تفسیر سورہ آل عمران آیت ۱۴۶۔۱۴۷۔ وَکَاَیِّنْ مِّنْ نَّبِیٍّ قٰتَلَ مَعَہ رِبِّیُّوْنَ کَثِیْرٌ فَمَا وَہَنُوْا لِمَآ اَصَابَہُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ

علماء ومشائخ نے جہاد میں کبھی بھی مصائب کی وجہ سے راہ حق نہیں چھوڑا

وَکَاَیِّنْ مِّنْ نَّبِیٍّ قٰتَلَ مَعَہ رِبِّیُّوْنَ کَثِیْرٌ فَمَا وَہَنُوْا لِمَآ اَصَابَہُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَمَا ضَعُفُوْا وَمَا اسْتَکَانُوْا وَاللہُ یُحِبُّ الصّٰبِرِیْنَ}(۱۴۶){وَمَا کَانَ قَوْلَہُمْ اِلَّآ اَنْ قَالُوْا رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَ اِسْرَافَنَا فِیْٓ اَمْرِنَا وَثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ}(۱۴۷)
ترجمہ کنزالایمان:اور کتنے ہی انبیاء نے جہاد کیا ان کے ساتھ بہت خدا والے تھے تو نہ سُست پڑے اُن مصیبتوں سے جو اللہ کی راہ میں انہیں پہنچیں اور نہ کمزور ہوئے اور نہ دبے اور صبر والے اللہ کو محبوب ہیں ۔اور وہ کچھ بھی نہ کہتے تھے سوا اس دعا کے کہ اے ہمارے رب بخش دے ہمارے گناہ اور جو زیادتیاں ہم نے اپنے کام میں کیں اور ہمارے قدم جمادے اور ہمیں ان کافر لوگوں پر مدد دے۔
ترجمہ ضیاء الایمان: اورکتنے ہی انبیاء کرام علیہم السلام نے راہ خدامیں جہاد کیااوران کے ساتھ بہت سے علماء ومشائخ نے جہاد کیا، نہ وہ سست پڑے ان کی مصائب کی وجہ سے جو ان کو اللہ تعالی کی راہ میں پہنچیں اورنہ ہی وہ کمزورہوئے اورنہ کافروں سے دبے اورصبرکرنے والے اللہ تعالی کو محبوب ہیں اور( حالت جہاد میں بھی ) صرف یہی کہتے کہ اے ہمارے رب ! ہمارے گناہوں کو بخش دے اورجو زیادیتاں ہم نے اپنے کام میں کیں اورہمیں ثابت قدمی عطافرمااورہمیں کافروں پر مددعطافرما۔
شان نزول
قَالَ الزُّہْرِیُّ:صَاحَ الشَّیْطَانُ یَوْمَ أُحُدٍ:قُتِلَ مُحَمَّدٌ،فَانْہَزَمَ جَمَاعَۃٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ قَالَ،کَعْبُ بْنُ مَالِکٍ: فَکُنْتُ أَوَّلَ مَنْ عرف رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ،رَأَیْتُ عَیْنَیْہِ مِنْ تَحْتِ الْمِغْفَرِ تُزْہِرَانِ، فَنَادَیْتُ بِأَعْلَی صَوْتِی:ہَذَا رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَأَوْمَأَ إِلَیَّ أَنِ اسْکُتْ،فَأَنْزَلَ اللَّہُ عَزَّ وَجَل:وَکَأَیِّنْ مِنْ نَبِیٍّ قاتَلَ مَعَہُ رِبِّیُّونَ کَثِیرٌ فَما وَہَنُوا لِما أَصابَہُمْ فِی سَبِیلِ اللَّہِ وَما ضَعُفُوا۔
ترجمہ :حضرت سیدناامام الزہری رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ غزوہ احد میں شیطان نے چیخ کرکہاکہ محمد(ﷺ) قتل کردیئے گئے تواس سے مسلمانوں کی ایک جماعت شکست خوردہ ہوگئی ۔ حضرت سیدناکعب بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں پہلاآدمی تھاجس نے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکو پہچانا، میں نے خود کے نیچے سے آپ ﷺکی مبارک آنکھوں کو چمکتے ہوئے دیکھاتومیںنے اپنی بلندآواز کے ساتھ پکارکرکہا: یہ ہیں حضورتاجدارختم نبوت ﷺ، توآپ ﷺنے میری طرف اشارہ فرمایاکہ تم خاموش رہو۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۴:۲۲۸)

