تفسیر سورہ آل عمران آیت ۵۹۔۶۰۔ اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰی عِنْدَ اللہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ خَلَقَہ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہ کُنْ فَیَکُوْنُ

انبیاء کرام علیہم السلام کی عزت وناموس کادفاع کرناحضورتاجدارختم نبوت ﷺکی سنت کریمہ ہے

{اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰی عِنْدَ اللہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ خَلَقَہ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہ کُنْ فَیَکُوْنُ}(۵۹){اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ فَلَا تَکُنْ مِّنَ الْمُمْتَرِیْنَ}(۶۰)
ترجمہ کنزالایمان:عیسیٰ کی کہاوت اللہ کے نزدیک آدم کی طرح ہے اسے مٹی سے بنایا پھر فرمایا ہوجا وہ فوراً ہوجاتا ہے۔اے سننے والے یہ تیرے رب کی طرف سے حق ہے تو شک والوں میں نہ ہونا ۔
ترجمہ ضیاء الایمان:حضرت عیسی علیہ السلام کی مثال اللہ تعالی کے نزدیک حضرت آدم علیہ السلام کی طرح ہے ، اسے مٹی سے پیداکیا، پھرفرمایاکہ ہوجاتووہ فوراً ہوجاتاہے ۔ اے سننے والے !یہ حقیقت (کہ حضرت سیدناعیسی علیہ السلام انسان ہیں) تیرے رب تعالی کی طرف سے بیان کی گئی ہے پس توشک کرنے والوں سے نہ ہوجا۔

تشبیہ کس چیز میں ہے ؟

قَوْلُہُ تَعَالَی:(إِنَّ مَثَلَ عِیسی عِنْدَ اللَّہِ کَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَہُ مِنْ تُرابٍ)دَلِیلٌ عَلَی صِحَّۃِ الْقِیَاسِ وَالتَّشْبِیہُ وَاقِعٌ عَلَی أَنَّ عِیسَی خُلِقَ مِنْ غَیْرِ أَبٍ کَآدَمَ، لَا عَلَی أَنَّہُ خُلِقَ مِنْ تُرَابٍ وَالشَّیْء ُ قَدْ یُشَبَّہُ بِالشَّیْء ِ وَإِنْ کَانَ بَیْنَہُمَا فَرْقٌ کَبِیرٌ بَعْدَ أَنْ یَجْتَمِعَا فِی وَصْفٍ وَاحِدٍ، فَإِنَّ آدَمَ خُلِقَ مِنْ تُرَابٍ وَلَمْ یُخْلَقْ عِیسَی مِنْ تُرَابٍ فَکَانَ بَیْنَہُمَا فَرْقٌ مِنْ ہَذِہِ الْجِہَۃِ، وَلَکِنْ شَبَہُ مَا بَیْنَہُمَا أَنَّہُمَا خَلْقَہُمَا مِنْ غَیْرِ أَبٍ،وَلِأَنَّ أَصْلَ خِلْقَتِہِمَا کَانَ مِنْ تُرَابٍ لِأَنَّ آدَمَ لَمْ یُخْلَقْ مِنْ نفس التراب وَلَکِنَّہُ جَعَلَ التُّرَابَ طِینًا ثُمَّ جَعَلَہُ صَلْصَالًا ثُمَّ خَلَقَہُ مِنْہُ، فَکَذَلِکَ عِیسَی حَوَّلَہُ مِنْ حَالٍ إِلَی حَالٍ، ثُمَّ جَعَلَہُ بَشَرًا مِنْ غَیْرِ أَبٍ۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ {اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰی عِنْدَ اللہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ خَلَقَہ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہ کُنْ فَیَکُوْنُ}قیاس کے صحیح ہونے پر دلیل ہے اورتشبیہ اس بناء پرواقع ہے کہ حضرت سیدناعیسی علیہ السلام کو حضرت سیدناآدم علیہ السلام کی طرح بغیرباپ کے پیداکیاگیاہے ، اس بناء پر نہیں کہ انہیں مٹی سے پیداکیاگیاہے اورایک شئی دوسری شئی کے مشابہ ہوتی ہے ، جب وہ دونوں ایک وصف میں جمع ہوں اگرچہ فی الحقیقت دونوں کے درمیان بہت بڑافرق ہوکیونکہ حضرت سیدناآدم علیہ السلام کو مٹی سے تخلیق فرمایاگیااورحضرت سیدناعیسی علیہ السلام کو مٹی سے پیدانہیں کیاگیا، پس اس جہت سے دونوں کے درمیان فرق ہے ، لیکن جس چیز میں دونوں کو تشبیہ دی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے دونوں کو بغیرباپ کے پیدافرمایاہے اوراس لئے بھی کہ دونوں کی خلقت کی اصل مٹی سے ہے کیونکہ حضرت سیدناآدم علیہ السلام بھی نفس مٹی سے پیدانہیں کیے گئے بلکہ مٹی کو کیچڑبنایاپھراسے( صلصال )سوکھی ہوئی بجنے والی مٹی بنایا،پھراس سے حضرت سیدناآدم علیہ السلام کو بنایاتواسی طرح حضرت سیدناعیسی علیہ السلام کو بھی ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پھیرا، پھرآپ علیہ السلام کو بغیرباپ کے بشربنایا۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۴:۱۰۲)

