یہودیوں کااللہ تعالی اورحضورتاجدارختم نبوت ﷺکی گستاخیاں کرنا
{لَقَدْ سَمِعَ اللہُ قَوْلَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللہَ فَقِیْرٌ وَّنَحْنُ اَغْنِیَآء ُ سَنَکْتُبُ مَا قَالُوْا وَقَتْلَہُمُ الْاَنْبِیَآء َ بِغَیْرِ حَقٍّ وَّ نَقُوْلُ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ }(۱۸۱){ذٰلِکَ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْکُمْ وَاَنَّ اللہَ لَیْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ }(۱۸۲)
ترجمہ کنزالایمان:بے شک اللہ نے سُنا جنہوں نے کہا کہ اللہ محتاج ہے اور ہم غنی اب ہم لکھ رکھیں گے ان کا کہا اور انبیاء کو ان کا ناحق شہید کرنا اور فرمائیں گے کہ چکھو آگ کا عذاب ۔یہ بدلا ہے اس کا جوتمہارے ہاتھوں نے آگے بھیجا اور اللہ بندوں پر ظلم نہیں کرتا ۔
ترجمہ ضیاء الایمان:بیشک اللہ تعالی نے ان کا قول سن لیا جنہوں نے کہا کہ اللہ تعالی محتاج ہے اور ہم مالدار ہیں۔ اب ہم ان کی کہی ہوئی بات اور ان کا انبیاء کرام علیہم السلام کو ناحق شہید کرنا لکھ رکھیں گے اورانہیں فرمائیں گے:جلادینے والے عذاب کا مزہ چکھو۔یہ ان اعمال کا بدلہ ہے جو تمہارے ہاتھوں نے آگے بھیجے اور اللہ تعالی بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔
یہودیوں نے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی شان میں گستاخی کی
فَالشُّبْہَۃُ الْأُولَی:أَنَّہُ تَعَالَی لَمَّا أَمَرَ بِإِنْفَاقِ الْأَمْوَالِ فِی سَبِیلِہِ قَالَتِ الْکُفَّارُ:إِنَّہُ تَعَالَی لَوْ طَلَبَ الْإِنْفَاقَ فِی تَحْصِیلِ مَطْلُوبِہِ لَکَانَ فَقِیرًا عَاجِزًا، َأَنَّ الَّذِی یَطْلُبُ الْمَالَ مِنْ غَیْرِہِ یَکُونُ فَقِیرًا، وَلَمَّا کَانَ الْفَقْرُ عَلَی اللَّہِ تَعَالَی مُحَالًا،کَانَ کَوْنُہُ طَالِبًا لِلْمَالِ مِنْ عَبِیدِہِ مُحَالًا،وَذَلِکَ یَدُلُّ عَلَی أَنَّ مُحَمَّدًا کَاذِبٌ فِی إِسْنَادِ ہَذَا الطَّلَبِ إِلَی اللَّہِ تَعَالَی.
