دشمنوں کے خلاف اہل اسلام کی مددکرنااللہ تعالی کاوعدہ ہے
{رَبَّنَا وَاٰتِنَا مَا وَعَدْتَّنَا عَلٰی رُسُلِکَ وَلَا تُخْزِنَا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اِنَّکَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعَادَ }(۱۹۴)
ترجمہ کنزالایمان:اے رب ہمارے اور ہمیں دے وہ جس کا تو نے ہم سے وعدہ کیا ہے اپنے رسولوں کی معرفت اور ہمیں قیامت کے دن رسوا نہ کر بے شک تو وعدہ خلاف نہیں کرتا۔
ترجمہ ضیاء الایمان:اے ہمارے رب ! اور ہمیں دے وہ جس کا تو نے ہم سے وعدہ کیا ہے اپنے رسولوں کی معرفت اور ہمیں قیامت کے دن رسوا نہ کر بے شک تو وعدہ خلاف نہیں کرتا۔
اس دعاسے مراد کیاہے ؟
أَنَّ اللَّہَ تَعَالَی وَعَدَ الْمُؤْمِنِینَ بِأَنْ یَنْصُرَہُمْ فِی الدُّنْیَا وَیَقْہَرَ عَدُوَّہُمْ،فَہُمْ طَلَبُوا تَعْجِیلَ ذَلِکَ۔
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی: ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے اہل ایمان کے ساتھ وعدہ فرمایاکہ وہ ان کی دنیامیں مددفرمائے گااوران کے دشمنوں کو ذلیل وخوارکرتے ہوئے اہل اسلام کو ان پرغلبہ عطافرمائے گااسی لئے اہل ایمان نے اس وعدہ میں تعجیل طلب کی ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی(۹:۴۶۹)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں غلبہ دین کی تڑپ
سَأَلُوا أَنْ یُعْطَوْا مَا وُعِدُوا بِہِ مِنَ النَّصْرِ عَلَی عَدُوِّہِمْ مُعَجَّلًا، لِأَنَّہَا حِکَایَۃٌ عَنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلُوہُ ذَلِکَ إِعْزَازًا لِلدِّینِ وَاللَّہُ أَعْلَمُ۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اللہ تعالی کی بارگاہ اقدس میں یہ التجاء کی کہ انہیں وہ کچھ جلدی عطاکیاجائے جودشمن کے خلاف ان کی مددونصرت کاوعدہ ان کے ساتھ کیاگیاہے۔ کیونکہ حضورتاجدارختم نبوتﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں یہ بیان کیاہے کہ انہوںنے دین کے غلبہ کے لئے اللہ تعالی کی بارگاہ میں یہ دعاکی تھی ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکرشمس الدین القرطبی (۴:۳۱۸)
وہ وعدہ کس چیز کاہے ؟
وقیل:علی ألسنۃ رسلک والموعود ہو الثواب وقیل:النصرۃ علی الأعداء .
ترجمہ :أبو القاسم محمود بن عمرو بن أحمد، الزمخشری جار اللہ المتوفی : ۵۳۸ھ) لکھتے ہیں کہ یہ بیان کیاگیاہے کہ وہ وعدہ جو اللہ تعالی نے انبیاء کرام علیہم السلام کی زبانی اہل ایمان سے کیاتھااوروہ وعدہ اجروثواب ہے اوریہ بھی بیان کیاگیاہے کہ وہ وعدہ دشمنان اسلام کے خلاف اہل اسلام کی مددکاہے ۔
(الکشاف :أبو القاسم محمود بن عمرو بن أحمد، الزمخشری جار اللہ(۱:۵۴۸)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی دعا
لا تُخْزِنا فی الدنیا بغلبۃ العدو علینا فکأنہم قالوا:لا تخزنا فی الدنیا ولا تخزنا فی الآخرۃ۔
ترجمہ :امام شہاب الدین محمود بن عبد اللہ الحسینی الألوسی المتوفی: ۱۲۷۰ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اللہ تعالی کی بارگاہ اقدس میں عرض کی :یعنی ہم پر دشمنوں کو غالب کرکے ہم کو دنیامیں رسوانہ فرماتوگویاانہوںنے یوں دعاکی : یااللہ! ہمیں دنیامیں رسوانہ فرمااورہمیں آخرت میں رسوانہ فرما۔
