تفسیر سورہ آل عمران آیت ۹۹۔ قُلْ یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ لِمَ تَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللہِ مَنْ اٰمَنَ تَبْغُوْنَہَا عِوَجًا وَّ اَنْتُمْ شُہَدَآء ُ وَمَا اللہُ بِغٰفِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ}(۹۹)

سندھ اسمبلی لوگوں کو اسلام قبول کرنے سے روک کریہودونصاری کی پیروکارنکلی

{قُلْ یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ لِمَ تَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللہِ مَنْ اٰمَنَ تَبْغُوْنَہَا عِوَجًا وَّ اَنْتُمْ شُہَدَآء ُ وَمَا اللہُ بِغٰفِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ}(۹۹)
ترجمہ کنزالایمان:تم فرماؤ اے کتابیو کیوں اللہ کی راہ سے روکتے ہو اُسے جو ایمان لائے اسے ٹیڑھا کیا چاہتے ہو اور تم خود اس پرگواہ ہو اور اللہ تمہارے کو تکوں سے بے خبر نہیں۔
ترجمہ ضیاء الایمان:اے حبیب کریم ﷺ!آپ فرمادیں ، اے یہودونصاری!تم اللہ تعالی کی راہ سے کیوں روکتے ہو؟ اسے جو ایمان لائے ، اسے تم ٹیڑھاکرناچاہتے ہواورتم خود اس پر گواہ ہواوراللہ تعالی تمھارے کرتوتوں سے بے خبرنہیں ہے۔
شان نزول
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، قَالَ:ثنی الثِّقَۃُ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ،قَالَ:مَرَّ شَاسُ بْنُ قَیْسٍ،وَکَانَ شَیْخًا قَدْ عَسَا فِی الْجَاہِلِیَّۃِ، عَظِیمَ الْکُفْرِ،شَدِیدَ الضِّغْنِ عَلَی الْمُسْلِمِینَ شَدِیدَ الْحَسَدِ لَہُمْ،عَلَی نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ الْأَوْسِ وَالْخَزْرَجِ فِی مَجْلِسٍ قَدْ جَمَعَہُمْ یَتَحَدَّثُونَ فِیہِ فَغَاظَہُ مَا رَأَی مِنْ جَمَاعَتِہِمْ وَأَلَقَتِہِمْ وَصَلَاحِ ذَاتِ بَیْنِہِمْ عَلَی الْإِسْلَامِ بَعْدَ الَّذِی کَانَ بَیْنَہُمْ مِنَ الْعَدَاوَۃِ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ، فَقَالَ: قَدِ اجْتَمَعَ مَلَأُ بَنِی قَیْلَۃَ بِہَذِہِ الْبِلَادِ، وَاللَّہِ مَا لَنَا مَعَہُمْ إِذَا اجْتَمَعَ مَلَؤُہُمْ بِہَا مِنْ قَرَارِ فَأَمَرَ فَتًی شَابًّا مِنَ الْیَہُودِ وَکَانَ مَعَہُ، فَقَالَ:اعْمِدْ إِلَیْہِمْ، فَاجْلِسْ مَعَہُمْ وَذَکِّرْہُمْ یَوْمَ بُعَاثٍ وَمَا کَانَ قَبْلَہُ، وَأَنْشِدْہُمْ بَعْضَ مَا کَانُوا تَقَاوَلُوا فِیہِ مِنَ الْأَشْعَارِوَکَانَ یَوْمُ بُعَاثٍ یَوْمًا اقْتَتَلَتْ فِیہِ الْأَوْسُ وَالْخَزْرَجُ، وَکَانَ الظُّفُرُ فِیہِ لِلْأَوْسِ عَلَی الْخَزْرَجِ، فَفَعَلَ،فَتَکَلَّمَ الْقَوْمُ عِنْدَ ذَلِکَ،فَتَنَازَعُوا وَتَفَاخَرُوا حَتَّی تَوَاثَبَ رَجُلَانِ مِنَ الْحَیَّیْنِ عَلَی الرُّکَبِ أَوْسُ بْنُ قَیْظِیٍّ أَحَدُ بَنِی حَارِثَۃَ بْنِ الْحَارِثِ مِنَ الْأَوْسِ، وَجَبَّارُ بْنُ صَخْرٍ أَحَدُ بَنِی سَلِمَۃَ مِنَ الْخَزْرَجِ، فَتَقَاوَلَا، ثُمَّ قَالَ أَحَدُہُمَا لِصَاحِبِہِ:إِنْ شِئْتُمْ وَاللَّہِ رَدَدْنَاہَا الْآنَ جَذَعَۃً، وَغَضِبَ الْفَرِیقَانِ، وَقَالُوا: قَدْ فَعَلْنَا، السِّلَاحَ السِّلَاحَ،مَوْعِدُکُمُ الظَّاہِرَۃُ وَالظَّاہِرَۃُ:الْحَرَّۃُ فَخَرَجُوا إِلَیْہَا وَتَحَاوَرَ النَّاسُ، فَانْضَمَّتِ الْأَوْسُ بَعْضُہَا إِلَی بَعْضٍ وَالْخَزْرَجُ بَعْضُہَا إِلَی بَعْضٍ عَلَی دَعْوَاہُمُ الَّتِی کَانُوا عَلَیْہَا فِی الْجَاہِلِیَّۃِ، فَبَلَغَ ذَلِکَ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَخَرَجَ إِلَیْہِمْ فِیمَنْ مَعَہُ مِنَ الْمُہَاجِرِینَ مِنْ أَصْحَابِہِ حَتَّی جَاء َہُمْ، فَقَالَ:یَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِینَ، اللَّہَ اللَّہَ،أَبِدَعْوَی الْجَاہِلِیَّۃِ وَأَنَا بَیْنَ أَظْہُرِکُمْ بَعْدَ إِذْ ہَدَاکُمُ اللَّہُ إِلَی الْإِسْلَامِ وَأْکَرَمُکُمْ بِہِ، وَقَطَعَ بِہِ عَنْکُمْ أَمْرَ الْجَاہِلِیَّۃِ، وَاسْتَنْقَذَکُمْ بِہِ مِنَ الْکُفْرِ وَأَلَّفَ بِہِ بَیْنَکُمْ تَرْجِعُونَ إِلَی مَا کُنْتُمْ عَلَیْہِ کُفَّارًا فَعَرَفَ الْقَوْمُ أَنَّہَا نَزْعَۃٌ مِنَ الشَّیْطَانِ،وَکَیْدٌ مِنْ عَدُوِّہِمْ، فَأَلْقَوُا السِّلَاحَ مِنْ أَیْدِیہِمْ، وَبَکَوْا وَعَانَقَ الرِّجَالُ مِنَ الْأَوْسِ وَالْخَزْرَجِ بَعْضُہُمْ بَعْضًا،ثُمَّ انْصَرَفُوا مَعَ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَامِعِینَ مُطِیعِینَ، قَدْ أَطْفَأَ اللَّہُ عَنْہُمْ کَیْدَ عَدُوِّ اللَّہِ شَاسِ بْنِ قَیْسٍ وَمَا صَنَعَ فَأَنْزَلَ اللَّہُ فِی شَاسِ بْنِ قَیْسٍ وَمَا صَنَعَ (یَا أَہْلَ الْکِتَابِ لِمَ تَکْفُرُونَ بِآیَاتِ اللَّہِ وَاللَّہُ شَہِیدٌ عَلَی مَا تَعْمَلُونَ یَا أَہْلَ الْکِتَابِ لِمَ تَصُدُّونَ عَنْ سَبِیلِ اللَّہِ مَنْ آمَنَ تَبْغُونَہَا عِوَجًا)الْآیَۃَ وَأَنْزَلَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ فِی أَوْسِ بْنِ قَیْظِیٍّ وَجَبَّارِ بْنِ صَخْرٍ وَمَنْ کَانَ مَعَہُمَا مِنْ قَوْمِہِمَا الَّذِینَ صَنَعُوا مَا صَنَعُوا مِمَّا أَدْخَلَ عَلَیْہِمْ شَاسُ بْنُ قَیْسٍ مِنْ أَمْرِ الْجَاہِلِیَّۃِ (یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنْ تُطِیعُوا فَرِیقًا مِنَ الَّذِینَ أُوتُوا الْکِتَابَ یَرُدُّوکُمْ بَعْدَ إِیمَانِکُمْ کَافِرِینَ)(آل عمران۱۰۰)إِلَی قَوْلِہِ: (أُولَئِکَ لَہُمْ عَذَابٌ عَظِیمٌ) (آل عمران: ۱۰۵)
ترجمہ :حضرت سیدنازید بن اسلم رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ مرشاس بن قیس یہ بوڑھاشخص تھا، دورجاہلیت میں ہی بوڑھاہوگیاتھا، بہت بڑاکافرتھا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پرسخت غصہ رکھتاتھااوران سے سخت حسدرکھتاتھا، ایک دن وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت کے پاس سے گزرا، یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اوس وخزرج کے خاندان کے ساتھ تعلق رکھتے تھے ۔ یہ ایک مجلس میں بیٹھے باہم باتیں کررہے تھے۔اس نے ان کی باہمی الفت ومحبت اوراجتماعیت اوراسلام کو قبول کرنے کی وجہ سے باہمی مصالحت کو دیکھاتواس امر نے اسے سخت غضبناک کردیا، جبکہ دورجاہلیت میں ان دونوں خاندانوں کے درمیان سخت دشمنی تھی ۔ اس نے کہاکہ بنوقیلہ کے خاندان اب شہر میں جمع ہوگئے ہیں ، اللہ تعالی کی قسم !جب یہ لوگ اس شہرمیں جمع ہوجائیں گے تو ہمارے لئے یہاں ٹھہرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی ۔ اس نے اپنے ساتھ جانے والے یہودی نوجوان سے کہا: ان کی طرف جائواوران کے پاس بیٹھ جائو، پھران کے سامنے جنگ بعاث اوراس سے پہلے کے واقعات کا ذکرکرو، ان واقعات کے بارے میں جواشعارکہے گئے ہیں وہ بھی ذکرکرو۔ جنگ بعاث میں اوس وخزرج نے آپس میں جنگ کی تھی ، اس جنگ میں اوس کوخزرج پر فتح حاصل ہوئی تھی ۔ اس نوجوان نے اسی طرح کیا، قوم اس کی باتیں سن کرآپس میں بول پڑی ، وہ جھگڑاکرنے لگے اوروہ باہم فخرکرنے لگے ۔ یہاں تک کہ دونوں قبیلوں میں سے دوآدمی اچھل پڑے ۔ اوس میں سے اوس بن قیظی جوبنوحارثہ سے تعلق رکھتاتھااورخزرج سے جباربن صخرجوبنی سلمہ سے تعلق رکھتاتھا، پھران میں سے ایک نے دوسرے سے کہا: اللہ تعالی کی قسم !اگرتم چاہوتوہم ابھی تمھیں گراہواتنابنادیں؟دونوں جماعتیں غضب ناک ہوگئیں اورکہاکہ ہم نے ایساکیا، اسلحہ ہمارے تمھارے مقابلہ کامیدان ظاہرہ ہے ۔ ظاہرہ سے مرادحرہ جوکہ ایک جگہ کانام ہے ۔ لوگ حرہ کی طرف نکل پڑے ۔اوس کے خاندان آپس میں مل گئے اورخزرج آپس میں مل گئے ، اسی طریقہ کارکے مطابق جس طرح وہ جاہلیت میں کیاکرتے تھے ، اس واقعہ کی خبرحضورتاجدارختم نبوت ﷺکو پہنچی ، حضورتاجدارختم نبوت ﷺمہاجرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ ان کی طرف تشریف لائے ،یہاں تک کہ ان کے پاس پہنچ گئے ، حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا: اے مسلمانو!اللہ تعالی سے ڈرو!کیاتم جاہلیت کا دعوی کرتے ہوجب کہ میں تمھارے درمیان ہوں؟اللہ تعالی نے تم کو اسلام کی طرف ہدایت عطافرمائی ، اسلام کی دولت دے کرتم کو عزت سے نوازا، جاہلیت کے معاملہ کو تم سے ختم کیا،تم کو کفرسے بچایااورتمھارے درمیان محبت کو پیدافرمایا۔ کیاتم پھرکفرکی طرف لوٹناچاہتے ہو؟ قوم پہچان گئی کہ یہ شیطان کاحملہ تھا، ان کے دشمن کامکروہ فریب تھا، انہوںنے ہتھیارپھینک دیئے ، وہ رونے لگے اورایک دوسرے سے گلے ملنے لگے ، پھرحضورتاجدارختم نبوت ﷺکے ساتھ واپس آئے جبکہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے ہر حکم شریف کو سننے والے اوراطاعت کرنے والے تھے ، اللہ تعالی نے ان کے دشمن شاس کی جلائی ہوئی آگ کو بجھادیا، اللہ تعالی نے مرشاس اوراس کے کرتوت کے متعلق یہ آیت کریمہ نازل فرمائی۔
(تفسیر البغوی :محیی السنۃ ، أبو محمد الحسین بن مسعود بن محمد بن الفراء البغوی الشافعی (ا:۴۷۸)

اسلام قبول کرنے سے روکناتویہودونصاری کاکام ہے

عَنْ قَتَادَۃَ، قَوْلُہُ:(یَا أَہْلَ الْکِتَابِ لِمَ تَصُدُّونَ عَنْ سَبِیلِ اللَّہِ)یَقُولُ:لِمَ تَصُدُّونَ عَنِ الْإِسْلَامِ، وَعَنْ نَبِیِّ اللَّہِ وَمَنْ آمَنَ بِاللَّہِ؟وَأَنْتُمْ شُہَدَاء ُ فِیمَا تَقْرَء ُونَ مِنْ کِتَابِ اللَّہِ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّہِ،وَأَنَّ الْإِسْلَامَ دِینُ اللَّہِ الَّذِی لَا یَقْبَلُ غَیْرَہُ وَلَا یَجْزِی إِلَّا بِہِ تَجِدُونَہُ مَکْتُوبًا عِنْدَکُمْ فِی التَّوْرَاۃِ وَالْإِنْجِیلِ۔
ترجمہ:حضرت سیدناقتادہ رضی اللہ عنہ اس آیت کریمہ کے{یَا أَہْلَ الْکِتَابِ لِمَ تَصُدُّونَ عَنْ سَبِیلِ اللَّہِ مَنْ آمَنَ تَبْغُونَہَا عِوَجًا}تحت فرماتے ہیںکہ اللہ تعالی نے فرمایا: تم اس آدمی کو اسلام اوراللہ تعالی کے حبیب کریم ﷺسے کیوں روکتے ہو؟جبکہ تم خود اس کے گواہ ہواس چیز کے جوتم قرآن کریم میں پڑھتے ہوکہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺاللہ تعالی کے رسو ل (ﷺ) ہیں اسلام اللہ تعالی کادین ہے ، جس کے بغیراللہ تعالی کسی اوردین کو قبول نہیں فرمائے گا، اسی پر جزائے خیرعطافرمائے گا، اس کے بارے میں توراۃ وانجیل میں لکھاہواپاتے ہو۔
(تفسیر القرآن العظیم لابن أبی حاتم:أبو محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدریس بن المنذر الرازی ابن أبی حاتم (۳:۷۱۷)

یہودونصاری ابتداء اسلام سے ہی ہمارے دین کے دشمن ہیں

عَنِ السُّدِّیِّ:(یَا أَہْلَ الْکِتَابِ لِمَ تَصُدُّونَ عَنْ سَبِیلِ اللَّہِ مَنْ آمَنَ تَبْغُونَہَا عِوَجًا)کَانُوا إِذَا سَأَلَہُمْ أَحَدٌ: ہَلْ تَجِدُونَ مُحَمَّدًا؟ قَالُوا:لَا، فَصَدُّوا عَنْہُ النَّاسَ، وَبَغَوْا مُحَمَّدًا عِوَجًا:ہَلَاکًا ۔
ترجمہ:حضرت سیدناامام السدی رحمہ اللہ تعالی اس آیت کریمہ {یَا أَہْلَ الْکِتَابِ لِمَ تَصُدُّونَ عَنْ سَبِیلِ اللَّہِ مَنْ آمَنَ تَبْغُونَہَا عِوَجًا}کے تحت فرماتے ہیں کہ جب کوئی شخص یہود ونصاری سے یہ سوال کرتاکہ کیاتم میں حضورتاجدارختم نبوت ﷺموجودہیں؟ تووہ کہتے کہ نہیں ، اس طرح وہ لوگوں کو آپ ﷺسے روکتے تھے اورحدسے تجاوزکرتے تھے ۔
(تفسیر الطبری :محمد بن جریر بن یزید بن کثیر بن غالب الآملی، أبو جعفر الطبری (۵:۶۲۹)

یہودونصاری تولوگوں کوکلمہ پڑھنے سے روکتے ہیں

عَنِ الْحَسَنِ، فِی قَوْلِہِ:(قُلْ یَا أَہْلَ الْکِتَابِ لِمَ تَصُدُّونَ عَنْ سَبِیلِ اللَّہِ)قَالَ:ہُمُ الْیَہُودُ وَالنَّصَارَی، نَہَاہُمْ أَنْ یَصُدُّوا الْمُسْلِمِینَ عَنْ سَبِیلِ اللَّہِ، وَیُرِیدُونَ أَنْ یَعْدِلُوا النَّاسَ إِلَی الضَّلَالَۃِ۔
ترجمہ:حضرت سیدناامام حسن بصری رضی اللہ عنہ اس آیت کریمہ {یَا أَہْلَ الْکِتَابِ لِمَ تَصُدُّونَ عَنْ سَبِیلِ اللَّہِ مَنْ آمَنَ تَبْغُونَہَا عِوَجًا}کے تحت ارشادفرماتے ہیں کہ اسلام سے روکنے والے یہودونصاری ہیں ، انہیں اس عمل سے منع کیاگیاکہ اہل اسلام کو حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی بارگاہ میں حاضرکر کلمہ پڑھنے سے منع نہ کریں ۔ کیونکہ یہودونصاری تویہی چاہتے ہیں کہ لوگوں کو راہ حق سے ہٹادیں۔
(تفسیر الطبری :محمد بن جریر بن یزید بن کثیر بن غالب الآملی، أبو جعفر الطبری (۵:۶۲۹)

