تفسیر سورہ آل عمران آیت ۱۳۹۔ وَلَا تَہِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ}(۱۳۹)

اہل اسلام کو وہن کاشکارہونے سے منع فرمایاگیا

{وَلَا تَہِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ}(۱۳۹)
ترجمہ کنزالایمان:اور نہ سستی کرو اور نہ غم کھاؤ تمہیں غالب آؤ گے اگر ایمان رکھتے ہو ۔
ترجمہ ضیاء الایمان: اورتم نہ توسستی کرواورنہ ہی غم کھائو، تمہیں غالب آئوگے اگرتم ایمان رکھتے ہو۔
اللہ تعالی نے اہل اسلام کو تسلی دی
عَزَّاہُمْ وَسَلَّاہُمْ بِمَا نَالَہُمْ یَوْمَ أُحُدٍ مِنَ الْقَتْلِ وَالْجِرَاحِ،وَحَثَّہُمْ عَلَی قِتَالِ عَدُوِّہِمْ وَنَہَاہُمْ عَنِ الْعَجْزِ وَالْفَشَلِ فَقَالَ (وَلا تَہِنُوا) أَیْ لَا تَضْعُفُوا وَلَا تَجْبُنُوا یَا أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ عَنْ جِہَادِ أَعْدَائِکُمْ لِمَا أَصَابَکُمْ أَصَابَکُمْ وَلا تَحْزَنُواعَلَی ظُہُورِہِمْ،وَلَا عَلَی مَا أَصَابَکُمْ مِنَ الْہَزِیمَۃِ وَالْمُصِیبَۃِوَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ أَیْ لَکُمْ تَکُونُ الْعَاقِبَۃُ بِالنَّصْرِ وَالظَّفَرِإِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِینَ أَیْ بِصِدْقِ وَعْدِی وَقِیلَ:إِنْ بِمَعْنَی إِذْ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:انْہَزَمَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یوم أحد فبیناہم کَذَلِکَ إِذْ أَقْبَلَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِیدِ بِخَیْلٍ، مِنَ الْمُشْرِکِینَ،یُرِیدُ أَنْ یَعْلُوَ عَلَیْہِمُ الْجَبَلَ،فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:اللَّہُمَّ لَا یَعْلُنَّ عَلَیْنَا اللَّہُمَّ لَا قُوَّۃَ لَنَا إِلَّا بِکَ اللَّہُمَّ لَیْسَ یَعْبُدُکَ بِہَذِہِ الْبَلْدَۃِ غَیْرُ ہَؤُلَاء ِ النَّفَرِفَأَنْزَلَ اللَّہُ ہَذِہِ الْآیَاتِ وَثَابَ نَفَرٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ رُمَاۃٌ فَصَعِدُوا الْجَبَلَ وَرَمَوْا خَیْلَ الْمُشْرِکِینَ حَتَّی ہَزَمُوہُمْ،فَذَلِکَ قَوْلُہُ تَعَالَی:وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ یَعْنِی الْغَالِبِینَ عَلَی الْأَعْدَاء ِ بَعْدَ أُحُدٍفَلَمْ یُخْرِجُوا بَعْدَ ذَلِکَ عَسْکَرًا إِلَّا ظَفِرُوا فِی کُلِّ عَسْکَرٍ کَانَ فِی عَہْدِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ،وَفِی کُلِّ عَسْکَرٍ کَانَ بَعْدَ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَکَانَ فِیہِ وَاحِدٌ مِنَ الصَّحَابَۃِ کَانَ الظَّفَرُ لَہُمْ،وَہَذِہِ الْبُلْدَانُ کُلُّہَا إِنَّمَا افْتُتِحَتْ عَلَی عَہْدِ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ،ثُمَّ بَعْدَ انْقِرَاضِہِمْ مَا افْتُتِحَتْ بَلْدَۃٌ عَلَی الْوَجْہِ کَمَا کَانُوا یَفْتَتِحُونَ فِی ذَلِکَ الْوَقْتِ وَفِی ہَذِہِ الْآیَۃِ بَیَانُ فَضْلِ ہَذِہِ الْأُمَّۃِ، لِأَنَّہُ خَاطَبَہُمْ بِمَا خَاطَبَ بِہِ أَنْبِیَاء َہُ، لِأَنَّہُ قَالَ لِمُوسَی:إِنَّکَ أَنْتَ الْأَعْلی (طہ: ۶۸) وَقَالَ لِہَذِہِ الْأُمَّۃِ:وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ وَہَذِہِ اللَّفْظَۃُ مُشْتَقَّۃٌ مِنَ اسْمِہِ الْأَعْلَی فَہُوَ سُبْحَانَہُ الْعَلِیُّ، وقال للمؤمنین:وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ۔
