہُ فِی أَکْلِ الْمَیْتَۃِ.وَالثَّانِی: قَالَ عِکْرِمَۃُ: وَإِنَّ الشَّیَاطِینَ یَعْنِی مَرَدَۃَ الْمَجُوسِ لَیُوحُونَ إِلَی أَوْلِیَائِہِمْ مِنْ مُشْرِکِی قُرَیْشٍ وَذَلِکَ لِأَنَّہُ لَمَّا نَزَلْ تَحْرِیمُ الْمَیْتَۃِ سَمِعَہُ الْمَجُوسُ مِنْ أَہْلِ فَارِسَ فَکَتَبُوا إِلَی قُرَیْشٍ وَکَانَتْ بَیْنَہُمْ مُکَاتَبَۃٌ أَنَّ مُحَمَّدًا وَأَصْحَابَہُ یَزْعُمُونَ أَنَّہُمْ یَتَّبِعُونَ أَمْرَ اللَّہِ ثُمَّ یَزْعُمُونَ أَنَّ مَا یَذْبَحُونَہُ حَلَالٌ وَمَا یَذْبَحُہُ اللَّہُ حَرَامٌ فَوَقَعَ فِی أَنْفُسِ نَاسٍ مِنَ الْمُسْلِمِینَ مِنْ ذَلِکَ شَیْء ٌ فَأَنْزَلَ اللَّہُ تَعَالَی ہَذِہِ الْآیَۃَ.
ترجمہ :حضرت سیدناامام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی کے اس فرمان شریف {وَإِنَّ الشَّیاطِینَ لَیُوحُونَ إِلی أَوْلِیائِہِمْ لِیُجادِلُوکُمْ }کی تفسیرمیں دوقول ہیں :
پہلاقول: یہاں شیاطین سے مراد ابلیس اوراس کالشکرہیں ، پھرجواپنے مشرک دوستوں کووسوسے ڈالتے ہیںتاکہ وہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺاورآپﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مردارکھانے کے بارے میں جھگڑاکریں۔
دوسراقول : حضرت سیدناعکرمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ شیاطین سے مراد مجوسی سرکش ہیںجواپنے مشرکین دوستوں کواشارہ کرتے تھے، اس لئے جب مردارکی تحریم لازم ہوئی اہل فارس کے مجوسیوں نے جب سنا ، انہوں نے قریش کو لکھااوران کے درمیان خط وکتابت کاسلسلہ تھاکہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺاورآپ ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ اللہ تعالی کے حکم کی اتباع کرتے ہیں، پھروہ یہ کہتے ہیں کہ جسے وہ ذبح کریں وہ حلال ہے اورجسے اللہ تعالی ذبح کرے وہ حرام ہے ، کچھ مسلمانوں کے ذہن میں اضطراب پیداہواتواللہ تعالی نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۱۳:۱۳۲)
مشرک کی اطاعت کرنے والامسلمان بھی مشرک ہوجائے گا
قَوْلُہُ تَعَالَی:(وَإِنْ أَطَعْتُمُوہُمْ)أَیْ فِی تَحْلِیلِ الْمَیْتَۃِ (إِنَّکُمْ لَمُشْرِکُونَ)فَدَلَّتِ الْآیَۃُ عَلَی أَنَّ مَنِ اسْتَحَلَّ شَیْئًا مِمَّا حَرَّمَ اللَّہُ تَعَالَی صَارَ بِہِ مُشْرِکًا.وَقَدْ حَرَّمَ اللَّہُ سُبْحَانَہُ الْمَیْتَۃَ نَصًّا، فَإِذَا قَبِلَ تَحْلِیلَہَا مِنْ غَیْرِہِ فَقَدْ أَشْرَکَ قَالَ ابْنُ الْعَرَبِیِّ: إِنَّمَا یَکُونُ الْمُؤْمِنُ بِطَاعَۃِالْمُشْرِکِ مُشْرِکًا إِذَا أَطَاعَہُ فِی الِاعْتِقَادِ، فَأَمَّا إِذَا أَطَاعَہُ فِی الْفِعْلِ وَعَقْدُہُ سَلِیمٌ مُسْتَمِرٌّ عَلَی التَّوْحِیدِ وَالتَّصْدِیقِ فَہُوَ عَاصٍ۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی اللہ تعالی کے اس فرمان شریف {وَإِنْ أَطَعْتُمُوہُمْ}کے تحت فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے فرمایاکہ اے اہل ایمان!