شان نزول
وَنَزَلَتْ ہَذِہِ الْآیَۃُ بِسَبَبِ وَفْدِ نَجْرَانَ حِینَ أَنْکَرُوا عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَوْلَہُ:(إِنَّ عِیسَی عَبْدُ اللَّہِ وَکَلِمَتُہُ) فَقَالُوا: أَرِنَا عَبْدًا خُلِقَ مِنْ غَیْرِ أَبٍ،فَقَالَ لَہُمُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:(آدَمُ مَنْ کَانَ أَبُوہُ أَعَجِبْتُمْ مِنْ عِیسَی لَیْسَ لَہُ أَبٌ؟ فَآدَمُ عَلَیْہِ السَّلَامُ لَیْسَ لَہُ أَبٌ وَلَا أُمٌّ فَذَلِکَ قَوْلُہُ تَعَالَی:وَلا یَأْتُونَکَ بِمَثَلٍ أَیْ فِی عِیسَی إِلَّا جِئْناکَ بِالْحَقِّ’’ فِی آدَمَ‘‘وَأَحْسَنَ تَفْسِیراً(الفرقان:۳۳)فَقَالُوا: مَنْ أَبُو عِیسَی؟ فَأَنْزَلَ اللَّہُ تَعَالَی:إِنَّ مَثَلَ عِیسی عِنْدَ اللَّہِ کَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَہُ مِنْ تُرابٍ إلی قولہ:فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللَّہِ عَلَی الْکاذِبِینَ(آل عمران:۶۱)فَدَعَاہُمُ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ یعضہم لِبَعْضٍ إِنْ فَعَلْتُمُ اضْطَرَمَ الْوَادِی عَلَیْکُمْ نَارًافَقَالُوا:أَمَا تَعْرِضُ عَلَیْنَا سِوَی ہَذَا؟ فَقَالَ: (الْإِسْلَامُ أَوِ الْجِزْیَۃُ أَوِ الْحَرْبُ) فَأَقَرُّوا بِالْجِزْیَۃِ ۔
ترجمہ :یہ آیت کریمہ نجران کے وفدکے بارے میں نازل ہوئی جب انہوںنے حضورتاجدارختم نبوتﷺکے اس فرمان شریف{ إِنَّ عِیسَی عَبْدُ اللَّہِ وَکَلِمَتُہ}(عیسی علیہ السلام اللہ تعالی کے بندے اورکلمہ ہیں)کاانکارکیااورانہوںنے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی بارگاہ میں یہ کہاکہ اگرآپ ﷺیہ کہتے ہیں کہ حضرت سیدناعیسی علیہ السلام اللہ تعالی کے بیٹے نہیں ہیں توہمیں کوئی بندہ دکھائیں جوبغیرباپ کے پیداہواہو!توحضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا: حضرت سیدناآدم علیہ السلام جو ان کے بھی باپ تھے وہ حضرت عیسی علیہ السلام سے زیادہ تمھارے لئے تعجب خیز ہیں کہ حضرت سیدناعیسی علیہ السلام کاصرف باپ نہیں ہے لیکن حضرت سیدناآدم علیہ السلام کانہ باپ ہے اورنہ ہی ماں ۔ اسی لئے اللہ تعالی کاارشادہے {وَلا یَأْتُونَکَ بِمَثَلٍ أَیْ فِی عِیسَی إِلَّا جِئْناکَ بِالْحَقِّ}حضرت سیدناعیسی علیہ السلام کے بارے میں وہ آپ ﷺکے پاس کوئی مثال نہیں لائیں گے مگرہم حضرت سیدناآدم علیہ السلام کے بارے میںآپ ﷺکے پاس حق لے کرآئے ۔ {وَأَحْسَنَ تَفْسِیراً}اورکتنی اچھی تفسیربیان کی ۔انہوںنے کہاکہ حضرت سیدناعیسی علیہ السلام کاباپ کون؟ تواللہ تعالی نے یہ آیات کریمہ نازل فرمائی{اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰی عِنْدَ اللہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ خَلَقَہ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہ کُنْ فَیَکُوْنُ}(۵۹){اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ فَلَا تَکُنْ مِّنَ الْمُمْتَرِیْنَ}(۶۰){فَمَنْ حَآجَّکَ فِیْہِ مِنْ بَعْدِ مَا جَآء َ کَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآء َ نَا وَاَبْنَآء َکُمْ وَ نِسَآء َ نَا وَ نِسَآء َکُمْ وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللہِ عَلَی الْکٰذِبِیْن}(۶۱)
ترجمہ کنزالایمان:عیسیٰ کی کہاوت اللہ کے نزدیک آدم کی طرح ہے اسے مٹی سے بنایا پھر فرمایا ہوجا وہ فوراً ہوجاتا ہے۔اے سننے والے یہ تیرے رب کی طرف سے حق ہے تو شک والوں میں نہ ہونا ۔پھر اے محبوب جو تم سے عیسٰی کے بارے میں حجت کریں بعد اس کے کہ تمہیں علم آچکا تو ان سے فرمادو آؤ ہم بلائیں اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے اور اپنی عورتیں اور تمہاری عورتیں اور اپنی جانیں اور تمہاری جانیں پھر مباہلہ کریں تو جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ڈالیں۔
پھرحضورتاجدارختم نبوت ﷺنے انہیں بلایاتوان میں سے بعض نے بعض کوکہا: اگرتم نے ایساکیاتوتم پر وادی آگ سے بھڑک اٹھے گی ۔ تب انہوںنے کہا: کیااس کے علاوہ بھی آپ ﷺہم پرپیش فرمائیں گے ؟ توحضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا: اسلام یاجزیہ یاجنگ توانہوںنے ان میں سے جزیہ کااقرارکیا۔
(التفسیر المنیر فی العقیدۃ والشریعۃ والمنہج :د وہبۃ بن مصطفی الزحیلی(۳:۲۴۹)
دوسراقول
عَنِ الْحَسَنِ قَالَ:جَاء َ رَاہِبَا نَجْرَانَ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَعَرَضَ عَلَیْہِمَا الإِسْلامَ، فَقَالَ أَحَدُہُمَا: إِنَّا قَدْ أَسْلَمْنَا قَبْلَکَ، فَقَالَ:کَذَبْتُمَا، إِنَّہُ یَمْنَعُکُمْ مِنَ الإِسْلامِ ثَلاثَۃٌ:عِبَادَتُکُمُ الصَّلِیبِ، وَأَکْلُکُمُ الْخِنْزِیرِ،وَقَوْلُکُمْ:للَّہِ وَلَدٌ، قَالا:مَنْ أَبُو عِیسَی؟ فَأَنْزَلَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ:(إِنَّ مَثَلَ عِیسَی عِنْدَ اللَّہِ) (آل عمران: ۵۹)الآیَۃَ.
ترجمہ :حضرت سیدناامام حسن بصری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نجران کے دوراہب حضورتاجدارختم نبوتﷺکی بارگاہ اقدس میں حاضرہوئے توحضورتاجدارختم نبوتﷺنے ان پر اسلام پیش کیاتوانہوںنے کہا ہم توپہلے سے ہی مسلمان ہیں توحضورتاجدارختم نبوتﷺنے فرمایاکہ تم جھوٹ کہتے ہوکیونکہ تین چیزیں تمھیں اسلام کی طرف نہیں آنے دیتیں : ایک تمھاراصلیب کی عبادت کرنااورخنزیرکھانااورتیسراتمھارایہ قول ہے کہ اللہ تعالی کابیٹاہے توانہوںنے کہاکہ آپﷺ ہی بتادیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام کابا پ کون ہے ؟ تواللہ تعالی نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی ۔
(الوسیط فی تفسیر القرآن المجید:أبو الحسن علی بن أحمد الواحدی، النیسابوری، الشافعی (۱:۴۴۳)