(روح المعانی:شہاب الدین محمود بن عبد اللہ الحسینی الألوسی(۳:۳۷۶)
اللہ تعالی نے اہل اسلام کے کفارپرغلبے کی دعائوں کوقبول فرمالیا
{فَاسْتَجَابَ لَہُمْ رَبُّہُمْ اَنِّیْ لَآ اُضِیْعُ عَمَلَ عٰمِلٍ مِّنْکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی بَعْضُکُمْ مِّنْ بَعْضٍ فَالَّذِیْنَ ہَاجَرُوْا وَاُخْرِجُوْا مِنْ دِیٰرِہِمْ وَاُوْذُوْا فِیْ سَبِیْلِیْ وَقٰتَلُوْا وَقُتِلُوْا لَاُکَفِّرَنَّ عَنْہُمْ سَیِّاٰتِہِمْ وَلَاُدْخِلَنَّہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ ثَوَابًا مِّنْ عِنْدِ اللہِ وَاللہُ عِنْدَہ حُسْنُ الثَّوَابِ }(۱۹۵)
ترجمہ کنزالایمان:تو ان کی دعا سن لی ان کے رب نے کہ میں تم میں کام والے کی محنت اکارت نہیں کرتا مرد ہو یا عورت تم آپس میں ایک ہو تو وہ جنہوں نے ہجرت کی اور اپنے گھروں سے نکالے گئے اور میری راہ میں ستائے گئے اورلڑے اور مارے گئے میں ضرور ان کے سب گناہ اتار دوں گا اور ضرور انہیں باغوں میں لے جاؤں گا جن کے نیچے نہریں رواں ،اللہ کے پاس کا ثواب اور اللہ ہی کے پاس اچھا ثواب ہے۔
ترجمہ ضیاء الایمان:تو ان کی دعا قبول فرما لی ان کے رب تعالی نے کہ میں تم میں کام والے کی محنت ضائع نہیں کرتا مرد ہو یا عورت تم آپس میں ایک ہو تو وہ جنہوں نے ہجرت کی اور اپنے گھروں سے نکالے گئے اور میری راہ میں ستائے گئے اورانہوں نے جہادکیا اور مارے گئے میں ضرور ان کے سب گناہ معاف کردوںگا اور ضرور انہیں باغوں میں لے جاؤں گا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں ،اللہ تعالی کے پاس کا ثواب اور اللہ تعالی ہی کے پاس اچھا ثواب ہے۔
مہاجرین کون؟
قَوْلُہُ تَعَالَی:(فَالَّذِینَ ہاجَرُوا)ابْتِدَاء ٌ وَخَبَرٌ،أَیْ ہَجَرُوا أَوْطَانَہُمْ وَسَارُوا إِلَی الْمَدِینَۃِ(وَأُخْرِجُوا مِنْ دِیارِہِمْ) فِی طَاعَۃِ اللَّہِ عَزَّ وجل(قاتَلُوا)أَیْ وَقَاتَلُوا أَعْدَائِی(وَقُتِلُوا)أَیْ فِی سَبِیلِی(لَأُکَفِّرَنَّ عَنْہُمْ سَیِّئاتِہِمْ)أَیْ لَأَسْتُرَنَّہَا عَلَیْہِمْ فِی الْآخِرَۃِ، فَلَا أُوَبِّخُہُمْ بِہَاوَلَا أُعَاقِبُہُمْ عَلَیْہَا(ثَواباً مِنْ عِنْدِ اللَّہ)
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی اس آیت کریمہ کے تحت فرماتے ہیں کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے وطنوں کو چھوڑااورمکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ کی طرف چلے گئے اوراللہ تعالی کی اطاعت وعبادت کی وجہ سے ان کو ان کے گھروں سے نکال دیاگیااورانہوںنے اللہ تعالی کے دشمنوں کے ساتھ جہاد کیااوراللہ تعالی کی راہ میں قتل کئے گئے ۔ یعنی میں ان کے گناہوں کو چھپادوں گا، پس میں انہیں ان کے سبب زجروتوبیخ نہیں کرونگااورنہ ان پرانہیں کوئی سزادوں گا۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکرشمس الدین القرطبی (۴:۳۱۹)
مہاجرین میں افضل کون؟