اے اہل ایمان ! تم یہودونصاری کی پیروی نہ کرو

عَنْ قَتَادَۃَ، قَوْلُہُ:(یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنْ تُطِیعُوا فَرِیقًا مِنَ الَّذِینَ أُوتُوا الْکِتَابَ یَرُدُّوکُمْ بَعْدَ إِیمَانِکُمْ کَافِرِینَ)قَدْ تَقَدَّمَ اللَّہُ إِلَیْکُمْ فِیہِمْ کَمَا تَسْمَعُونَ،وَحَذَّرَکُمْ وَأَنْبَأَکُمْ بِضَلَالَتِہِمْ،فَلَا تَأْمَنُوہُمْ عَلَی دِینِکُمْ وَلَا تَنْتَصِحُوہُمْ عَلَی أَنْفُسِکُمْ، فَإِنَّہُمُ الْأَعْدَاء ُ الْحَسَدَۃُ الضُّلَّالُ،کَیْفَ تَأَتَمِنُونَ قَوْمًا کَفَرُوا بِکِتَابِہِمْ، وَقَتَلُوا رُسُلَہُمْ، وَتَحَیَّرُوا فِی دِینِہِمْ،وَعَجَزُوا عَنْ أَنْفُسِہِمْ؟أُولَئِکَ وَاللَّہِ ہُمْ أَہْلُ التُّہْمَۃِ وَالْعَدَاوَۃِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناقتادہ رضی اللہ عنہ اس آیت کریمہ {یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنْ تُطِیعُوا فَرِیقًا مِنَ الَّذِینَ أُوتُوا الْکِتَابَ یَرُدُّوکُمْ بَعْدَ إِیمَانِکُمْ کَافِرِینَ}کے تحت فرماتے ہیں کہ جس طرح تم سنتے ہواللہ تعالی نے تمھیں ان کے بارے میں بتادیاہے ، تمھیں خبردارکیاہے اوران کی گمراہی کے بارے میں تمھیں آگاہ کیاہے اس لئے اپنے دین کے بارے میں ان سے بے خوف نہ ہوجائو، اپنے بارے میں یہودونصاری کو مخلص نہ سمجھو۔ کیونکہ وہ تمھارے دشمن ،تمھارے ساتھ حسدکرنے والے اورگمراہ ہیں ۔ تم اس قوم کے بارے میں کیسے بے خوف ہوجاتے ہوجنہوں نے اپنی کتاب کاانکارکیا، اپنے انبیاء کرام علیہم السلام کو شہیدکیا، اپنے دین کے بارے میں حیران ہیں اوراپنے آپ سے عاجز بھی ۔ اللہ تعالی کی قسم !یہی تہمت لگانے والے دشمن ہیں۔
(کتاب تفسیر القرآن:أبو بکر محمد بن إبراہیم بن المنذر النیسابوری (۱:۳۱۵)