دلیل عقلی
وَأَیْضًا إذا جاز أن یَخْلُقَ اللَّہُ تَعَالَی آدَمَ مِنَ التُّرَابِ فَلِمَ لَا یَجُوزُ أَنْ یَخْلُقَ عِیسَی مِنْ دَمِ مَرْیَمَ؟ بَلْ ہَذَا أَقْرَبُ إِلَی الْعَقْلِ، فَإِنَّ تَوَلُّدَ الْحَیَوَانِ مِنَ الدَّمِ الَّذِی یَجْتَمِعُ فِی رَحِمِ الْأُمِّ أَقْرَبُ مِنْ تَوَلُّدِہِ مِنَ التُّرَابِ الْیَابِسِ، ہَذَا تَلْخِیصُ الْکَلَامِ.
ترجمہ :حضرت سیدناامام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت سیدناآدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدافرمایاتوحضرت سیدتنامریم علیہاالسلام کے خون سے حضرت سیدناعیسی علیہ السلام کی تخلیق کیوں جائز نہیں ہے بلکہ یہ تخلیق عقل کے زیادہ قریب ہے ۔کیونکہ کسی جاندارکارحم مادرمیں جمع شدہ خون سے پیداکرناخشک مٹی سے پیداکرنے سے زیادہ قریب ہے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۸:۲۴۲)

