تفسیر سورہ آل عمران آیت ۱۲۱ تا ۱۳۸

غزوہ احدشریف کابیان

{وَ اِذْ غَدَوْتَ مِنْ اَہْلِکَ تُبَوِّیُ الْمُؤْمِنِیْنَ مَقٰعِدَ لِلْقِتَالِ وَاللہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ}(۱۲۱)
ترجمہ کنزالایمان:اور یاد کرو اے محبوب جب تم صبح کو اپنے دولت خانہ سے برآمد ہوئے مسلمانوں کو لڑائی کے مورچوں پر قائم کرتے اور اللہ سنتا جانتا ہے ۔
ترجمہ ضیاء الایمان: اوریادکریں اے حبیب کریم ﷺ! جب آپ صبح کے وقت اپنے دولت خانہ سے باہرتشریف لائے اورمسلمانوں کو جہاد کے لئے مورچوں پر کھڑاکرنے لگے اوراللہ تعالی سننے والاجاننے والاہے ۔
اس آیت کریمہ میں مراد غزوہ احدشریف ہے
ٍوَالْجُمْہُورُعَلَی أَنَّہَا غَزْوَۃُ أُحُدٍ۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جمہورمفسرین کرام بھی یہی فرماتے ہیں کہ اس سے مراد غزوہ احدہے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۴:۱۸۴)

حضورتاجدارختم نبوت ﷺکااحدکی جانب پیدل روانہ ہونا

یُرْوَی أَنَّہُ عَلَیْہِ السَّلَامُ غَدَا مِنْ مَنْزِلِ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا فَمَشَی عَلَی رِجْلَیْہِ إِلَی أُحُدٍ، وَہَذَا قَوْلُ مُجَاہِدٍ وَالْوَاقِدِیِّ،فَدَلَّ ہَذَا النَّصُّ عَلَی أَنَّ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَاکَانَتْ أَہْلًا لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقَالَ تعالی:الطَّیِّباتُ لِلطَّیِّبِینَ وَالطَّیِّبُونَ لِلطَّیِّباتِ (النُّورِ:۲۶) فَدَلَّ ہَذَا النَّصُّ عَلَی أَنَّہَا مُطَہَّرَۃٌ مُبَرَّأَۃٌ عَنْ کُلِّ قَبِیحٍ، أَلَا تَرَی أَنَّ وَلَدَ نُوحٍ لَمَّا کَانَ کَافِرًا قَالَ: إِنَّہُ لَیْسَ مِنْ أَہْلِکَ (ہُودٍ: ۴۶)۔
ترجمہ:روایت ہے کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺصبح کے وقت حضرت سیدتناعائشہ رضی اللہ عنہاکے گھرسے نکلے اورپیدل احدکی جانب تشریف لے گئے ، یہ حضرت سیدنامجاہدرحمہ اللہ تعالی اورامام واقدی رحمہ اللہ تعالی کاقول ہے ، پس اس نص سے ثابت ہواکہ حضرت سیدتناعائشہ رضی اللہ عنہاحضورتاجدارختم نبوتﷺکی اہل تھیں اوراللہ تعالی کافرمان شریف ہے پاک عورتیں پاک مردوں کے لئے ہیں اورپاک مرد پاک عورتوں کے لئے ہیں ۔پس اس آیت کریمہ سے ثابت ہواکہ حضرت سیدتناعائشہ رضی اللہ عنہاہرخرابی اوربرائی سے پاک اوربری ہیں ، کیاتم نے نہیں دیکھاکہ حضرت سیدنانوح علیہ السلام کابیٹاجب کافرتھاتو اللہ تعالی نے فرمایا:اے نوح وہ آپ کے اہل میں سے نہیں ہے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۸:۳۴۶)

غزوہ احد کاتعارف اورپس منظر

غزوہ احد ۱۷شوال ۳ھ)میں مسلمانوں اور مشرکینِ مکہ کے درمیان احد کے پہاڑ کے دامن میں ہوئی۔ مشرکین کے لشکر کی قیادت ابوسفیان کے پاس تھی اور اس نے۳۰۰۰سے زائد افراد کے ساتھ مسلمانوں پر حملہ کی ٹھانی تھی جس کی باقاعدہ تیاری کی گئی تھی۔ مسلمانوں کی قیادت حضورتاجدارختم نبوتﷺنے کی۔ اس جنگ کے نتیجہ کو کسی کی فتح یا شکست نہیں کہا جا سکتا کیونکہ دونوں طرف شدید نقصان ہوا اور کبھی مسلمان غالب آئے اور کبھی مشرکین لیکن آخر میں مشرکین کا لشکر لڑائی ترک کر کے مکہ واپس چلا گیا۔

غزوہ بدر میںاہل اسلام کو شاندار فتح ہوئی تھی۔ اس کے بعد علاقے کی قوتوں بشمول قریشِ مکہ اور یہودیوں کو اندازہ ہوا کہ اب مسلمان ایک معمولی قوت نہیں رہے۔ شکست کھانے کے بعد مشرکینِ مکہ نہایت غصے میں تھے اور نہ صرف اپنی بے عزتی کا بدلہ لینا چاہتے تھے بلکہ ان تجارتی راستوں پر دوبارہ قبضہ کرنا چاہتے تھے جن کی ناکہ بندی مسلمانوں نے غزوہ بدر کے بعد کر دی تھی۔ جنگ کے شعلے بھڑکانے میں ابوسفیان، اس کی بیوی ہندہ اور ایک یہودی کعب ابن اشرف کے نام نمایاں ہیں۔ ہندہ نے اپنے گھر محفلیں شروع کر دیں جس میں اشعار کی صورت میں جنگ کی ترغیب دی جاتی تھی۔ ابو سفیان نے غزوہ احد سے کچھ پہلے مدینہ کے قریب ایک یہودی قبیلہ کے سردار کے پاس کچھ دن رہائش رکھی تاکہ مدینہ کے حالات سے مکمل آگاہی ہو سکے۔ ابوجہل غزوہ بدر میں مارا گیا تھا جس کے بعد قریش کی سرداری ابوسفیان کے پاس تھی جس کی قیادت میں مکہ کے دارالندوہ میں ایک اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ جنگ کی تیاری کی جائے۔ اس مقصد کے لیے مال و دولت بھی اکٹھی کی گئی۔ جنگ کی بھر پور تیاری کی گئی۔۳۰۰۰سے کچھ زائد سپاہی جن میں سے سات سو زرہ پوش تھے تیار ہو گئے۔ ان کے ساتھ ۲۰۰گھوڑے اور ۳۰۰اونٹ بھی تیار کیے گئے۔ کچھ عورتیں بھی ساتھ گئیں جو اشعار پڑھ پڑھ کر مشرکین کو جوش دلاتی تھیں۔ ابوسفیان کی بیوی ہندہ نے یہ ارادہ کیا کہ حضور تاجدارختم نبوت ﷺکے چچاحضرت سیدناامیر حمزہ رضی اللہ عنہ کا کلیجا چبائے گی چنانچہ اس مقصد کے لیے اس نے حضرت سیدناامیرحمزہ رضی اللہ عنہ کے قتل کے لیے اپنے ایک غلام کو خصوصی طور پر تیار کیا۔ بالآخر یہ فوج مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کے لیے روانہ ہو گئی۔

حضور تاجدارختم نبوت ﷺکے چچاحضرت سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے، جو مکہ ہی میں رہتے تھے، حضورتاجدارختم نبوت ﷺ کومشرکین کی اس سازش سے آگاہ کر دیا تھا۔حضور تاجدارختم نبوت ﷺنے انصار و مہاجرین سے مشورہ کیا کہ شہر میں رہ کر دفاع کیا جائے یا باہر جا کر جنگ لڑی جائے۔ فیصلہ دوسری صورت میں ہوا یعنی باہر نکل کر جنگ لڑی جائے چنانچہ ۶شوال کو نمازِ جمعہ کے بعد حضور تاجدارختم نبوت ﷺنے اصحاب کرام رضی اللہ عنہم کو استقامت کی تلقین کی اور ۱۰۰۰کی فوج کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہو گئے۔ اشواط کے مقام پر ایک منافق عبد اللہ بن ابی ۳۰۰سواروں کے ساتھ جنگ سے علیحدہ ہو گیا اور بہانہ یہ بنایا کہ جنگ شہر کے اندر رہ کر لڑنے کا اس کا مشورہ نہیں مانا گیا۔ ہفتہ ۷شوال ۳ھ (کو دونوں فوجیں احد کے دامن میں آمنے سامنے آ گئیں۔ احد کا پہاڑ مسلمانوں کی پشت پر تھا۔ وہاں ایک درہ پرحضور تاجدارختم نبوت ﷺنے حضرت سیدناعبد اللہ بن جبیررضی اللہ عنہ کی قیادت میں پچاس تیر اندازوں کو مقرر کیا تاکہ دشمن اس راستے سے میدانِ جنگ میں نہ آ سکے۔

جنگ کا آغاز مشرکین کی طرف سے ہوا جب ابوعامر نے تیر اندازی کی۔ اس مرحلہ پر نو افراد مشرکین کی طرف سے آئے جو سب کے سب قتل ہوئے۔ دوسرے مرحلے میں مشرکینِ مکہ نے اکٹھا بھر پور حملہ کر دیا۔ اس دوران ان کی کچھ عورتیں ان کو اشعار سے اشتعال دلا رہی تھیں تاکہ وہ غزوہ بدر کی عبرتناک شکست کا داغ دھو سکیں۔ ابتدا کی زبردست جنگ میں مسلمانوں نے مشرکین کے کئی لوگوں کو قتل کیا جس پر مشرکین فرار ہونے لگے۔ مسلمان یہ سمجھے کہ وہ جنگ جیت گئے ہیں چنانچہ درہ عینین پر تعینات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضور تاجدارختم نبوت ﷺ کے اس حکم شریف کی پابندی نہ کرسکے کہ درہ کسی قیمت پر نہیں چھوڑنا اور درہ چھوڑ کر میدان میں مالِ غنیمت اکٹھا کرنا شروع کر دیا۔ صرف دس افراد درہ پر رہ گئے۔ خالد بن ولید (جو اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے)نے موقع غنیمت جانتے ہوئے کوہِ احد کا چکر لگا کر درہ پر قبضہ کر لیا اور مسلمانوں پر یکدم پیچھے سے وار کر دیا۔

مستشرقین کے فریب کاپردہ چاک

یہاں ایک تاریخی غلط فہمی کا ازالہ بھی ضروری ہے،جو پید ااسلام دشمن مستشرقین نے کی تھی وہ یہ کہ قرآن مجید میں جہاں غزوۂ احد کی ہزیمت کے اسباب بیان ہوئے ہیں،وہاں گھاٹی سے اترنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو طالب دنیاکہا گیا ہے۔اس سے یہ حضرات اس غلط فہمی کا شکار ہوئے ،کہ ان گھاٹی سے اترنے والے حضرات نے یہ سمجھا ،کہ اگر ہم اب بھی حضورتاجدارختم نبوتﷺ کے حکم اور اپنے ساتھیوں اورحضورتاجدارختم نبوت ﷺکے حکم مطابق گھاٹی پر ہی رہے اور میدان میں جاکر مال غنیمت نہ سمیٹا،تو ہم مال غنیمت سے محروم رہ جائیں گے۔یہ کہہ کر ان مستشرقین نے گویا یہ مغالطہ دینے کی کوشش کی ،کہ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی نظر میں (نعوذباللہ!)اللہ تعالی کے حبیب کریم ﷺاور امیر کے حکم کی وہ اہمیت نہیں تھی ،جو مال غنیمت کی تھی،اور جس سے محرومی کا انھیں ڈر تھا۔یہ بات قطعی درست نہیں ۔اسلام کے نظام جنگ کی ادنیٰ سی بھی سمجھ بوجھ رکھنے والے سے یہ بات مخفی نہیں ،کہ جنگ کے خاتمے کے بعد مال غنیمت امیر کے پاس جمع کیا جاتا ہے،جو تمام شرکائے جنگ میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ایسا نہیں ہوتا،کہ جس کے ہاتھ جو چیز آئے وہ اس کی ۔بلکہ مال غنیمت میں سے ادنیٰ سے ادنیٰ چیز چھپانے پر بھی احادیث میں سخت ترین وعیدیں آئی ہیں۔اس سے صاف واضح ہوجاتا ہے ،کہ ان حضرات کا مطمح نظر مال غنیمت یا دنیا کا حصول نہیں تھا،بلکہ ان حضرات نے اپنی رائے میں یہ سمجھا کہ جنگ میں ان کے ذمے جو ایک خدمت لگائی گئی تھی،وہ فتح کی صورت میں مکمل ہوچکی،اب نئی خدمت مال غنیمت جمع کرنے کی ہے،سو ان حضرات نے نیکی میں آگے بڑھنے کے جذبے سے اس نئی خدمت کے لیے اپنے آپ کو پیش کردیا۔یہ ان کی اجتہادی غلطی تھی۔امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مجتہد ہیں،اورمجتہد کی رائے غلط ہو،تب بھی اسے اجر ہی ملتا ہے۔رہی یہ بات،کہ جب ایسا تھا،توقرآن کریم میں اسے طلب دنیاکیوں کہا گیا؟اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تربیت کا ایک انداز ہے۔انھیں عتاب کیا جارہا ہے،کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے حکم اور امیرکی اطاعت کے خلاف تم نے اپنی طرف سے اطاعت ونیکی کا جو راستہ تجویز کیا ہے،سمجھ لو،یہ نری دنیاداری ہے،کیوں کہ اس میں حضورتاجدارختم نبوت ﷺاور امیرکی منشا شامل نہیں۔

یہ ذہن میں رہے کہ پچھلے سال جب پاکستانی وزیراعظم نے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق یہی بات کی کہ انہوںنے مال لوٹناشروع کردیاتھانعوذ باللہ من ذلک اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ یہ دنیادارذلیل لوگ اسلام کے جواصل ماخذہیں ان کو ترک کرکے انگریزوں کی تحقیقات کو دیکھتے ہیں ، کیونکہ ان کاتوکام ہی یہی ہے کہ اہل اسلام کو کسی نہ کسی طرح مقدسات اسلامیہ کابے ادب بنایاجائے اوران کاجوان کے ساتھ ایک ایمانی تعلق ہے اس کو کمزورکردیاجائے ۔ لھذاوہ اپنے اس غلیظ مقصدمیں کامیاب ہوتے جارہے ہیں ۔
اوریہ بھی ذہن میں رہے کہ احد کا واقعہ بڑا نازک اور دلخراش ہے۔ میدان احد میں بڑا نقصان ہوا۔ سب سے پہلا اور بڑا نقصان حضورتاجدارختم نبوت ﷺ کا زخمی ہونا۔ دوسرا حضرت سیدناامیر حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت اور تیسرا ۷۰صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شہید ہوگئے۔ تمام محدثین اور تمام دنیا کے فاتحین نے جب غزوہ احد پر نظر ڈالی کہ یہ نقصان کیوں ہوئے تو یہ راز سامنے آیا کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے حکم سے خطاء اجتہادی کی وجہ سے یہ نقصان ہوا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جان بوجھ کر حضورتاجدارختم نبوت ﷺکا حکم نہیں توڑا۔ اس اجتہادی لغزش پر طعن و ملامت کی گنجائش نہیں بلکہ مجتہدین نے فرمایا اجتہادی خطاء پر بھی ایک درجہ ثواب ملتا ہے۔ حضورتاجدارختم نبوت ﷺ کا حکم تھا اس درے پر کھڑے رہنا جب تک میں نہ کہوں نیچے نہ اترنا۔ ابتدائی جنگ میں جب دشمن بھاگ گئے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا خیال تھا کہ جنگ ختم ہو جائے تو نیچے اتر جائیں کوئی خطرہ نہیں یہ سمجھ کر وہ درے سے نیچے اترے اور دشمن نے حملہ کر دیا۔

