تفسیر سورۃ الانبیاء آیت ۲۳۔ لَایُسْـَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَہُمْ یُسْـَلُوْنَ

اللہ تعالی اورحضورتاجدارختم نبوتﷺپراعتراض کرناکفرہے

{لَایُسْـَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَہُمْ یُسْـَلُوْنَ }(۲۳)

ترجمہ کنزالایمان:اس سے نہیں پوچھا جاتا جو وہ کرے اور ان سب سے سوال ہوگا۔

ترجمہ ضیا ء الایمان : اللہ تعالی سے اس کام کے متعلق سوال نہیں کیا جاتا جو وہ کرتا ہے اور لوگوں سے سوال کیا جائے گا۔

وہ احکام جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے مشروع قرار دیا ہے اور ان کی وضاحت قرآن مجید میں یا حضورتاجدارختم نبوتﷺ کی زبانی احادیث مبارکہ میں فرما دی ہے۔ مثلاً احکام وراثت، نماز، روزہ، حج، زکوۃ و دیگر ایسے شرعی احکام جن پر امت کا اجماع ہے تو کسی شخص کو ان پر اعتراض کرنے یا ان میں کمی بیشی کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے کیونکہ ایسے احکام شرعیہ عصر نبوی ﷺسے لے کر قیامت تک محکم شرعیت کا حکم رکھتے ہیں۔

ان احکام میں وراثت کے حوالے سے مرد کو عورت پر ترجیح بھی شامل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اس امر کی تصریح فرما دی ہے اور علماء امت کا اس پر اجماع بھی ہے، لہٰذا ایسے احکام پر مکمل اعتقاد اور ایمان کے ساتھ عمل پیرا ہونا ضروری ہے۔ جو شخص ایسے احکام کے برعکس کو موزوں تر سمجھے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ ایسے احکام کی مخالفت کو جائز قرار دینے والا بھی کفر کا مرتکب ہو رہا ہے۔ اس لئے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب کریمﷺ پر معترض ہے۔ بناء بریں اولوالامر کی ذمہ داری ہے کہ معترض کے مسلمان ہونے کی صورت میں اسے توبہ کرنے کے لئے کہیں۔ اگر وہ توبہ سے انکار کرے تو ایسا شخص کفر و ارتداد کی بناء پر واجب القتل ہے۔

بندے کوحق نہیں ہے کہ وہ اپنے آقاپراعتراض کرے

إنما لا یسأل عما یفعل؛ لأنَّہ ربّ مالک علّام، لا نہایۃ لعلمہ، وکل من سواہ مربوبٌ مملوک، جاہلٌ لا یعلم شیئًا إلَّا بتعلیم، فلیس للمملوک الجاہل أن یعترض علی سیّدہ العلیم بکل شیء فیما یفعل ویقول: لم فعلت؟ وہلّا فعلت؟وہم یسألون لانہم مملوکان مستعبدون خطاؤن فیقال لہم فی کل شیء فعلوہ لم فعلتم واعلم ان الاعتراض شؤم یسخط الرب ویوجب عقابہ وسخطہ:
قال الحافظ
مزن ز چون و چرا دم کہ بندہ مقبل … قبول کرد بجان ہر سخن کہ جانان کفت
ترجمہ :الشیخ العلامۃ محمد الأمین الشافعی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی سے سوال اس لئے نہیں ہوگاکہ وہ رب ہے ، مالک ہے اورعلام الغیوب ہے ، اس کے علوم کی نہ ابتداء ہے اورنہ ہی انتہاء ہے ، سب کے سب اس کے بندے ہیں اوراس کے مملوک ہیں ، وہ تمام اس کی تعلیم کے بغیرجاہل ہیں اورا س کے بتائے کے بغیربے خبرہیں ، اس لئے جاہل کو لائق نہیں ہے کہ وہ اپنے آقادانااوربیناپراعتراض کے طورپرکہے کہ یہ کام آپ نے کیوں نہیں کیایایہ کام آپ نے کیوں کیا؟۔اوربندوں سے اس لئے سوال ہوگاکہ وہ اس کے مملوک بندے خطاکارہیں ، اس لئے ان سے سوال ہوگاکہ تم نے یہ کام کیوں نہ کیایایہ کام کیوں کیا؟۔

حضرت حافظ شیرازی رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ
مزن ز چون و چرا دم کہ بندہ مقبل قبول کرد بجان ہر سخن کہ جانان کفت
ترجمہ :اللہ تعالی کے مقبول بندوں پراعتراض نہ کرواورجوکچھ اللہ تعالی کے محبوب بندے کہیں اس کو بسروچشم قبول کرو۔
(تفسیر حدائق الروح والریحان:الشیخ العلامۃ محمد الأمین الشافعی(۱۸:۳۷)

اللہ تعالی کی ذات اقدس پراعتراض کرناکفرہے

وبشؤم الاعتراض علی اللہ فی فعلہ لعن إبلیس وکان من مردۃ الکافرین فانہ تعالی لما امرہ بالسجود قال أَأَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِیناً فہذا بالاعتراض فی شأن المخلوق فکف بالاعتراض فی شأن الخالق وبالاعتراض علی اللہ والتعمق فی الخوض فی صفاتہ ہلک الہالکون من اہل الأہواء وارباب الآراء تعمقوا فیما لم یتعمق فیہ اصحاب رسول اللہ والتابعون ومن تبعہم من اہل الحق وتکلفوا الخوض فیہ فوقعوا فی الشبہات فضلوا وأضلوا ولو لم یتعمقوا لسلموا وقد اتفقت کلمۃ اہل الحق علی ان الاعتراض علی اللہ الملک الحق فی فعلہ وما یحدثہ فی خلقہ کفر فلا یجترء علیہ الا کافر وجاہل ضال۔
ترجمہ :امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی : ۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اسی اعتراض کی نحوست تھی کہ جونہی شیطان ابلیس نے اللہ تعالی پراعتراض کیاتوملعون ٹھہرااورزمرہ کفاراورمردودین میں شامل ہواجب کہ اللہ تعالی نے حضرت سیدناآدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کاحکم دیاتوبھی اس نے اعتراض کیااورکہنے لگاکہ کیامیں اسے سجدہ کروں جو مٹی سے بناہے ؟ نعوذباللہ من ذلک ۔

