تفسیر سورہ آل عمران آیت ۲۸۔۲۹۔ لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآء َ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ

دین دشمنوں کے ساتھ دوستی لگاناحرام ہے

{لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآء َ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَلَیْسَ مِنَ اللہِ فِیْ شَیْء ٍ اِلَّآ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْہُمْ تُقٰیۃً وَ یُحَذِّرُکُمُ اللہُ نَفْسَہ وَ اِلَی اللہِ الْمَصِیْرُ}(۲۸){قُلْ اِنْ تُخْفُوْا مَا فِیْ صُدُوْرِکُمْ اَوْ تُبْدُوْہُ یَعْلَمْہُ اللہُ وَیَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ وَاللہُ عَلٰی کُلِّ شَیْء ٍ قَدِیْرٌ}(۲۹)
ترجمہ کنزالایمان :مسلمان کافروں کو اپنا دوست نہ بنالیں مسلمانوں کے سوا اور جو ایسا کرے گا اُسے اللہ سے کچھ علاقہ نہ رہا مگر یہ کہ تم ان سے کچھ ڈرو اور اللہ تمہیں اپنے غضب سے ڈراتا ہے اور اللہ ہی کی طرف پھرنا ہے۔تم فرمادو کہ اگر تم اپنے جی کی بات چھپاؤ یا ظاہر کرو اللہ کو سب معلوم ہے اور جانتا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور ہر چیز پر اللہ کا قابو ہے۔
ترجمہ ضیاء الایمان:مسلمان مسلمانوں کے علاوہ کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں اور جو کوئی ایسا کرے گاتو اس کا اللہ تعالی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں مگر یہ کہ تمہیں ان سے کوئی ڈر ہو اور اللہ تعالی تمہیں اپنے غضب سے ڈراتا ہے اور اللہ تعالی ہی کی جانب لوٹنا ہے۔
شان نزول
وروی الضحاک ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ ہَذِہِ الْآیَۃَ نَزَلَتْ فِی عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ الْأَنْصَارِیِّ وَکَانَ بَدْرِیًّا تَقِیًّا وَکَانَ لَہُ حِلْفٌ مِنَ الْیَہُودِ،فَلَمَّا خَرَجَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَوْمَ الْأَحْزَابِ قَالَ عُبَادَۃُ:یَا نَبِیَّ اللَّہِ، إِنَّ مَعِی خَمْسَمِائَۃِ رَجُلٍ مِنَ الْیَہُودِ،وَقَدْ رَأَیْتُ أَنْ یَخْرُجُوا مَعِی فَأَسْتَظْہِرُ بِہِمْ عَلَی الْعَدُوِّ فَأَنْزَلَ اللَّہُ تَعَالَی:لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْکافِرِینَ أَوْلِیاء َ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِینَ الْآیَۃَ۔
ترجمہ :حضرت سیدناضحاک رضی اللہ عنہ نے حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت کیاہے کہ یہ آیت کریمہ حضرت سیدناعبادہ بن صامت انصاری رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی وہ بدری اورنہایت ہی متقی صحابی تھے ، اوران کایہودیوں کے ساتھ معاہدہ تھا، پس جب حضورتاجدارختم نبوت ﷺغزوہ احزاب کے لئے تشریف لے گئے تو حضرت سیدناعبادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی : یارسول اللہ ﷺ!بلاشبہ میرے ساتھ یہودیوں کے پانچ سوافراد ہیں اورمیراخیال ہے کہ وہ میرے ساتھ نکلیں تو ہم ان کے سبب دشمن پر غالب آسکیں گے تب اللہ تعالی نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی ۔
(غرائب القرآن ورغائب الفرقان:نظام الدین الحسن بن محمد بن حسین القمی النیسابوری (۲:۱۳۹)

