تفسیرسورۃالاعراف آیت ۱۹۰ ۔ فَلَمَّآ اٰتٰہُمَا صٰلِحًا جَعَلَا لَہ شُرَکَآء َ فِیْمَآ اٰتٰہُمَا فَتَعٰلَی اللہُ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ

ان روایات کی تحقیق جن میں مذکورہے کہ
حضرت آدم علیہ السلام اورحضرت حواء رضی اللہ عنہانے اپنے بیٹے کانام عبدالحارث رکھا

اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا
{فَلَمَّآ اٰتٰہُمَا صٰلِحًا جَعَلَا لَہ شُرَکَآء َ فِیْمَآ اٰتٰہُمَا فَتَعٰلَی اللہُ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ }(۱۹۰)
ترجمہ کنزالایمان :پھر جب اس نے انہیںجیسا چاہابچہ عطا فرمایاانہوںنے اس کی عطا میں اس کے ساجھی(شریک ) ٹھہرائے تو اللہ کو برتری ہے ان کے شرک سے۔سورۃ الاعراف رقم الآیۃ : ۱۹۰)
اس آیت کے تحت بعض مفسرین نے عجیب وغریب سی باتیں نقل کردی ہیں جس سے یہ ظاہرہوتاہے کہ حضرت سیدناآدم علیہ السلام اورحضرت سیدتناحواء رضی اللہ عنہاسے نعوذ باللہ شرک ہوگیا۔ اورانہوں نے اپنے بیٹے کانام رکھنے میں شرک کیا۔
تواس فقیر پرتقصیر نے بھی کچھ نام نہاد مولویوں سے دوران وعظ یہ قصہ بیان کرتے ہوئے سناتوضروری سمجھاکہ اس پر کچھ کلام ہوجائے تاکہ اس طرح کی روایات کی حقیقت سامنے آجائے ۔
پہلے ہم اس کے متعلق وہ روایات ذکرکرتے ہیں اس کے بعد ان روایات پر جو محدثین نے حکم لگایاہے وہ بیان کریں گے ۔

پہلی روایت

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی، قَالَ:حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الوَارِثِ، قَالَ:حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ، عَنْ قَتَادَۃَ، عَنِ الحَسَنِ، عَنْ سَمُرَۃَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ:لَمَّا حَمَلَتْ حَوَّاء ُ طَافَ بِہَا إِبْلِیسُ وَکَانَ لاَ یَعِیشُ لَہَا وَلَدٌ، فَقَالَ:سَمِّیہِ عَبْدَ الحَارِثِ، فَسَمَّتْہُ عَبْدَ الحَارِثِ، فَعَاشَ، وَکَانَ ذَلِکَ مِنْ وَحْیِ الشَّیْطَانِ وَأَمْرِہ۔
ترجمہ :حضرت سیدناسمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: حضرت حواء رضی اللہ عنہاجب حاملہ ہوگئیں تو ان کے پاس ابلیس گیا، حواء کاکوئی بچہ زندہ نہیں رہتاتھا، ابلیس نے ان سے کہا: تم اس کانام عبدالحارث رکھ دو،انہوںنے اس کانام عبدالحارث رکھ دیا، پھروہ بچہ زندہ رہا۔یہ کام شیطان کے وسوسہ سے تھا۔
(سنن الترمذی: محمد بن عیسی بن سَوْرۃ بن موسی بن الضحاک، الترمذی، أبو عیسی (۵:۱۱۸)

قتادہ کی روایت

عَنْ مَعْمَرٍ عَنِ الْکَلْبِیِّ وَقَالَ قَتَادَۃَ (فَلَمَّا تَغَشَّاہَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِیفًا)(الأعراف:۱۸۹)قَالَ:کَانَ آدَمُ لَا یُولَدُ لَہُ وَلَدٌ إِلَّا مَاتَ فَجَاء َہُ الشَّیْطَانُ :فَقَالَ:إِنَّ شَرْطَ أَنْ یَعِیشَ وَلَدُکَ ہَذَا فَسَمِّیہِ عَبْدَ الْحَارِثِ :فَفَعَلَ قَالَ:فَأَشْرَکَا فِی الِاسْمِ وَلَمْ یُشْرِکَا فِی الْعِبَادَۃِ ۔
ترجمہ:(اس روایت میں یہ زائد ہے قتادہ کہتے ہیں کہ انہوںنے نام رکھنے میں شرک کیاتھاعبادت میں شرک نہیں کیاتھا۔
(تفسیر عبد الرزاق: أبو بکر عبد الرزاق بن ہمام بن نافع الحمیری الیمانی الصنعانی (۲:۱۰۳)
ان دونوں روایتوں کاحکم

امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کاقول

لاَ نَعْرِفُہُ إِلاَّ مِنْ حَدِیثِ عُمَرَ بْنِ إِبْرَاہِیمَ عَنْ قَتَادَۃَ، وَرَوَاہُ بَعْضُہُمْ عَنْ عَبْدِ الصَّمَدِ وَلَمْ یَرْفَعْہُ۔
ترجمہ :امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کہتے ہیں کہ یہ روایت صرف عمربن ابراہیم از قتادہ کی سند سے مروی ہے اوراس کی روایت اس قابل نہیں کہ اس سے دلیل پکڑی جائے ،اوربعض لوگوں نے اسی روایت کو عبدالصمدسے روایت کیاہے اوروہ بھی مرفوع نہیں ہے ۔
(سنن الترمذی: محمد بن عیسی بن سَوْرۃ بن موسی بن الضحاک، الترمذی، أبو عیسی (۵:۱۱۸)
کیونکہ یہ دونوں روایتیں عمربن ابراہیم عن قتادہ سے مروی ہے اوریہ دونوں قابل احتجاج نہیں ہیں۔
عمربن ابراہیم کے متعلق محدثین کی آراء
ابن عدی کہتے ہیں
وقال بن عدی یروی عن قتادۃ أشیاء لا یوافق علیہا وحدیثہ خاصۃ عن قتادۃ مضطرب۔
ترجمہ :ابن عدی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے کہا: عمر بن ابراہیم قتادہ سے ایسی چیزیں روایت کرتاہے کہ وہ اس سے موافقت ہی نہیں رکھتیں ، اوراس کی حدیث جب خاص قتادہ سے ہوتو وہ مضطرب ہوتی ہے ۔
(تہذیب التہذیب:أبو الفضل أحمد بن علی بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلانی (۷:۴۲۵)
محدث ابن حبان کاقول
وذکرہ فی الضعفاء فقال کان ممن یتفرد عن قتادۃ بما لا یشبہ حدیثہ فلا یعجبنی الاحتجاج بہ إذا انفرد ۔
ترجمہ :امام ابن حبان رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے عمر بن ابراہیم کاذکرضعفاء میں کیاہے اوریہ بھی فرمایاکہ جب عمربن ابراہیم قتادہ سے روایت کرنے میں منفردہوتو اس کی روایت قابل احتجاج نہیں ہوگی۔
(تہذیب التہذیب: أبو الفضل أحمد بن علی بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلانی (۷:۴۲۵)
امام احمدبن حنبل رحمۃ اللہ تعالی علیہ کاقول
قال أحمد:وہو یروی عن قتادۃ أحادیث مناکیر۔
امام احمدرحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیںکہ عمر بن ابراہیم قتادہ سے منکرروایات نقل کرتاہے ۔
(تہذیب الکمال فی أسماء الرجال: یوسف بن عبد الرحمن بن یوسف أبی محمد القضاعی الکلبی المزی (۲۱:۲۷۰)

محدث ابن جوزی اورامام ابوحاتم الرازی کاقول

قَالَ أَبُو حَاتِمٍ الرَّازِیُّ: لَا یُحْتَجُّ بِہِ۔
ترجمہ:محدث ابن جوزی رحمۃا للہ تعالی علیہ نقل کرتے ہیں کہ حضرت امام ابوحاتم رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں کہ عمر بن ابراہیم سے حجت نہیں پکڑی جائے گی ۔
(الضعفاء والمتروکون: جمال الدین أبو الفرج عبد الرحمن بن علی بن محمد الجوزی (۲:۲۰۴)

