یہودونصاری کی دنیوی ترقی حقیقت میں ان کے لئے وبال جان ہے
{لَا یَغُرَّنَّکَ تَقَلُّبُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِی الْبِلدِ }۱۹۶){مَتٰعٌ قَلِیْلٌ ثُمَّ مَاْوٰیہُمْ جَہَنَّمُ وَبِئْسَ الْمِہَادُ }(۱۹۷)
ترجمہ کنزالایمان:اے سننے والے کافروں کاشہروں میں اہلے گہلے پھرنا ہر گز تجھے دھوکا نہ دے،تھوڑا برتنا انکا ٹھکانا دوزخ ہے اور کیا ہی برا بچھونا۔
ترجمہ ضیاء الایمان : اے مخاطب!کافروں کا شہروں میں چلنا پھرناہرگز تمھیں دھوکے میں مبتلاء نہ کردے۔ یہ تو زندگی گزارنے کا تھوڑا سا سامان ہے پھر ان کا ٹھکانا ہمیشہ کے لئے جہنم ہوگا اور وہ کیا ہی برا ٹھکانہ ہے۔
شان نزول
نَزَلَتْ فِی مُشْرِکِی مَکَّۃَ کَانُوا یَتْجُرُونَ وَیَتَنَعَّمُونَ فَقَالَ بَعْضُ الْمُؤْمِنِینَ:إِنَّ أَعْدَاء َ اللَّہِ فِیمَا نَرَی مِنَ الْخَیْرِ وَقَدْ ہَلَکْنَا مِنَ الْجُوعِ وَالْجُہْدِ فَنَزَلَتِ الْآیَۃُ.
ترجمہ:یہ آیت کریمہ مشرکین مکہ کے بارے میں نازل ہوئی ، وہ تجارت کرتے اورخوب مال ودولت کماتے تھے توبعض اہل ایمان نے کہاکہ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ اللہ تعالی کے دشمن ہونے کے باوجود مال ودولت کی ریل پیل رکھتے ہیں جب کہ ہم بھوک اورمشقت کی وجہ سے ہلاک ہورہے ہیں تواللہ تعالی نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی ۔
(التفسیر الکبیر: أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۹:۴۷۱)
انگریزوں کی ترقی حقیقت میں ان کے لئے ہلاکت ہے
دَلِیلٌ عَلَی أَنَّ الْکُفَّارَ غَیْرمُنْعَمٍ عَلَیْہِمْ فِی الدُّنْیَا،لِأَنَّ حَقِیقَۃَ النِّعْمَۃِ الْخُلُوصُ مِنْ شَوَائِبِ الضَّرَرِ الْعَاجِلَۃِ وَالْآجِلَۃِ،وَنِعَمُ الْکُفَّارمَشُوبَۃٌ بِالْآلَامِ وَالْعُقُوبَاتِ،فَصَارَکَمَنْ قَدَّمَ بَیْنَ یَدَیْ غَیْرِہِ حَلَاوَۃً مِنْ عَسَلٍ فِیہَا السُّمُّ، فَہُوَوَإِنِ اسْتَلَذَّ آکِلُہُ لَا یُقَالُ: أَنْعَمَ عَلَیْہِ، لِأَنَّ فِیہِ ہَلَاکَ رُوحِہِ ذَہَبَ إِلَی ہَذَا جَمَاعَۃٌ مِنَ الْعُلَمَاء ِ،
ترجمہ:امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ میں دلیل ہے اس بات پر کہ کفارپردنیامیں کوئی انعام نہیں کیاگیاکیونکہ حقیقی نعمت وہ ہے جو دنیاوآخرت کے ضررونقصان کی آمیزش سے پاک ہواورکفارکی نعمتوں میں دردوآلام اورعذاب کی آمیزش ہے ، پس کافروں کی دنیوی ترقی ایسی ہے جیسے کسی شخص کے سامنے میں حلوہ رکھاجائے جس میں زہرملاہواہو،پس اگرچہ کھانے والالطف اندوز ہوگالیکن اسے یہ نہیں کہاجاسکتاکہ اس پر انعام کیاگیاہے کیونکہ اس میں اس کی جان کی ہلاکت ہے ۔ ہمارے تمام علماء کرام اسی طرف گئے ہیں۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۴:۳۱۹)
کسی فاسق وفاجرکی دنیوی ترقی کی طرف نہ دیکھو!
