غزوہ بدرالصغر ی
{اَلَّذِیْنَ قَالَ لَہُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَکُمْ فَاخْشَوْہُمْ فَزَادَہُمْ اِیْمٰنًا وَّقَالُوْا حَسْبُنَا اللہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ }(۱۷۳){فَانْقَلَبُوْا بِنِعْمَۃٍ مِّنَ اللہِ وَفَضْلٍ لَّمْ یَمْسَسْہُمْ سُوْء ٌ وَّ اتَّبَعُوْا رِضْوٰنَ اللہِ وَاللہُ ذُوْفَضْلٍ عَظِیْمٍ }(۱۷۴)
ترجمہ کنزالایمان:وہ جن سے لوگوں نے کہا کہ لوگوں نے تمہارے لئے جتھا جوڑا تو ان سے ڈرو تو ان کا ایمان اور زائد ہوا اور بولے اللہ ہم کو بس ہے اور کیا اچھا کار ساز ۔توپلٹے اللہ کے احسان اور فضل سے کہ انہیں کوئی برائی نہ پہنچی اور اللہ کی خوشی پر چلے اور اللہ بڑے فضل والا ہے ۔
ترجمہ ضیاء الایمان:یہ وہ لوگ ہیں جن سے لوگوں نے کہا کہ مشرکین نے تمہارے لئے ایک لشکرجرارجمع کرلیاہے سوان سے ڈرو توان اہل ایمان کے ایمان میں اور اضافہ ہوگیااور کہنے لگے:ہمیں اللہ تعالی کافی ہے اورکیا ہی اچھا کارساز ہے۔ پھر یہ اللہ تعالی کے احسان اور فضل کے ساتھ واپس لوٹے ، انہیں کوئی تکلیف نہ پہنچی اور انہوں نے اللہ تعالی کی رضا کی پیروی کی اوراللہ تعا لی بڑے فضل والا ہے ۔
شان نزول
ہَذِہِ الْآیَۃُ نَزَلَتْ فِی غَزْوَۃِ بَدْرٍ الصُّغْرَی،رَوَی ابْنُ عَبَّاسٍ أَنَّ أَبَا سُفْیَانَ لَمَّا عَزَمَ عَلَی أَنْ یَنْصَرِفَ مِنَ الْمَدِینَۃِ إِلَی مَکَّۃَ نَادَی:یَا مُحَمَّدُ مَوْعِدُنَا مَوْسِمَ بَدْرٍ الصُّغْرَی فَنَقْتَتِلُ بِہَا إِنْ شِئْتَ، فَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ لِعُمَرَ:قُلْ بَیْنَنَا وَبَیْنَکَ ذَلِکَ إِنْ شَاء َ اللَّہُ تَعَالَی،فَلَمَّا حَضَرَ الْأَجَلُ خَرَجَ أَبُو سُفْیَانَ مَعَ قَوْمِہِ حَتَّی نَزَلَ بِمَرِّ الظَّہْرَانِ،وَأَلْقَی اللَّہُ تَعَالَی الرُّعْبَ فِی قَلْبِہِ، فَبَدَا لَہُ أَنْ یَرْجِعَ، فَلَقِیَ نُعَیْمَ بْنَ مَسْعُودٍ الْأَشْجَعِیَّ وَقَدْ قَدِمَ نُعَیْمٌ مُعْتَمِرًا،فَقَالَ:یَا نُعَیْمُ إِنِّی وَعَدْتُ مُحَمَّدًا أَنْ نَلْتَقِیَ بِمَوْسِمِ بَدْرٍ، وَإِنَّ ہَذَا عَامُ جَدْبٍ وَلَا یُصْلِحُنَا إِلَّا عَامٌ نَرْعَی فِیہِ الشَّجَرَ وَنَشْرَبُ فِیہِ اللَّبَنَ، وَقَدْ بَدَا لِی أَنْ أَرْجِعَ، وَلَکِنْ إِنْ خَرَجَ مُحَمَّدٌ وَلَمْ أَخْرُجْ زَادَ بِذَلِکَ جَرَاء َۃً، فَاذْہَبْ إِلَی الْمَدِینَۃِ فَثَبِّطْہُمْ وَلَکَ عِنْدِی عَشَرَۃٌ مِنَ الْإِبِلِ،فَخَرَجَ نُعَیْمٌ فَوَجَدَ الْمُسْلِمِینَ یَتَجَہَّزُونَ فَقَالَ لَہُمْ:مَا ہَذَا بِالرَّأْیِ،أتوکم فی دیارکم وقتلوا أکثرہم فَإِنْ ذَہَبْتُمْ إِلَیْہِمْ لَمْ یَرْجِعْ مِنْکُمْ أَحَدٌ، فَوَقَعَ ہَذَا الْکَلَامُ فِی قُلُوبِ قَوْمٍ مِنْہُمْ، فَلَمَّا عَرَفَ الرَّسُولُ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ ذَلِکَ قَالَ:وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ لَأَخْرُجَنَّ إِلَیْہِمْ وَلَوْ وَحْدِی ثُمَّ خَرَجَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ علیہ وسلم،ومعہ نحو من سَبْعِینَ رَجُلًا فِیہِمُ ابْنُ مَسْعُودٍ،وَذَہَبُوا إِلَی أَنْ وَصَلُوا إِلَی بَدْرٍ الصُّغْرَی،وَہِیَ مَاء ٌ لِبَنِی کِنَانَۃَ وَکَانَتْ مَوْضِعَ سُوقٍ لَہُمْ یَجْتَمِعُونَ فِیہَا کُلَّ عَامٍ ثَمَانِیَۃَ أَیَّامٍ،وَلَمْ یَلْقَ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابَہُ أَحَدًا مِنَ الْمُشْرِکِینَ،وَوَافَقُوا السُّوقَ،وَکَانَتْ مَعَہُمْ نَفَقَاتٌ وَتِجَارَاتٌ،فَبَاعُوا وَاشْتَرَوْا أُدْمًا وَزَبِیبًا وَرَبِحُوا وَأَصَابُوا بِالدِّرْہَمِ دِرْہَمَیْنِ،وَانْصَرَفُوا إِلَی الْمَدِینَۃِ سَالِمِینَ غَانِمِینَ،وَرَجَعَ أَبُو سُفْیَانَ إِلَی مَکَّۃَ فَسَمَّی أَہْلُ مَکَّۃَ جَیْشَہُ جَیْشَ السَّوِیقِ، وَقَالُوا:إِنَّمَا خَرَجْتُمْ لِتَشْرَبُوا السَّوِیقَ۔
ترجمہ:یہ آیت کریمہ غزوہ بدرالصغری کے بارے میں نازل ہوئی ۔ حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ ابوسفیان نے جب مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کی طرف لوٹنے کا ارادہ کیاتواس نے اعلان کیا: اے محمد(ﷺ) ! ہم بدرالصغری کے مقام پرقتال کریں گے ، اگرتم چاہو۔آپﷺنے حضرت سیدناعمررضی اللہ عنہ سے فرمایا: کہوکہ ان شاء اللہ تعالی !یہ ہمارے اورتمھارے درمیان طے ہے ۔ جب وقت مقررہ آیاتوابوسفیان اپنے لوگوں کے ساتھ نکلاحتی کہ ’’مرالظہران‘‘کے مقام پر پڑائوکیا، اللہ تعالی نے اس کے دل پررعب نازل فرمایاتواس نے واپسی کاسوچا، اس کو نعیم بن مسعود اشجعی ملااورنعیم عمرہ کرنے کے لئے آیاہواتھا، توکہنے لگااے نعیم !میں نے محمدﷺسے حلف لیاتھاکہ ہم بدرکے موسم میں ملیں گے لیکن یہ سال قحط کاہے ،ہمیں ایساسال چاہئے جس میں درخت ، جانورروں کو کھلاسکیں اوراس میں ہم دودھ پئیں ، تواب ہمیں واپسی کی راہ لینی ہے لیکن اگروہ نکل آئے اورمیں نہ نکلاتوان کی جرات میں اضافہ ہوجائے گا، اس لئے تم مدینہ جائوان کوورغلائو، میں تم کو دس اونٹ دوں گا، نعیم وہاں پہنچا اورمسلمانوں کو تیاری کرتے ہوئے پایااوراس نے کہا:یہ تم کیاکررہے ہو؟ وہ تمھارے گھروں میں آئے اورسب کو انہوںنے قتل کیا، اب اگرتم ان کے مقابلے میں جاتے ہوتوتم سے کوئی ایک بھی واپس نہیں لوٹے گاتواس کی اس گفتگوکاکچھ دلوں پراثرہوا، جب حضورتاجدارختم نبوتﷺکو اس بات کی اطلاع پہنچی تو آپ ﷺنے فرمایا: قسم اس ذات اقدس کی جس کے قبضہ وقدرت میں محمدﷺکی جان ہے میں ان کے مقابلے کے لئے نکلوں گااگرچہ میں تنہالڑوں ۔ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنکلے اورآپ ﷺکے ساتھ سترافراد تھے ، ان میں حضرت سیدناعبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ بھی تھے ۔ انہوںنے سفرکیا، یہاں تک کہ بدرالصغری پہنچے ، یہ بنوکنانہ کاچشمہ تھا، یہاں ان کاایک بازارلگتاتھاجس میں وہ ہرسال آٹھ دن کے لئے جمع ہوتے ، توحضورتاجدارختم نبوت ﷺاورآپ ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی کسی مشرک کے ساتھ کوئی ملاقات نہیں ہوئی ، ہاں بازاران کے موافق رہا، ان کے پاس جو تجارتی مال تھا، انہوں نے سرکہ اورمنقی وغیرہ فروخت کیااورخریدااورایک درہم کے بدلے دودرہم خوب نفع پایا، وہ مدینہ منورہ سالم لوٹے ۔ ابوسفیان مکہ مکرمہ لوٹاتواہل مکہ نے اس کے لشکرکوجیش السویق قراردیاکہ تم لوگ ستوپینے کے لئے نکلے تھے۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۹:۴۳۱)
مومن کوجہاد سے کوئی بھی خوف زدہ نہیں کرسکتا
الْمُرَادُ بِالزِّیَادَۃِ فِی الْإِیمَانِ أَنَّہُمْ لَمَّا سَمِعُوا ہَذَا الْکَلَامَ الْمُخَوِّفَ لَمْ یَلْتَفِتُوا إِلَیْہِ،بَلْ حَدَثَ فِی قُلُوبِہِمْ عَزْمٌ مُتَأَکِّدٌ عَلَی مُحَارَبَۃِ الْکُفَّارِ،وَعَلَی طَاعَۃِ الرَّسُولِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی کُلِّ مَا یَأْمُرُ بِہِ وَیَنْہَی عَنْہُ ثَقُلَ ذَلِکَ أَوْ خَفَّ،لِأَنَّہُ قَدْ کَانَ فِیہِمْ مَنْ بِہِ جِرَاحَاتٌ عَظِیمَۃٌ،وَکَانُوا مُحْتَاجِینَ إِلَی الْمُدَاوَاۃِ، وَحَدَثَ فِی قُلُوبِہِمْ وُثُوقٌ بِأَنَّ اللَّہَ یَنْصُرُہُمْ عَلَی أَعْدَائِہِمْ وَیُؤَیِّدُہُمْ فِی ہَذِہِ الْمُحَارَبَۃِ، فَہَذَا ہُوَ الْمُرَادُ مِنْ قَوْلِہِ تَعَالَی: فَزادَہُمْ إِیماناً.
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی: ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ایمان میں اضافے سے مرادیہ ہے جب انہوںنے (نعیم جوابوسفیان کی طرف سے اہل ایمان کو ڈرانے کے لئے آیاتھا) کی گفتگوسنی تووہ اس کی طرف متوجہ نہ ہوئے بلکہ ان کے دلوں میں کفارکے خلاف جہاد کاپختہ عزم پیداہوگیااورحضورتاجدارختم نبوت ْﷺکی اطاعت کاکہ جس کاآپ ﷺحکم دیں اورجس سے آپ ْﷺروکیں خواہ وہ مشکل ہویاآسان ۔ حالانکہ ان کو بڑے بڑے زخم لگے ہوئے تھے اوران کوعلاج کی ضرورت تھی ، ان کے دلوں میں یہ اعتمادپیداہواکہ اللہ تعالی دشمنوں کے خلاف ان کی مددفرمائے گااوراس جنگ میں ان کی تائیدفرمائے گا، {فَزادَہُمْ إِیماناً}سے یہی مراد ہے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۹:۴۳۱)
منافق مومن کو جہاد سے ڈراتاہے
قَالَ السُّدِّیُّ:لَمَّا تَجَہَّزَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُہُ لِلْمَسِیرِ إِلَی بَدْرٍ الصُّغْرَی لِمِیعَادِ أَبِی سُفْیَانَ أَتَاہُمُ الْمُنَافِقُونَ وَقَالُوا:نَحْنُ أصحابکم الذین نَہَیْنَاکُمْ عَنِ الْخُرُوجِ إِلَیْہِمْ وَعَصَیْتُمُونَا،وَقَدْ قَاتَلُوکُمْ فِی دِیَارِکُمْ وَظَفِرُوا،فَإِنْ أَتَیْتُمُوہُمْ فِی دِیَارِہِمْ فَلَا یَرْجِعُ مِنْکُمْ أَحَدٌفَقَالُوا:حَسْبُنَا اللَّہُ وَنِعْمَ الْوَکِیلُ۔
ترجمہ :امام السدی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جب حضورتاجدارختم نبوت ﷺاورآپ ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ابوسفیان کی مقررکردہ میعاد کے مطابق بدرالصغری کی طرف چلنے کے لئے تیارہوئے توان کے پاس منافقین آئے اورانہوںنے کہا: ہم تمھارے وہی ساتھی ہیں جنہوںنے تم کو ان کی طرف نکلنے سے منع کیاتھااورتم نے ہماری تجویزنہ مانی تھی اورپھرانہوں نے تم کو تمھارے گھروں میں آکرقتل کیااوروہ کامیاب ہوئے اوراگرتم ان کے پاس ان کے گھروں میں گئے توتم میں سے کوئی ایک بھی واپس لوٹ کر نہیں آئے گاتوانہوںنے کہا:{حَسْبُنَا اللَّہُ وَنِعْمَ الْوَکِیل}ہمیں اللہ تعالی ہی کافی ہے اوروہ بہترین کارساز ہے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۴:۲۸۰)
ہرحال میں توجہ الی اللہ رہے توکامیابی حاصل ہوتی ہے
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ،حَسْبُنَا اللَّہُ وَنِعْمَ الوَکِیلُ، قَالَہَا إِبْرَاہِیمُ عَلَیْہِ السَّلاَمُ حِینَ أُلْقِیَ فِی النَّارِ،وَقَالَہَا مُحَمَّدٌ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِینَ قَالُوا:(إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَکُمْ فَاخْشَوْہُمْ فَزَادَہُمْ إِیمَانًا،وَقَالُوا:حَسْبُنَا اللَّہُ وَنِعْمَ الوَکِیلُ)(آل عمران:۱۷۳)
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیںکہ حضرت سیدناابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام {حَسْبُنَا اللَّہُ وَنِعْمَ الْوَکِیل} نے اس وقت پڑھاتھاجب ان کو نمرودیوں نے آگ میں ڈالاتھااورحضورتاجدارختم نبوت ﷺنے اس وقت پڑھاجب آپﷺکولوگوںنے کہاکہ بے شک کافرتمھارے لئے لشکرجرارلیکرآرہے ہیں۔
(صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۶:۳۳۹)
بدرصغری کامختصرتعارف
اعراب کی شوکت توڑدینے اور بدووں کے شر سے مطمئن ہوجانے کے بعد مسلمانوں نے اپنے بڑے دشمن (قریش )سے جنگ کی تیاری شروع کردی۔ کیونکہ سال تیزی سے ختم ہورہا تھا۔ اور احد کے موقع پر طے کیا ہوا وقت قریب آتا جارہا تھا۔ اور حضورتاجدارختم نبوت ﷺاور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا فرض تھا کہ میدان کار زار میں ابو سفیان اور اس کی قوم سے دودوہاتھ کرنے کے لیے نکلیں اور جنگ کی چکی اس حکمت کے ساتھ چلائیں کہ جو فریق زیادہ ہدایت یافتہ اور پائیدار بقاء کا مستحق ہو حالات کا رُخ پوری طرح اس کے حق میں ہوجائے۔
غزوہ بدر صغریٰ
شعبان ۴ھ میں حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے مدینے کا انتظام حضرت سیدناعبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کو سونپ کرا س طے شدہ جنگ کے لیے بدر کا رُخ فرمایا۔ آپﷺکے ہمراہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ روانہ ہوئے۔ آپﷺنے فوج کا عَلَم حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ کو دیا اور بدر پہنچ کر مشرکین کے انتظار میں خیمہ زن ہو گئے۔ دوسری طرف ابو سفیان بھی پچاس سوار سمیت دوہزارمشرکین کی جمعیت لے کر روانہ ہوا۔ اور مکے سے ایک مرحلہ دور وادی مَرا لظَّہران پہنچ کر مجنہ نام کے مشہور چشمے پر خیمہ زن ہوا۔ لیکن وہ مکہ ہی سے بوجھل اور بددل تھا۔ باربار مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی جنگ کا انجام سوچتا تھا۔ اور رعب وہیبت سے لرز اٹھتا تھا۔ مَر الظَّہران پہنچ کر اس کی ہمت جواب دے گئی۔ اور وہ واپسی کے بہانے سوچنے لگا۔ بالآخر اپنے ساتھیوں سے کہا :قریش کے لوگو!جنگ اس وقت موزوں ہوتی ہے جب شادابی اور ہریالی ہوکہ جانور بھی چر سکیں اور تم بھی دودھ پی سکو۔ اس وقت خشک سالی ہے لہٰذا میں واپس جا رہا ہوں۔ تم بھی واپس چلے چلو۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سارے ہی لشکر کے اعصاب پر خوف وہیبت سوار تھی کیونکہ ابو سفیان کے اس مشورہ پر کسی قسم کی مخالفت کے بغیر سب نے واپسی کی راہ لی اور کسی نے بھی سفر جاری رکھنے اور مسلمانوں سے جنگ لڑنے کی رائے نہ دی۔ ادھر مسلمانوں نے بدر میں آٹھ روز تک ٹھہر کر دشمن کا انتظار کیا۔ اور اس دوران میں اپنا سامانِ تجارت بیچ کر ایک درہم کے دودرہم بناتے رہے۔ اس کے بعد اس شان سے مدینہ واپس آئے کہ جنگ میں اقدام کی باگ ان کے ہاتھ آچکی تھی۔ دلوں پر ان کی دھاک بیٹھ چکی تھی۔ اور ماحول پر ان کی گرفت مضبوط ہوچکی تھی۔ یہ غزوۂ بدر موعد، بدر ثانیہ، بدر آخرہ اور بدر صغریٰ کے ناموں سے معروف ہے۔