جب مخلوق کے بارے میں اعتراض کرنے کی یہ سزاہے تواللہ تعالی پراعتراض کرنے کی کیاسزاہوگی اوردورحاضرمیں بعض جدت پسنداللہ تعالی کی ذات اور اس کی صفات کے بارے میں غوروخوض کرکے تباہ ہورہے ہیں، یادرکھئے کہ سابقہ امم میں بھی بدمذہب معترضین اورمنکرین اسی وجہ سے گمراہ ہوئے کہ انہوں نے بھی ایسے ہی مسائل اٹھائے تھے ، جنہیں صحابہ کرام اورتابعین کرام رضی اللہ عنہم بیان کرنے سے گھبراتے تھے ، اس لئے کہ ان مسائل کے اظہارسے اللہ تعالی کی ذات پاک کے متعلق شبہات پیداہونے کاخطرہ تھالیکن بعد میں آنے والے ملحدین نے وہی مسائل کھڑے کردئیے توشبہات میں پڑکرخودبھی گمراہ ہوئے اوردوسروں کو بھی گمراہ کیا، اگروہ مسائل کھڑے نہ کرتے توان کاایمان ضائع نہ ہوتا۔

خلاصہ بحث یہ ہے کہ اہل حق کااجماع ہے کہ اللہ تعالی کے کسی بھی فعل اوراس کے تخلیقی امور میں اعتراض کرناکفرہے اوراس پروہی جرات کرتاہے جوکافراورگمراہ ہوتاہے اورلوگوں کوبھی گمراہ کرنے والاہوتاہے ۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۵:۴۶۵)

حضورتاجدارختم نبوتﷺپراعتراض کرناکفرہے

فالاعتراض علیہ اعتراض علی الحق وفیہ الہلاک۔
ترجمہ :الشیخ العلامۃ محمد الأمین الشافعی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جس طرح اللہ تعالی کی ذات پراعتراض کرناکفرہے اسی طرح حضورتاجدارختم نبوتﷺکی ذات اقدس پراعتراض کرنابھی کفرہے ، اس لئے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺہرہربات اللہ تعالی کی جانب سے فرماتے ہیں ،آپ ﷺکی کسی بھی بات میں خواہش نفسانی کودخل نہیں ہوتا، اسی لئے آپ ﷺپراعتراض کرنادونوں جہانوں کی تباہی اورہلاکت وبربادی کاسبب ہے ۔
(تفسیر حدائق الروح والریحان:الشیخ العلامۃ محمد الأمین الشافعی(۱۸:۳۷)

حضورتاجدارختم نبوتﷺکاگستاخ واجب القتل ہے

قال الفقہاء من غیرہ علیہ السلام بالمیل الی نسائہ قاصدا بہ النقص یقتل قاتلہ اللہ تعالی یقول الفقیر
شب پرہ میطلبد بدر تمامت نقصان

او نداند کہ ابد نور تو ظاہر باشد
ہر کہ از روی جدل بر تو سخن میراند

بمثل شد اگرش بو علی کافر باشد
ترجمہ :فقہاء کرام فرماتے ہیں کہ جوشخص یہ کہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکو عورتوں سے نفسانی پیارتھااوراس سے اس کی مراد حضورتاجدارختم نبوتﷺکی گستاخی ہوتوایسے بدبخت کوقتل کرناضروری ہے ، اللہ تعالی ایسے بدبخت کو تباہ وبربادفرمائے ۔
ترجمہ اشعار:چمگادڑچودہویں رات کے چاندکوناقص جانتاہے ، وہ یہ نہیں جانتاکہ اگروہ نہ ہوتاتوتوبھی نہ ہوتا۔
جوشخص تجھ پراعتراض کرتاہے وہ غلط کارہے اگرچہ ابوعلی جیسا کافرہی کیوں نہ ہو۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۵:۴۶۵)

اولیاء کرام اورعلماء کرام پراعتراض کرنامنع ہے

واما الاعتراض علی الأولیاء والمشایخ من العلماء فانہ یحرم الخیر ویقطع برکۃ الصحبۃ وزیادۃ العلم یدل علی ذلک شأن موسی والخضر علیہما السلام نہاہ عن الاعتراض علیہ فیما یفعل بقولہ (فلا تسألنی عن شیء حتی أحدث لک منہ ذکراومن شؤم الاعتراض ما کان من امر الخوارج اعترضوا علی علی رضی اللہ عنہ وخرجوا علیہ فخرجوا من الدین وصاروا کلاب النار وشر قتلی تحت أدیم السماء قال ابو یزید البسطامی قدس سرہ فی حق تلمیذہ لما خالفہ دعوا من سقط من عین اللہ فرؤی بعد ذلک مع المخنثین وسرق فقطعت یدہ ہذا حظ المعترض فی الدنیا واما حالہ فی الآخرۃ فلا یکلمہ اللہ ولا ینظر الیہ ولہ عذاب الیم فی نار القطعیۃ والہجران۔

ترجمہ :امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی : ۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ایسے ہی علماء کرام اوراولیاء عظام پراعتراض کرنامنع ہے اوراللہ تعالی کی رحمت سے محرومی کاسبب ہے ، بلکہ ان کی صحبت کی برکت نصیب نہ ہوگی اورنہ ہی ان کے علمی فیوضات حاصل ہوسکیں گے ۔
جیساکہ خوارج نے حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ پراعتراض کیااسی وجہ سے نہ صرف ان کاخروج ہوابلکہ دین حق سے ہی خارج ہوگئے اورانہیں کلاب النار( دوزخی کتے ) اورشرقتلی تحت ادیم السماء کے القاب نصیب ہوئے ۔

حضرت سیدنابایزید بسطامی رحمہ اللہ تعالی کاایک شاگردآپ رحمہ اللہ تعالی کانافرمان نکلا، آپ نے اس کے متعلق فرمایا: کہ اسے چھوڑدویہ اللہ تعالی کی نظرعنایت سے گرگیاہے ، چنانچہ وہ ہیجڑوں کے ساتھ پھرتادیکھاگیا، پھراس نے چوری کی تواس کاہاتھ کاٹاگیا، یہ اسے دنیاکی سزاملی اورآخرت میں اس کے ساتھ اللہ تعالی کلام نہ فرمائے گااورنہ ہی اس کی طرف نظرفرمائے گااوراس کے لئے دردناک عذاب ہے بلکہ وہ ہمیشہ کے لئے ہجران اورفراق میں رہے گا۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۵:۴۶۵)