شان نزول کے متعلق دوسراقول
قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ،قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِی مُحَمَّدٍ وَکَانَ الْحَجَّاجُ بْنُ عَمْرٍو،وَابْنُ أَبِی الْحُقَیْقِ،وَقَیْسُ بْنُ زَیْدٍ، قَدْ بَطِنُوا بِنَفَرٍ مِنَ الأَنْصَارِ لِیَفْتِنُوہُمْ عَنْ دِینَہِمْ،فَقَالَ رِفَاعَۃُ بْنُ الْمُنْذِرِ،وَعَبْدُ اللَّہِ بن جبیر وسعد ابن خُثَیْمَۃَ لأُولَئِکَ النَّفْرِ:اجْتَنِبُوا ہَؤُلاء ِ النَّفَرِ مِنَ الْیَہُودِ وَاحْذَرُوا مُبَاطَنَتِہِمْ لَا یَفْتِنُوکُمْ عَنْ دِینِکُمْ، فَأَبَی أُولَئِکَ النَّفْرُ، فَأَنْزَلَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ فِیہِمْ لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْکَافِرِینَ أَوْلِیَاء َ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِینَ إِلَی قَوْلِہِ: وَاللَّہُ عَلَی کُلِّ شَیْء ٍ قَدِیرٌ.
ترجمہ :حضرت سیدنامحمدبن ابی محمدرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حجاج بن عمرو ، کعب بن اشرف ، ابن ابی الحقیق اورقیس بن زید کاحلیف تھا، ان لوگوں نے انصارصحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے چندآدمیوں کے ساتھ خفیہ دوستانہ بنارکھاتھا، ان لوگوں کامقصود یہ تھاکہ انہیں دین اسلام سے برگشتہ کردیں ، حضرت رفاعہ بن منذر، عبداللہ بن جبیر، سعیدبن خیثمہ رضی اللہ عنہم نے اس جماعت سے کہاکہ یہودیوںکی اس جماعت سے اجتناب کیاکرو، ان کے ساتھ خفیہ دوستی لگانے سے محتاط رہوکہیں ایسانہ ہوکہ یہ لوگ تم کو دین سے پھیردیں توان انصارنے اپنے مسلمان بھائیوں کی بات ماننے سے انکارکردیاتھا۔ تواللہ تعالی نے ان کے بارے میں ان دوآیات کو نازل فرمایا۔
(تفسیر القرآن العظیم لابن أبی حاتم:أبو محمد عبد الرحمن بن محمد الحنظلی، الرازی ابن أبی حاتم (۲:۶۲۹)

کفارکے ساتھ دوستی لگانے سے اللہ تعالی نے منع فرمایا

عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَلْحَۃَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَوْلَہُ: الْکَافِرِینَ أَوْلِیَاء َ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِینَ قَالَ:نَہَی اللَّہُ تَعَالَی الْمُؤْمِنِینَ أَنْ یُلاطِفُوا الْکُفَّارَ فَیَتَّخِذُوہُمْ وَلِیجَۃً مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِینَ، إِلا أَنْ یَکُونَ الْکُفَّارُ عَلَیْہِمْ ظَاہِرِینَ فَیُظْہِرُونَ لَہُمْ وَیُخَالِفُونَہُمْ فِی الدِّینِ وَذَلِکَ قولہ عَزَّ وَجَلَّ:(إِلا أَنْ تَتَّقُوا مِنْہُمْ تُقَاۃً)۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے مروی ہے کہ اللہ تعالی نے اہل ایمان کو منع فرمایاکہ وہ کفارکے ساتھ نرمی وشفقت کریں اوراہل ایمان کو چھوڑ کرکافروں کو دوست بنانے سے بھی منع فرمایا۔ ہاں یہ صورت ہوکہ کفارتم پرغالب ہوں توان کے لئے نرمی کااظہارکریں اوردین میں ان کی مخالفت کریں ، اللہ تعالی کے فرمان {إِلا أَنْ تَتَّقُوا مِنْہُمْ تُقَاۃً}کایہی مطلب ہے ۔
(تفسیرالطبری:محمد بن جریر بن یزید بن کثیر بن غالب الآملی، أبو جعفر الطبری (۶:۳۱۳)