تاجدارختم نبوت ﷺکی امت تم بھی جہاد سے پیچھے نہ ہٹو

یَکُونُ الْمَعْنَی أَنَّ کَثِیرًا مِنَ الْأَنْبِیَاء ِ قُتِلُوا وَالَّذِینَ بَقَوْا بَعْدَہُمْ مَا وَہَنُوا فِی دِینِہِمْ،بَلِ اسْتَمَرُّواعَلَی جِہَادِ عَدُوِّہِمْ وَنُصْرَۃِ دِینِہِمْ،فَکَانَ یَنْبَغِی أَنْ یَکُونَ حَالُکُمْ یَا أُمَّۃَ مُحَمَّدٍ ہَکَذَاوکأین من نبی قتل ممن کان معہ وعلی دینہ ربیون کثیر فما ضعف الباقون ولا استکانوا لقتل من قُتِلَ مِنْ إِخْوَانِہِمْ،بَلْ مَضَوْا عَلَی جِہَادِ عَدُوِّہِمْ،فَقَدْ کَانَ یَنْبَغِی أَنْ یَکُونَ حَالُکُمْ کَذَلِکَ وَمَنْ قَرَأَ قاتَلَ مَعَہُ فَالْمَعْنَی:وَکَمْ مِنْ نَبِیٍّ قَاتَلَ مَعَہُ الْعَدَدُ الْکَثِیرُ مِنْ أَصْحَابِہِ فَأَصَابَہُمْ مِنْ عَدُوِّہِمْ قَرْحٌ فَمَا وَہَنُوا،لِأَنَّ الَّذِی أَصَابَہُمْ إِنَّمَا ہُوَ فِی سَبِیلِ اللَّہِ وَطَاعَتِہِ وَإِقَامَۃِ دِینِہِ وَنُصْرَۃِ رَسُولِہِ، فَکَذَلِکَ کَانَ یَنْبَغِی أَنْ تَفْعَلُوا مِثْلَ ذَلِکَ یَا أُمَّۃَ مُحَمَّدٍ۔ملتقطاً۔
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ کامعنی یہ ہوگاکہ بہت سے انبیاء کرام علیہم السلام شہیدکردیئے گئے اورجو ان کے بعد باقی رہے انہوںنے دین میں کمزوری نہیں دکھائی بلکہ اپنے اپنے دین کی خدمت کے لئے ان کے دشمنوں کے خلاف جہاد کرتے رہے ۔ اورایک معنی یہاں یہ بھی کیاجاسکتاہے کہ بہت سے انبیاء کرام علیہم السلام کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شہیدکردیئے گئے لیکن باقی لوگ نہ کمزورہوئے اورنہ ہی وہ دبے ، حالانکہ ان کے بہت سے بھائی شہیدہوچکے تھے بلکہ وہ اپنے دشمنوں کے خلاف جہاد میں ڈٹے رہے ،اس سے معلوم ہواکہ تمھاراحال بھی اسی طرح ہوناچاہئے ۔ اورجن لوگوں نے{قاتَلَ مَعَہ}پڑھااس کے مطابق معنی یہ ہوگاکہ بہت سارے انبیاء کرام علیہم السلام کے ساتھ ان کے کثیرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دشمنوں کے خلاف جہاد کیا، پھران کو دشمن کی طرف سے تکالیف پہنچیں لیکن وہ بزدل نہ بنے کیونکہ یہ تکالیف انہیں اللہ تعالی کے راستے ، اس کی اطاعت ، اس کے دین کے غلبہ اوراس کے رسول علیہ السلام کی مددمیں آئیں ۔ اے امت محمدیہ (ﷺ) !تم بھی اسی کے مثل عمل کرو۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۹:۳۷۹)

حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماکافرمان

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَکَأَیِّنْ مِنْ نَبِیٍّ قَاتَلَ مَعَہُ رِبِّیُّونَ کَثِیرٌ قَالَ:ہُمْ یَوْمَ قُتِلَ نَبِیُّہُمْ، فَلَمْ یَہِنُوا وَلَمْ یَضْعُفُوا، وَلَمْ یَسْتَکِینُوا لِقَتْلِ نَبِیِّہِمْ.
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمااس آیت کریمہ کامعنی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ وہ ایسی قوم ہیں جن کے نبی علیہ السلام نے جہاد کیا، انہوںنے نہ کمزوری کااظہارکیااورنہ ہی عارمحسوس کی کیونکہ ان کے نبی جنگی تھے ۔
(تفسیر القرآن العظیم لابن أبی حاتم:أبو محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدریس بن المنذر الرازی ابن أبی حاتم (۳:۷۸۱)
حضرت سیدناقتادہ رضی اللہ عنہ کاقول
عَنْ قَتَادَۃَ قَوْلَہُ:وَمَا اسْتَکَانُوا یَقُولُ:مَا ارْتَدُّوا عَنْ بَصِیرَتِہِمْ وَلا عَنْ دِینِہِمْ أَنْ قَاتِلُوا عَلَی مَا قَاتَلَ عَلَیْہِ نَبِیُّ اللَّہِ حَتَّی لَحِقُوا بِاللَّہِ.
ترجمہ :حضرت سیدناقتادہ رضی اللہ عنہ اس آیت کریمہ کی تفسیرمیں فرماتے ہیں کہ وہ لوگ نہ عاجز آئے اورنہ ہی انہوںنے جہاد میں کمزوری دکھائی کیونکہ ان کے نبی علیہ السلام اللہ تعالی کی راہ میں جہادکرتے تھے ، انہو ں نے اپنی بصیرت سے اوراپنے دین سے روگردانی نہ کی ، اگروہ اس مقصدکے لئے جنگ کرتے جس کے لئے ان کے نبی علیہ السلام نے جنگ کی تھی تووہ اللہ تعالی سے جاملتے ۔
(تفسیر القرآن العظیم لابن أبی حاتم:أبو محمد عبد الرحمن بن محمد بن إدریس بن المنذر الرازی ابن أبی حاتم (۳:۷۸۱)

آیت کریمہ کامعنی
وَمَعْنَی الْآیَۃِ تَشْجِیعُ الْمُؤْمِنِینَ،وَالْأَمْرُ بِالِاقْتِدَاء ِ بِمَنْ تَقَدَّمَ مِنْ خِیَارِ أَتْبَاعِ الْأَنْبِیَاء ِ،أَیْ کَثِیرٌ مِنَ الْأَنْبِیَاء ِ قُتِلَ مَعَہُ رِبِّیُّونَ کثیر،أوکثیر من الأنبیاء قالوا فَمَا ارْتَدَّ أُمَمُہُمْ، قَوْلَانِ:الْأَوَّلُ لِلْحَسَنِ وَسَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍقَالَ الْحَسَنُ:مَا قُتِلَ نَبِیٌّ فِی حَرْبٍ قَطُّ وَقَالَ ابْنُ جُبَیْرٍ:مَا سَمِعْنَا أَنَّ نَبِیًّا قُتِلَ فِی الْقِتَالِ۔
ترجمہ :اوراس آیت کریمہ میں اہل ایمان کو بہادری پرابھارناہے اورانبیاء کرام علیہم السلام کے بہترین متبعین میں سے جو پہلے گزرچکے ہیں ان کی اقتداء اورپیروی کرنے کاحکم دیناہے ۔ یعنی کثیرانبیاء کرام علیہم السلام ہیں جن کے ساتھ بہت سے اللہ والوں کو شہیدکیاگیا، یاانبیاء کرام علیہم السلام میں سے کثیرشہیدکردیئے گئے اوران کی امتیں مرتدنہیں ہوئیں ، یہ دوقول ہیں :
پہلاقول : یہ امام حسن بصری رضی اللہ عنہ اورحضرت سیدناسعیدبن جبیررضی اللہ عنہ کاہے کہ امام حسن بصری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کوئی بھی نبی جہاد میں شہید نہیں ہوئے اورحضرت سیدناسعید بن جبیررضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ ہم نے نہیں سناکہ کوئی بھی نبی علیہ السلام جنگ میں شہیدکردیئے گئے ہوں۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۴:۲۲۸)
امام حقی رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں
وہی الجماعۃ والمعنی کثیر من الأنبیاء قاتل معہ لاعلاء کلمۃ اللہ وإعزاز دینہ علماء أتقیاء او جماعات کثیرۃ فَما وَہَنُوا۔
ترجمہ :امام اسماعیل حقی الحنفی المتوفی : ۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ کامعنی یہ ہوگاکہ بہت سے انبیاء کرام علیہم السلام کے ساتھ اعلاء کلمۃ اللہ اوردین کے اعزاز کی خاطرعلماومشائخ یابہت بڑی بڑی جماعتیں جنگوںمیں شریک رہیں اوروہ جہاد میں سست نہ پڑیں۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی الخلوتی (۲:۱۰۷)