ترجمہ :امام ابوعبداللہ محمدبن احمدالقرطبی المتوفی : ۶۷۱ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ غزوہ احدشریف میں اہل ایمان کو اپنے شہداء اورزخمی ہونے والے افراد کے سبب جو تکلیف اورغم لاحق ہوااس آیت کریمہ میں اس پرانہیں حوصلہ اورتسلی دی جارہی ہے اوراس میں انہیں اپنے دشمن کے خلاف جہاد پرابھاراجارہاہے اورانہیں عجزاوربزدلی دکھانے سے منع کیاجارہاہے ۔ پس فرمایا: {وَلا تَہِنُوا}یعنی اے حبیب کریم ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تم جہاد میں کمزوری نہ دکھائواوراپنے دشمنوں کے خلاف جہاد کرنے سے بزدلی کااظہارنہ کرواس تکلیف کی وجہ سے جو تم کو پہنچی ۔
{وَلا تَحْزَنُوا}اوراپنی پشتوں پرغم کو سوارنہ کرواورنہ ہی اس ہزیمت کے سبب غمزدہ ہوجو تمھیں پہنچی تم میرے وعدہ کی سچائی کے ساتھ ایمان رکھتے ہواوریہ بھی بیان کیاگیاہے کہ یہاں ان بمعنی اذ ن ہے ۔ حضرت سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوت ْﷺکے اصحاب احد کے دن شکست خوردہ ہوئے تھے پس ہم ان کے درمیان اسی طرح تھے کہ اچانک خالد بن ولید مشرکین کے گھڑ سواروں کے ساتھ آگیا، وہ چاہتاتھاکہ وہ ان پر پہاڑی پر سے حملہ کرے اورغالب آجائے ، توحضورتاجدارختم نبوت ﷺنے دعامانگی : اے اللہ ! وہ ہم پرغالب نہ آئے ، اے اللہ !تیرے سواہماری کوئی قوت نہیں ہے ۔ اے اللہ ! اس جماعت کے سواس شہر میں تیری کوئی بھی عباد ت نہیں کرے گا، تواللہ تعالی نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی اورمسلمان تیراندازوں کاایک گروہ اکٹھاہوااوروہ پہاڑ پر چڑھ گئے اورانہوںنے مشرک گھڑسواروں پرتیربرسائے یہاںتک کہ انہیں شکست دی ، پس اس لئے اللہ تعالی کافرمان عالی شان ہے {وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ}یعنی احدکے بعد تم ہی دشمن پر غالب رہوگے ، پس اس کے بعد انہوںنے کوئی لشکرنہیں بھیجامگرہر اس جنگ میں کامیابی اورکامرانی نصیب ہوئی جو حضورتاجدارختم نبوت ﷺ کے عہد مبارک میں ہوتی تھی ، اورہر اس جنگ میں جو حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے بعدہوئی اور اس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں کوئی ایک بھی کسی جنگ میں چلے گئے تواللہ تعالی نے ا ن کوفتح ونصرت عطافرمائی اوریہ تمام شہرحضورتاجدارختم نبوت ﷺکے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ مبارکہ میں فتح ہوئے اورپھرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دنیاسے جانے کے بعد اس طرح کوئی شہرفتح نہیں ہواجس طرح وہ اس وقت میں فتح کیاکرتے تھے ، اس آیت کریمہ میں اس امت کی فضیلت کابیان ہے کیونکہ انہیں اللہ تعالی نے اس لفظ کے ساتھ خطاب فرمایاجس لفظ کے ساتھ اس نے انبیاء کرام علیہم السلام کے ساتھ خطاب فرمایاکیونکہ حضرت سیدناموسی علیہ السلام کو فرمایا: {إِنَّکَ أَنْتَ الْأَعْلی }( یقیناتم ہی غالب رہوگے )اوراس امت کوفرمایا:{وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ}اوریہ لفظ اللہ تعالی کے اسماء گرامی{ الاعلی }سے مشتق ہے ، پس اس کی ذات پاک اوربلندہے اورمومنین کے لئے {وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ}فرمایا۔
(تفسیر القرطبی:أبو عبد اللہ محمد بن أحمد بن أبی بکر بن فرح الأنصاری الخزرجی شمس الدین القرطبی (۴:۲۱۷)