مومن کے کافرکے ساتھ تعلق کی تین صورتیں اوران کی تفصیل

وَاعْلَمْ أَنَّ کَوْنَ الْمُؤْمِنِ مُوَالِیًا لِلْکَافِرِ یَحْتَمِلُ ثَلَاثَۃَ أَوْجُہٍ أَحَدُہَا:أَنْ یَکُونَ رَاضِیًا بِکُفْرِہِ وَیَتَوَلَّاہُ لِأَجْلِہِ، وَہَذَا مَمْنُوعٌ مِنْہُ لِأَنَّ کُلَّ مَنْ فَعَلَ ذَلِکَ کَانَ مُصَوِّبًا لَہُ فِی ذَلِکَ الدِّینِ، وَتَصْوِیبُ الْکُفْرِ کُفْرٌ وَالرِّضَا بِالْکُفْرِ کُفْرٌ، فَیَسْتَحِیلُ أَنْ یَبْقَی مُؤْمِنًا مَعَ کَوْنِہِ بِہَذِہِ الصِّفَۃِ فَإِنْ قِیلَ:أَلَیْسَ أَنَّہُ تَعَالَی قَالَ:وَمَنْ یَفْعَلْ ذلِکَ فَلَیْسَ مِنَ اللَّہِ فِی شَیْء ٍ وَہَذَا لَا یُوجِبُ الْکُفْرَ فَلَا یَکُونُ دَاخِلًا تَحْتَ ہَذِہِ الْآیَۃِ، لِأَنَّہُ تعالی قال:یا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا فَلَا بُدَّ وَأَنْ یَکُونَ خِطَابًا فِی شَیْء ٍ یبقی المؤمن معہ مؤمناو ثانیہا:الْمُعَاشَرَۃُ الْجَمِیلَۃُ فِی الدُّنْیَا بِحَسَبِ الظَّاہِرِ،وَذَلِکَ غَیْرُ مَمْنُوعٍ مِنْہُ وَالْقِسْمُ الثَّالِثُ:وَہُوَ کَالْمُتَوَسِّطِ بَیْنَ الْقِسْمَیْنِ الْأَوَّلَیْنِ ہُوَ أَنَّ مُوَالَاۃَ الْکُفَّارِ بِمَعْنَی الرُّکُونِ إِلَیْہِمْ وَالْمَعُونَۃِ، وَالْمُظَاہَرَۃِ،وَالنُّصْرَۃِ إِمَّا بِسَبَبِ الْقَرَابَۃِ،أَوْ بِسَبَبِ الْمَحَبَّۃِ مَعَ اعْتِقَادِ أَنَّ دِینَہُ بَاطِلٌ فَہَذَا لَا یُوجِبُ الْکُفْرَ إِلَّا أَنَّہُ مَنْہِیٌّ عَنْہُ، لِأَنَّ الْمُوَالَاۃَ بِہَذَا الْمَعْنَی قَدْ تَجُرُّہُ إِلَی اسْتِحْسَانِ طَرِیقَتِہِ وَالرِّضَا بِدِینِہِ، وَذَلِکَ یُخْرِجُہُ عَنِ الْإِسْلَامِ فَلَا جَرَمَ ہَدَّدَ اللَّہُ تَعَالَی فِیہِ فَقَالَ: وَمَنْ یَفْعَلْ ذلِکَ فَلَیْسَ مِنَ اللَّہِ فِی شَیْء ٍ.
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ مومن کے کافرکے ساتھ دوستی لگانے کی تین صورتیں ہیں :پہلی صورت : مومن کافرکے کفرپر راضی ہواوراس کی وجہ سے دوستی کرے اوریہ چیز منع ہے کیونکہ ایساکرنے والاہرشخص کافرکے دین کو درست جاننے والاہوگا، کفرکو درست سمجھنابھی کفرہے اورکفرپرخوش ہونابھی کفرہے تواب ایسے شخص کامومن ہوتے ہوئے مومن باقی رہنامحال ہے ۔
سوال : کیااللہ تعالی نے نہیں فرمایا: {وَمَنْ یَفْعَلْ ذلِکَ فَلَیْسَ مِنَ اللَّہِ فِی شَیْء ٍ} اورجوایساکرے گااس کااللہ تعالی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے ۔ تویہ ارشادکفرلازم نہیں کررہاتومذکورہ شخص اس آیت کریمہ کے تحت داخل نہیں ہوگاکیونکہ اللہ تعالی نے فرمایا:{یا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا}اے لوگو! ایمان لائو!توضروری ہے کہ خطاب اس شئی میں ہوجس کی وجہ سے وہ مومن باقی رہے ۔
دوسری صورت: کافرکے ساتھ مومن کادنیاوی اعتبارسے حسن اخلاق سے پیش آنایہ منع نہیں ہے ۔
تیسری صورت : ان دوپہلی صورتوں کے درمیان ہے ، وہ یوں کہ کفارکے ساتھ دوستی ایسی ہوکہ ان کی طرف سے میلان ، ان کی معاونت ، مدد،قربت یارشتہ داری کی وجہ سے ہوالبتہ یہ اعتقاد ہوکہ اس کادین باطل ہے ، اس کی وجہ سے کفرلازم نہیں ہوگا، البتہ اس سے بھی منع کیاگیاہے کیونکہ اس طرح اس کی دوستی کبھی انسان کو اس کے دین کی پسندیدگی اوراس کے طریقہ کو اچھاسمجھنے کی طرف کھینچ لے جاتی ہے تووہ انسان کو اسلام سے خارج کردے گی ۔ توضروری تھاکہ اللہ تعالی اس پر تہددیدووعیدفرمائے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۸:۱۹۱)

گستاخوں کی باتیں ہمیں سنتی ہی نہیں

قَالَ الْحَسَنُ أَخَذَ مُسَیْلِمَۃُ الْکَذَّابُ رَجُلَیْنِ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لِأَحَدِہِمَا: أَتَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّہِ؟ قَالَ:نَعَمْ نَعَمْ نَعَمْ، فَقَالَ:أَفَتَشْہَدُ أَنِّی رَسُولُ اللَّہِ؟ قَالَ:نَعَمْ،وَکَانَ مُسَیْلِمَۃُ یَزْعُمُ أَنَّہُ رَسُولُ بَنِی حَنِیفَۃَ، وَمُحَمَّدٌ رَسُولُ قُرَیْشٍ، فَتَرَکَہُ وَدَعَا الْآخَرَ فَقَالَ أَتَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّہِ؟ قَالَ:نَعَمْ، قَالَ:أَفَتَشْہَدُ أَنِّی رَسُولُ اللَّہِ؟ فَقَالَ:إِنِّی أَصَمُّ ثَلَاثًا، فَقَدَّمَہُ وَقَتَلَہُ فَبَلَغَ ذَلِکَ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وسلم، فقال:أَمَّا ہَذَا الْمَقْتُولُ فَمَضَی عَلَی یَقِینِہِ وَصِدْقِہِ فَہَنِیئًا لَہُ، وَأَمَّا الْآخَرُ فَقَبِلَ رُخْصَۃَ اللَّہِ فَلَا تَبِعَۃَ عَلَیْہِ.
ترجمہ :امام حسن بصری رضی اللہ عنہ ارشادفرماتے ہیں کہ مسیلمہ کذاب نے دوصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوپکڑااوران میں سے ایک کوکہا: کیاتم گواہی دیتے ہوکہ محمد(ﷺ) اللہ تعالی کے رسول (ﷺ) ہیں؟ توانہوںنے تین بار’’ہاں‘‘کہا۔ توپوچھاکہ کیاتویہ گواہی دیتاہے کہ میں اللہ تعالی کارسول ہوں؟ انہوںنے آگے سے ہاں کہا۔ مسیلمہ کاخیال تھاکہ بنوحنیفہ کارسول ہوں۔ اورمحمدﷺقریش کے رسول ہیں ۔ اس صحابی رضی اللہ عنہ کو اس نے چھوڑدیااوردوسرے کو بلاکرکہاکیاتم گواہی دیتے ہوکہ محمدﷺاللہ تعالی کے رسول ہیں؟ انہوںنے فرمایا: ہاں ۔ تواس نے پھرکہا: کیاتم یہ گواہی دیتے ہوکہ میں اللہ تعالی کارسول ہوں؟ توانہوںنے تین بارکہاکہ میرے کان نہیں سنتے ۔ میں بہراہوں ، ان کو مسیلمہ کذاب دجال نے شہیدکردیا۔ یہ بات حضورتاجدارختم نبوت ﷺتک پہنچی تو آپ ﷺنے فرمایا: جسے قتل کیاگیاوہ اپنے یقین وصدق پر گیاہے تواسے مبارک ہواوردوسرے نے اللہ تعالی کی رخصت کو قبول کیاتواس پربھی کوئی گناہ نہیں ہے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۸:۱۹۱)

کفارکے ساتھ کھاناکھانا

ومن موالاۃ الکفار المؤاکلۃ معہم بغیر عذر اقتضاہا۔
ترجمہ :امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی:۱۱۲۷ھ)رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ کفارکے ساتھ بلاضرورت کھاناپینا، اٹھنابیٹھنااوردیگرمعاملات برتنابھی موالات میں شامل ہے یعنی یہ اموران کے ساتھ حرام ہیں۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی (۲:۲۱)

جوشخص دارالحرب جاکراہل اسلام کے ساتھ محاربہ کرے؟

مَنْ لَحِقَ بَدَارِ الْکُفْرِ وَالْحَرْبِ مُخْتَارًا مُحَارِبًا لِّمَنْ یَّلَیْہِ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ فَھُوَ بِھَذَا الْفِعْلِ مُرْتَدٌّ۔ لَہُ اَحْکَامُ الْمُرْتَدِّیْنَ مِنْ وُجُوْبِ الْقتْلِ عَلَیْہِ مَتٰی قُدِرَ عَلَیْہِ وَّ مِنْ اِبَاحَۃِ مَالِہٖ وَ انْفِسَاحِ نِکَاحِہِ۔
ترجمہ :أبو محمد علی بن أحمد بن سعید بن حزم الأندلسی القرطبی الظاہری المتوفی : ۴۵۶ھ)لکھتے ہیں کہ جو شخص کسی ایسے علاقے میں چلاجائے جہاں کافروں کی حکومت اورکنٹرول ہے اور وہ لوگ مسلمانوں کے ساتھ حالتِ جنگ میں ہیں علاوہ ازیں وہ شخص وہاں جبر واکراہ سے نہیں بلکہ اپنے ارادہ واختیار کے ساتھ جاتا ہے اور وہاں جاکر قریب ترین مسلمانوں کے خلاف برسرپیکارہوجاتا ہے تو ایسا شخص ایسا کردار اپنانے کی بناپر مرتد ہوجاتا ہے۔اس پر وہ تمام احکام لاگو ہوں گے جو دین اسلام میں’’مرتدین‘‘کے بارے میں بیان فرمائے ہیں:مثلاً:جب بھی بس چلے اورممکن ہو اس کو قتل کرنا واجب ہے۔اس کا مال اپنے قبضہ اور استعمال میں لانا جائز ہے۔مسلمان عورت سے اس کا نکاح کالعدم اورختم ہوجائے گا۔
(المحلی بالآثار:أبو محمد علی بن أحمد بن سعید بن حزم الأندلسی القرطبی الظاہری (۱۲:۱۲۵)
یہ توحکم اس کاہے جو دارالحرب چلاجائے اوران کے ساتھ مل کراہل اسلام کے ساتھ جنگ کرے توجوشخص مسلمانوں کے ملک میں رہ کر کفارکے حکم کاپابندہواوراہل اسلام پراورشعائراسلام پر حملہ کرے تواسے کون مسلمان مانے گا۔

کفارکی اقسام اوران کے ساتھ تعاون کی تفصیل اوران کاحکم

کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ کفار کا معاون و مدد گار بنے، بالخصوص مسلمانوں کے خلاف۔ فرماتے ہیں کہ البتہ یہ جاننا ضروری ہے کہ اگر کوئی کفار کے ساتھ تعاون کرتا ہے تو اس کا حکم کیا ہے؟ اس کے لیے انہوں نے کفار سے تعاون کی اقسام کے تحت کافروں کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے، محارب اور غیر محارب
پھر غیرمحارب کی چار قسمیں بیان کی ہیں:(۱)…رشتہ دار کفار سے تعاون اور حسن سلوک(۲) …مصیبت زدہ کفار سے تعاون(۳)… رفاہ عامہ کے کاموں میں کفار سے تعاون(۴)… مشترکہ دشمن کے خلاف کفار سے تعاون اور ان سب کے الگ الگ دلائل اور مثالیں بھی ذکر کی ہیں، اور کچھ اعتراضات ذکر کرکے ان کا جواب دیاہے۔اس کے بعد حربی کافر سے تعاون کی تین صورتیں بیان کی جاتی ہیں:(۱)…کفر اور کافروں کو پسند کرتے ہوئے تعاون کرنا۔(۲)…محض اکراہ و خوف کی حالت میں تعاون کرنا(۳)…صرف دنیاوی مال و زر کے لالچ میں تعاون کرنا۔پہلی قسم کا تعاون کفر، جبکہ دوسری دو قسمیں کبیرہ گناہ ہیں۔

معارف ومسائل

(۱)عصر حاضر میں دین اسلام کا بحیثیت کُل مفقود ہونے کے باعث، ایک عام مسلمان ہر دینی مسئلہ کو ایک اکائی کے طور پر دیکھنے کا عادی ہو گیا ہے، اُس کو احساس ہی نہیں ہوتا کہ کُل دین میں اُس جز کی کیا اہمیت ہے یا اُس جز کا کُل دین کے کِن کِن اجزا سے کتنا گہرا ربط ہے۔ بعینہ الولا و البراء کی حقیقت کو سمجھنے سے پہلے ،’’کلمہ توحید کی شرائط‘‘اور اُس کی ضد ’’طاغوت کی حقیقت‘‘کو سمجھنا لازم ہے۔ پھرکفر کی حقیقت کی روشنی میں’’نواقض اسلام‘‘کے اُن پہلو کو سمجھنا جن کا تعلق الولا و البراء اور طاغوت سے ہے۔ تب کہیں ہم اِس مسئلہ کی نزاکت کا مکمل ادراک کر سکتے ہیں۔
(۲)کفار سے دوستی و محبت ممنوع و حرام ہے، انہیں راز دار بنانا، ان سے قلبی تعلق رکھنا ناجائز ہے۔ البتہ اگر جان یا مال کا خوف ہو تو ایسے وقت صرف ظاہری برتاؤ جائز ہے۔ یہاں صرف ظاہری میل برتاو کی اجازت دی گئی ہے، یہ نہیں کہ ایمان چھپانے اور جھوٹ بولنے کو اپنا ایمان اور عقیدہ بنا لیا جائے بلکہ باطل کے مقابلے میں ڈٹ جانا اور اپنی جان تک کی پرواہ نہ کرنا افضل و بہتر ہوتا ہے جیسے سیدناامامِ حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے جان دے دی لیکن حق کو نہ چھپایا۔ آیت میں کفار کو دوست بنانے سے منع کیا گیا ہے اسی سے اس بات کا حکم بھی سمجھاجاسکتا ہے کہ مسلمانوں کے مقابلے میں کافروں سے اتحاد کرنا کس قدر برا ہے۔ (صراط الجنان (۱:۴۵۷)
(۳)بھلا یہ کیسے روا ہو سکتا ہے کہ وہ ان کے دین کا تمسخر اڑاتے ہوں، اللہ تعالیٰ کی آیات میں کیڑے نکالتے ہوں، مسلمانوں کے خلاف برسرِپیکار ہوں، ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہے ہوں، انہیں گھر بار چھوڑنے پر مجبور کر رہے ہوں، مسلمانوں کے خلاف ہر حربہ اختیار کر رہے ہوں اور یہ نگوڑے ان سے دوستیاں کرتے پھریں۔
(۴)معلوم ہوا کہ جو عزت و تکریم ایک مسلم کو حاصل ہے وہ ایک کافر کو ہرگز حاصل نہیں ہے۔ راہ چلتے ہوئے اگر آپ ایک مسلمان کو کھلا راستہ دیتے ہیں تو ان اہل کتاب سے ایسا سلوک نہ کیا جائے۔ مسلم کو غیر مسلم پر ترجیح حاصل ہے۔
(۵)جو کفار اہل اسلام سے نہیں لڑتے اور نہ انہوں نے کبھی مسلمانوں کو ان کے گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا ہو اور نہ دیگر کفار کی طرح مسلمانوں کے خلاف کسی بھی قسم کی مدد کرتے ہوں تو ایسے کافروں سے سلوک و احسان کرنے کا معاملہ کرنے کی اسلام اجازت دیتا ہے۔