سندھ اسمبلی اورمنیارٹی بل

(۲۵نومبر۲۰۱۶ء) میںسندھ اسمبلی میں جب پی پی کی حکومت تھی تو انہوںنے ایک بل پاس کیاجس کو انہوںنے منیارٹی بل کانام دیاتھااس کامختصرساتعارف ہم یہاں نقل کرتے ہیں اورا س کے کفریہ ہونے پر بھی ہم کلام کریں گے ۔
منیارٹی بل کی شق نمبر۲۱میں یہ تحریرکیاگیاکہ اگرکوئی بچہ جس کی عمر۱۸سال سے کم ہوئی اوراس نے کلمہ پڑھ لیاتو اس کو این جی اوز کے حوالے کیاجائے گااوراین جی اوز اسے اسلام اورحضورتاجدارختم نبوت ﷺکے خلاف مواد فراہم کریں گے اوراسے اسلام سے بدظن کریں گے ۔ یہ ذہن میں رہے منیارٹی بل قرآن و سنت ،شریعت ،آئین پاکستان اورعقل و دانش کے بھی خلاف ہے جبکہ یہ بل اپنے عنوان کے بھی خلاف ہے اسلام جبر کا قائل نہیں لیکن جہاں اسلام جبراً قبول کرنا شریعت کے خلاف ہے وہاں کسی کو اسلام قبول کرنے سے جبراً روکنا بھی خلاف ِشریعت ہے ۔بل میں شامل۲۱روز تک سیف ہاؤس میں رکھنے کی شق کا مطلب یہ کہ نو مسلم کو این جی اوز کے حوالے کیا جائے گا اور اسے اسلام کے خلاف لٹریچر دیا جائے گا تاکہ وہ کسی بھی صورت میں مسلمان نہ ہوسکے ۔
جہاں دنیابھرمیں لوگ اسلام کی طرف راغب ہورہے ہیں وہیں ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ وطن عزیز پاکستان میں۱۸سال سے کم عمری میں اسلام قبول کرنے پر پابندی عائد کردی گئی ۔
سندھ اسمبلی نے اسلام قبول کرنے کے حوالے سے سخت شرائط عائد کرکے سندھ کو راجہ داہر کے دور میں دھکیل دیا۔ سندھ اسمبلی کا تبدیلی مذہب کا قانون اسلام کے بالکل منافی ہے ۔لیکن حکومتوں، پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتوں سے کوئی کیا توقع رکھے انہوں نے تو سندھ میں اسلام قبول کرنے پر ہی پابندی لگا دی جبکہ میڈیا اور عدلیہ اس معاملہ پر بھی خاموش ہیں۔ اقلیتوں کے حقوق کے نام پر سندھ اسمبلی نے ایک ایسا قانون پاس کیا جو خلاف شریعت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دین میں کوئی زبردستی نہیں۔ اسلام کسی غیر مسلم کو زبردستی مسلمان بنانے کے خلاف ہے۔ اسلام میں تو غیر مسلموں کو مکمل مذہبی آزادی دی گئی۔ لیکن سندھ اسمبلی کو نجانے کیا سوجھی کہ یہ بل پاس کر دیا کہ اٹھارہ سال سے کم عمر کسی بھی مذہبی اقلیت کا کوئی رکن اپنا مذہب تبدیل نہیں کر سکتا۔ بظاہر اس قانون کا مقصد سندھ میں ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو زبردستی مسلمان بنانے کی شکایات کو روکنا ہے لیکن عملاً جو کیا گیا وہ سمجھ سے بالاتر اور اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ بلاشبہ حکومت کو یہ حق حاصل ہے کہ اگر کوئی کسی غیر مسلم کو زبردستی مسلمان بنا رہا ہے تو اُسے پوچھیلیکن یہ کیسا قانون ہے کہ اٹھارہ سال سے کم عمر کوئی فرد اسلام قبول کر ہی نہیں سکتا۔ کوئی پوچھے اگر والدین نے اسلام قبول کر لیا تو اُن کے بچے چاہے وہ دو چار یا پانچ سات سال کے ہوں تو اُن کا تعلق اقلیتی مذہب سے ہی رہے گا۔ اور پھر اگر کوئی پندرہ، سولہ، سترہ سال کا بالغ لڑکی لڑکا اپنی سمجھ سے اسلام قبول کرتے ہیں تو یہ قانون کی خلاف ورزی ہو گی۔ واہ سندھ حکومت نے سیکولرازم کے جنون میں کیا قانون پاس کیا۔ یہ درست ہے کہ اسلام کی رو سے کسی کو زبردستی مسلمان نہیں بنایا جا سکتا اور ایسا کرنا ناجائز ہے اس لیے اس پر پابندی حق بجانب ہے لیکن اگر کوئی سمجھ دار بچہ جو دین و مذہب کو سمجھتا ہو ااسلام لے آئے تو اس کے ساتھ مسلمانوں جیسا سلوک کرنے کاحکم ہے۔ اسلامی شریعت کی رو سے بچہ پندرہ سال کی عمر میں اور بعض اوقات اُس سے بھی پہلے بالغ ہو سکتا ہے۔ ایسی صورت میں جبکہ وہ بالغ ہو کر شرعی احکام کا مکلف ہو چکا ہے تو اسے اسلام قبول کرنے سے تین سال تک روکنا سراسر ظلم اور بدترین زبردستی ہے۔اس قسم کے زبردستی کا قانون کسی سیکولر ملک میں بھی موجود نہیں ہو گا، چہ جائیکہ ایک اسلامی ملک میں اس کو روا رکھا جائے۔اسی طرح ہماراان بے دینوں سے یہ بھی سوال ہے کہ دو میاں بیوی قانون کے مطابق اسلام قبول کر لیتے ہیں، تو کیا ان کے بچے اٹھارہ سال کی عمر تک غیر مسلم ہی تصور ہوں گے کیوں کہ انہیں اس عمر سے پہلے اسلام قبول کرنے پر قانونی پابندی کا سامنا ہو گا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس قانون کو بغیر سوچے سمجھے محض غیر مسلموں کو خوش کرنے کے لیے پاس کر دیا گیا ہے۔ گویا اسلام قبول کرنے پر پابندی کا جو کام مغرب نے نہ کیا، جو ہندوستان نہ کر سکا وہ پاکستان کی سندھ اسمبلی اور حکومت نے کر دیا۔ یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود۔
اس کفریہ قانون کے مطابق
اٹھارہ برس سے کم عمر اسلام قبول کر بھی لے تو غیر مسلم ہی سمجھا جائے گا –
اگر کوئی بالغ یعنی اٹھارہ برس سے زیادہ بھی ہے تو اکیس روز تک اس کا اعلان نہیں کر سکے گا –
نومسلم کا نکاح پڑھانے والے کو تین برس قید ہو گی اور ضمانت بھی نہیں ہو سکے گی _
سب سے بڑی بے غیرتی اور بے حمیتی والی شق یہ ہے کہ تبدیلی مذہب کروانے کی کسی بھی کوشش کا نتیجہ عمر قید ہو سکتا ہے –
اس طرح اسلام کی تبلیغ کا راستہ روکنے کی کوشش کی گئی ہے۔
خوف خدائے پاک دلوں سے نکل گیا آنکھوں سے شرم سرور کون و مکاں گئی
ان ارکان پر حکم شرعی
سندھ اسمبلی کے ارکان میں سے کوئی شخص اگرمسلمان تھاتواس بل کی وجہ سے وہ بھی مرتدہوگیاہے اوران تمام پرتجدیدایمان اورتجدیدنکاح لازم ہے ۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کابچپن میں اسلام قبول کرنااورحضورتاجدارختم نبوت ﷺکابچوں کو اسلام کی دعوت دینا

حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ نے اسلام کس عمرمیں قبول کیا؟

وَکَانَ عَلِیٌّ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ ابْنَ عَشْرَ سِنِینَ لَمَّا أَسْلَمَ۔
ترجمہ :امام احمدبن الحسین البہیقی المتوفی :۴۵۸ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ نے جب اسلام قبول کیاتو اس وقت آپ رضی اللہ عنہ کی عمرمبارک دس سال تھی ۔
(شعب الإیمان:أحمد بن الحسین بن علی بن موسی الخُسْرَوْجِردی الخراسانی، أبو بکر البیہقی(۱:۱۸۶)
حضرت سیدناامیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ُ کے بارے میں سندھ اسمبلی کے قانون کے مُطابق کیا کہا جائے گا ، انہوں نے تو دس سال کی عُمر میں اللہ کے دِین ء حق کو قُبول فرمایا تھا ، اللہ عزّ و جلّ کی طرف سے ، یا اُس کے حبیب کریم ﷺکی طرف سے یہ نہیں کہا گیا کہ تُم ابھی اِسلام قُبول کرنے کی عمر میں نہیں ہو ، تمہارا قُبول اِسلام قُبول نہیں ہے ، ابھی مسلمان نہ بنو، ورنہ سزا پاؤ گے ۔نعوذ باللہ من ذلک۔

حضرت سیدناسعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی قبول اسلام کے وقت عمر

عَنْ عَائِشَۃَ بِنْتِ سَعْدٍ قَالَتْ:سَمِعْتُ أَبِی یَقُولُ وَأَسْلَمْتُ وَأَنَا ابْنُ سَبْعَ عَشْرَۃَ سَنَۃً.
ترجمہ :حضرت عائشہ بنت سعد رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ میں نے اپنے والد ماجدحضرت سیدناسعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سناکہ میںنے جب اسلام قبول کیاتھاتب میری عمر صرف سترہ سال تھی۔
(الطبقات الکبری:أبو عبد اللہ محمد بن سعدالمعروف بابن سعد (۳:۱۰۲)

عشرہ مبشرہ میں ایک صحابی حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے رشتے میں ماموں ،حضرت سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ، جنہوں نے اللہ کے دِین کے لیے سب سے پہلا تِیر چلایا، اِنہوں نے سترہ سال کی عُمر میں اِسلام قُبول کیا ، اِن کی دلیری پر خوش ہو کرحضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا :تم پر میرے ماں باپ فِدا ہوں سعد، یہ نہیں کہا گیا کہ تُم ابھی اِسلام قُبول کرنے کی عمر میں نہیں ہو ، تمہارا اِسلام قابل قُبول نہیں ہے ، مسلمان نہ بنو ، ورنہ سزا پاؤ گے ۔