قال الامام المراد من قولہ فَالَّذِینَ ہاجَرُوا الذین اختاروا المہاجرۃ من أوطانہم فی خدمۃ الرسول والمراد من الذین اخرجوا من دیارہم الذین الجأہم الکفار ولا شک ان رتبۃ الأولین أفضل لانہم اختاروا خدمۃ الرسول وملازمتہ علی الاختیار فکانوا أفضل وَأُوذُوا فِی سَبِیلِی فی سبیل الحق ودین التوحید بسبب ایمانہم باللہ ومن اجلہ وہو متناول لکل اذیۃ نالتہم من قبل المشرکین وَقاتَلُوا ای الکفار فی سبیل اللہ وَقُتِلُوا استشہدوا فی القتال۔
ترجمہ:امام اسماعیل حقی حنفی المتوفی : ۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ امام رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ { فَالَّذِینَ ہاجَرُوا }سے وہ لوگ مراد ہیں جو حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی خدمت کے لئے اپنے اصلی وطن کو چھوڑ کرمدینہ طیبہ چلے گئے اور{وَاُخْرِجُوْا مِنْ دِیٰرِہِمْ}سے مراد وہ لوگ ہیں جن کومکہ مکرمہ کوچھوڑنے پرمجبورکردیاگیا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ رتبہ کے لحاظ سے پہلے مہاجرین سے دوسرے مہاجرین افضل واعلی ہیں ۔ اس لئے ان حضرات نے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی خدمت اورآپ ﷺکے ساتھ رہنے کی وجہ سے اپنے اختیارسے ہجرت کی ۔ { وَاُوْذُوْا فِیْ سَبِیْلِی}اوروہ میرے راستے میں ایذادیئے گئے یعنی دین کی راہ میں ، اللہ تعالی کی ذات اقدس پر ایمان لانے کی وجہ سے ایذادیئے گئے۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی (۲:۱۵۱)
معارف ومسائل
(ا) پہلی آیات کریمہ میں اہل ایمان کی دعائیں بیان کی گئیں اوراس آیت کریمہ میں دین متین کے لئے ان کی قربانیاں بیان کی جارہی ہیں ، اس میں یہ درس ہے کہ اہل ایمان اللہ تعالی کو صرف دعائوں سے راضی نہیں کرناچاہتے بلکہ اس کی رضاکے لئے ضرورت کے وقت ہجرت اورجہاد سے بھی گریزنہیں کرتے ۔ آج ہمارے علماء ومشائخ بڑے بڑے کافروں کے مرنے کی دعائیں کررہے ہیں اوربڑے گستاخوں کے خلاف صرف دعائیں کرتے ہوئے نظرآتے ہیں ۔ اورجہاد کے لفظ سے بھی ہمیں خوف آتاہے مگریوں اللہ تعالی کی رضاکبھی بھی نہیں مل سکتی ۔ اس آیت کریمہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ہجرت ، جہاد اوران کی مالی ، جانی قربانیوں کامکمل نقشہ کھینچاگیاہے۔
(۲)آج بھی جتنے علماء حق خالصتاً دین متین کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو وقف کئے ہوئے ہیں وہ بھی حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی ہی خدمت میں لگے ہوئے ہیں ۔ لھذاان جیسابھی کوئی خادم اورمہاجرنہیں ہے ۔ حضرت سیدناسائیں توکل شاہ انبالوی رحمہ اللہ تعالی نے خواب میں حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی زیارت کی تو آپ ﷺنے فرمایا: اے توکل !تم لوگوں کی دعوت کرتے ہوہماری دعوت کیوں نہیں کرتے ؟ توآپ رحمہ اللہ تعالی جب بیدارہوئے توبہت زیادہ غوروفکرکرنے کے بعد یہ فیصلہ کیاکہ دعوت علماء کرام کوکھلانی چاہئے ، شام کے وقت انواع واقسام کے کھانے دسترخوان پر چن دیئے گئے اورعلماء کرام کی جماعت مدعوکی گئی اورانہوںنے خو ب سیرہوکر کھاناتناول فرمایا۔ رات کے وقت جب سائیں توکل شاہ انبالوی رحمہ اللہ تعالی محو استراحت ہوئے تو پھرحضورتاجدارختم نبوت ﷺکی زیارت سے مشرف ہوئے اورحبیب کریم ﷺنے فرمایا: اے توکل !تمھاری دعوت ہم کو بہت پسندآئی ہے ۔