احدکے بعد اللہ تعالی نے فتوحات کی بشارت عطافرمائی

وَلا تَہِنُوا وَلا تَحْزَنُوا کَأَنَّہُ قَالَ إِذَا بَحَثْتُمْ عَنْ أَحْوَالِ الْقُرُونِ الْمَاضِیَۃِ عَلِمْتُمْ أَنَّ أَہْلَ الْبَاطِلِ وَإِنِ اتَّفَقَتْ لَہُمُ الصَّوْلَۃُ، لَکِنْ کَانَ مَآلُ الْأَمْرِ إِلَی الضَّعْفِ وَالْفُتُورِ،وَصَارَتْ دَوْلَۃُ أَہْلِ الْحَقِّ عَالِیَۃً، وَصَوْلَۃُ أَہْلِ الْبَاطِلِ مُنْدَرِسَۃً، فَلَا یَنْبَغِی أَنْ تَصِیرَ صَوْلَۃُ الْکُفَّارِ عَلَیْکُمْ یَوْمَ أُحُدٍ سَبَبًا لِضَعْفِ قَلْبِکُمْ وَلِجُبْنِکُمْ وَعَجْزِکُمْ، بَلْ یَجِبُ أَنْ یَقْوَی قَلْبُکُمْ فَإِنَّ الِاسْتِعْلَاء َ سَیَحْصُلُ لَکُمْ وَالْقُوَّۃُ وَالدَّوْلَۃُ رَاجِعَۃٌ إِلَیْکُمْ ثُمَّ نَقُولُ قَوْلُہُ: وَلا تَہِنُوا أَیْ لَا تَضْعُفُوا عَنِ الْجِہَادِ، وَالْوَہْنُ الضَّعْفُ۔
ترجمہ :امام فخرالدین الرازی المتوفی : ۶۰۶ھ) رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے فرمایا: جب تم نے سابقہ قوموں کے احوال پرغورکرلیاتوتمھیں یقین ہوگیاکہ اہل باطل اگرچہ خوب دبدبہ پالیں لیکن ان کے معاملے کاانجام کار، کمزوری اورختم اوراہل حق کی حکومت کاغلبہ ہوجاتاہے اوراہل باطل کے دبدبے مٹ جاتے ہیں توکفارکادبدبہ احدکے دن تمھارے دلوں کے ضعف اورکمزوری کاسبب نہ بنے بلکہ تمھارے دلوں کو لازماً وہ تقویت دے کیونکہ عنقریب تمھیں ہی غلبہ حاصل ہونے والاہے اورقوت وحکومت تمھارے ہاتھوں میں ہوگی ۔ {وَلا تَہِنُوا}جہاد سے کمزوری نہ دکھائو، وہن کامعنی ہے کمزوری ۔
(التفسیر الکبیر:أبو عبد اللہ محمد بن عمر بن الحسن بن الحسین التیمی الرازی (۹:۳۷۱)