ابوجہل کو قتل کرنے والے بھی بچے تھے

حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ،قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ بَدْرٍ:مَنْ یَنْظُرُ مَا صَنَعَ أَبُو جَہْلٍ؟، فَانْطَلَقَ ابْنُ مَسْعُودٍ فَوَجَدَہُ قَدْ ضَرَبَہُ ابْنَا عَفْرَاء َحَتَّی بَرَدَ، فَقَالَ:ہَلْ أَنْتَ أَبُو جَہْلٍ؟فَقَالَ:وَہَلْ فَوْقَ رَجُلٍ قَتَلْتُمُوہُ؟ قَالَ سُلَیْمَانُ:أَوْ قَتَلَہُ قَوْمُہُ۔
(مسند أبی یعلی:أبو یعلی أحمد بن علی بن المثُنی بن یحیی بن عیسی بن ہلال التمیمی، الموصلی (۷:۱۲۰)
نوٹ : اس حدیث شریف کاترجمہ پہلے ہوچکاہے ۔
سن دو ہجری میں ہونے والے جِہادبدر میں اللہ کے دِین کے دُشمن ابو جہل کو حضورتاجدارختم نبوتﷺ کی شان میں گستاخی کرنے کی سزا میں قتل کرنے والے حضرت سیدنا معاذ اورحضرت سیدنا معوذ رضی اللہ عنہما بھی اٹھارہ سال سے بہت کم تھے ، اور پیدائشی مُسلمان بھی نہ تھے ،اُن کی اِس جانبازی اور حضورتاجدارختم نبوتﷺکے ساتھ محبت کو سراہا گیا ، یہ نہیں کہا گیا کہ تُم ابھی اِسلام قُبول کرنے کی عمر میں نہیں ہو ، تمہارا اِسلام قابل قُبول نہیں ہے ،مسلمان نہ بنو ، ورنہ سزا پاؤ گے ۔

یہودی بچے کا کلمہ پڑھ کردنیاسے رخصت ہونا

عَنْ أَنَسٍ أَنَّ غُلَامًا،مِنَ الْیَہُودِ کَانَ مَرِضَ فَأَتَاہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَعُودُہُ فَقَعَدَ عِنْدَ رَأْسِہِ، فَقَالَ لَہُ: أَسْلِمْ فَنَظَرَ إِلَی أَبِیہِ،وَہُوَ عِنْدَ رَأْسِہِ، فَقَالَ لَہُ أَبُوہُ:أَطِعْ أَبَا الْقَاسِمِ فَأَسْلَمَ، فَقَامَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَہُوَ یَقُولُ: الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی أَنْقَذَہُ بِی مِنَ النَّارِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک یہودی لڑکا بیمار پڑا تو حضورتاجدارختم نبوت ﷺاس کے پاس عیادت کے لئے آئے اور اس کے سرہانے بیٹھ گئے پھر اس سے فرمایا:تم مسلمان ہو جائو، اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا جو اس کے سرہانے تھا تو اس سے اس کے باپ نے کہا:ابو القاسم ﷺکی اطاعت کرو، تو وہ مسلمان ہوگیا، آپ ﷺیہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے:تمام تعریفیں اس ذات کے لئے ہیں جس نے اس کو میری وجہ سے آگ سے نجات دی۔
(سنن أبی داود:أبو داود سلیمان بن الأشعث بن إسحاق بن بشیرالأزدی السَِّجِسْتانی (۳:۱۸۵)
جامع قرآن حضرت سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ُ اٹھارہ سال سے بہت کم عمر کے تھے کہ قران کریم کی بہت سی سورتیں حفظ تھیں ، اُنہیں اُسی عُمر میں یہودیوں کی ز ُبان سیکھنے کا حکم فرمایا گیا اور وہ حضورتاجدارختم نبوتﷺ کی یہودیوں سے مراسلات لکھتے اور پڑھتے ، یہ نہیں کیا گیا کہ تُم ابھی اِسلام قُبول کرنے کی عمر میں نہیں ہو ، مسلمان نہ بنوورنہ سزا پاؤ گے ۔
اِس طرح کی اور بھی کئی مثالیں ہیں ، یہ مثالیں پیش کرنے کا مقصد اِس بات کی وضاحت تھا کہ اللہ تعالی اور اُس کے حبیب کریمﷺکی طرف سے اللہ کے دِین قُبول کرنے والے کے لیے کوئی پابندی نہیں رکھی گئی ، کوئی شرط نہیں لگائی کہ فلاں صِفت کا حامل ہو گا تو ہی وہ اِسلام قُبول کر سکے گا ۔ایسی کوئی بھی شرط لاگو کرنا اللہ القوی القدیر کے دِین کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کرنا ہے، اللہ تعالیٰ کے غیض و غضب کو دعوت دینا ہے۔

Leave a Reply