اہل ادب کاطریقہ ملاحظہ فرمائیں

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُابْن إِسْحَاقَ بْنِ خُزَیْمَۃَ سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ یَحْیَی سَمِعْتُ أَبَا الْوَلِیدِ یَقُولُ وَحَدَّثَ بِحَدِیثٍ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَرْفُوعٍ فَقِیلَ لَہُ مَا رَأْیُکَ فَقَالَ لَیْسَ لِی مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَأْیُ۔
ترجمہ :حضرت سیدنامحمدبن یحی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سیدناابوالولیدرحمہ اللہ تعالی سے سناکہ وہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکی حدیث شریف بیان فرمارہے تھے توکسی نے ان کو کہاکہ اس مسئلہ میں آپ کی کیارائے ہے ؟ انہوںنے فرمایاکہ جب حضورتاجدارختم نبوتﷺکی حدیث شریف آگئی تومیری کیارائے ہوسکتی ہے ۔
(ذم الکلام وأہلہ:أبو إسماعیل عبد اللہ بن محمد بن علی الأنصاری الہروی (۲:۱۱۵)

اگرلبرل حضورتاجدارختم نبوتﷺکے زمانہ اقدس میں ہوتے تو۔۔۔

عَنِ الشِّعْبِیِّ قَالَ لَوْ أَدْرَکَ الْأَرَائِیُّونَ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَنَزَلَ الْقُرْآنُ کُلُّہُ یَسْأَلُونَکَ یَسْأَلُونَکَ۔
ترجمہ :حضرت سیدناامام الشعبی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگریہ چونکہ چنانچہ کرنے والے لوگ حضورتاجدارختم نبوتﷺکے زمانہ اقدس میں ہوتے توساراقرآن کریم {یسْأَلُونَکَ یَسْأَلُونَکَ}پرمشتمل ہوتا۔
(ذم الکلام وأہلہ:أبو إسماعیل عبد اللہ بن محمد بن علی الأنصاری الہروی (۲:۱۱۵)
جب حضورتاجدارختم نبوتﷺکی حدیث شریف مل جائے تو۔۔۔
حَدَّثَنَا حَرْمَلَۃُ سَمِعْتُ الشَّافِعِیَّ یَقُولُ إِذَا وَجَدْتُمْ سُنَّۃً لِرَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاتَّبِعُوہَا وَلَا تَلْتَفِتُوا إِلَی أَحَدٍ۔
ترجمہ :ہمیں حرملہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ میں نے حضرت سیدناامام شافعی رضی اللہ عنہ کوفرماتے ہوئے سناکہ جب تم حضورتاجدارختم نبوتﷺکی حدیث شریف پالوتوپھرکسی کی طرف نہ دیکھو۔
(ذم الکلام وأہلہ:أبو إسماعیل عبد اللہ بن محمد بن علی الأنصاری الہروی (۲:۱۱۵)

حضورتاجدارختم نبوتﷺکی حدیث شریف پراعتراض کرنے والے کاگلہ دبادیا

سمعت أبا یعقوب یقول:سمعت الخلیل بن أحمد یقول:سمعت أبا الحسین الطبسی یقول: سمعت أبا سعید الإصطخری یقول وجاء ہ رجل وقال لہ(أیجوز الاستنجاء بالعظم؟ قال:لاقال:لم؟ قال: لأن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم؛ قال:(ہو زاد إخوانکم من الجن قال:فقال لہ:الإنس أفضل أم الجن؟ قال:بل الإنس قال:فلم یجوز الاستنجاء بالماء وہو زاد الإنس؟ قال:فنزا علیہ وأخذ بحلقہ، وہو یقول:یا زندیق! تعارض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم؟! وجعل یخنقہ؛ فلولا أنی أدرکتہ لقتلہ أوکما قال۔
ترجمہ :ابو سعید الحسن بن احمد بن یزید الاصطخری المتوفی : ۳۲۸ھ) رحمہ اللہ تعالی کے پاس ایک آدمی آیا اور پوچھا:کیا ہڈی سے استنجاء جائز ہے؟انھوں نے فرمایا:نہیں۔اس نے پوچھا:کیوں؟انھوں نے فرمایا:کیونکہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا ہے:یہ تمھارے بھائی جنوں کی خوراک ہے۔اس نے پوچھا:انسان افضل ہیں یا جن؟انھوں نے فرمایا:انسان۔اس نے کہا:پانی کے ساتھ استنجا کیوں جائز ہے جبکہ وہ انسانوں کی خوراک ہے۔راوی (ابوالحسین الطبسی)کہتے ہیں کہ ابو سعید الاصطخری نے حملہ کر کے اس آدمی کی گردن دبوچ لی اور اس کا گلہ گھونٹتے ہوئے فرمانے لگے:زندیق (بے دین گمراہ تُو رسول اللہ ﷺکا رد کرتا ہے۔(راوی کہتے ہیں کہ)اگر میں اس آدمی کو نہ چھڑاتا تو وہ اسے قتل کر دیتے۔
(صون المنطق عن فن المنطق والکلام لامام جلال الدین السیوطی :۳۸۵)

عقیدہ ختم نبوت تعلیمات شیخ اکبررحمہ اللہ تعالی کی روشنی میں

سیدالمکاشفین حضرت محی الدین ابن العربی رضی اللہ عنہ کے عقیدہ ختم نبوت ﷺپر غامدی کی کذب بیانی اور فتوحات مکیہ کی ایک عبارت کی جھوٹی تشریح کے رد میں ۔
مولانا محمد ذوالقرنین قادری رضوی لکھتے ہیں کہ غامدی کا یہ پہلا معاملہ نہیں ہر دفعہ کچھ نہ کچھ جھوٹ کا سہارا لیکر دینی مسائل میں جمہور کی مخالفت کرکے اپنی ایک عجیب و غریب رائے دیکر امت کو انتشار میں ڈال دیتا ہے۔

اسی طرح کچھ دن قبل اسکا ایک کلپ دیکھا جس میں اس نے حضرت محی الدین ابن العربی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب فتوحات مکیہ کی ایک عبارت کی من گھڑت تشریح کرکے عوام کو اضطراب میں ڈال دیا، اور وہ طریقہ اختیار کیا جو دین کے چور کرتے ہیں۔ یعنی آدھی عبارت پیش کرکے اپنا مطلب بیان کیا مگر جس مسئلہ کے لیے وہ عبارت لکھی گئی تھی وہ حصہ چھوڑ دیا، صرف قادیانیوں کو خوش کرنے کے لیے اپنی آخرت برباد کی اور عقیدہ ختم نبوتﷺ کا حضرت ابن العربی کی عبارت کی آڑ میں خود بھی منکر ہوا۔ نعوذ باللہ

