ہرقوم انبیاء کرام علیہم السلام کی گستاخ نکلی اورہرقوم پراللہ تعالی کاعذاب آیا
{وَمَآ اَرْسَلْنَا فِیْ قَرْیَۃٍ مِّنْ نَّبِیٍّ اِلَّآ اَخَذْنَآ اَہْلَہَا بِالْبَاْسَآء ِ وَالضَّرَّآء ِ لَعَلَّہُمْ یَضَّرَّعُوْنَ }(۹۴){ثُمَّ بَدَّلْنَا مَکَانَ السَّیِّئَۃِ الْحَسَنَۃَ حَتّٰی عَفَوْا وَّقَالُوْا قَدْ مَسَّ اٰبَآء َنَا الضَّرَّآء ُ وَالسَّرَّآء ُ فَاَخَذْنٰہُمْ بَغْتَۃً وَّہُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ }(۹۵)
ترجمہ کنزالایمان: اور نہ بھیجا ہم نے کسی بستی میں کوئی نبی مگر یہ کہ اس کے لوگوں کو سختی اور تکلیف میں پکڑا کہ وہ کسی طرح زاری کریں۔ پھر ہم نے برائی کی جگہ بھلائی بدل دی یہاں تک کہ وہ بہت ہوگئے اور بولے بیشک ہمارے باپ دادا کو رنج و راحت پہنچے تھے تو ہم نے انہیں اچانک ان کی غفلت میں پکڑ لیا ۔
ترجمہ ضیاء الایمان:اور ہم نے کسی بستی میں کوئی نبی نہ بھیجامگر ہم نے اس بستی کے رہنے والوں کو سختی اور تکلیف میں پکڑا تاکہ وہ عاجزی کریں۔ پھر ہم نے ان کی بدحالی دورکرکے خوشحالی عطافرما دی یہاں تک کہ ان کی تعدادزیادہ ہوگئی اور وہ کہنے لگے :بیشک ہمارے باپ دادا کو (بھی)تکلیف اور راحت پہنچتی رہی ہے تو ہم نے انہیں اچانک عذاب میں گرفتارکردیااور انہیں اس کا کچھ علم نہ تھا۔
کیایہ عذاب صرف چندگستاخ امتوں پر آیا؟
اعْلَمْ أَنَّہُ تَعَالَی لَمَّا عَرَّفَنَا أَحْوَالَ ہَؤُلَاء ِ الْأَنْبِیَاء ِ، وَأَحْوَالَ مَا جَرَی عَلَی أُمَمِہِمْ، کَانَ مِنَ الْجَائِزِ أَنْ یُظَنَّ انہ تَعَالَی مَا أَنْزَلَ عَذَابَ الِاسْتِئْصَالِ، إِلَّا فِی زَمَنِ ہَؤُلَاء ِ الْأَنْبِیَاء ِ فَقَطْ، فَبَیَّنَ فِی ہَذِہِ الْآیَۃِ أَنَّ ہَذَا الْجِنْسَ مِنَ الْہَلَاکِ قَدْ فَعَلَہُ بِغَیْرِہِمْ، وَبَیَّنَ الْعِلَّۃَ الَّتِی بِہَا یَفْعَلُ ذَلِکَ:قَالَ تَعَالَی: وَما أَرْسَلْنا فِی قَرْیَۃٍ مِنْ نَبِیٍّ إِلَّا أَخَذْنا أَہْلَہا بِالْبَأْساء ِ وَالضَّرَّاء ِ ۔
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالی نے ہمیں ان انبیاء کرام علیہم السلام کے احوال سے آگاہ کیااوران احوال سے بھی جو ان کی امتوں پرجاری ہوئے توجائز ہے کہ کوئی گمان کرے کہ اللہ تعالی نے عذاب استیصال صرف انہی انبیاء کرام علیہم السلام کے زمانہ میں نازل کیاتواس آیت کریمہ میں واضح فرمادیاکہ ایسی ہلاکت دوسرے انبیاء کرام علیہم السلام کے گستاخوں کی بھی ہوئی اوراس علت کو بیان فرمایاجس کی وجہ سے وہ ان پرعذاب آیااوروہ تھی انبیاء کرام علیہم السلام کی گستاخی جیساکہ اس آیت کریمہ میں مذکورہ ہے ۔{وَما أَرْسَلْنا فِی قَرْیَۃٍ مِنْ نَبِیٍّ إِلَّا أَخَذْنا أَہْلَہا بِالْبَأْساء ِ وَالضَّرَّاء ِ }