غزوہ احدشریف کی حکمتیں اوراغراض محمودہ کابیان

وَقَدْ أَشَارَ اللَّہُ سُبْحَانَہُ وَتَعَالَی إِلَی أُمَّہَاتِہَا، وَأُصُولِہَا فِی سُورَۃِ (آلِ عِمْرَانَ) حَیْثُ افْتَتَحَ الْقِصَّۃَ بِقَوْلِہِ:(وَإِذْ غَدَوْتَ مِنْ أَہْلِکَ تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِینَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ)(آل عمران:۱۲۱) إِلَی تَمَامِ سِتِّینَ آیَۃً۔
ترجمہ
محمد بن أبی بکر بن أیوب بن سعد شمس الدین ابن قیم الجوزیۃ المتوفی:۷۵۱ھ) رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ سورۃ آل عمران میں جہاں سے قصہ شروع ہوتاہے {وَ اِذْ غَدَوْتَ مِنْ اَہْلِکَ تُبَوِّیُ الْمُؤْمِنِیْنَ مَقٰعِدَ لِلْقِتَالِ وَاللہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ}(۱۲۱)
ترجمہ کنزالایمان:اور یاد کرو اے محبوب جب تم صبح کو اپنے دولت خانہ سے برآمد ہوئے مسلمانوں کو لڑائی کے مورچوں پر قائم کرتے اور اللہ سنتا جانتا ہے ۔
یہاں سے تقریباًساٹھ آیات تک بڑی بڑی اوربنیادی حکمتوں اوراغراض کی طرف اشارہ ہے ۔
پہلی حکمت
فَمِنْہَا:تَعْرِیفُہُمْ سُوء َ عَاقِبَۃِ الْمَعْصِیَۃِ وَالْفَشَلِ وَالتَّنَازُعِ، وَأَنَّ الَّذِی أَصَابَہُمْ إنَّمَا ہُوَ بِشُؤْمِ ذَلِکَ، کَمَا قَالَ تَعَالَی:(وَلَقَدْ صَدَقَکُمُ اللَّہُ وَعْدَہُ إِذْ تَحُسُّونَہُمْ بِإِذْنِہِ حَتَّی إِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِی الْأَمْرِ وَعَصَیْتُمْ مِنْ بَعْدِ مَا أَرَاکُمْ مَا تُحِبُّونَ مِنْکُمْ مَنْ یُرِیدُ الدُّنْیَا وَمِنْکُمْ مَنْ یُرِیدُ الْآخِرَۃَ ثُمَّ صَرَفَکُمْ عَنْہُمْ لِیَبْتَلِیَکُمْ وَلَقَدْ عَفَا عَنْکُمْ) (آل عمران:۱۵۲)فَلَمَّا ذَاقُوا عَاقِبَۃَ مَعْصِیَتِہِمْ لِلرَّسُولِ، وَتَنَازُعِہِمْ، وَفَشَلِہِمْ، کَانُوا بَعْدَ ذَلِکَ أَشَدَّ حَذَرًا وَیَقَظَۃً، وَتَحَرُّزًا مِنْ أَسْبَابِ الْخِذْلَانِ.
ترجمہ :صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوحضورتاجدارختم نبوت ﷺکے حکم شریف کی پابندی نہ کرنے کاوبال اورانجام بیان کرنامقصود تھااوریہ بھی کہ ان کو جو مصیبت پہنچی ہے وہ صرف اورصرف اس وجہ سے ہے کہ انہوںنے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے فرمان شریف کی پابندی نہیں کی۔
جیساکہ اللہ تعالی کافرمان شریف ہے
{وَلَقَدْ صَدَقَکُمُ اللہُ وَعْدَہٓ اِذْ تَحُسُّوْنَہُمْ بِاِذْنِہٖ حَتّٰٓی اِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنٰزَعْتُمْ فِی الْاَمْرِ وَعَصَیْتُمْ مِّنْ بَعْدِ مَآ اَرٰیکُمْ مَّا تُحِبُّوْنَ مِنْکُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الدُّنْیَا وَمِنْکُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الْاٰخِرَۃَ ثُمَّ صَرَفَکُمْ عَنْہُمْ لِیَبْتَلِیَکُمْ وَلَقَدْ عَفَا عَنْکُمْ وَاللہُ ذُوْ فَضْلٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ}(سورۃ آل عمران : ۱۵۲)
ترجمہ کنزالایمان:اور بے شک اللہ نے تمہیں سچ کر دکھایا اپنا وعدہ جب کہ تم اس کے حکم سے کافروں کو قتل کرتے تھے یہاں تک کہ جب تم نے بزدلی کی اور حکم میں جھگڑا ڈالا اور نافرمانی کی بعد اس کے کہ اللہ تمہیں دکھاچکا تمہاری خوشی کی بات تم میں کوئی دنیا چاہتا تھا اورتم میں کوئی آخرت چاہتا تھا پھر تمہارا منہ اُن سے پھیر دیا کہ تمہیں آزمائے اور بے شک اس نے تمہیں معاف کردیا اور اللہ مسلمانوں پر فضل کرتا ہے ۔
جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے فرمان شریف کی پابندی نہ کرنے کے سبب نقصان اٹھاچکے تو اس کے بعد بہت زیادہ بیداراورمحتاط رہنے لگے اورہر اس عمل سے بچنے لگے جس سے اللہ تعالی کی مددچھوٹ جائے ۔
دوسری حکمت
وَمِنْہَا: أَنَّ حِکْمَۃَ اللَّہِ وَسُنَّتَہُ فِی رُسُلِہِ وَأَتْبَاعِہِمْ جَرَتْ بِأَنْ یُدَالُوا مَرَّۃً وَیُدَالَ عَلَیْہِمْ أُخْرَی، لَکِنْ تَکُونُ لَہُمُ الْعَاقِبَۃُ، فَإِنَّہُمْ لَوِ انْتَصَرُوا دَائِمًا دَخَلَ مَعَہُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَغَیْرُہُمْ، وَلَمْ یَتَمَیَّزِ الصَّادِقُ مِنْ غَیْرِہِ، وَلَوِ انْتُصِرَ عَلَیْہِمْ دَائِمًا لَمْ یَحْصُلِ الْمَقْصُودُ مِنَ الْبَعْثَۃِ وَالرِّسَالَۃِ، فَاقْتَضَتْ حِکْمَۃُ اللَّہِ أَنْ جَمَعَ لَہُمْ بَیْنَ الْأَمْرَیْنِ لِیَتَمَیَّزَ مَنْ یَتَّبِعُہُمْ وَیُطِیعُہُمْ لِلْحَقَّ، وَمَا جَاء ُوا بِہِ مِمّنْ یَتَّبِعُہُمْ عَلَی الظُّہُورِ وَالْغَلَبَۃِ خَاصَّۃً.
ترجمہ :اللہ تعالی کی اپنے انبیاء کرام اوررسل عظام علیہم السلام اوران کے متبعین کے بارے میں سنت اورحکمت جاری ہے کہ کبھی وہ غالب آجاتے ہیں اورکبھی مغلوب ہوجاتے ہیں لیکن انجام کارکامیابی انہیں کو ملتی ہے کیونکہ اگروہ ہمیشہ غالب رہیں توان کے ساتھ مومن اورغیرمومن دونوں شامل ہوجائیں اورصادق اورکاذب کے درمیان تمیز نہ ہواوراگروہ ہمیشہ مغلوب ہوں تواس سے بعثت اوررسالت کامقصد فوت ہوجائے گا، بس اللہ تعالی کی حکمت کاتقاضہ یہ ہواکہ اللہ تعالی نے دونوں امروں کو جمع فرمادیاتاکہ حق کی وجہ سے پیروی اختیارکرنے والوں اورصرف غلبہ اورشان وشوکت کی وجہ سے پیروی کرنے والوں کے درمیان فرق ہوجائے ۔
تیسری حکمت
وَمِنْہَا: أَنّ ہَذَا مِنْ أَعْلَامِ الرُّسُلِ کَمَا قَالَ ہرقل لأبی سفیان:(ہَلْ قَاتَلْتُمُوہُ؟قَالَ:نَعَمْ،قَالَ:کَیْفَ الْحَرْبُ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَہُ؟ قَالَ:سِجَالٌ یُدَالُ عَلَیْنَا الْمَرَّۃَ، وَنُدَالُ عَلَیْہِ الْأُخْرَی،قَالَ:کَذَلِکَ الرُّسُلُ تُبْتَلَی،ثُمَّ تَکُونُ لَہُمُ الْعَاقِبَۃُ۔
ترجمہ :اوریہ انبیاء کرام علیہم السلام کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے جیساکہ ہرقل نے ابوسفیان سے کہاتھا: کیاکبھی تم نے محمد(ﷺ) سے جنگ کی ؟ ابوسفیان نے کہاکہ ہاں۔ ہرقل نے کہا: ان کے اور تمھارے درمیان جنگ کیسی رہی؟ ابوسفیان نے کہاکہ برابربرابر۔ کبھی وہ غالب آجاتے ہیں توکبھی ہم غالب آجاتے ہیں۔ ہرقل نے کہاکہ اسی طرح اللہ تعالی انبیاء کرام علیہم السلام کو آزماتاہے ، پھرآخرمیں غلبہ انہیں کاہوتاہے ۔
چوتھی حکمت
وَمِنْہَا:أَنْ یَتَمَیَّزَ الْمُؤْمِنُ الصّادِقُ مِنَ الْمُنَافِقِ الْکَاذِبِ،فَإِنَّ الْمُسْلِمِینَ لَمَّا أَظْہَرَہُمُ اللَّہُ عَلَی أَعْدَائِہِمْ یَوْمَ بَدْرٍ، وَطَارَ لَہُمُ الصِّیتُ دَخَلَ مَعَہُمْ فِی الْإِسْلَامِ ظَاہِرًا مَنْ لَیْسَ مَعَہُمْ فِیہِ بَاطِنًا،فَاقْتَضَتْ حِکْمَۃُ اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ سَبَّبَ لِعِبَادِہِ مِحْنَۃً مَیَّزَتْ بَیْنَ الْمُؤْمِنِ وَالْمُنَافِقِ، فَأَطْلَعَ الْمُنَافِقُونَ رُء ُوسَہُمْ فِی ہَذِہِ الْغَزْوَۃِ، وَتَکَلَّمُوا بِمَا کَانُوا یَکْتُمُونَہُ،وَظَہَرَتْ مُخَبَّآتُہُمْ، وَعَادَ تَلْوِیحُہُمْ تَصْرِیحًا،وَانْقَسَمَ النَّاسُ إِلَی کَافِرٍ وَمُؤْمِنٍ وَمُنَافِقٍ انْقِسَامًا ظَاہِرًا،وَعَرَفَ الْمُؤْمِنُونَ أَنَّ لَہُمْ عَدُوًّا فِی نَفْسِ دُورِہِمْ،وَہُمْ مَعَہُمْ لَا یُفَارِقُونَہُمْ، فَاسْتَعَدُّوا لَہُمْ، وَتَحَرَّزُوا مِنْہُمْ قَالَ اللَّہُ تَعَالَی:(مَا کَانَ اللَّہُ لِیَذَرَ الْمُؤْمِنِینَ عَلَی مَا أَنْتُمْ عَلَیْہِ حَتَّی یَمِیزَ الْخَبِیثَ مِنَ الطَّیِّبِ وَمَا کَانَ اللَّہُ لِیُطْلِعَکُمْ عَلَی الْغَیْبِ وَلَکِنَّ اللَّہَ یَجْتَبِی مِنْ رُسُلِہِ مَنْ یَشَائُ)(آل عمران: ۱۷۹)أَیْ مَا کَانَ اللَّہُ لِیَذَرَکُمْ عَلَی مَا أَنْتُمْ عَلَیْہِ مِنَ الْتِبَاسِ الْمُؤْمِنِینَ بِالْمُنَافِقِینَ حَتَّی یَمِیزَ أَہْلَ الْإِیمَانِ مِنْ أَہْلِ النِّفَاقِ کَمَا مَیَّزَہُمْ بِالْمِحْنَۃِ یَوْمَ أُحُدٍ (وَمَا کَانَ اللَّہُ لِیُطْلِعَکُمْ عَلَی الْغَیْبِ)(آل عمران:۱۷۹)الَّذِی یَمِیزُ بِہِ بَیْنَ ہَؤُلَاء ِ وَہَؤُلَاء ِ،فَإِنَّہُمْ مُتَمَیِّزُونَ فِی غَیْبِہِ وَعِلْمِہِ وَہُوَ سُبْحَانَہُ یُرِیدُ أَنْ یَمِیزَہُمْ تَمْیِیزًا مَشْہُودًا فَیَقَعُ مَعْلُومُہُ الَّذِی ہُوَ غَیْبٌ شَہَادَۃًوَقَوْلُہُ:(وَلَکِنَّ اللَّہَ یَجْتَبِی مِنْ رُسُلِہِ مَنْ یَشَاء ُ)(آل عمران: ۱۷۹)اسْتِدْرَاکٌ لِمَا نَفَاہُ مِنَ اطِّلَاعِ خَلْقِہِ عَلَی الْغَیْبِ سِوَی الرُّسُلِ،فَإِنَّہُ یُطْلِعُہُمْ عَلَی مَا یَشَاء ُ مِنْ غَیْبِہِ کَمَا قَالَ: (عَالِمُ الْغَیْبِ فَلَا یُظْہِرُ عَلَی غَیْبِہِ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَی مِنْ رَسُولٍ)(الجن:۲۶)(الْجِنِّ: ۲۷)فَحَظُّکُمْ أَنْتُمْ وَسَعَادَتُکُمْ فِی الْإِیمَانِ بِالْغَیْبِ الَّذِی یُطْلِعُ عَلَیْہِ رُسُلَہُ فَإِنْ آمَنْتُمْ بِہِ وَأَیْقَنْتُمْ فَلَکُمْ أَعْظَمُ الْأَجْرِ وَالْکَرَامَۃِ.
ترجمہ :تاکہ صادق اورکاذب اورمومن اورمنافق کے درمیان امتیاز ہوجائے کیونکہ جب اللہ تعالی نے بدرمیں اہل اسلام کو کفارپرغلبہ عطافرمایااوران کی شہرت ہوگئی تویہ صورتحال دیکھ کر ان کے ساتھ بہت سے لوگ ظاہری طورپراسلام میں داخل ہوگئے ۔ حالانکہ وہ پوشیدہ طورپر مسلمان نہ تھے تواللہ تعالی کی حکمت کاتقاضہ یہ ہواکہ اپنے بندوں سے آزمائش کے ذریعے امتحان لے ، جس سے مومن اورمنافق جداجداہو جائیں ۔ چنانچہ منافقین نے اس غزوہ میں سراٹھایااورجو کچھ وہ اپنے سینوں میں چھپائے ہوئے تھے اسے اگل دیااوراپنی پوشیدہ دشمنی کو ظاہرکردیااوران کاخفیہ معاملہ ظاہرہوگیااورلوگ تین گروہوں میں منقسم ہوگئے ۔ کافر، مومن اورمنافق ۔ اوراہل ایمان کو اس بات کاعلم ہوگیاکہ ان کے اپنے گھروں میں بعض ان کے دشمن ہیں اوروہ ان سے جدانہیں ہوتے ، اس لئے وہ ان سے بھی محتاط ہوگئے اوران سے گریزکرنے لگے ۔
اللہ تعالی کافرمان عالی شان ہے
{مَا کَانَ اللہُ لِیَذَرَ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلٰی مَآ اَنْتُمْ عَلَیْہِ حَتّٰی یَمِیْزَ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ وَمَا کَانَ اللہُ لِیُطْلِعَکُمْ عَلَی الْغَیْبِ وَلٰکِنَّ اللہَ یَجْتَبِیْ مِنْ رُّسُلِہٖ مَنْ یَّشَآء ُ فَاٰمِنُوْا بِاللہِ وَرُسُلِہٖ وَ اِنْ تُؤْمِنُوْا وَتَتَّقُوْا فَلَکُمْ اَجْرٌ عَظِیْمٌ }(سورۃ آل عمران : ۱۷۹)
ترجمہ کنزالایمان:اللہ مسلمانوں کو اس حال پر چھوڑنے کا نہیں جس پر تم ہو جب تک جدا نہ کردے گندے کو ستھرے سے اور اللہ کی شان یہ نہیں اے عام لوگو !تمہیں غیب کا علم دے دے ہاں اللہ چُن لیتا ہے اپنے رسولوں سے جسے چاہے تو ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسولوں پر اور اگر ایمان لاؤ اور پرہیزگاری کرو تو تمہارے لئے بڑا ثواب ہے۔
یعنی اللہ تعالی تمھیںتمھاری اس حالت پرچھوڑنے والانہیں کہ مومن منافقین کے ساتھ ملے جلے رہیں ،یہاں تک کہ اہل ایمان کو اہل نفاق سے جداکردے جیساکہ اللہ تعالی نے احدشریف کے دن آزمائش سے انہیں جداکردیااورواضح طورپرمنافقین کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے جداکردیا۔
پانچویں حکمت
وَمِنْہَا:اسْتِخْرَاجُ عُبُودِیَّۃِ أَوْلِیَائِہِ وَحِزْبِہِ فِی السَّرَّاء ِ وَالضَّرَّاء ِ،وَفِیمَا یُحِبُّونَ وَمَا یَکْرَہُونَ،وَفِی حَالِ ظَفَرِہِمْ وَظَفَرِ أَعْدَائِہِمْ بِہِمْ،فَإِذَا ثَبَتُوا عَلَی الطَّاعَۃِ وَالْعُبُودِیَّۃِ فِیمَا یُحِبُّونَ وَمَا یَکْرَہُونَ فَہُمْ عَبِیدُہُ حَقًّا، وَلَیْسُوا کَمَنْ یَعْبُدُ اللَّہَ عَلَی حَرْفٍ وَاحِدٍ مِنَ السَّرَّاء ِ وَالنِّعْمَۃِ وَالْعَافِیَۃِ.
ترجمہ :اللہ تعالی نے اپنے نیک بندوںاوراپنی جماعت کی طرف سے خوشی اوررنج ، پسندیدہ وناپسندیدہ ، کامیابی اورناکامی ہرحال میں اپنی بندگی کااظہارکروایا، جب وہ اپنی پسنداورناپسنددونوں حالتوں میں بندگی اوراطاعت پرجمے رہے تویہی حقیقی طورپراللہ تعالی کے بندے کہلانے کے لائق ہوئے اوران کاحال ان کی مانندنہ ہواجو صرف خوشی ، نعمت اورعافیت کی حالت میں اللہ تعالی کی عبادت اوربندگی کرتے ہیں ۔
چھٹی حکمت
وَمِنْہَا:أَنَّہُ سُبْحَانَہُ لَوْ نَصَرَہُمْ دَائِمًا،وَأَظْفَرَہُمْ بِعَدُوِّہِمْ فِی کُلِّ مَوْطِنٍ،وَجَعَلَ لَہُمُ التَّمْکِینَ وَالْقَہْرَ لِأَعْدَائِہِمْ أَبَدًا لَطَغَتْ نُفُوسُہُمْ،وَشَمَخَتْ وَارْتَفَعَتْ،فَلَوْ بَسَطَ لَہُمُ النَّصْرَ وَالظَّفَرَ لَکَانُوافِی الْحَالِ الَّتِی یَکُونُونَ فِیہَا لَوْ بَسَطَ لَہُمُ الرِّزْقَ، فَلَا یُصْلِحُ عِبَادَہُ إلَّا السَّرَّاء ُ وَالضَّرَّاء ُ،وَالشِّدَّۃُ وَالرَّخَاء ُ،وَالْقَبْضُ وَالْبَسْطُ،فَہُوَ الْمُدَبِّرُ لِأَمْرِ عِبَادِہِ کَمَا یَلِیقُ بِحِکْمَتِہِ، إنَّہُ بِہِمْ خَبِیرٌ بَصِیرٌ.
ترجمہ :اگراللہ تعالی ہمیشہ اہل اسلام کی نصرت فرماتااوران کو ہرموقع پر دشمنوں پرفتح سے نوازتااوردشمنوں کو ان کے سامنے مغلوب اورمقہورکرتاتوان کے نفوس میں سرکشی پیداہوجاتی اورفخرآجاتااوراگراللہ تعالی ان کے لئے نصرت اورفتح میں کشادگی عطافرمادیتاتویہ اسی حال کی طرف چلے جاتے ، اگراللہ تعالی ان کے لئے رزق میں کشادگی پیدافرمادیتاتو زمین میں فساد برپاہوجاتا۔ پس اللہ تعالی کے بندوں کی مصلحت اس میںٹھہری ہوان کوخوشی اوررنج ، تنگی اورخوشحالی اورقبض وبسط دونوں طرح کے احوال میں رکھاجائے اوراللہ تعالی ہی اپنے بندوں کے امورکامدبرہے اوروہ ان سے باخبراوران کو دیکھنے والاہے ۔
ساتویں حکمت
وَمِنْہَا: أَنَّہُ إذَا امْتَحَنَہُمْ بِالْغَلَبَۃِ وَالْکَسْرَۃِ وَالْہَزِیمَۃِ ذَلُّوا وَانْکَسَرُوا وَخَضَعُوا، فَاسْتَوْجَبُوا مِنْہُ الْعِزَّ وَالنَّصْرَ، فَإِنَّ خُلْعَۃَ النَّصْرِ إنَّمَا تَکُونُ مَعَ وِلَایَۃِ الذُّلِّ وَالِانْکِسَارِ،قَالَ تَعَالَی(وَلَقَدْ نَصَرَکُمُ اللَّہُ بِبَدْرٍ وَأَنْتُمْ أَذِلَّۃٌ)(آل عمران:۱۲۳)وَقَالَ:(وَیَوْمَ حُنَیْنٍ إِذْ أَعْجَبَتْکُمْ کَثْرَتُکُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْکُمْ شَیْئًا)(التوبۃ:۲۵)فَہُوَ سُبْحَانَہُ إذَا أَرَادَ أَنْ یُعِزَّ عَبْدَہُ وَیَجْبُرَہُ وَیَنْصُرَہُ کَسَرَہُ أَوَّلًا،وَیَکُونُ جَبْرُہُ لَہُ وَنَصْرُہُ عَلَی مِقْدَارِ ذُلِّہِ وَانْکِسَارِہِ۔
ترجمہ :جب اللہ تعالی نے ان کو ظاہری شکست ، مغلوبیت ، مصیبت سے آزمائش میں مبتلاء کیاتو ان میں تذلل ،عاجزی اورخضوع پیداہوگیاجس کے باعث یہ عزت ونصرت کے مستحق ہوگئے کیونکہ فتح ونصرت کی خلعت سے اسی وقت نوازاجاتاہے جب کہ تذلل اورانکساری کاحصول ہوجائے ۔
چنانچہ اللہ تعالی کافرمان عالی شان ہے
{وَلَقَدْ نَصَرَکُمُ اللہُ بِبَدْرٍ وَّاَنْتُمْ اَذِلَّۃٌ فَاتَّقُوا اللہَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ}(سورۃ آل عمران: ۱۲۳)
ترجمہ کنزالایمان : اور بے شک اللہ نے بدر میں تمہاری مدد کی جب تم بالکل بے سرو سامان تھے تو اللہ سے ڈرو کہ کہیں تم شکر گذار ہو۔
اوراللہ تعالی کافرمان عالی شان ہے
لَقَدْ نَصَرَکُمُ اللہُ فِیْ مَوَاطِنَ کَثِیْرَۃٍ وَّیَوْمَ حُنَیْنٍ اِذْ اَعْجَبَتْکُمْ کَثْرَتُکُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْکُمْ شَیْـًا وَّضَاقَتْ عَلَیْکُمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّیْتُمْ مُّدْبِرِیْنَ}(سورۃ التوبہ : ۲۵)
ترجمہ کنزالایمان:بیشک اللہ نے بہت جگہ تمہاری مدد کی اور حُنین کے دن جب تم اپنی کثرت پر اترا گئے تھے تو وہ تمہارے کچھ کام نہ آئی اور زمین اتنی وسیع ہوکر تم پر تنگ ہوگئی پھر تم پیٹھ دے کر پھرگئے ۔
پس اللہ تعالی جب اپنے بندے کو عزت سے نوازنے کاارادہ فرماتاہے اوراس کو نصرت اورفتح عطافرماناچاہتاہے تو اس کی عزت ونصرت اورفتح اس کے تذلل اورانکساری کے بقدرہوتی ہے ۔
آٹھویں حکمت
وَمِنْہَا:أَنَّہُ سُبْحَانَہُ ہَیَّأَ لِعِبَادِہِ الْمُؤْمِنِینَ مَنَازِلَ فِی دَارِکَرَامَتِہِ لَمْ تَبْلُغْہَا أَعْمَالُہُمْ،وَلَمْ یَکُونُوا بَالِغِیہَا إلَّا بِالْبَلَاء ِوَالْمِحْنَۃِ،فَقَیَّضَ لَہُمُ الْأَسْبَابَ الَّتِی تُوصِلُہُمْ إِلَیْہَامِنَ ابْتِلَائِہِ وَامْتِحَانِہِ،کَمَا وَفَّقَہُمْ لِلْأَعْمَالِ الصَّالِحَۃِ الَّتِی ہِیَ مِنْ جُمْلَۃِ أَسْبَابِ وُصُولِہِمْ إِلَیْہَا.
ترجمہ :اللہ تعالی نے اپنے اہل ایمان بندوں کے لئے اپنے عزت واکرام کے گھرجنت میں منازل تیارکررکھی ہیں ، جن تک وہ صرف اپنے اعمال کے ذریعے نہیں پہنچ سکتے اوران درجات تک وہ ابتلاء اورآزمائش اورمصائب کے ذریعے ہی پہنچ سکتے ہیں ،اس لئے اللہ تعالی نے ان کے لئے ایسے اسباب کاسامان پیدافرمادیاجن میں ابتلاء وآزمائش کے ذریعے وہ ان درجات تک پہنچ سکیں جیساکہ اعمال صالحہ جوان درجات تک پہنچانے کے اسباب میں سے ہیں، ان کی توفیق بھی اللہ تعالی نے ہی مرحمت فرمائی۔
نویں حکمت
وَمِنْہَا:أَنَّ النُّفُوسَ تَکْتَسِبُ مِنَ الْعَافِیَۃِ الدَّائِمَۃِ وَالنَّصْرِ وَالْغِنَی طُغْیَانًا وَرُکُونًا إِلَی الْعَاجِلَۃِ، وَذَلِکَ مَرَضٌ یَعُوقُہَاعَنْ جِدِّہَا فِی سَیْرِہَاإِلَی اللَّہِ وَالدَّارِ الْآخِرَۃِ،فَإِذَا أَرَادَ بِہَا رَبُّہَا وَمَالِکُہَاوَرَاحِمُہَا کَرَامَتَہُ قَیَّضَ لَہَا مِنَ الِابْتِلَاء وَالِامْتِحَانِ مَا یَکُونُ دَوَاء ً لِذَلِکَ الْمَرَضِ الْعَائِقِ عَنِ السَّیْرِ الْحَثِیثِ إِلَیْہِ،فَیَکُونُ ذَلِکَ الْبَلَاء ُ وَالْمِحْنَۃُ بِمَنْزِلَۃِ الطَّبِیبِ یَسْقِی الْعَلِیلَ الدَّوَاء الْکَرِیہَ،وَیَقْطَعُ مِنْہُ الْعُرُوقَ الْمُؤْلِمَۃَ لِاسْتِخْرَاجِ الْأَدْوَاء ِ مِنْہُ، وَلَوْ تَرَکَہُ لَغَلَبَتْہُ الْأَدْوَاء ُحَتَّی یَکُونَ فِیہَا ہَلَاکُہُ.
ترجمہ :دائمی عافیت ، نصرت اورمال داری سے نفوس میں سرکشی اوردنیاکی طرف میلان پیداہوجاتاہے اوریہ ایسامرض ہے جواللہ تعالی کی طرف اورآخرت کی طرف بڑھنے سے رکاوٹ بنتاہے ، چونکہ اللہ تعالی نے جوان بندوں کارب اورمالک ہے اوران پراپنے فضل کاارادہ کیاتوانہیں ابتلاء اورآزمائش میں مبتلاء کردیاتاکہ وہ اس رکاوٹ بننے والے مرض کے لئے دوابن جائے اوریہ ابتلاء اورآزمائش کی مثال ایسے ہے جیسے طبیب بیمارکو بیماری زائل کرنے کے لئے کڑوی دوادیتاہے اورتکلیف دہ رگوں کو بیماریاں ختم کرنے کے لئے کاٹ دیتاہے اوراگروہ ایسانہ کرے توان رگوں اوربیماریوں کی وجہ سے مریض کی جان جاسکتی ہے ۔
دسویں حکمت
وَمِنْہَا:أَنَّ الشَّہَادَۃَ عِنْدَہُ مِنْ أَعْلَی مَرَاتِبِ أَوْلِیَائِہِ،وَالشُّہَدَاء ُہُمْ خَوَاصُّہُ وَالْمُقَرَّبُونَ مِنْ عِبَادِہِ، وَلَیْسَ بَعْدَ دَرَجَۃِ الصِّدِّیقِیَّۃِ إلَّا الشَّہَادَۃُ،وَہُوَ سُبْحَانَہُ یُحِبُّ أَنْ یَتَّخِذَ مِنْ عِبَادِہِ شُہَدَاء تُرَاقُ دِمَاؤُہُمْ فِی مَحَبَّتِہِ وَمَرْضَاتِہِ،وَیُؤْثِرُونَ رِضَاہُ وَمَحَابَّہُ عَلَی نُفُوسِہِمْ،وَلَا سَبِیلَ إِلَی نَیْلِ ہَذِہِ الدَّرَجَۃِ إلَّا بِتَقْدِیرِ الْأَسْبَابِ الْمُفْضِیَۃِ إِلَیْہَا مِنْ تَسْلِیطِ الْعَدُوِّ.
ترجمہ :شہادت اللہ تعالی کے ہاں اعلی مراتب میں سے ہے اورشہداء اللہ تعالی کے خواص اوراس کے مقربین شمار ہوتے ہیں اورصدیقیت کے درجہ کے بعد شہادت ہی کادرجہ ہے اوراللہ تعالی یہ بات پسندفرماتاہے کہ اپنے بندوں میں بعض کو شہداء کادرجہ عطافرمائے ، ان کے خون اللہ تعالی کی محبت اوراس کی رضامیں بہائے جائیں اوروہ اللہ تعالی کی رضااورخوشنودگی کواپنی جانوں پر ترجیح دیں اوراس درجہ کے حصول کاطریقہ یہی ہوسکتاہے کہ ایسے اسباب پیداکردیں جس سے دشمن مسلط ہوجائے ۔
گیارہویں حکمت
وَمِنْہَا:أَنَّ اللَّہَ سُبْحَانَہُ إذَا أَرَادَ أَنْ یُہْلِکَ أَعْدَاء َہُ وَیَمْحَقَہُمْ قَیَّضَ لَہُمُ الْأَسْبَابَ الَّتِی یَسْتَوْجِبُونَ بِہَا ہَلَاکَہُمْ وَمَحْقَہُمْ،وَمِنْ أَعْظَمِہَا بَعْدَ کُفْرِہِمْ بَغْیُہُمْ وَطُغْیَانُہُمْ،وَمُبَالَغَتُہُمْ فِی أَذَی أَوْلِیَائِہِ،وَمُحَارَبَتِہِمْ وَقِتَالِہِمْ وَالتَّسَلُّطِ عَلَیْہِمْ، فَیَتَمَحَّصُ بِذَلِکَ أَوْلِیَاؤُہُ مِنْ ذُنُوبِہِمْ وَعُیُوبِہِمْ،وَیَزْدَادُ بِذَلِکَ أَعْدَاؤُہُ مِنْ أَسْبَابِ مَحْقِہِمْ وَہَلَاکِہِمْ،وَقَدْ ذَکَرَ سُبْحَانَہُ وَتَعَالَی ذَلِکَ فِی قَوْلِہِ:(وَلَا تَہِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِینَ إِنْ یَمْسَسْکُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِثْلُہُ وَتِلْکَ الْأَیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیْنَ النَّاسِ وَلِیَعْلَمَ اللَّہُ الَّذِینَ آمَنُوا وَیَتَّخِذَ مِنْکُمْ شُہَدَاء َوَاللَّہُ لَا یُحِبُّ الظَّالِمِینَ وَلِیُمَحِّصَ اللَّہُ الَّذِینَ آمَنُوا وَیَمْحَقَ الْکَافِرِینَ)(آل عمران: ۱۳۹،۱۴۱) فَجَمَعَ لَہُمْ فِی ہَذَا الْخِطَابِ بَیْنَ تَشْجِیعِہِمْ وَتَقْوِیَۃِ نُفُوسِہِمْ وَإِحْیَاء ِ عَزَائِمِہِمْ وَہِمَمِہِمْ، وَبَیْنَ حُسْنِ التَّسْلِیَۃِ، وَذِکْرِ الْحِکَمِ الْبَاہِرَۃِ الَّتِی اقْتَضَتْ إدَالَۃَ الْکُفَّارِ عَلَیْہِمْ فَقَالَ:(إِنْ یَمْسَسْکُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِثْلُہُ)(آل عمران:۱۴۰)، فَقَدِ اسْتَوَیْتُمْ فِی الْقَرْحِ وَالْأَلَمِ، وَتَبَایَنْتُمْ فِی الرَّجَاء ِ وَالثَّوَابِ، کَمَا قَالَ:(إِنْ تَکُونُوا تَأْلَمُونَ فَإِنَّہُمْ یَأْلَمُونَ کَمَا تَأْلَمُونَ وَتَرْجُونَ مِنَ اللَّہِ مَا لَا یَرْجُونَ)(النساء :۱۰۴)فَمَا بَالُکُمْ تَہِنُونَ وَتَضْعُفُونَ عِنْدَ الْقَرْحِ وَالْأَلَمِ،فَقَدْ أَصَابَہُمْ ذَلِکَ فِی سَبِیلِ الشَّیْطَانِ،وَأَنْتُمْ أُصِبْتُمْ فِی سَبِیلِی وَابْتِغَاء ِ مَرْضَاتِی ثُمَّ أَخْبَرَ أَنَّہُ یُدَاوِلُ أَیَّامَ ہَذِہِ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا بَیْنَ النَّاسِ، وَأَنَّہَا عَرَضٌ حَاضِرٌ،یُقَسِّمُہَا دُوَلًا بَیْنَ أَوْلِیَائِہِ وَأَعْدَائِہِ، بِخِلَافِ الْآخِرَۃِ،فَإِنَّ عِزَّہَا وَنَصْرَہَا وَرَجَاء َہَا خَالِصٌ لِلَّذِینَ آمَنُواثُمّ ذَکَرَ حِکْمَۃً أُخْرَی،وَہِیَ أَنْ یَتَمَیَّزَ الْمُؤْمِنُونَ مِنَ الْمُنَافِقِینَ فَیَعْلَمُہُمْ عِلْمَ رُؤْیَۃٍ وَمُشَاہَدَۃٍ بَعْدَ أَنْ کَانُوا مَعْلُومِینَ فِی غَیْبِہِ،وَذَلِکَ الْعِلْمُ الْغَیْبِیُّ لَا یَتَرَتَّبُ عَلَیْہِ ثَوَابٌ وَلَا عِقَابٌ، وَإِنَّمَا یَتَرَتَّبُ الثَّوَابُ وَالْعِقَابُ عَلَی الْمَعْلُومِ إذَا صَارَ مُشَاہَدًا وَاقِعًا فِی الْحِسّ ثُمّ ذَکَرَ حِکْمَۃً أُخْرَی، وَہِی اتِّخَاذُہُ سُبْحَانَہُ مِنْہُمْ شُہَدَاء َ،فَإِنَّہُ یُحِبُّ الشُّہَدَاء َمِنْ عِبَادِہِ،وَقَدْ أَعَدَّ لَہُمْ أَعْلَی الْمَنَازِلِ وَأَفْضَلَہَا، وَقَدِ اتَّخَذَہُمْ لِنَفْسِہِ، فَلَا بُدَّ أَنْ یُنِیلَہُمْ دَرَجَۃَ الشَّہَادَۃِ وَقَوْلُہُ:(وَاللَّہُ لَا یُحِبُّ الظَّالِمِینَ)(آل عمران: ۱۴۰) تَنْبِیہٌ لَطِیفُ الْمَوْقِعِ جِدًّا عَلَی کَرَاہَتِہِ وَبُغْضِہِ لِلْمُنَافِقِینَ الَّذِینَ انْخَذَلُواعَنْ نَبِیِّہِ یَوْمَ أُحُدٍ فَلَمْ یَشْہَدُوہُ وَلَمْ یَتَّخِذْ مِنْہُمْ شُہَدَاء َ،لِأَنَّہُ لَمْ یُحِبَّہُمْ فَأَرْکَسَہُمْ وَرَدَّہُمْ لِیَحْرِمَہُمْ مَا خَصَّ بِہِ الْمُؤْمِنِینَ فِی ذَلِکَ الْیَوْمِ، وَمَا أَعْطَاہُ مَنِ اسْتُشْہِدَ مِنْہُمْ، فَثَبَّطَ ہَؤُلَاء ِ الظَّالِمِینَ عَنِ الْأَسْبَابِ الَّتِی وَفَّقَ لَہَا أَوْلِیَاء َہُ وَحِزْبَہُ ثُمّ ذَکَرَ حِکْمَۃً أُخْرَی فِیمَا أَصَابَہُمْ ذَلِکَ الْیَوْمَ، وَہُوَ تَمْحِیصُ الَّذِینَ آمَنُوا،وَہُوَ تَنْقِیَتُہُمْ وَتَخْلِیصُہُمْ مِنَ الذُّنُوبِ، وَمِنْ آفَاتِ النُّفُوسِ، وَأَیْضًا فَإِنَّہُ خَلَّصَہُمْ،وَمَحَّصَہُمْ مِنَ الْمُنَافِقِینَ، فَتَمَیَّزُوا مِنْہُمْ، فَحَصَلَ لَہُمْ تَمْحِیصَانِ: تَمْحِیصٌ مِنْ نُفُوسِہِمْ،وَتَمْحِیصٌ مِمَّنْ کَانَ یُظْہِرُ أَنَّہُ مِنْہُمْ وَہُوَ عَدُوُّہُمْ.ثُمّ ذَکَرَ حِکْمَۃً أُخْرَی وَہِی مَحْقُ الْکَافِرِینَ بِطُغْیَانِہِمْ وَبَغْیِہِمْ وَعُدْوَانِہِمْ، ثُمَّ أَنْکَرَ عَلَیْہِمْ حُسْبَانَہُمْ وَظَنَّہُمْ أَنْ یَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ بِدُونِ الْجِہَادِ فِی سَبِیلِہِ وَالصَّبْرِ عَلَی أَذَی أَعْدَائِہِ، وَإِنَّ ہَذَا مُمْتَنِعٌ بِحَیْثُ یُنْکَرُ عَلَی مَنْ ظَنَّہُ وَحَسِبَہُ فَقَالَ:(أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَعْلَمِ اللَّہُ الَّذِینَ جَاہَدُوا مِنْکُمْ وَیَعْلَمَ الصَّابِرِینَ)(آل عمران:۱۴۲) أَیْ وَلَمَّا یَقَعْ ذَلِکَ مِنْکُمْ فَیَعْلَمُہُ، فَإِنَّہُ لَوْ وَقَعَ لَعَلِمَہُ فَجَازَاکُمْ عَلَیْہِ بِالْجَنَّۃِ، فَیَکُونُ الْجَزَاء ُ عَلَی الْوَاقِعِ الْمَعْلُومِ، لَا عَلَی مُجَرَّدِ الْعِلْمِ، فَإِنَّ اللَّہَ لَا یَجْزِی الْعَبْدَ عَلَی مُجَرَّدِ عِلْمِہِ فِیہِ دُونَ أَنْ یَقَعَ مَعْلُومُہُ، ثُمَّ وَبَّخَہُمْ عَلَی ہَزِیمَتِہِمْ مِنْ أَمْرٍ کَانُوا یَتَمَنَّوْنَہُ وَیَوَدُّونَ لِقَاء َہُ فَقَالَ:(وَلَقَدْ کُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْہُ فَقَدْ رَأَیْتُمُوہُ وَأَنْتُمْ تَنْظُرُونَ)(آل عمران:۱۴۳)قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:وَلَمَّا أَخْبَرَہُمُ اللَّہُ تَعَالَی عَلَی لِسَانِ نَبِیِّہِ بِمَا فَعَلَ بِشُہَدَاء ِ بَدْرٍ مِنَ الْکَرَامَۃِ رَغِبُوا فِی الشَّہَادَۃِ، فَتَمَنَّوْا قِتَالًا یَسْتَشْہِدُونَ فِیہِ، فَیَلْحَقُونَ إخْوَانَہُمْ، فَأَرَاہُمُ اللَّہُ ذَلِکَ یَوْمَ أُحُدٍ وَسَبَّبَہُ لَہُمْ، فَلَمْ یَلْبَثُوا أَنِ انْہَزَمُوا إلَّا مَنْ شَاء َ اللَّہُ مِنْہُمْ، فَأَنْزَلَ اللَّہُ تَعَالَی:(وَلَقَدْ کُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْہُ فَقَدْ رَأَیْتُمُوہُ وَأَنْتُمْ تَنْظُرُونَ)(آل عمران: ۱۴۳)۔
ترجمہ :جب اللہ تعالی نے ارادہ فرمایاکہ اس کے دشمن ہلاک ہوجائیں توان کی ہلاکت اورتباہی کے اسباب پیدافرمائے اورکفرکے بعد اس کے بڑے بڑے اسباب یہ تھے : ان کی سرکشی ، ظلم وستم ، اللہ تعالی کے اولیاء کرام کوتکالیف پہنچانے کی پوری کوشش کرنا، ان سے جنگ وقتال کرنااوران پر غلبہ پالینا، ان اسباب کی وجہ سے اللہ تعالی کے اولیاء کرام گناہوں اورعیوب سے صاف ہوگئے اوران کے دشمن ہلاکت اوربربادی کے اورزیادہ مستحق ہوگئے ۔ اللہ تعالی نے اسے ان آیات کریمہ میں ذکرفرمایاہے ۔
{وَلَا تَہِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ}{اِنْ یَّمْسَسْکُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُہ وَتِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیْنَ النَّاسِ وَلِیَعْلَمَ اللہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَیَتَّخِذَ مِنْکُمْ شُہَدَآء َ وَاللہُ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ}{وَ لِیُمَحِّصَ اللہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ یَمْحَقَ الْکٰفِرِیْنَ}(سورۃ آل عمران :۱۳۹،۱۴۰م۱۴۱)
ترجمہ کنزالایمان : اور نہ سستی کرو اور نہ غم کھاؤ تم غالب آؤ گے اگر ایمان رکھتے ہو اگر تمہیں کوئی تکلیف پہنچی تو وہ لوگ بھی ویسی ہی تکلیف پاچکے ہیںاور یہ دن ہیں جن میں ہم نے لوگوں کے لئے باریاں رکھی ہیں اور اس لئے کہ اللہ پہچان کرادے ایمان والوں کی اور تم میں سے کچھ لوگوں کو شہادت کا مرتبہ دے اور اللہ دوست نہیں رکھتا ظالموں کو اور اس لئے کہ اللہ مسلمانوں کا نکھار کردے اور کافروں کو مٹا دے ۔
اللہ تعالی نے اس خطاب میں اہل ایمان کو جرات ودلیری ، مضبوطی عزائم کی پختگی کی ترغیب بھی دی اورنہایت ہی بلیغ اوراحسن انداز میں تسلی بھی دی اورکفارکے غلبہ میں جواللہ تعالی کی حکمتیں پوشیدہ تھیں ان کو بھی ذکرفرمایا، چنانچہ ارشادفرمایا:
{اِنْ یَّمْسَسْکُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُہ وَتِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیْنَ النَّاسِ وَلِیَعْلَمَ اللہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَیَتَّخِذَ مِنْکُمْ شُہَدَآء َ وَاللہُ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ}( سورۃ آل عمران : ۱۴۰)
ترجمہ کنزالایمان: اگر تمہیں کوئی تکلیف پہنچی تو وہ لوگ بھی ویسی ہی تکلیف پاچکے ہیںاور یہ دن ہیں جن میں ہم نے لوگوں کے لئے باریاں رکھی ہیں اور اس لئے کہ اللہ پہچان کرادے ایمان والوں کی اور تم میں سے کچھ لوگوں کو شہادت کا مرتبہ دے
کہ تم زخموں کے آنے اورتکالیف پہنچنے میں ان کے ساتھ برابرہواوراجروثواب کی امیدمیں ان سے جداہو۔
جیساکہ اللہ تعالی کافرمان عالی شان ہے
{وَلَا تَہِنُوْا فِی ابْتِغَآء ِ الْقَوْمِ اِنْ تَکُوْنُوْا تَاْلَمُوْنَ فَاِنَّہُمْ یَاْ لَمُوْنَ کَمَا تَاْلَمُوْنَ وَتَرْجُوْنَ مِنَ اللہِ مَا لَا یَرْجُوْنَ وَکَانَ اللہُ عَلِیْمًا حَکِیْمًا }( سورۃ النساء : ۱۰۴)
ترجمہ کنزالایمان:اور کافروں کی تلاش میں سستی نہ کرو اگر تمہیں دکھ پہنچتا ہے تو انہیں بھی دکھ پہنچتا ہے جیسا تمہیں پہنچتا ہے اور تم اللہ سے وہ امید رکھتے ہو جو وہ نہیں رکھتے اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔
توپھرتمھیں کیاہواکہ تم رنج وتکلیف میں کمزورپڑتے ہواورہمت ہارتے ہو، حالانکہ انہیں یہ تکلیف شیطان کی راہ میں پہنچی ہے جب کہ تمھیں میرے راستے میں میری خوشنودی حاصل کرتے ہوئے پہنچی ہے ، پھراللہ تعالی نے خبردی کہ اللہ تعالی اس دن میں ان ایام کو لوگوں کے درمیان بدلتارہتاہے کہ کبھی اپنے دوستوں کو فتح عطافرماتاہے اورکبھی اپنے دشمنو ں کو ، جبکہ آخرت کامقصد اس کے بالکل برعکس ہے کیونکہ اس میں عزت ونصرت اورکامیابی اورکامرانی صرف اورصرف اہل ایمان ہی کے لئے ہے ۔ پھراس کے بعد ایک اورحکمت کو ذکرفرمایاوہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے مومنین اورمنافقین کو جداجداکرناتھااورغیب میں جاننے کے بعد مشاہدہ کے طورپربھی جان لے کیونکہ علم غیبی پر ثواب وعقاب مرتب نہیں ہوتے بلکہ ثواب وعقاب اس وقت مرتب ہوتے ہیں جب وہ عمل مشاہدہوجائے اورجس سے اس کاادراک ہوسکے ۔
پھراللہ تعالی نے ایک اورحکمت ذکرفرمائی وہ یہ کہ اللہ تعالی نے اہل ایمان میں سے کچھ کو شہداء بناناتھاکیونکہ وہ اپنے بندوں میں سے شہداء کو محبوب رکھتاہے اوراللہ تعالی نے اس کے لئے اعلی درجہ کی منازل تیارکررکھی ہیں اورشہداء کو اپنی ذات کے لئے خالص بنایاہے ،اس لئے یہ ضروری تھاکہ انہیں درجہ شہادت سے نوازاجاتااوراللہ تعالی کے اس ارشاد:{ وَاللہُ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ}میںایک لطیف تنبیہ ہے کہ اللہ تعالی منافقین کو ناپسندفرماتاہے اوران کے ساتھ بغض رکھتاہے جواحد شریف کے دن اللہ تعالی کے حبیب کریم ﷺسے جداہوگئے اورغزوہ احدشریف میں حاضرنہیں ہوئے اوراللہ تعالی نے ان میں سے کسی کوشہادت کادرجہ نہیں عطافرمایا۔ کیونکہ اللہ تعالی ان کو پسندنہیں فرماتاتھا، اس لئے ان کو واپس لوٹادیاتاکہ اہل ایمان کو جس عنایت خاصہ سے نوازاجاناتھاان کو اس عنایت سے محروم کردے ، پس یہ لوگ ان اسباب سے نکل گئے جن کی اللہ تعالی نے اپنے مومنین بندوں کوتوفیق عطافرمائی کہ اللہ تعالی نے اس دن مومنین کومصیبت پہنچنے کے بارے میں ایک اورحکمت ذکرفرمائی اوروہ ایمان والوں کوگناہوں اورنفوس کی آفات سے پاک صاف اورخالص کرناتھااوراسی طرح اللہ تعالی نے انہیں منافقین سے بھی صاف اورخالص کردیااوریہ ان سے جداہوگئے ، پس اس کے ذریعے دوطرح سے پاک صاف اورخالص کرناحاصل ہوا،جوایک نفوس کی آفات سے اوردوسراان کے دشمنوں سے جو یہ ظاہرکرتے تھے کہ ہم تمھیں میں سے ہیں ۔
پھراللہ تعالی نے ایک اورحکمت بیان فرمائی اورکفارکوان کے ظلم وستم اورسرکشی کی وجہ سے انہیں ہلاک کرناہے ، پھرا س کے بعد اہل ایمان پراس بارے میں انکاربھی فرمایاکہ کیاانہوںنے یہ گمان کرلیاہے کہ وہ اللہ تعالی کے راستے میں جہاد اوردشمن کی ایذائوں پر صبرکئے بغیرجنت میں داخل ہوجائیں گے ، یہ ناممکن ہے کیونکہ اللہ تعالی نے ایسے گمان کرنے والے پرانکارفرمایاہے ۔
چنانچہ اللہ تعالی کافرمان عالی شان ہے
{اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَعْلَمِ اللہُ الَّذِیْنَ جٰہَدُوْا مِنْکُمْ وَیَعْلَمَ الصّٰبِرِیْنَ}( سورۃ آل عمران :۱۴۲)
ترجمہ کنزالایمان :کیا اس گمان میں ہو کہ جنت میں چلے جاؤ گے اور ابھی اللہ نے تمہارے غازیوں کا امتحان نہ لیا اور نہ صبر والوں کی آزمائش کی ۔
یعنی یہ ابھی تک تمھاری طرف سے واقع نہیں ہوااگرواقع ہوتاتواللہ تعالی تمھاراضرورامتحان کرتاتوتم کو اس کے بدلے میں جنت عطافرمادیتاکیونکہ اللہ تعالی کی جزااورامرواقع معلوم پرہوتی ہے نہ کہ محض علم پر، پھراللہ تعالی نے اہل ایمان کی شکست پرانہیں اس کے بارے میں عتاب فرمایاجس کی تم خودتمناکرتے تھے اوراس کی ملاقات کاشوق رکھتے تھے ۔
چنانچہ اللہ تعالی کافرمان عالی شان ہے
{وَلَقَدْ کُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَلْقَوْہُ فَقَدْ رَاَیْتُمُوْہُ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ}(سورۃ آل عمران: ۱۴۳)
ترجمہ کنزالایمان:اور تم تو موت کی تمنا کیا کرتے تھے اس کے ملنے سے پہلے تو اب وہ تمہیں نظر آئی آنکھوں کے سامنے ۔
حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالی نے اپنے فرمان شریف کے ذریعے اپنے حبیب کریم ﷺکو شہداء بدرپراپنی کرامت اوراپنے فضل کی خبردی تولوگوں کو شہادت کی رغبت ہوئی اورانہوںنے جہاد کی تمناظاہرکی تاکہ وہ بھی اس میں شہیدہوسکیں اوراپنے بھائیوں سے جنت میں ملاقات کرسکیںتواللہ تعالی نے احدکے دن اس کے اسباب پیدافرمادیئے لیکن اس میں بہت کم لوگ ڈٹے رہے اورنہیں بھاگے اوربہت سے وہاں سے ہٹ گئے تواللہ تعالی نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی :
{وَلَقَدْ کُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَلْقَوْہُ فَقَدْ رَاَیْتُمُوْہُ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ}(سورۃ آل عمران: ۱۴۳)
ترجمہ کنزالایمان:اور تم تو موت کی تمنا کیا کرتے تھے اس کے ملنے سے پہلے تو اب وہ تمہیں نظر آئی آنکھوں کے سامنے ۔
بارہویں حکمت
وَمِنْہَا:أَنَّ وَقْعَۃَ أُحُدٍ کَانَتْ مُقَدِّمَۃً وَإِرْہَاصًا بَیْنَ یَدَیْ مَوْتِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَثَبَّتَہُمْ وَوَبَّخَہُمْ عَلَی انْقِلَابِہِمْ عَلَی أَعْقَابِہِمْ إنْ مَاتَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَوْ قُتِلَ، بَلِ الْوَاجِبُ لَہُ عَلَیْہِمْ أَنْ یَثْبُتُوا عَلَی دِینِہِ وَتَوْحِیدِہِ وَیَمُوتُوا عَلَیْہِ أَوْ یُقْتَلُوا،فَإِنَّہُمْ إنَّمَا یَعْبُدُونَ رَبَّ مُحَمَّدٍ، وَہُوَ حَیٌّ لَا یَمُوتُ،فَلَوْ مَاتَ مُحَمَّدٌ أَوْ قُتِلَ لَا یَنْبَغِی لَہُمْ أَنْ یَصْرِفَہُمْ ذَلِکَ عَنْ دِینِہِ،وَمَا جَاء َ بِہِ،فَکُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَۃُ الْمَوْتِ،وَمَا بُعِثَ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِیُخَلَّدَ لَا ہُوَ وَلَا ہُمْ، بَلْ لِیَمُوتُوا عَلَی الْإِسْلَامِ وَالتَّوْحِیدِ، فَإِنَّ الْمَوْتَ لَا بُدّ مِنْہُ سَوَاء ٌ مَاتَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَوْ بَقِیَ، وَلِہَذَا وَبَّخَہُمْ عَلَی رُجُوعِ مَنْ رَجَعَ مِنْہُمْ عَنْ دِینِہِ، لَمَّا صَرَخَ الشّیْطَانُ إنَّ مُحَمَّدًا قَدْ قُتِلَ، فَقَالَ(وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَی أَعْقَابِکُمْ وَمَنْ یَنْقَلِبْ عَلَی عَقِبَیْہِ فَلَنْ یَضُرَّ اللَّہَ شَیْئًا وَسَیَجْزِی اللَّہُ الشَّاکِرِینَ)(آلِ عِمْرَانَ:۱۴۴)وَالشَّاکِرُونَ ہُمُ الَّذِینَ عَرَفُوا قَدْرَ النِّعْمَۃِ،فَثَبَتُوا عَلَیْہَا حَتَّی مَاتُوا أَوْ قُتِلُوا، فَظَہَرَ أَثَرُ ہَذَا الْعِتَابِ،وَحُکْمُ ہَذَا الْخِطَابِ یَوْمَ مَاتَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ،وَارْتَدَّ مَنِ ارْتَدَّ عَلَی عَقِبَیْہِ،وَثَبَتَ الشَّاکِرُونَ عَلَی دِینِہِمْ،فَنَصَرَہُمُ اللَّہُ وَأَعَزَّہُمْ،وَظَفَّرَہُمْ بِأَعْدَائِہِمْ،وَجَعَلَ الْعَاقِبَۃَ لَہُمْ ثُمَّ أَخْبَرَ سُبْحَانَہُ أَنَّہُ جَعَلَ لِکُلِّ نَفْسٍ أَجَلًا لَا بُدَّ أَنْ تَسْتَوْفِیَہُ، ثُمَّ تَلْحَقَ بِہِ، فَیَرِدُ النَّاسُ کُلُّہُمْ حَوْضَ الْمَنَایَا مَوْرِدًا وَاحِدًا،وَإِنْ تَنَوَّعَتْ أَسْبَابُہُ وَیَصْدُرُونَ عَنْ مَوْقِفِ الْقِیَامَۃِ مَصَادِرَ شَتَّی،فَرِیقٌ فِی الْجَنَّۃِ،وَفَرِیقٌ فِی السَّعِیرِثُمّ أَخْبَرَ سُبْحَانَہُ أَنَّ جَمَاعَۃً کَثِیرَۃً مِنْ أَنْبِیَائِہِ قُتِلُواوَقُتِلَ مَعَہُمْ أَتْبَاعٌ لَہُمْ کَثِیرُونَ فَمَا وَہَنَ مَنْ بَقِیَ مِنْہُمْ لِمَا أَصَابَہُمْ فِی سَبِیلِہِ وَمَا ضَعُفُوا وَمَا اسْتَکَانُوا وَمَا وَہَنُوا عِنْدَ الْقَتْلِ،وَلَا ضَعُفُوا وَلَا اسْتَکَانُوا، بَلْ تَلَقَّوُا الشَّہَادَۃَ بِالْقُوَّۃِ وَالْعَزِیمَۃِ وَالْإِقْدَامِ، فَلَمْ یُسْتُشْہِدُوا مُدْبِرِینَ مُسْتَکِینِینَ أَذِلَّۃً، بَلِ اسْتُشْہِدُوا أَعِزَّۃً کِرَامًا مُقْبِلِینَ غَیْرَ مُدْبِرِینَ، وَالصَّحِیحُ أَنَّ الْآیَۃَ تَتَنَاوَلُ الْفَرِیقَیْنِ کِلَیْہِمَا.ثُمّ أَخْبَرَ سُبْحَانَہُ عَمَّا اسْتَنْصَرَتْ بِہِ الْأَنْبِیَاء ُ وَأُمَمُہُمْ عَلَی قَوْمِہِمْ مِنَ اعْتِرَافِہِمْ وَتَوْبَتِہِمْ وَاسْتِغْفَارِہِمْ وَسُؤَالِہِمْ رَبَّہُمْ أَنْ یُثَبِّتَ أَقْدَامَہُمْ وَأَنْ یَنْصُرَہُمْ عَلَی أَعْدَائِہِمْ، فَقَالَ:(وَمَا کَانَ قَوْلَہُمْ إِلَّا أَنْ قَالُوا رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسْرَافَنَا فِی أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِینَ فَآتَاہُمُ اللَّہُ ثَوَابَ الدُّنْیَا وَحُسْنَ ثَوَابِ الْآخِرَۃِ وَاللَّہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِینَ)(آل عمران: ۱۴۷،۱۴۸)لَمَّا عَلِمَ الْقَوْمُ أَنَّ الْعَدُوَّ إنَّمَا یُدَالُ عَلَیْہِمْ بِذُنُوبِہِمْ، وَأَنَّ الشّیْطَانَ إنَّمَا یَسْتَزِلُّہُمْ وَیَہْزِمُہُمْ بِہَا، وَأَنَّہَا نَوْعَانِ:تَقْصِیرٌ فِی حَقٍّ، أَوْ تَجَاوُزٌ لِحَدٍّ،وَأَنَّ النَّصْرَۃَ مَنُوطَۃٌ بِالطَّاعَۃِ، قَالُوا:رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا،وَإِسْرَافَنَا فِی أَمْرِنَا،ثُمَّ عَلِمُوا أَنَّ رَبَّہُمْ تَبَارَکَ وَتَعَالَی إنْ لَمْ یُثَبِّتْ أَقْدَامَہُمْ وَیَنْصُرْہُمْ لَمْ یَقْدِرُوا ہُمْ عَلَی تَثْبِیتِ أَقْدَامِ أَنْفُسِہِمْ وَنَصْرِہَا عَلَی أَعْدَائِہِمْ، فَسَأَلُوہُ مَا یَعْلَمُونَ أَنَّہُ بِیَدِہِ دُونَہُمْ، وَأَنّہُ إنْ لَمْ یُثَبِّتْ أَقْدَامَہُمْ وَیَنْصُرْہُمْ لَمْ یَثْبُتُوا وَلَمْ یَنْتَصِرُوا، فَوَفَّوُا الْمَقَامَیْنِ حَقَّہُمَا: مَقَامَ الْمُقْتَضِی،وَہُوَ التَّوْحِیدُ وَالِالْتِجَاء ُ إِلَیْہِ سُبْحَانَہُ، وَمَقَامَ إزَالَۃِ الْمَانِعِ مِنَ النَّصْرَۃِ،وَہُوَ الذُّنُوبُ وَالْإِسْرَافُ، ثُمَّ حَذَّرَہُمْ سُبْحَانَہُ مِنْ طَاعَۃِ عَدُوِّہِمْ،وَأَخْبَرَ أَنَّہُمْ إنْ أَطَاعُوہُمْ خَسِرُوا الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃَ، وَفِی ذَلِکَ تَعْرِیضٌ بِالْمُنَافِقِینَ الَّذِینَ أَطَاعُوا الْمُشْرِکِینَ لَمَّا انْتَصَرُوا وَظَفِرُوا یَوْمَ أُحُدٍثُمَّ أَخْبَرَ سُبْحَانَہُ أَنَّہُ مَوْلَی الْمُؤْمِنِینَ، وَہُوَ خَیْرُ النَّاصِرِینَ فَمَنْ وَالَاہُ فَہُوَ الْمَنْصُورُثُمَّ أَخْبَرَہُمْ أَنَّہُ سَیُلْقِی فِی قُلُوبِ أَعْدَائِہِمُ الرُّعْبَ الَّذِی یَمْنَعُہُمْ مِنَ الْہُجُومِ عَلَیْہِمْ وَالْإِقْدَامِ عَلَی حَرْبِہِمْ، وَأَنَّہُ یُؤَیِّدُ حِزْبَہُ بِجُنْدٍ مِنَ الرُّعْبِ یَنْتَصِرُونَ بِہِ عَلَی أَعْدَائِہِمْ، وَذَلِکَ الرُّعْبُ بِسَبَبِ مَا فِی قُلُوبِہِمْ مِنَ الشِّرْکِ بِاللَّہِ، وَعَلَی قَدْرِ الشِّرْکِ یَکُونُ الرُّعْبُ، فَالْمُشْرِکُ بِاللَّہِ أَشَدُّ شَیْء ٍ خَوْفًا وَرُعْبًا وَالَّذِینَ آمَنُوا وَلَمْ یَلْبِسُوا إیمَانَہُمْ بِالشِّرْکِ لَہُمُ الْأَمْنُ وَالْہُدَی وَالْفَلَاحُ، وَالْمُشْرِکُ لَہُ الْخَوْفُ وَالضَّلَالُ وَالشَّقَاء ُثُمّ أَخْبَرَہُمْ أَنَّہُ صَدَقَہُمْ وَعْدَہُ فِی نُصْرَتِہِمْ عَلَی عَدُوِّہِمْ، وَہُوَ الصَّادِقُ الْوَعْدِ،وَأَنّہُمْ لَوِ اسْتَمَرُّوا عَلَی الطَّاعَۃِ وَلُزُومِ أَمْرِ الرَّسُولِ لَاسْتَمَرَّتْ نُصْرَتُہُمْ، وَلَکِنِ انْخَلَعُوا عَنِ الطَّاعَۃِ، وَفَارَقُوامَرْکَزَہُمْ، فَانْخَلَعُوا عَنْ عِصْمَۃِ الطَّاعَۃِ، فَفَارَقَتْہُمُ النُّصْرَۃُ،فَصَرَفَہُمْ عَنْ عَدُوِّہِمْ عُقُوبَۃً وَابْتِلَاء ً وَتَعْرِیفًا لَہُمْ بِسُوء ِ عَوَاقِبِ الْمَعْصِیَۃِ،وَحُسْنِ عَاقِبَۃِ الطَّاعَۃِثُمَّ أَخْبَرَ أَنَّہُ عَفَا عَنْہُمْ بَعْدَ ذَلِکَ کُلِّہِ، وَأَنّہُ ذُو فَضْلٍ عَلَی عِبَادِہِ الْمُؤْمِنِینَ قِیلَ للحسن:کَیْفَ یَعْفُو عَنْہُمْ وَقَدْ سَلَّطَ عَلَیْہِمْ أَعْدَاء َہُمْ حَتَّی قَتَلُوا مِنْہُمْ مَنْ قَتَلُوا،وَمَثَّلُوابِہِمْ وَنَالُوا مِنْہُمْ مَا نَالُوہُ؟ فَقَالَ:لَوْلَا عَفْوُہُ عَنْہُمْ لَاسْتَأْصَلَہُمْ، وَلَکِنْ بِعَفْوِہِ عَنْہُمْ دَفَعَ عَنْہُمْ عَدُوَّہُمْ بَعْدَ أَنْ کَانُوا مُجْمِعِینَ عَلَی اسْتِئْصَالِہِمْ ثُمَّ ذَکَّرَہُمْ بِحَالِہِمْ وَقْتَ الْفِرَارِ مُصْعِدِینَ أَیْ جَادِّینَ فِی الْہَرَبِ وَالذِّہَابِ فِی الْأَرْضِ، أَوْ صَاعِدِینَ فِی الْجَبَلِ لَا یَلْوُونَ عَلَی أَحَدٍ مِنْ نَبِیِّہِمْ وَلَا أَصْحَابِہِمْ،وَالرَّسُولُ یَدْعُوہُمْ فِی أُخْرَاہُمْ إِلَی عِبَادِ اللَّہِ أَنَا رَسُولُ اللَّہِ.فَأَثَابَہُمْ بِہَذَا الْہَرَبِ وَالْفِرَارِ غَمًّا بَعْدَ غَمٍّ:غَمُّ الْہَزِیمَۃِ وَالْکَسْرَۃِ، وَغَمُّ صَرْخَۃِ الشَّیْطَانِ فِیہِمْ بِأَنَّ مُحَمَّدًا قَدْ قُتِلَ وَقِیلَ:جَازَاکُمْ غَمًّا بِمَا غَمَمْتُمْ رَسُولَہُ بِفِرَارِکُمْ عَنْہُ وَأَسْلَمْتُمُوہُ إِلَی عَدُوِّہِ، فَالْغَمُّ الَّذِی حَصَلَ لَکُمْ جَزَاء ً عَلَی الْغَمٍّ الَّذِی أَوْقَعْتُمُوہُ بِنَبِیِّہِ،وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَظْہَرُ لِوُجُوہٍ:أَحَدُہَا:أَنَّ قَوْلَہُ:(لِکَیْلَا تَحْزَنُوا عَلَی مَا فَاتَکُمْ وَلَا مَا أَصَابَکُمْ)(آل عمران:۱۵۳)تَنْبِیہٌ عَلَی حِکْمَۃِ ہَذَا الْغَمِّ بَعْدَ الْغَمِّ،وَہُوَ أَنْ یُنْسِیَہُمُ الْحُزْنَ عَلَی مَا فَاتَہُمْ مِنَ الظَّفَرِ وَعَلَی مَا أَصَابَہُمْ مِنَ الْہَزِیمَۃِ وَالْجِرَاحِ، فَنَسُوا بِذَلِکَ السَّبَبَ،وَہَذَا إنَّمَا یَحْصُلُ بِالْغَمِّ الَّذِی یَعْقُبُہُ غَمٌّ آخَرُ.الثَّانِی:أَنَّہُ مُطَابِقٌ لِلْوَاقِعِ، فَإِنَّہُ حَصَلَ لَہُمْ غَمُّ فَوَاتِ الْغَنِیمَۃِ، ثُمَّ أَعْقَبَہُ غَمُّ الْہَزِیمَۃِ، ثُمَّ غَمُّ الْجِرَاحِ الَّتِی أَصَابَتْہُمْ، ثُمَّ غَمُّ الْقَتْلِ،ثُمَّ غَمُّ سَمَاعِہِمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ قُتِلَ، ثُمَّ غَمُّ ظُہُورِ أَعْدَائِہِمْ عَلَی الْجَبَلِ فَوْقَہُمْ،وَلَیْسَ الْمُرَادُ غَمَّیْنِ اثْنَیْنِ خَاصَّۃً،بَلْ غَمًّا مُتَتَابِعًا لِتَمَامِ الِابْتِلَاء ِ وَالِامْتِحَانِ.الثَّالِثُ:أَنَّ قَوْلَہُ:بِغَمٍّ مِنْ تَمَامِ الثَّوَابِ،لَا أَنَّہُ سَبَبُ جَزَاء ِ الثَّوَابِ،وَالْمَعْنَی:أَثَابَکُمْ غَمًّا مُتَّصِلًا بِغَمٍّ جَزَاء ً عَلَی مَا وَقَعَ مِنْہُمْ مِنَ الْہُرُوبِ،وَإِسْلَامِہِمْ نَبِیَّہُمْ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابَہُ، وَتَرْکِ اسْتِجَابَتِہِمْ لَہُ،وَہُوَ یَدْعُوہُمْ، وَمُخَالَفَتِہِمْ لَہُ فِی لُزُومِ مَرْکَزِہِمْ، وَتَنَازُعِہِمْ فِی الْأَمْرِ وَفَشَلِہِمْ، وَکُلُّ وَاحِدٍ مِنْ ہَذِہِ الْأُمُورِ یُوجِبُ غَمًّا یَخُصُّہُ،فَتَرَادَفَتْ عَلَیْہِمُ الْغُمُومُ،کَمَا تَرَادَفَتْ مِنْہُمْ أَسْبَابُہَا وَمُوجِبَاتُہَا، وَلَوْلَا أَنْ تَدَارَکَہُمْ بِعَفْوِہِ لَکَانَ أَمْرًا آخَرَوَمِنْ لُطْفِہِ بِہِمْ وَرَأْفَتِہِ وَرَحْمَتِہِ أَنَّ ہَذِہِ الْأُمُورَ الَّتِی صَدَرَتْ مِنْہُمْ کَانَتْ مِنْ مُوجِبَاتِ الطِّبَاعِ،وَہِی مِنْ بَقَایَا النُّفُوسِ الَّتِی تَمْنَعُ مِنَ النُّصْرَۃِ الْمُسْتَقِرَّۃِ،فَقَیَّضَ لَہُمْ بِلُطْفِہِ أَسْبَابًا أَخْرَجَہَا مِنَ الْقُوَّۃِ إِلَی الْفِعْلِ، فَتَرَتَّبَ عَلَیْہَا آثَارُہَا الْمَکْرُوہَۃُ، فَعَلِمُوا حِینَئِذٍ أَنَّ التَّوْبَۃَ مِنْہَا، وَالِاحْتِرَازَ مِنْ أَمْثَالِہَا،وَدَفْعَہَا بِأَضْدَادِہَا أَمْرٌ مُتَعَیِّنٌ لَا یَتِمُّ لَہُمُ الْفَلَاحُ وَالنُّصْرَۃُ الدَّائِمَۃُ الْمُسْتَقِرَّۃُ إلَّا بِہِ، فَکَانُوا أَشَدَّ حَذَرًا بَعْدَہَا وَمَعْرِفَۃً بِالْأَبْوَابِ الَّتِی دَخَلَ عَلَیْہِمْ مِنْہَاوَرُبَّمَا صَحَّتِ الْأَجْسَامُ بِالْعِلَلِ ثُمَّ إنَّہُ تَدَارَکَہُمْ سُبْحَانَہُ بِرَحْمَتِہِ،وَخَفَّفَ عَنْہُمْ ذَلِکَ الْغَمَّ،وَغَیَّبَہُ عَنْہُمْ بِالنُّعَاسِ الَّذِی أَنْزَلَہُ عَلَیْہِمْ أَمْنًا مِنْہُ وَرَحْمَۃً، وَالنُّعَاسُ فِی الْحَرْبِ عَلَامَۃُ النُّصْرَۃِ وَالْأَمْنِ،کَمَا أَنْزَلَہُ عَلَیْہِمْ یَوْمَ بَدْرٍ،وَأَخْبَرَ أَنَّ مَنْ لَمْ یُصِبْہُ ذَلِکَ النُّعَاسُ فَہُوَ مِمَّنْ أَہَمَّتْہُ نَفْسُہُ لَا دِینُہُ وَلَا نَبِیُّہُ وَلَا أَصْحَابُہُ،وَأَنَّہُمْ یَظُنُّونَ بِاللَّہِ غَیْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاہِلِیَّۃِ.