عبارات ائمہ کرام سے واضح ہواکہ جب عمر بن ابراہیم جناب قتادہ سے روایت کرنے میں منفرد ہوں تو ان کی روایت قابل احتجاج نہیں ہوگی لھذااس روایت کو دلیل بناکر یہ نہیں کہاجاسکتاکہ حضرت سیدناآدم علیہ السلام اورحضرت سیدتناحواء رضی اللہ عنہانے نعوذ باللہ شرک کیاتھا۔اللہ تعالی کے انبیاء کرام علیہم السلام کفروشرک اورہر طرح کے عیب سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے پاک ہوتے ہیں ۔
ان روایات کے رد میں محدثین ومفسرین کے اقوال مبارکہ

امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ لکھتے ہیں

وقال الإمام الأعظم فی الفقہ الأکبر(ولم یشرک باللہ طرفۃ عین قط، ولم یرتکب صغیرۃ ولا کبیرۃ قط۔
ترجمہ :حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کسی بھی اللہ تعالی کے نبی علیہ السلام نے آنکھ جھپکنے جتنی دیر بھی اللہ تعالی کے ساتھ شرک نہیں کیااوران سے کسی طرح کاکوئی گناہ سرزدنہیں ہوانہ کبیرہ اورنہ ہی صغیرہ ۔
(فقہ اکبراز امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ : ۶۰)

ملاعلی قاری حنفی لکھتے ہیں

قال الملا علی القاریء فی شرحہ: (ولم یشرک باللہ طرفۃ عین قط)ای: لا قبل النبوۃ ولا بعدہا، فإنّ الأنبیاء علیہم الصلوۃ والسلام معصومون عن الکفر مطلقاً بالإجماع۔
ترجمہ :حضرت ملاعلی قاری رحمۃ اللہ تعالی علیہ امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کے اس مبارک فرمان کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ نہ نبوت سے پہلے اورنہ ہی نبوت کے بعد ان سے شرک کاصدورہواکیونکہ اللہ تعالی کے انبیاء کرام علیہم السلام بالاجماع اوربالاطلاق کفرسے معصوم ہوتے ہیں ۔
(شرح فقہ اکبر از ملاعلی قاری حنفی رحمۃ اللہ تعالی علیہ : ۵۵)
یہ اہل سنت کااجماعی نظریہ ہے کہ اللہ تعالی کے انبیاء کرام علیہم السلام کفروشرک سے پاک ہوتے ہیں ۔
امام حسن بصری رضی اللہ عنہ کاقول شریف
قَالَ ابْنُ جَرِیرٍ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَکِیع، حَدَّثَنَا سَہْلُ بْنُ یُوسُفَ، عَنْ عَمْرٍو، عَنِ الْحَسَنِ:(جَعَلا لَہُ شُرَکَاء َ فِیمَا آتَاہُمَا) قَالَ: کَانَ ہَذَا فِی بَعْضِ أَہْلِ الْمِلَلِ، وَلَمْ یَکُنْ بِآدَمَ۔
ترجمہ:حضرت سیدناعمرو امام حسن رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ اس آیت مبارکہ میں
{فَلَمَّآ اٰتٰہُمَا صٰلِحًا جَعَلَا لَہ شُرَکَآء َ فِیْمَآ اٰتٰہُمَا فَتَعٰلَی اللہُ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ }
بعض امتوں کاذکرہے نہ کہ حضرت سیدناآدم علیہ السلام کا۔
(جامع البیان فی تأویل القرآن: محمد بن جریر بن یزید بن کثیر بن غالب الآملی، أبو جعفر الطبری (۱۳:۳۱۴)