قَالَ ابْنُ أَبِی مَرْیَمَ:سَمِعْتُ أَبَا ہُرَیْرَۃَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ،قَالَ:لَا تَغْبِطَنَّ فَاجِرًا بِنِعْمَۃٍ، إِنَّ لَہُ عِنْدَ اللہِ قَاتلًا لَا یَمُوتُ فَبَلَغَ ذَلِکَ وَہْبَ بْنَ مُنَبِّہٍ، فَأَرْسَلَ إِلَیْہِ أَبَا دَاوُدَ الْأَعْوَرَ:مَا قَاتلًا لَا یَمُوتُ؟ قَالَ ابْنُ أَبِی مَرْیَمَ:النَّارُ ۔
ترجمہ ؒ:حضرت سیدناابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا: کسی فاسق وفاجرکی اچھی حالت اوراس کے پاس مال دیکھ کرکبھی اس پررشک نہ کرناتم کومعلوم نہیں کہ اس کے مرنے کے بعد اس کے ساتھ کیاہونے والاہے ۔اللہ تعالی کے ہاں اس کے لئے ایک ایسامارڈالنے والامتعین ہے جس نے مرنانہیں ہے امام ابن مریم رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس سے مراد جہنم ہے ۔
(شعب الإیمان:أحمد بن الحسین بن علی بن موسی الخُسْرَوْجِردی الخراسانی، أبو بکر البیہقی (۶:۳۰۰)
حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے کفارکے اونٹوں سے پردہ فرمالیا
وَکَذَلِکَ مَا رُوِیَ عَنْہُ عَلَیْہِ السَّلَامُ أَنَّہُ مَرَّ بِإِبِلِ بَنِی الْمُصْطَلِقِ وَقَدْ عَبِسَت فِی أَبْوَالِہَا(وأبعارہا)مِنَ السِّمَنِ فَتَقَنَّعَ بِثَوْبِہِ ثُمَّ مَضَی، لِقَوْلِہِ عَزَّ وَجَلَّ:وَلا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْکَ إِلی مَا مَتَّعْنا بِہِ أَزْواجاً مِنْہُمْ۔
ترجمہ:روایت کیاگیاہے کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺبنی المصطلق کے اونٹوں کے پاس سے گزرے توموٹاپے کی وجہ سے ان کے دودھ اورمینگنیاں ان کی رانوں پرخشک ہوگئی تھیں ، آپﷺنے اپنے کپڑے مبارک کے ساتھ پردہ کرلیااو رآگے گزرگئے ۔ کیونکہ اللہ تعالی کافرمان عالی شان ہے کہ {وَلا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْکَ إِلی مَا مَتَّعْنا بِہِ أَزْواجاً مِنْہُمْ}
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (ا۱:۲۶۳)
فاسقوں کی سواری ، ان کے کپڑے اوران کے مکانات کی طرف دیکھنابھی منع ہے
أی نظر عینیک ومد النظر تطویلہ وأن لا یکاد یردہ استحساناً للمنظور إلیہ وإعجاباً بہ وفیہ أن النظر غیر الممدود معفو عنہ وذلک أن یبادر الشیء بالنظر ثم بغض الطرف ولقد شدد المتقون فی وجوب غض البصر عنابنیۃ الظلمۃ وعدد الفسقۃ فی ملابسہم ومراکبہم حتی قال الحسن لا تنظروا إلی دقدقۃ ہما لیج الفسقۃ ولکن انظروا کیف یلوح ذل العصیۃ من تلک الرقاب وہذا لا یہما إنما اتخذوا ہذہ الأشیاء لعیون النظارۃ فالناظر إلیہا محصل لعرہم ومغر لہم علی اتخاذہا۔
ترجمہ :امام أبو البرکات عبد اللہ بن أحمد بن محمود حافظ الدین النسفی المتوفی : ۷۱۰ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جونظرکفارکی ٹھاٹھ باٹھ پر اورکوٹھیاں اوربنگلوں پر پڑے توفوراًنگاہ ہٹالے ، اس پر نگاہ طویل نہ پڑنے دے ۔ متقی لوگوں نے ظالموں کے مکانات پرنگاہ ڈالنے سے منع فرمایاہے اورفاسقوں کے کپڑوں کودیکھنے سے بھی منع کیاہے اوران کی سواریاں دیکھنابھی منع ہے ۔