کاش کہ نجرانی عیسائی میرے سامنے نہ آتے!

عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ جَزْء ٍ الزُّبَیْدِیِّ، أَنَّہُ سَمِعَ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:لَیْتَ بَیْنِی وَبَیْنَ أَہْلِ نَجْرَانَ حِجَابًا فَلَا أَرَاہُمْ وَلَا یَرَوْنِی مِنْ شِدَّۃِ مَا کَانُوا یُمَارُونَ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن الحارث الزبیدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکو ارشادفرماتے ہوئے سناکاش ! میرے اورنجران کے عیسائیوں کے درمیان حجاب ہوتانہ میں انہیں دیکھتااورنہ وہ مجھے دیکھتے کیونکہ وہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے ساتھ بڑی سختی سے جھگڑاکرتے تھے ۔
(تفسیر الطبری :محمد بن جریر بن یزید بن کثیر بن غالب الآملی، أبو جعفر الطبری (۵:۴۶۶)

حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے ساتھ سختی سے کلام کرنے والوں کے لئے جنگ کااعلان

عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ عَبْدِ یَشُوعَ، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ جَدِّہِ، قَالَ یُونُسُ وَکَانَ نَصْرَانِیًّا فَأَسْلَمَ: أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ علیہ وسلم کَتَبَ إِلَی أَہْلِ نَجْرَانَ قَبْلَ أَنْ تَنْزِلَ عَلَیْہِ طس سُلَیْمَانَ بِسْمِ إِلَہِ إِبْرَاہِیمَ وَإِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ مِنْ مُحَمَّدٍ النَّبِیِّ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ علیہ وسلم إِلَی أُسْقُفِّ نَجْرَانَ، وَأَہْلِ نَجْرَانَ:إِنْ أَسْلَمْتُمْ فَإِنِّی أَحْمَدُ إِلَیْکُمُ اللہَ إِلَہَ إِبْرَاہِیمَ وَإِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ، أَمَّا بَعْدُ:فَإِنِّی أَدْعُوکُمْ إِلَی عِبَادَۃِ اللہِ مِنْ عِبَادَۃِ الْعِبَادِ وَأَدْعُوکُمْ إِلَی وِلَایَۃِ اللہِ مِنْ وِلَایَۃِ الْعِبَادِ، فَإِنْ أَبَیْتُمْ فَالْجِزْیَۃُ، فَإِنْ أَبَیْتُمْ فَقَدْ آذَنْتُکُمْ بِحَرْبٍ وَالسَّلَامُ.فَلَمَّا أَتَی الْأُسْقُفَّ الْکِتَابُ وَقَرَأَہُ فَظِعَ بِہِ۔ملخصاً۔
ترجمہ :امام بیہقی رحمہ اللہ تعالی نقل فرماتے ہیں کہ حضرت سیدناسلمہ رضی اللہ عنہ سے نقل کیاہے کہ سورۃ طس نازل ہونے سے پہلے حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے اہل نجران کی طرف خط لکھا، اس اللہ تعالی کے نام سے جو حضرت سیدناابراہیم علیہ السلام ،حضرت سیدنااسحاق علیہ السلام اورحضرت سیدنایعقوب علیہ السلام کامعبود ہے ، یہ خط حضرت سیدنامحمدﷺکی جانب سے نجران کے اسقف اوروہاں کے رہنے والوں کی طرف ہے ۔ اگرتم اسلام لے آئوتومیں تمھارے لئے اس اللہ تعالی کی حمدوثناکرتاہوں جو حضرت سیدناابراہیم علیہ السلام ،حضرت سیدنااسحاق علیہ السلام اورحضرت سیدنایعقوب علیہ السلام کامعبود ہے ۔ امابعد : میں تمھیں بندوں کی عبادت سے اللہ تعالی کی عبادت ، بندوں کی حکمرانی سے اللہ تعالی کی بادشاہی کی طرف بلاتاہوں ، اگراسلام قبول کرنے سے انکارکروتو تم پرجزیہ دینالازم ہے ۔اگرتم جزیہ دینے سے انکارکروتو میں تم سے اعلان جنگ کرتاہوں۔ والسلام ۔جب اسقف نے یہ خط پڑھاتو سخت خوفزدہ ہوگیا۔ الی آخرہ ۔
(دلائل النبوۃ:أحمد بن الحسین بن علی بن موسی الخُسْرَوْجِردی الخراسانی، أبو بکر البیہقی (۵:۳۸۵)
اس سے معلوم ہواکہ وہ عیسائی جو حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے ساتھ سخت کلامی کررہے تھے جیسے ہی حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے اعلان جنگ کیاتوفوراً ہی طبیعت درست ہوگئی اورجزیہ دینے پررضامندی ظاہرکردی ۔ اس حدیث شریف سے معلوم ہواکہ اس طرح کے لوگ ہوتے ہی ذلیل ہیں جس طرح ابھی پچھلے سال ہالینڈ کے خنزیرنے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے گستاخانہ خاکے شائع کرنے کااعلان کیاتو پاکستانی حکمران حسب معمول اپنے بے غیرت ہونے کامظاہرہ کررہے تھے تو حضورامیرالمجاہدین حضرت شیخ الحدیث حافظ خادم حسین رضوی حفظہ اللہ تعالی نے صرف ایک اعلان کیاکہ ہم ہالینڈ پر ایٹم بم پھینک دیں گے تو اتناسنتے ہی اسے پسینے چھوٹ گئے اوروہ اتناڈراکہ اس نے اپنی بیوی کو ہی ملناچھوڑ دیااورتنہائی کی زندگی گزارنے لگااورراتوں کو بھی نہیں سوتاتھااوراس نے خود متعددباربیان کیاکہ مجھے ’’خادم حسین رضوی ‘‘ سے ڈرلگتاہے ۔ بحمداللہ تعالی یہ ہوتی ہے ایمانی قوت ۔ اللہ کرے سب اہل اسلام کو یہی ایمانی غیرت وقوت عطاہو۔

معارف ومسائل

(۱) اس سے معلوم ہواکہ اللہ تعالی کے انبیاء کرام علیہم السلام کی عزت وناموس کادفاع کرنااللہ تعالی اورحضورتاجدارختم نبوت ﷺکی سنت کریمہ ہے ۔کیونکہ حضرت سیدناعیسی علیہ السلام کی عزت اسی میں ہے کہ وہ اللہ تعالی کے عبدہوں نہ کہ اس کے بیٹے اوریہ بھی ذہن میں رہے کہ حضرت سیدناعیسی علیہ السلام کو اللہ تعالی کابیٹاکہناجس طرح اللہ تعالی کی گستاخی ہے اسی طرح حضرت سیدناعیسی علیہ السلام کی بھی گستاخی ہے ۔
(۲) اس کے شان نزول سے معلوم ہواکہ بندے کو ایمان سے دورکرنے میں گناہوں کابہت بڑاہاتھ ہے کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا: تمھاراخنزیرکھاناتمھیں اسلام لانے سے روکتاہے ۔آج بھی جتنے لوگ کھانے پینے میں احتیاط نہیں کرتے ان کے عقائد ونظریات تبدیل ہوچکے ہیں اوریہ بھی ذہن میں رہے کہ جولوگ اس طرح کی حرام اشیاء کھانے کے عادی ہوتے ہیں ان میں غیرت ایمانی بھی مرجاتی ہے یہی وجہ ہے کہ آج لبرل سیکولرطبقہ دینی غیرت وحمیت سے خالی ہوچکاہے ۔ (۳) جس طرح خنزیرغیرت سے خالی ہے اسی طرح لبرل وسیکولرغیرت ایمانی سے خالی ہے یعنی اپنے گھروالوں کے معاملے میں ان کو غیرت نہیں ہوتی جس طرح یہ انگریزوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ غیرت سے عاری ہیں اسی طرح یہ بھی بہن ، بیٹی اوربیوی کے معاملے میں غیرت سے عاری ہوچکے ہیں ، ان کو بھی کوئی فکرنہیں ہوتی کہ بیٹی نے رات کہاں بیتائی ہے اوراس کی بیوی چاہے جس کے ساتھ بیٹھی رہے یہ طبقہ (مائنڈ نہیں کرتا) یعنی ان کی غیرت نہیں جاگتی۔

Leave a Reply