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۱۴:۳۲۰)
آیت کریمہ کامعنی
وَالْمَعْنَی: أَنَّہُ تَعَالَی أَخْبَرَ أَنَّہُ یَأْخُذُ أَہْلَ الْمَعَاصِی بِالشِّدَّۃِ تَارَۃً، وَبِالرَّخَاء ِ أُخْرَی وَقَوْلُہُ:حَتَّی عَفَوْا قَالَ الْکِسَائِیُّ: یُقَالُ: قَدْ عَفَا الشَّعَرُ وَغَیْرُہُ، إِذَا کَثُرَ، یَعْفُو فَہُوَ عَافٍ وَمِنْہُ قَوْلُہُ تَعَالَی:حَتَّی عَفَوْا یَعْنِی کَثُرُوا وَمِنْہُ مَاوَرَدَ فِی الْحَدِیثِ أَنَّہُ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ، أَمَرَ أَنْ تُحَفَّ الشَّوَارِبُ، وَتُعْفَی اللِّحَی یَعْنِی تَوَفَّرَ وَتُکَثَّرَ وَقَوْلُہُ: وَقالُوا قَدْ مَسَّ آباء َنَا الضَّرَّاء ُ وَالسَّرَّاء ُ فَالْمَعْنَی:أَنَّہُمْ مَتَی نَالَہُمْ شِدَّۃٌ قَالُوا: لَیْسَ ہَذَا بِسَبَبِ مَا نَحْنُ عَلَیْہِ مِنَ الدِّینِ وَالْعَمَلِ وَتِلْکَ عَادَۃُ الدَّہْرِ، وَلَمْ یَکُنْ مَا مَسَّنَا مِنَ الْبَأْسَاء ِ وَالضَّرَّاء ِ عُقُوبَۃً مِنَ اللَّہِ وَہَذِہِ الْحِکَایَۃُ تَدُلُّ عَلَی أَنَّہُمْ لَمْ یَنْتَفِعُوا بِمَا دَبَّرَہُمُ اللَّہُ عَلَیْہِ مِنْ رَخَاء ٍ بَعْدَ شِدَّۃٍ، وَأَمْنٍ بَعْدَ خَوْفٍ، بَلْ عَدَلُوا إِلَی أَنَّ ہَذِہِ عَادَۃَ الزَّمَانِ فِی أَہْلِہِ، فَمَرَّۃً یَحْصُلُ فِیہِمُ الشِّدَّۃُ وَالنَّکَدُ، وَمَرَّۃً یَحْصُلُ لَہُمُ الرَّخَاء ُ وَالرَّاحَۃُ، فَبَیَّنَ تَعَالَی أَنَّہُ أَزَالَ عُذْرَہُمْ وَأَزَاحَ عِلَّتَہُمْ، فَلَمْ یَنْقَادُوا وَلَمْ یَنْتَفِعُوا بِذَلِکَ الْإِمْہَالِ، وَقَوْلُہُ:فَأَخَذْناہُمْ بَغْتَۃً وَالْمَعْنَی:أَنَّہُمْ لَمَّا تَمَرَّدُوا عَلَی التَّقْدِیرَیْنِ، أَخَذَہُمُ اللَّہُ بَغْتَۃً أَیْنَمَا کَانُوا، لِیَکُونَ ذَلِکَ أَعْظَمَ فِی الْحَسْرَۃِوَقَوْلُہُ:وَہُمْ لَا یَشْعُرُونَ أَیْ یَرَوْنَ الْعَذَابَ وَالْحِکْمَۃَ فِی حِکَایَۃِ ہَذَا الْمَعْنَی أَنْ یَحْصُلَ الِاعْتِبَارُ لِمَنْ سَمِعَ ہذہ القصۃ وعرفہا.
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ کامعنی یہ ہے کہ جب ان گستاخوں کو سختی پہنچی توکہنے لگے کہ یہ اس وجہ سے نہیں کہ ہم اس دین پرعمل نہیں کرتے ، لیکن یہ توزمانے کے معمول کی وجہ سے ہے اوراس میں جوتکالیف اورعذاب آیاہے ،یہ اللہ تعالی کی طرف سے سزانہیں ہے ، یہ حکایت اس پر دلالت کرتی ہے کہ انہوںنے اللہ تعالی کی تدبیر، شدت کے بعد نرمی اورخوف کے بعد امن سے نفع نہیں پایابلکہ وہ اپنے اہل زمانہ میں عادت زمانہ کی طرف لوٹ گئے کہ کبھی ان پرشدت وتکلیف آجاتی ہے اورکبھی نرمی وراحت آجاتی ہے تواللہ تعالی نے واضح فرمایاکہ ان کاعذرزائل اوران کی علتوں کوختم کیالیکن انہوں نے اس مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تابعداری نہ کی تواللہ تعالی کے اس فرمان شریف{فَأَخَذْناہُمْ بَغْتَۃ} کامفہوم یہ ہے کہ جب انہوںنے دونوں صورتوں میں سرکشی کی تواللہ تعالی نے اچانک ان کوپکڑاتاکہ یہ حسر ت میں سب سے عظیم ہواوراللہ تعالی کے اس فرمان شریف {وَہُمْ لَا یَشْعُرُونَ}وہ عذاب آنے کاشعورنہیں رکھتے تھے ، اس معنی کی حکایت میں حکمت یہ ہے کہ واقعہ سننے والے کو نصیحت حاصل ہو۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۱۴:۳۲۰)
مفتی محمدقاسم حفظہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے خاص قوموں یعنی حضرت نوح، حضرت ہود، حضرت صالح ،حضرت لوط اور حضرت شعیب عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوموں کے تفصیلی حالات اور ان کے کفر و سرکشی کی وجہ سے ان پر نازل ہونے والے عذاب اور اس کی کیفیت کا ذکر فرمایا، اب اس آیت اورا س سے اگلی آیت میں تمام امتوں کے اِجمالی حالات اور ایک عام اصول بیان کیا جارہا ہے کہ جس کے تحت سب قوموں سے برتاو ہوتا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب کبھی کسی علاقے یا شہر میں کوئی نبی عَلَیْہِ السَّلَام مبعوث کئے گئے تووہ ا س جگہ بسنے والوں کو شرک سے بچنے، اللہ عَزَّوَجَلَّ کو ایک ماننے، صرف اسی کی عبادت کرنے اور اس کی بھیجی ہوئی شریعت پر عمل کرنے کی دعوت دیتے۔ اپنی صداقت کے اظہار کے لئے روشن معجزات دکھاتے اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈراتے ،مگر اس کے باوجود جب وہاں کے باسی اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نبی عَلَیْہِ السَّلَام کی دعوت قبول کرنے سے انکار کر دیتے اور اتنی واضح اور صاف نشانیاں دیکھنے کے بعد بھی اپنی ہٹ دھرمی سے باز نہ آتے تو فوراً ہی ان پر عذاب نازل نہ کر دیا جاتا بلکہ پہلے انہیں طرح طرح کے مصائب و آلام، سختیوں اور تکالیف میں مبتلا کر دیا جاتا تاکہ اس طرح ان کا دماغ ٹھکانے آئے اور باطل مذہب چھوڑکر حق مذہب کے سایہ رحمت میں آ جائیں اور اگر یہ طریقہ بھی کارگر ثابت نہ ہوتا تو پھر ان پر انعام و اکرام کے دروازے کھول دئیے جاتے، اولاد کی کثرت، مال کی زیادتی، عزت و وقار میں اضافہ، قوت و غلبہ وغیرہ ہر طرح کی آسائشیں انہیں مہیاکر دی جاتیں تاکہ اس طرح وہ اپنے حقیقی محسن کو پہچان کر اس کی نافرمانی سے باز آجائیں اور اس کی اطاعت و فرماں برداری اختیار کر لیں لیکن اگر وہ مصائب و آلام کے پہاڑ ٹوٹ پڑنے کے بعد بھی غفلت سے بیدار نہ ہوتے اور نعمتوں کی بہتات کے باوجود بھی ان کے دل اپنے مہربان اور کریم پرورد گار عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت و فرماں برداری کی طرف مائل نہ ہوتے تو وہ عذابِ الٰہی کے مستحق ٹھہرتے۔ یہ سب بیان کرنے سے مقصود کفارِ قریش اور دیگر کفار کو خوف دلانا ہے تاکہ وہ اپنے کفر و سرکشی سے باز آ کر اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے حبیب ﷺکے اطاعت گزار و فرماں بردار بن جائیں۔تفسیرصراط الجنان(۳:۳۸۴)
معارف ومسائل
(۱) نبی علیہ السلام کی گستاخی اوران کے گستاخوں کے خلاف دعائے جلال کئے بغیراللہ تعالی کاعذاب کبھی بھی نہیں آتااوریہ قانون قدرت ہے ۔
(۲) نبی علیہ السلام کی گستاخی اللہ تعالی کے عذاب کے نزول کاباعث ہے اوران کاادب واحترام رب تعالی کی رحمت کے نزول کاباعث ہے ۔
(۳) لفظ ’’بائی چانس‘‘ اور’’اتفاقاً‘‘ ایسے لعنتی لفظ ہیںکہ انسان ہررنج وخوشی ، راحت وغم کو’’اتفاقاً‘‘سمجھے اورغافل رہے ، مومن ہرچیز میں ہمیشہ فکرکرے کہ خوشی آئی توکیوں اورغم آیاتوکیوں ؟ اللہ تعالی عبرت والادل اورآنکھ عطافرمائے۔
یہ لعنت لبرل وسیکولرطبقہ میں بہت زیادہ پائی جاتی ہے کہ جب بھی زلزلہ آتاہے توبیان کیاجاتاہے کہ یہ اللہ تعالی کاعذاب ہے اوراس کی ناراضگی کے سبب آتاہے ، تولبرل وسیکولراس کی سائنسی وجوہات بیان کرناشروع کردیتے ہیں اوروہ لوگ جو توبہ کی طرف آتے وہ بھی دوبارہ گناہوں کارخ کرلیتے ہیں۔ اسی طرح سالہاسال سے پاکستان میں سیلاب آتے اورلاکھوں لوگ بے گھرہوجاتے ہیں اورلاکھوں ایکڑزمینیوں کے کھیت تباہ ہوجاتے ہیں ، ایسی صورتحال میں بھی اگریہ کہاجائے کہ یہ اللہ تعالی کاعذاب ہے تولبرل وسیکولرطبقہ یاتوانڈیاکواس کاذمہ دارٹھہرادے گایاپھرپاکستان میں موجود سیاستدان جو ڈیم بننے میں رکاوٹ ہیں ان کو گالیاں دے کرخاموش ہوجائے گااورانہیں کو ذمہ دارٹھہرائے گااورتوبہ کی طرف بھی نہیں آئے گا۔
اسی طرح ڈینگی کی وباآئی ، اس کے بعد آجکل (۲۰۲۰ء ) چل رہاہے ’’کروناوائرس‘‘ کابڑازورہے تولبرل ابھی بھی یہ باتیں کررہے ہیں کہ یہ فلاں کی سازش ہے اورفلاں نے یہ تیارکیاہے اورفلاں کمپنی میں رجسٹرڈہواہے اورآج بھی اس کو اللہ تعالی کاعذاب تسلیم کرکے توبہ کی طرف نہیں آرہے ، بلکہ اسی طرح ٹی وی پر حیاسوز ڈرامے اور حیاباختہ فلمیں چلائی جارہی ہیں ۔ مگرنہ توخود توبہ کی طرف آتے ہیں اورنہ ہی کسی کو آنے دیتے ہیں۔
لھذاہردورمیں ایسے لوگ رہے ہیں جو اللہ تعالی کے عذاب کو سنجیدہ نہیں لیتے تھے اوروہ دین کے دشمن تھے اورانبیاء کرام علیہم السلام کے گستاخ تھے تواللہ تعالی نے ان کو دنیاکی انواع واقسام کی نعمتوں سے نوازاتواپنی سرکشی اورانبیاء کرام علیہم السلام اوران کے دین کی دشمنی میں مزید سخت ہوگئے تواللہ تعالی نے ان کوپکڑااورایساپکڑاکہ ان کانام ونشان تک نہ رہا۔ کچھ اسی طرح کاحال پاکستانی لبرل کابھی ہے کہ یہ لوگ بھی دین کے دشمن اورحضورتاجدارختم نبوتﷺکے گستاخ ہیں یاکم ازکم گستاخوں کے حامی ضرورہیں اوراللہ تعالی نے ان کو دنیاکی ہرنعمت دے رکھی ہے اوریہ بھی عذاب کو عذاب نہیں سمجھتے اورتوبہ کی طرف نہیں آتے توہم بھی اللہ تعالی کے انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت کریمہ کی اتباع میں یہ دعاکرتے ہیں کہ اللہ تعالی ان کابھی استیصال فرمائے ۔
(۴)اوریہ بھی ذہن میں رہے کہ اس طرح کاخیال بھی بے دینوں اورلبرل وسیکولرطبقہ کے ذہنوں میں ہمیشہ سے چلاآرہاہے اورآجکل بھی لبرل وسیکولرملحدایساہی کہتے ہیں اورکامیابی اورناکامی اپنی کوشش کی کامیابی اورناکامی کانتیجہ خیال کرتے ہیں اوراس کی نظیرمیں اکثربے دینوں اورملحدوں کے وہ شہراورملک پیش کرتے ہیںجہاں باوجود ہرقسم کی بدکاری کے ہرقسم کے عیش وعشرت روز افزوں ہے جیساکہ یورپ کے شہراوروہاں کے ملک ، ان کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ ان ممالک کاباوجود بے حیائی اورفحاشی کے ظاہری ترقی پانایہ اللہ تعالی کی طرف سے کوئی انعام کے طورپرنہیں ہے بلکہ یہ رب تعالی کی طرف سے پکڑہے اوران کودنیامیں مال وجائدادکاملنااوران کامختلف ملکوں میں گھومتے رہنایہ رب تعالی کی رضاکی دلیل ہرگزہرگزنہیں ہے بلکہ یہ ان کی تباہی کاپیش خیمہ ہے اوران شاء اللہ تعالی بہت جلد ان کی ساری ترقی زمین بوس ہونے والی ہے اورساتھ ساتھ وہ بھی اورپاکستانی جو لبرل وسیکولران کی ظاہری ترقی جودراصل تباہی ہے پر مرے جارہے ہیں سب تباہ وبربادہوں گے ۔
(۵)ان گزری ہوئی قوموں کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے موجودہ حالات پر تھوڑا غور کر لیں اور اپنے گریبان میں جھانک کر اپنا محاسبہ کرنے کی کوشش کریں کہ ایسی کون سی مصیبت ہے جس سے ہم دوچار نہیں ہوئے، اب بھی طوفان، زلزلے، سیلاب آتے ہیں لیکن ان سے عبرت حاصل کرنے کی بجائے ان کی سائنسی تحقیقات پر غور کیا جاتا ہے اور جو لوگ اس مصیبت میں مبتلا ہوں ان کا تماشا دیکھا جاتا ہے ۔بقیہ ان چیزوں کو دیکھ کر عبرت حاصل کرنا، توبہ کی طرف راغب ہونا، بارگاہِ الٰہی میں رجوع کرنا، برے اعمال چھوڑ دینا، نیک اعمال میں مشغول ہوجانا، ظلم و ستم اور بددیانتی کو چھوڑ دینا یہ سب کچھ پھر بھی نہیں کیا جاتا بلکہ افسوس !ہمارے دل کی سختی کا تو یہ عالم ہے کہ طوفان کا سن کر اللہ عَزَّوَجَلَّ سے پناہ مانگنے اور اپنے گناہوں سے توبہ کرنے کی بجائے خوشی خوشی ساحل سمند رکی طرف طوفان کا نظارہ کرنے دوڑتے ہیں ،گویا آنے والے طوفان جوممکن تھا کہ اللہ عَزَّوَجَلّ کا عذاب ہوں اسے بھی اپنی تفریح کا ایک ذریعہ سمجھ لیتے ہیں ،زلزلہ یا سیلاب کی تباہی دیکھ کر عبرت پکڑنے کی بجائے ان مصیبت زدوں کی جان و مال اور عزت وآبرو پر ڈاکے ڈالنے لگ گئے۔ ان مصیبت کے ماروں کے لئے امداد رقص و سُرور کی محفلیں سجا کر، بے حیاء عورتوں کے ڈانس دکھا کر ،فحش اور گندے گانے سنا کر جمع کرنے لگ گئے۔ اللہ تعالیٰ ہماری قوم کو عقلِ سلیم عطا فرمائے۔(تفسیرصراط الجنان ( ۳:۳۸۵)