اگرتم نے مردارکوحلال قراردینے میں مشرکین کی اطاعت کرلی تو{إِنَّکُمْ لَمُشْرِکُونَ}تم بھی مشرک ہوجائوگے ۔ پس آیت کریمہ اس پردلیل ہے کہ جس نے ان چیزوں میں سے کسی کوحلال قراردیاجنہیں اللہ تعالی نے حرام فرمایاہے تووہ اس سبب سے مشرک ہوجائے گا ۔ تحقیق اللہ تعالی نے مردارکو حرام قراردیاہے اوریہ نص سے ثابت ہے اورجب کسی نے کسی غیرکی حلال کردہ چیز کو قبول کرلیاتحقیق اس نے بھی شرک کیا۔
امام ابن العربی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ بے شک مسلمان مشرک کی اطاعت سے مشرک ہوجاتاہے ، جب وہ اس کی اعتقاد میں پیروی کرے اورجب وہ فعل وعمل میں پیروی کرے اوراس کاعقیدہ درست اورصحیح وسالم ہواورتوحیدوتصدیق پرقائم ہوتوگناہگارہوگا۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۷:۷۴)
امام الزجاج رحمہ اللہ تعالی کاقول
قَالَ الزَّجَّاجُ: وَفِیہِ دَلِیلٌ عَلَی أَنَّ مَنْ أَحَلَّ شَیْئًا مِمَّا حَرَّمَ اللَّہُ أَوْ حَرَّمَ مَا أَحَلَّ اللہ فہو مشرک.
ترجمہ :امام الزجاج رحمہ اللہ تعالی اس آیت کریمہ کے تحت فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں دلیل ہے کہ جس نے اللہ تعالی کے حرام کردہ کوحلال جانایاحلال کو حرام جاناوہ مشرک ہے ۔ کیونکہ اس نے اللہ تعالی کی اطاعت کو ترک کرکے دوسروں کو مطاع مان لیاہے ۔
(تفسیر البغوی:محیی السنۃ ، أبو محمد الحسین بن مسعود بن محمد بن الفراء البغوی الشافعی (۲:۲۵۶)
امام الخازن رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں
إنما سمی مشرکا لأنہ أثبت حاکما غیر اللہ عز وجل ومن کان کذلک فہو مشرک.
ترجمہ :امام علاء الدین علی بن محمد بن إبراہیم الخازن المتوفی : ۷۴۱ھ) رحمہ اللہ تعالی امام الزجاج رحمہ اللہ تعالی کے قول پرکلام کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی کے حرام کو حلال جاننے والے اورحلال کو حرام جاننے والے کو مشرک اس لئے کہاگیاہے کہ اس نے اللہ تعالی کے علاوہ کوحاکم مان لیاہے اورجو بھی ایساکرے وہ مشرک ہے ۔
(تفسیرالخازن :علاء الدین علی بن محمد بن إبراہیم بن عمر الشیحی أبو الحسن، المعروف بالخازن (۲:۲۵۱)
غیراللہ کی اطاعت اختیارکرنے والامشرک ہے
فان من ترک طاعۃ اللہ او أطاع غیرہ واتبعہ فی دینہ فقد أشرک ۔
ترجمہ :امام قاضی ثناء اللہ پانی پتی حنفی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جس نے بھی اللہ تعالی کی اطاعت ترک کرکے غیراللہ کی اطاعت اختیارکرلی اوراس کے دین کی اتباع کرلی تویقینامشرک ہوگیا۔
(التفسیر المظہری:المظہری، محمد ثناء اللہ(۳:۴۸۳)
رب تعالی کے حرام کو حلال جاننے والاکافرہے
قال أبو إسحاق :اتَقوا أن تُحلُّوا ما حرم اللَّہ، فإِن من أحلَّ شیئاً مما حرم اللہ فہوکافر بإِجماع.
ترجمہ :امام ابواسحاق رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جس چیزکورب تعالی نے حرام قراردیاہے تم اس کو حلال قراردینے سے بچو!یقیناجس نے بھی رب تعالی کی حرام کردہ چیز کو حلال جاناوہ بالاجماع کافرہے ۔
(التَّفْسِیرُ البَسِیْط:أبو الحسن علی بن أحمد بن محمد بن علی الواحدی، النیسابوری، الشافعی (۵:۵۸۸)
رب تعالی کے حرام کو حلال جاننے والوں کو بندراورخنزیربنادیاجائے گا
عن أبی مَالِکٍ أَوْ أَبی عَامِرٍ الْأَشْعَرِیُّ أنہ سَمِعَ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ لَیَکُونَنَّ مِنْ أُمَّتِی أَقْوَامٌ یَسْتَحِلُّونَ الْحِرَ وَالْحَرِیرَ وَالْخَمْرَ وَالْمَعَازِفَ وَلَیَنْزِلَنَّ أَقْوَامٌ إِلَی جَنْبِ عَلَمٍ یَرُوحُ عَلَیْہِمْ بِسَارِحَۃٍ لَہُمْ یَأْتِیہِمْ یَعْنِی الْفَقِیرَ لِحَاجَۃٍ فَیَقُولُونَ ارْجِعْ إِلَیْنَا غَدًا فَیُبَیِّتُہُمْ اللَّہُ وَیَضَعُ الْعَلَمَ وَیَمْسَخُ آخَرِینَ قِرَدَۃً وَخَنَازِیرَ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔
ترجمہ :حضرت سیدنا ابو مالک یا ابو حارث اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضورتاجدارختم نبوت ﷺسے سنا آپﷺفرما رہے تھے میری امت میں ایسے لوگ یقینا پیدا ہوں گے جو شرمگاہ (زنا )کو ، ریشم کو ، شراب کو ، ساز و موسیقی کو حلال سمجھ لیں گے ، اور (انہیں میں سے )ایک جماعت کسی پہاڑ کے دامن میں ڈیرہ ڈالے گی جن کے پاس ان کا چرواہا شام کو ان کے ریوڑ لیکر آئے گا ، ان کے پاس ایک صاحب حاجت آئے گا تو وہ اس سے کہیں گے کل ہمارے پاس آنا (تو تمہیں ہم دیں گے )پھر اللہ تعالی رات ہی میں انہیں ہلاک کردیگا اور پہاڑ کو ان پر ڈھا دیگا اور کچھ دوسروں کی (جو پہاڑ کے نیچے نہ دبیں گے )شکلیں قیامت تک کے لئے بندروں اور سوروں کی شکل میں مسخ کردیگا ۔
(صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۷:۱۰۶)
اللہ تعالی کی معصیت ہر حال میں بری اور اس کی ناراضگی کا سبب ہے لیکن اگر اس معصیت کو معصیت سمجھا ہی نہ جائے بلکہ حیلے بہانے اور ناموں کو تبدیل کرکے اسے حلال سمجھ لیا جائے اور اللہ تعالی کی پکڑ سے بے خوف ہوکر علی الاعلان اسکا ارتکاب کیا جائے تو یہی جرم در جرم اوراللہ تعالی کے ساتھ بغاوت میں داخل ہے ، جس کا انجام یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالی ایسے لوگوں پر سے اپنی رحمت و عافیت کو اٹھا لیتا ہے ، برکتوں کو چھین لیتا ہے ، عقل و سمجھ پر پردہ ڈال دیتا ہے اور بسا اوقات ان میں سے بہت ساروں کو بھیانک عذاب جیسے زلزلہ ، طوفان ، پتھروں کی بارش اور تباہ کن سیلاب کے ذریعہ ہلاک کردیتا ہے ، زیر بحث حدیث میں کچھ ایسے ہی لوگوں کا ذکر ہے کہ ان کی زندگی عیش وعشرت میں گزر رہی ہوگی ، اللہ تعالی نے انہیں لباس و خوراک ہر قسم کی نعمتوں سے نوازا ہوگا لیکن وہ لوگ اللہ تعالی کی دی ہوئی ان نعمتوں کا شکریہ ادا نہ کرکے اور جائز و حلال خوراک و پوشاک پر صبر نہ کرکے حرام خوراک و پوشاک استعمال کریں