آمربالمعروف وناہی عن المنکرکوعزیمت پر عمل کرتے ہوئے اپناحوصلہ بلندرکھناچاہئے
{الٓـمّٓص}(۱){کِتٰبٌ اُنْزِلَ اِلَیْکَ فَلَا یَکُنْ فِیْ صَدْرِکَ حَرَجٌ مِّنْہُ لِتُنْذِرَ بِہٖ وَ ذِکْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ }(۲){ اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ لَاتَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِیَآء َ قَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَ }(۳)
ترجمہ کنزالایمان: اے محبوب ایک کتاب تمہاری طرف اُتاری گئی تو تمہارا جی اس سے نہ رُکے اس لیے کہ تم اس سے ڈر سناؤ اور مسلمانوں کو نصیحت۔اے لوگواس پر چلو جو تمہاری طرف تمہارے رب کے پاس سے اُترا اور اسے چھوڑ کر اور حاکموں کے پیچھے نہ جاؤ بہت ہی کم سمجھتے ہو۔
ترجمہ ضیاء الایمان:اے حبیب کریمﷺ! ایک کتاب ہے جو آپﷺ کی طرف نازل کی گئی ہے تا کہ آپﷺ اس کے ساتھ ڈر سنائیں اور اہل ایمان کے لئے نصیحت ہے پس آپ ﷺکے دل میں اس کی طرف سے کوئی تنگی نہ ہو۔اے لوگو!تمہارے رب تعالی کی طرف سے تمہاری طرف جو(قرآن کریم )نازل کیا گیا ہے اس کی اتباع کرو اور اسے چھوڑ کر اور حاکموں کے پیچھے نہ جاؤ۔تم بہت ہی کم سمجھتے ہو۔
حضورتاجدارختم نبوتﷺکے سینہ اقدس سے غم کودورکرنا
قَوْلُہُ تَعَالَی:’’حَرَجٌ‘‘َٔیْ ضِیقٌ، أَیْ لَا یَضِیقُ صَدْرُکَ بِالْإِبْلَاغِ، لِأَنَّہُ رُوِیَ عَنْہُ عَلَیْہِ السَّلَامُ أَنَّہُ قَالَ:(إِنِّی أَخَافُ أَنْ یَثْلَغُوا (رَأْسِی فَیَدَعُوہُ خُبْزَۃً)الْحَدِیثَ خَرَّجَہُ مُسْلِمٌقَالَ إِلْکِیَا: فَظَاہِرُہُ النَّہْیُ، وَمَعْنَاہُ نَفْیُ الْحَرَجِ عَنْہُ، أَیْ لَا یَضِیقُ صَدْرُکَ أَلَّا یُؤْمِنُوا بِہِ، فَإِنَّمَا عَلَیْکَ الْبَلَاغُ، وَلَیْسَ عَلَیْکَ سِوَی الإنذار بہ من شی من إیمانہم أَوْ کُفْرِہِمْ۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی کے اس فرمان شریف میں ’’حرج‘‘ کامعنی ضیق ہے یعنی تنگی۔ اس کامطلب یہ ہے کہ اے حبیب کریم ﷺ!آپ ﷺکاسینہ اقدس تبلیغ کی وجہ سے تنگ نہ ہوکیونکہ آپ ﷺسے مروی ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا: مجھے خوف ہے کہ وہ میراسرکچل دیں اوراسے نشینی علاقے میں پھینک دیں ۔
امام الکیاطبری رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ظاہرمیں یہ کلام نہی ہے ، لیکن اس کامعنی آپ ﷺسے تنگی کی نفی کرناہے یعنی آپ ﷺکاسینہ اقدس تنگ نہ ہوکہ وہ اس قرآن کریم پر ایمان نہیں لائے ۔ بلاشبہ آپﷺپرتبلیغ کرنافرض ہے اوراس کے ساتھ ڈرانے کے سواانکے ایمان یاکفرمیں سے کوئی شئی آپﷺپرلازم نہیں ہے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکرشمس الدین القرطبی (۷:۱۰۸)
حضورتاجدارختم نبوتﷺکوتسلی دی جاتی ہے
وقال ابو العالیۃ المراد منہ مخافۃ الناس فی تبلیغ القران من ان یکذبوہ ویوذوہ فان الخائف فی امر لا ینشط لہ ولا ینشرح صدرہ فی الإتیان بہ ۔
ترجمہ :حضرت سیدناابوالعالیہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کی تبلیغ کی راہ میں لوگوں کے خوف کاحائل ہوناحرج ہے یعنی اس بات سے ڈرکرتبلیغ میں کمی نہ کریں کہ لوگ ہمارے قرآن کریم کی مخالفت کریں گے اورآپﷺکوایذاپہنچائیں گے کیونکہ اگرکوئی کا م کرنے والے کو ڈرلگاہوتوآدمی بشاشت خاطراورچستی کے ساتھ اس کام کو نہیں کرتااورا س کام کے لئے سینہ میں کشائش نہیں پیداہوتی ۔
(التفسیر المظہری:المظہری، محمد ثناء اللہ(۳:۳۲۳)
معارف ومسائل
(۱) قرآن کریم سے مکہ کے کفارکاانکارحضورتاجدارختم نبوتﷺکے قلب اطہرکو بہت زیادہ تکلیف دیتاتھا، اللہ تعالی نے اپنے حبیب کریم ﷺکو تسلی دی کہ آپ ﷺکے سینہ اقدس میں انکے انکارسے کوئی تنگی نہیں آنی چاہئے ۔
(۲) اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ داعی اورمبلغ اورامیرجہاد کو قوم کی مخالفت سے دلبرداشتہ نہیں ہوناچاہئے ، کیونکہ لوگ توان کے درپے آزارہتے ہیں۔
(۳) اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکاپریشان ہونااللہ تعالی کو بالکل گورانہیں ہے ، آپ ﷺکے قلب اطہرپہ جب بھی بوجھ آتاتواللہ تعالی قرآن کریم کی آیات کریمہ اپنے حبیب کریم ﷺکی تسلی کے لئے نازل فرمادیتا، اوریہی وجہ ہے کہ قرآن کریم یکبارگی نازل نہیں کیاگیا۔
(۴) اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہواکہ شریعت کے مقابلے میں کسی دوست یاعزیزکاتعلق خاطرمیں نہ لایاجائے اورنہ کسی حکومت کی اطاعت قبول کی جائے ، اگروالدین بھی دین کے خلاف حکم دیں توان کی اطاعت بھی جائز نہیں ہے ، نہ کسی حاکم کے آگے سرنگوں ہونے کی اجازت ہے ، اسی لئے انبیاء کرام علیہم السلام، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، اورائمہ دین ہمیشہ طاغوت اوراس کے نظام سے ٹکراتے رہے ہیں اورکبھی بھی دین حق کے معاملے میں سمجھوتہ نہیں کیا۔
(۵)اس سے معلوم ہواکہ قرآن کریم کی پیروی ، حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی پیروی ہر شخص پر لاز م ہے خواہ وہ کسی بھی جگہ کارہنے والاہواورکبھی بھی پیداہواہو، کوئی بھی ان سے مستغنی نہیں ہے ۔ زندگی کی ہرحالت میں ان دونوں کی پیروی لازم ہے اورکوئی بھی شخص کسی بھی حالت میں پہنچ کران سے بے نیاز نہیں ہوسکتاجویہ کہے کہ بندہ خداتعالی تک پہنچ کر قرآن کریم کی اتباع اورحضورتاجدارختم نبوتﷺکی پیروی سے بے نیاز ہوجاتاہے وہ مطلقاًکافرومرتدہے ۔ تعجب ہے یہ جھوٹے مدعیان سورج ، چاند ، ہوااورغذاسے مستغنی نہیں ہوئے مگرحضورتاجدارختم نبوتﷺکی پیروی اورقرآن کریم سے مستغنی ہو گئے ۔ یادرہے کہ مرنے کے بعد ان سب چیزوں کی ضرورت نہیں رہتی مگرحضورتاجدارختم نبوتﷺکی حاجت پھربھی رہتی ہے ۔
(۶) اوراس سے یہ بھی معلوم ہواکہ قرآن کریم کی طرح حضورتاجدارختم نبوتﷺکی سنت کی اتباع بھی ضروری ہے بلکہ سنت کے بغیرقرآن کریم کی اتباع ناممکن ہے ۔ (تفسیرنعیمی ( ۸: ۲۹۱)
(۷)اس آیت میں حضورِ اقدسﷺکی تسکین و تسلی اور حوصلہ افزائی ہے اور اس کے ذریعے امت کے تمام مبلغین کو درس اور سبق ہے کہ لوگوں کے نہ ماننے یا تکلیفیں دینے کی وجہ سے تبلیغِ دین میں دل تنگ نہیں ہونا چاہیے۔ نیکی کی دعوت کا کام ہی ایسا ہے کہ اس میں تکالیف ضرور آتی ہیں۔ اسی لئے تمام انبیاء ِ کرام علیہم السلام نے بے پناہ تکلیفیں اٹھائیں اور ان کے واقعات قرآنِ پاک میں بکثرت موجود ہیں۔ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا آگ میں ڈالا جانا، اپنے ملک سے ہجرت کرنا، لوگوں کا آپ کو تنگ کرنا یونہی حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ہجرت کرنا، فرعون کا آپ کے مقابلے میں آنا، آپ کو جادوگر قرار دینا، آپ کو گرفتار کرنے کے منصوبے بنانا یونہی سرکارِ دوعالم ﷺکا بے پناہ تکلیفیں اٹھانا، لوگوں کا آپ پر مَعَاذَاللہ راستے میں کانٹے بچھانا، آپﷺ کو شہید کرنے کے منصوبے بنانا، آپ ﷺکو اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور کرنا، آپﷺ کو جادوگر، کاہن، شاعر کہنا، آپ ﷺسے جنگ کرنا وغیرہ یہ ساری چیزیں اس بات کی دلیل ہیں کہ راہِ تبلیغ میں تکالیف آنا ایک معمول کی چیز ہے اور انہیں برداشت کرنا انبیاء ِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے۔ آیت میں فرمایا گیا کہ یہ قرآن مومنوں کیلئے نصیحت ہے، اب یہاں آج کے مومنین و مسلمین سے بھی عرض ہے کہ ذرا اپنے احوال و اعمال پر غور کریں کہ کیا یہ قرآن سے نصیحت حاصل کررہے ہیں ؟ یا انہیں قرآن کھولنے، پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق ہی نہیں ہوتی؟ ( تفسیرصراط الجنان ( ۳: ۲۶۶)
(۸) حضورتاجدارختم نبوت ﷺکوجب امورتبلیغ میں پریشانی ہوئی توچونکہ اللہ تعالی آپ ﷺکو حکم دینے والاہے تو اللہ تعالی نے اپنے حبیب کریم ﷺکوتسلیاں دینے کے لئے قرآن کریم کی متعددآیات کریمہ نازل فرمائیں ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ امیردعوت جو ہے وہ بھی گاہے بگاہے اپنے داعیوں کو تسلیاں دیتارہے تاکہ ان کادل امورتبلیغ اورامورجہاد میں مضبوط رہے اوران میں کسی طرح کی کوئی بددلی پیدانہ ہو۔