ربییون کامعنی

وَقَالَ الْحَسَنُ رضی اللہ عنہ ہُمُ الْعُلَمَاء ُ الصُّبُرُ.
ترجمہ:حضرت سیدناامام حسن بصری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ربییون سے مراد اللہ تعالی کی راہ میں صبرکرنے والے علماء ہیں۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۴:۲۳۰)

امام القرطبی رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں

ثُمَّ أَخْبَرَ تَعَالَی عَنْہُمْ بَعْدَ أَنْ قُتِلَ مِنْہُمْ أَوْ قُتِلَ نَبِیُّہُمْ بِأَنَّہُمْ صَبَرُوا وَلَمْ یَفِرُّوا وَوَطَّنُوا أَنْفُسَہُمْ عَلَی الْمَوْتِ، وَاسْتَغْفَرُوا لِیَکُونَ مَوْتُہُمْ عَلَی التَّوْبَۃِ مِنَ الذُّنُوبِ إِنْ رُزِقُوا الشَّہَادَۃَ،وَدَعَوْا فِی الثَّبَاتِ حَتَّی لَا یَنْہَزِمُوا، وَبِالنَّصْرِ عَلَی أَعْدَائِہِمْ وَخَصُّوا الْأَقْدَامَ بِالثَّبَاتِ دُونَ غَیْرِہَا مِنَ الْجَوَارِحِ لِأَنَّ الِاعْتِمَادَ عَلَیْہَایَقُولُ:فَہَلَّا فَعَلْتُمْ وَقُلْتُمْ مِثْلَ ذَلِکَ یَا أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ؟ فَأَجَابَ دُعَاء َہُمْ وَأَعْطَاہُمُ النَّصْرَ وَالظَّفَرَ وَالْغَنِیمَۃَ فِی الدُّنْیَا وَالْمَغْفِرَۃَ فِی الْآخِرَۃِ إِذَا صَارُوا إِلَیْہَاوَہَکَذَا یَفْعَلُ اللَّہُ مَعَ عِبَادِہِ الْمُخْلِصِینَ التَّائِبِینَ الصَّادِقِینَ النَّاصِرِینَ لِدِینِہِ، الثَّابِتِینَ عِنْدَ لِقَاء ِ عَدُوِّہِ بِوَعْدِہِ الْحَقِّ۔
ترجمہ:امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ پھراللہ تعالی نے خبردی کہ اس کے بعد کہ ان میں سے کچھ شہیدکردیئے گئے ، یاان کے نبی علیہ السلام کو شہیدکردیاگیا، یہ کہ انہوںنے صبرکیااوروہ بھاگے نہیں ، اورانہوںنے اپنے آپ کو موت پر پیش کردیااورانہوںنے اللہ تعالی سے مغفرت طلب کی تاکہ ان کی موت گناہوں سے توبہ ہوجائے ، اگران کو شہادت عطافرمادی جائے اورانہوںنے ثابت قدم رہنے کی التجاء کی یہاں تک کہ وہ شکست خوردہ نہ ہوئے اوراپنے دشمنوں کے خلاف فتح ونصرت کی دعامانگی اورانہوںنے ثبات بالاقدام کوخاص کیانہ کہ دیگراعضائے بدن کو اس لئے کہ اعتماد وانحصارانہیں پرہوتاہے وہ کہتاہے کہ اے اصحاب محمدﷺتم نے اس طرح کیوں کیااورکہا؟ پس اللہ تعالی نے ان کی دعاقبول فرما لی اورانہیں نصرت وفتح دنیامیں مال غنیمت اورآخرت میں مغفرت عطافرمائی ، جب وہ اس کی طرف چلے گئے اوراللہ تعالی اپنے مخلص توبہ کرنے والے ، سچ بولنے والے اوراپنے دین کی مددونصرت کرنے والے بندوں کے ساتھ اسی طرح سلوک کرتاہے جو اس کے دشمنو ں کے مقابلے میں اس کے سچے وعدہ اورسچے قول کے ساتھ ثابت قدم رہتے ہیں ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۴:۲۳۱)

کیاصوفی اورمجاہدایک دوسرے کے مخالف ہیں؟

کیونکہ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے بیان فرمایاکہ انبیاء کرام علیہم السلام کے ساتھ اللہ والوں نے ، علماء کرام اورمشائخ عظام نے بھی جہاد کیااورخوب ڈٹ کرجہاد کیااورکسی بھی وقت جہاد کے معاملے میں سستی نہیں دکھائی ۔ آج ہمارے دورمیں انڈیابہت بڑادہشت گرد اپنے خرچے پراوراپنے ہی ملک کے بہت بڑے صوبے میں بہت بڑی صوفی کانفرنس کرواتاہے اورپاکستان سے صوفی ازم کے لبادے میں لپٹے لوگ وہاں جاکر خطاب کرتے ہیں ۔ اوربھی اسی طرح بہت سے لوگوں نے جہاد کے خلاف کام کیااورآج بھی کررہے ہیں۔ اورنام تصوف کالیتے ہیں اورکہتے ہیں کہ جہاد اورتصوف کاکوئی تعلق نہیں ہے ۔ لھذا اس کے متعلق کچھ معروضات نقل کی جاتی ہیں تاکہ ہماری عوام کو سمجھ آجائے کہ ان نام نہاد صوفیوں نے دین اسلام کے ایک اہم رکن کو کس طرح کفارعالم کے سامنے مذموم بناکرپیش کیا۔

جب جہاد کافروں کی ہر قسمی طاقت کا توڑ ہے اور جہاد کے سامنے دنیا کی کوئی کفریہ طاقت نہیں ٹھہر سکتی تو بدیہی بات ہے کہ کفار جہاد کے دشمن ہیں وہ ہمیشہ جہاد سے خائف رہتے ہیں اور اسے ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہتے ہیں۔ چنانچہ جہاد کی ساڑھے چودہ سو سالہ زندگی کے ہر دور میں آپ کو یہ چیز بالکل واضح نظر آئے گی کہ اہل کفر نے کبھی لالچ کے ذریعے، کبھی زن، زمین اور زر کے ذریعے، کبھی ظلم و تشدد اور دھمکیوں کے ذریعے اور کبھی خوشنما نعروں اور فلسفوں کے ذریعے مسلمانوں کو جہاد سے دور کرنے کی پُرزور کوششیں کیں۔ دور جانے کی ضرورت نہیں آپ اپنے زمانے کے حالات ہی کا باریکی سے جائزہ لے لیں، آپ کو پوری بات سمجھ آ جائے گی۔ آج دنیائے کفر ایک طرف پوری امت مسلمہ کو تاخت و تاراج کیے ہوئے ہے آئے روز بمباریاں ہیں، حملے ہیں، قتل و غارت گری ہے عزتیں تار تار ہیں گھر مسمار ہیں جگہ، جگہ آہیں ہیں، سسکیاں ہیں، نالے ہیں، لاشے ہیں، زخم ہیں، آگ ہے، خون ہے اور دوسری طرف وہی کافر تعلیم، ثقافت، صحت، بہبود ، ترقی، دہشتگردی کے خلاف جنگ اور نہ جانے کن، کن عنوانوںسے نام نہاد مسلم حکومتوں اور اداروں کو بھاری، بھاری رقوم دے رہے ہیں مقصد صرف ایک ہے کہ کسی بھی طرح مسلمانوں کو سر نہ اٹھانے دیاجائے اور میدانِ جہاد ان کی دسترس سے دور رہے فحاشی، عریانی کا سیلاب اور آئے روز نِت نئے لائف سٹائلوں اور فیشنوں کے جھنجھٹ اسی لئے ہیں کہ مسلمانوں کو بس انہی میں مگن کر دیا جائے تاکہ کوئی کافروں کے سامنے کھڑے ہونے والا باقی نہ رہے اور وہ آزادی سے پوری دنیا میں دندناتے پھریں۔
جہاد کے خلاف ان کی کاوشیں صرف اسی حد تک محدود نہیں بلکہ علمی اور فکری میدان میں بھی ان سے جو ہو سکا انہوں نے کیا طرح طرح کے زہریلے فلسفے اور نعرے دین کے رنگ میں امت میں داخل کیے گئے کبھی جہاد کے معانی سے چھیڑ چھاڑ کی گئی کبھی اخلاق و تلوار کو ایک دوسرے کے مقابل لا کھڑا کیا گیا کبھی جہاد اصغر، جہاد اکبرکی بحثیں اٹھائی گئیں کبھی فرض عین، فرض کفایہ، حسن لعینہٖ اور حسن لغیرہٖ کی فقہی اصطلاحات کو غلط شکل میں پیش کر کے امت کے دلوں میں جہاد کی وقعت کم کرنے کی کوشش کی گئی اور کبھی حضرات صوفیاء کرام کی تعلیمات کو غلط پیرائے میں ڈھال کر جہاد و تصوف اور مجاہد و صوفی کو ایک دوسرے کے مدمقابل لایا گیا اور مسلمانوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ اصل اسلام وہ ہے، جو صوفیاء بیان کرتے ہیں جس میں جہاد کا دور، دور تک کوئی تصور نہیں اور حقیقی اسلام تو بس محبت، امن و آشتی اور سلامتی کی دعوت دیتا ہے، قتل و قتال کی اس میں کوئی گنجائش ہی نہیں۔
بدنامِ زمانہ پرویز مشرف کے دور میں جب جہاد کے خلاف کی جانے والی کوششیں اپنے عروج کو پہنچیں تو اس وقت تصوف کے خلاف بھی اغیار کی زیادتیاں زورو شور سے جاری تھیں اسلام کے ایک مبارک حکم کو قربانی کا بکرا بنا کر اس کے ذریعے اسلام کے ایک دوسرے محکم اور قطعی فریضے جہاد کو ذبح کرنے کی کوششیں کی جا رہی تھیں صوفی ازم کے لبادے میں ایک جدید تصوف کا پرچار سرکاری سطح پرکیا جا رہا تھا جس کا مقصد صرف یہ تھا کہ امت کے سامنے تصوف کی ایسی تشریح پیش کی جائے جو جہاد سے انکاری ہو مسلمان چونکہ اولیاء اللہ سے محبت رکھتے ہیں اور ان کی تعلیمات کو دل میں جگہ دیتے ہیں، اس لئے لامحالہ وہ اس صوفی اِزم کا شکار ہو کر جہاد کا انکار کر بیٹھیں گے اور اگر انکار نہ بھی کیا تو کم از کم جہاد کے بارے میں انکا وہ عقیدہ اور وہ عقیدت باقی نہ رہے گی جو شرعاً مطلوب ہے۔
یہ ذہن میں رہے کہ تصوف اور جہاد ان دونوں میں نہ تو کوئی ٹکرائو ہے اور نہ ان میں سے کوئی ایک دوسرے کا قائم مقام ہے یعنی ایسا نہیں کہ تصوف میں آگئے تو جہاد سے چھٹی اور جہاد میں چلے گئے تو اب اصلاحِ نفس سے چھٹی ان دونوں میں باہمی تضاد بھی نہیںکہ جہاد تصوف کا مخالف ہو یا تصوف جہاد کا دونوں ضروری کام ہیں اور دونوں کا میدان الگ، الگ ہے تزکیہ نفس اور تصحیحِ نیت ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے خواہ وہ مجاہد ہو یا نہ ہو اور جہاد اسلام کا مستقل اور محکم فریضہ ہے کوئی تصوف کے کسی اعلیٰ ترین مقام پر پہنچ کر بھی اس مقام کی وجہ سے جہاد سے مستثنیٰ نہیں ہو سکتا ہاں یہ دونوں کام ایک دوسرے کے معاون ضرور ہیں نفس کا تزکیہ ہو جائے اور وہ پاک صاف ہوجائے تو وہ جلد جہاد کی طرف لپکتا ہے اورجہاد فی سبیل اللہ میں شرکت سے تزکیہ نفس کا اعلیٰ مقام نصیب ہوتا ہے کیونکہ جہاد ہی سب سے بڑا زہد ہے اور سب سے بڑی مشقت جان کو قربانی کے لئے پیش کرنا اور جنگ کے میدان میں اترنا کوئی آسان کام نہیں ان دونوں کے درمیان بعض مطابقات اور موافقات بھی ہیں مثلاً:(۱) دونوں کام مشکل ہیں جہاد بھی اور تزکیہ نفس بھی مگر دونوں بے حد ضروری ہیں۔(۲) دونوں میں کامیابی کے لئے ذکراللہ کی کثرت کا حکم ہے ذکر اللہ کی کثرت تزکیہ نفس کے لیے بھی ضروری ہے اور جہاد میں کامیابی کے لئے بھی۔
{فَاذْکُرُوْا اللّٰہَ کَثِیْراً لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ}
(۳) دونوں کام مقام عشق سے تعلق رکھتے ہیں اللہ تعالیٰ سے سچا عشق ہو تو تزکیہ کا اعلیٰ مقام نصیب ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے سچی محبت ہو تو جہاد میں اعلیٰ کامیابی ملتی ہے۔
(۴) دونوں میں اپنی فناء کے ذریعے بقاء کا حصول ہے نفس کی خواہشات کو فناء کیا جائے تو محبتِ الٰہی نصیب ہوتی ہے اور اپنی جان کو فناء کیا جائے تو مقامِ صدیقیت اور شہادت نصیب ہوتا ہے یعنی خود کو مٹانا اللہ تعالیٰ کی خاطر اور اللہ تعالیٰ کے دین کی خاطر یہ ان دونوں کا حاصل ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ روزہ اور نماز دو الگ، الگ فرائض ہیں روزے دار کو نماز معاف نہیں اور نمازی کو رمضان المبارک کے روزے معاف نہیں اسی طرح نماز، روزے کا قائم مقام نہیں اور روزہ نماز کا قائم مقام نہیں اسی طرح نماز اور روزے کا آپس میں کوئی تضاد نہیں نماز مستقل فریضہ ہے اور روزہ مستقل فریضہ ہاں! دونوں کے درمیان کئی مطابقات اور موافقات ہیں تھوڑا سا غور کریں آپ کو خود نظر آجائیں گے اسی طرح یہ دونوں ایک دوسرے کے معاون بھی ہیں نمازی کے لئے روزہ آسان ہوتا ہے اور روزہ دار کی نماز زیادہ جاندار ہوتی ہے بس اسی طرح جہاد اور تصوف کو لیں۔
ایک تزکیہ نفس اور اصلاحِ نیت کا فریضہ ہے اور دوسرے میں قتال فی سبیل اللہ کا محکم فریضہ ہے تو پھر اس موضوع یعنی تصوف اور جہاد کا مطلب کیا ہے؟ جواب یہ ہے کہ واقعی اس موضوع کا کوئی درست مطلب نہیں نکلتا مگر ایک فتنہ آگیا اوراس کی وجہ سے یہ موضوع تراشنا پڑا یہ فتنہ دراصل دشمنانِ اسلام نے مسلمانوں کے درمیان آگ بھڑکانے کی بہت زور دار محنت کے ذریعے کیا ہے فتنہ یہ ہے کہ تصوف اور صوفی کو جہاد سے کوئی لینا دینا نہیں بلکہ صوفیاء کرام کی تعلیمات سے جہاد کی نفی ہوتی ہے اور صوفیاء کرام کے ہاں جنگ، لڑائی اور جہاد کا کوئی تصور نہیں اور صوفی وہ ہوتا ہے جو ہر کفر اور ہر کافر کو سر پر بٹھائے اور محبت کا ایسا راگ اٹھائے کہ (نعوذ باللہ)مذاہب کا فرق ہی مٹ جائے مسلمانوں میں اس فتنہ کی آبیاری کے لئے نقلی پیروں اور ملنگوں کو داخل کیاگیا جھوٹی روایات کو بڑھا چڑھا کر پھیلایا گیا تاریخ کو مسخ کیا گیا اور کافر جاسوس بھیس بدل، بدل کر مسلمانوں کے معاشرے میں چھوڑے گئے مستشرقین کا ایک پورا گروہ اسی فتنہ کو مسلمانوں میں پھیلانے کے لئے صدیوں سے سرگرم رہا اور اس وقت بھی وہ بہت محنت سے اپنا کام کر رہے ہیں ان ظالموں نے محبت کے نام کو بھی رسوا کیا محبت کا پیغام، امن کا پیغام، وحدت کا پیغام یہ ان کے خوشنما نعرے اور جال ہیں ۔جھوٹے واقعات، جھوٹی کرامات اور غلط روایات اس فتنے کا اثاثہ ہیں بس اس وجہ سے یہ موضوع تجویز کیا گیا تصوف اورجہاد بندہ نے الحمد للہ شعور کی آنکھیں تصوف کے ماحول میں کھولیں