امام حسن بصری رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ تفسیر

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی، قَالَ: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ ثَوْرٍ، عَنْ مَعْمَرٍ، قَالَ. قَالَ الْحَسَنُ: عَنَی بِہَذَا ذُرِّیَّۃَ آدَمَ، مَنْ أَشْرَکَ مِنْہُمْ بَعْدَہُ. یَعْنِی بِقَوْلِہِ: (فَلَمَّا آتَاہُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَہُ شُرَکَاء َ فِیمَا آتَاہُمَا)
ترجمہ ـ:حضرت سیدنامعمر رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیںکہ امام حسن بصری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ اس آیت مبارکہ میں اولاد آدم مراد ہے جنہوںنے شرک کیااوروہ حضرت سیدناآدم علیہ السلام کے بعد ہوئے ہیں ۔
(جامع البیان فی تأویل القرآن: محمد بن جریر بن یزید بن کثیر بن غالب الآملی، أبو جعفر الطبری (۱۰:۶۲۹)

اس آیت میں یہودونصاری کے شرک کابیان ہے

حدثنا بشر بن معاذ قال: حدثنا یزید قال: حدثنا سعید، عن قتادۃ قال: کان الحسن یقول: ہم الیہود والنصاری، رزقہم اللہ أولادًا فہوَّدوا ونصَّروا۔
ترجمہ :حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ امام حسن بصری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ یہ آیتیں یہودیوں اورنصاری کے متعلق ہیں یعنی جب اللہ تعالی نے ان کو ان کی دعاکے موافق صحیح وسالم بیٹادے دیاتوانہوںنے اس اولاد کو یہودونصاری بنادیااوریوں اللہ تعالی کے ساتھ شرک کیا۔

تمام روایات کاتعلق اسرائیلیات سے ہے

أما أَثَرُ بن عَبَّاسٍ الَّذِی ذَکَرَہُ الرَّازِیُّ فَہُوَ مَرْوِیٌّ مِنْ طُرُقٍ مُتَعَدِّدَۃٍ بِأَلْفَاظٍ مُخْتَلِفَۃٍ وَہُوَ یُحْتَمَلُ أَنْ یکون مأخوذا من الإسرائیلیات ۔
ترجمہ :حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیںکہ اثرابن عباس جس کو الرازی نے نقل کیاہے وہ مختلف الفاظ کے ساتھ مروی ہے ان سب کے متعلق احتمال یہی ہے کہ یہ اہل کتاب ( یہودونصاری ) سے مروی ہے ۔
(تحفۃ الأحوذی بشرح جامع الترمذی: أبو العلا محمد عبد الرحمن بن عبد الرحیم المبارکفوری (۸:۳۶۹)

امام رازی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کانظریہ

إِنَّہُ تَعَالَی ذَکَرَ ہَذِہِ الْقِصَّۃَ عَلَی تَمْثِیلِ ضَرْبِ الْمَثَلِ وَبَیَانِ أَنَّ ہَذِہِ الْحَالَۃَ صُورَۃُ حَالَۃِ ہَؤُلَاء ِ الْمُشْرِکِینَ فِی جَہْلِہِمْ، وَقَوْلِہِمْ بِالشِّرْکِ، وَتَقْرِیرُ ہَذَا الْکَلَامِ کَأَنَّہُ تَعَالَی یَقُولُ:ہُوَ الَّذِی خَلَقَ کُلَّ وَاحِدٍ مِنْکُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَۃٍ وَجَعَلَ مِنْ جِنْسِہَا زَوْجَہَا إِنْسَانًا یُسَاوِیہِ فِی الْإِنْسَانِیَّۃِ، فَلَمَّا تَغَشَّی الزَّوْجُ زَوْجَتَہُ وَظَہَرَ الْحَمْلُ، دَعَا الزَّوْجُ وَالزَّوْجَۃُ رَبَّہُمَا لَئِنْ آتَیْتَنَا وَلَدًا صَالِحًا سَوِیًّا لَنَکُونَنَّ مِنَ الشَّاکِرِینَ لِآلَائِکَ وَنَعْمَائِکَ:فَلَمَّا آتَاہُمَا اللَّہ وَلَدًا صَالِحًا سَوِیًّا، جَعَلَ الزَّوْجُ وَالزَّوْجَۃُ للَّہ شُرَکَاء َ فِیمَا آتَاہُمَا، لِأَنَّہُمْ تَارَۃً یَنْسُبُونَ ذَلِکَ الْوَلَدَ إِلَی الطَّبَائِعِ کَمَا ہُوَ قَوْلُ الطَّبَائِعِیِّینَ، وَتَارَۃً إِلَی الْکَوَاکِبِ کَمَا ہُوَ قَوْلُ الْمُنَجِّمِینَ، وَتَارَۃً إِلَی الْأَصْنَامِ وَالْأَوْثَانِ کَمَا ہُوَ قَوْلُ عَبَدَۃِ الْأَصْنَامِ۔ثُمَّ قَالَ تَعَالَی: فَتَعالَی اللَّہُ عَمَّا یُشْرِکُونَ أَیْ تَنَزَّہَ اللَّہ عَنْ ذَلِکَ الشِّرْکِ،

ترجمہ: ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے جو واقعہ بیان فرمایاہے یہ بطورِ مثال ہے اور اس میں مشرکوں کی جہالت اور ان کے شرک کاحال بیان کیا گیا ہے۔ اس صورت میں آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ وہی ہے جس نے تم میں سے ہر ایک کو ایک جان سے پیدا کیا یعنی ماں اور باپ سے پیدا کیا اور یہ دونوں انسان ہونے میں یکساں ہیں ،پھر جب شوہر اور بیوی میں ملاپ ہوا اور حمل ظاہر ہوا تو ان دونوں نے اپنے رب سے دعا کی کہ اگر تو ہمیں صحیح اور تندرست بچہ عطا کرے گا تو ہم ضرور تیری نعمتوں کا شکر ادا کرنے والوں میں سے ہوں گے ،پھر جب اللہ تعالیٰ نے اُنہیں ویسا ہی بچہ عنایت فرمایا تو اُن کا حال یہ ہو اکہ وہ اللہ تعالیٰ کی عطا میں اس کے ساتھ شریک ٹھہرانے لگ گئے کیونکہ کبھی تو وہ اس بچے کو انسانی فطرت کے تقاضے کی طرف منسوب کرتے ہیں جیسے دَہریوں کا حال ہے، کبھی ستاروں کی طرف نسبت کرتے ہیں جیسا کہ ستارہ پرستوں کا طریقہ ہے اورکبھی بتوں کی طرف منسوب کرتے ہیں جیسا کہ بت پرستوں کا دستور ہے۔اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ وہ اُن کے اِس شرک سے برتر ہے۔
(التفسیر الکبیر: أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۱۵:۴۲۶)

حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں

وَہَذِہِ الْآثَارُ یَظْہَرُ عَلَیْہَا وَاللَّہُ أَعْلَمُ ،أَنَّہَا مِنْ آثَارِ أَہْلِ الْکِتَابِ، وَقَدْ صَحَّ الْحَدِیثُ عَنْ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُ قَال:إِذَا حَدَّثکم أَہْلُ الْکِتَابِ فَلَا تُصَدِّقُوہُمْ وَلَا تُکَذِّبُوہُمْ ثُمَّ أَخْبَارُہُمْ عَلَی ثَلَاثَۃِ أَقْسَامٍ:فَمِنْہَا:مَا عَلِمْنَا صِحَّتَہُ بِمَا دَلَّ عَلَیْہِ الدَّلِیلُ مِنْ کِتَابِ اللَّہِ أَوْ سُنَّۃِ رَسُولِہِ:وَمِنْہَا مَا عَلِمْنَا کَذِبَہُ، بِمَا دُلَّ عَلَی خِلَافِہِ مِنَ الْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ أَیْضًا:وَمِنْہَامَا ہُوَ مَسْکُوتٌ عَنْہُ، فَہُوَ الْمَأْذُونُ فِی رِوَایَتِہِ، بِقَوْلِہِ، عَلَیْہِ السَّلَامُ:حَدِّثُوا عَنْ بَنِی إِسْرَائِیلَ وَلَا حَرج:وَہُوَ الَّذِی لَا یصدَّق وَلَا یُکَذَّبُ، لِقَوْلِہِ فَلَا تُصَدِّقُوہُمْ وَلَا تُکَذِّبُوہُمْ:وَہَذَا الْأَثَرُ:(ہَلْ)ہُوَ مِنَ الْقِسْمِ الثَّانِی أَوِ الثَّالِثِ؟ فِیہِ نَظَرٌفَأَمَّا مَنْ حَدَّثَ بِہِ مِنْ صحَابی أَوْ تَابِعِیٍّ، فَإِنَّہُ یَرَاہُ مِنَ الْقَسَمِ الثَّالِثِ، وَأَمَّا نَحْنُ فَعَلَی مَذْہَبِ الْحَسَنِ الْبَصْرِیِّ، رَحِمَہُ اللَّہُ، فِی ہَذَا (وَاللَّہُ أَعْلَمُ وَأَنَّہُ لَیْسَ الْمُرَادُ مِنْ ہَذَا السِّیَاقِ آدَمُ وَحَوَّاء ُ، وَإِنَّمَا الْمُرَادُ مِنْ ذَلِکَ الْمُشْرِکُونَ مِنْ ذُرِّیَّتِہِ۔