وہن کاذکرحدیث شریف میں

عَنْ ثَوْبَانَ مَوْلَی رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:یُوشِکُ أَنْ تَدَاعَی عَلَیْکُمُ الْأُمَمُ مِنْ کُلِّ أُفُقٍ کَمَا تَدَاعَی الْأَکَلَۃُ عَلَی قَصْعَتِہَا قَالَ:قُلْنَا:یَا رَسُولَ اللَّہِ، أَمِنْ قِلَّۃٍ بِنَا یَوْمَئِذٍ؟ قَالَ:أَنْتُمْ یَوْمَئِذٍ کَثِیرٌ،وَلَکِنْ تَکُونُونَ غُثَاء ً کَغُثَاء ِ السَّیْلِ، تُنْتَزَعُ الْمَہَابَۃُ مِنْ قُلُوبِ عَدُوِّکُمْ، وَیَجْعَلُ فِی قُلُوبِکُمُ الْوَہْنَ قَالَ:قُلْنَا:وَمَا الْوَہْنُ؟ قَالَ:حُبُّ الْحَیَاۃِ وَکَرَاہِیَۃُ الْمَوْتِ۔
ترجمہ :حضرت سیدناثوبان رضی اللہ عنہ جو کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺکے غلام ہیں ، فرماتے ہیں کہ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا: اے مسلمانو!ایک وقت آئے گا کہ دنیا کی قومیں تم پر ایک دوسرے کو ایسے دعوت دیں گی جیسے دعوت کا اہتمام کرنے والا کوئی شخص دستر خوان کے چنے جانے کے بعد مہمانوں سے کہتا ہے کہ آیئے تشریف لایئے کھانا تناول فرمایئے!اس پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے حیران ہو کر پوچھا کہ{ مِنْ قِلَّۃٍ نَحْنَ یَوْمَئِذ}ٍ؟ یارسول اللہ ﷺ!کیا اس زمانے میں ہماری تعداد بہت کم رہ جائے گی؟ حضورتاجدارختم نبوت ﷺنے فرمایا:نہیں!{بَلْ اَنْتُمْ یَوْمَئِذٍ کَثِیْرٌ }تعداد تو تمہاری بہت ہو گی لیکن تمہاری حیثیت جھاگ سے زیادہ نہ ہو گی کہ جیسے کسی جگہ اگر سیلاب آ جائے تو سیلاب میں پانی کے ریلے کے اوپر کچھ جھاڑ جھنکار ہوتا ہے کچھ جھاگ ہوتا ہے {وَلٰــکِنَّکُمْ غُثَاء ٌ کَغْثَاء ِ السَّیْلِ} اس سے زائد تمہاری حیثیت نہیں ہو گی دنیا میں تمہاری اہمیت اس سے بڑھ کر نہ رہے گی ۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پھر سوال کیا کہ یارسول اللہ ﷺ!ایسا کیوں ہو جائے گا؟ آپﷺ نے فرمایا:تمہارے اندر ایک بیماری پیدا ہو جائے گی جس کا نام وہن ہے سوال کیا گیا:یَا رَسُوْلَ اللہ ﷺ! وہ وہن کیا ہے؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا:{حُبُّ الدُّنْیَا وَکَرَاھِیَۃُ الْمَوْتِ} دنیا کی محبت اور موت سے نفرت یہ بیماری جب تم میں پیدا ہو جائے گی جب دنیا تمہاری محبت کا مرکز بن جائے گی اور موت سے تم دور بھاگنے لگو گے تو بہت بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود تم اقوامِ عالم کے لیے لقمہ تر بن جائو گے لیکن ظاہر بات ہے کہ کوئی اپنی درازی عمر کے باعث اللہ کی پکڑ سے بہرحال بچ نہیں سکے گا اسے بالآخر اپنے ربّ کی طرف لوٹنا ہی ہو گا اور وہاں اس کا حساب چکا دیا جائے گا۔