اور پھر جہاد کے موضوع پرلکھنے کامحاذ سنبھالا اور خانقاہ بھی صوفیاء کرام بھی دیکھے اوراس امت کے سب سے بڑے صوفی جناب سیدناصدیق اکبررضی اللہ عنہ کاجہاد اورامام الصوفیہ حضرت سیدنامولاعلی رضی اللہ عنہ کاجہاد بھی پڑھا، حضرت سیدنااویس قرنی رضی اللہ عنہ کاجہاد ،حضرت سیدناعبداللہ بن مبارک رضی اللہ عنہ کااپنے مدارس کفارکی سرحدوں پربنانااورایک سال حج کے لئے تودوسرے سال جہاد کرنے کے لئے روانہ ہونے کامطالعہ کیااوراس پرمزیدکام یہ ہے کہ ’’حضورغوث اعظم رضی اللہ عنہ کی مجاہدانہ زندگی اورموجود ہ خانقاہی نظام‘‘نومجلدات میں اورپانچ ہزارصفحات پرطویل کام کیااوربحمداللہ تعالی اس کی چارجلدیں طبع ہوکر عوام وخواص تک پہنچ چکی ہیں ۔ اگرچہ یہ فقیردونوں میں ہی ناقص رہا، مگر مجھے جہاد اور تصوف میں کوئی باہمی تضاد نظر نہ آیا کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابل ہیں اس لئے جب کوئی اپنا یا غیر جہاد اور تصوف کو آپس میں ٹکرانے کی کوشش کرتا ہے تو اس پر بہت حیرت ہوتی ہے بہت دکھ اور افسوس ہوتا ہے
پاکستان میں جب صدر پرویز مشرف نے امریکہ کی صلیبی جنگ میں اپنے ملک اور فوج کو جھونکا تو اس کے منصوبوں میں سے ایک یہ بھی تھا کہ صوفی ازم کو فروغ دے کر مسلمانوں کو جہاد سے کاٹا جائے امریکہ، انڈیا اور مغرب نے صوفی اِزم کے فروغ کے لئے خزانوں کے منہ کھولے اورطرح طرح کے مفکرین، مجتہدین پیر اور پروفیسر ایک دم منظر عام پر آگئے مسلمان تو پہلے ہی جہاد سے دور تھے، اب ان کو یہ بھی سمجھایا جانے لگا کہ جہاد کی مخالفت (نعوذ باللہ)عین اسلام اور عین صوفیت ہے ان حالات میں الحمدللہ مسلمانوں کے درمیان تصوف اور جہاد کی باہمی مطابقت اور تصوف و جہاد کی حقیقت کا پرچار کرنے کی اہل حق کی جماعت کے امیرحضورامیرالمجاہدین حضرت حافظ خادم حسین رضوی حفظہ اللہ تعالی کو توفیق ملی، آپ اس وقت بھی جنرل مشرف کو للکارتے رہے اوراس کی دین دشمن پالیسیوں پرہرطرح سے اس کی مذمت فرماتے رہے اوراس کے دورمیں بھی آپ کئی بار جیل میں گئے بے شک یہ اللہ تعالیٰ کا فضل تھا۔
اس پرمزیدپڑھنے کے لئے ہماری کتاب ’’صوفیاء کرام کی مجاہدانہ زندگی اورموجود ہ خانقاہی نظام‘‘کامطالعہ فرمائیں۔

معارف ومسائل

(۱)اس سے معلوم ہواکہ انبیاء کرام علیہم السلام اللہ تعالی کے راستے میں جہاد کرتے تھے ،ان کے ساتھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اورعلماء وصلحاء بھی جہاد کرتے تھے ، جہاد کے دوران ان پربھی سختی ، ظاہری شکست اورآزمائشیں آتی رہتی تھیں مگران میں سے کوئی بھی جہاد سے بھاگانہیں ہے ۔
(۲)اس سے معلوم ہواکہ جہاد میں شکست اورمصیبت کے وقت عام لوگوں کو جان کی فکرپڑ جاتی ہے ، مگراللہ تعالی کے نیک بندے جومخلص ہیں کوایمان کی فکرلاحق ہوجاتی ہے اوراللہ تعالی کی بارگاہ میں اپنے گناہوں کی معافی مانگناشروع کردیتے ہیں ، جہاد میں شکست کے وقت عام لوگ دنیاکے سہارے تلاش کرنے میں مصروف ہوجاتے ہیں مگرمخلص مجاہدین اللہ تعالی کی بارگاہ اقدس میں اپنادامن پھیلاکراس سے ہی مددطلب کرتے ہیں ، جہا دمیں شکست کے وقت عام لوگ ایک دوسرے کی غلطیاں اچھالنے لگتے ہیں جبکہ مخلص اللہ تعالی کے نیک بندوں کی نظرفوراًاپنے اعمال پرپڑتی ہے اوروہ اپنی غلطیوں کی معافیاں مانگنے لگ جاتے ہیں ، جہاد میں شکست کے وقت عام لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اب ہم کبھی بھی دشمن پرغالب نہیں آسکتے مگرمخلص مجاہدین اللہ تعالی کی ذات اقدس پر یقین رکھتے ہیں اوران کو امیدہوتی ہے کہ وہ دشمن پر غالب آ سکتے ہیں چنانچہ وہ اللہ تعالی سے اس کی دعاکرتے ہیں ۔
(۳)دوسرے مجاہدین کے اعمال دکھا کر، سنا کرکسی کو جوش دِلانا سنت ِالٰہیہ ہے بلکہ تاریخی حالات کا جاننا اس نیت سے بہت بہتر ہے۔

Leave a Reply