قل خوانی پرپڑھی جانے والی آیت کریمہ کاتعلق بھی مسئلہ ناموس رسالت سے ہے
{فَاِنْ کَذَّبُوْکَ فَقَدْ کُذِّبَ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِکَ جَآء ُوْ بِالْبَیِّنٰتِ وَالزُّبُرِ وَ الْکِتٰبِ الْمُنِیْرِ }(۱۸۴){کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ وَ اِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ وَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلَّا مَتٰعُ الْغُرُوْرِ }(۱۸۵)
ترجمہ کنزالایمان : تو اے محبوب اگر وہ تمہاری تکذیب کرتے ہیں تو تم سے اگلے رسولوں کی بھی تکذیب کی گئی ہے جو صاف نشانیاں اور صحیفے اورچمکتی کتاب لے کر آئے تھے ۔ہر جان کو موت چکھنی ہے اور تمہارے بدلے تو قیامت ہی کو پورے ملیں گے جو آگ سے بچا کر جنت میں داخل کیا گیا وہ مراد کو پہنچا اور دنیا کی زندگی تو یہی دھوکے کا مال ہے۔
ترجمہ ضیاء الایمان:تو اے حبیب کریم ﷺ! اگر وہ آپ کی تکذیب کرتے ہیں تو تم سے پہلے رسولوں کی بھی تکذیب کی گئی ہے جو صاف نشانیاں اور صحیفے اورچمکتی کتاب لے کر آئے تھے ۔ہر جان کو موت کامزہ چکھنا ہے اور تمہارے بدلے تو قیامت ہی کو پورے ملیں گے جو آگ سے بچا کر جنت میں داخل کیا گیا وہ مراد کو پہونچا اور دنیا کی زندگی تو یہی دھوکے کا مال ہے۔
اس آیت کریمہ کی دوتفسیریں
فِی قَوْلِہِ:فَإِنْ کَذَّبُوکَ وُجُوہٌ:أَحَدُہَا:فَإِنْ کَذَّبُوکَ فِی قَوْلِکَ إِنَّ الْأَنْبِیَاء َ الْمُتَقَدِّمِینَ جَاء ُوا إِلَی ہَؤُلَاء ِ الْیَہُودِ بِالْقُرْبَانِ الَّذِی تَأْکُلُہُ النَّارُ فَکَذَّبُوہُمْ وَقَتَلُوہُمْ،فَقَدْ کُذِّبَ رُسُلٌ مِنْ قَبْلِکَ:نُوحٌ وَہُودٌ وَصَالِحٌ وَإِبْرَاہِیمُ وَشُعَیْبٌ وَغَیْرُہُمْ وَالثَّانِی:ان المراد:فان کَذَّبُوکَ فِی أَصْلِ النُّبُوَّۃِ وَالشَّرِیعَۃِ فَقَدْ کُذِّبَ رُسُلٌ مِنْ قَبْلِکَ،وَلَعَلَّ ہَذَا الْوَجْہَ أَوْجَہُ،لِأَنَّہُ تَعَالَی لَمْ یُخَصِّصْ،وَلِأَنَّ تَکْذِیبَہُمْ فِی أَصْلِ النُّبُوَّۃِ أَعْظَمُ، وَلِأَنَّہُ یَدْخُلُ تَحْتَہُ التَّکْذِیبُ فِی ذَلِکَ الْحِجَاجِ وَالْمَقْصُودُ مِنْ ہَذَا الْکَلَامِ تَسْلِیَۃُ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَبَیَانُ أَنَّ ہَذَا التَّکْذِیبَ لَیْسَ أَمْرًا مُخْتَصًّا بِہِ مِنْ بَیْنِ سَائِرِ الْأَنْبِیَاء ِ،بَلْ شَأْنُ جَمِیعِ الْکُفَّارِ تَکْذِیبُ جَمِیعِ الْأَنْبِیَاء ِ وَالطَّعْنُ فِیہِمْ، مَعَ أَنَّ حَالَہُمْ فِی ظُہُورِ الْمُعْجِزَاتِ عَلَیْہِمْ وَفِی نُزُولِ الْکُتُبِ إِلَیْہِمْ کَحَالِکَ، وَمَعَ ہَذَا فَإِنَّہُمْ صَبَرُوا عَلَی مَا نَالَہُمْ مِنْ أُولَئِکَ الْأُمَمِ وَاحْتَمَلُوا إِیذَاء َہُمْ فِی جَنْبِ تَأْدِیَۃِ الرِّسَالَۃِ،فَکُنْ مُتَأَسِّیًا بِہِمْ سَالِکًا مِثْلَ طَرِیقَتِہِمْ فِی ہَذَا الْمَعْنَی،وَإِنَّمَا صَارَ ذَلِکَ تَسْلِیَۃً لِأَنَّ الْمُصِیبَۃَ إِذَا عَمَّتْ طَابَتْ وَخَفَّتْ۔
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ کی
تفسیرمیں دو وجوہ ہیں :
پہلی تفسیر: اگرانہوں نے آپ ﷺکی اس بات کی تکذیب کی کہ سابقہ انبیاء کرام علیہم السلام ان یہودیوں کے پاس بطوردلیل ایسی قربانیاں لائے جنہیں آگ کھاگئی توانہوںنے ان کی تکذیب کی اوران کو قتل کردیاتوآپﷺسے پہلے بھی ان انبیاء کرام علیہم السلام جیسے حضرت سیدنانوح علیہ السلام ، حضرت سیدناہودعلیہ السلام ، حضرت سیدناصالح علیہ السلام ، حضرت سیدناابراہیم علیہم السلام ، حضرت سیدناشعیب علیہ السلام اوردیگرانبیاء کرام علیہم السلام کی بھی انہوں نے تکذیب کی ۔
دوسری تفسیر:
اس آیت کریمہ سے مرادیہ ہے کہ اگرانہوںنے آپ ﷺکی اصل نبوت وشریعت میں تکذیب کی توآپﷺ سے پہلے انبیاء کرام علیہم السلام کی بھی تکذیب کی گئی ہے ، ممکن ہے کہ یہ وجہ مختارہواس لئے کہ اللہ تعالی نے کوئی تخصیص نہیں کی اوراس لئے کہ ان کااصل نبوت کی تکذیب کرنااعظم ہے اوراس لئے کہ اس کے تحت ان دلائل کی تکذیب بھی داخل ہے ۔ اس کلام سے مقصود حضورتاجدارختم نبوت ﷺکوتسلی دیناہے اوریہ آشکارکرناہے کہ ان کی تکذیب دیگرانبیاء کرام علیہم السلام کے درمیان آپ ﷺکے ساتھ ہی مختص نہیں بلکہ تمام کفارنے تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی تکذیب کی اوران کی گستاخیاں کی ہیں ، حالانکہ معجزات کے ظہورمیں اورکتب کے نزول میں ان کاحال آپ ﷺکے حال کی طرح ہے ، اس کے باوجود انہوںنے ان قوموں کی طرف سے ملنے والی تکالیف پرصبرکیااوراپنی رسالت کی ادائیگی کی خاطرانکی گستاخیوں کو برداشت کیا، آپ ﷺبھی اس مسئلہ میں ان کے طریقے کو اپناتے ہوئے اپناسفرجاری رکھیں ، یہ آپ ﷺکے لئے تسلی کاباعث اس طرح بھی ہے کہ مصیبت جب عام ہوجاتی ہے تواس میں خفت اورپسندیدگی آجاتی ہے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۹:۴۵۰)
کُلُّ نَفْسٍ ذائِقَۃُ الْمَوْتِ کی دوتفسیریں