گے ، اپنی زندگی کے قیمتی لمحوں کو ذکر و اذکار ، تلاوت قرآن اور عبادت کے کاموں میں صرف کرنے کے بجائے ساز و سارنگی اور گانے میں صرف کریں گے ، اپنے فرصت کے وقت کو مسجدوں اور عبادت گاہوں میں صرف کرنے کے بجائے شہر سے دور پہاڑوں اور پارکوں میں گزاریں گے ، مال کو زکوۃ و صدقہ کی شکل میں غریبوں کو دینے کے بجائے ناجائز عیش کوشی میں خرچ کریں گے جب کوئی محتاج ان کے پاس آئے گا تو ٹال مٹول سے کام لیں گے جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ تعالی ان میں سے کچھ پر پہاڑوں کو ڈھادے گا ، برف کے تودے ان پر آ پڑیں گے ، ان میں سے بعض کو بندروں اور سوروں کی شکل میں مسخ کردیگا اور کچھ کی عقل و سمجھ پر اس طرح پردہ ڈال دے گا کہ وہ بھلائی کو بھلائی اور برائی کو برائی نہ سمجھیں گے ۔
زیر بحث حدیث میں خصوصی طور پر جن جرموں کا ذکر ہے وہ درج ذیل ہیں :
(۱) شرمگاہ کو حلال سمجھنا :اس سے مراد عام طور پر علماء نے زنا لیا ہے یعنی وہ لوگ زنا جیسی حرکت کا ارتکاب کریں گے اور اسے تفریح ، تہذیب اور دیگر خوبصورت ناموں سے یاد کریں گے ، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ شرمگاہ سے صرف زنا ہی نہیں بلکہ اجنبی عورتوں کی پوشیدہ زینتوں حتی کہ ان کی شرمگاہوں کو دیکھنا بھی مراد ہو جیساکہ آج میگزینوں ، ٹی وی چینلوں اور انٹرنیٹ کی سائٹوں پر بالکل عام ہے ، آج یہ چیز اس قدر عام ہوچکی ہے کہ اسے برا نہیں سمجھا جاتا ۔
(۲)ریشم :ریشم کو اللہ تعالی نے مردوں پر حرام قرار دیا ہے اور اس سے متعلق فرمایا کہ جو شخص دنیا میں ریشم پہنے گا اللہ تعالی اسے جنت کے ریشم سے محروم رکھے گا ۔
(۳)شراب :اسلام نے شراب کو اس کے تمام انواع کے ساتھ حرام اور ہر برائی کی جڑ قرار دیا ہے خواہ وہ کسی بھی چیز سے بنی ہو اور اس کی مقدار کچھ بھی ہو وہ ہر حال میں حرام ہے بلکہ صرف شراب پینے والا ہی نہیں بلکہ شراب پلانے والا ، شراب بنانے والا ، شراب بیچنے والا ، شراب خریدنے والا ، شراب لانے والا اور اس کی قیمت کھانے والا سب کے سب حضورتاجدارختم نبوتﷺ کی زبان مبارک سے ملعون قرار دئیے گئے ہیں
بلکہ آپﷺ نے تو یہاں تک فرمایا کہ شرابی شراب پینے کی حالت میں مومن نہیں رہتا (کتب ستہ )اللہ تعالی کی پناہ ۔اس کا معنی ہے کہ اگر اسی حالت میں اس کا نتقال ہوجائے تو اس کا انتقال حالت کفر میں ہوا ۔ ۔۔۔ان تمام وعیدوں کے باوجود آج مسلم معاشروں میں شراب پینے والوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے اور اب اسے حرام اور کبیرہ سمجھنے کے بجائے تہذیب ، ترقی اور تقدم کی علامت سمجھا جارہا ہے ۔ الامان الحفیظ ۔ ۔۔
(۴) ساز وموسیقی :حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے ارشاد فرمایا :اللہ تعالی نے میرے اوپر شراب ، جوا ، طبلہ اور باجے کو حرام قرار دیا ہے ۔
نیز فرمایا :میری امت کے کچھ لوگوں پر پتھروں کی بارش ہوگی ، ان کی صورتیں مسخ کردی جائیں گی ، اور انہیں زمین میں دھنسا دیا جائے گا ، پوچھا گیا :یا رسول اللہﷺ! ایسا کب ہوگا ؟ آپ ﷺنے فرمایا جب ساز و موسیقی عام ہوں گے ، گانے والیوں کی کثرت ہوگی ، اور شراب بکثرت پی جائے گی ۔
ان تمام تاکیدات کے باوجود آج امت کا بہت بڑا طبقہ ساز و رنگ میںمست ہے ، حتی کہ امت کا ایک بہت بڑا طبقہ اسے حرام سمجھتا ہی نہیں بلکہ کچھ لوگ تو ایسے ملیں گے جو اسے دین سمجھ رہے ہیں ۔عیاذ باللہ ۔
حلال وحرام کے متعلق قرآن کریم کے دیئے ہوئے اصول
حلت و حرمت کے وہ تشریعی اصول جن کے اشارات قرآنِ کریم میں پائے جاتے ہیں ان میں سے نہایت ضروری اصولوں کو اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً:(۱)… زمین کی تمام اشیاء اصلاً مباح ہیں۔(۲)… تحلیل و تحریم صرف اور صرف اللہ تعالی کا حق ہے اوراس کی عطاسے حضورتاجدارختم نبوت ﷺاس کے نائب حقیقی ہونے کی بناء پر حرام کو حرام اورحلال کوحلال فرماتے ہیں۔(۳)… حلال کو حرام اور حرام کو حلال قرار دینا شرک ہے۔(۴)… حرام چیزیں انسان کے لیے مضرت کا باعث ہوتی ہیں۔(۵)…حلال ، حرام سے بے نیاز کر دیتا ہے۔(۶)… حرام کے حیلے تلاش کرنابھی حرام ہے۔(۷)… نیک نیتی حرام کو حلال نہیں کر سکتی۔(۸)…حرام سب کے لیے حرام ہے۔(۹)… حرام میں مبتلا ہونے کے اندیشہ سے مشتبہات سے اجتناب۔(۱۰)…ضرورتیں محظورات کو مباح کر دیتی ہیں۔
معارف ومسائل
(۱)اس سے معلوم ہواکہ ایران کامجوسی ہمیشہ سے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کادشمن رہاہے ۔
(۲) اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ اللہ تعالی کی حرام کردہ اشیاء کو حلال جاننے والامشرک ہے ۔
(۳) اللہ تعالی کے دین کے معاملے میں لوگوں کے ذہنوں میں شک ڈالنے والاشیطان ہے ۔ جس طرح آجکل لبرل وسیکولرطبقہ کے لوگ اللہ تعالی کے احکامات کے متعلق اورحضورتاجدارختم نبوت ﷺکی احادیث شریف کے متعلق آئے دن لوگوں کے ذہنوں میں شکوک وشبہات پیداکرتے رہتے ہیں۔
(۴) اس آیت کریمہ میں حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ جھگڑنے والے کورب تعالی نے شیطان کہاہے ۔ لھذاکسی بھی صحابی رضی اللہ عنہ کے دشمن کو شیطان کہناقرآن کریم سے ثابت ہے ۔
(۵) اوراس سے یہ بھی معلوم ہواکہ جو شخص دین کے معاملے میں لوگوں کے ذہنوں میں تشویش پیداکرے وہ بھی شیطان ہے جیسے آجکل لبرل سیکولرکرتے ہیں لھذاان کو شیطان کہنابالکل جائز ہے ۔
(۶)اس سے یہ بھی معلو م ہواکہ حیلے بہانے سے شرعی احکامات کوبدلنے والے چاہے کوئی بھی ہوں وہ شیطان ہیں اوروہ مشرک ہیں۔
(۷) عیسائی پادری این پکتھال کاحضرت سیدناشاہ عبدالعزیزمحدث دہلوی رحمہ اللہ تعالی سے مناظرہ ہوااورپادری نے یہی سوال کیاکہ تعجب ہے تمھارے دین میں اللہ تعالی کاماراہواجانورتوحرام ہے مگرتمھاراماراہواجانورحلال ہے ؟ حضرت سیدناعبدالعزیزرحمہ اللہ تعالی نے الزامی جواب دیاکہ ہمیں بھی تم پرتعجب ہے کہ تمھارے پائوں کے درمیان میں اللہ تعالی نے جوٹونٹی لگوائی اس کاپانی تم حرام سمجھتے ہواورگھرکے صحن میں انسان کے ہاتھ کی لگی ہوئی ٹونٹی کاپانی حلال سمجھ کرپیتے ہو، پادری لاجواب ہوگیا۔