یہ مرتبہ بلندملاجس کو مل گیا ہرمدعی کے واسطے دارورسن کہاں
{اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَعْلَمِ اللہُ الَّذِیْنَ جٰہَدُوْا مِنْکُمْ وَیَعْلَمَ الصّٰبِرِیْنَ}(۱۴۲)
ترجمہ کنزالایمان:کیا اس گمان میں ہو کہ جنت میں چلے جاؤ گے اور ابھی اللہ نے تمہارے غازیوں کا امتحان نہ لیا اور نہ صبر والوں کی آزمائش کی۔
ترجمہ ضیاء الایمان:کیاتم اس گمان میں ہوکہ جنت میں چلے جائوگے اورابھی اللہ تعالی نے تمھارے غازیوں کاامتحان نہ لیااورنہ صبرکرنے والوں کی آزمائش کی ۔
ایساکبھی بھی نہیں ہوگا
أَحَسِبْتُمْ یأمن انْہَزَمَ یَوْمَ أُحُدٍ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ کَمَا دَخَلَ الَّذِینَ قُتِلُوا وَصَبَرُوا عَلَی أَلَمِ الْجِرَاحِ وَالْقَتْلِ مِنْ غَیْرِ أَنْ تَسْلُکُوا طَرِیقَہُمْ وَتَصْبِرُوا صَبْرَہُمْ لَا۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ کامعنی یہ ہے کہ اے وہ جو احدشریف کے دن کے شکست خوردہ ہوئے کیاتم گمان رکھتے ہوتم اسی طرح جنت میں چلے جائوگے جیساکہ وہ داخل ہوئے جو شہیدکردیئے گئے اورانہوںنے زخم اورقتل کے درد پرصبراختیارکیااس کے بغیرکہ تم ان کے راستے پر چلواوران کے صبرکی طرح صبرکرو؟نہیں ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر شمس الدین القرطبی (۴:۲۲۰)
کیامحض حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی تصدیق سے تم جنت میں داخل ہوجائوگے ؟
وَاعْلَمْ أَنَّ حَاصِلَ الْکَلَامِ أَنَّ حُبَّ الدُّنْیَا لَا یَجْتَمِعُ مَعَ سَعَادَۃِ الْآخِرَۃِ، فَبِقَدْرِمَا یَزْدَادُ أَحَدَہُمَا یَنْتَقِصُ الْآخَرُ، وَذَلِکَ لِأَنَّ سَعَادَۃَ الدُّنْیَا لَا تَحْصُلُ إِلَّا بِاشْتِغَالِ الْقَلْبِ بِطَلَبِ الدُّنْیَا،وَالسَّعَادَۃُ فِی الْآخِرَۃِ لَا تَحْصُلُ إِلَّا بِفَرَاغِ الْقَلْبِ مِنْ کُلِّ مَا سِوَی اللَّہِ وَامْتِلَائِہِ مِنْ حُبِّ اللَّہِ،وَہَذَانَ الْأَمْرَانِ مِمَّا لَا یَجْتَمِعَانِ،فَلِہَذَا السِّرِّ وَقَعَ الِاسْتِبْعَادُ الشَّدِیدُ فِی ہَذِہِ الْآیَۃِ مِنَ اجْتِمَاعِہِمَا،وَأَیْضًا حُبُّ اللَّہِ وَحُبُّ الْآخِرَۃِ لَا یَتِمُّ بِالدَّعْوَی، فَلَیْسَ کُلُّ مَنْ أَقَرَّ بِدِینِ اللَّہِ کَانَ صَادِقًا،وَلَکِنَّ الْفَصْلَ فِیہِ تَسْلِیطُ الْمَکْرُوہَاتِ وَالْمَحْبُوبَاتِ،فَإِنَّ الْحُبَّ ہو الذی لا ینقص بِالْجَفَاء ِوَلَا یَزْدَادُ بِالْوَفَاء ِ،فَإِنْ بَقِیَ الْحُبُّ عِنْدَ تَسْلِیطِ أَسْبَابِ الْبَلَاء ِ ظَہَرَ أَنَّ ذَلِکَ الْحُبَّ کَانَ حَقِیقِیًّا،فَلِہَذِہِ الْحِکْمَۃِ قَالَ:أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ بِمُجَرَّدِ تَصْدِیقِکُمُ الرَّسُولَ قَبْلَ أَنْ یَبْتَلِیَکُمُ اللَّہُ بِالْجِہَادِ وَتَشْدِیدِ الْمِحْنَۃِ واللہ أعلم۔