اس کلپ سے ہی ہم نے اس عبارت کی سکرین شارٹ لیکر اسکا ترجمہ بغیر تغیّر کے (یعنی غامدی کی طرح ڈنڈی نہیں لگائی) کردیا۔قارئین اس عبارت کو غور سے پڑھیں تو خود بخود بات واضح ہوگی کہ حضرت ابن العربی اس عبارت میں کیا کہنا چاہ رہے ہیں اور غامدی نے کیا سے کیا بنادیا۔

اصل عبارت یہ ہے
فان النبوۃ التی انقطعت بوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انما ھی نبوۃ التشریع لا مقامھا فلا شرع یکون ناسخا لشرعہ ولا یزید فی حکمہ شرعا آخر، وھذا معنی قولہ ان الرسالۃ والنبوۃ انقطعت فلا رسول بعدی ولا نبی ای لا نبی بعدی یکون علی شرع یخالف شرعی بل اذا کان یکون تحت حکم شریعتی، ولا رسول ای لا رسول بعدی الی احد من خلق اللہ بشرع یدعوھم الیہ فھذا ھوالذی انقطع و سد بابہ لا مقام النبوۃفانہ لا خلاف ان عیسی علیہ السلام نبی و رسول وانہ لا خلاف انہ ینزل فی آخر الزمان حکما مقسطا عدلا بشرعنا لا بشرع آخر ولا بشرعہ الذی تعبد اللہ بہ بنی اسرائیل من حیث ما نزل ھو بہ ، بل ما ظھر من ذالک ھو ما قررہ شرع محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ونبوۃ عیسی علیہ السلام ثابت لہ محققۃ، فھذا نبی و رسول قد ظھر بعدہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وھو صادق فی قولہ لا نبی بعدہ۔۔۔الخ

ترجمہ :بیشک نبوت حضورتاجدارختم نبوتﷺکی آمد شریفہ سے منقطع (یعنی ختم)ہوگئی۔ اس سے مراد نبوت تشریعی ہے نہ کہ مقام نبوت، لہذا کوئی شریعت ہے ہی نہیں جو حضورتاجدارختم نبوتﷺ کی شریعت کی ناسخ ہو اور نہ ہی کوئی شریعت اِس شریعت کے احکام میں زیادتی کرسکتی ہے۔ اور یہی حضورتاجدارختم نبوتﷺ کے ارشادِ پاک کا مطلب ہے کہ بیشک رسالت و نبوۃ منقطع یعنی ختم ہوگئی، لہذا میرے بعد نہ کوئی نبی ہوگا نہ رسول یعنی میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا جو کسی شریعت پر ہو اور میری شریعت کی مخالفت کرے بلکہ جب ہوگا تو میری شریعت کے تابع ہوگا اور نہ ہی میرے بعد کوئی رسول ہوگا جو کسی مخلوق کی طرف رسول بنا کر اور شریعت دیکر بھیجا جائے کہ جو مخلوق کو اس شریعت کی طرف دعوت دے، یہ ہے وہ جو منقطع ہوگئی اور اسکا رستہ بند کردیا گیا ہے، نہ کہ مقام نبوت۔

چنانچہ اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام نبی و رسول ہیں اور اس میں بھی کوئی اختلاف نہیں کہ وہ آخری زمانے میں تشریف لائینگے اور عدل و انصاف کے ساتھ ہماری شریعت کے احکام نافذ کرینگے نہ کہ کسی دوسری شریعت کے احکام اور نہ ہی اس شریعت کے احکام جس سے بنی اسرائیل اللہ سبحانہ وتعالی کی عبادت کرتے تھے جسے حضرت سیدنا عیسی علیہ السلام لیکر آئے تھے بلکہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکی شریعت کو نافذ کریں گے۔بیشک حضرت سیدنا عیسی علیہ السلام کی نبوت تحقیقاً ثابت ہے پس وہ نبی و رسول ہیں جو حضورتاجدارختم نبوتﷺکے بعد ظاہر ہونگے، لیکن حضورتاجدارختم نبوتﷺاپنے فرمان میں صادق ہیں کہ لا نبی بعدی میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
تشریح:اصل میں یہ عبارت ایک سوال کا جواب ہے اور وہ سوال یہ ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺپر نبوت و رسالت ختم ہوئی تو حضرت عیسی علیہ السلام قیامت کے قریب تو آئینگے حالانکہ وہ نبی و رسول ہیں؟
اس اعتراض کا جواب حضرت ابن العربی رحمہ اللہ تعالی نے اس عبارت میں مختصرا ًارشاد فرمایا کہ ایک ہے:تشریعی نبوت اور ایک ہے:مقامِ نبوت۔
تشریعی نبوت کا مطلب ہے کوئی نبی نئی شریعت کے ساتھ آجائے تو یہ تو حضورتاجدارختم نبوتﷺکے وجود پاک اور تشریف لانے سے ختم ہوگیا خود حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا کہ{ لانبی بعدی }لہذا کوئی نیا نبی و رسول آ ہی نہیں سکتا۔
لیکن مقامِ نبوت ختم نہیں ہوتا یعنی ایسا نہیں کہ کسی نبی کو نبوت دی جائے اور پھر اس سے وہ منصبِ نبوت چھین لیا جائے، نبی دنیا سے وصال کرجائے یا پھر اگر دوبارہ کسی وجہ سے اس دنیا میں تشریف لائے تو مقامِ نبوت تو اسکے پاس ہی رہیگا جیسا کہ حضرت سیدنا عیسی علیہ السلام نبی و رسول ہیں اور قیامت کے قریب تشریف لائینگے لیکن کوئی نئی شریعت نہیں لائینگے بلکہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکی شریعت ہی کو نافذ کرینگے۔
اس سے حضورتاجدارختم نبوتﷺکے فرمان{ لا نبی بعدی }پر کوئی اعتراض بھی نہیں ہوگا کیونکہ وہ نئے نبی نہیں بن کر آئینگے بلکہ انکی نبوت حضورتاجدارختم نبوتﷺسے پہلے ہے اب حضورتاجدارختم نبوتﷺکے امتی بن کر تشریف لائینگے مگر مقامِ نبوت انکے پاس ہی ہوگا ان سے یہ منصب چھین نہیں لیا جائیگا۔
یہ ہے اس عبارت کا مفہوم مگر غامدی نے اسکی آڑ میں قادیانی کی نبوت ثابت کرنے کی ناکام کوشش و جسارت کی نعوذ باللہ