ترجمہ:امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے جب اپنے اموال خرچ کرنے کاحکم دیاتو کفارنے کہاکہ اللہ تعالی نے اپنے مطلوب کے حاصل کرنے کے لئے اس خرچ کامطالبہ کیاہے تووہ عاجز ومحتاج ہوگاکیونکہ جو دوسرے سے مال طلب کرے تووہ محتاج ہوتاہے ، جب محتاجی اللہ تعالی پرمحال ہے تواس کابندوں سے مال طلب کرنابھی محال ہوگا۔ اوریہ چیز بتاتی ہے کہ محمدﷺاللہ تعالی کی طرف سے مال طلب کرنے کی نسبت کرنے میں جھوٹے ہیں(نعوذ باللہ من ذلک )
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۹:۴۴۵)
یہودیوں کی دوسری گستاخی
الْوَجْہُ الثَّانِی:فِی طَرِیقِ النَّظْمِ أَنَّ أُمَّۃَ مُوسَی عَلَیْہِ السَّلَامُ کَانُوا إِذَا أَرَادُوا التَّقَرُّبَ بِأَمْوَالِہِمْ إِلَی اللَّہِ تَعَالَی، فَکَانَتْ تَجِیء ُ نَارٌ مِنَ السَّمَاء ِ فَتُحْرِقُہَا،فَالنَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا طَلَبَ مِنْہُمْ بَذْلَ الْأَمْوَالِ فِی سَبِیلِ اللَّہِ قَالُوا لَہُ لَوْ کُنْتَ نَبِیًّا لَمَا طَلَبْتَ الْأَمْوَالَ لِہَذَا الْغَرَضِ،فَإِنَّہُ تَعَالَی لَیْسَ بِفَقِیرٍ حَتَّی یَحْتَاجَ فِی إِصْلَاحِ دِینِہِ إِلَی أَمْوَالِنَا،بَلْ لَوْ کُنْتَ نَبِیًّا لَکُنْتَ تَطْلُبُ أَمْوَالَنَا لِأَجْلِ أَنْ تَجِیئَہَا نَارٌ مِنَ السَّمَاء ِ فَتُحْرِقُہَا، فَلَمَّا لَمْ تَفْعَلْ ذَلِکَ عَرَفْنَا أَنَّکَ لَسْتَ بِنَبِیٍّ۔
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ آیت کریمہ کے ربط اورتعلق میں دوسری وجہ یہ ہے کہ جب حضرت سیدناموسی علیہ السلام کی امت اللہ تعالی کی بارگاہ میں تقرب کے لئے مال خرچ کرتی توآسمان سے آگ آتی اورانہیں جلادیتی ۔ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے جب اللہ تعالی کے راستے میں مال خرچ کرنے کامطالبہ کیاتویہودیوں نے کہاکہ اگرتم نبی ہوتے تواس مقصدکے لئے تم مال طلب نہ کرتے کیونکہ اللہ تعالی محتاج نہیں ہے کہ وہ اپنے دین کی اصلاح کے لئے ہمارے اموال کامحتاج ہوبلکہ اگرتم نبی ہوتے توتم ہم سے اموال اس لئے طلب کرتے کہ آسمان سے آگ آکران کو جلادیتی ۔ اگرتم نے ایسے نہیں کیاتوہم نے جان لیاکہ تم نبی نہیں ہو۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۹:۴۴۵)
یہودیوں کااللہ تعالی کی گستاخی کرنا
رُوِیَ أَنَّہُ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَتَبَ مَعَ أَبِی بَکْرٍ إِلَی یَہُودِ بَنِی قَیْنُقَاعَ یَدْعُوہُمْ إِلَی الْإِسْلَامِ وَإِلَی إِقَامَۃِ الصَّلَاۃِ وَإِیتَاء ِ الزَّکَاۃِ وَأَنْ یُقْرِضُوا اللَّہَ قَرْضًا حَسَنًا، فَقَالَ فِنْحَاصُ الْیَہُودِیُّ:إِنَّ اللَّہَ فَقِیرٌ حَتَّی سَأَلَنَا الْقَرْضَ، فَلَطَمَہُ أَبُو بَکْرٍ فِی وَجْہِہِ وَقَالَ:لَوْلَا الَّذِی بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ مِنَ الْعَہْدِ لَضَرَبْتُ عُنُقَکَ، فَشَکَاہُ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَجَحَدَ مَا قَالَہُ، فَنَزَلَتْ ہَذِہِ الْآیَۃُ تَصْدِیقًا لِأَبِی بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ.
ترجمہ :روایت کیاگیاہے کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے حضرت سیدناابوبکررضی اللہ عنہ کوایک خط دے کربنوقینقاع کے یہودیوں کی طرف بھیجاکہ وہ ان کواسلام کی دعوت دیں اورنما ز قائم کریں اورزکوۃ اداکریں اوراللہ تعالی کو قرض حسنہ دینے کی دعوت دیں توفنحاض یہودی نے کہاکہ اللہ تعالی فقیرہے جوہم سے قرض مانگ رہاہے توحضرت سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے اس کے منہ پرتھپڑمارااورفرمایا: اگرہمارے اورتمھارے درمیان معاہدہ نہ ہوتاتومیں تمھاری گردن اڑادیتا، اس نے آکرحضورتاجدارختم نبوت ﷺکی بارگاہ میں شکایت کی ، اس یہودی نے اپنی گستاخی سے انکارکردیاتواللہ تعالی نے یہ آیت کریمہ حضرت سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی تصدیق کے لئے نازل فرمائی ۔
(تفسیر مقاتل بن سلیمان:أبو الحسن مقاتل بن سلیمان بن بشیر الأزدی البلخی (ا:۳۱۹)
یہودیوں نے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکامذاق اڑایا
وَالْأَظْہَرُ أَنَّہُمْ قَالُوہُ عَلَی سَبِیلِ الطَّعْنِ فِی نُبُوَّۃِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، یَعْنِی لَوْ صَدَقَ مُحَمَّدٌ فِی أَنَّ الْإِلَہَ یَطْلُبُ الْمَالَ مِنْ عَبِیدِہِ لَکَانَ فَقِیرًا، وَلَمَّا کَانَ ذَلِکَ مُحَالًا ثَبَتَ أَنَّہُ کَاذِبٌ فِی ہذہ الْإِخْبَارِ، أَوْ ذَکَرُوہُ عَلَی سَبِیلِ الِاسْتِہْزَاء ِ وَالسُّخْرِیَۃِ، فَأَمَّا أَنْ یَقُولَ الْعَاقِلُ مِثْلَ ہَذَا الْکَلَامِ عَنِ اعْتِقَادٍ فَہُوَ بَعِیدٌ۔
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اظہریہی ہے کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے دشمنوں نے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی نبوت پرطعن کرتے ہوئے کہا ، اگرمحمدﷺاس معاملے میں سچے ہیں کہ اللہ تعالی اپنے بندوں سے مال طلب کررہاہے تو وہ یقینافقیرہوگا، جب ایسی بات محال ہے توثابت ہوجائے گاکہ محمدﷺاس خبرمیں جھوٹے ہیں یاان مخالفین نے یہ بات بطورتمسخراورمذاق کہی ہوگی لیکن کسی عاقل کابطورعقیدہ یہ بات کرنابہت بعیدہے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۹:۴۴۵)
ایک شبہ اوراس کاجواب
قَوْلُہُ تَعَالَی:(وَقَتْلَہُمُ الْأَنْبِیاء َ بِغَیْرِ حَقٍّ)أی ونکتب قتلہم الأنبیاء ،أی رضاہم بِالْقَتْلِ وَالْمُرَادُ قَتْلُ أَسْلَافِہِمُ الْأَنْبِیَاء َ،لَکِنْ لَمَّا رَضُوا بِذَلِکَ صَحَّتِ الْإِضَافَۃُ إِلَیْہِمْ وَحَسَّنَ رَجُلٌ عِنْدَ الشَّعْبِیِّ،قَتْلَ عُثْمَانَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ فَقَالَ لَہُ الشَّعْبِیُّ:شَرِکْتَ فِی دَمِہِ فَجَعَلَ الرضا بالقتل قتلا رضی اللہ عنہ قُلْتُ:وَہَذِہِ مَسْأَلَۃٌ عُظْمَی، حَیْثُ یَکُونُ الرِّضَا بِالْمَعْصِیَۃِ مَعْصِیَۃًوَقَدْ رَوَی أَبُو دَاوُدَ عَنِ،الْعُرْسِ بْنِ عُمَیْرَۃَ الْکِنْدِیِّ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:(إِذَا عُمِلَتِ الْخَطِیئَۃُ فِی الْأَرْضِ کَانَ مَنْ شَہِدَہَا فَکَرِہَہَاوَقَالَ مَرَّۃً فَأَنْکَرَہَاکَمَنْ غَابَ عَنْہَا وَمَنْ غَابَ عَنْہَا فَرَضِیَہَا کَانَ کَمَنْ شَہِدَہَا۔
ترجمہ :اللہ تعالی کایہ فرمان شریف {وَقَتْلَہُمُ الْأَنْبِیاء َ بِغَیْرِ حَقٍّ}یعنی ہم ان کے انبیاء کرام علیہم السلام کے قتل کرنے کے عمل کو لکھ دیں گے یعنی ان کے قتل کے ساتھ رضامند ہونے کو اوران سے مراد ان کے اسلاف کاانبیاء کرا م علیہم السلام کاقتل کرناہے لیکن جب وہ اس بات سے راضی اورخوش ہیں تواس بات کی اضافت ان کی طرف کرنادرست ہے ، ایک آدمی نے امام الشعبی رضی اللہ عنہ کے پاس حضرت سیدناعثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کو اچھااقدام قراردیاتو آپ رضی اللہ عنہ نے اس سے فرمایاکہ توبھی ان کے قتل میں برابرکاشریک ہے۔ پس آپ رضی اللہ عنہ نے رضابالقتل کو قتل ہی قراردیا۔ میں (امام القرطبی ) کہتاہوں کہ یہ بہت بڑامسئلہ ہے اس حیثیت سے کہ رضابالمعصیت معصیت ہوتی ہے ۔ امام ابودائودرحمہ اللہ تعالی عرس بن عمیرہ الکندی رضی اللہ عنہ سے اورانہوںنے حضورتاجدارختم نبوت ﷺسے روایت کیاہے کہ آپ ﷺنے فرمایاکہ جب تونے زمین میں گناہ اورخطاکاعمل کیاتوجووہاں حاضرتھاتواس نے اسے ناپسندکیااورایک بارفرمایاکہ اس نے اس کاانکارکیاتووہ اس کی طرح ہے جو وہاں موجود نہ تھااوروہ جو وہاں سے غائب تھالیکن اس نے اسے پسندکیاتووہ اس کی طرح ہے جو وہاں موجود اوروہاں حاضرتھا۔ اوراس مسئلہ میں نص ہے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر القرطبی (۴:۲۹۴)
معارف ومسائل
(۱)اور فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے اُن گستاخوں کی بات سن لی ہے جنہوں نے کہا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ محتاج ہے اور ہم مالدار ہیں۔ اب ہم ان کے اعمال ناموں میں ان کی کہی ہوئی بات اور ان کے دوسرے کفریات جیسے ان کا انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو شہید کرنا لکھ رکھیں گے اورقیامت کے دن اِن کی اِن گستاخیوں کے بدلے میں کہیں گے کہ اب جلا دینے والے عذاب کا مزہ چکھو ۔
انبیاء ِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی گستاخی اللہ تعالیٰ کی گستاخی ہے :یہاں آیت میں اللہ تعالیٰ کی گستاخی اور انبیاء ِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو قتل کرنے کو ساتھ ساتھ بیان کرکے عذاب کی ایک ہی وعید بیان کی ہے ، اس سے معلوم ہوا کہ یہ دونوں جرم بہت عظیم ترین ہیں اور قباحت میں برابر ہیں اور شانِ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں گستاخی کرنے والا شانِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں گستاخی کرنے والے کی طرح جہنم کا مستحق ہے کیونکہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی گستاخی اللہ تعالیٰ کی گستاخی ہے ۔ تفسیرصراط الجنان ( ۲: ۱۰۷)
(۲) اس سے یہ معلو م ہواکہ بندہ مومن کی غیرت ایمانی کامعیاریہی ہوناچاہئے جیساکہ حضرت سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے کیاکہ جیسے ہی اس نے اللہ تعالی کی شان میں گستاخی کی توآپ رضی اللہ عنہ نے فوراً اس کے منہ پرتھپڑماردیا۔