ترجمہ :پس ظاہرہے کہ یہ اہل کتاب کے آثارمیں سے ہے ۔ جن کے بارے میں رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ان کی باتوں کو نہ سچاکہواورنہ ہی جھوٹا۔ ان کی روایات تین طرح کی ہیں ، ایک تووہ جن کی صحت ہمارے ہاں کسی آیت یاحدیث شریف سے ہوتی ہے ۔دوسراوہ جن کی تکذیب کسی آیت یاحدیث شریف سے ہوتی ہے ۔تیسراوہ جن کے بارے میں کوئی ایسافیصلہ ہمارے دین میں نہ ملے توبقول رسول اللہ ﷺاس روایت کے بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ، لیکن تصدیق وتکذیب جائز نہیں ہے ۔ میرے نزدیک تویہ اثردوسرے قسم کاہے ،یعنی ماننے کے قابل نہیں ہے ، اورجن صحابہ کرام اورتابعین کرام رضی اللہ عنہم سے یہ مروی ہے انہوںنے اسے تیسری قسم کاسمجھ کرروایت کردیاہے ۔ لیکن ہم تووہی کہتے ہیں جو حضرت سیدناامام حسن بصری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مشرکوں کااپنی اولاد کے معاملے میں اللہ تعالی کے ساتھ شریک کرنے کابیان ان آیات میں ہے نہ کہ حضرت سیدناآدم علیہ السلام اورحضرت سیدتناحواء رضی اللہ عنہاکا۔
(تفسیر القرآن العظیم: أبو الفداء إسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی البصری ثم الدمشقی (۳:۵۲۶)

صدرالافاضل سیدنعیم الدین حنفی رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں

بعض مفسِّرین کا قول ہے کہ اس آیت میں قریش کو خِطاب ہے جو قُصَیْ کی اولاد ہیں ۔ ان سے فرمایا گیا کہ تمہیں ایک شخص قُصَیْ سے پیدا کیا اور اس کی بی بی اسی کی جِنس سے عرَبی قرَشی کی تاکہ اس سے چین و آرام پائے پھر جب ان کی درخواست کے مطابق انہیں تندرست بچہ عنایت کیا تو انہوں نے اللہ کی اس عطا میں دوسروں کو شریک بنایا اور اپنے چاروں بیٹوں کا نام عبد مُناف ، عبدالعُزّٰی ، عبد قُصَیْ اور عبدالدار رکھا ۔
(تفسیرخزائن العرفان از سیدنعیم الدین مرادآبادی رحمۃ اللہ تعالی علیہ :سورۃ الاعراف رقم الآیۃ : ۱۹۰)

مفسرشہیرمفتی احمدیارخان حنفی نعیمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کاقول

اس میں عام کفار ومشرکین کاتذکرہ ہے ، حقیر(یعنی مفتی احمدیارخان نعیمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ ) کے نزدیک یہ آخری تفسیر قوی ہے ،ہم اس کاخلاصہ بیان کرتے ہیں :اے مشرکو! کافرو! اللہ تعالی وہ قدرت والاہے جس نے تم میں سے ہر ایک ایک جان یعنی اس کے باپ سے پیداکیااوراس باپ کی جنس سے اس کی بیوی بنائی کہ وہ بھی مرد کی طرح انسان ہے ، غیرانسان نہیں۔الی آخرہ ۔
(تفسیر نعیمی سورۃ الاعراف رقم الآیۃ : ۱۹۰) (۹: ۳۹۲) از مفتی احمدیارخان نعیمی)
دوسرے مقام پر اعتراض کاجواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں

حضرت مفتی احمدیارخان نعیمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ لکھتے ہیں

حضرت سیدناآدم علیہ السلام اس قسم کے عیب سے بالکل پاک ہیں معترض نے دھوکہ دیاہے ،بہت سے مفسرین فرماتے ہیں کہ جعلاکافاعل قصی اوراس کی بیوی ہے کیونکہ خلقکم من نفس واحدۃ وجعل منھازوجھاکے معنی یہ ہیں کہ اے قریش ! رب تعالی نے تمھیں ایک جان یعنی قصی سے پیدافرمایا،اوراس قصی کی بیوی اس کی جنس سے بنائی ، قصی نے غضب کیاکہ اپنے رب تعالی سے دعائیں کرکے بیٹامانگاتھا، اس کانام عبدالحارث رکھ دیا۔ اس صورت میں کوئی اعتراض ہی نہیں اوربعض نے فرمایا: جعلامیں مضاف پوشیدہ ہے اوراس کافاعل اولاد آدم وحوا ہی ہیں یعنی حضرت آدم وحوا علیہماالسلام کی بعض اولاد نے شرک شروع کردیا،اسی لئے آگے جمع کاصیغہ ارشادہوا۔فتعالی اللہ عمایشرکون ۔ اگریہ فعل حضرت آدم وحواعلیہماالسلام کاہوتاتو یشرکان تثنیہ کاصیغۃ ارشادہوتانیز ایک معمولی سی خطایعنی گندم کھالینے پر عتاب ہوگیاتھاتوچاہئے تھاکہ شرک کرنے پر بڑاسخت عذاب ہوتالیکن بالکل نہ ہوا۔
حاکم کی یہ روایت بالکل معتبرنہیں کیونکہ خبرواحدہے اورعصمت انبیاء علیہم السلام یقینی وقطعی ہے ۔
(جاء الحق از مفتی احمدیارخان نعیمی رحمۃ اللہ تعالی علیہ: ۴۴۳)

مفتی محمدقاسم قادری حنفی لکھتے ہیں

مشرکین یہ کہا کرتے تھے کہ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام (مَعَاذَاللہ)بتوں کی عبادت کرتے تھے اور بھلائی طلب کرنے اور برائی دور ہونے کے سلسلے میں بتوں کی طرف رجوع کرتے تھے ،تو ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور حضرت حواء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھاکا واقعہ بیان فرمایا کہ انہوں نے تو اللہ تعالیٰ سے اس طرح دعا کی تھی کہ اے اللہ! عَزَّوَجَلَّ، اگر تو ہمیں صحیح سالم اور تندرست بچہ عطا فرمائے گا تو ہم ضرور تیری ا س نعمت کا شکر ادا کریں گے اور جب اللہ تعالیٰ نے انہیں صحیح سالم بچہ عطا کر دیا تو کیا ان دونوں نے اللہ تعالیٰ کی عطا میں اس کا شریک ٹھہرایا؟ اللہ تعالیٰ ان مشرکوں کے شرک اور حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف منسوب ان کی بات سے بری ہے۔
(تفسیرصراط الجنان از مفتی محمدقاسم قادری ( ۳: ۴۹۵)

مفتی محمدشفیع دیوبندی کانظریہ

شرک اختیارکرنے والوں کے معاملہ کاتعلق حضرت آدم وحواء سے مطلق نہیں ہے جس کے سبب حضرت سیدناآدم علیہ السلام کی عصمت پر کوئی شبہ ہو، بلکہ اس کاتعلق بعدمیں آنے والی نسلوں کے عمل سے ہے ۔
(معارف القرآن از مفتی محمدشفیع ( ۴: ۱۴۹)

Leave a Reply