یہاں تک کہ حضرت سیدناامام حسن بصری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ فاسقوں کے گھوڑوں کی جھنکارکی طرف بھی نگاہ نہ اٹھائوبلکہ یہ دیکھوکہ کس طرح ان پرگناہ کی ذلت اوررسوائی مسلط ہے اوراس کی وجہ یہ ہے کہ انہوںنے یہ چیزیں دیکھنے والوں کے لئے سجائی ہوتی ہیں ، پس جو شخص ان کودیکھ رہاہے گویاوہ ان کی غرض کوپوراکررہاہے اوران کے اختیارکرنے پرابھاررہاہے ۔
(تفسیر النسفی:أبو البرکات عبد اللہ بن أحمد بن محمود حافظ الدین النسفی(۲:۳۹۰)
جن کو قرآن دیاگیاپھروہ انگریزکو ترقی یافتہ کہیں تووہ قرآن کے گستاخ ہیں
وَأخرج ابْن الْمُنْذر عَن سُفْیَان بن عُیَیْنَۃ قَالَ:من أعطی الْقُرْآن فَمد عَیْنَیْہِ إِلَی شَیْء مِنْہَا فقد صغر الْقُرْآن۔
ترجمہ :حضرت سیدناامام سفیان بن عیینہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس شخص کو اللہ تعالی قرآن کریم عطافرمائے پھروہ قرآن کریم کے علاوہ کسی اورچیز کی طرف دیکھے توا س نے قرآن کریم کی توہین کی ہے ۔
(الدر المنثور:عبد الرحمن بن أبی بکر، جلال الدین السیوطی (۵:۹۷)
معارف ومسائل
(۱)اس آیت سے معلوم ہوا کہ کافروں کے دُنْیَوی سازو سامان، مال و دولت اور عیش و عشرت کافروں کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک آزمائش ہیں اس لئے مومن کو چاہئے کہ وہ کفار کی ان چیزوں کو تعجب اور اچھائی کی نظر سے نہ دیکھے۔اس میں ان لوگوں کے لئے بڑی نصیحت ہے جو فی زمانہ کفار کی دنیوی ٹیکنالوجی میں ترقی، مال و دولت اور عیش و عشرت کی فراوانی دیکھ کرتو ان سے انتہائی مرعوب اور دین ِاسلام سے ناراض دکھائی دیتے ہیں جبکہ انہیں یہ دکھائی نہیں دیتا کہ اس ترقی اور دولت مندی کی وجہ سے وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے اور ا س کے احکام سے سرکشی کرنے میں کتنا آگے بڑھ چکے ہیں ، کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ اسی ترقی کے سبب آج کونسا گناہ ایسا ہے جو وہ نہیں کر رہے ؟ فحاشی ، عُریانی ، بے حیائی اور بے شرمی کی کونسی ایسی حد ہے جو وہ پار نہیں کر چکے؟ ظلم و ستم ، سفاکی اور بے رحمی کی کونسی ایسی لکیر ہے جسے وہ مٹا نہیں چکے؟ مسلمانوں کو ذلت و رسوائی میں ڈبونے کے لئے کون سا ایسا دریا ہے جس کے بند وہ توڑ نہیں چکے؟ افسوس!ان سب چیزوں کو اپنی جیتی جاگتی آنکھوں سے دیکھنے ،سماعت سے بھر پور کانوں سے سننے کے باوجود بھی لوگ عبرت نہیں پکڑتے اور کفار کے عیش و عشرت اور ترقی و دولت کی داستانیں سن سنا کر اور مسلمانوں کی ذلت و غربت کا رونا رو کر نہ صرف خود اسلام سے دور ہوتے چلے جا رہے ہیں بلکہ دوسرے مسلمانوں کو بھی دین ِاسلام سے دور کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں ۔ اللہ تعالیٰ انہیں عقلِ سلیم اور ہدایت عطا فرمائے۔
انگریزی ترقی سے مرعوب لبرل وسیکولر علامہ اقبال رحمہ اللہ تعالی کی نظرمیں
مغربی تہذیب سے مراد وہ تہذیب ہے جو گذشتہ چا ر سو سالوں کے دوران یورپ میں اُبھری اس کا آغاز سولہویں صدی عیسوی میں اُس وقت سے ہوتا ہے جب مشرقی یورپ پر ترکوں نے قبضہ کیا۔ یونانی اور لاطینی علوم کے ماہر وہاں سے نکل بھاگے اور مغربی یورپ میں پھیل گئے یورپ جو اس سے قبل جہالت کی تاریکی میں بھٹک رہا تھا ان علماء کے اثر سے اور ہسپانیہ پر عیسائیوں کے قبضہ کے بعد مسلمانوں کے علوم کے باعث ایک نئی قوت سے جاگ اُٹھا۔ یہی زمانہ ہے جب یورپ میں سائنسی ترقی کا آغاز ہوا۔ نئی نئی ایجادات ہوئیں اُن کے باعث نہ صرف یورپ کی پسماندگی کا علاج ہو گیا۔ بلکہ یورپی اقوام نئی منڈیاں تلاش کرنے کے لیے نکل کھڑی ہوئیں ان کی حریصانہ نظریں ایشیاء اور افریقہ کے ممالک پر تھیں۔ انگلستان، فرانس، پرُ تگال اور ہالینڈ سے پیش قدمی کی اور نت نئے ممالک کو پہلے معاشی اور پھر سے اسی گرفت میں لینا شروع کر دیااس طرح تھوڑے عرصہ میں ان اقوام نے ایشیاء اور افریقہ کے بیشتر ممالک پر قبضہ کرکے وہاں اپنی تہذیب کو رواج دیا اس رواج کی ابتداء یونانی علوم کی لائی ہوئی آزاد خیالی اور عقلی تفکر سے ہوئی۔ جس نے سائنسی ایجادات کی گود میں آنکھ کھولی تھی۔ سائنسی ایجادات اور مشینوں کی ترقی نے اس تہذیب کو اتنی طاقت بخش دی تھی کہ محکوم ممالک کا اس نے حتیٰ المقدور گلا گھونٹنے کی کوشش کی۔ وہاں کی عوام کی نظروں کو اپنی چکاچوند سے خیرہ کر دیا اور وہ صدیوں تک اس کے حلقہ اثر سے باہر نہ آسکے۔ مسلمان ممالک خاص طور پر اس کا ہدف بنے۔ ترکی، ایران، مصر، حجاز، فلسطین، مراکش، تیونس، لیبیا، سوڈان، عراق، شام غرض تمام ممالک کو یورپ نے اپنا غلام بنا لیا اور ہندوستان پر قبضہ کر کے یہاں کے مسلمانوں کو ان کی شاندار تہذیب سے بدظن کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب مغرب کی یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
اقبال کو شک اس کی شرافت میں نہیں ہے ہر ملک میں مظلوم کا یورپ ہے خریدار
اقبال نے اپنے کلام میں جابجا مغربی تہذیب و تمدن کی خامیوں پر نکتہ چینی کی ہے اور مسلم معاشرے کو ان کے مضر اثرات سے بچنے کی تلقین کی ہے۔ بعض نقادوں کے خیال میں اقبال نے مغربی تہذیب پر اعتراضات کرکے انصاف سے کام نہیں لیا۔ ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم اس بارے میں لکھتے ہیں۔
اقبال کے ہاں مغربی تہذیب کے متعلق زیادہ تر مخالفانہ تنقید ملتی ہے۔ اور یہ مخالفت اس کے رگ و پے میں اس قدر رچی ہوئی ہے کہ اکثر نظموں میں جا بجا ضرور اس پر ایک ضرب رسید کر دیتا ہے۔
اقبال کے نزدیک اس تہذیب کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ یہ مادی ترقی اور کسبِ زر کو زندگی کی معراج سمجھتی ہے انسانی اخلاق اور روحانی اقدار کی ان کی نظر میں کوئی قیمت نہیں۔ چنانچہ انسانی زندگی میں توازن، اعتدال اور ہم آہنگی قائم نہ رہ سکی۔
یورپ میں بہت، روشنی علم و ہنر ہے حق یہ ہے کہ بے چشمہ حیواں ہے یہ ظلمات
یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیم مساوات
اقبال رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ میں مشرق و مغرب کے مے خانوں سے خوب واقف ہوں مشرق میں ساقی نہیں اور مغرب کی صبا بے مزہ ہے۔ جب تک ساقی کی حوصلہ مندیاں اور ذوق صبا ایک جگہ جمع نہ ہو جائیں۔ اس وقت تک مے خانہ حیات آباد و بارونق نہیں ہو سکتا۔ مشرق اور مغرب کی موجودہ ذہنیت کا نقشہ وہ ان الفاظ میں کھینچتے ہیں۔
بہت دیکھے ہیں میں نے مشرق و مغرب کے مے خانے یہاں ساقی نہیں پیدا وہاں بے ذوق ہے صبا
اقبال کے خیال میں تہذیب حاضر نے جھوٹے معبودوں کا خاتمہ کیا ہے لیکن اس کے بعد اثبات حقیقت کی طرف اس کا قدم نہیں اُٹھ سکا۔ اس لیے اس کی فطرت میں ایک واویلا پیدا ہو رہا ہے۔
دبا رکھا ہے اس کو زخمہ ور کی تیز دستی نے بہت نیچے سروں میں ہے ابھی یورپ کا واویلا