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ حاصل کلام یہ ہے کہ دنیاکی محبت اخروی سعادت کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتی جیسے ہی ان میں سے ایک میں اضافہ ہوگادوسری میں کمی ہوتی چلی جائے گی ، اس لئے کہ سعادت دنیادل کی مشغولیت سے ہی حاصل ہوتی اورسعادت اخروی اللہ تعالی کے ماسواسے دل کو فارغ کرنے اوراللہ تعالی سے محبت سے معمورکرنے سے ہوگی اوریہ دونوں امور آپس میں جمع نہیں ہوسکتے ۔ اسی اہم راز کی وجہ سے اس آیت کریمہ میں دونوں کے جمع کرنے کوشدیدبعیدقراردیاگیاہے اوریہ بھی سامنے ہے کہ اللہ تعالی کی محبت اورآخرت سے محبت صرف دعوی سے مکمل نہیں ہوتی توہروہ شخص جودین کااقرارکرے اس کاسچاہوناضروری نہیں ہاں اس میں فیصلہ کن بات ناپسندیدہ چیزوں اورمحبوب چیزوں کاتسلط ہوگاکیونکہ محبت وہ ہوتی ہے جو جفاسے کم نہیں ہوتی اوروفاسے اس میں اضافہ نہیں ہوتا۔ کیونکہ اسباب بلاء کے تسلط سے اگرمحبت باقی رہتی ہے توواضح ہوگیاکہ یہ محبت حقیقی ہے ، اس حکمت کی وجہ سے فرمایا: کیاتم یہ گمان کرتے ہوکہ محض حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی تصدیق سے تم جنت میں داخل ہوجائوگے ؟ اس سے پہلے کہ اللہ تعالی تمھیں جہاد میں اورشدیدمشقتوں میں مبتلاء فرمائے ۔ واللہ تعالی اعلم ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۹:۹۷۵)
صرف زبانی دعوی سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا
وایضا حب اللہ وحب الآخرۃ لایتم بالدعوی فلیس کل من أقر بدین اللہ کان صادقا ولکن الفصل فیہ تسلیط المکروہات والمحرمات فان الحب ہو الذی لا ینتقص بالجفاء ولا یزداد بالوفاء فان بقی الحب عند تسلط اسباب البلاء ظہر ان ذلک الحب کان حقیقیا فلہذہ الحکمۃ قال أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ بمجرد تصدیقکم الرسول قبل ان یبتلیکم اللہ بالجہاد وتشدید المحنۃقال القشیری رحمہ اللہ من ظن انہ یصل الی محل عظیم دون مقاساۃ الشدائد ألقتہ أمانیہ فی مہواۃ الہلاک وان من عرف قدر مطلوبہ سہل علیہ بذل مجہودہ قال الشاعر
وما جاد دہر بلذاتہ
علی من یضن بخلع العذار
فالدولۃ العظمی ہی سعادۃ الآخرۃ فانہا باقیۃ ودولۃ الدنیا فانیۃ کما قیل
جہان مثال چراغیست در گذرگہ باد
غلام ہمت آنم کہ دل برو ننہاد
ترجمہ :امام اسماعیل حقی الحنفی الماتریدی المتوفی : ۱۱۲۷ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یادرہے کہ آخرت اورعشق الہی صرف زبانی جمع خرچ سے نصیب نہیں ہوتے اوریہ ضروری نہیں کہ ہر مدعی اپنے دعوی میں سچاہو، سچے جھوٹے کافرق اس وقت ظاہرہوتاہے جب مکروہات ومحرمات کاسامناہو، سچی محبت کی علامت یہ ہے کہ وہ جفاسے کم نہیں ہوتی اوروفایعنی عطیہ انعامات زیادہ نہ ہو۔ جب اس پرمصائب وبلیات کی بھرمارہوتب بھی وہ اپنے مقام پر باقی ہوتوسمجھ لویہ محبت سچی ہے ۔ ورنہ وہ صرف اورصرف مدعی ہے اوروہ بھی جھوٹا۔ اس بناء پر اللہ تعالی نے فرمایا: {اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَعْلَمِ اللہُ الَّذِیْنَ جٰہَدُوْا مِنْکُمْ وَیَعْلَمَ الصّٰبِرِیْنَ}یعنی کیاتمھارایہی گمان ہے کہ صرف حضورتاجدارختم نبوت ﷺکی تصدیق سے تم جنت میں داخل ہوجائوگے ؟ نہ توابھی اللہ تعالی نے تم کو جہاد سے آزمایاہے اورنہ ہی تمھیں شدائد ومصائب میں مبتلاء کیاہے ۔
حضرت سیدناامام ابوالقاسم القشیری رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جو شخص اس گمان میں ہوکہ درباراعلی میں بغیرمصائب اورتکالیف کے پہنچ جائوں گاتواسے یہ خیالی تصورات ہلاکت کے گڑھے میں تباہ وبربادکردیں گے ، ہاں جسے اپنے مطلوب کی قدرہے توپھراس پرجان گنواناآسا ن ہوجاتاہے ۔
کسی شاعرنے کیاخوب کہاہے کہ
وما جاد دہر بلذاتہ
علی من یضن بخلع العذار
ترجمہ :زمانہ اپنی لذتوں کو اس پر صرف نہیں کرتاجواپنی جانوں پرکھیلنے کی عادت نہیں رکھتا
یادرہے کہ دولت عظمی سعادت اخروی کانام ہے اس لئے کہ یہ دولت غیرفانی ہے اوردولت دنیاتولاشئی اورفانی ہے ۔
کسی شاعرنے خوب کہاہے :
جہان مثال چراغیست در گذرگہ باد … غلام ہمت آنم کہ دل برو ننہاد
ترجمہ :جہان ایک چراغ کی طرح ہے اس سے جلدگزرجائو، میں اس کاغلام ہوں جواس میں دل نہیں لگاتا۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی المولی أبو الفداء (۲:۱۰۲)
ہرحال میں توجہ الی اللہ رہے
عن حاتم الأصم انہ قال لقینا الترک وکان بیننا صولۃ فرمانی ترکی بوہق فاقبلنی عن فرسی ونزل عن دابتہ وقعد علی صدری وأخذ بلحیتی ہذہ الوافرۃ واخرج من خفہ سکینا لیذبحنی قال فوحق سیدی ما کان قلبی عندہ ولا عند سکینہ وانا ساکت متحیر أقول سیدی أسلمت نفسی إلیک ان قضیت علی ان یذبحنی ہذا فعلی الرأس والعین اما انا لک وملکک فبینا انا اخاطب سیدی وہو قاعد علی صدری إذ رماہ بعض المسلمین بسہم فما اخطأ حلقہ فسقط عنی فقمت انا الیہ فاخذت السکین من یدہ فذبحتہ بہا فیا ہؤلاء لتکن قلوبکم عند السید حتی ترون من عجائب لطفہ مالا ترون من الآباء والأمہات واعلموا ان من صبر واستسلم ظفر ومن فرّ اتبع فلم یتخلص ونعم العون الصبر عند الشدائد۔
ترجمہ :حضرت سیدناعاصم اصم رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ہماری کافروں کے ساتھ ایک عرصہ سے مخاصمت چل رہی تھی ، ایک روزمجھے ترکی کافرنے دیکھاتومجھ پر تیرپھینکا، میں اپنے گھوڑے سے نیچے گرپڑا، وہ اپنی سواری سے اترکرمیرے سینے پر چڑھ گیا، اورداڑھی نوچ لی اورجیب سے چاقونکال کرمیری گردن پرچڑھ گیالیکن اللہ تعالی کے فضل وکرم سے مجھے نہ تواس کے سینے پرسوارہونے کاخوف تھااورنہ ہی مجھے اس سے کوئی خطرہ محسوس ہوا، میں ساکت وصامت دل ہی دل میں اپنے رب تعالی سے کہہ رہاتھاکہ یااللہ ! میں نے اپنے آپ کو تیرے سپردکردیاہے ، اگریہ کافرمجھے ایسے ہی قتل کردے اورتواس پرراضی ہے توبسروچشم ورنہ تجھے معلوم ہے کہ میں تیرابندہ ہوں اورمیری جان تیرے قبضہ وقدرت میں ہے ، توجس طرح چاہے میں راضی ہوں۔ میں یہی بات دل ہی دل میں کہہ رہاتھاتوکسی مسلمان بھائی نے دورسے زورسے تیرمارااورمیرے سینے پربیٹھے ہوئے کافرکے حلق پرلگا، جو اس کے لئے جان لیواثابت ہوااوروہ غش کھاکرنیچے گرا، میں نے فوراًاٹھ کراسی کے چاقو سے اس کی گردن اڑادی ۔
دوستو! اپنادل اپنے رب تعالی کے ہاتھ دے دوپھرقدرت کے وہ عجائب وغرائب دیکھوگے ، نہ ماں سے اس طرح کالطف وکرم دیکھ پائوگے اورنہ ہی باپ سے ۔ اوریقین کروکہ تسلیم ورضاکو اپنائوکامیاب رہوگے جواس سے بھاگتاہے وہ مارکھاتاہے اورنقصان اٹھاتاہے ۔ سب سے بڑامددگارمصائب وتکالیف کے وقت صبرکرناہے ۔
(روح البیان:إسماعیل حقی بن مصطفی الإستانبولی الحنفی المولی أبو الفداء (۲:۱۰۲)
معارف ومسائل
(۱)اس سے یہ معلوم ہواکہ رب تعالی سے امیدرکھناایمان کارکن ہے ، مگرصحیح امیدیہ ہے کہ پہلے اس کی فرمانبرداری کرے ، پھراس کے کرم سے امیدرکھے ، نیکی نہ کرنااورامیدکرناابولہوسی ہے ، بدکاریاں کرنااورامیدیں کرناگویااسلام کے ساتھ مذاق ا ڑاناہے ۔ جنتیوں اوردوزخیوں کی حقیقی چھانٹ توقیامت کے دن ہی ہوگی کہ جنتیوں کے سفیداوردوزخیوں کے منہ کالے ہوں گے ، مگراس چھانٹ کی علامت دنیامیں بھی قائم ہے ، جن سے یہاں بھی جنتی اوردوزخی کااندازہ لگ جاتاہے ۔ ان علامات میں سے جہدوصبربڑی علامتیں ہیں ۔ ان شاء اللہ تعالی مجاہداورصابرجنتی ہیں ۔ ہمیشہ نیک اعمال میں رب تعالی کی رضاکی نیت کرنی چاہئے دکھلاوے اوردنیاوی نام ونمود کاارادہ ہرگزنہ کرے ، یہ بھی اسی آیت کریمہ سے معلوم ہوا۔ (تفسیرنعیمی ( ۴: ۲۱۲)
(۲)یہاں مسلمان پر آنے والی آزمائشوں کی حکمت کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اگر تمہیں آزمائشیں آتی ہیں تو اس پر بے قرار اور حیرت زدہ ہونے کی ضرورت نہیں کہ ہم تو مسلمان ہیں ، ہمیں اللہ تعالیٰ کیوں تکلیفوں میں مبتلا فرما رہا ہے؟یاد رکھو کہ تمہارا امتحان کیا جائے گا، تمہیں ایمان کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا کے لئے کیسے زخم کھاتے اور تکلیف اُٹھاتے ہو اور کتنا ثابت قدم رہتے ہو۔ تھوڑی سی تکلیف پر چِلّا اٹھنا اور دہائی دینا شروع کردینا ایمان والوں کا شیوہ نہیں۔ جنت میں داخلہ مطلوب ہے تو ان آزمائشوں پر پورا اترنا پڑے گا، اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں قربانی دینا پڑے گی اور ہر حال میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنا پڑے گا۔
زباں پر شکوہ رنج و الم لایا نہیں کرتے نبی کے نام لیوا غم سے گھبرایا نہیں کرتے
اِس میں اُن لوگوں کو سرزنش (تنبیہ)ہے جو اُحد کے دن کفار کے مقابلہ سے بھاگے تھے۔نیز اس آیت کو سامنے رکھ کر ہمیں اپنے اعمال اور اپنی حالت پر بھی غور کرنا چاہیے کہ اگر ہمیں راہِ خدا میں اپنا مال یا وقت دینا پڑے تو ہم اس میں کتنا پورا اترتے ہیں ؟ افسوس کہ ہماری حالت کچھ اچھی نہیں۔ فضولیات میں خرچ کرنے کیلئے پیسہ بھی ہے اور وقت بھی لیکن اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں خرچ کرتے وقت نہ پیسہ باقی رہتا ہے اور نہ وقت۔تنبیہ: آیت میں علم کا لفظ ہے ، یہاں اس سے مراد آزمائش کرنا ہے۔ (تفسیرصراط لجنان(۲:۶۲)