وَقَدْ فُسِّرَ ہَذَا الظَّنُّ الَّذِی لَا یَلِیقُ بِاللَّہِ بِأَنَّہُ سُبْحَانَہُ لَا یَنْصُرُ رَسُولَہُ،وَأَنَّ أَمْرَہُ سَیَضْمَحِلُّ،وَأَنّہُ یُسْلِمُہُ لِلْقَتْلِ،وَقَدْ فُسِّرَ بِظَنِّہِمْ أَنَّ مَا أَصَابَہُمْ لَمْ یَکُنْ بِقَضَائِہِ وَقَدَرِہِ،وَلَا حِکْمَۃَ لَہُ فِیہِ،فَفُسِّرَ بِإِنْکَارِ الْحِکْمَۃِ، وَإِنْکَارِ الْقَدَرِ،وَإِنْکَارِ أَنْ یُتِمَّ أَمْرَ رَسُولِہِ،وَیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّینِ کُلِّہِ،وَہَذَا ہُوَ ظَنُّ السَّوْء ِ الَّذِی ظَنَّہُ الْمُنَافِقُونَ وَالْمُشْرِکُونَ بِہِ سُبْحَانَہُ وَتَعَالَی فِی(سُورَۃِ الْفَتْحِ)حَیْثُ یَقُولُ:(وَیُعَذِّبَ الْمُنَافِقِینَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْمُشْرِکِینَ وَالْمُشْرِکَاتِ الظَّانِّینَ بِاللَّہِ ظَنَّ السَّوْء ِ عَلَیْہِمْ دَائِرَۃُ السَّوْء وَغَضِبَ اللَّہُ عَلَیْہِمْ وَلَعَنَہُمْ وَأَعَدَّ لَہُمْ جَہَنَّمَ وَسَاء َتْ مَصِیرًا)(الفتح:۶)وَإِنَّمَا کَانَ ہَذَا ظَنَّ السَّوْء ِ،وَظَنَّ الْجَاہِلِیَّۃِ الْمَنْسُوبَ إِلَی أَہْلِ الْجَہْلِ، وَظَنَّ غَیْرِ الْحَقِّ لِأَنّہُ ظَنُّ غَیْرِ مَا یَلِیقُ بِأَسْمَائِہِ الْحُسْنَی وَصِفَاتِہِ الْعُلْیَاوَذَاتِہِ الْمُبَرَّأَۃِ مِنْ کُلِّ عَیْبٍ وَسُوء ٍ، بِخِلَافِ مَا یَلِیقُ بِحِکْمَتِہِ وَحَمْدِہِ وَتَفَرُّدِہِ بِالرُّبُوبِیَّۃِ وَالْإِلَہِیَّہِ،وَمَا یَلِیقُ بِوَعْدِہِ الصَّادِقِ الَّذِی لَا یُخْلِفُہُ وَبِکَلِمَتِہِ الَّتِی سَبَقَتْ لِرُسُلِہِ أَنَّہُ یَنْصُرُہُمْ وَلَا یَخْذُلُہُمْ، وَلِجُنْدِہِ بِأَنَّہُمْ ہُمُ الْغَالِبُونَ،فَمَنْ ظَنَّ بِأَنَّہُ لَا یَنْصُرُ رَسُولَہُ، وَلَا یُتِمُّ أَمْرَہُ، وَلَا یُؤَیِّدُہُ وَیُؤَیِّدُ حِزْبَہُ،وَیُعْلِیہِمْ وَیُظْفِرُہُمْ بِأَعْدَائِہِ،وَیُظْہِرُہُمْ عَلَیْہِمْ،وَأَنَّہُ لَا یَنْصُرُ دِینَہُ وَکِتَابَہُ، وَأَنّہُ یُدِیلُ الشِّرْکَ عَلَی التَّوْحِیدِ،وَالْبَاطِلَ عَلَی الْحَقِّ إدَالَۃً مُسْتَقِرَّۃً یَضْمَحِلُّ مَعَہَا التَّوْحِیدُ وَالْحَقُّ اضْمِحْلَالًا لَا یَقُومُ بَعْدَہُ أَبَدًا، فَقَدْ ظَنَّ بِاللَّہِ ظَنَّ السَّوْء ِ، وَنَسَبَہُ إِلَی خِلَافِ مَا یَلِیقُ بِکَمَالِہِ وَجَلَالِہِ وَصِفَاتِہِ وَنُعُوتِہِ، فَإِنَّ حَمْدَہُ وَعِزَّتَہُ وَحِکْمَتَہُ وَإِلَہِیَّتَہُ تَأْبَی ذَلِکَ، وَتَأْبَی أَنْ یُذَلَّ حِزْبُہُ وَجُنْدُہُ، وَأَنْ تَکُونَ النُّصْرَۃُ الْمُسْتَقِرَّۃُ وَالظَّفَرُ الدَّائِمُ لِأَعْدَائِہِ الْمُشْرِکِینَ بِہِ الْعَادِلِینَ بِہِ، فَمَنْ ظَنَّ بِہِ ذَلِکَ فَمَا عَرَفَہُ وَلَا عَرَفَ أَسَمَاء َہُ وَلَا عَرَفَ صِفَاتَہُ وَکَمَالَہُ، وَکَذَلِکَ مَنْ أَنْکَرَ أَنْ یَکُونَ ذَلِکَ بِقَضَائِہِ وَقَدَرِہِ فَمَا عَرَفَہُ وَلَا عَرَفَ رُبُوبِیَّتَہُ وَمُلْکَہُ وَعَظَمَتَہُ، وَکَذَلِکَ مَنْ أَنْکَرَ أَنْ یَکُونَ قَدَّرَ مَا قَدَّرَہُ مِنْ ذَلِکَ وَغَیْرِہِ لِحِکْمَۃٍبَالِغَۃٍ وَغَایَۃٍ مَحْمُودَۃٍ یَسْتَحِقُّ الْحَمْدَ عَلَیْہَا، وَأَنَّ ذَلِکَ إنَّمَا صَدَرَ عَنْ مَشِیئَۃٍ مُجَرَّدَۃٍ عَنْ حِکْمَۃٍ وَغَایَۃٍ مَطْلُوبَۃٍ ہِی أَحَبُّ إِلَیْہِ مِنْ فَوْتِہَا، وَأَنَّ تِلْکَ الْأَسْبَابَ الْمَکْرُوہَۃَ الْمُفْضِیَۃَ إِلَیْہَا لَا یَخْرُجُ تَقْدِیرُہَا عَنِ الْحِکْمَۃِ لِإِفْضَائِہَا إِلَی مَا یُحِبُّ، وَإِنْ کَانَتْ مَکْرُوہَۃً لَہُ فَمَا قَدَّرَہَا سُدًی، وَلَا أَنْشَأَہَا عَبَثًا، وَلَا خَلَقَہَا بَاطِلًا، (ذَلِکَ ظَنُّ الَّذِینَ کَفَرُوا فَوَیْلٌ لِلَّذِینَ کَفَرُوا مِنَ النَّارِ)وَأَکْثَرُ النَّاسِ یَظُنُّونَ بِاللَّہِ غَیْرَ الْحَقِّ ظَنَّ السَّوْء ِ فِیمَا یَخْتَصُّ بِہِمْ وَفِیمَا یَفْعَلُہُ بِغَیْرِہِمْ، وَلَا یَسْلَمُ عَنْ ذَلِکَ إلَّا مَنْ عَرَفَ اللَّہَ وَعَرَفَ أَسْمَاء َہُ وَصِفَاتِہِ، وَعَرَفَ مُوجِبَ حَمْدِہِ وَحِکْمَتِہِ، فَمَنْ قَنَطَ مِنْ رَحْمَتِہِ وَأَیِسَ مِنْ رَوْحِہِ، فَقَدْ ظَنَّ بِہِ ظَنَّ السَّوْء ِوَمَنْ جَوَّزَ عَلَیْہِ أَنْ یُعَذِّبَ أَوْلِیَاء َہُ مَعَ إحْسَانِہِمْ وَإِخْلَاصِہِمْ وَیُسَوِّی بَیْنَہُمْ وَبَیْنَ أَعْدَائِہِ، فَقَدْ ظَنَّ بِہِ ظَنَّ السَّوْء ِ.
ترجمہ:واقعہ احد حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے وصال شریف سے پہلے ایک مقدمہ اورزینہ کے طورپرتھا، اللہ تعالی نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مضبوط کیااورانہیں اس وجہ سے کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺشہیدہوگئے ، واپس پھران پرعتاب فرمایاکہ ان پر اس صورت میں بھی یہ واجب تھاکہ وہ اپنے دین اوراللہ تعالی کی توحیدپرڈٹے رہتے اوراسی کی خاطرشہید ہوجاتے اوراپنی جان دے دیتے کیونکہ وہ تواللہ تعالی کی عبادت کرتے ہیں جوحضورتاجدارختم نبوت ﷺکابھی رب تعالی ہے اوروہ زندہ ہے اسے کبھی بھی موت نہیں آئے گی ، اگرحضورتاجدارختم نبوت ﷺوصا ل فرمائیں یاشہیدہوجائیں تب بھی ان کے لئے مناسب نہیں کہ وہ آپ ﷺکے لائے ہوئے دین کو ترک کردیں اوراس سے پھرجائیں ،کیونکہ ہرذی روح کو موت کامزہ توچکھناہے اورحضورتاجدارختم نبوت ﷺتوہمیشہ اس ظاہری دنیامیں رہنے کے لئے نہیں بھیجے گئے اورنہ تم لوگوں کو ہمیشہ کے لئے پیداکیاگیاہے ، بلکہ تم کو چاہئے کہ اسلام اوراپنے دین پرجان دے دوکیونکہ موت تویقینی ہے ، چاہے اب حضورتاجدارختم نبوت ﷺوصال فرمائیں یانہ وصال فرمائیں ، اس لئے اللہ تعالی نے ان لوگوں پر عتاب فرمایاجو اس وقت وہاں سے دورچلے گئے ، جب شیطان نے یہ پکاراکہ محمدﷺقتل ہوگئے ہیں ۔چنانچہ اللہ تعالی کافرمان عالی شان ہے
{وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ اَفَائِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓی اَعْقٰبِکُمْ وَمَنْ یَّنْقَلِبْ عَلٰی عَقِبَیْہِ فَلَنْ یَّضُرَّ اللہَ شَیْـًا وَسَیَجْزِی اللہُ الشّٰکِرِیْنَ}( سورۃ آل عمران : ۱۴۴)
ترجمہ کنزالایمان : اورمحمدتو ایک رسول ہیں ان سے پہلے اور رسول ہوچکے تو کیا اگر وہ انتقال فرمائیں یا شہید ہوں تو تم اُلٹے پاؤں پھر جاؤ گے اور جو اُلٹے پاؤں پھرے گا اللہ کا کچھ نقصان نہ کرے گا اور عنقریب اللہ شکر والوں کو صلہ دے گا ۔
اورشاکرین وہ لوگ ہیں جنہوں نے نعمت کی قدرکوپہچانااوراس پرقائم رہے ، یہاں تک کہ وہ شہیدہوگئے، پس اس عتاب کااصل اوراس خطاب کاحکم اس وقت ظاہرہواجس دن حضورتاجدارختم نبوت ﷺکاوصال شریف ہوااورجنہوںنے مرتدہوناتھاوہ مرتدہوگئے اورشاکرین اپنے دین پر قائم اورثابت قدم رہے ۔ پھراللہ تعالی نے ان کی مددونصرت فرمائی اورانہیں عزت عطافرمائی اوران کے دشمنوں کے مقابلے میں ان کو فتح سے نوازااوربہترانجام انہیں کو حاصل ہوا۔ پھراللہ تعالی نے خبردی کہ ہرنفس کے لئے ایک مدت مقررفرمائی ہے جس پر اس کامرناضروری ہے ، پس لوگ موتوں کے ایک ہی حوض پراترتے ہیں ، اگرچہ اس کے اسباب متفرق ہیں اورقیامت کے دن اللہ تعالی کے حضورکھڑاہونے کے بعد الگ الگ ٹھکانوں میں لوٹیں گے، ایک گروہ جنت میں جائے گااورایک گروہ دوزخ میں جائے گا۔ پھراللہ تعالی نے خبردی کہ اللہ تعالی کے بہت سے انبیاء کرام علیہم السلام اوران کے متبعین میں سے بھی ایک کثیرتعدادکو شہیدکردیاگیااوران کو جومصیبت اللہ تعالی کی راہ میں لاحق ہوئی بقیہ لوگوں میں اس کی وجہ سے کوئی کمزوری نہیں آئی اوروہ پست ہمت نہ ہوئے اورانہوں نے ہمت نہ ہاری اورقتل ہوتے وقت بھی ان میں کمزوری اورپستی نہیں آئی اورانہوںنے ہمت نہیں ہاری ۔ بلکہ انہوںنے قوت وعزیمت کے ساتھ جام شہادت نوش کیااوراس کی طرف پیش قدمی کی اوروہ وہاں سے بھاگتے ہوئے ذلیل وکمزورہوکرشہیدنہ ہوئے بلکہ عزت واکرام کے ساتھ اورپیش قدمی کرتے ہوئے شہیدہوئے اورصحیح یہ ہے کہ یہ آیت کریمہ دونوں فریقوں کو شامل ہے ۔
پھراللہ تعالی نے خبردی کہ پہلے انبیاء کرام علیہم السلام اوران کی امتوں نے اپنی قوم کے خلاف اللہ تعالی کی مدداس طرح حاصل کی کہ انہوںنے اپنے گناہوں کااعتراف کیا، توبہ کی ، اپنے رب تعالی سے استغفارکیااوراپنے رب تعالی سے سوال کیاکہ ہمیں ثابت قدمی اوردشمن پرنصرت عطافرما، چنانچہ اللہ تعالی کافرمان عالی شان ہے :
{وَمَا کَانَ قَوْلَہُمْ اِلَّآ اَنْ قَالُوْا رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَ اِسْرَافَنَا فِیْٓ اَمْرِنَا وَثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ}{فَاٰتٰیہُمُ اللہُ ثَوَابَ الدُّنْیَا وَحُسْنَ ثَوَابِ الْاٰخِرَۃِ وَاللہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ{( سورۃ آل عمران: ۱۴۷،۱۴۸)
ترجمہ کنزالایمان: اور وہ کچھ بھی نہ کہتے تھے سوا اس دعا کے کہ اے ہمارے رب بخش دے ہمارے گناہ اور جو زیادتیاں ہم نے اپنے کام میں کیں اور ہمارے قدم جمادے اور ہمیں ان کافر لوگوں پر مدد دے۔تو اللہ نے انہیں دنیا کا انعام دیااور آخرت کے ثواب کی خوبی اور نیکی والے اللہ کو پیارے ہیں۔
جب مومن کو معلوم ہوگیاکہ دشمن کو ان پر غلبہ ان کے اپنے گناہوں کی وجہ سے ہوااورشیطان ان کے قدموں کو اکھیڑتاہے اورانہیں شکست کی طرف لے جاتاہے تونصرت وفتح کامداراطاعت وفرمانبرداری پرہے توانہوںنے کہا:
{رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَ اِسْرَافَنَا فِیْٓ اَمْرِنَا وَثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ}
ترجمہ کنزالایمان: اے ہمارے رب بخش دے ہمارے گناہ اور جو زیادتیاں ہم نے اپنے کام میں کیں اور ہمارے قدم جمادے اور ہمیں ان کافر لوگوں پر مدد دے۔
پھرانہیں معلوم ہواکہ اگراللہ تعالی ان کو ثابت قدم نہیں کرے گااوران کی مددنہ کرے گاتووہ اپنے قدموں کو مضبوط کرنے اوراپنے دشمنوں کے خلاف اپنی مددآپ کرنے پر قدرت نہیں رکھتے ۔ اس لئے انہوںنے اللہ تعالی کی بارگاہ میں عرض کی کہ یہ امراللہ تعالی کے قبضے میں ہے نہ کہ ہمارے پاس اوراگراللہ تعالی نے انہیں ثابت قدم نہ کیااوردشمنوں پر ان کی مددنہ کی تووہ جم نہ سکیں گے اورفتح یاب نہ ہوسکیں گے ، پس اس طرح انہوںنے دونوں مقامات کاحق اداکردیا۔ ایک مقتضی کے مقام کا اللہ تعالی کی توحید اوراس کی طرف التجاء کرنااوردوسرانصرت سے مانع کے ازالہ کے مقام اوروہ گناہ اوراسراف ہے یعنی انہوں نے اللہ تعالی کی بارگاہ میں التجاء کی اوراپنے گناہوں کی معافی ما نگی ، اس طرح دونوں مقامات کاحق اداہوگیا، پھراللہ تعالی نے دشمن کی اطاعت اختیارکرنے سے ڈرایااورخبردی کہ اگران کی اطاعت کروگے تودنیاوآخرت میں نقصان اٹھائوگے اوراس میں منافقین پر تعریض بھی ہے ، مشرکین کو احدکے دن بظاہرفتح ہوئی تومنافقین نے مشرکین کی پیروی اختیارکرلی ۔
پھراللہ تعالی نے خبردی کہ اللہ تعالی مومنین کامولااورکارساز ہے اوروہ بہترین مددگارہے اوروہ جس کاکارسازہوتاہے وہ منصوروفاتح ہوتاہے ، پھراللہ تعالی نے انہیں خبردی کہ عنقریب اللہ تعالی ان کے دشمنوں کے دلوں میں رعب ڈال دے گا، جس کی وجہ سے ان پر حملہ آورہونے کی جسارت نہیں کرسکیں گے اوران پرجنگی اقدام نہیں کرپائیں گے اوراللہ تعالی اپنی جماعت کے رعب کے ذریعے مددوتائیدفرماتاہے ، جس سے وہ اپنے دشمن پر غالب آجاتے ہیںاوریہ رعب اس وجہ سے پیداہوتاہے کہ ان کے دلوں میں شرک ہوتاہے اورشرک کے بقدرہی ان کے دلوں میں رعب طاری ہوتاہے ۔ پس اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرنے والے کے دل میں سب سے شدیدرعب طاری ہوتاہے ۔ پس جو لوگ ایمان لائے اوراپنے ایمان شرک کے ساتھ خلط نہیں کیاان کے لئے ہدایت ،فلاح اورامن ہوتاہے ۔ اب مشرک کے لئے گمراہی ، بدبختی اورخوف ہوتاہے ۔
پھراللہ تعالی نے خبردی کہ اللہ تعالی نے ان سے دشمن کے خلاف نفرت کاوعدہ سچاکردیااوروہ وعدے کاسچاہے ۔ اورتم لوگ جب تک اللہ تعالی کی اطاعت پرقائم رہے اورحضورتاجدارختم نبوتﷺکے حکم کی فرمانبرداری کرتے رہے اللہ تعالی نے تمھاری مددکی لیکن جب تم نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکے حکم شریف کی پابندی نہیں کی اورتیرانداز اپنے مرکز سے ہٹ گئے تواللہ تعالی کی مددبھی تم سے جداہوگئی تواللہ تعالی نے دشمن کو تمھاری طرف پھیردیاتاکہ اس سے تمھاری آزمائش اورامتحان ہواوروہ تمھیں حضورتاجدارختم نبوتﷺکے حکم شریف پرعمل نہ کرنے کابراانجام اوراطاعت وفرمانبرداری کا حسن ِانجام دکھائے ۔
پھراللہ تعالی نے خبردی کہ اب کے بعد اللہ تعالی نے ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو معاف فرمادیااوروہ اپنے مومن بندوں پر بہت فضل فرمانے والاہے ۔ امام حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگراللہ تعالی ان کو معاف نہ فرماتاتوانہیں بالکل ہی ختم کردیتالیکن اللہ تعالی نے ان کو معاف فرمادیااوران سے ان کے دشمن کو دورکردیاجوکہ ان کو جڑسے اکھیڑنے پرمتفق تھا۔
پھراللہ تعالی نے ان کے بھاگنے کے وقت کی حالت کو بیان فرمایاکہ وہ زمین میں تیزی سے د وڑتے رہے اورحضورتاجدارختم نبوتﷺکی طرف بھی نہیں دیکھ رہے تھے اورنہ اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھ رہے تھے جبکہ حضورتاجدارختم نبوتﷺان کو اپنی طرف بلارہے تھے ۔ اے اللہ کے بندو!میری طرف آئو، میں اللہ تعالی کارسول ہوں۔ تواللہ تعالی نے انہیں اس بھاگنے اورفرارہونے کے بعد ایک غم کے بعد دوسراغم چکھایا۔ ایک ظاہری شکست وہزیمت کاغم اوردوسراشیطان نے ان میں پکاراکہ حضورتاجدارختم نبوتﷺشہیدکردیئے گئے ہیں اوریہ بھی کہاگیاہے کہ اس معنی پرہے کہ تم نے حضورتاجدارختم نبوتﷺسے بھاگ کرانہیں جوغم دیااللہ تعالی نے بدلے میں تمھیں بھی غم چکھایا، پس تمھاراغم اس کی جزااوربدلہ تھا۔ جوتم نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکوپہنچایالیکن پہلاقول کئی وجوہ سے زیادہ ظاہرہے ۔
پہلی وجہ : اللہ تعالی کایہ ارشاد
{اِذْ تُصْعِدُوْنَ وَلَا تَلْونَ عَلٰٓی اَحَدٍ وَّ الرَّسُوْلُ یَدْعُوْکُمْ فِیْٓ اُخْرٰیکُمْ فَاَثٰبَکُمْ غَمًّا بِغَمٍّ لِّکَیْلَا تَحْزَنُوْا عَلٰی مَا فَاتَکُمْ وَلَا مَآ اَصٰبَکُمْ وَاللہُ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ}( سورۃ آل عمران : ۱۵۳)
ترجمہ کنزالایمان:جب تم منہ اٹھائے چلے جاتے تھے اور پیٹھ پھیر کر کسی کو نہ دیکھتے اور دوسری جماعت میں ہمارے رسول تمہیں پکار رہے تھے تو تمہیں غم کابدلہ غم دیا اور معافی اس لئے سنائی کہ جو ہاتھ سے گیا اور جو افتاد پڑی اس کا رنج نہ کرو اور اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے ۔
یہ اس غم کے بعد غم کی حکمت پر تنبیہ ہے اوروہ یہ کہ اللہ تعالی نے انہیں کامیابی کے فوت ہونے اورشکست وہزیمت اورزخموں کے پہنچنے کے غم کو بھلادیااوروہ اس دوسرے غم کے باعث پہلے غم کو بھول گئے ۔
دوسری وجہ : یہ واقع کے مطابق ہے کیونکہ انہیں غنیمت کے فوت ہونے کاغم ہوا، پھرشکست کاغم ہوا، پھرزخموں کے پہنچنے کا غم ہوا، پھرقتل ہوجانے کاغم ہوا، پھرحضورتاجدارختم نبوت ﷺکی شہادت کاغم ہوا، پھردشمن کے پہاڑ پرسے ان پر چڑھ آنے کاغم ہوااوریہاں مراد صرف دوغم نہیں ہیں بلکہ پے درپے ابتلاء وآزمائش کے لئے کئی غموں کاآنامراد ہے ۔
تیسری وجہ : اللہ تعالی کے ارشاد ( بغم) یا(اصابکم ) میں تمام ثواب سے ہے نہ کہ اثاب کے جزاء کاسبب ہے ، معنی یہ ہے کہ اللہ تعالی نے تمھیں غم کے بعد متصلاً غم دیاکیونکہ تم حضورتاجدارختم نبوت ﷺاورآپ ﷺکے ساتھیوں کو چھوڑ کربھاگ نکلے اورآپ ﷺبلارہے تھے اورتم نے جواب نہ دیااورمرکزمیں جمے رہنے میں ان کے حکم کی پابندی نہ کی اورآپس میں ایک معاملے میں جھگڑاکیا، یہ سب امور حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے لئے غم کاباعث تھے ، اسی لئے پے درپے کئی غم متصل طورپرآئے جیساکہ غموں کے اسباب پے درپے اورمتفرق تھے اوریہ اللہ تعالی کاان پر لطف وکرم اورمہربانی تھی یہ امور جوان سے صادرہوئے طبعی امورمیں سے ہیںا وریہ نفوس میں پائے جانے والے ایسے امورہیں جو دائمی نصرت سے مانع بنتے ہیں ، اس لئے اللہ تعالی نے اپنے لطف وکرم سے ان اسباب کو قوت سے فعل کی طرف نکال دیااوران پر ان کے ناپسندیدہ ومکروہ آثارکوبھی مرتب کردیا، جس سے انہیں معلوم ہوگیاکہ ان جیسے امورسے توبہ اوراحتراز ضروری ہے اوران کو ان کے اضدادکے ذریعے دورکرنامتعین ہے اوردائمی نصرت اورکامیابی اسی طرح سے حاصل ہوسکتی ہے جبکہ ان امورمانع کاازالہ کرلیاجائے ، پھروہ اس واقعہ کے بعد ان امور سے بہت زیادہ محتاط رہنے لگے اوران ابواب کو پہچاننے لگے جہاں سے یہ امور داخل ہوتے ہیں۔
{وَرُبَّمَا صَحَّتِ الْأَجْسَامُ بِالْعِلَلِ}ترجمہ :اوربعض اوقات اجسام بیماریوں کے ذریعے صحتیاب ہوجاتے ہیں ۔
پھراللہ تعالی نے اپنی رحمت کاملہ سے اس کاتدارک کیااوران سے اس غم کو ہلکاکردیااوراونگھ کے ذریعے جواللہ تعالی نے ان پراپنی طرف سے امن دینے اوررحمت کے طورپرنازل فرمائی اس غم کو ختم کردیااورجنگ میں اونگھ نصرت اورامن کی علامت ہوتی ہے ،جیساکہ اللہ تعالی نے بدرمیں بھی ان پراونگھ نازل فرمائی ۔
اوراللہ تعالی نے یہ خبربھی دی کہ یہ اونگھ اس کو نہیں آئی جسے صرف اپنی جان کی پڑی تھی ، نہ اسے دین کی فکرتھی اورنہ ہی اسے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی فکرتھی ۔ اورنہ آپ ﷺکے ساتھیوں کی فکرتھی اورایسے لوگ اللہ تعالی کے بارے میں ناحق جہالت والے گمان کرتے تھے اوروہ گمان یہ تھاکہ اللہ تعالی حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی مددنہیں کرے گااورحضورتاجدارختم نبوت ﷺکایہ معاملہ عنقریب بالکل کمزورہوتاچلاجائے گااوریہ معاملہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکو شہیدہونے تک پہنچادے گا۔
ایک تفسیرتوان کے گمان کی یہ بیان کی گئی ہے اورایک تفسیریہ بھی بیان کی گئی ہے کہ وہ گمان کرتے تھے کہ مومنین کو جوکچھ مصائب پہنچے ہیں یہ اللہ تعالی کی قضاء وقدرت سے نہیں ، اس میں اللہ تعالی کی کوئی حکمت نہیں ہے انکے گمان کی تفسیراللہ تعالی کی حکمت اوراس کی تقدیرکے انکارکے ساتھ کی گئی ہے اوراس انکارکے ساتھ کہ اللہ تعالی اپنے حبیب کریم ﷺکے دین کو تمام ادیان پر غالب نہیں کرے گا، یہ وہ گمان تھاجومنافقین اورمشرکین اللہ تعالی کے بارے میں کرتے تھے جس کاذکرسورۃ الفتح شریف میں آیاہے
{وَّ یُعَذِّبَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ الْمُنٰفِقٰتِ وَ الْمُشْرِکِیْنَ وَ الْمُشْرِکٰتِ الظَّآنِّیْنَ بِاللہِ ظَنَّ السَّوْء ِ عَلَیْہِمْ دَآئِرَۃُ السَّوْء ِ وَ غَضِبَ اللہُ عَلَیْہِمْ وَ لَعَنَہُمْ وَ اَعَدَّ لَہُمْ جَہَنَّمَ وَ سَآء َتْ مَصِیْرًا }( سورۃ الفتح : ۶)
ترجمہ کنزالایمان :اور عذاب دے منافق مَردوں اور منافق عورتوں اور مشرک مَردوں اور مشرک عورتوں کو جو اللہ پر بُرا گمان رکھتے ہیں انہیں پر ہے بُری گردش اور اللہ نے ان پر غضب فرمایا اور انہیں لعنت کی اور ان کے لئے جہنّم تیار فرمایا اور وہ کیا ہی بُرا انجام ہے ۔
اوران کایہ برااورجہالت پرمبنی گمان اہل جہل اورغیرحق کی طرف منسوب ہے کیونکہ یہ گمان اللہ تعالی کے اسماء الحسنی اوراس کی عالی ٓصفات کے شایان شان نہیں اوراس کی ذات ہرطرح کے عیب سے پاک ہے ، حالانکہ اس کی حکمت کے لائق اس کی شان ربوبیت اورمعبودیت کے ساتھ مختص ہونے اوراس کے صدق وعدہ جس کے خلاف وہ کبھی بھی نہیں کرتاکے لائق یہ ہے کہ وہ ان کی مددونصرت کرے گا۔ اورانہیں تنہانہیں چھوڑے گااوراسی کالشکراورگروہ غالب آئے گااورجس نے یہ گمان کیاکہ اللہ تعالی حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی مددنہیں کرے گا، اس کے معاملے کوپورانہیں آئے گااس کی اوراپنی جماعت کی تائیدنہیں کرے گا، انہیں غالب نہیں کرے گا اوردشمن پرفتح نہیں دے گابلکہ دشمن کوحضورتاجدارختم نبوت ﷺپرفتح دے گااورجواللہ تعالی اپنے دین اورکتاب کی مددنہیں کرے گااوراللہ تعالی شرک کو توحیدپراورباطل کو حق پردائمی طورپرغالب کردے گاجس کے ساتھ توحیداورحق ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائیں گے اورکبھی قائم نہ ہوسکیں گے توتحقیق اس نے اللہ تعالی کے ساتھ براگمان کیااوراللہ تعالی کی شان ، کمال ، جلال اورصفات کے شایان شان ہے ، اس نے اس کے برخلاف اللہ تعالی کی طرف گمان کو منسوب کیاکیونکہ اس کی حمد، اس کی عزت ، حکمت اورمعبودیت اس کاانکارکرتی ہے اوراس بات کو نہیں مانتی کہ اس کی جماعت اور اس کاگروہ اورلشکررسواہوجائے اورنصرت اورفتح ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس کے دشمن مشرکین کو حاصل ہوجائے جس نے یہ گمان کیااس نے نہ تواللہ تعالی کوپہچانااورنہ ہی اس کے اسماء شریفہ اورنہ ہی اس کی صفات عالیہ کو اورنہ اس کے کمالات کو اس طرح جس نے اللہ تعالی کی قضاء اورقدرکاانکارکیاہے ، اس نے بھی نہ اللہ تعالی کو پہچانااورنہ اس کی ربوبیت کو اورنہ اس کی عظمت وکبریائی کو
{وَمَا خَلَقْنَا السَّمَآء َ وَ الْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا بٰطِلًا ذٰلِکَ ظَنُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنَ النَّارِ }(سورۃ ص:۲۷)
ترجمہ کنزالایمان:اور ہم نے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے بیکار نہ بنائے یہ کافروں کا گمان ہے تو کافروں کی خرابی ہے آ گ سے ۔