اس مادہ پرستی نے یورپ کو اخلاقی انحطاط سے دوچار کیا ہے۔ اسے خبر نہیں کہ حقیقی راحت مادی اسباب میں نہیں روحانی بلندی میں ہے۔
ڈھونڈ رہا ہے فرنگ عیش ِ جہاں کا دوام وائے تمنائے خام، وائے تمنائے خام
سائنسی ترقی نے مغرب کی مادی حیثیت کو غیر معمولی طاقت بخش دی ہے اور اُسے ظاہری شان و شوکت سے مالا مال کیا لیکن انسانیت کے اصلی جوہر کو نقصان پہنچایا یہ علوم و فنون انسان کو حقیقی راحت اور آسودگی پہنچانے کی بجائے اُس کی موت کا پروانہ بن گئے۔ انہی آثار کو دیکھ کر اقبال نے پیشن گوئی کی کہ،
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی جو شاخ ِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
اقبال کو مغربی تہذیب سے یہی شکایت ہے کہ وہ ظاہری اور خارجی فلاح و بہبود پر نظر رکھتی ہے اور روح کی پاکیزگی اور بلندی کا کوئی دھیان نہیں کرتی۔ حالانکہ یہی انسانی افکار و اعمال کا سرچشمہ ہے یورپ نے عناصر ِ فطرت کوتو تسخیر کر لیا لیکن روحانی نشو و نما اور صفائی قلب کی طرف توجہ نہ دے سکا۔
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا آج تک فیصلہ نفع و ضرر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا زندگی کی شب تاریک سحر کر نہ سکا
مغرب میں اخلاقی اور روحانی اقدار سے روگردانی کا سبب یہ بنا کہ سائنس کے انکشافات قدم قدم پر ان کے جامد دینی عقائد سے ٹکراتے تھے۔ علم کی روشنی نے ان جامد عقائد کو متزلزل کیا تو و ہ مذہب اور مذہب کی پیش کردہ روحانی اقدار سے ہی منکر ہو گئے مادی اسباب کی فراوانی نے تعیش اور خود غرضی کو فروغ دیا۔ عورت کو بے محابا آزادی مل گئی اور معاشرہ میں فساد برپا ہو گیا۔ روحانی اور اخلاقی اقدار کی غیر موجودگی میں مے خواری، عریانی، سود خوری اور اخلاقی پستی نے جنم لیا اور ان امراض نے یورپی تہذیب کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیا۔ اقبال کو اسی لیے ایوان ِ فرنگ سست بنیاد نظر آیا تھا اور وہ اسے ایک سیل بے پناہ کی زد میں سمجھتے تھے۔
پیر مے خانہ یہ کہتا ہے کہ ایوانِ فرنگ سست بنیاد بھی ہے آئے نہ دیوار بھی ہے
خبر ملی ہے خدایان ِ بحر و بر سے مجھے فرنگ رہگزر سیلِ بے پناہ میں ہے
خود بخود گرنے کو ہے پکے ہوئے پھل کی طرح دیکھے پڑتا ہے آخر کس کی جھولی میں فرنگ
سائنس کی ہلاکت آفرینی
اقبال رحمہ اللہ تعالی کے نزدیک مغربی تہذیب کی ایک خامی یہ بھی ہے کہ اس کے فرزندوں نے مظاہر فطرت کو تسخیر کرکے اپنے فائدے کو پیش نظر رکھا لیکن بحیثیت مجموعی انسانیت کے لیے ہلاکت آفرینی کے اسباب پیدا کیے۔ مغربی ممالک بے پناہ قوت حاصل کرنے کے بعد کمزور ممالک کو اپنی ہوس کا شکار بنانے پر تل گئے مغرب والوں نے کارخانے بنائے جو سرمایہ داروں کے ہاتھ آ گئے اور مزدور ایک دوسری قسم کی غلامی میں آزادی سے محرو م ہو گئے۔ نئی تہذیب کے پرور دہ تاجرانِ فرنگ کے اسی رویے کے خلاف اقبال نے یہ کہہ کر احتجاج کیا۔
جسے کساد سمجھتے ہیں تاجرانِ فرنگ
وہ شے متاعِ ہنر کے سوا کچھ اور نہیں
مشرق کے خداوند سفیرانِ فرنگی
مغرب کے خداوند درخشندہ فلذات
ظاہر میں تجارت ہے حقیقت میں جوا
ہے سود ایک کا لاکھوں کے مرگ مفاجات
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات