اسلام کی خدمت صرف وہی شخص کرسکتاہے جو اپنے مقاصد مرضی الہی کے تابع کردے
{اَفَمَنِ اتَّبَعَ رِضْوٰنَ اللہِ کَمَنْ بَآء َ بِسَخَطٍ مِّنَ اللہِ وَمَاْوٰیہُ جَہَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ }(۱۶۲){ہُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ اللہِ وَاللہُ بَصِیْرٌ بِمَا یَعْمَلُوْنَ}(۱۶۳)
ترجمہ کنزالایمان:تو کیا جو اللہ کی مرضی پر چلاوہ اس جیسا ہوگا جس نے اللہ کا غضب اوڑھا اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے اور کیا بُری جگہ پلٹنے کی ،وہ اللہ کے یہاں درجہ درجہ ہیں اور اللہ انکے کام دیکھتا ہے ۔
ترجمہ ضیاء الایمان : کیاوہ وہ شخص جو اللہ تعالی کی رضاکاتابع ہے اس کے برابرہوسکتاہے جو غضب الہی کامستحق ہوااوراس کاٹھکاناجہنم ہے اوروہ کیسی بری جگہ ہے ۔ اوراللہ تعالی کے ہاں لوگوں کے مختلف درجے ہیں اوراللہ تعالی دیکھتاہے جو وہ کرتے ہیں۔
دینی خدمت کی وجہ سے اپنے مقاصدترک کرنے والے کے برابرکوئی بھی نہیں ہوسکتا
(أَفَمَنِ اتَّبَعَ رِضْوانَ اللَّہِ)یُرِیدُ بِتَرْکِ الْغُلُولِ وَالصَّبْرِ عَلَی الْجِہَادِ(کَمَنْ باء َ بِسَخَطٍ مِنَ اللَّہِ)یُرِیدُ بِکُفْرٍ أَوْ غُلُولٍ أَوْ تَوَلٍّ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْحَرْبِ(وَمَأْواہُ جَہَنَّمُ)أَیْ مَثْوَاہُ النار، أی إن لم یتب أو یعفو اللہ عنہ(وَبِئْسَ الْمَصِیرُ)أی المرجع وقری فَالْمُؤْمِنُ وَالْکَافِرُ لَا یَسْتَوِیَانِ فِی الدَّرَجَۃِ، ثُمَّ الْمُؤْمِنُونَ یَخْتَلِفُونَ أَیْضًا، فَبَعْضُہُمْ أَرْفَعُ دَرَجَۃً مِنْ بَعْضٍ، وَکَذَلِکَ الْکُفَّارُوَالدَّرَجَۃُ الرُّتْبَۃُ، وَمِنْہُ الدَّرَجِ، لِأَنَّہُ یُطْوَی رُتْبَۃً بَعْدَ رُتْبَۃٍ.
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ{فَمَنِ اتَّبَعَ رِضْوانَ اللَّہِ}جو غلول کو ترک کرنے کااورجہادپرصبرکرنے کاارادہ کرتاہے {کَمَنْ باء َ بِسَخَطٍ مِنَ اللَّہِ}کیااس کی طرح ہوسکتاہے جوکفریاغلول یاجنگ میں حضورتاجدارختم نبوت ﷺسے پیٹھ پھیرنے کاارادہ کرتاہے {وَمَأْواہُ جَہَنَّمُ}اس کاٹھکانہ دوزخ ہے یعنی اگراس نے توبہ نہ کی یااللہ تعالی نے ہی اسے معاف نہ کیا{وَبِئْسَ الْمَصِیر}تواس کاٹھکانابہت ہی براہے ۔ پس مومن اورکافردرجہ میں برابراورمساوی نہیں ہوں گے ، پھرمومنین بھی مختلف ہوں گے ، اوران میں بعض بعض سے بلندرتبہ پرہونگے اوراسی طرح کفاربھی اوردرجے کامعنی رتبہ ہے اوراسی سے الدرج ہے یعنی لکھا جانے والاکاغذ ہے کیونکہ اسے درجہ بدرجہ لپیٹاجاتاہے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکرشمس الدین القرطبی (۴:۲۶۳)
حضرت سیدناسعید بن جبیررضی اللہ عنہ کاقول
عَن سعید بن جُبَیر فِی قَوْلہ (أَفَمَن اتبع رضوَان اللہ)یَعْنِی رضَا اللہ فَلم یغلل من الْغَنِیمَۃ (کمن بَاء بسخط من اللہ)یَعْنِی کمن استجوب سخطاً من اللہ فِی الْغلُول فَلَیْسَ ہُوَ بِسَوَاء ثمَّ بَین مستقرہما فَقَالَ للَّذی یغل (ومأواہ جَہَنَّم وَبئسَ الْمصیر) یَعْنِی مصیر أہل الْغلُول ثمَّ ذکر مُسْتَقر من لَا یغل فَقَالَ (ہم دَرَجَات) یَعْنِی فَضَائِل(عِنْد اللہ وَاللہ بَصِیر بِمَا یعْملُونَ)یَعْنِی بَصِیر بِمن غل مِنْکُم وَمن لم یغل۔
ترجمہ:حضرت سیدناسعید بن جبیررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ {مَنِ اتَّبَعَ رِضْوانَ اللَّہِ}جو اللہ تعالی کی رضاکی پیروی کرے اورمال غنیمت میں خیانت نہ کرے اس آدمی کی طرح ہوسکتاہے جو خیانت کرنے کی وجہ سے اللہ تعالی کی ناراضگی کامستحق بن چکاہو، پس یہ آپس میں برابرنہیں ہیں ۔ پھران دونوں کے ٹھکانوں کو بیان فرمایاجو خیانت کرتاہے اس کے بارے میں فرمایاکہ اس کا ٹھکانادوزخ ہے اوریہ کتنی بری لوٹنے کی جگہ ہے ۔یعنی خیانت کرنے والوں کے لوٹنے کی جگہ کتنی بری ہے ، پھران لوگوں کے ٹھکانوں کو واضح کرتے ہوئے بیان فرمایاکہ اللہ تعالی کے ہاں درجات وفضائل ہیں اورتم میں سے جو خیانت کرتاہے اورجو خیانت نہیں کرتااللہ تعالی تم دونوں کو دیکھ رہاہے۔
(الدر المنثور:عبد الرحمن بن أبی بکر، جلال الدین السیوطی (۲:۳۶۶)
جنہوں نے ناموس رسالت پرپہرہ دیاان کے برابرکوئی نہیں ہوسکتا
قَالَ الزَّجَّاجُ:لَمَّا حَمَلَ الْمُشْرِکُونَ عَلَی الْمُسْلِمِینَ دَعَا النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَصْحَابَہُ إِلَی أَنْ یَحْمِلُوا عَلَی الْمُشْرِکِینَ، فَفَعَلَہُ بَعْضُہُمْ وَتَرَکَہُ آخَرُونَ فَقَالَ:أَفَمَنِ اتَّبَعَ رِضْوانَ اللَّہِ وَہُمُ الَّذِینَ امْتَثَلُوا أَمْرَہُ کَمَنْ باء َ بِسَخَطٍ مِنَ اللَّہِ وَہُمُ الَّذِینَ لَمْ یَقْبَلُوا قَوْلَہُ۔
ترجمہ :حضرت سیدناالزجاج رحمہ اللہ تعالی بیان فرماتے ہیں کہ غزوہ احدمیں جب مشرکین نے حضورتاجدارختم نبوت ﷺپرحملہ کیاتو حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے صحابہ کرام ر ضی اللہ عنہم کو بلایااورمشرکین پرحملہ کرنے کاحکم دیاتوبعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مشرکین پرحملہ کردیااورکچھ لوگوں نے حملہ میں حصہ نہ لیاتواللہ تعالی کی رضاطلب کرتے ہوئے جنہوںنے حملہ کردیااس سے مراد وہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں جنہوںنے آپ ﷺکے حکم شریف کی اتباع کی اوراللہ تعالی کی ناراضگی پانے والوں سے مراد وہی لوگ ہیں جنہوںنے آپ ﷺکے حکم شریف کو قبول کرتے ہوئے مشرکین پرحملہ نہیں کیا۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۹:۴۱۶)
مفسرین کرام کے مختلف اقوال