اوراکثرلوگ اللہ تعالی کے ساتھ ناحق اوربراگمان کرتے ہیںاوراس سے وہ محفوظ اورسلامت رہتے ہیں جواللہ تعالی کو پہچانتے ہیں اس کے اسماء شریفہ کو پہچانتے ہیں ، اس کی صفات کو ، اس کی حمداوراس کی حکمت کے تقاضوں کو پہچانتے ہیں اورجو اللہ تعالی کی رحمت سے مایوس اورناامیدہوجاتاہے وہ اللہ تعالی کے ساتھ برے برے گمان کرتاہے اورجس نے یہ جائز قراردیاہے کہ اللہ تعالی اپنے اولیاء کرام کو ان کی نیکی اوران کے اخلاص کے باوجود عذاب میں مبتلاء کرے گااوران کے اوراپنے دشمنوں کے درمیان براسلوک کرے گاتواس نے بھی اللہ تعالی کے ساتھ براگمان کیا۔
(زاد المعاد فی ہدی خیر العباد:محمد بن أبی بکر بن أیوب بن سعد شمس الدین ابن قیم الجوزیۃ (۳:۱۸۶)

غزوہ احدکی ظاہری شکست کی پوشیدہ حکمتیں

فَصْلٌ ثُمّ أَخْبَرَ سُبْحَانَہُ عَنْ حِکْمَۃٍ أُخْرَی فِی ہَذَا التَّقْدِیرِ ہِیَ ابْتِلَاء ُ مَا فِی صُدُورِہِمْ، وَہُوَ اخْتِبَارُ مَا فِیہَا مِنَ الْإِیمَانِ وَالنِّفَاقِ،فَالْمُؤْمِنُ لَا یَزْدَادُ بِذَلِکَ إلَّا إیمَانًا وَتَسْلِیمًا، وَالْمُنَافِقُ وَمَنْ فِی قَلْبِہِ مَرَضٌ لَا بُدَّ أَنْ یَظْہَرَ مَا فِی قَلْبِہِ عَلَی جَوَارِحِہِ وَلِسَانِہِ.ثُمَّ ذَکَرَ حِکْمَۃً أُخْرَی:وَہُوَ تَمْحِیصُ مَا فِی قُلُوبِ الْمُؤْمِنِینَ وَہُوَ تَخْلِیصُہُ وَتَنْقِیَتُہُ وَتَہْذِیبُہُ، فَإِنَّ الْقُلُوبَ یُخَالِطُہَا بِغَلَبَاتِ الطَّبَائِعِ، وَمَیْلِ النُّفُوسِ،وَحُکْمِ الْعَادَۃِ، وَتَزْیِینِ الشَّیْطَانِ، وَاسْتِیلَاء ِ الْغَفْلَۃِ مَا یُضَادُّ مَا أُودِعَ فِیہَا مِنَ الْإِیمَانِ وَالْإِسْلَامِ وَالْبِرِّ وَالتّقْوَی، فَلَوْ تُرِکَتْ فِی عَافِیَۃٍ دَائِمَۃٍ مُسْتَمِرَّۃٍ لَمْ تَتَخَلَّصْ مِنْ ہَذِہِ الْمُخَالَطَۃِ وَلَمْ تَتَمَحَّصْ مِنْہُ، فَاقْتَضَتْ حِکْمَۃُ الْعَزِیزِ أَنْ قَیَّضَ لَہَا مِنَ الْمِحَنِ وَالْبَلَایَا مَا یَکُونُ کَالدَّوَاء ِ الْکَرِیہِ لِمَنْ عَرَضَ لَہُ دَاء ٌ إنْ لَمْ یَتَدَارَکْہُ طَبِیبُہُ بِإِزَالَتِہِ وَتَنْقِیَتِہِ مِنْ جَسَدِہِ، وَإِلَّا خِیفَ عَلَیْہِ مِنْہُ الْفَسَادُ وَالْہَلَاکُ،فَکَانَتْ نِعْمَتُہُ سُبْحَانَہُ عَلَیْہِمْ بِہَذِہِ الْکَسْرَۃِ وَالْہَزِیمَۃِ وَقَتْلِ مَنْ قُتِلَ مِنْہُمْ تُعَادِلُ نِعْمَتُہُ عَلَیْہِمْ بِنَصْرِہِمْ وَتَأْیِیدِہِمْ وَظَفَرِہِمْ بِعَدُوِّہِمْ، فَلَہُ عَلَیْہِمُ النِّعْمَۃُ التَّامَّۃُ فِی ہَذَا وَہَذَا.ثُمَّ أَخْبَرَ سُبْحَانَہُ وَتَعَالَی عَنْ تَوَلِّی مَنْ تَوَلَّی مِنَ الْمُؤْمِنِینَ الصَّادِقِینَ فِی ذَلِکَ الْیَوْمِ وَأَنَّہُ بِسَبَبِ کَسْبِہِمْ وَذُنُوبِہِمْ، فَاسْتَزَلَّہُمُ الشَّیْطَانُ بِتِلْکَ الْأَعْمَالِ حَتَّی تَوَلَّوْا، فَکَانَتْ أَعْمَالُہُمْ جُنْدًا عَلَیْہِمُ ازْدَادَ بِہَا عَدُوُّہُمْ قُوَّۃً۔
ترجمہ :پھراللہ تعالی نے اس تقدیرکے بارے میں ایک دوسری حکمت بیان فرمائی اورلوگوں کے سینے میں مخفی امرکو آزمایاہے کہ کس سینے میں ایمان ہے اورکس سینے میں نفاق ہے اورمومن کاایسی آزمائش سے ایمان مزید بڑھتاہے اورجس کے دل میں مرض ہوجوکچھ اس کے دل میں ہوتاہے وہ ضروراس کی زبان یااس کے جوارح پر ظاہرہوجاتاہے ۔ پھراللہ تعالی نے ایک اورحکمت بیان فرمائی وہ مومنین کے دلوں کو پاک وصاف اورخالص کرنااوران کے قلوب کو سنوارناہے کیونکہ دلوں کے ساتھ طبائع کے غلبہ ، نفوس کے میلان ، شیطان کی تزئین اورغفلت کے غلبہ سے ہوتارہتاہے اوریہ دلوں میں موجود ایمان ، اسلام ، تقوی اورنیکی کے متضاد امور ہیں ، اگرقلوب کو ہمیشہ کے لئے دائمی عافیت میں چھوڑ دیاجائے توقلوب ان امور کے اختلاط سے پاک نہ ہوں ، پس اللہ تعالی کی حکمت کاتقاضہ یہ ہواکہ اللہ تعالی نے ان کے لئے ابتلاء وآزمائش اورمشقت کاسامان کردیاجوکہ اس شخص کے لئے ناپسندیدہ دوائی کی مانندہے جسے کوئی ایسی مرض لاحق ہوکہ اگرطبیب اس مرض کے ازالہ اورجسم کو اس بیماری سے صاف کرنے کے لئے ناپسندیدہ دوائی نہ دے تو اس کی ہلاکت کاخوف ہو، پس یہ شکست اورہزیمت بھی اللہ تعالی کی طرف سے ایک نعمت تھی ، یہ اس نعمت کے مساوی تھی جو اللہ تعالی نے ان پر فتح ونصرت کی صورت میں فرمائی اوریہ دونوں ان پر اللہ تعالی کی نعمت تامہ تھیں کہ اللہ تعالی نے ان سچے مومنین کے بارے میں خبردی۔
(زاد المعاد فی ہدی خیر العباد:محمد بن أبی بکر بن أیوب بن سعد شمس الدین ابن قیم الجوزیۃ (۳:۱۸۶)

غزوہ احد میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کاحضورتاجدارختم نبوتﷺکی عزت وناموس پرپہرہ دینا

حضرت سیدناابوطلحہ رضی اللہ عنہ کاناموس رسالت پرپہرہ
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ،قَالَؒلَمَّا کَانَ یَوْمُ أُحُدٍ انْہَزَمَ نَاسٌ مِنَ النَّاسِ،عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ،وَأَبُو طَلْحَۃَ بَیْنَ یَدَیِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُجَوِّبٌ عَلَیْہِ بِحَجَفَۃٍ،قَالَ:وَکَانَ أَبُو طَلْحَۃَ رَجُلًا رَامِیًا،شَدِیدَ النَّزْعِ،وَکَسَرَ یَوْمَئِذٍ قَوْسَیْنِ أَوْ ثَلَاثًا،قَال:فَکَانَ الرَّجُلُ یَمُرُّ مَعَہُ الْجَعْبَۃُ مِنَ النَّبْلِ،فَیَقُولُ:انْثُرْہَا لِأَبِی طَلْحَۃَ ،قَالَ:وَیُشْرِفُ نَبِیُّ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَنْظُرُ إِلَی الْقَوْمِ،فَیَقُولُ أَبُو طَلْحَۃَ:یَا نَبِیَّ اللہِ،بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی، لَا تُشْرِفْ، لَا یُصِبْکَ سَہْمٌ مِنْ سِہَامِ الْقَوْمِ،نَحْرِی دُونَ نَحْرِکَ،قَالَ:وَلَقَدْ رَأَیْتُ عَائِشَۃَ بِنْتَ أَبِی بَکْرٍ، وَأُمَّ سُلَیْمٍ وَإِنَّہُمَا لَمُشَمِّرَتَانِ،أَرَی خَدَمَ سُوقِہِمَا،تَنْقُلَانِ الْقِرَبَ عَلَی مُتُونِہِمَا،ثُمَّ تُفْرِغَانِہِ فِی أَفْوَاہِہِمْ، ثُمَّ تَرْجِعَانِ فَتَمْلَآَنِہَا،ثُمَّ تَجِیئَانِ تُفْرِغَانِہِ فِی أَفْوَاہِ الْقَوْمِ وَلَقَدْ وَقَعَ السَّیْفُ مِنْ یَدَیْ أَبِی طَلْحَۃَ إِمَّا مَرَّتَیْنِ وَإِمَّا ثَلَاثًا مِنَ النُّعَاسِ۔
ترجمہ :حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایاکہ جب اُحد کا دن تھا، لوگوں میں سے کچھ لوگ حضورتاجدارختم نبو تﷺکے قریب سے ادھرادھرہوگئے اور حضرت سیدناابوطلحہ رضی اللہ عنہ حضورتاجدارختم نبو تﷺکے سامنے ایک ڈھال کے ساتھ آڑ کیے ہوئے تھے۔ حضرت سیدناابوطلحہ رضی اللہ عنہ انتہائی قوت سے تیر چلانے والے تیر انداز تھے، انہوں نے اس دن دو یا تین کمانیں توڑیں۔فرماتے ہیں کہ کوئی شخص اپنے ساتھ تیروں کا ترکش لیے ہوئے گزرتا تو حضورتاجدارختم نبوتﷺفرماتے:اسے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے آگے پھیلا دو۔اوریہ بھی بیان کرتے ہیںکہ حضورتاجدارختم نبو تﷺلوگوں کا جائزہ لینے کے لیے جھانک کر دیکھتے توحضرت سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ عرض کرتے:اے حبیب کریم ﷺ!میرے ماں باپ آپ ﷺپر قربان! جھانک کر نہ دیکھیں، کہیں دشمن کے تیروں میں سے کوئی تیر آپ ﷺکو نہ لگ جائے۔ میرا سینہ آپﷺ کے سینہ کے آگے ڈھال بنا ہوا ہے۔اوریہ بھی بیان کیاکہ ہم نے حضرت سیدتناعائشہ بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما اور حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کو دیکھا، ان دونوں نے اپنے کپڑے سمیٹے ہوئے تھے، وہ اپنی کمر پر مشکیزے لے کر آتی تھیں، (زخمیوں کو پانی پلاتے پلاتے)ان کے منہ میں ان (مشکوں)کو خالی کرتیں تھیں، پھر واپس ہو کر انہیں بھرتی تھیں، پھر آتیں اور انہیں لوگوں کے منہ میں فارغ کرتی تھیں۔ اس دن اونگھ (آنے)کی بنا پر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں سے دو یا تین مرتبہ تلوار گری۔ (شدید تکان اور بے خوابی کے عالم میں بھی وہ ڈھال بن کر حضورتاجدارختم نبوتﷺکے سامنے کھڑے رہے۔
(صحیح مسلم : مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشیری النیسابوری (۳:۱۴۴۳)

حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے سینے پرمیراسینہ قربان

أبو طلحۃ الأنصاری استمرّ بین یدیہ یمنع عنہ بجحفتہ ،وکان رامیا شدید الرمی فنثر کنانتہ بین یدی رسول اللہﷺ، وصار یقول:وجہی لوجہک فداء ،وکل من کان یمر ومعہ کنانۃ یقول لہ علیہ الصلاۃ والسلام: انثرہا لأبی طلحۃ، وکان ینظر إلی القوم لیری ماذا یفعلون، فیقول لہ أبو طلحۃ: یا نبی اللہ بأبی أنت وأمی، لا تنظر یصیبک سہم من سہام القوم! نحری دون نحرک.
ترجمہ :حضرت سیدناابوطلحہ رضی اللہ عنہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے بالکل سامنے کھڑے ہوئے تھے اوراپنی ڈھال کے ساتھ حضورتاجدارختم نبوت ﷺپرآنے والے تیروں سے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکادفاع کررہے تھے ، آپ رضی اللہ عنہ بہت قوت کے ساتھ تیرچلاتے تھے یہاں تک کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے سامنے ان کی تلوار ٹوٹ گئی اورآپ رضی اللہ عنہ یہ نعرہ بلندکئے ہوئے تھے کہ یارسول اللہﷺ!میراچہرہ آپ ﷺکے چہرے پرقربان ہے ، توحضورتاجدارختم نبوت ﷺاس کے ہاتھ سے کمان ہوتی تواسے فرماتے کہ تم اپنی کمان ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کو دے دواورحضورتاجدارختم نبوت ﷺجب قوم کی طرف دیکھنے لگتے توحضرت سیدناابوطلحہ رضی اللہ عنہ عرض کرتے : یارسول اللہ ﷺ!آپ ﷺ پرمیرے ماں باپ قربان !آپ ﷺاس طرف نہ دیکھیں کہ کہیں کوئی تیرآپ ﷺکو نہ لگ جائے ، میراسینہ آپ ﷺکے سینہ اقدس پرقربان ہونے کے لئے حاضرہے ۔
(نور الیقین فی سیرۃ سید المرسلین:محمد بن عفیفی الباجوری، المعروف بالشیخ الخضری :۱۲۴)

چاروں طرف سے حضورتاجدارختم نبوتﷺکادفاع

وَقَاتَلَ طَلْحَۃُ بْنُ عُبَیْدِ اللہِ یَوْمَئِذٍ عَنْ النّبِیّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قِتَالًا شَدِیدًا،فَکَانَ طَلْحَۃُ یَقُولُ:لَقَدْ رَأَیْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِینَ انْہَزَمَ أَصْحَابُہُ،وَکَرالْمُشْرِکُونَ وَأَحْدَقُوا بِالنّبِیّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ کُلّ نَاحِیَۃٍ، فَمَا أَدْرِی أَقُومُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ أَوْ مِنْ وَرَائِہِ، أَوْ عَنْ یَمِینِہِ أَوْعَنْ شِمَالِہِ، فَأَذُبّ بِالسّیْفِ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ مَرّۃً وَأُخْرَی مِنْ وَرَائِہِ حَتّی انْکَشَفُوا۔
ترجمہ :حضرت سیدناابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے احدکے دن حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی طرف سے خوب جہاد کیا۔ حضرت سیدناابوطلحہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب میں نے دیکھاکہ لوگوں کاحفاظتی گھیراحضورتاجدارختم نبوت ﷺکے گردسے ٹوٹ گیاتومشرکین پلٹ پلٹ کر ہرطرف سے حضورتاجدارختم نبوت ﷺپروارکرنے لگے ، تومجھے کوئی سمجھ نہیں آرہی تھی کہ میں حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے سامنے کھڑاہوکرآپ ﷺکادفاع کروں یاپیچھے یادائیں بائیں۔ آپ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ مبارک سے اس دن تلوارگرپڑی ، پھرجب حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے پیچھے سے آپ ﷺکادفاع کیاتو وہاں بھی ایک بارتلوارگرپڑی ، لیکن آپ رضی اللہ عنہ دلیری اورشجاعت کے ساتھ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکادفاع کرتے رہے یہاں تک کہ مشرکین دفع دورہوگئے ۔
(المغازی:محمد بن عمر بن واقد السہمی الأسلمی أبو عبد اللہ، الواقدی (ا:۲۵۴)