(مسند الإمام أحمد بن حنبل:أبو عبد اللہ أحمد بن محمد بن حنبل بن ہلال بن أسد الشیبانی (۷:۲۳۳)

وہن کاایک ہی علاج ہے

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللہِ:أَنّ رَجُلًا مِنْ بَنِی مُحَارِبٍ، یُقَالُ لَہُ غَوْرَثُ قَالَ لِقَوْمِہِ مِنْ غَطَفَانَ وَمُحَارِبٍ أَلَا أَقْتُلُ لَکُمْ مُحَمّدًا؟ قَالُوا:بَلَی، وَکَیْفَ تَقْتُلُہُ؟ قَالَ أَفْتِکُ بِہِ قَالَ فَأَقْبَلَ إلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہُوَ جَالِسٌ وَسَیْفُ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی حِجْرِہِ فَقَالَ یَا مُحَمّدُ أَنْظُرُ إلَی سَیْفِک ہَذَا؟ قَالَ نَعَمْ – وَکَانَ مُحَلّی بِفِضّۃِ فِیمَا قَالَ ابْنُ ہِشَامٍ قَالَ فَأَخَذَہُ فَاسْتَلّہُ ثُمّ جَعَلَ یَہُزّہُ وَیَہُمّ فَیَکْبِتُہُ اللہُ ثُمّ قَالَ یَا مُحَمّدُ أَمَا تَخَافُنِی؟ قَالَ لَا،وَلَا أَخَافُ مِنْک؟قَالَ أَمَا تَخَافُنِی وَفِی یَدِی السّیْفُ قَالَ لَا،یَمْنَعُنِی اللہُ مِنْک ثُمّ عَمَدَ إلَی سَیْفِ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَرَدّہُ عَلَیْہِ قَالَ فَأَنْزَلَ اللہُ (یَا أَیّہَا الّذِینَ آمَنُوا اذْکُرُوا نِعْمَتَ اللہِ عَلَیْکُمْ إِذْ ہَمّ قَوْمٌ أَنْ یَبْسُطُوا إِلَیْکُمْ أَیْدِیَہُمْ فَکَفّ أَیْدِیَہُمْ عَنْکُمْ وَاتّقُوا اللہَ وَعَلَی اللہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُونَ) (الْمَائِدَۃ:۱۱)
ترجمہ :حضرت سیدناجابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بنومحارب کاایک آدمی تھاجس کانام غورث بن حارث تھا، اس نے اپنی قوم سے کہا: کیامیں تمھارے لئے محمد(ﷺ) کو قتل کردوں؟ انہوں نے پوچھاکہ توکیسے قتل کرے گا؟ تو اس نے جواب دیاکہ میں ان پر غفلت کے وقت حملہ کردونگا۔ وہ حضورتاجدارختم نبوتﷺکی طرف آیا، جبکہ آپ ﷺتشریف فرماتھے اورتلوار آپ ﷺکی گود مبارکہ میں تھی ،اوراس نے عرض کی: اے محمد(ﷺ) کیامیں آپ(ﷺ) کی تلوارکودیکھ سکتاہوں؟ فرمایا: ہاں ۔ اس نے تلوارلے لی ، اسے سونتااوراسے لہرانے لگااورحملہ کاارادہ کرنے لگا، اللہ تعالی نے اسے ذلیل ورسواکیا، کہنے لگا: اے محمد(ﷺ) !کیاآپ ڈرتے نہیں جبکہ میرے ہاتھ میں تلوارہے ؟ پھراس نے وہ تلوارحضورتاجدارختم نبوت ﷺکوواپس کردی تواللہ تعالی نے سورۃ المائدہ کی آیت نمبرگیارہ کو نازل فرمایا۔ملخصا
(الروض الأنف:أبو القاسم عبد الرحمن بن عبد اللہ بن أحمد السہیلی (۶:۱۷۸)

معارف ومسائل

(۱)اس سے پہلی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ پچھلی امتوں کے احوال پر غور کرو سو جب تم گزری ہوئی امتوں کے احوال پر غور کرو گے تو تمہیں معلوم ہوگا کہ بعض اوقات باطل قوتوں کو وقتی طور پر غلبہ حاصل ہوجاتا ہے لیکن انجام کار وہ مغلوب ہوجاتے ہیں اور حق پرست غالب آجاتے ہیں۔ اس لیے اگر جنگ احد میں وقتی طور پر کفار مکہ کو غلبہ حاصل ہوگیا ہے تو تم اس سے چنداں پریشان نہ ہو اور گھبرائو مت بالآخر تم ہی کو غلبہ ہوگا وہن کے معنی کمزوری ہیں اور اس آیت کا معنی ہے اور تم جہاد کرنے سے کمزوری نہ دکھائو اور ہمت نہ ہارو۔

مسلمانوں کے اعلی اور غالب ہونے کے معنی :اللہ تعالیٰ نے فرمایا :اگر تم کامل مومن ہو تو تم ہی غالب رہو گے اس آیت میں غلبہ سے مراد غلبہ ہے یا دلیل اور برہان کا غلبہ ہے یا مرتبہ کا غلبہ ہے یعنی اگر تم ایمان کامل پر قائم رہے اور اجتماعی طور پر اللہ تعالیٰ اور نبی کریم (ﷺ)کی اطاعت کرتے رہے تو کفار کے خلاف معرکہ آرائیوں میں تم ہی فتح یاب اور کامران ہوگے جیسا کہ جنگ احد کے بعد کی جنگوں میں مسلمان عہد رسالت میں مسلسل کامیابیاں حاصل کرتے رہے۔ پھر عہد صحابہ میں بھی مسلمان کفار کے خلاف جنگوں میں کامیاب ہوتے رہے حتی کہ بنو امیہ کے دور میں تین براعظموں میں مسلمانوں کی حکومت پہنچ چکی تھی۔ لیکن بعد میں جب مسلمان تن آسانی تعیش باہمی لڑائیوں اور طوائف الملوکی کا شکار ہوئے اور ایمان کامل پر قائم رہنے کا معیار برقرار نہ رکھ سکے تو ان کو پھر اسی شکست وریخت کا سامنا کرنا پڑا جس کا اس سے پہلے جنگ احد میں سامنا کرچکے تھے اور اس کا دوسرا معنی ہے دلیل اور برہان کا غلبہ یعنی اگرچہ مادی اعتبار سے مسلمان کسی زمانہ میں مغلوب ہوجائیں جیسا کہ اب ہیں اور کفار غالب ہوں تب بھی مسلمانوں کا دین کفار کے باطل دینوں کے مقابلہ میں دلیل اور برہان کے اعتبار سے غالب ہے اور دین اسلام کا ہر اصول معقولیت کے لحاظ سے کفار کے اصولوں سے برتر ہے۔ آج دنیا کے کافروں میں زیادہ عیسائی ہیں۔ پھر دہرئیے ہیں اور پھر بت پرست ہیں۔ اس کے مقابلہ میں مسلمانوں کا خدائے واحد کا عقیدہ ان تمام عقائد پر دلیل کے اعتبار سے غالب ہے کیونکہ بتوں کا مستحق عبادت نہ ہونا بدیہی ہے اور مطلقا کسی پیدا کرنے والے کا نہ ہونا بھی بداہۃ باطل ہے اور تین خدائوں کا ہونا بھی باطل ہے کیونکہ حضرت عیسیٰ اور روح القدس دونوں مخلوق ہیں اور مخلوق خدا نہیں ہوسکتی یہودیوں اور عیسائیوں کے نبیوں کے معجزات اب دنیا میں موجود نہیں ہیں اور مسلمانوں کے نبی کریم ﷺ کا معجزہ اب بھی موجود ہے یہود و نصاری کی کتاب کی اصل زبان تک باقی نہیں رہی اور ان کی کتاب میں ردوبدل ہوگیا جب کہ مسلمانوں کے نبیﷺ کی کتاب من وعن اسی طرح موجود ہے اور ان شاء اللہ قیامت تک موجود رہے گی اسی طرح عبادات کے طریقوں، سیاست ،معاشرت اور زندگی کے باقی شعبوں میں مسلمانوں کے دین کے اصول باقی تمام ادیان سے افضل اور اعلی ہیں اور پھر مسلمانوں کے اعلی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مسلمانوں کا درجہ سب سے اعلی ہے اگر کسی جنگ میں مسلمان مغلوب ہوجائیں اور کافر غالب ہوں تب بھی اللہ تعالیٰ کے نزدیک مسلمان اعلی ہیں۔
(۲)یہودیوں نے جنگ کا ایک بزدلانہ طریقہ نکالا دیواروں کے پیچھے سے لڑنا اب دنیا کے کئی ممالک نے یہ طریقہ اپنا لیا ہے آگے ٹینک اور بکتر پیچھے اس کی اوٹ میں فوجی جہاد کے دوران مجاہدین پر جو آزمائشیں اور مصیبتیں آتی ہیں وہ خوفناک ٹینکوں کی طرح ہوتی ہیں اور ان ٹینکوں کے پیچھے شیطان چھپا ہوتا ہے بس جیسے ہی مجاہد پر کوئی آزمائش آئی مثلاً وہ زخمی ہوا، معذور ہوا، گرفتار ہوا یا پسپا ہوا شیطان نے فوراً اس پر تین قاتل تیر پھینک دیئے
(۱) …وھن کا تیر(۲) …ضعف کا تیر(۳)… اِستکانت کا تیر
آزمائش کے وقت وھن کا حملہ ہوتا ہے بزدلی، کم ہمتی، بے دلی بس یار بھاگ جائو، جان بچاو ، گھر بنائو، بچے سنبھالودوسرا حملہ ضعف کا یعنی کمزوری کہ اب ہم نہیں لڑ سکتے اب ہمیں نہیں لڑنا چاہیے اور تیسرا حملہ استکانت کا یار بہت تکلیف دیکھ لی اب اپنے نظریہ میں لچک دکھائودشمنوں سے ہاتھ ملائوکافروں اور منافقوں سے اَمن کی اور صلح کی بھیک مانگو جو شیطان کے ان تیروں میں سے کسی تیر کا شکار ہو گیا وہ مارا گیا وہ عشق میں ناکام ہو گیا اس کی یاری جھوٹی نکلی اس کا جہاد کھوٹا نکلا مگر سوال یہ ہے کہ ان تیروں سے بچیں کیسے؟ فرمایا :وہ جو ہمارے تھے وہ ان تیروں سے بچ گئے انہوں نے میدانوں میں اپنے انبیاء علیہم السلام کے شہید ہونے کی خبر سنی اللہ، اللہ اس سے بڑا غم اور صدمہ اور کیا ہو سکتا ہے؟ اس سے زیادہ بے ہمت اور بے حوصلہ کرنے والی اور کیا چیز ہو سکتی ہے؟ مگر وہ ڈٹے رہے کیوں؟ اس لئے کہ انہوں نے شیطانی تیروں کا فوری دفاع اور علاج کر لیا۔(فتح الجواد)

Leave a Reply

%d bloggers like this: