تفسیر سورہ آل عمران آیت ۱۴۔ زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ مِنَ النِّسَآء ِ وَالْبَنِیْنَ وَالْقَنٰطِیْرِ الْمُقَنْطَرَۃِ مِنَ الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ وَالْخَیْلِ الْمُسَوَّمَۃِ وَالْاَنْعٰمِ وَالْحَرْثِ

مادیت پرست مال کاپجاری ہوتاہے اسے ایمان سے کوئی سروکارنہیں ہوتا

زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ مِنَ النِّسَآء ِ وَالْبَنِیْنَ وَالْقَنٰطِیْرِ الْمُقَنْطَرَۃِ مِنَ الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ وَالْخَیْلِ الْمُسَوَّمَۃِ وَالْاَنْعٰمِ وَالْحَرْثِ ذٰلِکَ مَتٰعُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَاللہُ عِنْدَہ حُسْنُ الْمَاٰبِ}(۱۴)
ترجمہ کنزالایمان :لوگوں کے لئے آراستہ کی گئی ان خواہشوں کی محبت عورتیں اور بیٹے اور تلے اوپر سونے چاندی کے ڈھیر اور نشان کئے ہوئے گھوڑے اور چوپائے اور کھیتی یہ جیتی دنیا کی پونجی ہے اور اللہ ہے جس کے پاس اچھا ٹھکانا ۔
ترجمہ ضیاء الایمان : لوگوں کے لئے مزین کردی گئی ان خواہشات کی محبت عورتیں ، اوربیٹے اورخزانے جمع کئے ہوئے ، سونے اورچاندی کے اورگھوڑے نشان لگائے ہوئے اورجانوراورکھیتی یہ سب کچھ سامان ہے دنیاوی زندگی کااوراللہ تعالی ہے جس کے پاس اچھاٹھکاناہے ۔

شان نزول کے متعلق دوقول
مَا یَتَعَلَّقُ بِالْقِصَّۃِ فَإِنَّا رُوِّینَا أَنَّ أَبَا حَارِثَۃَ بْنَ عَلْقَمَۃَ النَّصْرَانِیَّ اعْتَرَفَ لِأَخِیہِ بِأَنَّہُ یَعْرِفُ صِدْقَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی قَوْلِہِ إِلَّا أَنَّہُ لَا یُقِرُّ بِذَلِکَ خَوْفًا مِنْ أَنْ یَأْخُذَ مِنْہُ مُلُوکُ الرُّومِ الْمَالَ وَالْجَاہَ، وَأَیْضًا رُوِّینَا أَنَّہُ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ لَمَّا دَعَا الْیَہُودَ إِلَی الْإِسْلَامِ بَعْدَ غَزْوَۃِ بَدْرٍ أَظْہَرُوا مِنْ أَنْفُسِہِمُ الْقُوَّۃَ وَالشِّدَّۃَ وَالِاسْتِظْہَارَ بِالْمَالِ وَالسِّلَاحِ، فَبَیَّنَ اللَّہُ تَعَالَی فِی ہَذِہِ الْآیَۃِ أَنَّ ہَذِہِ الْأَشْیَاء َ وَغَیْرَہَا مِنْ مَتَاعِ الدُّنْیَا زَائِلَۃٌ بَاطِلَۃٌ، وَأَنَّ الْآخِرَۃَ خَیْرٌ وَأَبْقَی الْقَوْلُ الثَّانِی:وَہُوَ عَلَی التَّأْوِیلِ الْعَامِّ أَنَّہُ تَعَالَی لَمَّا قَالَ فِی الْآیَۃِ الْمُتَقَدِّمَۃِ وَاللَّہُ یُؤَیِّدُ بِنَصْرِہِ مَنْ یَشاء ُ إِنَّ فِی ذلِکَ لَعِبْرَۃً لِأُولِی الْأَبْصارِ ذَکَرَ بَعْدَ ہَذِہِ الْآیَۃِ مَا ہُوَ کَالشَّرْحِ وَالْبَیَانِ لِتِلْکَ الْعِبْرَۃِ وَذَلِکَ ہُوَ أَنَّہُ تَعَالَی بَیَّنَ أَنَّہُ زَیَّنَ لِلنَّاسِ حُبَّ الشَّہَوَاتِ الْجُسْمَانِیَّۃِ، وَاللَّذَّاتِ الدُّنْیَوِیَّۃَ، ثُمَّ إِنَّہَا فَانِیَۃٌ مُنْقَضِیَۃٌ تَذْہَبُ لَذَّاتُہَا، وَتَبْقَی تَبِعَاتُہَا، ثُمَّ إِنَّہُ تَعَالَی حَثَّ عَلَی الرَّغْبَۃِ فِی الْآخِرَۃِ بقولہ قُلْ أَأُنَبِّئُکُمْ بِخَیْرٍ مِنْ ذلِکُمْ (آل عمران:۱۵)ثم بیّن طَیِّبَاتِ الْآخِرَۃِ مُعَدَّۃٌ لِمَنْ وَاظَبَ عَلَی الْعُبُودِیَّۃِ مِنَ الصَّابِرِینَ وَالصَّادِقِینَ إِلَی آخَرِ الْآیَۃِ.
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس کاتعلق ایک واقعہ سے ہے کیونکہ منقول ہے کہ ابوحارثہ بن علقمہ نصرانی نے اپنے بھائی کے سامنے اعتراف کیاتھاکہ وہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکو سچاجانتاہے مگروہ اس خوف کے پیش نظراس کااقرارنہیں کرے گاکہ روم کے بادشاہ اس سے اس کامال اورعہدہ چھین لیں گے اوریہ بھی منقول ہے کہ جب حضورتاجدارختم نبوت ﷺ نے غزوہ بدرکے بعد یہودیوں کو اسلام کی دعوت دی توانہوںنے اپنی قوت ،شدت اورمال واسلحہ کی بات کی تواللہ تعالی نے اس آیت کریمہ میں یہ بات واضح فرمادی کہ یہ اشیاء اوردنیاکامتاع باطل اورختم ہوجانے والی ہیں اورآخرت بہتراورہمیشہ رہنے والی ہے ۔
دوسراقول یہ ہے کہ اللہ تعالی نے جب پچھلی آیت کریمہ میں فرمایا{ وَاللَّہُ یُؤَیِّدُ بِنَصْرِہِ مَنْ یَشاء ُ إِنَّ فِی ذلِکَ لَعِبْرَۃً لِأُولِی الْأَبْصارِ}اوراللہ تعالی اپنی مددسے زوردیتاہے جسے چاہتاہے ، بے شک اس میں عقل والوں کے لئے ضرورعبرت ہے ۔ اس آیت کریمہ کے بعد اس عبرت کی شرح اورتفصیل بیان کی وہ یوں کہ اللہ تعالی نے واضح کیاکہ اللہ تعالی نے لوگوں کے لئے شہوات جسمانی اوردنیاوی لذات مزین کردیں اورواضح کیاکہ یہ فانی اورختم ہوجانے والی ہیں ، ان کی لذتیں زائل ہوجائیں گی اوران پر مرتب اثرات باقی رہیں گے ، اس کے بعد اللہ تعالی نے آخرت کی طرف رغبت پرابھارتے ہوئے فرمایا{ أَأُنَبِّئُکُمْ بِخَیْرٍ مِنْ ذلِکُم}کیامیں تمھیں اس سے بہترچیز بتادوں ؟ پھرآخرت کی پاکیزہ چیزوں کابیان فرمایاجو ان لوگوں کے لئے تیارکی گئی ہیں جو صابرین وصادقین لوگ اطاعت الہی پرہمیشہ کریں گے ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۷:۱۵۹)

یہودی مادیت پرست ہوتے ہیں

وَقَالَتْ فِرْقَۃٌ:الْمُزَیِّنُ ہُوَ الشَّیْطَانُ،وَہُوَ ظَاہِرُ قَوْلِ الْحَسَنِ،فَإِنَّہُ قَالَ:مَنْ زَیَّنَہَا؟مَا أَحَدٌ أَشَدَّ لَہَا ذَمًّا مِنْ خَالِقِہَافَتَزْیِینُ اللَّہِ تَعَالَی إِنَّمَا ہُوَ بِالْإِیجَادِ وَالتَّہْیِئَۃِ لِلِانْتِفَاعِ وَإِنْشَاء ِ الْجِبِلَّۃِ عَلَی الْمَیْلِ إِلَی ہَذِہِ الْأَشْیَاء ِ وَتَزْیِینُ الشَّیْطَانِ إِنَّمَا ہُوَ بالوسوسۃ والخد یعہ وَتَحْسِینِ أَخْذِہَا مِنْ غَیْرِ وُجُوہِہَاوَالْآیَۃُ عَلَی کِلَا الْوَجْہَیْنِ ابْتِدَاء ُ وَعْظٍ لِجَمِیعِ النَّاسِ،وَفِی ضِمْنِ ذَلِکَ تَوْبِیخٌ لِمُعَاصِرِی مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ الْیَہُودِ وَغَیْرِہِمْ.
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ایک جماعت نے یہ کہاہے کہ آراستہ کرنے والاشیطان ہے۔ اورامام حسن بصری رضی اللہ عنہ کے قول کاظاہریہی ہے کیونکہ انہوںنے کہاکہ کس نے اسے آراستہ کیاہے ؟ اس کے خالق سے زیادہ شدیداس کی مذمت کرنے والاکوئی نہیں ، پس اللہ تعالی کی تزئین یہ ہے کہ اس نے اسے ایجاد کیااورنفع کے لئے اسے تیارکیااوران اشیاء کی طرف میلان فطرت میں رکھ دیااورشیطان کی تزئین یہ ہے کہ اس نے وسوسہ اندازی کی ، دھوکہ میں مبتلاء کیااوربغیراسباب کے انہیں لینے کو حسین قراردیااورآیت دونوں وجہوں پر مشتمل ہے ، ابتداء میں تمام لوگوں کے لئے وعظ ونصیحت ہے اوراس کے ضمن میں حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے ہم عصریہودیوں کے لئے زجرتوبیخ ہے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی (۴:۲۸)

عورتوں کافتنہ ہونا

عَنْ أُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَا تَرَکْتُ بَعْدِی فِتْنَۃً أَضَرَّ عَلَی الرِّجَالِ مِنَ النِّسَاء ِ۔
ترجمہ :حضرت سیدنااسامہ بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا: میں نے اپنے بعد مردوں کے لئے عورتوں سے بڑھ کرکوئی شدیدفتنہ نہیں چھوڑا۔
(صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۷:۸)
خواتین اوراولاد کے فتنہ ہونے میں زیادہ شدیدکون؟
فَفِتْنَۃُ النِّسَاء ِ أَشَدُّ مِنْ جَمِیعِ الْأَشْیَاء ِوَیُقَالُ:فِی النِّسَاء ِ فِتْنَتَانِ،وَفِی الْأَوْلَادِ فِتْنَۃٌ وَاحِدَۃٌ فَأَمَّا اللَّتَانِ فِی النِّسَاء فَإِحْدَاہُمَا أَنْ تُؤَدِّیَ إِلَی قَطْعِ الرَّحِمِ، لِأَنَّ الْمَرْأَۃَ تَأْمُرُ زَوْجَہَا بِقَطْعِہِ عَنِ الْأُمَّہَاتِ وَالْأَخَوَاتِ وَالثَّانِیَۃُ یُبْتَلَی بِجَمْعِ المال من الحلال والحرام وَأَمَّا الْبَنُونَ فَإِنَّ الْفِتْنَۃَ فِیہِمْ وَاحِدَۃٌ،وَہُوَ مَا ابْتُلِیَ بِجَمْعِ الْمَالِ لِأَجْلِہِمْ.
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں اورعورتوں کافتنہ تمام اشیاء سے زیادہ شدیداورسخت ہے اوریہ بھی کہاجاتاہے کہ عورتوں میں دوفتنے ہیں اوراولاد میں صرف ایک فتنہ ہے ۔ پس وہ دوجوعورتوں میں ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ قطع رحمی تک پہنچادیتاہے کیونکہ عورت اپنے خاوندکو مائوں اوربہنوں سے تعلقات منقطع کرنے کاحکم دیتی ہے اوردوسرایہ ہے کہ آدمی کو حلال وحرام مال جمع کرنے میں مبتلاء کردیتی ہے ۔ اوررہے بیٹے توان میں صرف ایک فتنہ ہے اوروہ یہ ہے کہ آدمی کوان کے لئے مال جمع کرنے میں مبتلاء کردیاجاتاہے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی (۴:۲۸)

عورتوں کی کتابت کامسئلہ

وَرَوَی عَبْدِ اللَّہِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:(لَا تُسْکِنُوا نِسَاء َکُمُ الْغُرَفَ وَلَا تُعَلِّمُوہُنَّ الْکِتَابَ۔
ترجمہ :حضرت سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا: تم اپنی خواتین کو گھروں کی چھتوں پر نہ رہنے دواورتم انہیں لکھنانہ سکھائو۔
(کنز العمال :علاء الدین علی بن حسام الدین ابن قاضی خان القادری(۱۶:۳۸۰)

عورت تمام لوگوں کے لئے فتنہ ہے

قَالَ الْعُلَمَاء ُ:ذَکَرَ اللَّہُ تَعَالَی أَرْبَعَۃَ أَصْنَافٍ مِنَ الْمَالِ،کُلُّ نَوْعٍ مِنَ الْمَالِ یَتَمَوَّلُ بِہِ صِنْفٌ مِنَ النَّاسِ،أَمَّا الذَّہَبُ وَالْفِضَّۃُ فَیَتَمَوَّلُ بِہَا التُّجَّارُ،وَأَمَّا الْخَیْلُ الْمُسَوَّمَۃُ فَیَتَمَوَّلُ بِہَا الْمُلُوکُ،وَأَمَّا الْأَنْعَامُ فَیَتَمَوَّلُ بِہَا أَہْلُ الْبَوَادِی،وَأَمَّا الْحَرْثُ فَیَتَمَوَّلُ بِہَا أَہْلُ الرَّسَاتِیقِ فَتَکُونُ فِتْنَۃُ کُلِّ صِنْفٍ فِی النَّوْعِ الَّذِی یَتَمَوَّلُ، فَأَمَّا النِّسَاء ُ وَالْبَنُونَ فَفِتْنَۃٌ لِلْجَمِیعِ۔
ترجمہ :علماء کرام فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے مال کی چارقسمیں بیان کی ہیں ، اورمال کی ہرقسم کے سبب لوگوں کی ایک قسم خوشحال اورمتمول ہوتی ہے ، پس سونے اورچاندی سے تاجرلوگ خوشحال ہوتے ہیں اورنشان زدہ گھوڑوں کے سبب بادشاہ اورامراء خوش ہوتے ہیں اوررہے جانور توان سے شہروں میں بسنے والے خوشحال ہوتے ہیں اورجہاں تک کہ کھیتی باڑی کاتعلق ہے اس سے دیہات میں رہنے والے خوشحال ہوتے ہیں اورہرقسم کی آزمائش اسی نوع کے لئے ہوتی ہے جو اس سے خوشحال ہوتی ہے جہاں تک عورتوں اوراولاد کاتعلق ہے تویہ تمام کے لئے آزمائش اورفتنہ ہے ۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی (۴:۲۸)

اس کی شرح میں امام القرطبی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں
حَذَّرَہُمْ رَسُولُ اللَّہ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، لِأَنَّ فِی إِسْکَانِہِنَّ الْغُرَفَ تَطَلُّعًا إِلَی الرِّجَالِ،وَلَیْسَ فِی ذَلِکَ تَحْصِینٌ لَہُنَّ وَلَا سِتْرٌ، لِأَنَّہُنَّ قَدْ یُشْرِفْنَ عَلَی الرِّجَالِ فَتَحْدُثُ الْفِتْنَۃُ وَالْبَلَاء ُ،وَلِأَنَّہُنَّ قَدْ خُلِقْنَ مِنَ الرَّجُلِ،فَہِمَّتُہَا فِی الرَّجُلِ وَالرَّجُلُ خُلِقَ فِیہِ الشَّہْوَۃُ وَجُعِلَتْ سَکَنًا لَہُ،فَغَیْرُ مَأْمُونٍ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا عَلَی صَاحِبِہِ وَفِی تَعَلُّمِہِنَّ الْکِتَابَ ہَذَا الْمَعْنَی مِنَ الْفِتْنَۃِ وَأَشَدُّ۔
ترجمہ :حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے لوگوںکو ڈرایااورمحتاط رہنے کی تلقین فرمائی کیونکہ ان کے لئے بالاخانوں میں سکونت اختیارکرنے میں مردوں کی طرف دیکھناآسان ہوجائے گااوراس میں ان کے لئے نہ حفاظت ہے اورنہ ہی پردہ ہے کیونکہ وہ مردوں کی طرف جھانکتی رہیں گی ، نتیجۃ ً فتنہ اورآزمائش کھڑی ہوجائے گی کیونکہ یہ مرد سے پیداکی گئی ہیںلھذاان کی خواہش اوران کاقصدمردکی جانب ہی ہوتاہے اورمرد میں شہوت پیداکردی گئی اورعورت کو مردکے لئے باعث راحت وتسکین بنادیاگیا۔ پس دونوں میں سے ہر ایک محفوظ ومامون نہیںہیں۔ اورانہیں لکھنے کی تعلیم دینے میں یہ فتنہ بھی ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ شدید۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی (۴:۲۸)

گھوڑے کی تخلیق کیوں کی گئی ؟

إِنَّ اللَّہَ عَرَضَ عَلَی آدَمَ جَمِیعَ الدَّوَابِّ،فَقِیلَ لَہُ:اخْتَرْ مِنْہَا وَاحِدًا فَاخْتَارَ الْفَرَسَ،فَقِیلَ لَہُ:اخْتَرْتَ عِزَّکَ، فَصَارَ اسْمُہُ الْخَیْرَ مِنْ ہَذَا الْوَجْہِ وَسُمِّیَتْ خَیْلًا لِأَنَّہَا مَوْسُومَۃٌ بِالْعِزِّ فَمَنْ رَکِبَہُ اعْتَزَّ بِنِحْلَۃِ اللَّہِ لَہُ وَیَخْتَالُ بِہِ عَلَی أَعْدَاء ِ اللہ تعالی وسمی فرسالِأَنَّہُ یَفْتَرِسُ مَسَافَاتِ الْجَوِّ افْتِرَاسَ الْأَسَدِ وَثَبَانًا،ویقطعہا کالالتہام بیدیہ علی شی خبطا وتناولا،وسمی عربیا لأنہ جیء بِہِ مِنْ بَعْدِ آدَمَ لِإِسْمَاعِیلَ جَزَاء ً عَنْ رَفْعِ قَوَاعِدِ الْبَیْتِ، وَإِسْمَاعِیلُ عَرَبِیٌّ،فَصَارَ لَہُ نِحْلَۃً مِنَ اللَّہِ تَعَالَی فَسُمِّیَ عَرَبِیًّا.
ترجمہ :حدیث شریف میں ہے کہ بے شک اللہ تعالی نے حضر ت سیدناآدم علیہ السلام پر تمام جانور پیش فرمائے اورآپ علیہ السلام کو فرمایاگیاکہ ان میں سے ایک کوپسندکرلوتوآپ علیہ السلام نے گھوڑے کو پسندفرمایا، توآپ علیہ السلام کو فرمایاگیاکہ تم نے اپنی عزت کواختیارکیا، پس اسی وجہ سے اس کانام الخیرپڑ گیا، اوراس کانام خیل رکھاگیاکیونکہ یہ گھوڑاالعزسے موسوم ہے اورجو اس پر سوارہوجائے وہ اللہ تعالی کی عطاسے عزت پالیتاہے اوروہ اس کے سبب اللہ تعالی کے دشمنوں پر اظہارفخرکرتاہے اور اس کانام فرس رکھاگیاکیونکہ یہ شیرکے جھپٹنے کی طرح اچھلتے کودتے فضاء کی مسافتوں کو طے کرلیتاہے اوروہ زورسے روندتے ہوئے ان کو اس طرح کاٹتاہے جیساکہ اپنے ہاتھ سے کوئی چیز دبوچ لی جائے اوراس کانام عربی رکھاگیاہے کیونکہ اسے حضرت سیدناآدم علیہ السلام کے بعد حضرت سیدنااسماعیل علیہ السلام کے لئے کعبہ مشرفہ کی بنیادیں اٹھانے کی جزاء کے طورپر لایاگیااورحضرت سیدنااسماعیل علیہ السلام عربی ہیں ، پس چونکہ یہ اللہ تعالی کی جانب آپ علیہ السلام کو عطاہوااسی لئے اس کانام عربی رکھاگیا۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی (۴:۲۸)

حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے جہاد کی تعلیم کیسے دی ؟

عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ البَاہِلِیِّ،قَالَ:وَرَأَی سِکَّۃً وَشَیْئًا مِنْ آلَۃِ الحَرْثِ،فَقَالَ:سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ:لاَ یَدْخُلُ ہَذَا بَیْتَ قَوْمٍ إِلَّا أَدْخَلَہُ اللَّہُ الذُّلَّ۔
ترجمہ :حضرت سیدناابوامامہ رضی اللہ عنہ نے ایک گھرمیں لوہے کے ہل دیکھے( جس کے ساتھ زمین پھاڑی جاتی ہے (اورکوئی شئی دیکھی توفرمایاکہ میں نے حضورتاجدارختم نبوت ﷺکو یہ فرماتے ہوئے سناہے کہ یہ کسی قوم کے گھرمیں داخل نہیں ہوتی مگرذلت اس کے ساتھ داخل ہوجاتی ہے ۔
(صحیح البخاری:محمد بن إسماعیل أبو عبداللہ البخاری الجعفی(۳:۱۰۲)

اس کی شرح میں الامام المہلب رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں
وقال المہلب:معنی قول فِی ہَذَا الْحَدِیثِ وَاللَّہُ أَعْلَمُ الْحَضُّ عَلَی مَعَالِی الْأَحْوَالِ وَطَلَبِ الرِّزْقِ مِنْ أَشْرَفِ الصِّنَاعَاتِ،وَذَلِکَ لَمَّا خَشِیَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی أُمَّتِہِ مِنَ الِاشْتِغَالِ بِالْحَرْثِ وَتَضْیِیعِ رُکُوبِ الْخَیْلِ وَالْجِہَادِ فِی سَبِیلِ اللَّہِ، لِأَنَّہُمْ إِنِ اشْتَغَلُوا بِالْحَرْثِ غَلَبَتْہُمُ الْأُمَمُ الرَّاکِبَۃُ لِلْخَیْلِ الْمُتَعَیِّشَۃُ مِنْ مَکَاسِبِہَا،فَحَضَّہُمْ عَلَی التَّعَیُّشِ مِنَ الْجِہَادِ لَا مِنَ الْخُلُودِ إِلَی عِمَارَۃِ الْأَرْضِ وَلُزُومِ الْمِہْنَۃِأَلَا تَرَی أَنَّ عُمَرَ قَالَ:تَمَعْدَدُوا وَاخْشَوْشِنُوا وَاقْطَعُوا الرُّکُبَ وَثِبُوا عَلَی الْخَیْلِ وَثْبًا لَا تَغْلِبَنَّکُمْ عَلَیْہَا رُعَاۃُ الْإِبِلِ فَأَمَرَہُمْ بِمُلَازَمَۃِ الْخَیْلِ، وَرِیَاضَۃِ أَبْدَانِہِمْ بِالْوُثُوبِ عَلَیْہَا.
ترجمہ:اس حدیث شریف میں حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے ارشادکاحقیقی معنی تواللہ تعالی ہی خوب جانتاہے ، بہرحال یہ بلنداحوال اورباعزت اوراشرف ترین کاموں سے رزق طلب کرنے پر ترغیب دلاناہے اوریہ اس لئے ہواکہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺ کواپنی امت کے بارے میں ہل چلانے میں مصروف ہونے اورگھوڑوں کی سواری اوراللہ تعالی کی راہ میں جہاد کو ضائع کرنے کاخدشہ لاحق ہواکیونکہ یہ ہل چلانے میں مصروف ہوگئے تو پھران پر وہ کفاراورمشرکین غالب آجائیں گے جوگھوڑوں کی سواری ان کی کمائی سے اسباب زندگی تلاش کرنے کے لئے کرتے ہیں ، پس حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے انہیں جہاد سے اسباب زندگی تلاش کرنے پر ابھارانہ کہ مسلسل زمین کی آبادی اورمشقت کولازم پکڑنے سے ، کیاآپ جانتے نہیں ہیں کہ حضرت سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جوان بنواورخوب مضبوط اورطاقتوربنواوراونٹوںکی سواری چھوڑدواورگھوڑوں پرکود کربیٹھواورتم پراونٹ چرانے والے غالب نہیں آئیں گے۔ پس آپ نے انہیں مسلسل گھوڑے رکھنے اوران پراچھل کربیٹھنے کے لئے اپنے ابدان کی ورزش کرنے کاحکم ارشادرفرمایا۔
(شرح صحیح البخاری لابن بطال:ابن بطال أبو الحسن علی بن خلف بن عبد الملک (۶:۴۵۷)