لِلْمُفَسِّرِینَ فِیہِ وُجُوہٌ:الْأَوَّلُ: أَفَمَنِ اتَّبَعَ رِضْوانَ اللَّہِ فِی تَرْکِ الْغُلُولِ کَمَنْ باء َ بِسَخَطٍ مِنَ اللَّہِ فِی فِعْلِ الْغُلُولِ،وَہُوَ قَوْلُ الْکَلْبِیِّ وَالضَّحَّاکِ الثَّانِی:أَفَمَنِ اتَّبَعَ رِضْوانَ اللَّہِ بِالْإِیمَانِ بِہِ وَالْعَمَلِ بِطَاعَتِہِ،کَمَنْ باء َ بِسَخَطٍ مِنَ اللَّہِ بِالْکُفْرِ بِہِ وَالِاشْتِغَالِ بِمَعْصِیَتِہِ، الثَّالِثُ:أَفَمَنِ اتَّبَعَ رِضْوانَ اللَّہِ وَہُمُ الْمُہَاجِرُونَ،کَمَنْ باء َ بِسَخَطٍ مِنَ اللَّہِ وَہُمُ الْمُنَافِقُونَ، الرَّابِعُ:قَالَ الزَّجَّاجُ:لَمَّا حَمَلَ الْمُشْرِکُونَ عَلَی الْمُسْلِمِینَ دَعَا النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَصْحَابَہُ إِلَی أَنْ یَحْمِلُوا عَلَی الْمُشْرِکِینَ،فَفَعَلَہُ بَعْضُہُمْ وَتَرَکَہُ آخَرُونَ فَقَالَ: أَفَمَنِ اتَّبَعَ رِضْوانَ اللَّہِ وَہُمُ الَّذِینَ امْتَثَلُوا أَمْرَہُ کَمَنْ باء َ بِسَخَطٍ مِنَ اللَّہِ وَہُمُ الَّذِینَ لَمْ یَقْبَلُوا قَوْلَہُ، وَقَالَ الْقَاضِی:کُلُّ وَاحِدٍ مِنْ ہَذِہِ الْوُجُوہِ صَحِیحٌ،وَلَکِنْ لَا یَجُوزُ قصر اللفظ علیہ لِأَنَّ اللَّفْظَ عَامٌّ،فَوَجَبَ أَنْ یَتَنَاوَلَ الْکُلَّ لأن کل من أقدم علی الطاعۃ فہو داخل تحت قولہ أَفَمَنِ اتَّبَعَ رِضْوانَ اللَّہِ وَکُلُّ مَنْ أَخْلَدَ إِلَی مُتَابَعَۃِ النَّفْسِ وَالشَّہْوَۃِ فَہُوَ دَاخِلٌ تَحْتَ قَوْلِہِ:کَمَنْ باء َ بِسَخَطٍ مِنَ اللَّہِ أَقْصَی مَا فِی الْبَابِ أَنَّ الْآیَۃَ نَازِلَۃٌ فِی وَاقِعَۃٍ مُعَیَّنَۃٍ، لَکِنَّکَ تَعْلَمُ أَنَّ عُمُومَ اللَّفْظِ لَا یَبْطُلُ لِأَجْلِ خُصُوصِ السَّبَبِ.
ترجمہ :اس آیت کریمہ کے متعلق مفسرین کرام کے بہت سے اقوال ہیں
پہلاقول:کیا جس نے ترک خیانت میں اللہ تعالی کی رضاکی اتباع کی وہ اس شخص کی طرح ہوسکتاہے جس نے خیانت کرکے اللہ تعالی کاغضب پایا۔ یہ امام کلبی اورضحاک رحمہمااللہ تعالی کاقول ہے ۔
دوسراقول : کیااللہ تعالی پر ایمان اوراس کی اطاعت بجالانے والااللہ تعالی کے ساتھ کفراوراس کی نافرمانی میں مشغول رہنے والے کی طرح ہوسکتاہے ؟
تیسراقول: اللہ تعالی کی رضاطلب کرنے والوں سے مراد مہاجرین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں اوراللہ تعالی ناراضگی پانے والوں سے مرادمنافقین ہیں۔
چوتھاقول : یہ پہلے نقل ہوچکاہے۔
امام قاضی بیضاوی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ان میں ہر قول صحیح ہے لیکن الفاظ کو یہاں تک محدود کرنامناسب نہیں ہے ، یہ الفاظ عام ہیں لھذالازم ہے کہ وہ تمام کو شامل ہوکیونکہ ہر اطاعت بجالانے والا{أَفَمَنِ اتَّبَعَ رِضْوانَ اللَّہ}کے تحت داخل ہے ۔ خواہش اورنفس کی غلامی کرنے والا{کَمَنْ باء َ بِسَخَطٍ مِنَ اللَّہ}کے تحت داخل ہے ۔ یہاں زیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتاہے کہ آیت واقعہ معینہ کے بارے میں نازل ہوئی لیکن آپ کے علم میں ہے کہ الفاظ کے عموم کو خاص سبب باطل نہیں کرسکتا۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۹:۴۱۶)