ناموس رسالت کے محافظ کو فرشتے آسمانو ں میں لے جاتے

عَنْ جَابِرٍ قَالَ:لَمَّا انْہَزَمَ النَّاسُ عَنْ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ أُحُدٍ بَقِیَ مَعَہُ أَحَدَ عَشَرَ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ،وَطَلْحَۃُ بْنُ عُبَیْدِ اللَّہِ وَہُوَ یَصْعَدُ فِی الْجَبَلِ،فَلَحِقَہُمُ الْمُشْرِکُونَ،فَقَالَ:أَلَا أَحَدٌ لِہَؤُلَاء ِ؟فَقَالَ طَلْحَۃُ بْنُ عُبَیْدِ اللَّہِ:أَنَا یَا رَسُولَ اللَّہِ قَالَ:کَمَا أَنْتَ یَا طَلْحَۃُ فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ:فَأَنَا یَا رَسُولَ اللَّہِ، فَقَامَ عَنْہُ،وَصَعِدَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَعَ مَنْ بَقِیَ مَعَہُ،ثُمَّ قُتِلَ الْأَنْصَارِیُّ فَلَحِقُوہُ،فَقَالَ:أَلَا أَحَدٌ لِہَؤُلَاء ِ؟فَقَالَ طَلْحَۃُ مِثْلَ قَوْلِہِ الْأَوَّلِ،وَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَہُ مِثْلَ قَوْلِہِ،فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ:أَنَا یَا رَسُولَ اللَّہِ،فَأَذِنَ لَہُ،فَقَاتَلَ مِثْلَ قِتَالِہِ وَقِتَالِ صَاحِبِہِ،وَرَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَصْعَدُ وَأَصْحَابُہُ یَصْعَدُونَ،ثُمَّ قُتِلَ،فَلَحِقُوہُ،فَلَمْ یَزَلْ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ مِثْلَ قَوْلِہِ الْأَوَّلِ، وَیَقُولُ طَلْحَۃُ:أَنَا یَا رَسُولَ اللَّہِ،فَیَحْبِسُہُ، وَیَسْتَأْذِنُہُ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ لِلْقِتَالِ،وَیَأْذَنُ لَہُ،فَیُقَاتِلُ مِثْلَ مَنْ کَانَ قَبْلَہُ،حَتَّی لَمْ یَبْقَ مَعَہُ إِلَّا طَلْحَۃُ،فَغَشَوْہُمَا،فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:مَنْ لِہَؤُلَاء ِ؟فَقَالَ طَلْحَۃُ: أَنَا،فَقَاتَلَ مِثْلَ قِتَالِ جَمِیعِ مَنْ کَانَ قَبْلَہُ،وَأُصِیبَ بَعْضُ أَنَامِلِہِ،فَقَالَ:حِسْ،فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:یَا طَلْحَۃُ،لَوْ قُلْتَ:بِسْمِ اللَّہِ،أَوْ ذَکَرْتَ اللَّہَ لَرَفَعَتْکَ الْمَلَائِکَۃُ وَالنَّاسُ یَنْظُرُونَ،حَتَّی تَلِجَ بِکَ فِی جَوِّ السَّمَاء ِ،ثُمَّ صَعِدَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَطَلْحَۃُ إِلَی أَصْحَابِہِ وَہُمْ مُجْتَمِعُونَ۔

ترجمہ:حضرت سیدناجابربن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے گردسے لوگوں کاگھیراٹوٹ گیااورآپ ﷺکے ساتھ انصارکے صرف اورصرف گیارہ آدمی اورحضرت سیدناطلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ باقی رہ گئے توحضورتاجدارختم نبوت ﷺپہاڑ پرچڑھنے لگے تو مشرکین نے پیچھے سے آلیا، حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا: کیاتم میںسے کوئی ایک ہے جو ان کاراستہ روک سکے ؟حضرت سیدناطلحہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی : یارسول اللہ ﷺ!میں ان کاراستہ روکتاہوں۔ توحضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا: تم یہاں ٹھیک ہو۔ اورایک انصاری صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کی : یارسول اللہ ﷺ!میں تیارہوں۔ تووہی انصاری رضی اللہ عنہ ان حملہ آوروں سے برسرپیکارہوگئے ، اتنے میں حضورتاجدارختم نبوت ﷺپہاڑ پرچڑھتے گئے ، کچھ دیربعد ان انصاری رضی اللہ عنہ کو شہیدکردیاگیا، پھرحضورتاجدارختم نبوت ﷺنے وہی سوال دہرایا، حضرت سیدناطلحہ رضی ا للہ عنہ نے عرض کی : یارسول اللہ ﷺ!میں ان کاراستہ روکتاہوںتوحضورتاجدارختم نبوت ﷺنے ان کو دوبار ہ صبرکرنے کی تلقین فرمائی اورایک دوسرے صحابی رضی اللہ عنہ نے ان سے لڑناشروع کردیااورحضورتاجدارختم نبوت ﷺنے اوپرچڑھناشروع کردیا، پھروہ انصاری رضی اللہ عنہ بھی شہید کردیئے گئے ، یہاں تک گیارہ کے گیارہ جانثاراپنے حبیب کریم ﷺکے دفاع میں دشمنوں کے آڑے آتے رہے اوراپنی جانوں کو حضورتاجدارختم نبوت ﷺپرقربان کرتے رہے ۔ اورحضرت سیدناطلحہ رضی اللہ عنہ ہر صحابی رضی اللہ عنہ کے آنے سے پہلے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی بارگاہ میں یہی عرض کرتے رہے کہ یارسول اللہ ﷺ!میں آپ ﷺکے دفاع کے لئے تیارہوں۔ یہاں تک کہ کفارکے اس ریلے کامقابلہ کرنے کے لئے صرف دوہی شخص رہ گئے ۔ ایک حضورتاجدارختم نبوت ﷺاوردوسرے حضرت سیدناطلحہ رضی اللہ عنہ ۔ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا: اے طلحہ !ان کے لئے کون ہے توحضرت سیدناطلحہ رضی اللہ عنہ نے پھرلبیک یارسول اللہ ﷺ!کانعرہ لگایا: پھرحضرت سیدناطلحہ رضی اللہ عنہ ان کفارکے سامنے سینہ سپرہوکر کھڑے ہوگئے اورجتنی مزاحمت ان گیارہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کی تھی اتنی حضرت سیدناطلحہ رضی اللہ عنہ نے اکیلے کی اورایک قدم بھی ان کفارکوحضورتاجدارختم نبوت ﷺکی طرف نہیں بڑھنے دیایہاں تک کہ آپ رضی اللہ عنہ کی انگلیاں شہید ہوگئیں اورہاتھ شل ہوگئے اورایک روایت میں ان الفاظ کابھی اضافہ ہے جب آپ رضی اللہ عنہ کی انگلیاں کٹیں تو حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا: اگرتم انگلیوں کے کٹنے کے وقت بسم اللہ پڑھ لیتے یااللہ تعالی کاذکرکرلیتے تو ملائکہ کرام تمھیں ابھی اٹھاکر آسمانوں میں لے جاتے اورلوگ تم کو دیکھ رہے ہوتے ، پھرحضورتاجدارختم نبوتﷺ پہاڑ پرچڑھ گئے اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی حضورتاجدارختم نبوت ﷺ گردجمع ہوگئے۔
(المعجم الأوسط:سلیمان بن أحمد بن أیوب بن مطیر اللخمی الشامی، أبو القاسم الطبرانی (۸:۳۰۴)

احدکاسارادن حضرت سیدناطلحہ رضی اللہ عنہ کے نام ہے

عَائِشَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا قَالَتْ:کَانَ أَبُو بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ إِذَا ذَکَرَ یَوْمَ أُحُدٍ بَکَی،ثُمَّ قَالَ:ذَاکَ کُلُّہُ یَوْمُ طَلْحَۃَ،ثُمَّ أَنْشَأَ یُحَدِّثُ،قَالَ:کُنْتُ أَوَّلَ مَنْ فَاء َ یَوْمَ أُحُدٍ فَرَأَیْتُ رَجُلًا یُقَاتِلُ مَعَ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دُونَہُ،وَأُرَاہُ قَالَ:یَحْمِیہِ،قَالَ:فَقُلْتُ:کُنْ طَلْحَۃَ حَیْثُ فَاتَنِی مَا فَاتَنِی،فَقُلْتُ:یَکُونُ رَجُلًا مِنْ قَوْمِی أَحَبَّ إِلَیَّ وَبَیْنِی وَبَیْنَ الْمَشْرِقِ رَجُلٌ لَا أَعْرِفُہُ،وَأَنَا أَقْرَبُ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْہُ،وَہُوَ یَخْطَفُ الْمَشْیَ خَطْفًا لَا أَخْطَفُہُ،فَإِذَا ہُوَ أَبُو عُبَیْدَۃَ بْنُ الْجَرَّاحِ،فَانْتَہَیْنَا إِلَی رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقَدْ کُسِرَتْ رَبَاعِیَتُہُ،وَشُجَّ فِی وَجْہِہِ وَقَدْ دَخَلَ فِی وَجْنَتَیْہِ حَلْقَتَانِ مِنْ حِلَقِ الْمِغْفَرِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:عَلَیْکُمَا صَاحِبَکُمَا ،یُرِیدُ طَلْحَۃَ، وَقَدْ نَزَفَ،فَلَمْ یُلْتَفَتْ إِلَی قَوْلِہِ،وَذَہَبْتُ لِأَنْزِعَ ذَاکَ مِنْ وَجْہِہِ،فَقَالَ أَبُو عُبَیْدَۃَ:أَقْسَمْتُ عَلَیْکَ بِحَقِّی لَمَا تَرَکْتَنِی،فَتَرَکْتُہُ فَکَرِہَ أَنْ یَتَنَاوَلَہُمَا بِیَدِہِ، فَیُؤْذِیَ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ،فَأَزَّمَ عَلَیْہِمَا بِفِیہِ فَاسْتَخْرَجَ إِحْدَی الْحَلْقَتَیْنِ،وَوَقَعَتْ ثَنِیَّتُہُ مَعَ الْحَلْقَۃِ، وَذَہَبْتُ لِأَصْنَعَ مَا صَنَعَ فَقَالَ:أَقْسَمْتُ عَلَیْکَ بِحَقِّی لَمَا تَرَکْتَنِی قَالَ:فَفَعَلَ مِثْلَ مَا فَعَلَ فِی الْمَرَّۃِ الْأُولَی فَوَقَعَتْ ثَنِیَّتُہُ الْأُخْرَی مَعَ الْحَلْقَۃِ فَکَانَ أَبُو عُبَیْدَۃَ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ ہَتْمًا فَأَصْلَحْنَا مِنْ شَأْنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ،ثُمَّ أَتَیْنَا طَلْحَۃَ فِی بَعْضِ تِلْکَ الْجِفَارِ فَإِذَا بِہِ بِضْعٌ وَسَبْعُونَ أَوْ أَقَلُّ أَوْ أَکْثَرُ بَیْنَ طَعْنَۃٍ وَرَمْیَۃٍ وَضَرْبَۃٍ وَإِذَا قَدْ قُطِعَتْ إِصْبَعُہُ فَأَصْلَحْنَا مِنْ شَأْنِہِ ۔(۱)
وذکر محمد بن عمرأن طلحۃ أصیب یومئذ فی رأسہ،فنزف الدم حتی غشی علیہ،فنضح أبو بکر الماء فی وجہہ حتی أفاق فقال:ما فعل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم؟فقال:خیرا،ہو أرسلنی إلیک،قال:الحمد للہ،کلّ مصیبۃ بعدہ جلل.(۲)

ترجمہ:حضرت سیدتناعائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ حضرت سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ جب بھی احد شریف کے دن کاذکرکرتے تو فرماتے کہ یہ سارے کاسارادن حضرت سیدناطلحہ رضی اللہ عنہ کے حصے میں آیا، پھراس دن کے حالات یوں بیان فرمایاکرتے تھے کہ میں ان لوگوں میں سے تھاجوحضورتاجدارختم نبوت ﷺکے پاس لوٹ کرآرہے تھے میں نے دیکھاکہ ایک شخص حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے ساتھ کھڑاحضورتاجدارختم نبوت ﷺکادفاع کررہاہے ، میں نے سوچاکہ یہ طلحہ رضی اللہ عنہ ہی ہوسکتے ہیں ، میرے درمیان اورحضورتاجدارختم نبوت ﷺکے درمیان ایک آدمی تھا، حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے زیادہ قریب میں ہی تھا، میں نے غورسے دیکھاکہ تووہ ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ تھے ، جب میں حضورتاجدارختم نبوت ﷺ کے قریب پہنچاتودیکھاتوحضورتاجدارختم نبوت ﷺکے سامنے والے چاردانت شہیدہوچکے ہیں اورچہرہ انورمیں خود کے دوحلقے گھس گئے ہیں ، میں نے رخسار مبارک سے وہ حلقے نکالنے کاارادہ کیاتوحضرت سیدناابوعبیدہ رضی اللہ عنہ میری منت سماجت کرنے لگے کہ یہ سعادت مجھے حاصل کرنے دو، انہوں نے ہاتھ سے کھینچنامناسب نہ جاناکہ کہیں حضورتاجدارختم نبوت ﷺکو تکلیف نہ ہو، اپنے دانتوں سے نکالنے لگے ، ایک حلقہ تونکل آیالیکن اس کی کوشش میں آپ رضی اللہ عنہ کے اپنے سامنے والے دودانت گرگئے،پھردوسراحلقہ بھی اپنے دانتوں سے ہی نکالالیکن سامنے والے دودانت اورگرگئے ، اگرچہ حضرت سیدناابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کے اس کوشش میں چاردانت حضورتاجدارختم نبوت ﷺپرقربان ہوگئے لیکن اس کے باوجود آپ رضی اللہ عنہ کے حسن وجمال کو چارچاندلگ گئے ۔ حضرت سیدناطلحہ رضی اللہ عنہ کاساراجسم زخموں سے چھلنی تھا، ہم نے ایک ایک زخم کو شمارکیاتوسترسے بھی زائدتھے ، جن میں کچھ تلواروں کے اورکچھ نیزوں کے اورکچھ تیروں کے زخم تھے، ان کی ایک انگلی بھی کٹ چکی تھی ، پھرہم نے ان کے زخموں کی مرہم پٹی کی ۔
حضرت سیدناطلحہ رضی اللہ عنہ کے سرپرتیروں کے بہت زیادہ زخم تھے جن سے خون بہااورآپ رضی اللہ عنہ بے ہوش ہوگئے ، حضرت سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے منہ مبارک پر پانی چھڑکاتوان کو ہوش آیاتوسب سے پہلے یہ سوال کیاکہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکاکیاحال ہے ؟ ہم نے بیان کیاکہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺبحمداللہ تعالی بخیروعافیت ہیں ، یہ سن کر اس جانبازاورسچے عاشق نے بے ساختہ کہا: اللہ تعالی کاشکرہے حضورتاجدارختم نبوت ﷺسلامت ہیں ، ہر مصیبت آپ ﷺکے ہوتے ہوئے کوئی حقیقت نہیں رکھتی ۔
(۱)مسند أبی داود الطیالسی: أبو داود سلیمان بن داود بن الجارود الطیالسی البصری (۱:۸)
(۲)سبل الہدی والرشاد:محمد بن یوسف الصالحی الشامی (۴:۱۹۹)

حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے خون مبارک کااحترام

وَکَانَ أَبُو سَعِیدٍ الْخُدْرِیّ یُحَدّثُ أَنّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُصِیبَ وَجْہُہُ یَوْمَ أُحُدٍ فَدَخَلَتْ الْحَلَقَتَانِ مِنْ الْمِغْفَرِ فِی وَجْنَتَیْہِ،فَلَمّا نُزِعَتَا جَعَلَ الدّمُ یَسْرُبُ کَمَا یَسْرُبُ الشّنّ ،فَجَعَلَ مَالِکُ بن سنان یَمْلُجُ الدّمَ بِفِیہِ ثُمّ ازْدَرَدَہُ،فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:مَنْ أَحَبّ أَنْ یَنْظُرَ إلَی مَنْ خَالَطَ دَمُہُ دَمِی فلینظر إلی مالک بن سنان فَقِیلَ لِمَالِکٍ:تَشْرَبُ الدّمَ؟ فَقَالَ:نَعَمْ، أَشْرَبُ دَمَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:مَنْ مَسّ دَمُہُ دَمِی،لَمْ تُصِبْہُ النّارُ.
ترجمہ :حضرت سیدناابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ جب خود کے حلقوں کو نکالاگیاتو حضورتاجدارختم نبوت ﷺکاخون ایسے بہاجیسے مشک کامنہ کھول دیاگیاہوتوحضرت سیدنامالک بن سنان رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کرحضورتاجدارختم نبوت ﷺکے زخم پر اپنامنہ رکھ کرچوسناشروع کردیاتوحضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا:کیاتم خون پی رہے ہو؟ توانہوں نے عرض کی : جی ہاں !یارسول اللہ ﷺ! توحضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا: جس کاخون میرے خون کے ساتھ لگ گیااس کو دوزخ کی آگ نہیں چھوئے گی ۔
(الروض الأنف:أبو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ بن أحمد السہیلی (۳:۴۲۹)

ناموس رسالت کے پہرے دارکے لئے جنت ہے

عَنْ عَلِیِّ بْنِ زَیْدٍ، وَثَابِتٍ الْبُنَانِیِّ،عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ،أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُفْرِدَ یَوْمَ أُحُدٍ فِی سَبْعَۃٍ مِنَ الْأَنْصَارِوَرَجُلَیْنِ مِنْ قُرَیْشٍ،فَلَمَّا رَہِقُوہُ،قَالَ:مَنْ یَرُدُّہُمْ عَنَّا وَلَہُ الْجَنَّۃُ؟ أَوْ ہُوَرَفِیقِی فِی الْجَنَّۃِ ، فَتَقَدَّمَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ،فَقَاتَلَ حَتَّی قُتِلَ،ثُمَّ رَہِقُوہُ أَیْضًا،فَقَالَ:مَنْ یَرُدُّہُمْ عَنَّا وَلَہُ الْجَنَّۃُ؟ أَوْ ہُوَ رَفِیقِی فِی الْجَنَّۃِ ،فَتَقَدَّمَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ،فَقَاتَلَ حَتَّی قُتِلَ،فَلَمْ یَزَلْ کَذَلِکَ حَتَّی قُتِلَ السَّبْعَۃُ،فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِصَاحِبَیْہِ:مَا أَنْصَفْنَا أَصْحَابَنَا۔

ترجمہ :حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جنگ اُحد کے دن حضورتاجدارختم نبوت ﷺ انصارصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سات اور قریش کے دو آدمیوں (حضرت سیدناسعد بن ابی وقاص اورحضرت سیدنا طلحہ بن عبیداللہ تیمی رضی اللہ عنہما)کے ساتھ (لشکر سے الگ کر کے)تنہا کر دیے گئے، جب انہوں نے آپﷺ کو گھیر لیا تو آپﷺ نے فرمایا:ان کو ہم سے کون ہٹائے گا؟ اس کے لیے جنت ہے، یا (فرمایا: )وہ جنت میں میرا رفیق ہو گا۔تو انصار میں سے ایک شخص آگے بڑھا اور اس وقت تک لڑتا رہا، یہاں تک کہ وہ شہید ہو گیا، انہوں نے پھر سے آپ ﷺکو گھیر لیا، آپ ﷺنے فرمایا:انہیں کون ہم سے دور ہٹائے گا؟ اس کے لیے جنت ہے، یا (فرمایا: )وہ جنت میں میرا رفیق ہو گا۔پھر انصار میں سے ایک شخص آگے بڑھا وہ لڑا حتی کہ شہید ہو گیا، پھر یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا حتی کہ وہ ساتوں انصاری شہید ہو گئے، پھر حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے اپنے (ان قریشی)ساتھیوں سے فرمایا:ہم نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔
(صحیح مسلم : مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشیری النیسابوری (۳:۱۴۱۵)

کفارکوبھگانے والے

ومنہم سہل بن حنیف وکان من مشاہیر الرماۃ نضح عن رسول اللہ بالنبل حتی انفرج عنہ الناس۔
ترجمہ:الشیخ الامام محمد بن عفیفی الباجوری، المعروف بالشیخ الخضری المتوفی : ۱۳۴۵ھ) رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ حضرت سیدناسہل بن حنیف رضی اللہ عنہ مشہورتیراندازوں میں سے تھے ، انہوںنے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے دفاع میں اس انداز سے تیرچلائے کہ سب مشرکین حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے پاس سے بھاگ گئے۔
(نور الیقین فی سیرۃ سید المرسلین:محمد بن عفیفی الباجوری، المعروف بالشیخ الخضری:۱۲۴)
یااللہ !ناموس رسالت کے پہرے دارسے راضی ہوجا
وَیُقْبِلُ عَبْدُ اللہِ بْنُ حُمَیْدِ بْنِ زُہَیْرٍ حین رأی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وَسَلَّمَ عَلَی تِلْکَ الْحَالِ، یَرْکُضُ فَرَسَہُ مُقَنّعًا فِی الْحَدِیدِ یَقُولُ:أَنَا ابْنُ زُہَیْرٍ، دُلّونِی علی محمّد،فو اللہ لَأَقْتُلَنہُ أَوْ لَأَمُوتَن دُونَہُ!فَتَعَرّضَ لَہُ أَبُو دُجَانَۃَ فَقَالَ:ہَلُمّ إلَی مَنْ یَقِی نَفْسَ مُحَمّدٍ بِنَفْسِہِ!فَضَرَبَ فَرَسَہُ فَعَرْقَبَہَا فَاکْتَسَعَتْ الْفَرَسُ،ثُمّ عَلَاہُ بِالسّیْف وَہُوَ یَقُولُ:خُذْہَا وَأَنَا ابْنُ خَرَشَۃَ!وَرَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَنْظُرُ إلَیْہِ یَقُولُ:اللہُمّ ارْضَ عَنْ ابْنِ خَرَشَۃَ کَمَا أَنَا عَنْہُ رَاضٍ.
ترجمہ:ایک مشرک شاہسوارعبداللہ بن حمیدبن زہیرگھوڑادوڑاتاہواحضورتاجدارختم نبوت ﷺپر حملہ کرنے کے لئے آگے بڑھا، وہ سرسے پائوں تک لوہے میں غرق تھا، آگے بڑھااورکہنے لگاکہ میں زہیرکابیٹاہوں ، مجھے محمدﷺکو شہیدکرناہے بتائو وہ کہاں ہیں؟(نعوذ باللہ من ذلک ) اللہ تعالی کی قسم !میں ان کو قتل کردوں گایاخود ماراجائوں گا۔ یہ بات جب حضرت سیدناابودجانہ رضی اللہ عنہ نے سنی توفرمایا: اے احمق وپاگل !ان کو رہنے دو، پہلے ان کے غلاموں سے دودوہاتھ کرلو۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی تلوارسے اس کے گھوڑے کی کونچیں کاٹ دیں ، دوسراواراس کے سرپرکیاتواس کو موت کی گھاٹ اتاردیااورآپ رضی اللہ عنہ فرمارہے تھے کہ میں ابن خرشہ ہوں ۔ حضورتاجدارختم نبوتﷺیہ سارامنظرملاحظہ فرمارہے تھے۔ اسی وقت حضورتاجدارختم نبوتﷺنے ان کے لئے دعاکے واسطے ہاتھ مبارک اٹھادیئے اوراللہ تعالی کی بارگاہ میں عرض کی : یااللہ ! توبھی ابودجانہ سے راضی ہوجاجس طرح میں اس سے راضی ہوں۔
(المغازی:محمد بن عمر بن واقد السہمی الأسلمی أبو عبد اللہ، الواقدی (ا:۲۴۶)

حضرت سیدناابودجانہ رضی اللہ عنہ کاناموس رسالت پرپہرہ

ومنہم أبو دجانۃ سماک بن خرشۃ الأنصاری تترّس علی رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم، فصار النبل یقع علی ظہرہ وہو منحن حتی کثر فیہ وکان یقاتل عن الرسول صلّی اللہ علیہ وسلّم زیادۃ بن السکن حتی أصابت الجراح مقاتلہ، فأمر بہ فأدنی منہ ووسدہ قدمہ ۔
ترجمہ :الشیخ الامام محمد بن عفیفی الباجوری، المعروف بالشیخ الخضری المتوفی : ۱۳۴۵ھ) رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں حضرت سیدناابودجانہ رضی اللہ عنہ میدان جنگ میں مختلف مقامات پردادشجاعت دیتے رہے لیکن جب دشمنوں نے حضورتاجدارختم نبوت ﷺپر حملہ کردیاتو یہ دوڑتے ہوئے آئے اوراس وقت وہاں پہنچے جب کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺپرچاروں طرف سے مشرکین نے تیروں کی بوچھاڑ کردی تھی ، یہ ڈھال بن کرحضورتاجدارختم نبوت ﷺکے سامنے کھڑے ہوگئے اورآنے والے تیروں کواپنے جسم پرلیتے رہے یہاں تک کہ ساراجسم تیروں سے بھرگیالیکن حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے دفاع میں یہ جانثار ایک بال برابربھی پیچھے نہیں ہٹا۔
(نور الیقین فی سیرۃ سید المرسلین:محمد بن عفیفی الباجوری، المعروف بالشیخ الخضری:۱۲۴)
حضرت سیدناعبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کاناموس رسالت پرپہرہ
وقاتل عبد الرحمن بن عوف قتالا شدیدا عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، وأصیب فوہ فہتم، وجرح عشرین جراحۃ أو أکثر، وجرح فی رجلہ، وکان یعرج منہا.
ترجمہ :اما م محمد بن یوسف الصالحی الشامی المتوفی: ۹۴۲ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ غزوہ احدشریف میں حضرت سیدناعبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے قدموں میں کھڑے ہوکرکفارکے خلاف لڑتے رہے یہاں تک کہ آپ رضی اللہ عنہ کے سامنے والے دانت ٹوٹ گئے ، آپ رضی اللہ عنہ کو بیس سے زیادہ کاری زخم لگے ، لیکن ان کے پائوں میں زرہ برابربھی لغزش نہیں آئی ، ٹانگ زخمی ہونے کی وجہ سے ساری عمر چلنے میں آپ رضی اللہ عنہ کو دقت آتی رہی۔
(سبل الہدی والرشاد:محمد بن یوسف الصالحی الشامی (۴:۲۰۰)

ناموس رسالت ﷺکے پہرے دارکااعزاز

عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِیہِ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَمَعَ لَہُ أَبَوَیْہِ یَوْمَ أُحُدٍ قَالَ:کَانَ رَجُلٌ مِنَ الْمُشْرِکِینَ قَدْ أَحْرَقَ الْمُسْلِمِینَ،فَقَالَ لَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:ارْمِ فِدَاکَ أَبِی وَأُمِّی قَالَ فَنَزَعْتُ لَہُ بِسَہْمٍ لَیْسَ فِیہِ نَصْلٌ،فَأَصَبْتُ جَنْبَہُ فَسَقَطَ،فَانْکَشَفَتْ عَوْرَتُہُ فَضَحِکَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتَّی نَظَرْتُ إِلَی نَوَاجِذِہِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعامر بن سعد رضی اللہ عنہ نے اپنے والد سے روایت کی، کہ جنگ اُحد کے دن حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے ان کے لیے ایک ساتھ اپنے ماں باپ کا نام لیا۔مشرکوں میں سے ایک شخص نے مسلمانوں کو جلا ڈالا تھا تو حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے حضرت سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے فرمایاکہ تیر چلا ؤ تم پرمیرے ماں باپ فداہوں !حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : میں نے اس کے لیے (ترکش سے ) ایک تیر کھینچا،اس کے پرَہی نہیں تھے۔میں نے وہ اس کے پہلو میں مارا تو وہ گر گیا اور اس کی شرمگاہ(بھی )کھل گئی تو (اس کے اس طرح گرنے پر)حضورتاجدارختم نبوت ﷺہنس پڑے ،یہاں تک کے مجھے آپ ﷺکی داڑھیں مبارک نظر آنے لگیں ۔آپ ﷺکھل کھلاکرہنسے۔
(صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۴:۱۸۷۶)

یہ اعزازکسی کو میسرنہیں آیاسوائے محافظ ناموس رسالت کے

وفی الشرف أن سعدا رضی اللہ عنہ رمی یوم أحد ألف سہم ما منہا سہم إلا ورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول لہ ارم فداک أبی وأمی، ففداہ فی ذلک الیوم ألف مرۃ وعن علی کرم اللہ وجہہ ما سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال فداک أبی وأمی إلا لسعد رضی اللہ عنہ وفی روایۃ فما جمع صلی اللہ علیہ وسلم أبویہ لأحد إلا لسعد رضی اللہ تعالی عنہ .
ترجمہ:حضرت سیدناسعد رضی اللہ عنہ نے احدکے دن تقریباایک ہزارتیرچلائے اوروہ جب بھی تیرچلاتے تو حضورتاجدارختم نبوت ﷺفرماتے اے سعد !تم پرمیرے ماں باپ قربان تیرچلائو، توگویاحضورتاجدارختم نبوت ﷺنے حضرت سیدناسعد رضی اللہ عنہ کواحدکے دن یہ دعاایک ہزارباردی ۔ حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ میں نے کبھی بھی حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے منہ مبارک سے نہیں سناکہ کسی کو آپﷺنے فرمایاکہ تم پرمیرے ماں باپ قربان سوائے حضرت سیدناسعد رضی اللہ عنہ کے ۔
(السیرۃ الحلبیۃ:علی بن إبراہیم بن أحمد الحلبی، أبو الفرج (۲:۳۱۲)

ناموس رسالتﷺ کے پہرے دارکو فوراًانعام سے نوازاگیا

وَرَمَی رَسُولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یومئذ عن قَوْسِہِ حَتّی صَارَتْ شَظَایَا،فَأَخَذَہَا قَتَادَۃُ بْنُ النّعْمَانِ وَکَانَتْ عِنْدَہُ وَأُصِیبَتْ یَوْمَئِذٍ عَیْنُ قَتَادَۃَ بْنِ النّعْمَانِ حَتّی وَقَعَتْ عَلَی وَجْنَتِہِ قَالَ قَتَادَۃُ بْنُ النّعْمَانِ:فَجِئْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقُلْت:إی رَسُولَ اللہِ، إنّ تَحْتِی امْرَأَۃً شَابّۃً جَمِیلَۃً أُحِبّہَا وَتُحِبّنِی وَأَنَا أَخْشَی أَنْ تَقْذَرَ مَکَانَ عَیْنِی فَأَخَذَہَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَرَدّہَا فَأَبْصَرَتْ وَعَادَتْ کَمَا کَانَتْ، فَلَمْ تَضْرِبْ عَلَیْہِ سَاعَۃً مِنْ لَیْلٍ وَلَا نَہَارٍ،وَکَانَ یَقُولُ بَعْدَ أَنْ أَسَنّ:ہِیَ وَاَللہِ أَقْوَی عَیْنَیّ!وَکَانَتْ أَحْسَنَہُمَا.
ترجمہ:امام محمد بن عمر بن واقد السہمی الأسلمی بالولاء ، المدنی، أبو عبد اللہ، الواقدی المتوفی : ۲۷۰ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں احدشریف کے دن حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے بھی اپنی کمان سے تیرچلائے یہاں تک کہ آپ ﷺکی کمان ٹیڑھی ہوگئی ، توحضرت سیدناقتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ جوکہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے قریب ہی تھے نے آپ ﷺکی کمان پکڑلی ، اسی دن حضرت سیدناقتادہ رضی اللہ عنہ کی مبارک آنکھ کو تیرلگاجوکہ بہہ کرآپ رضی اللہ عنہ کی ڈھال پر آگئی توجنگ ختم ہونے کے بعد حضرت سیدناقتادہ رضی اللہ عنہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی بارگاہ اقدس میں حاضرہوئے اورعرض کی : یارسول اللہ ﷺ!میری ایک خوبصورت اورجوان بیوی ہے ، میں اس کے ساتھ محبت کرتاہوں اوروہ مجھ سے محبت کرتی ہے ، مجھے خوف ہے کہ وہ مجھے میری آنکھ کی وجہ سے ناپسندنہ کرے ۔ تو حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے آپ رضی اللہ عنہ کی آنکھ کو پکڑااوراس کو اپنی جگہ پررکھ دیاتوایسے ہوگئی جیساکہ پہلے تھی ۔ حضرت سیدناقتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ بوڑھے ہونے کے بعد فرمایاکرتے تھے اللہ تعالی کی قسم !میری یہ آنکھ زیادہ قوی اورزیادہ خوبصورت ہے ۔
(المغازی: محمد بن عمر بن واقد السہمی الأسلمی بالولاء ، المدنی، أبو عبد اللہ، الواقدی (ا:۲۴۲)
محافظہ ناموس رسالت کااعزاز
عَنْ مُوسَی بْنِ ضَمْرَۃَ بْنِ سَعِیدٍ، عَنْ أَبِیہِ، قَالَ:أُتِیَ عُمَرُ بْنُ الْخَطّابِ بِمُرُوطٍ فَکَانَ فِیہَا مِرْطٌ وَاسِعٌ جَیّدٌ، فَقَالَ بَعْضُہُمْ:إنّ ہَذَا الْمِرْطَ لَثَمَنُ کَذَا وَکَذَا،فَلَوْ أَرْسَلْت بِہِ إلَی زَوْجَۃِ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ صَفِیّۃَ بِنْتِ أَبِی عُبَیْدٍوَذَلِک حِدْثَانَ مَا دَخَلَتْ عَلَی ابْنِ عُمَرَفَقَالَ:أَبْعَثُ بِہِ إلَی مَنْ ہُوَ أَحَقّ مِنْہَا، أُمّ عمارۃ نسیبۃ بنت کعب سَمِعْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ أُحُدٍ یَقُولُ:مَا الْتَفَتّ یَمِینًا وَلَا شمالا إلّا وأنا أراہا تقاتل دونی.
ترجمہ :حضرت سیدناموسی بن ضمرہ رضی اللہ عنہ اپنے والد ماجد رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ کوئی علاقہ فتح ہواتووہاں سے باقی سامان کے ساتھ ساتھ کچھ کپڑے بھی آئے جوکہ بہت قیمتی تھے!ان میں دوپٹے تھے۔ جن پر عمدہ کام کیا گیا تھا۔ خوب صورت چادریں تھیں۔ ایک چادر تو بہت ہی حسین تھی۔یہ تمام سامان اسلامی مملکت کے دارالخلافہ میں مال غنیمت کے طور پر پہنچایا گیاتھا۔ یعنی یہ سامان کسی جنگ میں مسلمانوں کو فتح حاصل ہونے پر ملا تھااور اسے اس جنگ میں حصہ لینے والے سپاہیوں نے خود نہیں رکھ لیا تھا بلکہ دیانت داری سے دارالخلافہ بھیج دیا تھا تاکہ اسلامی حکومت شریعت کے مطابق اس سامان کو تقسیم کردے۔
اس وقت یہ قیمتی کپڑے اسلامی مملکت کے سربراہ کے سامنے پھیلے ہوئے تھے اور ایک خوش نما اور دلکش چادر ان سب میں نمایاں تھی۔سربراہ مملکت کے قریب کچھ لوگ بھی موجود تھے۔ ان میں سے ایک شخص نے مشورہ دیا :امیر المومنین یہ چادر آپ اپنے بیٹے عبداللہ کی بیوی صفیہ بنت ابی عبید کو دے دیں۔ انہوں نے کہا :میں یہ چادر ان خاتون کو دوں گا جو میری بہو صفیہ بنت ابی عبید سے زیادہ اس کی حقدار ہیں۔یعنی ام عمارہ بنت کعب رضی اللہ عنہا۔کیونکہ میں نے غزوئہ احد کے بعدحضورتاجدارختم نبوتﷺکو یہ فرماتے سنا ہے:میں نے جنگ میں جب بھی اپنے دائیں بائیں دیکھا نسیبہ بنت کعب رضی اللہ عنہاکو میرا دفاع کرتے ہوئے پایا۔وہ میری جان بچانے کے لیے لڑرہی تھیں۔امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے وہ چادر امِ عمارہ بنت کعب رضی اللہ عنہا کو بھجوادی۔
(المغازی:محمد بن عمر بن واقد السہمی الأسلمی بالولاء ، المدنی، أبو عبد اللہ، الواقدی (ا:۲۴۲)
محافظہ ناموس رسالت کو جنت کی رفاقت کی خوشخبری عطافرمائی
قَالَ الْوَاقِدِیّ:حَدّثَنِی ابْنُ أَبِی سَبْرَۃَ،عَنْ عَبْدِ الرّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللہِ ابن أبی صعصعۃ،عن الحارث بن عبد اللہ، قال:سمعت عبد اللہ بن زید ابن عاصم یقول:شہدت أحدا مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فَلَمّا تَفَرّقَ النّاسُ عَنْہُ دَنَوْت مِنْہُ،وَأُمّی تَذُبّ عَنْہُ، فَقَالَ:یَا ابْنَ أُمّ عُمَارَۃَ!قُلْت:نَعَمْ قَالَ:ارْمِ!فَرَمَیْت بَیْنَ یَدَیْہِ رَجُلًا مِنْ الْمُشْرِکِینَ بِحَجَرٍ،وَہُوَ عَلَی فَرَسٍ،فَأَصَبْت عَیْنَ الْفَرَسِ فَاضْطَرَبَ الْفَرَسُ حَتّی وَقَعَ ہُوَ وَصَاحِبُہُ،وَجَعَلْت أَعْلُوہُ بِالْحِجَارَۃِ حَتّی نَضَدْت عَلَیْہِ مِنْہَاوِقْرًا وَالنّبِیّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَنْظُرُ وَیَتَبَسّمُ، فَنَظَرَ إلَی جُرْحٍ بِأُمّی علی عاتقہا فقال:أمّک، أمّک!اعْصِبْ جُرْحَہَا،بَارَکَ اللہُ عَلَیْکُمْ مِنْ أَہْلِ بَیْتٍ! مُقَامُ أُمّک خَیْرٌ مِنْ مُقَامِ فُلَانٍ وَفُلَانٍ،وَمُقَامُ رَبِیبِک یَعْنِی زَوْجَ أُمّہِ خَیْرٌ مِنْ مُقَامِ فُلَانٍ وَفُلَانٍ، وَمُقَامُک لَخَیْرٌ مِنْ مُقَامِ فُلَانٍ وَفُلَانٍ، رَحِمَکُمْ اللہُ أَہْلَ الْبَیْتِ!قَالَتْ:اُدْعُ اللہَ أَنْ نُرَافِقَک فِی الْجَنّۃِ قَالَ:اللہُمّ اجْعَلْہُمْ رُفَقَائِی فِی الْجَنّۃِقَالَتْ:مَا أُبَالِی مَا أَصَابَنِی مِنْ الدّنْیَا.
ترجمہ :امام واقدی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ حضرت سیدناحارث بن عبداللہ نے عبداللہ بن زید بن عاصم رضی اللہ عنہم کو کہتے ہوئے سناکہ میں غزوہ احدمیں حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے ساتھ شریک تھا، جب لوگ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی قرب سے دورہوگئے تو میں اپنی والدہ ماجدہ رضی اللہ عنہماکے ساتھ ملکرحضورتاجدارختم نبوت ﷺکادفاع کرنے لگا،چنانچہ آپﷺنے فرمایا: اے ابن ام عمارہ !میں نے عرض کی : لبیک یارسول اللہ ﷺ!فرمایا: تیرپھینکو!چنانچہ میں نے آپ ﷺکے سامنے کھڑے ہوکرایک مشرک کی طرف پتھرپھینکاجواس کے گھوڑے کی آنکھ پر جالگااورگھوڑے کے بدکنے سے گھوڑے سمیت وہ زمین پرجاگرا، پھرمیں نے اس پر پتھروں کی بارش شروع کردی اورحضورتاجدارختم نبوت ﷺمجھے دیکھ کر مسکرارہے تھے ، اتنے میں آپﷺکی نظرمیری والدہ ماجدہ کے کندھے پر آئے ہوئے زخم پر پڑی توآپ ﷺنے فرمایا: اپنی والدہ کی پٹی کروتمھارے پورے گھرانے پر اللہ تعالی کی برکات کانزول ہو۔ تمھاری ماں کامقام فلاں فلاں سے بلندہے ۔ اورتمھارے سوتیلے باپ کامقام ومرتبہ فلاں فلاں آدمی سے بہترہے اورتمھارااپنامقام فلاں آدمی سے بلندہے ۔ حضرت سیدتناام عمارہ رضی اللہ عنہاحضورتاجدارختم نبوت ﷺکی بارگاہ اقدس میں عرض کرنے لگیں : یارسول اللہ ﷺ!دعافرمائیں کہ ہم جنت میں بھی آپ ﷺکی غلامی میں رہیں ۔ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے اللہ تعالی کی بارگاہ میں عرض کی : !اے اللہ !ان کو جنت میں میرارفیق بنادے ، ام عمارہ رضی اللہ عنہااس کے بعد فرماتی تھیں کہ اس دعاکے بعد دنیاکے کسی غم اورکسی تکلیف کی کوئی پرواہ ہی نہیں رہی۔
(المغازی:محمد بن عمر بن واقد السہمی الأسلمی بالولاء ، المدنی، أبو عبد اللہ، الواقدی (ا:۲۷۲)
اللہ تعالی نے تمھاری آنکھیں ٹھنڈی فرمادیں
وَحَدّثَنِی ابْنُ أَبِی سَبْرَۃَ،عَنْ عَمْرِو بْنِ یَحْیَی،عَنْ أَبِیہِ،عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ زَیْدٍ،قَالَ:جُرِحْت یَوْمَئِذٍ جُرْحًا فِی عضدی الیسری،ضربنی رجل کأنہ الرّقل وَلَمْ یَعْرُجْ عَلَیّ وَمَضَی عَنّی،وَجَعَلَ الدّمُ لَا یَرْقَا،فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:اعْصِبْ جُرْحَک فَتَقْبَلُ أُمّی إلَیّ وَمَعَہَا عَصَائِبُ فِی حَقْوَیْہَا قَدْ أَعَدّتْہَا لِلْجِرَاحِ، فَرَبَطَتْ جُرْحِی وَالنّبِیّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاقِفٌ یَنْظُرُ،ثُمّ قَالَتْ:انْہَضْ یَا بُنَیّ فَضَارِبْ الْقَوْمَ فَجَعَلَ النّبِیّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:وَمَنْ یُطِیقُ مَا تُطِیقِینَ یَا أُمّ عُمَارَۃَ؟ قَالَتْ:وَأَقْبَلَ الرّجُلُ الّذِی ضَرَبَنِی،فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:ہَذَا ضَارِبُ ابْنِک قَالَتْ:فَأَعْتَرِضُ لَہُ فَأَضْرِبُ سَاقَہُ فَبَرَکَ، فَرَأَیْت رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَبَسّمَ حَتّی بَدَتْ نَوَاجِذُہُ، ثُمّ قَالَ:اسْتَقَدْتِ یَا أُمّ عُمَارَۃَ!ثُمّ أَقْبَلْنَا إلَیْہِ نَعْلُوہُ بِالسّلَاحِ حَتّی أَتَیْنَا عَلَی نَفَسِہِ قَالَ النّبِیّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:الْحَمْدُ لِلّہِ الّذِی ظَفّرَک وَأَقَرّ عَیْنَک مِنْ عَدُوّک،وَأَرَاک ثَأْرَک بِعَیْنِک.
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن زیدرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ غزوہ احدکے دن مجھے بائیں بازوپرزخم آیا، مجھ پرایک مشرک حملہ آورہوااورتیزی سے گزرگیا، جیسے وہ قریب ہی نہ آیاہواورمیراخون مسلسل بہنے لگا، حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا: اپنے زخم پرپٹی باندھو، میری والدہ اپنے پہلومیں کئی پٹیاں لئے ہوئے میرے پاس آئیں ، یہ پٹیاں انہوںنے زخموں پرباندھنے کے لئے تیارکررکھی تھیں ، انہوںنے پٹی کی اور حضورتاجدارختم نبوت ﷺکھڑے دیکھ رہے تھے ، پھرفرمانے لگے : اٹھوبیٹااورجہاد کرو! حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا: اے ام عمارہ !تیری مثل لڑائی کرنے کی طاقت اوراہلیت کسی میں نہیں ۔ ام عمارہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ اس دوران ایک آدمی نمودارہوا، جس نے مجھ پر حملہ کیاتھا، حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا: یہ ہے وہ شخص جس نے تمھارے بیٹے پر حملہ کیاتھا، فرماتی ہیں کہ میں تلوارلئے سامنے آگئی اوراس کے اونٹ کی پنڈلی پروارکیا، اس کااونٹ بیٹھ گیا، پھرمیں نے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکو دیکھاتوآپ ﷺمسکرارہے ہیں ۔ حتی کہ آپ ﷺکی داڑھیں مبارک نظرآنے لگیں ، پھرآپﷺنے فرمایا: اے ام عمارہ !تم نے بدلہ لے لیاہے ، پھرہم اسلحہ لے کراس پرچڑھ دوڑے اوراس کاکام تمام کردیا، حضورتاجدارختم نبو تﷺنے فرمایا: تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لئے ہیں جس نے تم کو دشمن پرکامیابی عطافرمائی اورآنکھوں دیکھاانتقام لے کرتمھاری آنکھیں ٹھنڈی فرمائیں۔
(المغازی:محمد بن عمر بن واقد السہمی الأسلمی بالولاء ، المدنی، أبو عبد اللہ، الواقدی (ا:۲۷۱)
گستاخ کو قتل کرنے کے بعد سجدہ شکرکیا
فَکَانَتْ أُمّ سَعْدٍ بِنْتُ سَعْدِ بْنِ رَبِیع تَقُولُ:دَخَلْت عَلَیْہَا فَقُلْت لَہَا:یَا خَالَۃِ،حَدّثِینِی خَبَرَک فَقَالَتْ:خَرَجْت أَوّلَ النّہَارِ إلَی أُحُدٍ، وَأَنَا أَنْظُرُ مَا یَصْنَعُ النّاسُ، وَمَعِی سِقَاء ٌ فِیہِ مَاء ٌ، فَانْتَہَیْت إلَی رَسُولِ اللہِ صلّی اللہ علیہ وسلّم وہو فی أصحابہ، والدّولۃ والریح لِلْمُسْلِمِینَ فَلَمّا انْہَزَمَ الْمُسْلِمُونَ انْحَزْت إلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ،فَجَعَلْت أُبَاشِرُ القتال وأدبّ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بِالسّیْفِ وَأَرْمِی بِالْقَوْسِ حَتّی خَلَصَتْ إلَیّ الْجِرَاحُ فَرَأَیْت عَلَی عَاتِقِہَا جُرْحًا لَہُ غَوْرٌ أَجْوَفُ ،فَقُلْت:یَا أُمّ عُمَارَۃَ، مَنْ أَصَابَک بِہَذَا؟قَالَتْ:أَقْبَلَ ابْنُ قَمِیئَۃَ،وَقَدْ وَلّی النّاسُ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،یَصِیحُ:دُلّونِی عَلَی مُحَمّدٍ،فَلَا نَجَوْت إنْ نَجَا!فَاعْتَرَضَ لَہُ مُصْعَبُ بْنُ عُمَیْرٍ وَأُنَاسٌ مَعَہُ،فَکُنْت فِیہِمْ، فَضَرَبَنِی ہَذِہِ الضّرْبَۃَ،وَلَقَدْ ضَرَبْتہ عَلَی ذَلِکَ ضَرَبَاتٍ،وَلَکِنّ عَدُوّ اللہِ کَانَ عَلَیْہِ دِرْعَانِ قُلْت:یَدَکِ، مَا أَصَابَہَا؟ قَالَتْ:أُصِیبَتْ یَوْمَ الْیَمَامَۃِ لَمّا جَعَلَتْ الْأَعْرَابُ یَنْہَزِمُونَ بِالنّاسِ،نَادَتْ الْأَنْصَارُ:أَخْلِصُونَا ،فَأُخْلِصَتْ الْأَنْصَارُ،فَکُنْت مَعَہُمْ،حَتّی انْتَہَیْنَا إلَی حَدِیقَۃِ الْمَوْتِ،فَاقْتَتَلْنَا عَلَیْہَا سَاعَۃً حَتّی قُتِلَ أَبُو دُجَانَۃَ عَلَی بَابِ الْحَدِیقَۃِ،وَدَخَلْتہَا وَأَنَا أُرِیدُ عَدُوّ اللہِ مُسَیْلِمَۃَ،فَیَعْتَرِضُ لِی رَجُلٌ مِنْہُمْ فَضَرَبَ یدی فقطعہا،فو اللہ مَا کَانَتْ لِی نَاہِیَۃً وَلَا عَرّجْت عَلَیْہَا حَتّی وَقَفْت عَلَی الْخَبِیثِ مَقْتُولًا،وَابْنِی عَبْدُ اللہِ بْنُ زَیْدٍ الْمَازِنِیّ یَمْسَحُ سَیْفَہُ بِثِیَابِہِ فَقُلْت:قَتَلْتہ؟ قَالَ:نَعَمْ فَسَجَدْت شُکْرًا لِلّہِ.
ترجمہ :حضرت ام سعید بنت سعدبن الربیع رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ میں حضرت سیدتناام عمارہ رضی اللہ عنہاکے پاس آئی اورمیں نے کہا: اے خالہ ! اپنے بارے میں خبردیں ۔ فرمانے لگیں کہ میں شروع دن میں احدگئی اورلوگوں کی کارکردگی دیکھی ، میرے پاس مشکیزے میں پانی تھا، میں وہ پانی لیکر حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی بارگاہ اقدس میں حاضرہوئی ،آپ ﷺاپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان تشریف فرماتھے ، اس وقت فتح اہل اسلام کے ہاتھوں میں تھی ، جب مسلمان ہزیمت سے دوچارہوئے تومیں حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی جانب چلی گئی اورقتال کرنے لگی ، کبھی میں تلوارچلاکر حضورتاجدارختم نبوت ﷺکادفاع کرتی توکبھی تیراندازی سے حتی کہ میں زخمی ہوگئی ،راویہ کہتی ہیں کہ میں نے حضرت سیدتناام عمارہ رضی اللہ عنہاکے کندھے پرایک گہرازخم دیکھا، میں نے عرض کی : اے خالہ !یہ زخم کس نے پہنچایاہے ؟ توفرمانے لگیں جب یہ تمام لوگ حضورتاجدارختم نبوت ﷺسے دورہوگئے توابن قمئہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی طرف بڑھااوربکواس کرنے لگاکہ محمد(ﷺ) کے بارے میں بتلائو، اگروہ آج بچ کرنکل گئے تومیں نہیں بچ سکوں گا۔ حضرت سیدنامصعب بن عمیررضی اللہ عنہ کچھ اورلوگ بھی ان کے ساتھ تھے ، میں بھی انہیں لوگوں میں شامل تھی ، ابن قمئہ نے مجھ پر حملہ کیااورمیں نے اس پر کئی حملے کئے مگراللہ تعالی کادشمن دوزرہیں پہنے ہوئے تھا۔ میں نے عرض کی : اے خالہ! آپ کاہاتھ کیسے زخمی ہوگیا؟ توفرمانے لگیں جنگ یمامہ میں زخمی ہواجب بدولوگ شکست کھاگئے تو انصارکرام رضی اللہ عنہم نے آواز لگائی کہ ہمیں بچائو، پھران کو بچابھی لیاگیا، میں بھی ان کے ساتھ تھی ۔ دوران جنگ ایک بار ہم موت کے دہانے پہنچ گئے تھے ، ایک وقت تک ہم قتال کرتے رہے ،حتی کہ حضرت سیدناابودجانہ رضی اللہ عنہ باغ کے دروازے پر شہید کردیئے گئے ، میں بھی اسی باغ میں دشمنِ خدامسیلمہ کذاب کو قتل کرنے کے ارادہ سے داخل ہوئی مگرایک آدمی میرے سامنے نمودارہوااوراس نے میراہاتھ کاٹ کر الگ کردیا، مگرخداتعالی کی قسم !یہ کٹاہواہاتھ مجھے قتال سے روک نہ سکا۔ اورنہ ہی جنگ سے پھیرسکا، یہاں تک کہ میں نے دیکھاکہ وہ مردارہوچکاہے اورمیرابیٹاعبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ المازنی اس کے کپڑوں سے تلوارپونچھ رہاتھا۔ میں نے کہا: کیاتم نے اس کو قتل کردیاہے؟ تواس نے کہا: جی ہاں ۔ میں وہاں سجدہ شکربجالائی۔
(المغازی:محمد بن عمر بن واقد السہمی الأسلمی بالولاء ، المدنی، أبو عبد اللہ، الواقدی (ا:۲۷۱)
حضورتاجدارختم نبوت ﷺخیریت سے ہیں توپھرکسی کی کوئی پرواہ نہیں
نْ ثَابِتٍ الْبُنَانِیِّ،عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ،قَالَ:لَمَّا کَانَ یَوْمُ أُحُدٍ حَاصَ أَہْلُ الْمَدِینَۃِ حَیْصَۃً وَقَالُوا:قُتِلَ مُحَمَّدٌ حَتَّی کَثُرَتِ الصَّوَارِخُ فِی نَوَاحِی الْمَدِینَۃِ فَخَرَجَتِ امْرَأَۃٌ مِنَ الْأَنْصَارِ فَاسْتُقْبِلَتْ بِأَخَیہَا وَابْنِہَا وَزَوْجِہَا وَأَبِیہَا لَا أَدْرِی بِأَیِّہِمُ اسْتُقْبِلَتْ أَوَّلًا فَلَمَّا مَرَّتْ عَلَی آخِرِہِمْ قَالَتْ:مَنْ ہَذَا؟ قَالُوا:أَخُوکِ وَأَبُوکِ وَزَوْجُکِ وَابْنُکِ قَالَتْ:مَا فَعَلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَیَقُولُونَ:أَمَامَکَ حَتَّی ذَہَبَتْ إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَأَخَذَتْ بِنَاحِیَۃِ ثَوْبِہِ ثُمَّ جَعَلَتْ تَقُولُ:بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی یَا رَسُولَ اللہِ لَا أُبَالِی إِذَا سَلِمْتَ مَنْ عَطِبَ۔
ترجمہ :حضرت سیدناثابت بنانی رضی اللہ عنہ حضرت سیدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت فرماتے ہیں کہ غزوہ احدکے دن اہل مدینہ منورہ میں کھلبلی مچ گئی اورمدینہ منورہ میں ہرطرف آوازیں بلندہونے لگیں کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکوشہیدکردیاگیاہے ، انصارصحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ایک خاتون نکلی ، انہوں نے اپنے بھائی ، بیٹے ، خاونداوروالدماجد کی لاشیں دیکھیں جو کہ شہید ہوچکے تھے لیکن وہ نہ جانتی تھیں کہ پہلے کس کے پاس سے گزریں جب آخری شہیدکے پاس سے گزریں کہ یہ کون ہیں؟ لوگوں نے بتایاکہ یہ تیرابھائی ہے ، والد ، تیراشوہراورتیرابیٹاہے ، اس نے کہا: حضورتاجدارختم نبوتﷺکس حال میں ہیں ؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بتایاکہ کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺسامنے کی جانب تشریف فرماہیں ، چنانچہ وہ مائی صاحبہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے پاس پہنچیں اوردامن مبارک پکڑکرعرض کرنے لگیں : یارسول اللہ ﷺ!میرے ماں باپ آپ ﷺپرقربان !آپ سلامت ہیں تومجھے کسی کی پرواہ نہیں ہے ۔
(حلیۃ الأولیاء :أبو نعیم أحمد بن عبد اللہ بن أحمد بن إسحاق بن موسی بن مہران الأصبہانی (۲:۷۲)
آپ ﷺسلامت ہیں تو پھرہرمصیبت ہیچ ہے
وَعَنِ ابن إِسْحَاق أَنَّ امْرَأَۃً مِنَ الْأَنْصَارِ قُتِلَ أبُوہاوأخُوہا وَزَوْجُہَا یوم أحُدٍ مَعَ رَسُول اللَّہ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ مَا فَعَلَ رَسُولُ اللَّہ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟قَالُوا خَیْرًا ہُوَ بِحَمْدِ اللَّہ کَمَا تُحِبّینَ قَالَتْ أَرِنیہِ حَتَّی أنْظُرَ إلیْہِ فَلَمّا رَأَتْہُ قَالَتْ کُلُّ مُصِیبَۃٍ بَعْدَکَ جَلَلٌ۔
ترجمہ :حضرت سیدنااسماعیل بن محمدبن سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں کہ انصارصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک خاتون جو کہ قبیلہ بنی ذبیان کی تھی اورایک روایت میں یہ ہے کہ اس کاتعلق بنی دینارسے تھا، اس کے شوہراوربھائی احدمیں شہیدہوگئے ، جب ان کو خبردی گئی توفرمانے لگیں کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکاکیاحال ہے ؟ توصحابہ کرا م رضی اللہ عنہم نے بتایاکہ وہ خیریت سے ہیں ، انہوںنے کہا: مجھے دکھائو، میں آپ ﷺکو دیکھناچاہتی ہوں تولوگوں نے اس خاتون کے لئے حضورتاجدارختم نبو ت ﷺکی طرف اشارہ کیا، جب اس نے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکودیکھاتوعرض کرنے لگیں : یارسول اللہ ﷺ!آپ ﷺکے ہوتے ہوئے ہر مصیبت ہیچ ہے ۔
(الشفا بتعریف حقوق المصطفی :أبو الفضل القاضی عیاض بن موسی الیحصبی (۲:۲۲)
غزوہ احدمیں بکرے کاگستاخ کو قتل کرنا
عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ،أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ رَمَاہُ عَبْدُ اللہِ بْنُ قَمِئَۃَ بِحَجَرٍ یَوْمَ أُحُدٍ، فَشَجَّہُ فِی وَجْہِہِ، وَکَسَرَ رَبَاعِیَّتُہُ،وَقَالَ خُذْہَا وَأَنَا ابْنُ قَمِئَۃَ، فَقَالَ لَہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ وَہُوَ یَمْسَحُ الدَّمَ عَنْ وَجْہِہِ:مَا لَکَ، أَقْمَأَکَ اللہُ فَسَلَّطَ اللہُ عَلَیْہِ تَیْسَ جَبَلٍ ،لَا تَیْسَ، فَلَمْ یَزَلْ یَنْطَحُہُ حَتَّی قَطَعَہُ قِطْعَۃً قِطْعَۃً۔
ترجمہ :حضرت سیدناابوامامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ غزوہ احدمیں حضورتاجدارختم نبوت ﷺکو عبداللہ بن قمئہ ملعون نے ایک پتھرمارا، جس سے حضورتاجدارختم نبوتﷺکاچہرہ مبارک زخمی ہوگیااورحضورتاجدارختم نبوتﷺکے دندان مبارک شہیدہوگئے ، تووہ کہنے لگاکہ اس کو پکڑیں میں ابن قمئہ ہوں ، توحضورتاجدارختم نبوتﷺاس وقت اپنے چہرہ مبارک سے خون صاف فرمارہے تھے ۔ فرمانے لگے کہ تمھیں کیاہے ؟ اللہ تعالی تجھے ذلیل کرے ۔ پس اللہ تعالی نے حضورتاجدارختم نبوتﷺکی دعااسی وقت قبول فرمائی اوراس پرپہاڑی بکرامسلط فرمادیاتواس بکرے نے اس کو سینگھ مارمارکراس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے۔
(المعجم الکبیر:سلیمان بن أحمد بن أیوب بن مطیر اللخمی الشامی، أبو القاسم الطبرانی (۸:۳۲۰)
حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے دین کے دفاع میں لڑنابھی ناموس رسالت کادفاع ہے
قَالُوا:وَمَرّ مَالِکُ بْنُ الدّخْشُمِ عَلَی خَارِجَۃَ بْنِ زَیْدِ بْنِ أَبِی زُہَیْرٍ،وَہُوَ قَاعِدٌ فِی حَشْوَتِہِ بِہِ ثَلَاثَۃَ عَشَرَ جُرْحًا،کُلّہَا قَدْ خَلَصَتْ إلَی مَقْتَلٍ،فَقَالَ:أَمَا عَلِمْت أَنّ مُحَمّدًا قَدْ قُتِلَ؟قَالَ خَارِجَۃُ:فَإِنْ کَانَ قَدْ قُتِلَ فَإِنّ اللہَ حَیّ لَا یَمُوتُ،فَقَدْ بَلّغَ مُحَمّدٌ،فَقَاتِلْ عَنْ دِینِک!وَمَرّ عَلَی سَعْدِ بْنِ الرّبِیعِ وَبِہِ اثْنَا عَشَرَ جُرْحًا،کُلّہَا قَدْ خَلَصَ إلَی مَقْتَلٍ،فَقَالَ:عَلِمْت أَنّ مُحَمّدًا قَدْ قُتِلَ؟ قَالَ سَعْدُ بْنُ الرّبِیعِ:أَشْہَدُ أَنّ مُحَمّدًا قَدْ بَلّغَ رِسَالَۃَ رَبّہِ، فَقَاتِلْ عَنْ دِینِک، فَإِنّ اللہَ حَیّ لَا یَمُوتُ۔
ترجمہ :حضرت سیدنامالک بن دخشم رضی اللہ عنہ حضرت سیدناخارجہ بن زید رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے ان کو تیرہ زخم لگے ہوئے تھے ، ان میں سے ہرزخم موت تک پہنچانے والاتھا، یعنی بہت گہرازخم تھا، حضرت سیدنامالک بن دخشم رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: کیاآپ کو معلوم نہیں ہے کہ محمدﷺشہیدہوگئے ہیں؟ توحضرت سیدناخارجہ بن زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگرخدانخواستہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺشہید ہوبھی گئے ہیں تو اللہ تعالی توزندہ ہیں ، اس کو موت نہیں آئے گی ، بے شک حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے ہم تک دین پہنچادیا، تم اپنے دین کے لئے جہاد کرو، اسی طرح حضرت سیدنامالک بن دخشم رضی اللہ عنہ حضرت سیدناسعد بن الربیع رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے توآپ رضی اللہ عنہ کو بارہ گہرے زخم لگے ہوئے تھے ، ان سے کہاکہ کیاآپ کو معلوم نہیں کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺشہیدہوگئے ہیں ؟ توانہوںنے جوا ب دیاکہ میں گواہی دیتاہوں کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے ہم تک اللہ تعالی کادین پہنچادیالھذاتم اپنے دین کے لئے جہاد کرو، بے شک ہماراخداتعالی زندہ ہے اس کو موت نہیں آئے گی ۔
(المغازی:محمد بن عمر بن واقد السہمی الأسلمی بالولاء ، المدنی، أبو عبد اللہ، الواقدی (ا:۲۸۰)
حضرت سیدنامالک بن دخشم رضی اللہ عنہ کایہ کہنااب کیوں لڑرہے ہو؟ حضورتاجدارختم نبوت ﷺتوشہیدہوچکے ہیں ۔ اس بات کی بین دلیل ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے دفاع کے لئے لڑرہے تھے اورانہوںنے اس بات سے یہ ظاہرکیاکہ پہلے حضورتاجدارختم نبوت ﷺبعد میں حضورتاجدارختم نبوت ﷺکادین ۔ یعنی جب تک حضورتاجدارختم نبوت ﷺموجود ہیں ان کادفاع کیاجائے گا، جب آپ ﷺاس دنیامیں نہیں رہیں گے توآپ ﷺکے دین کی حفاظت کی صورت میں آپ ﷺکادفاع ہوگا۔ اسی لئے ہی توصحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جواب میں کہا: اگرخدانخواستہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺشہیدبھی ہوگئے ہیں توہم اب آپ ﷺکے دین کے لئے لڑیں گے اورجب تک غلبہ اسلام نہیں ہوجاتاتب تک لڑتے رہیں گے ۔
دنیاسے جاتے ہوئے بھی ناموس رسالتﷺ پر پہرہ
عَنْ أَبِی حَازِمٍ، عَنْ خَارِجَۃَ بْنِ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِیہِ،قَالَ:بَعَثَنِی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ أُحُدٍ لِطَلَبِ سَعْدِ بْنِ الرَّبِیعِ،وَقَالَ لِی:إِنْ رَأَیْتَہُ فَأَقْرِئْہُ مِنِّی السَّلَامَ،وَقُلْ لَہُ:یَقُولُ لَکَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:کَیْفَ تَجِدُکَ؟قَالَ:فَجَعَلْتُ أَطُوفُ بَیْنَ الْقَتْلَی فَأَصَبْتُہُ وَہُوَ فِی آخِرِ رَمَقٍ،وَبِہِ سَبْعُونَ ضَرْبَۃً مَا بَیْنَ طَعْنَۃٍ بِرُمْحٍ،وَضَرْبَۃٍ بِسَیْفٍ،وَرَمْیَۃٍ بِسَہْمٍ، فَقُلْتُ لَہُ:یَا سَعْدُ، إِنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقْرَأُ عَلَیْکَ السَّلَامَ،وَیَقُولُ لَکَ:أَخْبِرْنِی کَیْفَ تَجِدُکَ؟ قَالَ:عَلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَعَلَیْکَ السَّلَامُ، قُلْ لَہُ:یَا رَسُولَ اللہِ،أَجِدُ رِیحَ الْجَنَّۃِ،وَقُلْ لِقَوْمِیَ الْأَنْصَارِ:لَا عُذْرَ لَکُمْ عِنْدَ اللہِ إِنْ خُلِصَ إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَفِیکُمْ شُفْرٌ یَطْرِفُ،قَالَ:وَفَاضَتْ نَفْسُہُ رَحِمَہُ اللہُ ۔
ترجمہ :حضرت سیدناخارجہ بن زیدرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ان کے والد محترم حضرت سیدنازیدبن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ مجھے حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے احدکے دن حضرت سیدناسعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کی خبرلینے کے لئے بھیجااورمجھے فرمایا: کہ اگرتم ان کو دیکھوتو ان کو میری طرف سے سلام کہنااوران سے کہناکہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺپوچھ رہے ہیں کہ تمھاراکیاحال ہے؟حضرت سیدنازیدبن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں احدمیں شہداء کرام میں گھومنے لگاتاکہ حضرت سیدناسعد رضی اللہ عنہ کاپتہ لگائوں تومجھے حضرت سیدناسعد رضی اللہ عنہ مل گئے جو اس وقت زندگی کی آخری سانسیں لے رہے تھے ، آپ رضی اللہ عنہ کو نیزوں اورتلواروں اورپتھروں کے سترزخم لگے ہوئے تھے تومیں نے ان سے کہاکہ اے سعد !تم کو حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے سلام بھیجاہے اورحضورتاجدارختم نبوت ﷺپوچھ رہے ہیں کہ تیراکیاحال ہے ؟ توحضرت سیدناسعد رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺپرسلام ہواورتم پربھی سلام ہو، تم حضورتاجدارختم نبوت ﷺکومیری طرف سے عرض کرناکہ میں جنت کی خوشبومحسوس کررہاہوں اورمیری قوم انصارکو یہ پیغام دیناکہ اگرتم نے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکواکیلاچھوڑدیاتوتم اللہ تعالی کی بارگاہ میں کوئی عذرپیش نہیں کرسکوگے ۔
(دلائل النبوۃ:أحمد بن الحسین بن علی بن موسی الخُسْرَوْجِردی الخراسانی، أبو بکر البیہقی (۳:۲۴۸)
حضرت سیدناانس بن نضررضی اللہ عنہ کاناموس رسالت پر پہرہ
حَدَّثَنِی حُمَیْدٌ الطَّوِیلُ،عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ،قَالَ:غَابَ عَمِّی أَنَسُ بْنُ النَّضْرِ عَنْ قِتَالِ بَدْرٍ، فَقَالَ:یَا رَسُولَ اللَّہِ غِبْتُ عَنْ أَوَّلِ قِتَالٍ قَاتَلْتَ المُشْرِکِینَ،لَئِنِ اللَّہُ أَشْہَدَنِی قِتَالَ المُشْرِکِینَ لَیَرَیَنَّ اللَّہُ مَا أَصْنَعُ، فَلَمَّا کَانَ یَوْمُ أُحُدٍ،وَانْکَشَفَ المُسْلِمُونَ، قَالَ:اللَّہُمَّ إِنِّی أَعْتَذِرُ إِلَیْکَ مِمَّا صَنَعَ ہَؤُلاَء ِ یَعْنِی أَصْحَابَہُ وَأَبْرَأُ إِلَیْکَ مِمَّا صَنَعَ ہَؤُلاَء ِ،یَعْنِی المُشْرِکِینَ ثُمَّ تَقَدَّمَ، فَاسْتَقْبَلَہُ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ،فَقَالَ:یَا سَعْدُ بْنَ مُعَاذٍ، الجَنَّۃَ وَرَبِّ النَّضْرِ إِنِّی أَجِدُ رِیحَہَا مِنْ دُونِ أُحُدٍ،قَالَ سَعْدٌ:فَمَا اسْتَطَعْتُ یَا رَسُولَ اللَّہِ مَا صَنَعَ، قَالَ أَنَسٌ:فَوَجَدْنَا بِہِ بِضْعًا وَثَمَانِینَ ضَرْبَۃً بِالسَّیْفِ أَوْ طَعْنَۃً بِرُمْحٍ،أَوْ رَمْیَۃً بِسَہْمٍ وَوَجَدْنَاہُ قَدْ قُتِلَ وَقَدْ مَثَّلَ بِہِ المُشْرِکُونَ،فَمَا عَرَفَہُ أَحَدٌ إِلَّا أُخْتُہُ بِبَنَانِہِ قَالَ أَنَسٌ:کُنَّا نُرَی أَوْ نَظُنُّ أَنَّ ہَذِہِ الآیَۃَ نَزَلَتْ فِیہِ وَفِی أَشْبَاہِہِ: (مِنَ المُؤْمِنِینَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاہَدُوا اللَّہَ عَلَیْہِ)(الأحزاب:۲۳) إِلَی آخِرِ الآیَۃِ۔
ترجمہ :حضرت سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میرے چچا حضرت انس بن نضر رضی اللہ تعالیٰ عنہ غزوہ بدر میں شریک نہ ہوسکے۔ انھوں نے عرض کیا:اللہ کے حبیب کریم ﷺمیں پہلی جنگ ہی سے غائب رہا جو آپ ﷺنے مشرکین کے خلاف لڑی تھی لیکن اگر اب اللہ تعالیٰ نے مجھے مشرکین کے خلاف کسی لڑائی میں حاضری کا موقع دیا تو اللہ ضروردیکھے لے گاکہ میں کیا کرتا ہوں۔ پھر جب جنگ احد کا موقع آیا اور مسلمان بکھر گئے تو حضرت سیدنا انس بن نضر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:اے اللہ!جو کچھ مسلمانوں نے کیا میں اس سے معذرت کرتا ہوں اور جو کچھ ان مشرکین نے کیا میں اس سے بے زار ہوں، پھر وہ (مشرکین کی طرف)آگے بڑھے تو حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سامنا ہوا۔ ان سے حضرت انس بن نضر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:اے سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ !میں تو جنت میں جانا چاہتا ہوں اور رب نضر کی قسم!میں جنت کی خوشبو احد پہاڑ کے قریب پاتا ہوں۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی : یارسول اللہ ﷺ!جو کچھ انھوں نے کردکھایا، اس کی مجھ میں ہمت نہ تھی۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد جب ہم نے انس بن نضر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پایا تو تلوار، نیزے اور تیر کے تقریباً اسی زخم ان کے جسم پر تھے۔ وہ شہید ہوچکے تھے اور مشرکین نے ان کے اعضاء کاٹ دیے تھے۔ کوئی شخص انھیں پہچان نہیں سکتا تھا صرف ان کی ہمشیر ہ نھیں ان کے پوروں سے پہچان سکی۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے خیال کے مطابق یہ آیت ان کے اور ان جیسے دیگر اہل ایمان کے متعلق نازل ہوئی:اہل ایمان میں سے کچھ وہ لوگ ہی ہیں جنھوں نے اپنے اس وعدے کو سچا کردکھایا جو انھوں نے اللہ تعالی سے کیاتھا۔
(صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۴:۱۹)
اگرہم نے ناموس رسالت پر پہرہ نہ دیاتو۔۔۔
وَکَانَ عَبّاسُ بْنُ عُبَادَۃَ بْنِ نَضْلَۃَ،وَخَارِجَۃُ بْنُ زَیْدِ بْنِ أَبِی زُہَیْرٍ،وَأَوْسُ بْنُ أَرْقَمَ بْنِ زَیْدٍ،وَعَبّاسٌ رَافِعٌ صَوْتَہُ یَقُولُ:یَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِینَ، اللہَ وَنَبِیّکُمْ ہَذَا الّذِی أَصَابَکُمْ بِمَعْصِیَۃِ نَبِیّکُمْ،فَیُوعِدُکُم النّصْرَ فَمَا صَبَرْتُمْ! ثُمّ نَزَعَ مِغْفَرَہُ عَنْ رَأْسِہِ وَخَلَعَ دِرْعَہُ فَقَالَ لِخَارِجَۃَ بْنِ زَیْدٍ:ہَلْ لَک فِی دُرْعِی وَمِغْفَرِی؟ قَالَ خَارِجَۃُ: لَا، أَنَا أُرِیدُ الّذِی تُرِیدُ فَخَالَطُوا الْقَوْمَ جَمِیعًا، وَعَبّاسٌ یَقُولُ:مَا عُذْرُنَا عِنْدَ رَبّنَا إنْ أُصِیبَ رَسُولُ اللہِ وَمِنّا عَیْنُ تَطْرِفُ؟ یَقُولُ خَارِجَۃُ: لَا عُذْرَ لَنَا عِنْدَ رَبّنَا وَلَا حُجّۃَ۔
ترجمہ:حضرت سیدناعباس بن عبادہ ، حضرت سیدناخارجہ بن زیداورحضرت سیدنااویس بن ارقم رضی اللہ عنہم اپنی آوازوں کو بلندکرتے ہوئے میدان میں نکلے ، حضرت سیدناعباس بن عبادہ رضی اللہ عنہ کہہ رہے تھے کہ اے مسلمانوں کے گروہ !اللہ تعالی کی قسم !یہ مصیبت تم کو اس وجہ سے پہنچی ہے کہ تم نے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے فرمان شریف کی پابندی نہیں کی ،حضورتاجدارختم نبوت ﷺ نے تم سے نصرت وفتح کاوعدہ کیاتھاجب تک تم صبرکادامن تھامے رہوگے ۔
پھرانہوںنے اپناخود اورزرہ اتارکرحضرت سیدناخارجہ بن زید رضی اللہ عنہ کو دیتے ہوئے کہاکہ تم کو اس کی ضرورت ہے ؟ انہوں نے کہاکہ مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ میں بھی اس چیز کی تمناکرتاہوں جس چیز کی تم تمناکرتے ہویعنی حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے دفاع میں شہادت کی تمنارکھتاہوں ، پس وہ تینوں نکلے اوردشمن کی صفوں میں گھس کران کو قتل کرنے لگے اورحضرت سیدناعباس بن عبادہ رضی اللہ عنہ فرمارہے تھے کہ اگرہم میں سے کوئی آنکھ جھپک رہی ہواورپھرحضورتاجدارختم نبوت ﷺکو کوئی تکلیف پہنچ جائے توہم اپنے رب تعالی کی بارگاہ میں کوئی عذرپیش نہیں کرسکیں گے ، ان کی یہ بات سن کرحضرت سیدناخارجہ رضی اللہ عنہ نے بھی کہاکہ ہاں بے شک ہمارے لئے کوئی عذرنہیں ہوگا۔
(إمتاع الأسماع :أحمد بن علی بن عبد القادر، أبو العباس الحسینی العبیدی المقریزی (ا:۱۵۹)
ناموس رسالتﷺ پرکون جان قربان کرے گا؟
عَنْ مَحْمُودِ بْنِ عَمْرِو بْنِ یَزِیدَ بْنِ السَّکَنِ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ یَوْمَ أُحُدٍ حِینَ غَشِیَہُ الْقَوْمُ:مَنْ رَجُلٌ یَشْرِی لَنَا بِنَفْسِہِ؟فَقَامَ زِیَادُ بْنُ السَّکَنِ فِی خَمْسَۃِ نَفَرٍ مِنَ الْأَنْصَارِ،وَبَعْضُ النَّاسِ یَقُولُ: إِنَّمَا ہُوَ عُمَارَۃُ بْنُ زِیَادِ بْنِ السَّکَنِ،فَقَاتَلُوا عَنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ،رَجُلٌ ثُمَّ رَجُلٌ یُقْتَلُونَ دُونَہُ، حَتَّی کَانَ آخِرُہُمْ زِیَادًا،أَوْ عُمَارَۃَ بْنَ زِیَادٍ،فَقَاتَلَ حَتَّی أَثْبَتَتْہُ الْجِرَاحَۃُ،ثُمَّ فَاء َتِ مِنَ الْمُسْلِمِینَ فَیْئَۃٌ فَأَجْہَضُوہُمْ عَنْہُ،فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:أَدْنُوہُ مِنِّی ،فَأَدْنَوْہُ مِنْہُ، فَوَسَّدَہُ قَدَمَہُ،فَمَاتَ وَخَدُّہُ عَلَی قَدَمِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
ترجمہ:امام ابن اسحاق رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ غزوہ احدمیں جب حضورتاجدارختم نبوتﷺ کوکافروں نے گھیرلیاتوحضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا: کون ہے جو ہمارے لئے اپنی جان کاسوداکرے گا؟ توحضرت سیدنازیاد بن سکن رضی اللہ عنہ جو ان پانچ انصارصحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے تھے کھڑے ہوئے اورکفارسے لڑناشروع کردیااورحضورتاجدارختم نبوت ﷺکے سامنے کھڑے ہوکرآپ ﷺکادفاع کرنے لگے ، اوران کے ساتھ ہر ہر شخص لڑتارہاہے ، ان میں سے آخری صحابی حضرت سیدنازیاد یاعماررضی اللہ عنہ رہ گئے توآپ رضی اللہ عنہ بہت بہادری کے ساتھ لڑے یہاں تک کہ آپ کاجسم مبارک زخموں سے چورچورہوگیالیکن حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے دفاع میں پھربھی یہ صحابی رضی اللہ عنہ چٹان بنے رہے اورحضورتاجدارختم نبوتﷺتک کسی کو پہنچنے نہ دیا، پھرمسلمانوں کی ایک جماعت آئی توکفاربھاگ گئے توحضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا: اس کو میرے قریب لائو، انہیں جب آپ ﷺکے قریب کیاتو انہوںنے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے قدموں پر اپنے رخسار رکھ دیئے اوراسی حالت میں اپنی جان جان آفرین کے سپردکردی ۔
(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام :عبد الملک بن ہشام بن أیوب الحمیری المعافری، أبو محمد، جمال الدین (۲:۸۱)
کسی عاشق صادق نے کیاخوب کہاہے
لست منی گویدت مولائے ما وائے ما، وائے ما، وائے ما
ترجمہ :اگر حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے قیامت کے دن یہ فرمادیاکہ تیرامجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے تویہ سن کرہم اس کے سواکیاکرسکیں گے کہ ہم پرافسو س ہے ، ہم پرافسوس ہے ، ہم پرافسوس ہے۔

Leave a Reply