اعْلَمْ أَنَّ الْمَقْصُودَ مِنْ ہَذِہِ الْآیَۃِ تَأْکِیدُ تَسْلِیَۃِ الرَّسُولِ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ وَالْمُبَالَغَۃُ فِی إِزَالَۃِ الْحُزْنِ مِنْ قَلْبِہِ وَذَلِکَ مِنْ وَجْہَیْنِ:أَحَدُہُمَا:أَنَّ عَاقِبَۃَ الْکُلِّ الْمَوْتُ، وَہَذِہِ الْغُمُومُ وَالْأَحْزَانُ تَذْہَبُ وَتَزُولُ وَلَا یَبْقَی شَیْء ٌمِنْہَا،وَالْحُزْنُ مَتَی کَانَ کَذَلِکَ لَمْ یَلْتَفِتِ الْعَاقِلُ إِلَیْہِن وَالثَّانِی:أَنَّ بَعْدَ ہَذِہِ الدَّارِ دَارٌ یَتَمَیَّزُ فِیہَا الْمُحْسِنُ عَنِ الْمُسِیء ِ،وَیَتَوَفَّرُ عَلَی عَمَلِ کُلِّ وَاحِدٍ مَا یَلِیقُ بِہِ مِنَ الْجَزَاء ِ،وَکُلُّ وَاحِدٍ مِنْ ہَذَیْنِ الْوَجْہَیْنِ فِی غَایَۃِ الْقُوَّۃِ فِی إِزَالَۃِ الْحُزْنِ وَالْغَمِّ عَنْ قُلُوبِ الْعُقَلَاء ِ۔
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی :۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ سے مقصود حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی تسلی میں تاکیداورآپ ﷺکے قلب انورسے غم کے ازالے میں مبالغہ کرناہے ۔ اس کی دووجہیں ہوسکتی ہیں ۔
پہلی وجہ : تمام کاانجام موت ہے اوریہ غم اورپریشانی ختم اورزائل ہونے والی چیزیں ہیں ان میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہے گی ، جب غم کی صورتحال یہ ہے توکوئی بھی عقل منداس کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوتا۔
دوسری وجہ : اس داردنیاکے بعد ایسی دارہے جس میں نیک اوربرے کے درمیان فرق کردیاجائے گااورہرایک کو اس کے عمل کے مطابق پوری پوری جزادی جائے گی ، ان دونوںوجوہات میں سے ہرایک عقلاء کے دلوں میں حزن وغم کے ازالہ پرنہایت قوی ہے ۔
(ا لتفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۹:۴۵۰)
معارف ومسائل
(۱) ان آیات کریمہ سے معلو م ہواکہ کفارکی گستاخیوں کے سبب اللہ تعالی نے اپنے حبیب کریم ﷺکو تسلی دی اوران آیات کریمہ سے یہ بھی معلوم ہواکہ اللہ تعالی نے فرمایاکہ حبیب کریم ﷺیہ لوگ خوش نہ ہوں جو آپﷺ تکالیف اوراذیتیں دیتے ہیں کہ ان کو ایسے ہی چھوڑدیاجائے بلکہ قیامت کے دن ان کو ان کے ہرہرعمل اوران کی ہرہرگستاخی کاپوراپورابدلہ دیاجائے گا۔
(۲) اللہ تعالی نے اس آیت کریمہ میں حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے گستاخوں اوردین اسلام کے دشمنوں کو عذاب آخرت سے ڈرایاہے تاکہ وہ موت سے قبل توبہ کرکے ایمان لے آئیں اوردوزخ کے دائمی عذاب سے بچ جائیں ۔
(۳) کاش کہ ہمارے علماء اس آیت پر کلام کرنے سے پہلے اس کاشان نزول دیکھتے اورپھراسے قل خوانی کی محافل میں بیان کرتے تولوگوںکے سامنے ناموس رسالت کامسئلہ بیان ہوتاتوآج ہم کو یہ دن نہ دیکھناپڑتاکہ ہماری قوم کوناموس رسالت کے مسئلہ کی حساسیت کاہی علم نہیں ہے ۔