مومن کے دل کوطیب اورکافراورلبرل وسیکولرکے دل کو خبیث فرمانے کی وجہ؟
{وَالْبَلَدُ الطَّیِّبُ یَخْرُجُ نَبَاتُہ بِاِذْنِ رَبِّہٖ وَالَّذِیْ خَبُثَ لَایَخْرُجُ اِلَّا نَکِدًا َذٰلِکَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّشْکُرُوْنَ }(۵۸)
ترجمہ کنزالایمان:اور جو اچھی زمین ہے اس کا سبزہ اللہ کے حکم سے نکلتا ہے اور جو خراب ہے اس میں نہیں نکلتا مگر تھوڑا بمشکل ہم یونہی طرح طرح سے آیتیں بیان کرتے ہیں ان کے لیے جو احسان مانیں۔
ترجمہ ضیاء الایمان:اور جو اچھی زمین ہے اس کا سبزہ اللہ تعالی کے حکم سے نکلتا ہے اور جو خراب ہے اس میں نہیں نکلتا مگر تھوڑا بمشکل ہم یونہی طرح طرح سے آیتیں بیان کرتے ہیں ان کے لیے جو احسان مانیں۔
مومن کو طیب اورکافرکوخبیث کہنے کی وجہ ؟
ہَذَا مَثَلٌ ضَرَبَہُ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ لِلْمُؤْمِنِ وَالْکَافِرِ فَمَثَلُ الْمُؤْمِنِ مَثَلُ الْبَلَدِ الطَّیِّبِ، یُصِیبُہُ الْمَطَرُ فَیَخْرُجُ نَبَاتُہُ بِإِذْنِ رَبِّہِ۔
ترجمہ :امام محیی السنۃ، أبو محمد الحسین بن مسعود البغوی المتوفی : ۵۱۰ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں پہلی مثال بندہ مومن کی ہے کہ جب وہ قرآن کریم سنتاہے اس کو محفوظ کرلیتاہے اوراس کو یادکرتاہے اوراس کوسمجھتاہے اوراس سے نفع حاصل کرتاہے اوردوسری مثال کافرکی ہے کہ وہ قرآن کریم کوسنتاہے مگروہ اس میں کوئی اثرنہیں کرتاجیسے خبیث زمین میں بارش کوئی اثرنہیں کرتی ۔
(تفسیر البغوی:محیی السنۃ، أبو محمد الحسین بن مسعود البغوی (۳:۲۳۸)
مومن بھی پاک اوراس کاعمل بھی اورکافربھی پلیداوراس کاعمل بھی
عَنْ عَلِیِّ بْنِ أی طَلْحَۃَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَوْلُہُ: وَالْبَلَدُ الطَّیِّبُ یَخْرُجُ نَبَاتُہُ بِإِذْنِ رَبِّہِ فَہَذَا مَثَلٌ ضَرَبَہُ اللَّہُ لِلْمُؤْمِنِینَ یَقُولُ: ہُوَ طَیِّبٌ وَعَمَلُہُ طَیِّبٌ کَمَا أَنَّ الْبَلَدَ الطَّیِّبُ ثَمَرُہَا طَیِّبٌ.وَالَّذِی خبث ضرب مثلا للْکَافِرِ کالبلد السبخۃ المالحۃ الَّتِی لَا یخرج مِنْہَا الْبرکَۃ وَالْکَافِر ہُوَ الْخَبیث وَعَملہ خَبِیث۔
ترجمہ :حضرت سیدناعلی بن طلحہ رضی اللہ عنہ حضرت سیدناعبداللہ بن عبا س رضی اللہ عنہماسے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالی کے اس فرمان شریف {وَالْبَلَدُ الطَّیِّبُ یَخْرُجُ نَبَاتُہُ بِإِذْنِ رَبِّہِ}میں یہ ایک مثال جو بندہ مومن کے لئے بیان فرمائی ہے ، اللہ تعالی فرماتاہے کہ بندہ مومن بھی پاک ہے اوراس کاعمل بھی پاک ہے ، اسی طرح جیساکہ زرخیزاورعمدہ سرزمین کاپھل عمدہ اورخوش ذائقہ ہوتاہے اورآیت کریمہ کے اگلے حصہ میں اللہ تعالی نے کافرکی مثال بیان فرمائی ہے کہ جس طرح دلدلی اورشوریلی زمین سے اچھی پیداوارنہیں نکلتی اسی طرح کافرخودبھی ناپاک ہے اوراس کاعمل بھی ناپاک ہے ۔
(تفسیر القرآن العظیم:أبو محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدریس الرازی ابن أبی حاتم (۵:۱۵۰۳)
منافق پیسے اورکھانے پینے کے لئے نیک عمل کرتاہے
وَقَالَ قَتَادَۃُ:مَثَلٌ لِلْمُؤْمِنِ یَعْمَلُ مُحْتَسِبًا مُتَطَوِّعًا، وَالْمُنَافِقُ غَیْرُ مُحْتَسِبٍ، قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: (وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَوْ یَعْلَمُ أَحَدُہُمْ أَنَّہُ یَجِدُ عَظْمًا سَمِینًا أَوْ مِرْمَاتَیْنِ حَسَنَتَیْنِ لَشَہِدَ الْعِشَاء َ۔
ترجمہ :حضرت سیدناقتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ مومن کی مثال ہے جواخلاص واطاعت شعاری کے ساتھ عمل کرتاہے اورمنافق کی مثال ہے جس میں اخلاص نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ حضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایا: قسم اس ذات کی جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے اگران میں کوئی جان لے کہ وہ موٹی ہڈی یادوخوبصورت سینگ پائے گاتو وہ یقیناعشاء کی نماز اداکرنے کے لئے مسجد میں حاضرہو۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۷:۲۳۱)
فاسق دل وعظ ونصیحت کوقبول نہیں کرتا
ہَذَا مَثَلٌ لِلْقُلُوبِ، فَقَلْبٌ یَقْبَلُ الْوَعْظَ وَالذِّکْرَی، وَقَلْبٌ فَاسِقٌ یَنْبُو عَنْ ذَلِکَ، قال الْحَسَنُ أَیْضًا.
ترجمہ:امام حسن بصری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں دلوں کی مثال بیان کی گئی ہے کیونکہ ایک دل وہ ہے جو وعظ ونصیحت کو قبول کرتاہے اورایک دل وہ ہے جو فاسق ہے وہ وعظ ونصیحت کو قبول نہیں کرتا۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۷:۲۳۱)
لبرل وسیکولر اورکفارقرآن کریم کو سن کرنفع کیوں نہیں اٹھاتے ؟
وَہُوَ الْمَشْہُورُ أَنَّ ہَذَا مَثَلٌ ضَرَبَہُ اللَّہُ تَعَالَی لِلْمُؤْمِنِ وَالْکَافِرِ بِالْأَرْضِ الْخَیِّرَۃِ وَالْأَرْضِ السَّبِخَۃِ وَشَبَّہَ نُزُولَ الْقُرْآنِ بِنُزُولِ الْمَطَرِ فَشَبَّہَ الْمُؤْمِنَ بِالْأَرْضِ الْخَیِّرَۃِ الَّتِی نَزَلَ عَلَیْہَا الْمَطَرُ فَیَحْصُلُ فِیہَا أَنْوَاعُ الْأَزْہَارِ وَالثِّمَارِ وَأَمَّا الْأَرْضُ السَّبِخَۃِ فَہِیَ وَإِنْ نَزَلَ الْمَطَرُ عَلَیْہَا لَمْ یَحْصُلْ فِیہَا مِنَ النَّبَاتِ إِلَّا النَّزْرُ الْقَلِیلُ فَکَذَلِکَ الرُّوحُ الطَّاہِرَۃُ النَّقِیَّۃُ عَنْ شَوَائِبَ الْجَہْلِ وَالْأَخْلَاقِ الذَّمِیمَۃِ إِذَا اتَّصَلَ بہ نور القرآن ظہرت فیہ أَنْوَاعٌ مِنَ الطَّاعَاتِ وَالْمَعَارِفِ وَالْأَخْلَاقِ الْحَمِیدَۃِ وَالرُّوحُ الْخَبِیثَۃُ الْکَدِرَۃُ وَإِنِ اتَّصَلَ بِہِ نُورُ الْقُرْآنِ لم یظہر فیہ مِنَ الْمَعَارِفِ وَالْأَخْلَاقِ الْحَمِیدَۃِ إِلَّا الْقَلِیلُ.
ترجمہ :مشہورہے کہ اللہ تعالی نے مومن اورکافرکی اچھی زمین اوربنجرزمین سے مثال بیان کی ہے اورنزول قرآن کریم کونزول بارش سے تشبیہ دی ہے ، مومن کو اچھی زمین کے ساتھ تشبیہ دی ہے جس میں بارش ہوتواس میں پھل اوراچھی کھیتیاں اگیں اوربنجرزمین اگرچہ اس میں بارش بھی ہولیکن اس میں نباتات نہ ہونگے مگربہت کم ، اسی طرح پاکیزہ صاف روح ، جو باطل اوربرے اخلاق سے پاک ہوگی ، جب ان کے ساتھ نورقرآن کریم متصل ہوگاتواس میں طاعات ، معارف اوراچھے اخلاق ظاہرہوں گے اورجب ناپاک روح کے ساتھ قرآن کریم متصل ہوگاتواس سے معارف اوراچھے اخلاق ظاہرنہیں ہوں گے مگرقلیل ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۱۴:۲۹۱)
حضورتاجدارختم نبوتﷺکی رحمت عام ہے مگرنفع صرف مومنین اٹھاتے ہیں
لما کانت الآیات السابقۃ لبیان کمال قدرتہ تعالی علی ما أراد وعموم فیضہ ورحمتہ عقبہا بہذہ الایۃ لبیان تفاوت الاستعدادات فی قبول الفیض من المبدأ الفیاض لیظہر ان النقصان انما ہو من جہۃ المتأثر کما ان نبات الأرض یتفاوت بتفاوت استعداد الأرض مع اتحاد فیضان المطر کذلک تصریف الآیات ونصب الدلایل وبعث الرسل وان کان رحمۃ للعالمین عامۃ لکن الانتفاع بہا مختص بالمؤمنین الشاکرین فانہم لحسن استعداداتہم المستفادۃ من ظلال اسم اللہ الہادی یہتدون بہا ویتفکرون فیہا ویعتبرون بہا۔
ترجمہ :حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی حنفی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ سابقہ آیات کریمہ میں اللہ تعالی کی قدرت کاملہ اوررحمت شاملہ کااظہارکیاگیاتھا، اس آیت کریمہ میں یہ بیان کیاجارہاہے کہ رب فیاض کی رحمت اگرچہ عمومی ہے لیکن قبول کرنے والوں میں قابلیت کاتفاوت ہی قبول فیض کی کمی قابلیت کی کمی کی وجہ سے ہوتی ہے ، جیسے بارش کافیضان ایک جیساہے لیکن زمین کی صلاحیت وقابلیت کے تفاوت کی وجہ سے پیداوارمیں کمی بیشی ہوتی ہے ۔
اسی طرح اظہارآیات بیان دلائل اوربعثت انبیاء کرام علیہم السلام اگرچہ سب انسانوں میں عمومی رحمت ہے مگراس میں رحمت سے بہرہ اندوزہوناصرف ان مومنین کی خصوصیت ہے جوان نعمتوں کے قدردان ہیں ، جن کی فطری صلاحیتیں اللہ تعالی کے اسم شریف ہادی کے پرتوسے مستفادہیں اورانہی صلاحیتوں اورقابلیتوں کے ذریعہ سے وہ ہدایت یاب ہوتے ہیں اوردلائل پرغوروتدبرکرتے ہیں اورآیات کریمہ سے سبق حاصل کرتے ہیں ۔
(التفسیر المظہری:المظہری، محمد ثناء اللہ(۳:۶۶)
انوارنبوت اورقرآن کریم کے نور سے کافرنفع نہیں اٹھاسکتے
والآیۃ مثل لارسال الرسل علیہم السلام بالشرائع التی ہی ماء حیاۃ القلوب الی المکلفین المنقسمین الی المقتبسین من أنوارہا والمحرومین من مغانم آثارہا وفی التفسیر الفارسی (ہرگاہ کہ باران مواعظ از سحاب کلام رب الأرباب بر دل مؤمن بارد أنوار طاعات وعبادات بر جوارح او ظاہر کردد چون کافر استماع سخن کند زمین دلش تخم نصحیت قبول نکند ازو ہیچ صفت کہ بکار آید در ظہور نیاید
ترجمہ :امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی :۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ آیت کریمہ تمثیل رسل کرام علیہم السلام کی تشنہ آوری پرجوحیات قلوب کو نفع بخشتاہے ، جس سے ہرعاقل وبالغ اپنے مردہ قلوب کے لئے حیات قلوب کونفع بخشتاہے ، جس سے ہرعاقل وبالغ اپنی مردہ دل کے لئے حیات پاسکتاہے ، اسلئے کہ ان کے دلوں کو جوانوارنصیب ہوں گے وہ انہی انبیاء کرام علیہم السلام کے انوار کی خاطر جھلک ہوگی ، لیکن جو شخص ازلی بدبخت اوربدنصیب ہووہ ایسی بے بدل نعمت سے محروم رہے گا۔
تفسیرفارسی میں ہے کہ جب اللہ تعالی کے کلام کے انوارکی بارش ہوتی ہے توطاعات وعبادات کے خوگرقلوب جگمگااٹھتے ہیں ، جن کے اثرات مومن کے اعضاسے محسوس ہونے لگتے ہیں ، لیکن بدقسمت کافرجونہی کلام خداوندی کو سنتاہے تواس کادل ان انواروتجلیات کوقبول نہیں کرتا، اسی وجہ سے اللہ تعالی کے کلام کے اثرات ظہورپذیرنہیں ہوتے ۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی المولی أبو الفداء (۳:۱۸۱)
جس نے دین سے نفع اٹھایا!
عَنْ أَبِی مُوسَی، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَثَلُ مَا بَعَثَنِی اللَّہُ بِہِ مِنَ الہُدَی وَالعِلْمِ، کَمَثَلِ الغَیْثِ الکَثِیرِ أَصَابَ أَرْضًا، فَکَانَ مِنْہَا نَقِیَّۃٌ، قَبِلَتِ المَاء َ، فَأَنْبَتَتِ الکَلَأَ وَالعُشْبَ الکَثِیرَ، وَکَانَتْ مِنْہَا أَجَادِبُ، أَمْسَکَتِ المَاء َ، فَنَفَعَ اللَّہُ بِہَا النَّاسَ، فَشَرِبُوا وَسَقَوْا وَزَرَعُوا،وَأَصَابَتْ مِنْہَا طَائِفَۃً أُخْرَی، إِنَّمَا ہِیَ قِیعَانٌ لاَ تُمْسِکُ مَاء ً وَلاَ تُنْبِتُ کَلَأً، فَذَلِکَ مَثَلُ مَنْ فَقُہَ فِی دِینِ اللَّہِ، وَنَفَعَہُ مَا بَعَثَنِی اللَّہُ بِہِ فَعَلِمَ وَعَلَّمَ، وَمَثَلُ مَنْ لَمْ یَرْفَعْ بِذَلِکَ رَأْسًا، وَلَمْ یَقْبَلْ ہُدَی اللَّہِ الَّذِی أُرْسِلْتُ بِہِ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّہِ:قَالَ إِسْحَاقُ:وَکَانَ مِنْہَا طَائِفَۃٌ قَیَّلَتِ المَاء َ، قَاعٌ یَعْلُوہُ المَاء ُ، وَالصَّفْصَفُ المُسْتَوِی مِنَ الأَرْضِ۔
ترجمہ:حضرت سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺسے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺنے فرمایا:اللہ تعالیٰ نے جو ہدایت و علم مجھے دے کر بھیجا ہے، اس کی مثال تیز بارش کی سی ہے جو زمین پر برسے۔ صاف اور عمدہ زمین تو پانی کو جذب کر لیتی ہے اور بہت سا گھاس اور سبزہ اگاتی ہے، جبکہ سخت زمین پانی کو روکتی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اس سے لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ لوگ خود بھی پیتے ہیں اور جانوروں کو بھی سیراب کرتے ہیں اور اس کے ذریعے سے کھیتی باڑی بھی کرتے ہیں۔ اور کچھ بارش ایسے حصے پر برسی جو صاف اور چٹیل میدان تھا۔ وہ نہ تو پانی کو روکتا ہے اور نہ سبزہ اگاتا ہے۔ پس یہی مثال اس شخص کی ہے جس نے اللہ تعالی کے دین میں سمجھ حاصل کی اور جو تعلیمات دے کر اللہ تعالیٰ نے مجھے مبعوث کیا ہے، ان سے اسے فائدہ ہوا، یعنی اس نے انہیں خود سیکھا اور دوسروں کو سیکھایا۔ اور یہی اس شخص کی مثال ہے جس نے سر تک نہ اٹھایا اور اللہ کی ہدایت کو جو میں دے کر بھیجا گیا ہوں، قبول نہ کیا۔ابو عبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ تعالی )فرماتے ہیں:امام اسحاق بن راہویہ نے جب اس حدیث کو بیان کیا تو انہوں نے (وَکَانَ مِنْہَا طَائِفَۃٌ قَیَّلَتِ المَاء َ)کے الفاظ نقل کیے ہیں، نیز قاع (جس کی جمع قیعان ہے)اس زمین کو کہتے ہیں جس پر پانی چڑھتا ہوا گزر جائے اور صفصف اس زمین کو کہتے ہیں جو برابر اور ہموار ہو۔
(صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۱:۲۷)
معارف ومسائل
(۱)زمین کو خبیث اورطیب کہناجائز ہے ، اچھی پیداواروالی زمین طیب ہے اورناقابل کاشت یاکم پیداواروالی زمین خبیث ہے ۔ اسی طرح انسان کو طیب وخبیث کہہ سکتے ہیں ، باادب انسان طیب ہے اوربے ادب خبیث ہے ۔ جو مقصدحیات پوراکرے وہ طیب ہے اورجو مقصدحیات پورانہ کرے وہ خبیث ہے ۔
(۲) اس سے معلوم ہواکہ جتنے دین دشمن ہیں اوردین کے معاملے میں لوگوںکے دلوں میں شک ووہم ڈالتے رہتے ہیں ان کو خبیث کہناقرآن کریم کاطریقہ ہے ۔ اورجوشخص ایسے لوگوںکوخبیث کہنے سے روکے وہ خود خبیث وپلیدہے ۔
(۳) اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ بندہ مومن کاعمل خالصتاًاللہ تعالی کی رضاکے لئے ہوتاہے جبکہ منافق کوئی نیکی بھی کرے گاتوپہلے یہ دیکھے گاکہ اس کادنیوی نفع کیاہے ؟
(۴) اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ جو لوگ دین کے دشمن ہیں ان کاردکرنااورکھلے عام ردکرنالازم وضروری ہے اوریہی قرآن کریم کادیاہواطریقہ ہے ۔
(۵) اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ حق کوحق کہنااورباطل کوباطل کہنالازم ہے ، اوراسی طرح چورکوچورکہنااورمظلوم کومظلوم کہنالازم ہے جوشخص چورکوچورنہ کہے وہ بھی چور کہلائے گا۔
(۶)یہ مومن کی مثال ہے کہ جس طرح عمدہ زمین پانی سے نفع پاتی ہے اور اس میں پھول پھل پیدا ہوتے ہیں اسی طرح جب مومن کے دل پر قرآنی انوار کی بارش ہوتی ہے تو وہ اس سے نفع پاتا ہے، ایمان لاتا ہے، طاعات و عبادات سے پھلتا پھولتا ہے۔یونہی یہ مثال فیضانِ نبوت کی بھی ہوسکتی ہے کہ جب نبوی فیضان عام ہوتا ہے اور نورِ نبوت کی بارش برستی ہے تو مومن کا دل اس سے نفع حاصل کرتاہے اور اسے روحانی زندگی مل جاتی ہے اور اُس کے رگ و پے میں نورِ ایمان سرایت کرجاتا ہے اور اعمالِ صالحہ کے پھل پھول کھِلنے لگتے ہیں۔{وَالَّذِیْ خَبُث}:اور جو خراب ہو۔)یہ کافر کی مثال ہے کہ جیسے خراب زمین بارش سے نفع نہیں پاتی ایسے ہی کافر قرآنِ پاک سے مُنْتَفِع نہیں ہوتا اور یونہی جب فیضانِ نبوت کی بارش ہوتی ہے تو کافر کا خبیث دل اُس فیضان سے اسی طرح محروم رہتا ہے جیسے بہترین بارش سے کانٹے دار اور جھاڑ جھنکار والی زمین محروم رہتی ہے۔
(تفسیرصراط الجنان ( ۳: ۳۴۶)