دنیاوی طور کی مثال
کسی ملک کا صدر یا وزیر اعظم اپنے ملک سے جب کسی دوسرے ملک میں جاتا ہے تو اس سے اسکی صدارت یا وزارت کا منصب ختم نہیں ہوتا لیکن وہ وہاں اسی ملک کے قانون کے مطابق رہیگا۔ مثلا کسی ملک کا صدر یا بادشاہ یا وزیراعظم سعودی عرب جائے تو وہاں جانے سے اسکی صدارت و وزارت و بادشاہت کا منصب اسکے پاس ہی رہتا ہے مگر وہاں وہ سعودیہ کے قانون کا پاپند ہوگا اور اسی قانون پر عمل کریگا۔
صرف سمجھانے کے لیے یہ مثال دی گئی ،اسی طرح حضرت سیدنا عیسی علیہ السلام قربِ قیامت یہاں تشریف لائینگے اور انکے پاس اپنا منصب و مقامِ نبوت بھی ہوگا مگر وہ پیروی و اتباع حضورتاجدارختم نبوتﷺکی شریعت کی ہی کرینگے اور حضورتاجدارختم نبوتﷺکی امت میں داخل ہونگے۔
یہ ہے اس عبارت کا مطلب۔
اللہ پاک مسلمانوں کو فتنہ غامدیت سے محفوظ فرمائے۔ اٰمین یارب العالمین۔

حضرت محی الدین ابن عربی رحمہ اللہ تعالی کے نزدیک ہر نبوت تشریعی ہے
آئیے ہم شیخ ابن عربی کی عبارات سے ہی اس بات کو ثابت کرتے ہیں :
فما بقی للاولیاء الیوم بعد ارتفاع النبوۃ الا التعریف وانسدت ابواب الاوامر الالھیۃ والنواھی ، فمن ادعاھا بعد محمد فھو مدع شریعۃ اوحی بھا الیہ سواء وافق بھا شرعنا او خالف۔
ترجمہ :حضرت سیدناشیخ اکبررحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ پس نبوت ختم ہوجانے کے بعد اولیاء کرام کے لئے صرف معارف باقی رہ گئے ہیں اور اللہ تعالی کے اوامر ونواہی کے دروازے بند ہوچکے پس اگر کوئی حضورتاجدارختم نبوتﷺکے بعد یہ دعویٰ کرے کہ (اللہ تعالی نے اسے کوئی حکم دیا ہے یا کسی بات سے منع کیا ہے )تو وہ مدعی شریعت ہی ہے خواہ اس کی وحی شریعت محمدیہ کے موافق ہو یا خلاف ہو (وہ مدعی شریعت ضرور ہے )
(الفتوحات المکیہ لشیخ اکبرمحی الدین ابن العربی ( ۳: ۳۹)

حضرت شیخ اکبررحمہ اللہ تعالی کی اس عبارت سے واضح ہوا کہ مدعی شریعت صرف وہی نہیں جو شریعت محمدیہ کے بعد نئے احکام لے کر آئے ، بلکہ وہ مدعی نبوت جس کا دعویٰ ہو کہ اس کی وحی شریعت محمدیہ کے بالکل مطابق ہے وہ بھی مدعی شریعت ہے ۔ اور یہ دعویٰ بھی ختم نبوت کے منافی ہے ، لہٰذا حضورتاجدارختم نبوتﷺکے بعد جس طرح نئی شریعت کا دعویٰ ختم نبوت کا انکار ہے اسی طرح شریعت محمدیہ کے مطابق وحی کا دعویٰ بھی ختم نبوت کا انکار ہے ، اس عبارت سے واضح ہوا کہ شیخ محی الدین ابن عربی رحمہ اللہ تعالی کے نزدیک تشریعی نبوت سے مراد وہ نبوت ہے جسے شریعت نبوت کہے خواہ وہ نبوت نئی شریعت کی مدعی ہو یا شریعت محمدیہ کی موافقت کا دعویٰ کرے ، اس طرح شیخ ابن عربی رحمہ اللہ تعالی کے نزدیک غیر تشریعی نبوت سے مراد وہ کمالات نبوت اور کمالات ولایت ہوں گے جن پر شریعت نبوت کا اطلاق نہیں کرتی اور وہ نبوت نہیں کہلاتے ۔

حضورتاجدارختم نبوتﷺکے وصال شریف کے ساتھ ہی وحی منقطع ہوگئی

واعلم ان لنا من اللہ الالھام لاالوحی فان سبیل الوحی قد انقطع بموت رسول اللہ ﷺوقد کان الوحی قبلہ ولم یجیء خبر الھی ان بعدہ وحیاََ کما قال ولقد اوحی الیک اولی الذین من قبلک ولم یذکر وحیاََ بعدہ وان لم یلزم ھذا وقد جاء الخبر النبوی الصادق فی عیسیٰ علیہ اسلام وقد کان ممن اوحی الیہ قبل رسول اللہ ﷺلایومنا الامنا ای بسنتنا فلہ الکشف اذا نزل والالھام کما لھذہ الامۃ۔
ترجمہ ـ:حضرت سیدنامحی الدین ابن العربی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جان لو کہ ہمارے لئے (یعنی اس امت کے لئے )اللہ تعالیٰ کی طرف سے صرف الہام ہے وحی نہیں ۔ وحی کا سلسلہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکے وصال شریف پر ختم ہوچکا ہے ۔ آپ ﷺسے پہلے بے شک یہ وحی کا سلسلہ موجود تھا ۔ اور ہمارے پاس کوئی ایسی خبر الہٰی نہیں پہنچی کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکے بعد بھی کوئی وحی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :اور وحی کی گئی آپ ﷺ کی طرف اور تجھ سے پہلوں کی طرف ۔ (الزمر :۶۵)اللہ تعالیٰ نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکے بعد کسی وحی کا ذکر نہیں فرمایا ۔ ہا ںحضورتاجدارختم نبوتﷺکی حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کے بارے میں سچی خبر پہنچی ہے ، اور آپ ان لوگوں میں سے ہیں جن کی طرف حضورتاجدارختم نبوتﷺسے پہلے وحی کی گئی تھی ۔ آپ علیہ السلام جب امت کی قیادت کریں گے تو ہماری شریعت کے مطابق عمل کریں گے ۔ آپ علیہ السلام جب نازل ہوں گے تو آپ علیہ السلام کے لئے مرتبہء کشف بھی ہوگا اور الہام بھی جیسا کہ یہ مقام (اولیاء )امت کے لئے ہے ۔
(الفتوحات المکیہ لشیخ محی الدین ابن العربی ( ۳: ۲۳۸)

یہاں شیخ اکبررحمہ اللہ تعالی نے صراحت کے ساتھ اس امت میں وحی نبوت کا سلسلہ بند بتلایا ہے ، اگر حضورتاجدارختم نبوتﷺکے بعد وحی جاری ہوتی تو شیخ ابن عربی اس طرح اس کے بند ہونے کا ذکر نہ فرماتے ، نیز یہ بھی وضاحت فرمادی کہ حضرت سیدناعیسیٰ علیہ اسلام پر آپﷺ کے وصال شریف کے بعد کوئی وحی اترے گی تو وہ کشف اور الہام کے معنی میں ہوگی اور اصطلاحی وحی نہ ہوگی جو صرف نبیوں پر آتی ہے وہ نئی شریعت کے ساتھ ہو یا پرانی شریعت کے ساتھ ، نیز اس تحریر سے شیخ ابن عربی کا یہ عقیدہ بھی پتہ چل گیا کہ آپ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نازل ہونے کے قائل ہیں جن پر حضورتاجدارختم نبوتﷺسے پہلے وحی نازل ہوچکی تھی ، جبکہ قادیانی عقیدہ اس کے برعکس ہے ۔
نبی کا لفظ صرف اس پر بولا جائے گا جو صاحب تشریع ہو

حضرت سیدناشیخ محی الدین ابن العربی رحمہ اللہ تعالی ایک اور جگہ لکھتے ہیں
فاخبر رسول اللہ ﷺان الرویا جزء من اجزاء النبوۃ فقد بقی للناس من النبوۃ ھذا وغیرہ ومع لا یطلق اسم النبوۃ ولا النبی الاعلی المشرع خاصۃ فحجر ھذا الاسم لخصوص وصف معین فی النبوۃ وماحجر النبوۃ التی لیس فیھا ھذا الوصف الخاص وان کان حجر الاسم۔
ترجمہ :حضرت سیدناشیخ اکبررحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا کہ اچھا خواب نبوت کے اجزاء میں سے ایک جزو ہے ، پس نبوت میں سے لوگوں کے لیے یہ رویا وغیرہ باقی رہ گیا ہے مگر اس کے باوجود نبوت اور نبی کا نام صرف اس پر بولا جاتا ہے جو صاحب دین وشریعت ہو۔ ایک خاص وصف معین کی بناء پر اس نام (نبی )کی بندش کر دی گئی ہے ۔
(الفتوحات المکیہ لشیخ محی الدین ابن العربی ( ۲: ۲۷۶)
شیخ ابن عربی کی یہ تحریر واضح بتلا رہی ہے کہ ان کے نزدیک نبی کا لفظ صرف اس کے ساتھ خاص ہے جو صاحب دین وشریعت ہو ( چاہے اسے نئی شریعت ملی ہو یا کسی پرانی شریعت پر عمل پیرا ہونے کا حکم دیا گیا ہو )اور یہ نبوت ختم ہو چکی ہے اب لوگوں کے لئے مبشرات وغیرہ ہی باقی رہ گئے ہیں اور ان پر نبوت کا لفظ نہیں بولا جاسکتا ۔
اب کسی کا نام نبی یا رسول نہیں ہوسکتا
ولھذا قال ﷺان الرسالۃوالنبوۃ قد انقطعت وما انقطعت الامن وجہ خاص انقطع منھا مسمی النبی والرسول الذلک قال فلا رسول بعدی ولا نبی ثم ابقی منھا المبشرات وابقی حکم المجتھدین وازال عنھم الاسم۔
ترجمہ :حضرت سیدناشیخ اکبررحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا کہ بے شک رسالت اور نبوت ختم ہوچکی ، یہ ختم ہونا ایک خاص وجہ سے ہے ، ا ب نبی اور رسول کا نام ختم ہوچکا ہے ( یعنی اب کسی کو نبی یا رسول نہیں کہا جا سکتا )اسی لئے آپ ﷺنے فرمایا کہ میرے بعد اب نہ کوئی رسول ہے اور نہ کوئی نبی پھر آپ ﷺنے مبشرات کو باقی رکھا اور مجتہدین کے حکم کو باقی رکھا لیکن ان سے (نبی اور رسول )کا نام دور کر دیا ۔
(الفتوحات المکیہ لشیخ محی الدین ابن العربی (۳:۳۸۰)
دیکھیئے کس صراحت کے ساتھ شیخ اکبررحمہ اللہ تعالی نے لکھا ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکے بعد اب نبی یا رسول کا نام کسی کے لئے نہیں بولا جا سکتا ، ہاں نبوت کے اجزاء یعنی اچھے خواب وغیرہ باقی ہیں (جسے شیخ ابن عربی نبوت کے باقی ہونے سے تعبیر کرتے ہیں ) لیکن ساتھ یہ فرماتے ہیں کہ صاحب مبشرات کو نبی یا رسول نہیں کہہ سکتے ۔
جو وحی نبی ور سول کے ساتھ خاص ہے وہ منقطع ہوچکی ، اب کسی کو نبی یا رسول کا نام نہیں دیا جاسکتا۔
وانما انقطع الوحی الخاص بالرسول والنبی من نزول الملک علی اذنہ وقبلہ وتحجیر اسم النبی والرسول۔
ترجمہ :حضرت سیدناشیخ اکبررحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جو وحی نبی اور رسول کے ساتھ خاص تھی کہ فرشتہ ان کے کان یا دل پر (وحی لے کر )نازل ہوتا تھا وہ وحی بند ہوچکی ، اور اب کسی کو نبی یا رسول کا نام دینا ممنوع ہوگیا ۔
(الفتوحات المکیہ لشیخ محی الدین ابن العربی ( ۳:۳۸۱)
شیخ محی الدین ابن العربی رحمہ اللہ تعالی کا واضح عقیدہ ختم نبوت
شیخ ابن عربی اپنی دوسری کتاب فصوص الحکم میں اپنا عقیدہ یوں بیان فرماتے ہیں ۔
لانہ اکمل موجود فی ھذا النوع الانسانی ولھذا بدیء بہ الامر وختم ، فکان نبیاََ وآدم بین الماء والطین ثم کان بنشئتہ خاتم النبیین۔
ترجمہ :حضرت سیدناشیخ اکبررحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺ نوع انسانی میں سب سے زیادہ کامل انسان ہیں اور اسی لئے نبوت کا معاملہ آپ سے ہی شروع ہوا ، اور آپ پر ہی ختم ہوا ۔ آپ نبی تھے اور آدم علیہ اسلام ہنوزآب وگلِ میں تھے ، پھر آپ ﷺاپنی نشئاۃ بشری کے لحاظ سے بھی خاتم النبیین ہیں ( یعنی آخری نبی ہیں )
(فصوص الحکم لشیخ اکبرمحی الدین ابن العربی : ۲۱۴)
شیخ اکبرمحی الدیں ابن عربی کی عبارت اور جاوید غامدی
بسم اللہ والحمد للہ والصلوۃ والسلام علی حبیب اللہ
مولانامحمدکاشف اقبال قادری لکھتے ہیں کہ جاویدغامدی آجکل شیخ اکبر محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی ایک عبارت کی انتہائی گمراہ کن اور کافرانہ تشریح و توضیح بیان کر رہاہے جس سے اسلام کے بنیادی عقیدے ختم نبوت پر زد آتی ہے،حالانکہ شیخ اکبر کی عبارت کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے، جو غامدی بیان کر رہا ہے۔
جاوید احمد غامدی کہتاہے کہ شیخ اکبر رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے فتوحات مکیہ میں فرمایا ہے کہ :ختم نبوت کا معنی یہ نہیں کہ نبوت کا مقام اور اس کے کمالات ختم ہوگئے ہیں بلکہ صرف یہ ہے کہ اب جو نبی بھی ہو گا سیدنا محمد رسول اللہ ﷺکا پیروکار ہو گا ۔
فقیر قادری کہتا ہے
شیخ اکبر کی مراد تو بالکل واضح ہے اور اہل سنت و جماعت کا بنیادی عقیدہ ہے کہ نبی سے نبوت کا زوال جائز نہیں ۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی پہلے نبی ہو اور بعد میں اس سے وصف نبوت زائل ہو جائے اور وہ نبی نہ رہے۔ لہذا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہمارے حضورتاجدارختم نبوتﷺکو اللہ تعالی کی طرف سے عطا کردہ ختم نبوت کا مقام اور وصف زائل ہو جائے ،یہ نا ممکن ہے۔ یہ عقیدہ اہل سنت کی عقائد کے حوالے سے لکھی گئی تقریبا تمام بنیادی کتابوں میں بیان ہواہے۔ اسی طرح عبارت کے دوسرے حصے سے مراد ہر گز یہ نہیں ہے کہ کوئی نیا نبی مبعوث ہو سکتا ہے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ کوئی پہلے نبی ہو اور پھر حضور تاجدارختم نبوتﷺکے وصال شریف کے بعد دنیا میں تشریف لائے تو اس کو حضور تاجدارختم نبوتﷺکی شریعت کی ہی پیروی کرنا پڑے گی ۔ جیسا کہ حضرت سیدناعیسی علیہ السلام جب تشریف لائیں گے وہ نبی تو ضرور ہوں گے لیکن وہ نہ تو آخری نبی ہوں گے اور نہ ہی اپنی شریعت کے مطابق عمل کریں گے بلکہ ہمارے حضورتاجدارختم نبوتﷺکی شریعت کے مطابق ہی زندگی گزاریں گے ۔
حالانکہ شیخ اکبر رحمہ اللہ تعالی نے مذکورہ بالا عبارت ذکر کرنے کے ساتھ متصل ہی حضرت سیدناعیسی علیہ السلام کا ذکر کیا اور مثال دے کر بات سمجھائی ہے۔ شیخ اکبر رحمہ اللہ تعالی کی مراد بالکل واضح ہے۔ مگر غامدی زبردستی بات کا غلط معنی نکال کر عوام کو گمراہ کرنے کے چکر میں ہے۔
غامدی مذہب اپنے عقائدکے آئینہ میں
غامدی کی مختلف کتابوں میں جو نظریات موجود ہیں اس کی ایک مختصر فہرست میں قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں ، تاکہ غامدی کے غلط نظریات مسلمانوں کے سامنے آجائیں ان کے تمام غلط نظریات کا پیش کرنا تو بہت لمبا کام ہے لیکن چند اہم غلطیوں کی نشاندہی بطور نمونہ پیش خدمت ہے۔
(۱)…قرآن کی صرف ایک ہی قرات درست ہے، باقی سب قراتیں عجم کا فتنہ ہیں۔
( میزان صفحہ: ۲۵،۲۶،۳۱)طبع دوم اپریل۲۰۰۲ء)
(۲)…سنت قرآن سے مقدم ہے۔( میزان :۵۲)طبع دوم اپریل۲۰۰۲ء)
(۳)…سنت صرف افعال کا نام ہے، اسکی ابتدا محمد ﷺ سے نہیں بلکہ ابراہیم علیہ اسلام سے ہوئی تھی۔
( میزان:۱۰،۶۵) طبع دوم اپریل۲۰۰۲ء)
(۳)…سنت صرف ستائیس اعمال کا نام ہے۔( میزان :۱۰) طبع دوم اپریل۲۰۰۲ء)
کچھ عرصہ بعد غامدی نے کہا کہ سنت صرف اعمال کا نام ہے اور آج ان کی نظر میں سنت محض ۱۳اعمال کا نام ہے پچھلی تمام کو منسوخ کر چکے ہیں اور اس طرح بیش بہا سنت کی بہاریں اور صحیح احادیث کا بھی انکار کر چکے ہیں۔
(۵)…حدیث سے کوئی اسلامی عقیدہ یا عمل ثابت نہیں ہوتا۔( میزان:۴۶)طبع دوم اپریل۲۰۰۲ء)
(۶)…دین کے مصادر و ماخذ قرآن کے علاوہ دین فطرت کے حقائق، سنت ابراہیمی اور قدیم صحائف ہیں۔
( میزان:۴۸)طبع دوم اپریل۲۰۰۲ء)
(۷)…دین میں معروف اور منکر کا تعین فطرت انسانی کرتا ہے۔( میزان :۴۹) طبع دوم اپریل۲۰۰۲ء)
(۸)…نبیﷺ کی رحلت کے بعد کسی شخص کو کافر قرار نہیں دیا جا سکتا۔(ماہنامہ اشراق:۵۵) دسمبر ۲۰۰۲ء)
(۹)…زکوۃ کا نصاب منصوص اور مقرر نہیں ہے۔( قانون عبادات:۱۱۹)طبع اپریل ۲۰۰۵ء)
(۱۰)…اسلام میں موت کی سزا صرف دو جرائم (قتل نفس اور فساد فی الأرض )پر دی جا سکتی ہے۔
( برہان :۱۴۳) طبع چہارم جون ۲۰۰۶ء)
(۱۱)…دیت کا قانون وقتی اور عارضی تھا۔( برہان :۱۸،۱۹)طبع چہارم جون۲۰۰۶ء)
(۱۲)…قتل خطأ میں دیت کی مقدار منصوص نہیں ہے اور یہ ہر زمانے میں تبدیل کی جاسکتی ہے۔
( برہان :۱۸،۱۹)طبع چہارم جون۲۰۰۶ء)
(۱۳)…عورت اور مرد کی دیت برابر ہوگی۔( برہان :۱۸،۱۹)طبع چہارم جون۲۰۰۶ء)
(۱۴)…مرتد کے لئے قتل کی سزا نہیں ہے۔( برہان :۱۴۰)طبع چہارم جون۲۰۰۶ء)
(۱۵)…شادی شدہ اور کنوارے زانی دونوں کے لئے ایک ہی حد سو کوڑے کی ہے۔
( میزان:۲۹۹،۳۰۰)طبع دوم اپریل ۲۰۰۲ء)
(۱۶)…شراب نوشی پر کوئی شرعی سزا نہیں۔( برہان :۱۳۸)طبع چہارم جون۲۰۰۶ء)
(۱۷)…غیر مسلم بھی مسلم کے وارث ہو سکتے ہیں۔( میزان:۲۱۱)طبع دوم اپریل ۲۰۰۲ء)
(۱۸)…سور کی کھال اور چربی وغیرہ کی تجارت اور ان کا استعمال شریعت میں ممنوع نہیں ہے۔
( ماہنامہ اشراق:۷۹) اکتوبر ۱۹۹۸ء)
(۱۹)…عورت کے لئے ڈوپٹہ یا اوڑھنی پہننا شرعی حکم نہیں۔( ماہنامہ اشراق :۴۷)مئی ۲۰۰۲ء)
(۲۰)…کھانے کی صرف چار چیزیں ہی حرام ہیں، خون ، مردار، سور کا گوشت اور غیر اللہ کے نام کا ذبیحہ۔
(میزان :۳۱۱)طبع دوم اپریل ۲۰۰۲ء)
(۲۱)…بعض انبیاء قتل ہوئے مگر کوئی رسول کبھی قتل نہیں ہوا۔( میزان حصہ اول:۲۱) طبع ۱۹۸۵ء)
(۲۲)…عیسی علیہ اسلام وفات پا چکے ہیں۔( میزان حصہ اول:۲۱) طبع ۱۹۸۵ء)
(۲۳)…یاجوج ماجوج اور دجال سے مراد مغربی اقوام ہیں۔(ماہنامہ اشراق جنوری ۱۹۸۶ء)
(۲۴)…جانداروں کی مصوری کرنا بلکل جائز ہے۔( ادارہ المورد کی کتاب’’تصویر کا مسئلہ ‘‘ :۳۰)
(۲۵)…موسیقی، ناچ اور گانا بجانا بھی جائز ہے۔( ماہنامہ اشراق :۴۹)مارچ ۲۰۰۴ء)
(۲۶)…عورت مردوں کی امامت کرا سکتی ہے۔( ماہنامہ اشراق:۳۵) مئی ۲۰۰۵ء)
(۲۷)…اسلام میں جہاد و قتال کا کوئی شرعی حکم نہیں۔( میزان :۲۶۴)طبع دوم اپریل ۲۰۰۲ء)
(۲۸)…کفار کے خلاف جہاد کرنے کا حکم اب باقی نہیں رہا اور مفتوح کافروں سے جزیہ لینا بھی جائز نہیں۔
( میزان:۲۷۰)طبع دوم اپریل ۲۰۰۲ء)
(۲۹)…مسلم عورت غیر مسلم اہل کتاب مرد سے چاہے تو شادی کر سکتی ہے۔
(۳۰)…زنا کے ثبوت کے لئے شریعت میں چار گواہوں کی ضرورت نہیں۔
(۳۱)سود دینا جائز ہے۔
(۳۲)…عیسی علیہ السلام اور محمد بن عبداللہ (امام مہدی)وغیرہ نہیں آئیں گے۔
(۳۳)…داڑھی عرب کلچر کا حصہ تھی اس سے اسلام کا کوئی تعلق نہیں۔
(۳۴)…ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور حکومت بنانے کا واحد شرعی طریقہ جمہوریت ہے۔
(۳۵)…مرزا غلام احمد قادیانی ایک صوفی تھا اس نے کبھی نبوت کا دعوی نہیں کیا ، اسے کافر قرار دینا غلطی تھی۔
(۳۶)…چار مخصوص کام کے علاوہ شریعت میں کوئی اور کام حرام نہیں۔
اس کے علاوہ بھی بہت سی باتیں منظر عام پر آ چکی ہیں جو اس فتنہ کو سمجھنے کے لئے کافی ہیں۔۔
آخری سات نکات کی کتابی صورت میں میرے پاس موجود نہیں پر ویڈیوز نیٹ پر موجود ہیں۔۔
اہل علم جانتے ہیں کہ مذکورہ بالا تمام عقائد قرآن و سنت کے خلاف ہیں اور ان سے دین اسلام کے مسلمات کی نفی ہوتی ہے جن پر عمل پیرا ہونا ایمان کے لئے بھی شدید خطرناک ہو سکتا ہے۔

Leave a Reply