(۶)غزہ اور یمن ،سیریا اور نائجیریا ،بحرین ، الجیریا ،اور رخائن سمیت پورا جنوبی ایشیا جس آگ میں جل رہا ہے وہ ڈیڑھ ارب اہل ایمان پر اللہ سبحانہ تعالیٰ کا نازل کردہ عذاب ہے ۔اُس کے رسول کریم ﷺاور دین فطرت کے دشمنوںسے دوستی کرنے کا عذاب ۔ انہیں اپنا ولی و سرپرست بنالینے ،بنائے رکھنے اور اس پر شرمندہ ہونے کے بجائے اس پر فخر کرنے کا عذاب ۔ حصول قوت کے قرآنی حکم کو نہ ماننے اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے نہ تھامے رہنے کا عذاب ۔غیر مسلموں کو دائرہ اسلام میں لانے کی کوششوں کے بجائے خود مسلمانوں ہی کو دائرہ اسلام سے خارج کرنے کا عذاب ۔ اور ظالموں کے بجائے مسلمانوں ہی کو کافر قرار دے کر منظم طریقے سے قتل کرنے اور اسے جہاد فی سبیل اللہ کا نام دینے کے ظلم عظیم کا عذاب۔ بنام ِاِسلام مسلم دنیا (عراق و سیریا ،یمن و نائجیریا ،مصر و الجیریا اور افغانستان و پاکستان وغیرہ )میں فی سبیل الطا غوت دہشت گردی کرنے اور اُسے فی سبیل ا للہ جہاد سمجھنے کا عذاب ۔دہشت گردوں سے لڑنے والے مجاہدین ،حماس اورمجاہدین ختم نبوت کی مدد کرنے کے بجائے اُلٹے اُنہیں کو دہشت گرد قرار دے دینے کی دہشت گردی کا عذاب ۔
(۷) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اسلامی حکومت میں کفار کو کلیدی آسامیاں نہ دی جائیں ۔ یہ آیتِ مبارکہ مسلمانوں کی ہزاروں معاملات میں رہنمائی کرتی ہے اور اس کی حقانیت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے ۔ پوری دنیا کے حالات پر نظر دوڑائیں تو سمجھ آئے گا کہ مسلمانوں کی ذلت و بربادی کا آغاز تبھی سے ہوا جب آپس میں نفرت و دشمنی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر غیر مسلموں کو اپنا خیرخواہ اور ہمدرد سمجھ کر ان سے دوستیاں لگائیں اور انہیں اپنوں پر ترجیح دی ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عقلِ سلیم عطا فرمائے
(۸) چنانچہ محققین فر ما تے ہیں کہ اللہ تعا لیٰ نے کفارکے ساتھ موالات پر اپنے جلال و غضب اور ہمیشہ عذاب میں رہنے کی سزا مقرر فرمائی ہے ۔یہ جا ن لو کہ انکی دوستی سے کچھ حاصل نہیں ہو گا مگر اس کو جو خود مومن نہ ہو مگر جو لوگ اللہ تعا لیٰ پر اس کی نازل کردہ کتاب پر اور اس کے بھیجے ہو ئے رسول کریم ﷺ پر ایمان رکھتے ہیں وہ ان کے ساتھ موالات نہیں رکھتے بلکہ ان کے ساتھ عداوت کا رویہ اختیار کرتے ہیں۔
(۹)اس سے معلوم ہواکہ کفر سے دوستی ایمان سے دشمنی کے مترادف ہے ۔ وہ جو اسلامی مفاد کو چھوڑکر اورمسلمانوں سے رشتہ اخوت توڑکر کفار سے تعلقات محبت استوار کرتا ہے ،وہ اسلام اورمسلمانوں کا غدار ہے اورہرگز قابل اعتماد نہیں اور اس موالات میں کسی قوم وفرقہ کی تخصیص نہیں۔سارے کافر اسلام سے دشمنی رکھتے ہیں اور سچ اور جھوٹ میں کبھی اتحاد ممکن نہیں۔اگررات اور دن ایک نہیں ہوسکتے۔ توضرور ہے کہ کفر واسلام میں بھی کوئی تعلق نہ ہو۔مقصدیہ ہے کہ مسلمان نہایت محتاط بن کررہیں اور کسی طرح کسی کے فریب کا شکار نہ ہوں۔

Leave a Reply