معارف ومسائل

(۱)کائنات کا کوئی بھی عنصر جس کا مشاہدہ ہماری ظاہری آنکھ کرتی ہے مادہ کہلاتا ہے جبکہ مادیت پرستی سے مراد مادی اجسام،دنیاوی عیش و عشرت سے محبت،ذہنی اور روحانی انحطاط ہے -عام طور پر ہم مادہ کو دنیا ،مادیت کو دنیاداری اور مادہ پرست کو دنیا دار کے نام سے منسوب کرتے ہیں جب انسان فقط دنیا داری میں مگن ہو جاتا ہے تو وہ خدا سے دور ہو جاتا ہے اور اپنا مقصدِ زیست کھو بیٹھتا ہے جوں جوں فرد کے اندر مادیت پرستی زور پکڑتی ہے تو معاشرہ عدم توازن کا شکار ہو جاتا ہے کیونکہ فردمعاشرہ کی اساس ہے-معاشرہ کا انحصار افراد پر ہے جیسی فطرت افرادکی ہو گی معاشرہ ویسا ہی ہو گا جس کے اثرات انسانی زندگی پر براہ راست پڑتے ہیں مادیت پرستی کی وجہ سے انسان انفرادی طور پر تنہائی اور اجتماعی طور پر پورا معاشرہ محرومی کا شکار ہو جاتا ہے ۔
(۲)سائنس اور مادی ترقی، درحقیقت تباہی
سائنس کی جس ترقی کے سہارے مذہب کے ساتھ غداری کی جاتی ہے اسی سائنسی ترقی سے تنزلی ہو رہی ہے بظاہر جو مادی فوائد نظر آرہے ہیں وہی درحقیقت مادی طور پر بھی مضر ہیں اور روحانی تنزل کا بھی سبب، بے شمار مصنوعات بنانے کے کارخانے مختلف کیمیکلز اور ٹرانسپورٹ کی آلودگی انسان کو سلو پوائزن زہر دے کر مار رہی ہے، ایک آئی ٹی کے ماہر بتاتے ہیں کہ شعاع بیسڈ ٹیکنالوجی جتنا آگے جائے گی نسل انسانی کی تباہی اتنا قریب آے گی انسان کو بے شمار بیماریوں کا سامنا ہوگا اور جس سائنس کے سبب بیماریاں ملیں گی وہی سائنس پھر میڈیکل سائنس اور علاج کا احسان جتانے بھی سامنے آجائے گی اور ممکن ہے کہ ان شعاعوں کی بھرمار یا غیر فطری ایٹمی ٹیکنالوجی یا کیمیکلز اور جینیٹکس کی بدولت پورے کرہ ارض پر زمینیں اناج اگلنا بند کر دیں دریاؤں جھیلوں اور سمندروں کے پانی زہریلے ہو جائیں بس وہ زمین پر بسنے والے تمام جانداروں پر قیامت ہوگی جس کی وجہ یہی سائنسی ترقی ہوگی.
سائنس نے انسانوں کو ایسی فریبی چکا چوند اور آسائشوں کے پیچھے گمراہ کیا ہے جس سے انسانیت کا چین سکون لٹتا جا رہا، انسان رشتوں ناطوں سے یہاں تک کہ اپنے آپ سے بھی بچھڑتا جا رہا ایسی آسائشوں کے حصول کی خاطر جن سے حقیقی راحت کا حصول نا ممکن ہے بلکہ انسان کی اصل تباہی تو جدید ترقی کے ہاتھوں برپا ان غیر متوازن معاشی حالات کی بدولت ہے جن کو متوازن کرنے کے لئے انسان خود پاگل بنا پھر رہا اس کے اندر ہی اندر تفکرات اور اندیشوں کے غم اسے مار رہے ہیں، ایک عام فرد کے لئے زندگی کی رفتار کا ساتھ دینا نا ممکن ہوتا جا رہاہے۔
(۳)قرآن اورداعیان قرآن توتمھیں روحانیت کی طرف بلاتے ہیںمگر۔۔۔
قرآن جو دنیا پرستی کے مختلف مذاہب جوکفروشرک کے داعی تھے کے خلاف تحریک اٹھانے کے لیے اُترا ہے ، آج مادیت پرستی اور دنیا پرستی کی تیز لہریں اس کے سامنے حائل ہورہی ہیں۔اورسیکولرازم اورلبرل از م کے پیروکاراس کے ساتھ مزاحم ہورہے ہیں، صنعتی انقلاب اور سائنسی ایجادات سے انکار ممکن نہیں ، اسی طرح موٹر اور مشین سے کام لینا بھی ضروری ہے؛ لیکن بہ حیثیت حاملِ قرآن جب ہم دیکھتے ہیں کہ دولت ومادیت کا یہ سیلاب اپنے ساتھ بدترین مفاسد بھی لارہا ہے تو یہ صورتِ واقعہ بڑی تشویشناک ہوجاتی ہے۔ اس سیلاب کے ابتدائی ہلکے ہلکے ریلوں کو دیکھ کر علامہ اقبال رحمہ اللہ تعالی نے پوری قوم کو متنبہ کیا تھا؛ مگر ہماری غفلت سے یہ نہ صرف مزارِاقبال سے گزر گیا؛ بلکہ اس کی اونچی ہوتی ہوئی لہریں ہمارے سروں پر سے بھی گزر گئی ہیں۔ اس کا عجب کرشمہ ہے کہ ہماری زندگی کا ایک سرا ترقی جبکہ دوسرا سرا محرومی ہے ۔ اکثر لوگوں کا سارا وقت اور سارا قویٰ دولت نے اس طرح جذب کرلیا ہے گویا اب یہی ان کا خدا ہے ۔ اب ترقی کا وہ متوازن تصور ذہنوں سے غائب ہورہا ہے ، جس میں معاشی واخلاقی ترقی اور جسم وروح دونوں کی فلاح شامل ہو۔ ایمان،مذہب ، روحانیت اور اخلاقیات کی باتیں گویا اب مانعِ ترقی ہیں ۔ اب ہر وہ شخص پاگل ، بے وقوف اور قدامت پرستی کا مریض سمجھاجاتا ہے جو مادی ترقی کے ساتھ روحانی واخلاقی ترقی کا متوازی طور پر جاری رہنا ضروری قرار دیتا ہے مادیت پرستی اور پیسے کی اس دوڑ نے توجیہہ الی القرآن کو پسِ پشت ڈال دیا ہے۔
(۴)مادہ پرستی نے آج کے نوجوانوں کو دین دشمن بنادیاہے
مغربی الحادی فکر نے ہماری عوام بلکہ پوری اقوام دنیا پر یلغار کی ۔ ہمارے نوجوانوں کے سینوں کو ان کے خالق کے خلاف آلودہ اور پراگندہ کیا ۔ دین ِ اسلام کے مخالف ان کے دلوں کو کینہ سے بھر دیا ۔ انہیں ان کی نرم و ملائم فطرت سے بیگانہ کردیا۔
اسلام ، مسلمان اور قرآن کریم کے ساتھ ملحدوں کی شدید عداوت کی وجہ سے تمام مادیت پرست گروہوں اور ان کے ہم نوا دوستوں نے ہمارے عقیدہ کو عبث اور بیکار قرار دینا شروع کردیا ۔ اس سب کے پیچھے ان کا اصل ہدف اس دین ِ حنیف کے ارکان میں ارتعاش و ضعف پیدا کرنا ، اسے بد نما و بد شکل قرار دینا اور اس کے نشانات ِ راہ کو مسخ کرنا ہے ۔یہ ملحدین اور بے دین اپنے مقصد و ہدف کو پانے کے لیے مختلف طریقوں کو بطور منہج اپناتے ہیں ۔ کبھی مکر و فریب کے لبادہ میں ، کبھی دھوکہ و تدلیس کے پردہ میں اور بیشتر تو یہ لالچ اور دھمکی کے ساتھ اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جن لوگوں کے دلوں میں مرض ہوتا ہے وہ ان ملحدوں کے تابع بن جاتے ہیں ۔ دراصل یہی لوگ مغربی تہذیب اور اس کی بے حقیقت اور دھوکہ بازچمک دمک سے حیران و ششدر ہوجاتے ہیں ۔کیونکہ الحاد زندگی میں امر ِ واقع بن گیا ہے جسے ٹی وی چینلز پھیلاتے ہیں اور انٹرنیٹ کے صفحات فروغ دیتے ہیں اسی لیے براہِ راست اس کی حقیقت کو عیاں کرنا ، اس سے برتائو اور علاج کے طریقوں پر خصوصی توجہ کی اشد ضرورت ہے ۔ کم از کم بحث کے پہلو سے ہی سہی ۔

Leave a Reply